الاتقان فی تدمیر القرآن – جمع القرآن
جب پیغمبر اسلام نے نبوت کا دعوی کیا تب حضرت کی عمر چالیس سال تھی جو تریسٹھ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئی، پیغمبر اسلام پر تئیس سال تک نام نہاد "وحی” کا نزول ہوتا رہا، یہ وحی مختلف مواقع پر نازل ہوتی جیسے اگر کوئی کسی مخصوص چیز کے بارے میں سوال کرتا کہ روح یا ہلال وغیرہ کیا ہے یا پھر کوئی مسئلہ درپیش آجاتا یا پھر اگر وہ کوئی سنت قائم کرنا چاہتے ہوں۔۔ یوں قرآن کا یہ "نزول” متفرق آیات کی صورت میں تھا جو کچھ مکہ میں نازل ہوئیں اور کچھ یثرب یا مدینہ میں۔۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں زید بن ثابت وحی کے مرکزی کاتب تھے، پیغمبر اسلام وقتاً فوقتاً اسے اپنی وحی سناتے اور وہ اسے دستیاب چمڑوں، ہڈیوں اور کھجور کے پتوں پر لکھتے، عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے بھی کچھ عرصہ تک وحی کی کتابت کی مگر وہ مرتد ہوگئے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام نہ صرف ان کے منہ سے ادا کئے ہوئے الفاظ کو وحی میں شامل کردیتے تھے بلکہ وحی کی کتابت کے دوران جب وہ پیغمبر اسلام کو کچھ تبدیلیاں تجویز کرتےتو پیغمبر اسلام مان جاتے، یوں عبد اللہ ابی سرح کو کہنا پڑا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تو وہ اس کی تبدیلیوں کی تجاویز کبھی نہ مانتے، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علی بن ابی طالب قرآن کو جمع کرتے اور اپنے مخصوص صحیفوں میں اسے لکھتے تھے تاہم پیغمبر اسلام نے کبھی بھی اپنی زندگی میں قرآن کی جمع وتدوین کا حکم نہیں دیا اور محض لوگوں کو یاد کروانے پر ہی اکتفاء کیا۔ پیغمبر کے انتقال کے بعد جمع قرآن کی ضرورت خود اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنی زندگی میں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے انتقال کے بعد جمع قرآن کی ضرورت پیش آئے گی، اگر انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا تو وہ یقیناً اپنی زندگی میں یہ قدم ضرور اٹھاتے، درحقیقت اس زمانے میں خصوصاً عربوں کے ہاں لکھ کر محفوظ کرنے کا رواج نیہں تھا اور عرب اپنا ثقافتی ورثہ یاد کر لیا کرتے تھے، اور اسی طرح یہ ورثہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا۔ اس لئے پیغمبر اسلام کو بھی یہی اندازہ تھا کہ عربوں کے ثقافتی ورثہ کی طرح قرآن بھی محض "حافظہ” کی بنیاد پر آئندہ نسلوں میں منتقل ہو جائے گا، لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ پیغمبر اسلام کا یہ "اعتماد” درست ثابت نہ ہوا، عربوں کے حالات تبدیل ہوگئے، اور ابوبکر کے زمانے سے ہی "جمعِ قرآن” کی ضرورت پیش آنا شروع ہوگئی۔
ابو بکر کی خلافت میں عمر نے ابو بکر کو قرآن کو جمع کر کے کتابی شکل دینے کی تجویز پیش کی کیونکہ پیغمبر اسلام کے ہمعصروں کی ایک بڑی تعداد جنہیں قرآن حفظ تھا مختلف جنگوں میں ہلاک ہوچکے تھے خاص طور سے مسیلمہ بن حبیب (جسے مسلمان نبوت کے بغض میں مسیلمہ کذاب کے نام سے یاد کرتے ہیں) کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں جسے "معرکۃ الیمامۃ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اب ظاہر ہے پیغمبر اسلام نے تو کبھی قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیا ہی نہیں تھا چنانچہ ابو بکر نے اس کی مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ ایسا کام کیوں کیا جائے جسے "اللہ کے رسول” نے اپنی زندگی میں بقلم خود نہ کیا؟ تاہم عمر کی ضد کے سامنے ابو بکر کو ہتھیار ڈالنے پڑے چنانچہ اس نے زید بن ثابت کو یہ بارِ ثقیل سونپا، زید سے منسوب ہے کہ اس نے کہا کہ مجھے ابو بکر نے بلا کر کہا کہ عمر نے مجھ پر زور دیا ہے کہ میں قرآن کو جمع کروں مگر مجھے اس پر اعتراض تھا کیونکہ رسول نے اسے اپنی زندگی میں جمع نہیں کیا اور اگر اس کو جمع کرنا ضروری اور اہم ہوتا تو وہ اس کو جمع کرنے کا حکم دیتے مگر چونکہ یمامہ کے واقعے میں نبی کے صحابہ کی ایک کثیر تعداد قتل ہوچکی ہے جن کے ساتھ ان کا حفظ کیا ہوا بھی ضائع ہوگیا ہے چنانچہ مجھ ڈر ہے کہ کہیں یہ سارا ہی ضائع نہ ہوجائے اس لیے میں نے عمر کی بات مان لی۔
ابو بکر نے قرآن کو جمع کرنے کی ذمہ داری کچھ حضرات کو سونپی جن کی سربراہی زید بن ثابت کر رہے تھے جو اس وقت اپنے عین شباب پر تھے، اور جیسا کہ اسلامی رواج ہے کہ ہر چیز میں اختلاف ہوتا ہے، سیرت کے مصنفین نے زید کی معاونت کرنے والے ان حضرات کے ناموں اور تعداد میں اختلاف کیا ہے، زید نے قرآن جمع کیا، اسے سورتوں کی شکل دی اور ابو بکر کے حوالے کردیا، ابو بکر دو سال حکومت کر کے اپنے خالقِ غیر حقیقی سے جا ملے، ان کے انتقال کے بعد زید بن ثابت کا جمع کیا ہوا قرآن نئے خلیفہ عمر بن خطاب کی تحویل میں چلا گیا اور ان کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی اور پیغمبر اسلام کی بیوہ حفصہ بنتِ عمر کی تحویل میں چلا گیا۔
تاہم قرآن کب جمع کیا گیا یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قرآن کو جمع کرنے کے حوالے سے سب سے پہلی تحریر ابن سعد کے طبقات میں 844ء عیسوی کو ملتی ہے، پھر 870ء عیسوی کو بخاری اور 874ء عیسوی کو مسلم میں، اور اگر ہم 632ء عیسوی کو پیغمبر اسلام کی وفات کو مدِ نظر رکھیں تو اس تاریخ کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے جو دو سو سال سے بھی زیادہ عرصے بعد احاطہء تحریر میں لائی گئی اور وہ بھی ساری کی ساری اسناد پر قائم ہے یعنی ایک اصغر نے اکبر سے سنی اور اکبر نے زید سے اور زید نے غفران سے اور یوں چلتے چلے جائیے۔۔ اب چونکہ اُس عرصے کی لکھی ہوئی کوئی تاریخ دستیاب نہیں چنانچہ اسناد پر انحصار قاری کو مطمئن نہیں کرپاتا۔
اس میں بھی شک نہیں کہ اچھی اور صحیح سند سے پیغمبر اسلام سے منسوب جعلی احادیث کی کمی نہیں۔ صحیح بخاری (وفات 238 ہجری) جیسی حدیث کی مشہور کتابوں پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے کیونکہ اس میں شامل احادیث بھی بخاری نے پیغمبر اسلام کی وفات کے دو سو سال بعد جمع کی تھیں، معروف مستشرق گولڈزیہرGoldziher کہتا ہے کہ کسی بھی حدیث کو ایسی صحیح حدیث قرار نہیں دیا جاسکتا جو پیغمبر اسلام نے کہی ہو کیونکہ عباسی خلافت کے دور میں حدیث کی انڈسٹری اپنے عروج پر تھی جس کے خلفاء نے امویوں سے اقتدار چھیننے کو جواز دینے کے لیے اپنے علماء کو ایسی احادیث گھڑنے پر مامور کیا جن سے انہیں اقتدار کا جواز ملے اور علویوں کی مذمت ہو (1)۔ حدیث کے بعض راویوں نے تین لاکھ سے زیادہ احادیث جمع کیں جن کی اکثریت ایک دوسرے سے متضاد تھی، بخاری نے احادیث کے اس جنجال پورے سے محض دو ہزار احادیث کو صحیح قرار دیا اور باقی کو جعلی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، اگر لوگ ایک نبی سے منسوب احادیث میں جھوٹ بول سکتے ہیں تو قرآن کو جمع کرنے کی انہی لوگوں کی روایات پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے؟
مثال کے طور پر ابن سعد پیغمبر اسلام کی زندگی میں قرآن جمع کرنے والے صحابہ کے یہ نام بتاتا ہے: اُبی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، ابو زید، ابو الدرداء، تمیم الداری، سعد بن عبید، عبادہ بن الصامت، ابو ایوب اور عثمان بن عفان، مگر پھر یہی مصنف اپنی طبقات کے صفحہ 113 میں لکھتا ہے کہ عمر کی خلافت کے دور میں عثمان بن عفان نے قرآن جمع کیا تھا نا کہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں جیسا کہ اس نے پہلے ذکر کیا تھا (2)۔ ایک اور حدیث میں ابن سعد کہتا ہے کہ عمر بن الخطاب نے قرآن کو صحیفوں میں جمع کیا۔
بخاری بتاتے ہیں کہ قرآن پیغمبر اسلام کی زندگی میں جمع کیا گیا اور یہ کارنامہ ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید نے انجام دیا جبکہ ایک اور حدیث میں کہتے ہیں کہ اسے ابو الدرداء، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید نے جمع کیا، صفحہ 392 میں بخاری کہتے ہیں کہ قرآن ابو بکر کے دور میں جمع کیا گیا نا کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں، بخاری کہتے ہیں: ہمیں موسی بن اسماعیل نے ابراہیم بن سعد سے بتایا، انہوں نے ابن شہاب، انہوں نے عبید بن السباک اور انہوں نے زید بن ثابت سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا کہ: یمامہ کی جنگ کے بعد ابو بکر نے مجھے بلایا، اس کے پاس عمر بن الخطاب بھی تھا، ابو بکر نے مجھ سے کہا کہ: یمامہ میں قرآن کے بہت سارے حافظ قتل ہوچکے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ لوگ اور قتل نہ ہوجائیں اور قرآن میں سے کچھ ضائع ہوجائے، میں چاہتا ہوں کہ تم قرآن کو جمع کرو، تو میں نے عمر سے کہا: تم ایسا کام کیسے کر سکتے ہو جو رسول اللہ نے نہیں کیا؟ عمر نے کہا: واللہ یہ ایک عظیم کام ہے، عمر اسے دہراتا رہا تا آنکہ میرا دل اسے جمع کرنے کی بابت مطمئن ہوگیا (3)۔
اس کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر کے دور میں زید بن ثابت نے قرآن جمع کیا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حذیفہ بن یمان جس نے فتح آرمینیا میں اہلِ شام کے ساتھ اور آذربائیجان میں اہلِ عراق کے ساتھ جنگیں لڑیں تھیں کو قرآن کی قراتوں کی تعداد نے حیران کردیا تھا، چنانچہ اس نے عثمان سے کہا: اے امیر المؤمنین، اس امت کا معاملہ جمع کرو اس سے پہلے کہ ان میں اللہ کی کتاب میں اختلاف پیدا ہوجائے جیسا کہ یہود ونصاری کے ساتھ ہوا، چنانچہ عثمان نے حفصہ کو کہلوا بھیجا کہ: ہمیں صحیفے بھیج دو تاکہ ہم انہیں صحیفوں میں لکھ لیں اور تمہیں واپس کردیں (4) چنانچہ حفصہ نے عثمان کو صحیفے بھیج دیے پھر عثمان نے زید بن ثابت، عبد اللہ بن الزبیر، سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام کو قرآن کو صحیفوں میں جمع کرنے کا حکم دیا اور کہا: اگر کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا۔ پھر جب ان حضرات نے قرآن کو صحیفوں میں جمع کر لیا تو عثمان نے حفصہ کے صحیفے واپس کردیے اور ایک ایک نسخہ کوفہ، بصرہ، دمشق اور مصر بھجوادیا اور ایک نسخہ مدینہ میں رہنے دیا اور حکم دیا کہ باقی تمام نسخے جلا دیے جائیں۔
الفہرست میں درج ہے کہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں قرآن جمع کرنے والے یہ ہیں: "علی بن ابی طالب، سعد بن عبید، ابو الدرداء، معاذ بن جبل، ابو زید، ابی بن کعب اور عبید بن معاویہ”۔ نوٹ کریں کہ "الفہرست” کے مصنف نے بخاری اور ابن سعد کے مذکورہ ناموں میں علی بن ابی طالب اور عبید بن معاویہ کے ناموں کا اضافہ کردیا (5)۔
قرآن کو جمع کرنے کے حوالے سے ایک اور روایت کہتی ہے کہ اسے اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان (684-704) نے حجاج بن یوسف کی مدد سے جمع کیا، روایت ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کہا کہ: مجھے ماہ رمضان میں مرنے کا ڈر ہے، میں اسی میں پیدا ہوا، اور اسی میں میرا دودھ چھڑایا گیا، اور اسی میں میں نے قرآن جمع کیا، اور اسی میں مسلمانوں کا خلیفہ منتخب ہوا (6)، عبد الملک کے اس قصے کا ذکر ثعالبی اور جلال الدین السیوطی نے کیا ہے۔
معجم یاقوت میں درج ایک دلچسب کہانی بھی اس اختلاف کو واضح کرتی ہے، کہتے ییں :” اسماعیل بن علی الخطبی نے کتاب التاریخ میں بغداد کے شمبوذ نامی ایک شخص کا قصہ لکھا ہے جو عثمان کے مصحف سے مختلف قراءت پڑھتا اور پڑھاتا تھا، وہ نہ صرف عبد اللہ بن مسعود اور ابی بن کعب ودیگر قراتوں میں قرآن پڑھتا تھا بلکہ دیگر قاریوں سے بحث کرتا اور ان پر غالب آجاتا حتی کہ اس کی شہرت ہر طرف پھیل گئی اور اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوگیا، 828 کو سلطان نے اسے بلوا بھیجا اور اسے وزیر محمد بن مقلہ کے گھر لایا گیا جس نے اس پر مقدمہ کرنے کے لیے قاضیوں اور قاریوں کو جمع کر رکھا تھا، شمبوذ نے جو کچھ وہ پڑھاتا تھا اس سے انکار نہیں کیا بلکہ اس کا دفاع کیا، وزیر نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ عثمان کے مصحف سے مختلف قراتیں پڑھانا چھوڑ دے مگر اس نے انکار کردیا، حاضرین نے اسے سزا دینے پر اصرار کیا تاکہ وہ ان قراتوں سے باز آجائے تب وزیر نے حکم دیا کہ اسے ننگا کر کے تب تک کوڑے مارے جائیں جب تک کہ وہ مان نہ جائے، پیٹھ پر دس کوڑے کھانے کے بعد وہ مان گیا، شیخ ابو محمد السرفی نے کہا کہ اس شمبوذ نامی شخص نے قرآن کی کئی قراتیں محفوظ کیں” (7)۔
830 عیسوی میں مامون کی خلافت کے دور میں یعنی بخاری کے لکھنے سے چالیس سال پہلے کندی جو کہ ایک عیسائی تھا (یہ مسلمان ابن الکندی نہیں ہے) نے اپنے ایک مسلمان دوست کو لکھا کہ: "راہب بحیری جس کا اصل نام سرجیاس Sergius تھا ایک نسطوری راہب تھا جسے اپنے کلیسا سے کسی گناہ کی وجہ سے نکال دیا گیا تو وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے جزیرہ ہائے عرب چلا آیا جہاں اس نے محمد سے ملاقات کی اور بحث بھی کی، اس راہب کے مرنے کے بعد عبد اللہ اور کعب نامی دو یہودی طبیبوں نے محمد سے ملاقات کی اور ان دونوں کا محمد پر بڑا اثر ہوا، رسول کی موت کے بعد یہودیوں کے کہنے پر علی بن ابی طالب نے خلافت کیلئے ابو بکر سے بیعت نہیں کی اور جب وہ خلافت سے مایوس ہوگیا تو رسول کی موت کے چالیس روز بعد وہ ابو بکر کے سامنے پیش ہوا اور بیعت کی، جب اس نے بیعت کر لی تو علی سے پوچھا گیا کہ: اے ابا الحسن تمہیں اب تک کس چیز نے روک رکھا تھا؟ تو اس نے جواب دیا: میں اللہ کی کتاب جمع کرنے میں مصروف تھا جس کی ذمہ داری مجھے رسول اللہ نے سونپی تھی، کچھ حاضرین نے کہا کہ ان کے پاس قرآن کے کچھ حصے موجود ہیں، حاضرین نے سارے قرآن کو ایک کتاب میں جمع کرنے پر اتفاق کیا، چنانچہ انہوں نے لوگوں کے سینوں سے جو کچھ جمع کر سکتے تھے کیا جیسے "براءۃ” نامی سورت جسے ایک دیہاتی اعرابی بدو نے انہیں سنائی اور کچھ دوسری آیات کچھ دیگر لوگوں سے، اور جو کچھ بھی انہیں لوحوں، ہڈیوں، کھجور کے پتوں اور پتھروں پر لکھا ہوا ملا”۔
کندی آگے لکھتا ہے: "شروع میں یہ کتاب میں جمع نہیں کیا گیا بلکہ ایسے ہی لوحوں پر لکھا ہوا چھوڑ دیا گیا، پھر قراءتوں پر لوگوں میں اختلاف پھیلنا شروع ہوگیا، کچھ لوگ علی کی قرات سے پڑھتے، اور کچھ لوگ مذکورہ لوحوں میں جمع کیے گئے کی قرات پر پڑھتے، کچھ ابن مسعود اور کچھ اُبی بن کعب کی قرات پر پڑھتے، اور جب عثمان خلیفہ بنا تو قراءتیں ہر طرف مختلف تھیں، ایک ہی آیت کو کوئی کچھ پڑھتا تو کوئی کچھ، جب قراتوں اور مصاحف کے اس اختلاف کی بابت عثمان کو بتایا گیا تو وہ انتشار سے ڈر گیا اور جو کچھ جمع ہوسکتا تھا اسے جمع کرنے کا حکم دیا بشمول ان صحیفوں کے جو پہلے اس کی خلافت کے آغاز میں جمع کیے گئے تھے، مگر انہوں نے جو کچھ علی کے پاس تھا جمع نہیں کیا، اُبی بن کعب مر چکا تھا اور ابن مسعود نے اپنا مصحف دینے سے انکار کردیا تھا تب عثمان نے زید بن ثابت اور عبد اللہ بن عباس کو حکم دیا کہ وہ قرآن کو جمع کریں اور اس میں درستگی کرتے ہوئے مشتبہ تحریروں کو نکال دیں، جب یہ کام مکمل ہوگیا تو بڑے خط میں چار نسخے لکھے گئے جو ایک مکہ، ایک مدینہ، ایک شام اور چوتھا نسخہ کوفہ بھیجا گیا”۔
"مکے والا نسخہ دو سو ہجری تک جب ابو سرایہ نے مکہ پر حملہ کیا وہیں تھا مگر پھر یہ نسخہ کھوگیا، خیال کیا جاتا ہے کہ اسے جلا دیا گیا، مدینے والا نسخہ یزید بن معاویہ کے دور میں گم ہوگیا، عثمان نے اپنے نسخے کے علاوہ باقی دیگر تمام نسخوں کو جلانے کا حکم دیا تھا مگر اس کے باوجود ادھر ادھر کچھ حصے موجود رہے، ابن مسعود نے اپنا نسخہ اپنے گھر پر محفوظ رکھا جو اس کی نسلوں میں وراثتاً منتقل ہوتا رہا، یہی حال علی کے مصحف کا ہوا، پھر حجاج بن یوسف آیا اور تمام مصاحف کو جمع کر کے آگ لگا دی اور ایک نیا مصحف لکھا جس میں سے بہت سارے حصے حذف کردیے جو عثمان کے مصحف میں موجود تھے جس میں امویوں کے متعلق کچھ آیات تھیں اور بنی امیہ کے کچھ لوگوں کے نام تھے” (8)۔
حجاج نے نئے قرآن کے چھ عدد نسخے مصر، شام، مدینہ، مکہ، کوفہ اور بصرہ بھجوائے، ابو بکر اور علی، اور عمر اور عثمان کے بیچ کی دشمنی کے بارے میں سب لوگ جانتے تھے، اس دشمنی کے نتیجے میں ہر کسی نے قرآن میں ایسی آیات شامل کیں جو اس کے موقف کو مضبوط اور دوسرے کے موقف کو کمزور کرتی تھیں اور ایسی آیات حذف کردیں جن سے انہیں نقصان ہوتا چنانچہ اصل اور اضافے میں کیسے تفریق کی جائے؟ ان حصوں کا کیا جنہیں حجاج بن یوسف نے حذف کردیا؟
کندی اپنے مسلمان دوست کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھتا ہے کہ: "جو کچھ بھی میں نے ذکر کیا ہے وہ مسلمانو کے ثقات (بھروسہ مند) سے ماخوذ ہے اور میں نے اپنی طرف سے کوئی رائے شامل نہیں کی بلکہ صرف اس کا ذکر کیا ہے جو آپ کے ہاں قابلِ قبول دلائل پر مبنی تھا”۔
خلیفہ المتوکل نے جب الکندی کا یہ خط دیکھا تو عرب مسلم طبیب علی بن ربان الطبری سے 855ء عیسوی کو یعنی کندی کے خط کے بیس سال بعد اس خط پر اسلام کا رد لکھنے کو کہا جس پر طبری نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے "کتاب الدین والدولۃ” لکھی، مگر جب طبری قرآن کو جمع کرنے کے حوالے سے کندی کے دلائل کا جواب لکھنے تک پہنچا تو کوئی حُجت پیش نہ کر سکا اور محض اتنا کہا کہ:
"لو کان من المعقول الادعاء بان اصحاب رسول اللہ الورعین یمکن ان یزیفوا القرآن فاذا یمکن ان نقول نفس الشیء عن تباع النبی عیسی بن مریم”
ترجمہ:
"اگر یہ دعوی کرنا معقول ہے کہ رسول کے نیک صحابہ قرآن میں جعلسازی کر سکتے ہیں تو یہی بات ہم نبی عیسی بن مریم کے تابعین کے حوالے سے بھی کہہ سکتے ہیں”۔
یہ انتہائی کمزور جواب تھا کیونکہ اسلام کا یہ دعوی کہ انجیل اور توریت تحریف شدہ ہیں سب جانتے ہیں ایسے میں طبری نے ایسی کون سے نئی بات کر کے کندی کے دعوے کو رد کیا؟۔
قرآن کے مختلف نسخوں کا آپس میں کافی اختلاف تھا، کسی میں کچھ آیات زیادہ تھیں اور کسی میں کم اور کسی میں آیات میں فرق تھا، مثلاً سورہ المائدہ آیت 89 لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ طبری کہتا ہے کہ اُبی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود نے لفظ "ثلاثۃ ایام” کے بعد لفظ "متتالیۃ” (مسلسل) شامل کردیا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام لوگوں کے سوال کرنے یا شکایت کرنے پر آیات بدل دیتے تھے، مثال کے طور پر بخاری کہتا ہے کہ جب سورہ نساء کی آیت 95 نازل ہوئی لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ایک اندھے (ابن ام مکتوم) نے نبی سے یہ کہتے ہوئے شکایت کی کہ: میں اندھا ہوں اور جہاد نہیں کر سکوں گا اس لیے اللہ مجھ پر مجاہدین کو فضیلت دے گا، تو آیت میں "غیر اولی الضرر” کا اضافہ کردیا گیا اور آیت یوں ہوگئی: "لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ”۔
اس آیت سے متعلق ایسی ہی ایک روایت الواحدی النیسابوری نے بھی نقل کی ہے (9) یہ وہی ابن ام مکتوم ہے جو پیغمبر اسلام کو زیرِ عتاب کرنے آیا اور اس نے اسے نظر انداز کردیا اور "عبس وتولی ان جاءہ الاعمی” آیت نازل ہوئی (10)۔
ابن عباس کہتا ہے (11) کہ جب سورہ بقرہ کی آیت 228 نازل ہوئی: "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ” تو معاذ بن جبل نے کہا: اے اللہ کے رسول جو حیض سے مایوس ہوگئیں ان کی عدت کیا ہے؟ ایک اور شخص کھڑا ہوا اور بولا: اے اللہ کے رسول جن کو کمسنی کی وجہ سے حیض ابھی نہیں آیا ان کی عدت کیا ہے؟ ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول حاملہ عورتوں کی عدت کیا ہے؟ تو نازل ہوئی "وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ” (12)۔
ان روایات کے تناظر میں یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ ایک ہی آیت قرآن کے مختلف نسخوں میں مختلف کیوں تھی، کسی لکھنے والے نے ویسے ہی لکھی جیسی کہ اس نے پہلے سنی مگر اس میں بعد میں کیا جانے والا اضافہ نہ سن سکا جبکہ کچھ دوسرے لوگوں نے یہ اضافہ شدہ آیت سن لی، اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنی حالیہ شکل میں قرآن کب جمع کیا گیا اس پر کوئی اجماع نہیں ہے، اور جیسا کہ ہم نے دیکھا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی موت کے فوراً بعد علی نے اسے جمع کیا جبکہ کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ اسے زید بن ثابت نے ابو بکر کے دور میں جمع کیا اور اسے حفصہ بنتِ عمر کے ہاں رکھوایا جبکہ ایک تیسرا فریق کہتا ہے کہ عثمان نے زید بن ثابت کو یہ ذمہ داری سونپی، چوتھا فریق کہتا ہے کہ حجاج بن یوسف نے حالیہ قرآن لکھا، یہ آخری قول اس لیے بھی زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اموی خلافت تک عربی تحریر کے حروف پر نہ تو نقطے ہوتے تھے اور نہ ہی ہمزہ اور تنوین موجود تھی، سیبویہ نے آکر ترقیم کی علامات داخل کیں۔
یہ سمجھنا بھی چنداں مشکل نہیں کہ نقطوں کی غیر موجودگی میں قرآن پڑھنے والے کو کس قدر کنفیوزن ہوتی ہوگی کیونکہ ب، ت اور ث میں فرق کرنا اتنا آسان نہیں تھا، اسی طرح ط اور ظ، د اور ذ، س اور ش، ر اور ز میں فرق کرنا بھی انتہائی مشکل ہوتا ہوگا، کہا جاتا ہے کہ حمزہ نامی ایک قاری سورہ بقرہ کی آیت 2 (ذلک الکتاب لا ریب فیہ ۔ اس کتاب میں کوئی شک نہیں) کو نقطے نہ ہونے کی وجہ سے "ذلک الکتاب لا زیت فیہ ۔ اس کتاب میں کوئی تیل نہیں” پڑھتا تھا چنانچہ اس کا نام "حمزہ الزیات” (حمزہ تیل والا) پڑ گیا، اسی وجہ سے قرآن قاریوں کے ذریعے زبانی پڑھایا جاتا تھا تاکہ بغیر نقطوں کے تحریری الفاظ میں مکسنگ اور غلط فہمیوں سے بچا جاسکے یہی وجہ تھی کہ لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا کیونکہ ہر شخص اپنے استاد کی تعلیم کے مطابق پڑھتا تھا اور استاد کے پڑھائے ہوئے کی تصدیق نا ممکن تھی کیونکہ لکھے ہوئے قرآن کے الفاظ پر نقطے نہیں تھے اور بغیر نقطوں کے الفاظ یقیناً قابلِ تاویل ہیں۔
مثال کے طور پر سورۃ فرقان کی آیت 48: "وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا” کو بعض روایات میں "وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ نُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ” پڑھا جاتا ہے (13) اور ظاہر ہے کہ لفظ "بشرا” اور "نشرا” میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہی وجہ ہے احمد بن موسی بن مجاہد نے نو مختلف قراتیں شمار کیں، بخاری کہتا ہے: عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم کی زندگی میں میں نے ہشام بن حکیم کو سورۃ الفرقان نماز میں پڑھتے سنا، میں نے ان کی قرات کو غور سے سنا تو معلوم ہوا کہ وہ سورۃ میں ایسے حروف پڑھ رہے ہیں کہ مجھے اس طرح آںحضرت نے نہیں پڑھایا تھا، قریب تھا کہ میں ان کا سر نماز میں ہی پکڑ لیتا لیکن میں نے بڑی مشکل سے صبر کیا، اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی چادر سے ان کی گردن باندھ کر پوچھا یہ سورت جو میں نے تمہیں ابھی پڑھتے ہوئے سنا ہے تمہیں کس نے اس طرح پڑھائی ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے مجھے اسی طرح پڑھائی ہے، میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو خود حضور اکرم نے مجھے اس سے مختلف دوسرے حرفوں سے پڑھائی جس طرح تم پڑھ رہے تھے، آخر میں انہیں کھینچتا ہوا آں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے اس شخص سے سورۃ الفرقان ایسی حرفوں میں پڑھتے سنی جس کی آپ نے مجھے تعلیم نہیں دی ہے، آپ نے فرمایا عمر تم پہلے انہیں چھوڑ دو اور اے ہشام تم پڑھ کے سناؤ، انہوں نے آں حضرت کے سامنے بھی انہی حرفوں میں پڑھا جن میں میں نے انہیں نماز میں پڑھتے سنا تھا، آں حضرت نے سن کر فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر فرمایا عمر اب تم پڑھ کر سناؤ، میں نے اس طرح پڑھا جس طرح آں حضرت نے مجھے تعلیم دی تھی، آں حضرت نے اسے بھی سن کر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی ہے، یہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسانی ہو پڑھو۔ (بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب انزل القرآن علی سبعۃ احرف۔ حدیث نمبر 4992)۔
یہاں اظہر من الشمس ہے کہ خود پیغمبر اسلام کو یادداشت دھوکہ دے جاتی تھی اور وہ خود ہی آیات کو یادداشت کے مطابق وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے تھے، اس حدیث کی ہی مثال لے لیں کہ پہلے ہشام نے پیغمبر اسلام سے سورہ فرقان ایک خاص قرات میں سنی اور یاد کی، پھر کسی اور وقت میں عمر آئے اور پیغمبر اسلام سے وہی سورت ایک قطعی مختلف قرات میں سنی، یعنی خود پیغمبر اسلام کے دور میں اور اسی کی رضا مندی سے قرآن مختلف قراتوں میں پڑھا جاتا تھا ایسے میں اس کے مرنے کے بعد کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ قرآن حجاج کے دور تک مختلف قراتوں میں پڑھا جاتا رہا تا آنکہ حجاج نے مُرقم مصحف تحریر کیا اور علمائے اسلام نے محمد کے بتائے ہوئے سات حروف پر اتفاق کر لیا۔
اور اگر یہ درست ہے کہ ابو بکر نے زید بن ثابت، اُبی بن کعب، معاذ بن جبل اور ابا زید کو قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی اور وہ جمع بھی کیا گیا اور حفصہ بنتِ عمر کے پاس محفوظ بھی کیا گیا تو پھر عثمان نے ایک بار پھر کیوں زید بن ثابت کو قرآن جمع کرنے پر مامور کیا؟ عثمان نے حفصہ کے ہاں محفوظ نسخہ لے کر اسے ہر طرف ارسال کیوں نہ کیا؟ جبکہ اسے علم بھی تھا کہ حفصہ کے پاس ابو بکر کے دور کا زید ہی کا جمع کیا ہوا قرآن کا نسخہ موجود ہے کیونکہ اس نے حفصہ سے یہ نسخہ طلب بھی کیا تھا؟ اور پھر جب عثمان نے زید کو قرآن جمع کرنے پر مامور کیا تو زید نے اپنے ہی ہاتھوں ابو بکر کے دور میں جمع کیا ہوا قرآن لے کر عثمان کو کیوں پیش نہیں کیا؟ کیا ہوا کام دوبارہ کیوں کیا؟ دوسری بار قرآن کو جمع کرنے میں اپنا اور اپنے ساتھیوں کا سالوں تک وقت کیوں برباد کیا؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو بکر کے دور میں جمع کیا ہوا قرآن نا مکمل تھا؟ کیا اس میں جعلی آیات تھیں؟
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یا تو عثمان کے دور میں جمع کیا ہوا زید کا قرآن اس قرآن سے مختلف تھا جو اس نے ابو بکر کے دور میں جمع کیا تھا، جس سے بجا طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ تمام تر دستیاب نسخوں میں اختلاف تھا یا پھر زید نے ابو بکر کے دور میں قرآن جمع ہی نہیں کیا تھا جس سے نہ صرف احادیث کے اسناد کے تمام مسائل مشکوک ہوجاتے ہیں بلکہ تمام صحیح حدیثیں بھی مشکوک ٹھہرتی ہیں کیونکہ ابو بکر کے دور میں قرآن جمع کرنے کے قصے کی سند اتنی قوی ہے کہ اس پر کبھی شک نہیں کیا گیا۔
اس میں شک نہیں کہ سالوں میں جمع کیے گئے قرآن کے مختلف نسخوں میں کثیر اختلاف پایا جاتا تھا، 154 ہجری کو پیدا ہونے والے ابو عبید القاسم بن سلام جس نے کوفہ اور بصرہ کے بڑے بڑے اساتذہ سے تلمذ کیا اور بغداد کے مشہور ترین معلم، لغت دان اور قاضی ہوئے نے اپنی کتاب "فضائل القرآن” میں کہا ہے کہ: ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب اور انہوں نے نافع اور انہوں نے ابنِ عمر سے کہ انہوں نے کہا: کوئی یہ نہ کہے کہ اس نے سارا قرآن حاصل کیا ہے، اور اسے کیا پتہ کہ اس کا سارا کیا ہے، اس میں سے بہت سارا قرآن ضائع ہوگیا، بلکہ اسے کہنا چاہیے: میں نے اس سے (قرآن سے) وہی کچھ لیا ہے جو ظاہر ہوا ہے (یعنی جو بچ گیا ہے) (14)۔
مزید کہا کہ: ہمیں ابن ابی مریم نے ابن الہیعہ سے اور انہوں نے ابی الاسود سے اور انہوں نے عروۃ بن الزبیر سے اور انہوں نے عائشہ سے کہ اس نے کہا: رسول اللہ کے دنوں میں سورۃ الاحزاب پڑھی جاتی تھی اور اس میں دو سو آیتیں ہوتی تھیں مگر جب عثمان نے قرآن جمع کیا تو اس سے زیادہ جمع نہ کر پایا جتنا کہ اس میں اب ہے (15)۔
زیر بن حُبیش سے مزید روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: اُبی بن کعب نے مجھ سے کہا: اے زیر تم نے سورۃ الاحزاب میں کتنی آیات شمار کیں اور پڑھیں؟ میں نے کہا: بہتر یا تہتر، اس نے کہا: یہ طوالت میں سورۃ بقرۃ جتنی تھی اور ہم اس میں رجم کی آیت بھی پڑھا کرتے تھے، تو میں نے اس سے کہا: رجم کی آیت کیا ہے؟ اس نے کہا: "الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم” اور یہ آیت ضائع ہونے والی آیات میں ضائع ہوگئی (16)۔
ایک اور جگہ کہتے ہیں: ہمیں عبد اللہ بن صالح نے لیث سے اور انہوں نے خالد بن یزید سے اور انہوں نے صائب بن ابی ہلال اور انہوں نے ابی امامۃ عثمان بن سہل اور انہوں نے خدیجہ سے روایت کیا کہ خدیجہ نے کہا: "رسول اللہ ہمیں رجم کی آیت پڑھ کر سنایا کرتے تھے”. اور ابن کثیر نے عتبۃ بن مسعود سے ذکر کیا کہ ابن عباس نے اسے بتایا کہ عمر بن الخطاب مجلس میں کھڑا ہوا اور اللہ کی حمد وثناء کی اور کہا: "اے لوگو اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق پر بھیجا اور اس پر کتاب نازل کی، اس پر جو نازل ہوا تھا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، تو ہم نے اسے پڑھا اور سمجھا اور مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر طویل وقت گزر جانے کے بعد کوئی کہنے والا کہے کہ واللہ ہمیں اللہ کی کتاب میں رجم نہیں ملتا اور اس طرح وہ اللہ کی طرف سے اتارا ہوا ایک فرض چھوڑ کر بھٹک جائیں، اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں ایسا اضافہ کردیا جو اس میں نہیں تھا تو میں اسے قرآن میں وہیں شامل کردیتا جیسے کہ یہ اتری تھی” (17)۔
اور عبد الغفار بن داود نے لحی سے اور اس نے علی بن دینار سے روایت کیا کہ عمر بن الخطاب ایک آدمی کے پاس سے گزرا جو ایک مصحف میں پڑھ رہا تھا، اس نے پڑھا: "النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم وازواجہ امہاتہم وہو ابوہم” (سورۃ احزاب آیت 6)، تو عمر نے اس سے کہا: جب تک اُبی بن کعب نہ آجائے تم مجھے چھوڑ کر مت جانا، اور جب اُبی آگیا تو عمر نے اس سے کہا: اے اُبی یہ آیت پڑھ کر سناؤ؟ تو اُبی نے یہ آیت بغیر "وہو ابوہم” کے پڑھی اور عمر سے کہا: یہ ان چیزوں میں سے ہے جو ساقط ہوگئیں. ایسی ہی روایت معاویہ اور مجاہد اور عکرمہ اور الحسن سے بھی مروی ہے (18)۔
تفسیر القرطبی کے مطابق اُبی کے مصحف میں یہی آیت یوں ہے: "النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم وازواجہ امہاتہم وہو اب لہم” ابن عباس کی قرات ہے: "النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم وہو اب لہم وازواجہ امہاتہم” (19) یہاں الفاظ کی ترتیب میں اختلاف واضح ہے جو سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ قرآن بغیر کسی ایسی کتاب کے جس سے رجوع کیا جائے ایک طویل عرصے تک محض زبانی یاد کیا جاتا رہا، انسان کی یادداشت چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اسے دھوکہ دے ہی جاتی ہے۔
ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی مریم نے ابن الہیعۃ سے اور انہوں نے یزید بن عمرو المغافری سے اور انہوں نے ابی سفیان الکلاعی سے روایت کیا کہ مسلمۃ بن مخلد الانصاری نے انہیں ایک دن کہا: مجھے قرآن کی ایسی دو آیتیں بتاؤ جو مصحف میں نہیں لکھی گئیں تو انہوں نے اسے نہیں بتایا، ان کے ہاں ابو الکنود سعد بن مالک موجود تھا تو ابو مسلمۃ نے کہا: "ان الذین آمنوا وہاجروا وجاہدوا فی سبیل اللہ باموالہم وانفسہم الا ابشروا وانتم المفلحون” اور "الذین آووہم ونصروہم وجادلوا عنہم القوم الذین غضب اللہ علیہم اولئک لا تعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون” (20)، غور کیجیے کہ یہاں ابو عبید یہ دعوی کر رہا ہے کہ یہ دو آیتیں مصحف سے ساقط ہوگئیں جبکہ اسے زبانی یاد تھیں۔
ابو عبید مزید کہتے ہیں کہ: "یہ آیات جن کا ہم نے ان صفحات میں ذکر کیا ہے زائد چیزوں میں سے ہیں جنہیں علماء نے نہیں لیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ یہ جو کچھ کتاب میں موجود ہے اس سے شباہت رکھتے ہیں مگر وہ انہیں نماز میں پڑھا کرتے تھے اسی لیے انہوں نے ان زائد حروف کے انکار کرنے والوں کو کافر قرار نہیں دیا کیونکہ ان کی نظر میں کافر وہ ہے جو اس کا انکار کرے جو کتاب میں ہے” (21)۔
کچھ ایسی آیات بھی ہیں جیسا کہ دعوی کیا گیا ہے وحی کے طور پر نازل ہوئیں، کچھ عرصہ پڑھی جاتی رہیں پھر غائب ہوگئیں، محمد بن مرزوق ایسی ہی ایک آیت کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے: ہمیں عمرو بن یونس نے عکرمہ سے روایت کیا کہا: ہمیں اسحاق بن طلحہ نے بتایا کہ مجھے انس بن مالک نے نبی کے ان صحابہ کے بارے میں بتایا جنہیں انہوں نے بئر معونہ کے لوگوں کے لیے بھیجا، کہا: نبی نے چالیس یا ستر آدمی بئر معونہ بھیجے، اس کنویں پر عامر بن الطفیل الجعفری تھا، رسول کے صحابہ چل پڑے اور پانی کے پاس واقع ایک غار تک پہنچے اور اسی میں بیٹھ گئے، پھر ابن ملجان الانصاری بئر معونہ کے لوگوں کو رسول اللہ کا پیغام دینے نکلے تو ایک گھر سے ایک آدمی تیر کے ساتھ نکلا اور اس تیر سے اسے اس طرح مارا کہ تیر اس کے آر پار نکل گیا اور کہا: اللہ اکبر کعبے کے رب کی قسم میں جیت گیا، اور واپس اپنے اصحاب کی طرف پلٹ گیا تو انہوں نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے دوستوں کو غار میں جاملے اور سب کو قتل کردیا، تو اللہ نے ان پر قرآن نازل کیا "بلغوا عنا قومنا انا قد لقینا ربنا فرضی عنا ورضینا عنہ” (22)، پھر یہ آیت منسوخ ہوگئی اور کتاب سے اٹھا لی گئی جبکہ ہم نے اسے زمانوں تک پڑھا تھا اور اللہ نے اس کی جگہ یہ آیت اتاری: "ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عند ربہم یرزقون” (23)۔
ایسی سورتیں بھی موجود ہیں جنہیں پڑھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ ان میں بعد میں کچھ اضافے کیے گئے چاہے یہ اضافے تب کیے گئے جب زید بن ثابت نے قرآن جمع کیا یا بعد میں تاہم اس بابت کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایسی سورتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ قرآن اس طرح نہیں لکھا گیا جس طرح کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو پڑھ کر سنایا تھا، مثال کے طور پر سورۃ المدثر "ر” پر مسجوع چھوٹی چھوٹی آیات پر مشتمل ہے مگر اس کے وسط میں آیت نمبر 31 سورت کی باقی تمام تر آیات کی طوالت سے میل نہیں کھاتی اگرچہ سجع سے مطابقت رکھتی ہے:
فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ[24]
إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ[25]
سَأُصْلِيهِ سَقَرَ[26]
وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ[27]
لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ[28]
لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ[29]
عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ[30]
وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ[31]
كَلَّا وَالْقَمَرِ[32]
وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ[33]
وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ[34]
إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ[35]
یہ انتہائی واضح ہے کہ آیت نمبر 31 باقی آیات سے کسی طور میل نہیں کھاتی اور یہ بعد میں کسی وقت اس جگہ پر فِٹ کی گئی ہے جو واضح دلیل ہے کہ قرآن میں ایسی آیات داخل کی گئی ہیں جو اصل میں سورتوں کا حصہ تھیں ہی نہیں اور کچھ دیگر آیات حذف کردی گئیں، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں موجود قرآن حرف بہ حرف وہ قرآن نہیں ہے جو پیغمبر اسلام نے کہا تھا۔
یہ امر بھی واضح ہے کہ قرآن وحی کے تمام عرصہ تک لوگوں میں زبانی کلامی ہی منتقل ہوتا رہا جو کہ 23 سال بنتے ہیں، اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ قرآن کو عثمان کے دور میں جمع کر کے ایک کتاب کی شکل دی گئی تو محمد کے دعوائے نبوت سے لے کر عثمان کے دور تک تقریباً چالیس سال بنتے ہیں اور اگر 95 ہجری کو اموی دور میں حجاج بن یوسف نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا اور قرآن کو وہ شکل دی جس میں یہ آج دستیاب ہے تو کیا یہ قرین عقل ہے کہ اتنی ساری متشابہ آیات اتنے طویل عرصے تک لوگوں کے ذہنوں میں بغیر کسی نسیان اور ملاوٹ کا شکار ہوئے محفوظ رہیں؟ شاید یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ انسان کی یادداشت پر اتنے طویل عرصے تک بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
مثلاً جب خلیفہ المنصور کا علویوں میں سے کسی کے ساتھ اختلاف ہوا اور اس نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ چچا کو باپ یعنی "اب” کہا جاسکتا ہے تو اس نے سورۃ یوسف کی آیت 38 استدلال کے طور پر پیش کی مگر کہا: "واتبعت ملۃ آبائی ابراہیم واسماعیل واسحاق ویعقوب” مگر حالیہ قرآن میں یہ درج ہے "واتبعت ملۃ آبائی ابراہیم واسحاق ویعقوب” یعنی اسماعیل کا ذکر نہیں ہے، معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ منصور کی مراد سورۃ بقرۃ کی آیت 133 تھی: "ام کنتم شہداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الہک والہ آبائک ابراہیم واسماعیل واسحاق” (25)، یہ آیت منصور کے قول کو ثابت کرتی ہے کیونکہ یعقوب کا باپ اسحق تھا مگر یعقوب کے بیٹوں نے اس سے کہا کہ ہم تمہارے آباء کے خدا کی عبادت کریں گے اور اس کے چچا اسماعیل کا ذکر اس کے باپ سے پہلے کیا۔
تعجب خیز امر یہ ہے کہ مبرد اور ابن خلدون جنہوں نے یہ قصہ نقل کیا ہے اور مذکورہ آیات پیش کیں سورۃ یوسف کی آیت 38 کی اس غلطی کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی، البتہ طبری کی توجہ اس طرف گئی مگر اس نے سورۃ بقرۃ کی مقصود آیت کا ذکر نہیں کیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یادداشت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے قرآن میں اتنی تکرار ملتی ہے کیونکہ قرآن کو حالیہ شکل دینے سے قبل مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ تک صرف اپنی یادداشت پر انحصار کرنے کی کوشش کی۔
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
______________
حوالہ جات:
1- Ibn Warraq، The Origins of the Koran, 1998، Prometheus Books, p 20
2- Ibn Warraq، The Origins of the Koran, 1998، Prometheus Books, p 152
3- Ibn Warraq، The Origins of the Koran, 1998، Prometheus Books, p 99
4- Introduction to The Quran, Montgomery Watt & Richard Bell
5- Introduction to The Quran, Montgomery Watt & Richard Bell
6- Chron. Arab. Edit. Beirut، p 194 / Quoted by Ibn Warraq، The Origins of Koran, p 102
7- Dictionary of Learned Men of Yakut VI p 301 (Edit. D. S. Margoliouth) Quoted by Ibn Warraq، Origins of the Koran، p 103
8- W Muir، The Caliphate : Its Rise، Decline and Fall (1915) Quoted by Ibn Warraq، The Origins of the Koran، p 108
9- اسباب النزول للواحدی، ایڈیشن 1968، مؤسسۃ الحلبی مصر، صفحہ 117
10- سورۃ عبس آیت 1 او 2
11- تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس للفیروزی، دوسرا ایڈیشن 1950 صفحہ 358 مکتبۃ مصطفی البابی الحلبی مصر
12- سورۃ الطلاق آیت 4
13- تفسیر الجلالین، دوسرا ایڈیشن، صفحہ 3 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت
14- الناسخ والمنسوخ، صفحہ 32 تصنیف ہبۃ اللہ سلامۃ بن نصر بن علی البغدادی / تحقیق ڈاکٹر موسی بنای علوان العلیلی، الدار العربیۃ للموسوعات بیروت
15- الناسخ والمنسوخ، صفحہ 29 تصنیف ہبۃ اللہ سلامۃ بن نصر بن علی البغدادی / تحقیق ڈاکٹر موسی بنای علوان العلیلی، الدار العربیۃ للموسوعات بیروت
16- الناسخ والمنسوخ، صفحہ 28 تصنیف ہبۃ اللہ سلامۃ بن نصر بن علی البغدادی / تحقیق ڈاکٹر موسی بنای علوان العلیلی، الدار العربیۃ للموسوعات بیروت
17- الناسخ والمنسوخ، صفحہ 28 تصنیف ہبۃ اللہ سلامۃ بن نصر بن علی البغدادی / تحقیق ڈاکٹر موسی بنای علوان العلیلی، الدار العربیۃ للموسوعات بیروت
18- تفسیر ابن کثیر، سورۃ الاحزاب کی آیت 6 کی تفسیر
19- تفسیر القرطبی، سورۃ الاحزاب کی آیت 6 کی تفسیر
20- الاتقان فی علوم القرآن، جلال الدین السیوطی، المطبعۃ الازہریۃ بالقاہرۃ 1318 جلد 2 صفحہ 25 بغدادی کی الناسخ والمنسوخ صفحہ 31 سے نقل کرتے ہوئے
21- Ibn Warraq، The Origins of the Koran, 1998، Prometheus Books, p 153
22- تاریخ الطبری، جلد 2 صفحہ 83
23- سورۃ آل عمران آیت 169
24- الاتقان فی علوم القرآن، جلال الدین السیوطی، جلد دوم صفحہ 25 بغدادی کی الناسخ والمنسوخ صفحہ 30 سے نقل کرتے ہوئے
25- Ibn Warraq، The Origins of the Koran, 1998، Prometheus Books, p 156
بہت معلومات افزا مضمون ہے۔ ایک گزارش ہے کہ مذکورہ آیات کے ہمراہ اگر ترجمہ بھی تحریر کر دیا کریں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ شکریہ
اچھی تجویز ہے۔ میری طرف سے پلس ون کر لیں۔
The oldest surviving document with dots in Arabic script is from 22 Hijrah that’s enough to discredit your whole thesis.
محترمی جناب عبدالغفار صاحب!
جرات تحقیق پر خوش آمدید
آپ نے اپنے تبصرے میں سن 22 ہجری کی جس عربی تحریر کا ذکر کیا ہے، اگر اس کا کوئی حوالہ بھی بیان کر دیتے تو آپ کی بات مزید مدلل ہوجاتی، کیونکہ یہ جرات تحقیق ہے۔ اور ہم یہاں جو بھی بات بیان کرتے ہیں اس کا پورا پورا حوالہ ضرور بیان کرتے ہیں۔اور ہم اپنے ناقدین سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ جو بات کریں وہ مدلل اور باحوالہ ہو۔ آپ کے حوالے کا انتظار رہے گا۔ اگر آپ کو اردو لکھنے میں دشواری ہو تو آپ رومن اردو میں بھی اپنے تبصرے پوسٹ کر سکتےہیں۔
http://en.wikipedia.org/wiki/PERF_558
مولانا، آپ کے دئیے گئے صفحے پہ یہ صاف صاف لکھا ہے۔
Dots and hamzas added; otherwise, spelling uncorrected.
اتنی انگریزی تو ہم کو بھی آتی ہے۔
4:82 بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے
قرآن اس آیت میں اپنی حقانیت کے ثبوت کے لیے ایک جدید سایُنسی اصول کی کسوٹی پیش کر رہا ہے- یہ کتاب خدا کی طرف سے ہے اور اگر تم یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے تو بس یہ کرو کہ اس میں اختلاف دکھا دو-
this is called the falsification test. and today if any scientist presents a new theory, for his theory to be credible enough to be even considered for a review he has to give falsification tests for his theory
محترمی جناب جنگ صاحب!
اس حوالے سے میں مضمون تحریر کر چکا ہوں جس میں قرآن کے تضاد کا ذکر ہے، لیکن وہ پوسٹ جس بلاگ پر شائع ہوئی تھی وہ مومنین کی کرم فرمائی کی وجہ سے بند کر دی گئی، کوشش کرتا ہوں کہ اُس بلاگ پر شائع شدہ اپنے تحریریں کسی طرح حاصل کرکے "جرات تحقیق” پر "نشر مکرر” کردوں۔
besharm pehley kapdeypehan , allah ne tujhe kapdon se bhi mahroom kar diya,,
🙂 🙂 🙂
آپ کے ایک اور صفحے (جو یہاں پیو بھی تو حلال ہے!!) پر dr muneeb ahmed sahil نے جو جواب دیا ہے اس پر اظہار خیال ضرور کریں کیونکہ آپ کا وہ صفحہ اسی آیت کے جواب میں ہے- دیکھنا یہ ہے کہ جراُت تحقیق میں غلطی کا اعتراف کرنے کی جراُت ہے کہ نہیں؟ یہ اس وجہ سے کہ اگر ہم وہاں جانے سے کترا جایُیں جہاں تحقیق لے جا رہی ہے تو ازراہ کرم سب کا وقت ضایُع کرنے سے گریز کریں-
بجاےُ اس کے کہ اینڈرسن شا صاحب اس صفحے پر (جو یہاں پیو بھی تو حلال ہے!!) اپنے مضمون پر اعتراض کا جواب دیتے، انہوں نے پھرتیاں دکھا کر وہا کج بحثی اور ہٹ دھرمی شروع کر دی ہے- جلدی میں انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ اب وہ چنگیزخان بن چکے ہیں – اور اب نیچے نابغہ روزگار "نقل اور چسپاں” کی مہارت پر داد پانا چاہ رہے ہیں- بہتر ہوگا کہ آپ اپنا نام جراُت تحقیق سے بدل کر ہٹ دھرمی کا منہاج رکھ لیں
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ❞وہاں کی وہیں❝ اور ❞یہاں کی یہیں❝ رکھی جاتی۔
علامہ ایاز نظامی Allama Ayaz Nizami علامہ ایاز نظامی
قرآن اور اسکے تضادات
(أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء: ٨٢
ترجمہ:۔کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔
مندرجہ بالا آیت میں قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کلام ِالہٰی ہے، اور دلیل یہ ہے کہ اگر یہ کلام انسانی ہوتا تو یقیناً اس میں بہت سے تضادات پائے جاتے۔ کیونکہ وہ ذات جو کائنات جیسے منظّم نظام کو بغیر کسی سقم کے قائم کئے ہوئے ہے(بقول قرآن)یقینی طور پر اس کا کلام بھی ہر قسم کے سقم سے پاک ہونا چاہئے ۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا واقعتاً قرآن میں کسی بھی قسم کا کوئی تضاد پایا جاتا ہے یا نہیں؟ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اگر حقیقتاً قرآن میں کوئی تضاد نہ بھی پایا جاتا ہو تو بھی یہ کلام الہٰی ہونے کیلئے کافی ثبوت ہے یا نہیں؟ ہم قرآن کے عمومی دعویٰ کو لے کر بات آگے بڑھاتے ہیں کہ قرآنی دعویٰ کے مطابق اس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، لہٰذا اگر ہم قرآن میں تضادات تلاش کر لیتے ہیں تو قرآنی فارمولے کے تحت ہی قرآن کا انسانی تصنیف ہونا ثابت ہوجائےگا۔
اصول فقہ کی تشریح کے مطابق اس آیت میں لفظِ اختلافاً عام ہے جس میں کوئی تخصیص نہیں پائی جاتی اور اس لفظ کا عموم داخلی و خارجی دونوں قسم کے تضادات کو شامل ہے، داخلی تضاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے اپنے متن میں ایسے بیانات موجود ہوں جو باہم متصادم ہوں اور بیک وقت ان کاتسلیم کیا جانا ممکن نہ ہو۔ اور خارجی تضاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن کا کوئی بیان کسی حقیقتِ مسلّمہ سے متصادم و معارض ہو۔ ہمارادعویٰ یہ ہےکہ قرآن ان دونوں اقسام کے تضادات سے خالی نہیں ہے اور قرآن میں داخلی و خارجی تضادات پائے جاتےہیں، فی الوقت ہم خارجی تضادات سے صرف ِنظر کرتے ہوئےقرآن کے داخلی تضاد کو بیان کرتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے:۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرة٢٩)۔
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے
اس آیت میں یقینی طور پر زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر ہو رہا ہے، (حوالے کے طور پر مومنین کے سلفِ صالحین کی کسی بھی تفسیر کا مطالعہ کر لیجئے) اس آیت کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل امور کا علم ہوتا ہے کہ
٭ اللہ نے زمین اور اس کے متعلقات کوتخلیق کیا یا بالفاظِ دیگر زمین اور اس سے متعلقہ ضروری اسباب کو عدم سے وجود میں لایا۔
٭ اللہ نے زمین اور اس کے متعلقات کو تخلیق کرنے کے بعد تخلیق کے دوسرے منصوبے یعنی آسمان کی تخلیق کی جانب رخ کیا اور سات آسمان تخلیق فرمائے۔
خلاصہ یہ کہ یہ آیت ترتیب تخلیق کی وضاحت کا فائدہ دے رہی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں کسے پہلے پیدا کیا گیا اور کسے بعد میں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ خود قرآن یہاں لفظ ثمً استعمال کر رہا ہے اور عربی داں حضرات کے لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ لفظِ تعقیب کا فائدہ دیتا ہے، لفظِ تعقیب کا مادّہ عقب ہے جس کا مطلب پیچھے ہے، اس لئےثمً جس جملے میں استعمال ہوتا ہے وہاں وقت کی تدریج کا علم ہوتا ہے کہ پہلے کیا واقعہ وجود میں آیا ااور اس کے پیچھے یا بعد میں کیا واقعہ وجود میں آیا۔ مثلاً ہم عربی میں کہتے ہیں کہ جاء زید ثمّ بکر تو اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ زید آیا اوراس کے بعد بکر آیا۔ بکر کے بعد میں آنے پر لفظِ ثمً دلالت کر رہا ہےاس جملہ سے کسی طور پر یہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ زید اور بکر کا آنا متوازی تھااور دونوں کی آمد بیک وقت صادر ہوئی۔
جاسکتا کہ زید اور بکر کا آنا متوازی تھااور دونوں کی آمد بیک وقت صادر ہوئی۔ اس تشریح و توضیح کے بعداس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا قرآن یہی بات بیان کر رہا ہے کہ تخلیق زمین و آسمان میں اولاً زمین کو تخلیق کیا گیا اور پھر اس کے بعد (ثمّ) آسمان کو تخلیق کیا گیا۔ مزید وضاحت و تصریح کیلئے ہم یہاں سورہ فصّلت کی آیات نمبر ٩ تا ١٢ کو بھی ذکر کردیتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت سند رہے۔
(٩) قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (١۰) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (١١) ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١٢) فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
ترجمہ:کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور (بتوں کو) اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو سارے جہان کا مالک ہے اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں ۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس . نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے کام) کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے مزین کیا اور (شیطانوں سے) محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں ۔
ان آیات میں تو باقاعدہ ایام کی تقسیم کے ذریعے بالکل وضاحت کے ساتھ تخلیق کے مراحل کی مکمل تفصیل بیان کردی کہ اللہ نے پہلے زمین کو تخلیق کیا اور پھر متعلقات ِ زمین کو پیدا کیا اور یہ مرحلہ پایہٴ تکمیل تک پہنچا کر اللہ نے آسمانوں کو بنانے کا ارادہ کیا اور سات آسمانوں کو تخلیق کیا۔
اگر سورہ البقرہ کی آیات کے متعلق کوئی موٴمن یہ تصحیح کرنے کی کوشش بھی کرتا کہ سورہ البقرہ کی آیات میں مطلقاً تخلیق کا ذکر ہے، تخلیق کے مراحل کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ تو سورہ الفصلت کی مذکورہ آیات نے اس غیر ضروری تصحیح کا باب بھی ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے کہ جب باقاعدہ تاریخ وار بیان کیا جا رہا ہے کہ کب کس چیز کی تخلیق کی گئی ہے تو تخلیق میں جو تقدیم و تاخیر ہے وہ اب بالکل واضح ہوگئی ہے۔
اب آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کی وہ آیات پیش کرتا ہوں جن کا مذکورہ بالا آیات کے ساتھ واضح طور پر تصادم اور تضاد ہے:۔
٢٧۔ أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا (٢٨) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا (٢٩) وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا (٣۰) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا (٣١) أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (٣٢) وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا
ترجمہ:۔ بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا ٭اس کی چھت کو اونچا کیا اور پھر اسے برابر کر دیا ٭اور اسی نے رات کو تاریک بنایا اور (دن کو) دھوپ نکالی ٭اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا ٭اسی نے اس میں سے اس کا پانی نکالا اور چارا اگایا ٭اور اس پر پہاڑوں کابوجھ رکھ دیا ٭
اب آپ خود ملاحظہ فرمائیے کہ سورة النارعات کی ان آیات میں تخلیق کا عمل بالکل الٹ گیا ہے اور اللہ واضح طورپر بیان کر رہا ہے کہ اللہ نے پہلے آسمان کو بنایا اور اس کی چھت کو اونچا کیا دن اور رات بنائے اور اس مرحلہ کی تکمیل کے بعد زمین کو بچھایا۔
سورہ البقرہ اور سورہ الفصلت کی مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ پہلے زمین کی تخلیق ہوئی اور بعد میں آسمان کی اور سورہ النازعات کی ان آیات میں بیان کیا جا رہا ہے کہ پہلے آسمان کی تخلیق ہوئی اور بعد میں زمین کی ۔ان آیات میں اللہ یا مصنف ِقرآن نے نے لفظِ ثمّ ذکر کرنے کا بھی تکلف نہیں فرمایا بلکہ صراحتاً بعد ذالک (یعنی اور اس کے بعد) کے الفاظ ذکر کرکے اپنی فاش غلطی پر مزید مہر تصدیق ثبت کرکے مومنین کی تمام تر تاویلات کا راستہ بھی بند کردیا ہے۔
زمین و آسمان کی تخلیق کی ترتیب میں یہ انتشار آخر کہاں سے وقوع پذیر ہوا؟ خطائے انسانی یا عطائے ربّانی؟
آیا یہ انسانی نسیان ہے یا اللہ بھی بڑھاپے کے اثرات کی وجہ سے الزائمر کا شکار ہو جاتا ہے؟
اب کوئی بتلائے تو سہی کہ ہم بتلائیں کیا؟
کیا قرآن کے اپنے ہی بیان کردہ فارمولے کے تحت قرآن کا غیر اللہ کی جانب سے ہونا ثابت نہیں ہو جاتا؟
اور یہ تو ابھی مشت از خروارے کے مصداق ایک نمونہ بیان کیا ہے۔ مزید تضادات داخلی و خارجی اور تضادات عقلی و نقلی کیلئے انتظار فرمائیے۔
عقل کے اندھے پچھلی آیتوں میں خلق کا ذکر ھے اور اس میں الدحو کا ذکر ھے کیا ان دونوں کا معنی ایک ھے؟ اگر ایک ھے تو دلیل؟ اگر ایک نہیں ھے تو تعارض کہاں ؟ سچ کہا شاعر نے عقل کے اندہوں کو الٹا نظر آتا ھے ۔ مجنوں نظر آتی ھے لیلی نظر آتا ھے۔
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا
جناب اسی آیت میں لفظ "بناھا” کہا جا رہا ہے، اب آپ یہ فرما دیں کہ "بناھا” سے مراد تخلیق نہیں ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ :
عقل کے اندھوں کو الٹا ہی نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
bot ache
محترمی جناب جنگ صاحب!
لیجئے جناب آپ نے قرآن میں تضاد کا سوال کیا تھا، پیش خدمت ہے قرآن کا قرآن کا تضاد، آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا۔
http://realisticapproach.org/?p=4042
اور
http://realisticapproach.org/?p=3821
(أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء: ٨٢
ترجمہ:۔کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔
مندرجہ بالا آیت میں قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کلام ِالہٰی ہے، اور دلیل یہ ہے کہ اگر یہ کلام انسانی ہوتا تو یقیناً اس میں بہت سے تضادات پائے جاتے۔ کیونکہ وہ ذات جو کائنات جیسے منظّم نظام کو بغیر کسی سقم کے قائم کئے ہوئے ہے(بقول قرآن)یقینی طور پر اس کا کلام بھی ہر قسم کے سقم سے پاک ہونا چاہئے ۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا واقعتاً قرآن میں کسی بھی قسم کا کوئی تضاد پایا جاتا ہے یا نہیں؟ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اگر حقیقتاً قرآن میں کوئی تضاد نہ بھی پایا جاتا ہو تو بھی یہ کلام الہٰی ہونے کیلئے کافی ثبوت ہے یا نہیں؟ ہم قرآن کے عمومی دعویٰ کو لے کر بات آگے بڑھاتے ہیں کہ قرآنی دعویٰ کے مطابق اس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، لہٰذا اگر ہم قرآن میں تضادات تلاش کر لیتے ہیں تو قرآنی فارمولے کے تحت ہی قرآن کا انسانی تصنیف ہونا ثابت ہوجائےگا۔
اصول فقہ کی تشریح کے مطابق اس آیت میں لفظِ اختلافاً عام ہے جس میں کوئی تخصیص نہیں پائی جاتی اور اس لفظ کا عموم داخلی و خارجی دونوں قسم کے تضادات کو شامل ہے، داخلی تضاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے اپنے متن میں ایسے بیانات موجود ہوں جو باہم متصادم ہوں اور بیک وقت ان کاتسلیم کیا جانا ممکن نہ ہو۔ اور خارجی تضاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن کا کوئی بیان کسی حقیقتِ مسلّمہ سے متصادم و معارض ہو۔ ہمارادعویٰ یہ ہےکہ قرآن ان دونوں اقسام کے تضادات سے خالی نہیں ہے اور قرآن میں داخلی و خارجی تضادات پائے جاتےہیں، فی الوقت ہم خارجی تضادات سے صرف ِنظر کرتے ہوئےقرآن کے داخلی تضاد کو بیان کرتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے:۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرة٢٩)۔
وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے
اس آیت میں یقینی طور پر زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر ہو رہا ہے، (حوالے کے طور پر مومنین کے سلفِ صالحین کی کسی بھی تفسیر کا مطالعہ کر لیجئے) اس آیت کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل امور کا علم ہوتا ہے کہ
٭ اللہ نے زمین اور اس کے متعلقات کوتخلیق کیا یا بالفاظِ دیگر زمین اور اس سے متعلقہ ضروری اسباب کو عدم سے وجود میں لایا۔
٭ اللہ نے زمین اور اس کے متعلقات کو تخلیق کرنے کے بعد تخلیق کے دوسرے منصوبے یعنی آسمان کی تخلیق کی جانب رخ کیا اور سات آسمان تخلیق فرمائے۔
خلاصہ یہ کہ یہ آیت ترتیب تخلیق کی وضاحت کا فائدہ دے رہی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں کسے پہلے پیدا کیا گیا اور کسے بعد میں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ خود قرآن یہاں لفظ ثمً استعمال کر رہا ہے اور عربی داں حضرات کے لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ لفظِ تعقیب کا فائدہ دیتا ہے، لفظِ تعقیب کا مادّہ عقب ہے جس کا مطلب پیچھے ہے، اس لئےثمً جس جملے میں استعمال ہوتا ہے وہاں وقت کی تدریج کا علم ہوتا ہے کہ پہلے کیا واقعہ وجود میں آیا ااور اس کے پیچھے یا بعد میں کیا واقعہ وجود میں آیا۔ مثلاً ہم عربی میں کہتے ہیں کہ جاء زید ثمّ بکر تو اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ زید آیا اوراس کے بعد بکر آیا۔ بکر کے بعد میں آنے پر لفظِ ثمً دلالت کر رہا ہےاس جملہ سے کسی طور پر یہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ زید اور بکر کا آنا متوازی تھااور دونوں کی آمد بیک وقت صادر ہوئی۔
جاسکتا کہ زید اور بکر کا آنا متوازی تھااور دونوں کی آمد بیک وقت صادر ہوئی۔ اس تشریح و توضیح کے بعداس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا قرآن یہی بات بیان کر رہا ہے کہ تخلیق زمین و آسمان میں اولاً زمین کو تخلیق کیا گیا اور پھر اس کے بعد (ثمّ) آسمان کو تخلیق کیا گیا۔ مزید وضاحت و تصریح کیلئے ہم یہاں سورہ فصّلت کی آیات نمبر ٩ تا ١٢ کو بھی ذکر کردیتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت سند رہے۔
(٩) قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (١۰) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (١١) ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١٢) فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
ترجمہ:کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور (بتوں کو) اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو سارے جہان کا مالک ہے اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں ۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس . نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے کام) کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے مزین کیا اور (شیطانوں سے) محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں ۔
ان آیات میں تو باقاعدہ ایام کی تقسیم کے ذریعے بالکل وضاحت کے ساتھ تخلیق کے مراحل کی مکمل تفصیل بیان کردی کہ اللہ نے پہلے زمین کو تخلیق کیا اور پھر متعلقات ِ زمین کو پیدا کیا اور یہ مرحلہ پایہٴ تکمیل تک پہنچا کر اللہ نے آسمانوں کو بنانے کا ارادہ کیا اور سات آسمانوں کو تخلیق کیا۔
اگر سورہ البقرہ کی آیات کے متعلق کوئی موٴمن یہ تصحیح کرنے کی کوشش بھی کرتا کہ سورہ البقرہ کی آیات میں مطلقاً تخلیق کا ذکر ہے، تخلیق کے مراحل کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ تو سورہ الفصلت کی مذکورہ آیات نے اس غیر ضروری تصحیح کا باب بھی ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے کہ جب باقاعدہ تاریخ وار بیان کیا جا رہا ہے کہ کب کس چیز کی تخلیق کی گئی ہے تو تخلیق میں جو تقدیم و تاخیر ہے وہ اب بالکل واضح ہوگئی ہے۔
اب آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کی وہ آیات پیش کرتا ہوں جن کا مذکورہ بالا آیات کے ساتھ واضح طور پر تصادم اور تضاد ہے:۔
٢٧۔ أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا (٢٨) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا (٢٩) وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا (٣۰) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا (٣١) أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (٣٢) وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا
ترجمہ:۔ بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا ٭اس کی چھت کو اونچا کیا اور پھر اسے برابر کر دیا ٭اور اسی نے رات کو تاریک بنایا اور (دن کو) دھوپ نکالی ٭اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا ٭اسی نے اس میں سے اس کا پانی نکالا اور چارا اگایا ٭اور اس پر پہاڑوں کابوجھ رکھ دیا ٭
اب آپ خود ملاحظہ فرمائیے کہ سورة النارعات کی ان آیات میں تخلیق کا عمل بالکل الٹ گیا ہے اور اللہ واضح طورپر بیان کر رہا ہے کہ اللہ نے پہلے آسمان کو بنایا اور اس کی چھت کو اونچا کیا دن اور رات بنائے اور اس مرحلہ کی تکمیل کے بعد زمین کو بچھایا۔
سورہ البقرہ اور سورہ الفصلت کی مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ پہلے زمین کی تخلیق ہوئی اور بعد میں آسمان کی اور سورہ النازعات کی ان آیات میں بیان کیا جا رہا ہے کہ پہلے آسمان کی تخلیق ہوئی اور بعد میں زمین کی ۔ان آیات میں اللہ یا مصنف ِقرآن نے نے لفظِ ثمّ ذکر کرنے کا بھی تکلف نہیں فرمایا بلکہ صراحتاً بعد ذالک (یعنی اور اس کے بعد) کے الفاظ ذکر کرکے اپنی فاش غلطی پر مزید مہر تصدیق ثبت کرکے مومنین کی تمام تر تاویلات کا راستہ بھی بند کردیا ہے۔
زمین و آسمان کی تخلیق کی ترتیب میں یہ انتشار آخر کہاں سے وقوع پذیر ہوا؟ خطائے انسانی یا عطائے ربّانی؟
آیا یہ انسانی نسیان ہے یا اللہ بھی بڑھاپے کے اثرات کی وجہ سے الزائمر کا شکار ہو جاتا ہے؟
اب کوئی بتلائے تو سہی کہ ہم بتلائیں کیا؟
کیا قرآن کے اپنے ہی بیان کردہ فارمولے کے تحت قرآن کا غیر اللہ کی جانب سے ہونا ثابت نہیں ہو جاتا؟
The challenged being none-like-it by Quran has been meet here.
http://www.suralikeit.com/
@ayhmdnOwaz
جب تمہیں اس جگہ قرآن کا جواب مل گیا ہے تو اسی سے ہدایت لو، جاوُ، اچھے بچے بنو، شاباش
محترمی جناب ayhmdnOwaz
good shairing,
کم از کم اب کوئی مومن یہ تو نہیں کہہ سکے گا کہ قرآن کے مثل کوئی سورت لانا نا ممکنات میں سے ہے۔
قرآن میں انسانیت کے حوالے سے کوئی رہنمائی دستیاب نہیں ہے، یہی ہمارا موقف ہے۔اگر انسانیت کے حوالے سے قرآن میں کوئی پیغام ہے تو مومنین سامنے لائیں، ہم اس کا پوری تحقیق سے پوسٹ مارٹم کریں گے۔
JUST SHUT UP
The article is nothing but manifestation of rubbish and distortion of history.
So much has been written on the subject and even the orientalist have given testimony that Quran has been recorded correctly and accurately since the begning. However there are academic discussion bout Hadith. What ever is said about Quran collection by ABUBAKR (RTA) is not about Quran but about Prophet’s traditions.
NAUZUBILLAH, QURAN KE KHILAF MUSLMANO KO UKSATA HAI, , ALLAH TUJHEY BADEY KHATRNAK AZAB SE NAUWZENGEY,, QURAN MEIN JO KUCH HAI MAN O AN ALLAH KE FARMAN HAI, AUR US MEIN YEH WAZEH HAI KE ISS KHURAN KO KAYEE LOOG PADHKAR HIDAYATH PAYEE AUR KAYEE TUJH JAISEY GUMRAH HO GAYE,, ISY LIYEE ALLAH NE HIDAYATH HASIL KARNEY KE DUA BHI SUREH FATIHA MEIN SKIKHAYEE, MAMOLEE SE DUNYAVEE FAIDEY KE LIYE TOH MUSLMANOO KO BHATKANEY KE KOSHISH KAR RAHA HAI ,, ALLAH CHAYE TOH UKA IMAAM MAHFOOZ RAHEY GAA, AUR HAMAREY IMMAN MEIN ALLAH ROZ E AFSZON BADHAVA ARU ISTEQAMATH ATA FARMAYE N GEEY,, AMIN S AMIN, TEREY LIYE HIDAYTH KI DUA BHI MANGNA MERI DIL KO GAWARAH NAHI, PHIR BHI ISLAMI AHKAM SE ALLHA SE DUA GOO HON KI ISEY HIDAYTAH ATA FARMA AUR ISKEY AML KO ISLAM KE ISTEQAMATH KE LIYEE CHUN LEY,, YA PHIR ISEY NEESTH O NABOOOD KAR DO, ISKEO AUR ISKI ANEY WALEY NASL KO DUNIYA SA PAAK KAR DOO ,AMI SAMIN,, AUR HAMARI NASLON KO AUR HAMKO ISLAM PER TA KHAYAMATH SALAMATH FARMA , AMIN S AMIN,, DAWAT E ISLAM ,, SAMI KHAN…
DAWAT E ISLAMI ZINDA BAD
Allah Ho Akbar Ya Sub Joth Ha Aur Jotha Insan He Es tra Ki Bat Kar Sakta ha .Bel Farz Ager Es Ko Man Be Liya jai To Sairf Ak Bat K Jwb Do K Islam pher Itni Tazi Sa Kiun Phal Ra ha
Sirf Es Bat Ka Jwb Do Moje Isalam K Manana Wala Pher Es Doniya Ma Kiun Han Aur Harat Muhammad S A W Ko Dona Ki 1 Shakhsiyat Kiun Rakha Gaya Ha Doniya ma Har Liyaz Sa Chai Wo Dini Laiyaz Sa Ho Ya Donyawi Laiyaz Sa
خود ہی مدعی ،خود ہی وکیل ، خود ہی منصف اور فیصلہ بھی اپنے حق میں سُنا دیا۔نہایت فضول اعتراضات۔۔۔۔ آپکی تحریر ہی لا یعنی ہے۔ آپ کی تحریر آپ اپنا رَد ہے۔ یعنی دو سو سال پُرانی سو کالڈ عجمی اور وضع کردہ روایات سے آپ یہ استدلال کر رہے ہیں کہ قرآن کلام ِ الٰہی نہیں۔۔۔ قرآن ، آپ اپنی دلیل ہے میاں۔ تمام کائنات کے ملحدین کو چیلج ہے۔ لاؤ ایسی تحریر جیسا قرآن ہے۔۔۔ چودہ سو سال میں تو لا نہ سکے ۔ اب انٹر نیٹ پہ ّ جھک ّ مارنے سے تمھارے لا یعنی اور بےسرو پا اعتراضات قرآن کی حقانیت کو کسی صورت بھی چیلج نہیں کر سکتے۔ میری طرف سے دعوت ہے تم سب کو اسلام کے دامن ِ رحمت میں آ جاؤ۔ کیونکہ سورج پہ تھُوکا اپنے ہی چہرے پہ گِرتا ہے۔۔۔۔
بے شک قرآن اپنی دلیل خود ہی ہے ، اس حوالے سے خود ہی قرآن کا مطالعہ کریں لیکن غیر جانبداری سے تو حقیقت آشکارہ ہوجاتی ہے کہ قرآن خود ہی خود کہ تضادات سے پر ثابت کرتا ہے۔
Naqshbandi Sahib, Afreen hai aap per, kis khoobsurat peraey men aap ne inki takzeeb ki hai aur kis khoobsurti se dawat di hai … JAZAK ALLAH
I know that this comment perhaps not be published, but none of you could ever ” PROVE” a single conflict in Quraan, its easy for some people to say, write such a thing. From teh life of PROPHET MUHAMMAD (S.A.W.S) till today nobody could prove single conflict, because THERE IS NO CONFLICT IN QURAN, so stop writing such .long stories, just prove a single one
hazoor yet mat bhooliye k mazbab par andha aitqad insan se sochnay samajhnay ki salahiat cheen laita hai. Mai nai shas-o-nadir hi ye dheka k kisi forum par koi mussalman kisi ghair muslim, atheist ya agnostic k sawal ka jawab daleel se dai. Meray tajarbay mai ye bi aaya hai k jo shaks sachi lagan se tehqeeq karta hai, khas tor par khwateen, wo haqeeqat k qarib zaroor pohanch jata hai. Pakistan k hawalay se ye zaroor kehnay ki jasarat karun ga k jahalat mai inh ka koi sani nahi. Inh ki aqal par sirf matam ho sakta hai agar ye waqai hi samajhtay hai k mussalmano ki taadat mai izafa ho raha hai.
I AM A MUSLIM AND I MA PROUD OF IT, MY DEAR FRIENDS I WILL BELIEVE IN THIS WORLD ONLY WHEN ALL ATHEISTS , RATIONALISTS, AND OTHERS WHO CREATE SPECIOUSNESS IN MY MIND WILL CREATE SUCH MEDICINE THAT CAN CURE THE DEATH.