حضرت عثمان کا دور
مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ جب عمر مدفون ہوئے،تو میں حضرت علی کے پاس آیا۔آپ غسل کر کے اس طرح کی پوشاک پہنے ہوئے تھے، لگتا تھا، انہیں یقین ہے، کہ وہ خلیفہ بنائے جائیں گے۔ حضرت عمر نے کوئی جانشین مقرر نہیں کیا تھا، البتہ ایک مجلس شوریٰ بنا دی تھی۔جس کو کہا گیا تھا، کہ ان کی وفات کے تین دن تک کوئی نئے خلیفہ کا کثرت رائے سے فیصلہ کرلیں۔طبری لکھتا ہے۔ کہ حضرت عمر نے حضرت صہیب سے کہا، جب علی، عثمان، زبیر، عبدالرحمان، طلحہ، سعد، اکٹھے ہو جائیں، تم ان کے سر پر کھڑے ہو جانا، اگر پانچ متفق ہوں، اور ایک اختلاف کرے، تم اس کا سر تلوار سے پاش پاش کر دینا۔ اوراگر چار متفق ہوں، تو باقی دونوں کی گردنیں اڑا دینا۔ اگر تین متفق ہوں،تو عبداللہ بن عمر کو ثالث بنانا۔ اور جو متفقہ فیصلے سے انحراف کرے، ان کو قتل کرا دینا۔
اسلامی طرزِ انتخاب
آج کل اسلامی احیاء پسند، خلافت راشدہ کے ابتدائی دور کو آج کے مروجہ جمہوری نظام کے مماثل قرار دیتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ’اسلامی جمہوریت‘ میں اپوزیشن کی کوئی گنجائش نہ تھی، پہلے خلیفہ کے وقت بھی زبردستی بیعت کروائی گئی تھی،اسلام میں کسی سیاسی نظام کا کوئی خاکہ نہیں۔ وہ قبائلی معاشرت کے لوگ تھے، امیر کے چننے کیلئے بیعت کا طریقہ قبل اسلام سے تھا۔ بعد از اسلام بھی کسی نے خلافت کا استحقاق، تقویٰ اور نیکی کی بنیاد پر نہیں مانگا، بلکہ رسول سے قرابت، یا قبائلی برتری کی بنیاد پر جتایا گیا۔ حضرت عمر کی وفات کے چوتھے روز نماز فجر کے وقت انصار و مہاجرین اور امراء لشکر اکٹھے ہوئے۔ وہاں ایک دوسرے کے خلاف تلخ کلامی شروع ہو گئی، بنو امیہ اور بنو ہاشم کے درمیاں تکرار ہونے لگی، قرابت داری کی بنیاد پر ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے لگے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف نے حضرت عثمان کے ہاتھ بیعت کر لی، جو کہ حضرت عثمان کے رشتے دار تھے۔ حضرت علی نے اس پر اعتراض کیا، تو عبدالرحمان نے فرمایا، علی تم مخالفانہ حیل و حجت نہ کرو، میں نے غور و فکر سے فیصلہ کیا ہے۔ تمام روایات اس پر شاہد ہیں کہ جانشینی کا فیصلہ خوشگوار ماحول میں نہیں ہوا تھا، اور مبینہ طور پر علی یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ “اس اجتماع کے بعد تلواریں بے نیام ہونگی، اور امانت میں خیانت ہوگی”۔ حضرت عمر نے جو مجلس شوری مقرر کی تھی، اس میں کوئی انصاری صحابی شامل نہیں تھا۔حضرت عثمان کا تعلق بنو امیہ سے تھا۔ اسلام قبائلی عصبیت کا خاتمہ کرنے میں میں کامیاب نہ ہو سکا۔
حضرت عثمان کا طرزِ خلافت
حضرت عثمان نے خلیفہ بنتے ہی مقربین کو مقرر کردہ وظائف کے علاوہ ان کیلئے انعام و اکرام جاری کر دیئے۔ حضرت زبیر کو چھ لاکھ اور حضرت طلحہ کو دو لاکھ درہم دیئے۔ اور وہ قرض بھی معاف کر دیئے، جو انہوں نے حضرت عثمان سے لئے تھے۔ حضرت عمر نے قریش کے لوگوں پر پابندی لگائی ہوئی تھی کہ مدینے سے باہر اسلامی مفتوحہ علاقوں میں نہیں جا سکتے، انہیں خدشہ تھا صحابہ کرام ان کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا نہ کر دیں۔ حضرت عمر کا خیال تھا حضور اکرم کی ساتھ قرابتداری کے لحاظ سے ان کے جو وظیفے مقرر ہیں، وہ ان کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ لیکن حضرت عثمان نے نقل و حرکت کی پابندی ہٹا لی اور قریش قبیلے کے لوگ نئی سلطنت کی وسعتوں میں پھیل گئے۔
اب ان صحابہ کرام نے اپنے پیسے کو تجارت میں لگا کر اسے مزید دوگنا کر نا شروع کر دیا، یعنی مدینے میں بھی امراء کا ایک نیا طبقہ تشکیل پانے لگا جسے قریش ارسٹو کریسی (Aristocracy)کہہ سکتے ہیں۔ ان صحابہ کرام نے پیغمبر اسلام کے ساتھ اپنی قبائلی قرابت داری کا خوب استعمال کیا اور مختلف شہروں میں بڑی بڑی ملکیتیں اور جائدادیں بنا لیں۔ لوگ بھی اس لالچ میں ان کے قریب ہو گئے کہ آئندہ یہ خلیفہ بھی بن سکتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر دنیاوی متاع کے طلب گار تھے، ثواب و آخرت کے کم۔
حضرت عثمان کے دور میں مصر اور شمالی افریقہ کے علاقوں پر چڑھائی کی گئی اور ان کو فتح کر لیا گیا۔ حضرت عثمان نے کوفہ میں بنو امیہ کے دباؤ کے تحت سعد بن ابی وقاص کو معزول کیا اور ولید بن عقبہ کو یمنی قبائل کی مخالفت کی وجہ سے گورنری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یعنی کوفہ شہر کا طرز زندگی قبائلی نہیں تھا، وہاں اسلامی اتحاد نام کی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ کوفہ میں ان بنیادوں پر فتنہ و فساد ابھرنے شروع ہو گئے کہ مفتوحہ علاقوں کی زمینوں اور دولت پر کن کا قبضہ ہونا چاہئے؟ مقامی اور فاتحین کے درمیان کیا تعلقات ہونے چاہئیں؟
حضرت عمر نے مفتوحہ علاقوں کی زمینوں پر عربوں کے قبضہ کی مخالفت کی تھی۔ وہ مقامی لوگوں کے پاس چھوڑ دی تھی تاکہ ان کی آمدنی خراج کی صورت میں بیت المال میں جمع ہو کر عام مسلمانوں کے کام آتی رہے۔ لیکن حضرت عثمان نے اہل حجاز اور عام عربوں کو مفتوحہ علاقوں میں جا کر زمینیں خریدنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حجاز کے کئی صحابہ کرام بڑی بڑی منقولہ اور غیر منقولہ املاک کے مالک بن گئے۔ انہوں نے سر سبز و شاداب او ر زرخیز زمینیں خرید لیں۔ جس سے عراق اور دوسرے علاقوں میں بڑی بڑی جاگیریں وجود میں آگئیں۔ جبکہ دوسری طرف غلام، مزدور اور موالی طبقات میں اضافہ ہو گیا۔ عرب معاشرہ کچھ اس طرح کے طبقات میں تقسیم ہو گیا۔ فاتح عرب، مفتوح عجمی، قریش سرمایہ دار اور جاگیر دار، کھیت مزدور اور چھوٹے مالکان اراضی۔ بے زمین عرب بدو اور شہروں کا چھوٹا درمیانہ طبقہ۔
زراندوزی کے مسئلے پر ہی حضرت ابو زر غفاری کا شام کے گورنر معاویہ سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے دولت مند وں کے خلاف اور غریبوں کی حمایت میں تقریر کی۔ جس پر معاویہ نے حضرت عثمان کو لکھا کہ ابو ذر غفاری میرے لئے مشکلا ت پیدا کر رہا ہے۔ خلیفہ عثمان نے جواب میں لکھ بھیجا کہ ابو ذر غفاری کے ساتھ نرمی برتو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔۔حضرت ابو ذر کی حضرت عثمان کے ساتھ دولت کی بے جا تقسیم پر کئی بار تلخ کلامی ہوتی رہی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے، کہ عہد عثمانی میں اسلامی مملکت میں طبقاتی تضاد کس قدر شدید ہو گیا تھا۔ حضرت عثمان پر کنبہ پروری کے الزامات عائد ہوتے رہے۔
حقیقتاً اسی دور میں سنتِ رسول اور عترتِ رسول کو بنیاد بنا کر امت مسلمہ دو فریقوں میں بٹنے لگی تھی۔ اہل سنت و جماعت کے علماء حبِ اہل بیت کے معاملے کو ایک یہودی نو مسلم عبداللہ بن سبا کی گھڑی سازش قرار دیتے ہیں۔ وہ بصرے اور کوفے میں جاکر تقریریں اور پروپیگنڈا کرتا تھا کہ اے مسلمانو! تمہارے درمیان آلِ رسول موجود ہے اور تم ان کو خلیفہ نہیں بناتے۔ ڈاکٹر طہ حسین ابن سبا کی اس داستان کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔
حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ان کے پاس ایک لاکھ دینار اور دس لاکھ درہم تھے۔ کئی جاگیریں تھی، بے شمار اونٹ اور گھوڑے تھے۔ زبیر نے ترکے میں پچاس ہزار دینار، ایک ہزار گھوڑے اور ہزار لونڈیاں چھوڑیں تھی۔ طلحہ کی عراق سے غلہ کی تجارت سے یومیہ آمدنی ایک ہزار دینار تھی۔ عبدالرحمان کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے، ہزار اونٹ، دس ہزار بکریاں، چوراسی ہزار دینار موجود تھے۔ زید بن ثابت نے ایک لاکھ دینار کی جاگیر کے علاوہ سونے چاندی کی اینٹیں چھوڑیں۔ ان کے بصرہ، کوفہ، اسکندریہ، مصر میں بڑے بڑے مکانات تھے۔
یہ تھی صحابہ کرام پر مشتمل وہ حکمران اشرافیہ، جو ابتداء میں دولت سے نفرت کرتے تھے، وہی مال و زر جمع کرنے کے شوقین ہو گئے۔ مساوات محمدی کی ساری مثالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اور ان پر انسانی فطرت و جبلت غالب آ گئی۔ اس طرح کے واقعات بھی ہوئے کہ خمس بیت المال میں جمع کرانے کے بجائے اسے خرد برد کر دیا گیا۔ اور رشتے داروں کو جی بھر کر مال و زر جمع کرنے کا موقع دیا گیا۔ اپنے لوگوں میں بلا استحقاق زمینیں الاٹ کی جاتی رہیں۔ قبائلی معیشت و معاشرت کا جاگیرداری معیشت و معاشرت میں ڈھلنا ایک تاریخی عمل تھا۔ فتوحات، خونریزی، اور استبدادیت تاریخی عمل کے لازمی اجزاء تھے۔ ان کے کردار میں دین اسلام کا نہ کوئی رول ملتا ہے، نہ کوئی عمل دخل۔ اسلام کی “مثالی اقدار” جو آج لوگوں کو سنائی جاتی ہیں، خیالوں کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی۔
مشاجراتِ صحابہ
حضرت عثمان کا قتل اور حضرت علی و دیگر صحابہ سے مناقشہ کے بارے میں جب ہم تاریخ اسلام پڑھتے ہیں، تو صحابہ کرام کے درمیان ایسے افسوسناک واقعات اور ایک دوسرے کے بارے میں کہے گئے ایسے کلمات ملتے ہیں،جن کے بارے میں عام مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتے۔ صحابۂ کرام میں باہمی نفاق کی یہ حالت تھی، تو عام مسلمانوں کے رویوں میں کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ حضرت علی، حضرت عثمان پر کنبہ پروری کا الزام لگاتے رہے۔ اور عثمان سمجھتے تھے کہ حضرت علی مفسدین کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان کا موقف تھا کہ ان سے پہلے کے دو بزرگوں (ابو بکر اور عمر) نے بنظرِ احتساب اپنے قرابت داروں کو فائدے نہ پہنچائے۔ “حالانکہ رسول اللہ اپنے قرابت داروں کا خیال رکھا کرتے تھے اور ان کی مدد کیا کرتے تھے”۔ عبداللہ بن مسعود ایک صحابی تھے، وہ بھی حضرت عثمان کی طرز حکومت پر سخت نقطہ چینی کرتے تھے۔ ایک دن جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے، تو عثمان منبر رسول پر خطبہ دے رہے تھے۔تو حضرت عثمان نے کہا، ’’ لوگو! تمھارے پاس ایک چھوٹا سا رینگنے والا جانور آیا ہے۔ حضرت عائشہ نے آواز دی، اے عثمان! آپ رسول اللہ کے مصاحب کو ایسا کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عثمان کے کہنے پر عبداللہ بن مسعود کو نہ صرف زبردستی مسجد سے نکال دیا گیا، بلکہ زدو کوب بھی کیاگیا جس سے ان کی پسلی ٹوٹ گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت علی کھڑے ہوگے، اور عثمان کی اس حرکت پر ملامت کی۔
اسی طرح ایک بار حضرت عمار بن یاسر نے حضرت عثمان کی اقرباء پر وری پر مذمت کی۔ جب انہوں نے بیت المال سے ایک ہیرا نکال کر اپنے خاندان میں سے کسی کو دے دیا۔ حضرت عثمان نے اسے اتنا پیٹا، کہ وہ بے ہوش ہوگئے۔ لوگ انہیں اٹھا کر امّ المومنین امّ سلمہ کے گھر لے آئے۔ایک اور موقعے پر بھی حضرت عثمان نے حضرت عمار کو گالیاں دیں، لاتیں ماریں جب کہ وہ بوڑھے اور ضعیف تھے۔
امیر معاویہ سات سال تک شام، لبنان، فلسطین کے حکمران ہونے کی وجہ سے طاقتور اور ایک کامیاب حکمران تھا اور ان میں خود خلیفہ بننے کی خواہش پیدا ہو جانا فطری تھی۔ معاویہ بہت اچھا منتظم تھا۔ اس نے نظم و ضبط بھی اچھی طرح قائم کر رکھا تھا۔
شہادت حضرت عثمان
حضرت عثمان کا انجام یوں ہوا کہ کچھ مصری بلوائی حضرت عثمان کی خلافت کے خلاف مدینے میں آگئے، انہوں نے حضرت علی، طلحہ، اور زبیر کی مدد چاہی، لیکن انہوں نے بلوائیوں کی عثمان کے خلاف کسی حرکت کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن بلوائیوں نے مدینے کی گلیوں میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا اور خیمہ زن ہوگئے۔ حضرت عثمان نے مختلف شہروں میں امداد کے لئے خطوط بھیجے۔ اور منبر پر چڑھ کر مصری باغیوں کے خلاف سخت زبان میں تقریر کی۔ اس پر دو طرفہ ہنگامہ بڑھ گیا، لوگوں نے ایک دوسرے پر پتھر مارنے شروع کر دیئے۔ حضرت عثمان بھی سنگباری کی زد میں آگئے اور وہ بے ہوش کر منبر سے گر پڑے۔ ان کا محاصرہ چالیس دن برقرار رہا۔ اس دوران قتل و غارت بھی ہوتا رہا۔بنو امیہ نے حضرت علی پر الزام لگایا کہ سب کچھ اس نے کروایا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ مصری بلوائی واپس چلے گئے تھے کہ راستے میں انہوں نے حضرت عثمان کے ایک جاسوس کو پکڑ لیا، جس پاس ایک خط تھا، جس میں مصر کے حاکم کو لکھا تھا، کہ وہ مصر پہنچنے پر ان بلوائیوں کو قتل کر دے۔ چنانچہ مذکورہ بلوائی غصہ کے مارے پھر مدینہ واپس حضرت عثمان کے پاس آگئے، حضرت عثمان نے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی خط نہیں لکھا۔ میرے خلاف دو مسلمان گواہ لے کر آو۔ بحث و تکرار چلتا رہا۔ حضرت عثمان نے کہا کہ “اگر میں تمھاری مرضی کے مطابق کام اور تقرریاں کروں، تو میری حثیت باقی نہیں رہے گی”۔ حضرت عثمان نے دستبردار ہونے سے بھی انکار کر دیا۔
واقعہ کے مطابق محمد بن ابو بکر تیرہ افراد کے ساتھ حضرت عثمان کے گھر گھسے۔ محمد بن ابوبکر نے عثمان کی داڑھی پکڑ لی اور کہنے لگے معاویہ نے تم کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ حضرت عثمان نے کہا اے میرے بھتیجے! میری داڑھی چھوڑ دے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے دیکھا انہوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا، جو بھالا لے کر گیا اور ان کا سر پھوڑ ڈالا، اور پھر سب لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو قتل کر دیا۔ “حضرت عثمان کی زوجہ نائلہ درمیان میں حائل ہوئیں، لیکن سودان کی تلوار سے ان کی انگلیاں نصف ہتھیلی کے ساتھ کٹ کر دور جا گریں اور پھر اس نے ایک اور وار کر کے خلیفہ کی گردن تن سے جدا کر دی۔ اس کے بعد بلوائیوں نے گھر کا سارا مال و متاع لوٹ لیا، اور مدینہ میں ان کے قتل کا اعلان کر دیا۔ باغیوں نے قتل کرنے کے بعد ان کو دفنانے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔ بڑی مشکل سے رات کو چھپ کر چند لوگوں نے حضرت عثمان کو دفنایا تھا۔حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ بائیس روز رہا اور وہ 2 مئی 656ء کو قتل ہوئے۔
یہ ہے، وہ اسلام کا سیاسی نظام اور مدینے کی ریاست جسے آج کی مسلمان نسلوں کو سنہرے دور کے طور پر پیش کرکے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ان مولویوں سے جب پوچھیں گے، تو وہ کسی ایک فرد یا کچھ افراد پر الزام دھر دیں گے۔ حالانکہ ان واقعات میں کسی طرح کا بھی کوئی اخلاقی معیار، چھوٹے بڑے کی تمیز، کوئی تہذیب کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ اور یہ سب وہ لوگ تھے، جو پیغمبر اسلام کی صحبت میں رہ چکے تھے اور ان سے تربیت پا چکے تھے۔