Close

ارتقاء کے مخالفین کی علمی مصداقیت – ہارون یحیی بطور نمونہ

یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے کہ جن تخلیقیوں کی ویب سائٹس سے انٹیلی جینٹ ڈیزائن اور نظریہ تخلیق کے حامی عام مسکین تخلیقیے اپنے موقف کی تائید کے لیے اقتباسات کاپی کر کر کے پیش کرتے ہیں جھوٹی ہوتی ہیں، یہ ویب سائٹس ارتقاء کے خلاف انشائی تقریری مضامین لکھ کر ان میں نامور علماء کے اقتباسات اس طرح سے موڑ توڑ کر پیش کرتی ہیں گویا یہ ان کے اعترافات ہوں تاکہ نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کیا جاسکے.. بعض اوقات ان ویب سائٹس کی جعل سازی اس قدر بھونڈی ہوتی ہے کہ بھانڈا پھوٹنے کے باوجود بھی یہ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش تک نہیں کرتے جو ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے.. اس کی ایک بڑی مثال عدنان اوکطار کی ویب سائٹ ہے..

تاہم کروڑوں کا سوال یہ ہے کہ عدنان اوکطار المعروف ہارون یحیی اور اس جیسے دیگر مذہب پرست تخلیقیوں کی علمی حیثیت اور مصداقیت کیا ہے؟

ذرا سی گوگلنگ کرنے پر پتہ چلا کہ صاحب در حقیقت جامعہ میمار سنان سے فنون لطیفہ میں فارغ التحصیل ہیں.. اب بھلا حیاتیات اور ارتقاء کا فنونِ لطیفہ سے کیا تعلق؟ ہوسکتا ہے تخلیقیوں کی نظر میں ہو کہ یہ چاہیں تو مٹی کو بھی سونا ثابت کر سکتے ہیں.. 😀

بہرحال مزید تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ صاحب 1986 میں 10 ماہ تک پاگل خانے میں رہ چکے ہیں..!! 1991 میں انہیں کوکین رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور طبی جانچ سے ان کے خون میں نشے کی کثیر مقدار پائی گئی، 1999 میں انہیں کئی سکینڈلوں کے تحت گرفتار کیا گیا جن میں دھمکیاں، جرائم پیشہ تنظیم کا قیام اور ترکی ماڈل ابرو سمسک Ebru Simsek کو ہراساں کرنا شامل ہے کیونکہ اس نے عدنان اوکطار کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے سے انکار کردیا تھا، ترکی کی عدالتوں میں یہ کیس دو سال تک چلتے رہے جس کے دوران زیادہ تر مدعیان نے دھمکیاں ملنے پر اپنے کیس واپس لے لیے اور یوں تخلیقیوں اور اسلام کے یہ ہیرو جیل سے آزاد ہوئے جبکہ اس کی تنظیم کے دیگر دو ساتھوں کو ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی.. 2008 میں ترکی کے daily Cumhuriyet اخبار نے بتایا کہ عدنان اوکطار نے اپنی تنظیم کی خواتین ارکان کو امیر گھروں کے نوجوان سائنسدانوں کو جنس کی لالچ دے کر کچھ خصوصی محفلوں میں شرکت کرنے پر اکسایا، اخبار کے مطابق ایک خاتون کو زبردستی سولہ مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا، ان جنسی تعلقات کی فلمیں بنا کر عدنان اوکطار کے حوالے کی گئیں جنہیں تنظیم چھوڑنے کے خواہش مندوں کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جرم ثابت ہونے پر عدالت نے اسی سال عدنان اوکطار اور اس کے دیگر 17 ساتھیوں کو تین سال قید کی سزا سنائی، عدنان اوکطار کی ذاتی سیکریٹری سے جب ان سب حرکتوں کے پیچھے کارفرما فلسفے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: "جنسي تعلقات قائم كرنا”. (حوالہ 12)

اسلامی تخلیقیوں کا یہ فرشتہ صفت اور پاکباز نجات دہندہ اپنی کتاب "اطلسِ تخلیق” (Atlas of Creation) کو اپنی زندگی کی بہترین کتاب قرار دیتا ہے، اس کتاب میں اس نے بزعم خود یہ ثابت کردیا ہے کہ متحجرات یعنی فوسلز نظریہ تخلیق کی تائید کرتے ہیں کیونکہ یہ ان جاندار انواع سے بالکل مماثل ہیں جو اب زندہ ہیں، صاحب نے یہ کتاب ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر سکولوں، تحقیقی اداروں اور یورپی وامریکی جامعات کو مفت میں "زبردستی” ارسال کی اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کرایا، 2007 میں یہ کتاب فرانس میں اس بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی کہ فرانسیسی وزارتِ تعلیم کو ایک بیان جاری کرنا پڑا جس میں کہا گیا کہ ہماری تعلیم ارتقاء پر مبنی ہے اور اس کتاب کی ہمارے ہاں کوئی جگہ نہیں.

یونیورسٹی آف مینی سوٹا موریس میں حیاتیات کے پروفیسر مائرز اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں:

"The general pattern of the book is repetitious and predictable: the book shows a picture of a fossil and a photo of a living animal, and declares that they haven’t changed a bit, therefore evolution is false. Over and over. It gets old fast, and it’s usually wrong (they have changed!) and the photography, while lovely, is entirely stolen”

"کتاب کا عمومی انداز حسبِ توقع اور تکراری ہے: کتاب ایک متحجرہ اور ایک زندہ جانور کی تصویر دکھا کر یہ فیصلہ کردیتی ہے کہ یہ ذرا بھی تبدیل نہیں ہوا چنانچہ ارتقاء غلط ہے، اس بات کو اتنا دہرایا جاتا ہے کہ بوریت ہونے لگتی ہے، جو کہ عموماً غلط ہے (وہ تبدیل ہوئے ہیں!) جبکہ وہ خوبصورت تصاویر مکمل طور پر چوری شدہ ہیں.”

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کتاب میں جتنی بھی تصویریں ہیں ساری کی ساری انٹرنیٹ سے اٹھائی گئی ہیں خاص طور سے گراہم اون کی ویب سائٹ پر خصوصی شبِ خون مارا گیا ہے.. 😀

آکسفرڈ یونیورسٹی میں ارتقائی حیات اور ایتھالوجی کے پروفیسر رچرڈ ڈاکنز نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں جانداروں کی غلط زمرہ بندی کی گئی ہے اور مصنف کو سمندری سانپ اور برقی بام مچھلی میں فرق تک کا نہیں پتہ.. 😀

پروفیسر ہومر جیکبسن ایک 84 سالہ امریکی کیمیاء دان اور محقق ہیں جو بروکلین کالج نیویارک میں کیمیاء کے پروفیسر رہے ہیں اور اب بیس سال سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، 2007 میں پروفیسر جیکبسن نے امریکن سائنٹسٹ میگزین کے چیف ایڈیٹر کو ایک خط لکھا اور 52 سال پہلے شائع ہونے والے اپنے ایک تحقیقی مقالے کے کچھ حصے واپس لینے کا مطالبہ کیا.. مگر کیوں؟

ہوا یہ کہ 1955 میں پروفیسر جیکبسن نے ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا: Information, Reproduction and the Origin of Life اس مقالے میں انہوں نے اربوں سال پہلے زمین پر امائنو ایسڈ کی خودکار افزائش پر بحث کی، امائنو ایسڈ پروٹینز کی بنیاد ہوتے ہیں اور اس طرح یہ زندگی کی بھی بنیاد ہیں، پروفیسر جیکبسن کا یہ مقالہ سٹینلی ملر کے مشہور تجربے جو 1953 میں کیا گیا تھا کے دو سال بعد شائع ہوا جس میں ملر بجلی کو پانی اور غیر نامیاتی مواد میں کیمیائی تعامل کے لیے توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نہ صرف امائنو ایسڈ بلکہ دیگر نامیاتی اجسام بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا، پروفیسر جیکبسن سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملر کے تجربے میں توانائی کے مصدر کو نظر انداز کردیا اور کہا کہ ابتدائی زمین کے سمندروں میں امائنو ایسڈ کی خودکار تشکیل ناممکن ہے.. اس وقت کسی نے بھی اس مقالے پر توجہ نہیں دی بلکہ خود پروفیسر جیکبسن بھی اسے بھول گئے تھے مگر ایک اتفاق نے انہیں اس کی یاد دلا دی جب انہوں نے اپنا نام گوگل میں ڈال کر سرچ کیا اور 52 سال بعد انہیں اپنی غلطی پر پچھتانا پڑا..

گوگل کے پہلے دس نتائج میں ذیل کے روابط شامل تھے:

http://www.darwinismrefuted.com
http://www.evolution-facts.org

یہ ویب سائٹس تخلیقیوں کی ہیں جو نظریہ ارتقاء کو غلط قرار دیتی ہیں، DarwinismRefuted.com نامی ویب سائٹ نے جو عدنان اوکطار کی ملکیت ہے پروفیسر جیکبسن کے اُس مقالے کا ایک اقتباس نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کرنے کے لیے ان کے اعتراف کے طور پر پیش کیا کہ زندگی کے لیے درکار اجزاء خودکار طور پر پیدا نہیں ہوسکتے:

"Directions for the reproduction of plans, for energy and the extraction of parts from the current environment, for the growth sequence, and for the effector mechanism translating instructions into growth-all had to be simultaneously present at that moment [when life began]. This combination of events has seemed an incredibly unlikely happenstance”

اپنے کام کو ارتقاء کے خلاف استعمال ہوتے ہوئے دیکھ کر انہیں شدید صدمہ پہنچا مگر یہ تو صرف آغاز تھا، جب انہوں نے اپنے اصل مقالے سے رجوع کیا تو انہیں پتہ چلا کہ ہارون یحیی کے صفحہ پر ان کی بات کا جو اقتباس درج ہے اسے موڑ توڑ کر پیش کیا گیا ہے، جب انہوں نے علم کے نام پر یہ جعلسازی دیکھی تو اپنے مقالے کا وہ حصہ واپس لینے کا فیصلہ کیا اور سائنٹفک امریکن کے ایڈیٹر کو خط لکھ کر اعتراف کیا کہ انہوں نے جو لکھا تھا وہ غلط تھا چنانچہ 1955 میں لکھے گئے ان کے مقالے کے وہ غلط حصے منسوخ کردیے جائیں، علمی حلقوں نے پروفیسر جیکبسن کے اس اقدام کی تعریف کی.. آخر حقیقی عالم اور جعلی عالم میں کوئی تو فرق ہے..!؟

پروفیسر جیکبسن کے مقالے کے اقتباسات اب بھی ہارون یحیی کی ان دونوں ویب سائٹس پر ذیل کے صفحات پر موجود ہیں:

http://www.darwinismrefuted.com/20questions01.html
http://www.harunyahya.com/de/kollaps02.php

اور چونکہ اردو کی سب سے بڑی علمی جعلسازی پر مبنی ویب سائٹ قرآنک سائنس کا ارتقاء کے خلاف لکھا گیا یہ مضمون – جیسا کہ مضمون کے آخر میں حوالہ دیا گیا ہے – ہارون یحیی کی ویب سائٹ سے استفادہ کر کے لکھا گیا ہے لہذا یہ جعلسازی یہاں بھی موجود ہے بلکہ مضحکہ خیز حد تک جاتے ہوئے نہ صرف پروفیسر جیکبسن کو کیمیاء (chemistry) کی بجائے خرد حیاتیات (Microbiology) کا ماہر قرار دیا گیا ہے اور ان کے بیان کی گردن مزید مروڑتے ہوئے اس میں خدائی مداخلت بھی داخل کردی ہے بلکہ انتہائی بھونڈے طریقے سے پروفیسر جیکبسن کے بیان کو نوبل انعام یافتہ علماء جیمس واٹسن اور فرانسس کریک کی ڈی این اے کی ساخت کی دریافت کے پس منظر سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے:

"خرد حیاتیات (Microbiology) کے امریکی ماہر جیکب سن اس کیفیت پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں : ’’نسل خیزی، دستیاب ماحول سے توانائی اور (درکار) اجزاء کا حصول، سلسلوں کی افزائش، اور احکامات کو افزائش میں بدلنے والے اثر پذیر نظام کے لئے ساری اور مکمل ہدایات کو اُس وقت (جب زندگی کی ابتداء ہوئی) ایک ساتھ موجود ہونا چاہئے تھا۔ ان واقعات کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا اس قدر ناممکن ہے کہ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے، اور اکثر کسی خدائی مداخلت کا مرہونِ منت ہی سمجھا جاسکتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا عبارت، ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے صرف دو سال بعد تحریر کی گئی تھی”

یہ تھی عدنان اوکطار المعروف ہارون یحیی کی علمی اور اخلاقی حیثیت جس سے ارتقاء کے خلاف لکھے گئے اس کے اور اس جیسے دیگر تخلیقیوں کے انشائی مضامین اور کتابوں کی تحقیقی اور علمی مصداقیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.

32 Comments

  1. میں نے چند سال پہلے عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یحیی ہارون کی ایک کتاب خریدی اور اسے پڑھ کر شدید مایوسی ہوئ۔ تکرار واقعی بات کا وزن ختم کر دیتی ہے۔ بہر حال آپ نے یہ مضمون لکھ کر اچھا کیا۔ میں بھِ سوچ رہی تھی اس پہ کچھ لکھنا چاہئیے لیکن اتنا تفصیلی نہ لکھ پاتی۔
    بالکل سمجھ نہیں آتا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ کیوں ارتقاء کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    1. امینو ایسڈز پہ مجھے یاد آیا کہ ابھی کچھ عرصے پہلے رپورٹ آئ تھی کہ سائنسدان لیبارٹری میں بیکٹیرئل کروموسومز کو تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ محض سو سال پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ پروٹین اور دیگر اجزاء جو کہ حیاتیاتی تخلیق کے لئے ضروری ہیں مصنوعی طور پہ یعنی زندہ اشیاء کی مدد کے بغیر نہیں بنائے جا سکتے لیکن پہلا امینو ایسڈ پچاس کی دہائ میں سامنے آگیا اور اب زندگی کے لئے ضروری تقریباً تمام امینو ایسڈز لیب میں تیار کئے جا سکتے ہیں۔حوالہ دیکھئیے۔
      http://www.jcvi.org/cms/research/projects/synthetic-bacterial-genome/press-release/

  2. ایسی شخصیتوں پر احمق لوگوں کا صدقے واری ہوئے جانا کونسا تعجب ہے، ویسے کل یعنی بروز اتوار 11 مارچ 2012 کو یہاں ہمارے شہر کے پیلیس گراؤنڈ میں احمق لوگوں کا جلسہ بڑے زوروں پر منعقد ہونے جا رہا ہے (جو ہمیشہ زوردار جلسے و جلوسوں کیلئے مشہور ہیں) جس کے مہمان خصوصی اور احمقوں کے سردار جناب طاہر القادری کچھ دنوں قبل ہی پاکستان سے یہاں تشریف لاچکے ہیں. اب دیکھنا ہے کہ ڈھول باجے، پٹاخے اور نعروں کی گونج سے اطراف کی مصروف ترین سڑکیں جام ہوجائیں گی.
    ان صاحب کا ایک ویڈیو مجھے یوٹیوب سے ملا جسے میں نے کل ہی اپنے بلاگ پر انکو ویلکم کرنے کی نیت سے لگا رکھا ہے.
    (نوٹ: میں نے آنجناب کو احمقوں کے سردار کا لقب یوٹیوب پر انکی کچھ خاص ویڈیوز دیکھ کر لگایا ہے)
    http://www.shuaibday.blogspot.in/

      1. فیض پاچکے، اب دوسروں تک فیض پہنچائیں یہ ثواب جاریہ ہے 🙁 یعنی آنجناب کی شخصیت پر سے پردہ ہٹاکر انکے کردار پر کوئی خاص مضمون پوسٹ کریں کیونکہ میرا خیال ہے آپ انکی شخصیت کے بارے خوب جانتے ہی ہونگے. (میں تو انکے بارے پہلی بار سنا ہے اور بہت خوب سنا ہے، یار دوستوں کو انکے ویڈیوز دکھایا تو سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے)

    1. علمائے خلاف ارتقاء اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ مرد کے یک خلوی اسپرم اور عورت کے یک خلوی اووم کاملنا ایک انسان کی پیداءیش کا باعث بن جاتا ہے. اور یک خلوی مخلوقات سے جنم لینے والا اتنا عقل مند ہو جاتا ہے کہ اس بات پہ بھث کرتا ہے کہ انسان مٹی سے ہی براہ راست بنا ہے.

      1. علمائے خلاف ارتقاء کو سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ تو سیدھا سیدھا خدا تک بات لے جاتے ہیں ، اس قسم کے ثبوت علمائے سائنس ہی سے مانگے جاتے ہیں
        ویسے ایک اور سوال بھی ذہن میں‌آرہا ہے ، کہ ہر جاندار یا اکثر کے نومولود پیدا ہوتے ہی یا تھوڑی دیر میں ہی چلنے پھرنے لگتے ہیں‌، جبکہ انسان اس معاملے میں‌کئی مہینوں‌تک مجبور ہوتا ہے کہ کوئی اس کی دیکھ بھال کرے . اس معاملے میں‌بھی بیکٹیریائی عقل کام کر گئی ہوگی کہ انسان تو کافی سمجھدار ہوچکا ہے وہ اپنی اولاد کی اچھی طرح‌دیکھ بھال کرسکے گا اس لئے اس نے نومولود کو اپنے والدین یا معاشرے کے ذمداری میں دے دیا۔ پہلے تو پیدا ہوتے ہی انسان پھدکنا شروع ہوجاتا تھا 🙁

        1. جی ہاں علمائے خلاف ارتقاء اسی آسانی کی وجہ سے تو مذہب کی شکل بگاڑ دیتے ہیں کہ جب اسپون فیڈنگ میسر ہے تو ہم کیوں ہاتھ پیر ہلائیں۔ اگر دوسرے انسان مار مار کر نومود کو چلنے پھرنے پہ مجبور نہ کریں تو وہ رینگنے کو ترجیح دے۔ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔
          اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے، یہ سوال آپکے ذہن میں پیدا کیوں ہو گئے۔ جبکہ آپکے عقیدے کے مطابق انسانی دماغ اس کام کے لئے ہے ہی نہیں۔ برا مت مانیں، جب سب کچھ خدا کر رہا ہے تو اسی کو یہ سوال بھی کرنے دیں آپ کیوں اسکے دفاع پہ آگئے۔
          یہ بات تو سمجھ آ گئ ناں کہ یک خلوی جاندار سے کثیر خلوی جاندار کیسے بنتے ہیں۔ باقی کے لئے بھِی کوشش کرتے رہیں مایوسی کفر ہے۔

          🙂

        2. ارے ہاں ، کینگرو، بلی، چوہے، شیر وغیرہ کو تو آپ بھول ہی گئے جو پیدائش کے وقت اندھے ہوتے ہیں. کینگرو کا بچہ تو کئ مہینوں بعد پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں آچکا ہے ماں کے پیٹ کے ساتھ جڑی تھیلی میں گم رہتا ہے. کیا اس لئے کہ انکے والدین انہیں دیکھنا سکھائیں گے؟ کیا یہ ادا انہوں نے انسان سے سیکھی ہے؟

          1. کیا اس سے آپ غور نہیں‌کرتیں کہ ہر ایک چیز کتنے اندازے سے تیار کی گئی ہے ، کہ انسان کا کمزور بچہ تو والدین یا معاشرے کی نگرانی میں‌پلتا ہے ،اور کینگرو کے کمزور بچے کیلئے تھیلی بنا دی گئی ، اگر یہ بیکٹیریائی عقل ہے تو کمال کی عقل ہے .
            ویسے اگر انسان کے بچے کا کسی سے موازنہ کرنا ہے تو اس کے قریب ترین خاندان (علمائے ارتقاء کی نظر میں ) بندروں‌یا اسی جیسی کسی نسل سے کرنا چاہیے.
            لیکن اس قسم کی عقل علمائے ارتقاء استمال کرنا پسند نہیں‌کرتے 🙂

  3. Arguments against the Theory of Evolution

    The previous section outlined some of the proofs that are presented for the theory of evolution. We will now consider briefly a few of the arguments against the theory.

    1. The theory of evolution is usually described as fact, and many people see it like this due to a moulding of public opinion. Yet the trouble is that it is simply a theory. And like many theories it is wont to constantly chop and change. Indeed we can see on numerous occasions how it has changed over time and undergone revisions. For example, according to Darwin himself, "If it could be demonstrated that any complex organ existed, which could not possibly have been formed by numerous, successive, slight modifications, my theory would absolutely break down”.

    Another example is the proposition of a slightly different model in recent times. Called "punctuated equilibrium”, this model rejects the Darwinist idea of a cumulative, step-by-step evolution and holds that evolution took place instead in big, discontinuous "jumps”. This is because those who ascribe to it believe the fossil record does not support gradual evolution. Sadly for the proponents, Niles Eldredge and Stephen Gould (American palaeontologists) their own theory is bankrupt – since for one thing, it conflicts with the understanding that genes cannot undergo radical mutations.

    2. The sources of proof given for the theory essentially rely on retro-fitting the supposed evidence to the theory i.e. the theory states evolution occurred from a common ancestor, and then study of fossils and homologies is used to indicate that indeed the theory is correct and evolution does occur. But equally we could state there is a creator who created the amazing diversity of life and also the similarities between species – in fact this is more plausible. Thus fossils and homologies would just as much, if not more, support this ‘theory’ of a Creator.

    3. Fossils are a record of what may have existed. They do not indicate anything more than this. By examining a fossil we could equally state that the organism was created as opposed to evolving from an ancestor. The fossil record is also very much incomplete – there are massive, gaping holes. This presents a staggering problem for proponents of the Theory. The somewhat weak argument is that the bulk of the fossil record may have been destroyed or is yet to be discovered. According to Neville George, a professor of Palaeontology at Glasgow University:

    “There is no need to apologise any longer for the poverty of the fossil record. In some ways, it has become almost unmanageably rich and discovery is outpacing integration…” Yet he goes on to say, “The fossil record nevertheless continues to be composed mainly of gaps”.

    Contrary to what evolutionists claim, there are only limited (if any) transitional forms. Importantly, for example, we don’t see transitional forms that show the alleged evolution of apes to humans [and to try and explain the many loopholes regarding this, there is a current debate among evolutionists themselves about whether it occurred in steps or smoothly which we alluded to earlier i.e. punctuated equilibrium]. The fossil record back then (and still today) is nearly totally void of transitional species. If species are continually mutating, never constant, why do we find several of the same, certain prehistoric creatures, but never any that appear to be in transition? Why do palaeontologists find lots of dinosaurs but never where dinosaurs come from, nor what they turned into?

    In Darwin’s own words, ‘Why, if species have descended by insensibly fine gradations, do we not everywhere see innumerable transitional forms? Why is not all nature in confusion instead of species being, as we see them, well defined?’ It is an excellent question, which he answers himself, ‘I can give no satisfactory answer.’

    Indeed British evolutionist Derek Ager admits, “The point emerges that if we examine the fossil record in detail, whether at the level of orders or of species, we find – over and over again – not gradual evolution, but the sudden explosion of one group at the expense of another”.

    Yet another problem in using the fossil record as evidence for evolution is that under closer examination, it appears to be a proof for exactly the opposite argument – i.e. creation. For example, one of the oldest strata of the earth in which fossils of living creatures have been found is that of the Cambrian, which has an estimated age of 500-550 million years. The living creatures found in the strata belonging to the Cambrian period seemed to emerge all of a sudden in the fossil record – there appeared to be no ancestors, although in relatively recent times palaeontologists believe fossils have been found dating from the preceding Vendian (or Ediacaran) period. The fossils found in the Cambrian rocks belonged to snails, trilobites, sponges, earthworms, jellyfish, sea hedgehogs, and other complex invertebrates. This wide mosaic of living organisms made up of such a great number of complex creatures emerged so suddenly that this miraculous event is referred to as the "Cambrian Explosion” in geological literature.

    “A half-billion years ago, the remarkably complex forms of animals we see today suddenly appeared. This moment, right at the start of Earth’s Cambrian Period, some 550 million years ago, marks the evolutionary explosion that filled the seas with the world’s first complex creatures. The large animal phyla of today were present already in the early Cambrian and they were as distinct from each other as they are today”.

    And one of the most vociferous advocates for atheism and evolution in today’s age, Richard Dawkins, comments “the Cambrian strata of rocks, vintage about 600 million years, are the oldest ones in which we find most of the major invertebrate groups. And we find many of them already in an advanced state of evolution, the very first time they appear. It is as though they were just planted there, without any evolutionary history. Needless to say, this appearance of sudden planting has delighted creationists”.

    4. The basic mechanism for gene variation is mutation. And it is known that mutations are random and limited in their scope. We should note that what is not a point of debate here is the fact that genes undergo mutation; neither is there a point of conflict with the various biological processes within organisms. For example, we know that insects can build up resistance against forms of pesticide over time – in fact, in the same manner humans have long believed that taking poison in small quantities can help survive what would normally be a fatal dose. These observations do not really constitute evolution. However, even if we agreed to define these particular cases as examples of microevolution, the fact is that they can be explained by what we have come to know through scientific study and resulting conclusions. The argument for a Creator also accepts scientific facts and conclusions – it no more denies the laws of biology being created, than it denies the laws of physics being put in place by the Creator. Hence, change within the framework of the laws of biology is possible – and there is sufficient evidence for this. The main problem however is with macroevolution. To even begin to consider macroevolution, mutations would need to be dramatic – trying to get round this, it is claimed that there has been sufficient time for many small scale mutations to eventually yield the different species we see. But frankly this isn’t plausible – we have seen no evidence to support such a claim – and so this is again nothing more than a pure hypothesis.

    In addition, there are many other problems with the mutation argument. If mutations occur, they actually cause harmful effects and not beneficial ones. We can witness the effects of mutations caused in humans following radiation poisoning at Hiroshima, Nagasaki and Chernobyl – that is, a litany of death, disability and illness.

    According to the evolutionist scientist Warren Weavers commenting in the report prepared by the Committee on Genetic Effects of Atomic Radiation, which had been formed to investigate mutations that may have been caused by the nuclear weapons used in the Second World War:
    “Many will be puzzled about the statement that practically all known mutant genes are harmful. For mutations are necessary parts of the process of evolution. How can good effects – evolution to higher forms of life – results from mutations practically all of which are harmful?”

    Similarly, another scientist B.G. Ranganathan states in his book ‘Origins?’ that “Mutations are small, random, and harmful. They rarely occur and the best possibility is that they will be ineffectual. These four characteristics of mutations imply that mutations cannot lead to an evolutionary development. A random change in a highly specialised organism is either ineffectual or harmful. A random change in a watch cannot improve the watch. It will most probably harm it or at best be ineffectual. An earthquake does not improve the city, it brings destruction”.

    Finally, mutations do not actually add any new information to an organisms DNA. During a mutation, the genetic information is either destroyed or rearranged, but since there is no new information, it is impossible for mutations to cause a new trait or organ within a living organism.

    5. Artificial selection (breeding) and sexual selection do produce new combinations but these are limited in their scope. They are restricted to a finite set of possible gene combinations. So breeding cannot introduce a radically new species – it simply gives a result based on the limited pool of combined genes. It cannot give a result outside of this. E.g. Horse plus donkey gives a mule. Or an African married to a Caucasian can result in off spring described as half-cast. The latter cannot produce a human whose skin colour is red or purple, etc.

    6. The odds are heavily stacked against evolution. Evolution cannot answer where the first cell came from. The best guess is that came about through a random coincidence. Fred Hoyle, a well-known English mathematician and astronomer, and someone who believes in evolution, made the analogy that the chances of the first cell forming in this manner were comparable with the chance that a tornado sweeping through a junkyard might assemble a Boeing 747 from the materials present. And according to Professor of Applied Mathematics and astronomy from University College (Cardiff, Wales), Chandra Wickramasinghe:

    “The likelihood of the spontaneous formation of life from inanimate matter is one to a number with 40,000 noughts after it… It is big enough to bury Darwin and the whole theory of evolution. There was no primeval soup, neither on this planet nor on any other, and if the beginnings of life were not random, they must therefore have been the product of purposeful intelligence”. In other words the random formation of such a first cell is an impossibility.

    But still let’s assume we suddenly have a cell. The first cell would then have to self-reproduce otherwise there would only ever be one cell. This becomes problematic for evolutionists so they suggest self-replication – i.e. the first cell has the ability to clone itself. However, organic matter can only self reproduces if it exists as a fully developed cell with existing support structures such as the particular environment and energy. This then requires more leaps of faith – so let’s make another assumption, this time that the cell does have a complex structure and the ability to reproduce. But, for evolution, mutation needs to happen. So firstly, since mutation is random, even given an absolute age, mutation might not occur. And secondly, mutation can only take place if the cell is forced to repair itself or if it makes a copy of itself. Thus, for a handful of cells, to copy and mutate successfully and form different cells and for this process to continue onwards to produce the complexity of life we see is something, which cannot happen. Leaving aside time, and the random nature of mutation, just the series of mutations necessary to produce even the simplest of species are impossible.

    7. There is no actual hard evidence for the process of evolution itself. We don’t witness evolution. All that experiments (such as the one involving guppies) or observations in the field (such as the house sparrows example) demonstrate is a form of selection. But this is not real evolution – the fact that a population may change due to various factors (such as environment, predators, etc) or that it may become extinct is not a change from one species to another. So even if we can see natural selection of sorts, this is based on rational factors, and is not evolution.

    8. Evolution cannot answer why only the human species has the clear faculty of intelligence, thought and reasoning that has allowed it to progress. It cannot explain the existence of emotions, except through an undefined notion such as chemicals within the body. And it is unable to offer any satisfactory explanation for issues such as the existence of the soul – indeed according to evolutionary theory, there cannot be a soul, rather life itself must be caused by the functioning of cells since after all everything has evolved from a single cell.

    9. Adaptation is mentioned as a feature of evolution. That is, the manner in which organisms have evolved beneficial characteristics adapted to their environment, which help them survive. So one example we gave earlier was that of stick insects, where their body itself is a form of camouflage protecting them against predators. However, evolutionists themselves state that mutation is random and can lead to beneficial as well as harmful results. The environment cannot influence the occurrence or form of any mutation. So in this case, the evolutionary argument would have to be that today’s stick insects evolved from ancestors, which did randomly mutate to have this beneficial characteristic of camouflage. Those within the population that didn’t inherit this mutation would have died out due to their inability to survive. But once again, claiming that a series of mutations occurred, that lead to stick insects possessing characteristics that are suited to their environment, is nothing but conjecture. As before, we could equally state that a Creator has created various species and organisms of life with these inherent varying characteristics. So, organisms were in fact created with characteristics that we interpret as beneficial to them, instead of these traits evolving through time. Thus, the fact that many organisms seem well matched to their environments cannot be cited as any kind of proof or indication of evolution.

    10. Let’s take a look at another argument that shows the fallacy of evolution. Many organisms and parts of organisms do not appear to have evolved from lesser things because they are ‘irreducibly complex’ life forms. Irreducible complexity is a concept that has been developed to describe something that is made of interacting parts that all work together. To understand this, take the example of a mousetrap. A mousetrap cannot be assembled through gradual improvement. You cannot start with a wooden base, catching a few mice, then add a hammer, and catch more, then add a spring, improving it further. To even begin catching mice one must assemble all the components completely with design and intent. Furthermore, if one of these parts changes or evolves independently, the entire thing will stop working. The mousetrap, for instance, will become useless if even one part malfunctions.

    Likewise, many biological structures are irreducibly complex. Bats are a well-known example. They are said to have evolved from a small rodent whose front toes became wings. This presents a multitude of problems. As the front toes grow skin between them, the creature has limbs that are too long to run, or even walk well, yet too short to help it fly. There is no plausible way that a bat wing can evolve from a rodent’s front toes. In fact, the fossil record supports this, because the first time bats are seen in the fossil record, they have completely developed wings and are virtually identical to modern bats.

    Consider another example, that of the eye. Suppose that before animals had sight, one species decided it would be advantageous to be able to decrypt light rays. So, what is evolved first? The retina? The iris? The eye is made of many tiny parts, each totally useless without the others. The probability that a genetic mutation that would create each of these at the same time, in the same organism, is zero. If, however, one organism evolved just a retina, then the logic of Darwin suggests that the only solution is to rid oneself of useless traits replacing them with beneficial ones, so the idea of the eye evolving one segment at a time is also bogus.

    Conclusion

    In a time where the theory of evolution has been catapulted to the level of fact, it is useful for us to have a firm grasp of what this theory is, and with the emerging discussion gaining more and more profile (that between creationism on the one side and evolutionary thought on the other) it is vital that we are able to show the strength of the correct argument.

    One big problem of presenting the topic of evolution is finding a reasonable balance: on the one hand, simplifying and leaving out some of the terminology risks not being able to convey the subject matter accurately; on the other, by not revising and simplifying at all, there is a distinct possibility that only those with a solid understanding of biology and science will grasp what is being presented. This article has attempted to run through the basic mechanics of the theory, proofs that are presented for it and some of the arguments against evolution. Many points are too elaborate and wide ranging to touch upon in this discussion. In any event, there is an abundance of material available regarding the theory and surrounding issues that discuss these aspects in much more detail and is worth exploring for those that are interested in doing so. The theory is often cloaked in scientific language and complex terminology, and presented as a solid and viable explanation for the existence of life
    it has hopefully been shown that evolutionary understanding, far from being fact, is nothing more than speculation and hypothesis

      1. مجھ پر غلط اور جھوٹا الزام لگانے سے پرہیز کریں، یہ کاپی-پیسٹ میں نے نہیں کیا ہے، باقی رہا مباحثہ تو آپ کے اسی غیر مخلصانہ روئیے کی بنا پر خاموشی اختیار کرلی کہ دیوار سے سر پھوڑنے لاحاصل ہے.

        1. قبلہ یہ شعبدہ بازی بہت پرانی ہوگئی ہے، میرے پاس آپ کی اس حرکت کا ثبوت موجود ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے پیش بھی کر سکتا ہوں.. جہاں تک مباحثے کی بات ہے تو یہ حقیقت آپ جتنی جلدی تسلیم کر لیں گے آپ کی صحت کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا کہ آپ کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں اور بجائے صریح اعتراف کے میرے رویے کو مورد الزم ٹھہرا رہے ہیں، مباحث میں اخلاص نہیں دلیل سے بات کی جاتی ہے، میرا رویہ اگر خراب ہوتا تو آپ کے تبصرے یہاں شائع نہ ہو رہے ہوتے بشمول آپ کے ان اوچھے ہتکنڈوں کے جن پر ناکامی کے بعد اب آپ اتر آئے ہیں..

          1. آپ خوش رہیے اپنی احمقوں کی جنت میں، مجھ کو معاف رکھئیے، اگر مباحثہ کرنا ہے تو کھل کر صاف صاف بات کریں‌ورنہ یہ آپ کو بھی علم ہے کہ آپ کی طرح میں بھی ایک آزاد و خودمختار انسان ہوں، سو لکم دینکم ولی دین.

          2. آپ نے کہا کہ اوپر Dexter کا تبصرہ آپ نے نہیں کیا اور یہ آپ پر ایک جھوٹا اور غلط الزام ہے، جب میں نے ثبوت پیش کرنے کی بات کی تو بجائے اصرار کرنے کے آپ بات گول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں..

  4. یار کیا مشکل ہے؟ ثبوت پیش کرو اور سرخرو ہو جاؤ اپنے جھوٹے الزام میں، نا تو آپ خدا ہو اور نہ یہ قیامت کا میدان، جب میں نے کہہ دیا کہ میرا کام نہیں ہے تو آپ کو یقین نہیں کر رہے، اور اب مجھ کو اکسا رہے ہیں کہ میں بھاگ رہا ہوں، اگر مجھ کو یہ کام کرنا ہوتا تو کافی پہلے کرچکا ہوتا، اور اپنے ہی نام سے کرتا. آخر مجھ کو اپنے نام سے یہ کام کرنے میں کوئی مشکل تھوڑی نہ درپیش ہے.

      1. لو جی کرلو بات. آپ جیسے کمپیوٹر کی ماہر آدمی سے مجھ کو کم سے کم ایسی حماقت کی امید نہیں تھی، آپ محض ایک آئی پی کی بنا پر اتنا اچھل رہے تھے، جبکہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ آج کل آئی پی کا مخفی رکھنے اور ٹریک رکنے والوں کو گمراہ کرنے کے ایک سے ایک سافٹ وئیرمفت میں موجود ہیں، اوپر سے شاید آپ یہ بھول ہی گئے ہیں کہ ایک ہی کمپیوٹر کو کئی لوگ ایک ہی یا مختلف اوقات میں استعمال کرسکتے ہیں، جس سے انکے آئی پی ایک ہی ہونگے مگر شخصیات مختلف!
        سب سے بڑھ کر یہ آپ کا بلاگ ہے، تو اس پر آپ کو اختیار ہے کہ جو چاہیں پوسٹ کریں، میں یہ بھی تو کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے خود ہی سے یہ تصویریں بنا ڈالی ہیں، مجھ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے، اسکا کیا جواب دیں گے آپ؟

          1. اس میں گھٹیا پن کیا ہوا؟ آپ ہماری بات کا یقین تک نہ کریں ، اور ہم کو قسم کھانے کا کہیں، اور خود اتنے پارسا بن رہے ہیں کہ ایک اندیشہ، ایک گمان ، ایک سوال کہ میں یہ بھی تو کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے خود ہی سے یہ تصویریں بنا ڈالی ہیں، مجھ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے، اسکا کیا جواب دیں گے آپ؟ کا جب جواب نہیں بن پڑا تو میں گھٹیا بن گیا.
            جناب آپ کو میں نے صاحب عقل و علم و قلم تصور کرکے آپ کے بلاگ کی طرف آیا تھا، مگر آپ نے اپنے ہلکے پن کا مظاہرہ کرکے ہماری دوستی کی راہیں ہی مسدود کردیں. یقین جانیئے "ڈیکسٹر” بن کر میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، اور اگر آپ یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں تو میں قسم کھانے کو بھی تیار ہوں، مگر مجھ کو کتنی نفلوں کا ثواب حاصل ہوگا؟ ویسے بھی یہ کوئی زندگی یا موت کا مسئلہ تھوڑی نا ہے، جو آپ اتنی جذباتی ہو رہے ہیں.

          2. میں الحمداللہ مسلمان ہوں اور بلوچستان سے تعلق رکھتا ہوں، ہم مسلمان اور وہ بھی بلوچ جھوٹ بولنے کو سخت گناہ کا کام سمجھتے ہیں. اور میں اسی لیے نہایت صاف گوئی سے بتا رہا ہوں کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا تھا، آپ نے پہلے بھی شک کیا تھا اور منہ کی کھائی تھی اور اب پھر انشاء اللہ آپ کے ساتھ یہی ہونے والا ہے.

          3. قسم کھانے سے پہلو تہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تبصرہ آپ ہی نے کیا ہے، اب جبکہ آپ کو اصرار ہے کہ آپ نے یہ تبصرہ نہیں کیا تو میں ڈیسکٹر کی آئی پی بین کرنے والا ہوں.. مزے کریں..

          4. اور آپ اب تبصرہ کرنے کے قابل نہیں رہنے والے کیونکہ میں نے ڈیکسٹر کی آئی پی بین کردی ہے اور یہاں آنے پر آپ کو ٹھینگا نظر آئے گا کیونکہ ظاہر ہے آپ ہی ڈیسکٹر ہیں.. موج کریں.. 🙂

            اور ہاں.. اس بلاگ پر پراکسی سے تبصرہ نہیں کیا جاسکتا 😀

  5. لو جی کرلو بات. آپ جیسے کمپیوٹر کی ماہر آدمی سے مجھ کو کم سے کم ایسی حماقت کی امید نہیں تھی، آپ محض ایک آئی پی کی بنا پر اتنا اچھل رہے تھے، جبکہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ آج کل آئی پی کا مخفی رکھنے اور ٹریک رکنے والوں کو گمراہ کرنے کے ایک سے ایک سافٹ وئیرمفت میں موجود ہیں، اوپر سے شاید آپ یہ بھول ہی گئے ہیں کہ ایک ہی کمپیوٹر کو کئی لوگ ایک ہی یا مختلف اوقات میں استعمال کرسکتے ہیں، جس سے انکے آئی پی ایک ہی ہونگے مگر شخصیات مختلف!
    سب سے بڑھ کر یہ آپ کا بلاگ ہے، تو اس پر آپ کو اختیار ہے کہ جو چاہیں پوسٹ کریں، میں یہ بھی تو کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے خود ہی سے یہ تصویریں بنا ڈالی ہیں، مجھ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے، اسکا کیا جواب دیں گے آپ؟ جواب کا انتظار ہے.

  6. اینڈرسن شا صاحب اپنے یحیٓ ہارون صاحب کی علمی قابلیت کا پردہ چاک کرکے بڑا اچھا کام کیا ہے. ویسے انکا علمی جھوٹ انکی اپنی تحریروں سے واضح ہے لیکن انکی شخصیت کا بیان کرکے آپنے میرے ذہن میں پڑی گرہ کھول دی کہ ہارون صاحب کے سنکی پن کی وجہ دراصل وہی ہے جو انکے پاگل خانے جانے کا باعث بنی تھی.

  7. باقی سب تو ٹھیک ہے- عدنان اوکتار کے فوسلز اور اٹلس کو ماریں گولی- بٹ ہاو کُڈ یُو مِس ہِز ادر سائڈ – عدنان اوکتار تو بہت بڑا ٹھرکی ہے – آپ لوگ ذرا یو ٹیوب پر سرچ دیں adnan oktar maşallah inşallah اور خود ہی ملاحظہ فرمایئں- مثا ل کے طور پر http://www.youtube.com/watch?v=Ps811on_X70 کے ذرا ناظر بنیں – اور یہ http://www.youtube.com/watch?v=R3-yhhdqlWQ&list=PL3454290CC71F495D اور یہ تو ہِٹ ہے – مسٹ سی http://www.youtube.com/watch?v=87xhXqqB8tY ویری بگ کیٹ ، یو – کہنا یہ تھا کہ یہ جو پہلی تصویر میں جو بُرکا پوش خواتین ہیں، کچھ مناسب نہی ہیں-

  8. ہاروں یحیٰی ایک ‘پرانی زمین تخلیقیہ’ ہے۔پرانی زمین تخلیقیے یہ مانتے ہیں کہ زمین دس ہزار سال سے زیادہ پرانی تو ہے لیکن وہ ‘مشترک نسل یابی’ کےمنکر ہوتے ہیں۔اِس کے بر خلاف وہ زمین پر وقت کے گذرنے کے ساتھ مختلف مراحل پر راست الٰہیاتی دخل اندازی سے پودوں اور جانوروں کی نیی قسموں کے ایکدم سے ظاہر ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ فوسل ریکارڈ میں متعدد عبوری شکلوں کی موجودگی اور مشترک نسل یابی کے کثرت سے ملنے والے ثبوت ہمیں اِس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم پرانی زمین تخلیقیوں کے مذکورہ بالا عقیدے کو مسترد شدہ قرار دیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں کتاب
    Evolution’ by Mark Pallen, Rough Guides Ltd., London 2009, p299′

جواب دیں

32 Comments
scroll to top