Close

اللہ کی بے بسی

پرانے زمانوں کے انسان کا خدا کو ایجاد کرنے کا مقصد خود کو آندھی طوفانوں اور دیگر قدرتی آفات سے بچانا تھا جس کے بدلے میں وہ خدا کو قربانیاں دیتا تھا پھر جب انسان نے کچھ ترقی کر لی تو اس نے خدا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جن میں ایک اچھائی اور ایک برائی کا خدا تھا اور ظاہر ہے اچھائی کے خدا کا کام محبت بارش وغیرہ دینا تھا جبکہ برائی کے خدا کا کام موت بیماری مصیبت اور قدرتی آفتیں نازل کرنا تھا یوں انسان نے ان ناقابلِ فہم امور کی ایک توجیہ تیار کر لی تھی. پھر انسان نے ان خداؤں کو قربانیان دینی شروع کیں حتی کہ بعض معاشروں میں کنواری خوبصورت لڑکیوں تک کو قربان کردیا جاتا تھا تاکہ خدا کی قربت کی ضمانت حاصل کی جاسکے اور خدا ان قربانیوں کے بدلے میں ان پر بارشیں نازل کرے اور فصلوں کو ہرا بھرا کردے غرض کے تمام قدیمی معاشروں میں خدا ہی انسان کو بچاتا اور اس کے دفاع کیلئیے لڑتا تھا.

پھر جنگوں، نفرتوں اور دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی آیات سے بھرپور تورات کے ساتھ موسی پدھارا اور انسانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ زمین کے حصول کیلئیے جنگیں لڑیں اور خون بہائیں، موسی کے خدا نے صرف اس حکم پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ داود کیلئیے جنگوں کی حکمتِ عملی ترتیب دی اور اپنے عرش سے اتر کر فوجیوں کے ساتھ زمین پر ان کے ساتھ شانہ بشانہ لڑا بلکہ ان سب کے آگے آگے رہا، معلوم ہوتا ہے کہ موسی کے خدا کو اپنی باقی مخلوقات سے کوئی خاص دلچسبی نہیں تھی ماسوائے اس کی اپنی چنیدہ قوم کے چنانچہ اس نے شاہ چاؤول یا شاوول کو وصیت کی کہ وہ ہر حرکت کرنے والی چیز کو قتل کردے، اور چونکہ موسی کے خدا کو اپنی چنیدہ قوم کے علاوہ دوسری کسی بھی قوم سے کوئی دلچسبی نہیں تھی چنانچہ اس نے ان کی سائیڈ لیتے ہوئے انہیں باقی تمام قوموں کی زمین دینے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے حصول کیلئیے ان کے ساتھ دوسری قوموں کو نیست ونابود کرنے کیلئیے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا (یشوع کا سفر).

آغاز میں اسلام بھی اسی ٹائپ کے خدا کے ساتھ نمودار ہوا جب قثم مکہ میں تھا اور لوگوں کو سابقہ انبیاء کے قصے سنا سنا کر ڈرانے کی کوشش کرتا تھا کہ کس طرح خدا نے سابقہ قوموں کو اپنے انبیاء کی بات نہ ماننے پر سزائیں دیں اور انہیں تہس نہس کردیا اور جو ان پر ایمان لائے تھے ان کی حفاظت کی، مگر ہجرت کے بعد خدا کا تصور اور کام دونوں اچانک تبدیل ہوگئے اور خدا کفار پر زمین الٹنے یا طوفان بھیجنے کے قابل نہیں رہا تھا چنانچہ اس نے مومنین سے جنت کے بدلے میں ان کی جان اور مال خرید لیا تاکہ وہ اس کے دین کی نصرت کیلئیے جنگیں لڑیں (اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ – اللہ نے مومنوں سے انکی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں اور اسکے عوض انکے لئے بہشت تیار کی ہے۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ – التوبہ 111) کیونکہ یا تو خدا خود لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا یا سستی کے مارے لڑنا نہیں چاہتا تھا جیسا کہ موسی کے زمانے میں لڑا تھا چنانچہ اس نے مومنین سے ان کی جان ومال خردینے پر اکتفا کیا تاکہ وہ اس کی جگہ لڑ سکیں.

اللہ کی راہ میں قتل یا قتال کرنے والوں کو ایک تیر سے دو شکار کرنے کا موقع مل گیا، دنیا میں عورتوں کو قید کر کے انہیں کنیزیں بنا کر عیش کریں جبکہ آخرت کی جنت میں مزید حوریں ان کی منتظر ہوتیں، جتنا وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اتنی زیادہ کنیزیں اور حوریں انہیں میسر آتیں، عیاشی دینے والا یہ خدا مومنین کو بہت پسند آیا اور وہ اس سے اتنا قریب ہوتے چلے گئے کہ وہ انہیں اپنی طرح انسان کی سی کوئی شئے لگنے لگا چنانچہ انہوں نے اس کیلئیے ہاتھ پیر سننے کیلئیے کان اور بولنے کیلئیے زبان ایجاد کرلی تاہم اس بیچارے خدا کو شادی کی سی اہم صفت سے محروم رکھا تاکہ اس کے بچے نہ پیدا ہوجائیں اور "توحید” کی عمارت ڈھیر نہ ہوجائے، تاہم باقی صفات میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی حتی کہ ابن تیمیہ نے تو اسے ہر رات اپنے عرش پر سے اتر کر زمین کی سیر کرنے پر مجبور کردیا تاکہ وہ مومنین کی دعائیں سنے اور انہیں پورا کرے گویا عرش کے دور ہونے کی وجہ سے خدا کو مومنین کی آواز سننے میں دقت کا سامنا تھا، اگر اس زمانے میں سیٹ لائیٹ سسٹم ایجاد ہوگیا ہوتا تو شاید خدا کو یہ زحمت نہ کرنی پڑتی.

پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کے خدا نے ان کی حفاظت کرنی چھوڑ دی جنہیں جنگوں بیماریوں اور قدرتی آفتوں کا سامنا ہوتا رہا مگر خدا ان کی حفاظت کرنے کیلئیے ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوا. چنانچہ خدا نے جو ذمہ داری نبھانی چھوڑ دی وہ اس کے چمچوں نے سنبھال لی، اب جہاں کافر اپنی حفاظت کیلئیے زلزلہ سے محفوظ عمارتیں، سیلابوں سے بچنے کیلئیے ڈیم اور دیگر چیزیں بنا رہے تھے وہاں مسلمانوں کی ساری توجہ کفار سے اپنے خدا کی حفاظت پر مرکوز رہی، فقہاء نے خوب اجتہاد کر کے کفر کے فتوے تیار کئیے تاکہ ان سے اختلاف کرنے والوں پر لاگو کئیے جاسکیں اور انہیں خدا کا دشمن قرار دیا جاسکے، اس طرح اللہ کے دشمن اس کے دوستوں سے کہیں زیادہ بڑھ گئے، اب جس شخص کو اللہ کا دشمن قرار دے دیا جائے اسے قتل کرنا عین فرض ہوگیا تاکہ اسے قتل کر کے قاتل اللہ کی قربت حاصل کر سکے یوں خدا اپنے دشمنوں سے اپنی حفاظت کرنے سے بھی عاجر ہوگیا اور یہ کام اس نے اسلامی جماعتوں کے شدت پسندوں کے حوالے کردیا جو ساری دنیا میں کینسر کی طرح پھیل گئی ہیں، مراکش میں ایک اسلامی دہشت گرد نے عدالت کو بتایا کہ اس نے مقتول کو اللہ سے قربت حاصل کرنے کیلئیے قتل کیا اور مقتول اللہ سے قربت کیلئیے اس کی پہلی قربانی تھا!! ہالینڈ میں فلم ڈائریکٹر تھیو وین گوخ Theo van Gogh کو قتل کرنے والے محمد بویری نے عدات میں کہا کہ اسے اپنے کئیے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اس نے یہ قتل اللہ سے قربت حاصل کرنے کیلئیے کیا ہے کیونکہ مقتول اللہ کا دشمن تھا!! اسی طرح عراق کے مسلمان دہشت گرد لوگوں کو کیمرے کے سامنے قتل کرتے ہیں اور اس بربریت کو ریکارڈ کر کے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے دشمنوں کو ذبح کر رہے ہوتے ہیں. خدا صرف انسان کی حمایت سے ہی دستبردار نہیں ہوا بلکہ مومنین کو اپنے دشمن قتل کرتے ہوئے دیکھ کر مزے بھی لیتا ہے کیونکہ وہ انہیں خود قتل کرنے سے قاصر ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ اللہ کے دشمن کی صفت اسلام کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی. عائشہ نے موقعہ الجمل میں علی بن ابی طالب سے جنگ کرنے کے بعد جب مدینہ کا رخ کیا تو ام اوفی العبدیہ نامی خاتون اس کے پاس آئی اور کہا کہ اے ام المومنین ایسی عورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے چھوٹے بچے کو قتل کردیا ہوا؟ تو ام المومنین نے جواب دیا کہ اس پر آگ واجب ہوگئی! تو اس خاتون نے کہا تو آپ کا اس عورت کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اپنے بیس ہزار بڑے بچوں کو ایک ساتھ قتل کردیا؟ تو یہاں ام المومنین نے فرمایا کہ: اللہ کی دشمن کو پکڑ لو!!! (العقد الفرید) جو عورت اپنے بچے کو قتل کردے اس پر جہنم کی آگ واجب ہوجاتی ہے مگر جس عورت نے جرات کر کے کہا کہ عائشہ نے علی کے خلاف اپنے موقف کی وجہ سے اپنے ہزاروں بیٹے مروا دیئے وہ صرف عائشہ کی نہیں بلکہ اللہ کی بھی دشمن ٹھہری کیونکہ عائشہ سے دشمنی مول لینا اللہ سے دشمنی مول لینے کے مترادف ہے!؟

جس طرح انسانوں کی حفاظت کی ذمہ داری خدا سے اس کی نا اہلی کی وجہ سے چھین لی گئی اسی طرح خدا خود کوئی فیصلہ کرنے کے بھی قابل نہیں رہا اور یہ بھاری ذمہ داری بھی اسلامی دہشت گردوں کے سر آن پڑی، اس کی مثال عراق میں جیش الاسلام کا یہ بیان ہے جس میں کہا گیا ہے (ملزمان محمد ہارون حماد (سوڈانی شہری) اور ماہر عطایا (سوڈانی شہری) کے معاملے پر جیش الاسلام کی شرعی کمیٹی نے غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کی توبہ سچی ہے لہذا انہیں چھوڑ دیا جائے – الشرق الاوسط 7 اپریل 2005) شرعی کمیٹی کے ارکان نے اللہ کی جگہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں حضرات کی اللہ کے حضور توبہ سچی تھی چنانچہ خدا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس فیصلے کو قبول کرے، خدا نے مداخلت کر کے کسی کو یہ بتانے کی جرات نہیں کی کہ کیا وہ "توبہ نصوح” تھی بھی کہ نہیں.

عجیب بات یہ ہے کہ فقہاء کو اللہ کے باتوں کے خلاف جانے کا پورا حق ہے مثلاً قرآن میں ہے (اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوۡرٍ – اللہ تو مومنوں سے انکے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے۔ بیشک اللہ کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو دوست نہیں رکھتا۔ – الحج 38) آیت صاف صاف کہتی ہے کہ اللہ ہی دشمنوں سے مومنو کی حفاظت کرتا ہے مگر فقہاء کہتے ہیں مومنین کو اللہ کی حفاظت کرنی اور اس کے دشمنوں کو ذبح کرنا چاہئیے جس طرح الجزائر کے دہشت گرد مخالفین کو ذبح کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے دشمن ہیں یا جس طرح سوڈان میں اسلامیوں نے الوفاق اخبار کے چیف ایڈیٹر کو ذبح کرڈالا حالانکہ اس کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا مگر وہ اچانک اللہ کا دشمن بن گیا کیونکہ اس نے "المجہول فی کتاب الرسول” نامی کتاب کے کچھ حصے شائع کردیے تھے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی دنیا میں اللہ کا دشمن بننا کس قدر آسان ہے.

اب جبکہ خدا کو اس کے تمام بنیادی کاموں سے فارغ کردیا گیا حتی کہ وہ اپنے آپ کو اپنے دشمنوں سے بچانے سے بھی عاجز ہوگیا، یوں اس کے سارے کلام کی حیثیت کسی مجذوب کی بڑ سے زیادہ نہیں رہی اور اس کا کوئی حقیقی معنی یا مطلب باقی نہیں رہا، مثلا قرآن میں آتا ہے:

• (اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ – کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ – العنکبوت 45)

چودہ صدیاں پہلے قرآن کے نزول سے لے کر اب تک مسلمان مسلسل نماز پڑھے جارہے ہیں، بلکہ نماز کو انہوں نے ایک نیا خدا بنا ڈالا ہے کیونکہ نماز نہ پڑھنے والا کافر اور واجب القتل ہے، امام احمد نے اپنے مسند میں نماز کیلئیے سات باب وقت کئیے اور بخاری نے محض رفع یدین پر پورا ایک باب لکھ مارا!! یوں نماز ہی نیا خدا ٹھہرا جس کا بنیادی کام انسان کی حفاظت نہیں بلکہ یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کون کافر ہے جو نماز نہیں پڑھتا، یہ بات بھی یقینی ہے کہ نماز نے انہیں کسی قسم کی برائی یا منکر سے نہیں روکا کیونکہ آج کی اسلامی دنیا نے باقی ساری دنیا کی برائیوں کے ریکارڈ توڑ رکھے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ یہ فحشاء اور منکر انڈر گراؤنڈ کرتے ہیں اور کافر برسرِ عام.

کیا وہ خدا جسے اپنے دفاع کے قابل تک نہ چھوڑا گیا ہو کسی کو اپنے اوپر ایمان لانے یا اپنی عبادت کرنے پر قائل کر سکتا ہے جبکہ اسے یہ تک نہیں معلوم کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کیونکہ فقہاء نے اس سے یہ حق کب کا چھین لیا ہے اور اب وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے کیا پسند کرنا چاہیے اور کیا نہیں، ذیل میں کچھ مثالیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کے فیصلے کون کرتا ہے:

• ابن الجوزی کا فرمان ہے کہ (کافروں کو اللہ کی صفات کے حامل نام سے بلانے پر اللہ عز وجل کو غصہ آتا ہے – زاد المعاد ج 2 ص 197)

• بخاری کی حدیث میں ہے (اللہ کو چھینک پسند ہے اور انگڑائی سے نفرت ہے اگر تم میں سے کوئی چھینکے اور اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ سننے والے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسے کہے یرحمک اللہ – سابقہ منبع)

معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی ساری ذمہ داری انسان کی حفاظت کی بجائے فقہاء اور شیخوں کو مذہبی کور فراہم کرنا رہ گئی ہے تاکہ وہ اس کے نام پر لوگوں پر کنٹرول کریں اور اپنی جیبوں کو کرپٹ حاکموں کی دولت سے بھریں جسے یہ ملک کی دولت لوٹ کر حاصل کرتے ہیں، تو کیا خدا کے پاس ایسی کوئی ذمہ داری باقی رہی گئی ہے جسے وہ فقہاء کی مداخلت کے بغیر خود انجام دے سکے؟ اور کیا آج کے انسان کو ایسے خدا کی کوئی ضرورت ہے جو اپنے آپ کو دین کے تاجروں تک سے نہیں بچا سکتا کجا یہ کہ وہ انہیں قدرتی آفتوں سے بجائے گا؟

1 Comment

جواب دیں

1 Comment
scroll to top