Close

الہی منطقیات

دیکھیے ان لوگوں کو جو عبادت گاہوں میں اپنے خداؤں کے آگے بلا تکان ناک رگڑتے خود کو ذلیل کرتے اور منافقت کے آنسو بہاتے ہیں، کبھی کسی نے سوچا کہ ان لوگوں کو یہ سب کرنے پر کیا چیز اکساتی ہے؟ کیا چیز انہیں خود کو ذلیل کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ کیا یہ لوگ یہ سب اپنے خدا کی محبت میں کرتے ہیں؟ خدا سے ان کے تعلق کا راز کیا ہے؟ یہ چاہے کتنا ہی دعوی کیوں نہ کریں کہ وہ یہ سب اپنے خدا کی محبت میں کرتے ہیں تو یہ جھوٹ ہے.

مذہبی منطق کی رو سے بندے اور خدا کا تعلق خرید وفروخت، مصلحت اور خواہشات کی تکمیل کا تعلق ہے، یقیناً مؤمن خدا کی عبادت میں اتنی تکلیفیں جنت کی لالچ میں اٹھاتا ہے، منافقت کے آنسوؤں، حمد وثناء وتسبیح کی وجہ جنت میں حوروں، لونڈوں اور دودھ وشہد وشراب کی نہروں کی لالچ ہے، یہ سب کرنے میں اس کی خواہشات وحاجات ہی اس کے پیش نظر ہوتی ہیں، اسے اپنا مطلب ہوتا ہے خدا کی فکر نہیں ہوتی، اس سے مجھے شاہوں کے ان منافق شعراء کی یاد آتی ہے جو شاہ کی جھوٹی مدح کے لیے صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں تاکہ شاہ کی خوشنودی حاصل کر کے نفع حاصل کیا جاسکے، بندے اور خدا کا تعلق بھی بعینہ یہی ہے، جس طرح شاہوں کے شعراء منافقانہ مدح کرتے ہیں اسی طرح یہ خود کو ذلیل کر کے خدا کے غرور اور کبریاء کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خدا کی محبت یا اسے راضی کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کے پاس جو خزانے ہیں ان کے لیے، خدا کو بھی جو ” دلوں کے بھید خوب جانتا ہے” اس کی خبر ہے مگر چونکہ اس کے غرور وکبریاء کی ہوس پوری ہو رہی ہوتی ہے اور جھکتے روتے گڑگڑاتے غلاموں کا دل آویز منظر اس کے کبریاء کو تسکین پہنچا رہا ہوتا ہے وہ اس منافقت کی پرواہ نہیں کرتا، اس قسم کے تعلق کو تکافلی تعلق کہا جاتا ہے یعنی فائدہ دینا اور فائدہ اٹھانا، ایک ایسا تعلق جسے کسی طرح شریفانہ نہیں کہا جاسکتا اور نا ہی یہ خدا اور مخلوق کے تعلق کی کوئی مثالی صورت ہے.

مخلوق اور خدا کے درمیان یہ غیر اخلاقی اور گرا ہوا تعلق محض یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا، اس کا دوسرا رخ اس سے بھی کہیں بھیانک اور خطرناک ہے، اگر مخلوق کو جنت کی رغبت نہ تو اس صورت میں خدا اسے ڈرا دھمکا کر اور جہنم میں بھوننے کی وعیدیں دے کر عبادت کے لیے مجبور کرتا ہے، اس صورت میں پیدا ہونے والا تعلق دہشت گردانہ وبہیمانہ وجابرانہ ہوتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ خدا عبادت کی یہ جنونی خواہش ہر صورت میں پوری کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی عبادت کے پیچھے اس کی محبت نہیں بلکہ در حقیقت خوف کار فرما ہے وہ اس بہیمانہ تعلق سے صرف نظر کرتا رہتا ہے کیونکہ بالآخر مخلوق اس کے سامنے خود کو ذلیل کر ہی رہی ہوتی ہے.

اس قسم کے تعلقات کی کیا توجیہ ہے؟

اس ظلم وستم کی کیا توصیف ہے؟

بلکہ ایسے خدا کی کیا توصیف ہے جسے محض اپنے غلام بڑھانے اور انہیں ذلیل کرنے کی فکر ہے جبکہ وہ ان کی نیتیں اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ خود سے محبت کرتے ہیں؟

غرض کہ جزاء وسزاء کی سیاست خدا اور مخلوق کی سطح کے تعلق کے لیے قطعی موزوں نہیں.

بیشتر مذاہب اپنے ماننے والوں کو مرنے کے بعد جنت کی نوید سناتے ہیں، زیادہ تر مؤمنین اس جنت کو بڑی سطحیت سے لیتے ہیں، اگر جنت میں زندگی کے تصور کو ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ جنت جنت نہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں بلکہ ایک عذاب ہے، جب ہمیں جنت کی زندگی کی رنگینیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو ہم اس کی لالچ کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم اس کا موازنہ اپنے دنیاوی احساس اور تصور سے کر رہے ہوتے ہیں مگر درحقیقت خواہشات کی تکمیل آخرت کی زندگی میں قطعی مختلف ہوگی.

فرض کریں آپ خدا کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس کے بدلے میں آپ کو جنت نواز دی گئی تو زندگی کا وطیرہ کیسا ہوگا؟ حوروں اور لونڈوں سے گروپ سیکس کرنے اور شراب وشہد کی نہروں سے پیاس بجھالینے کے بعد کیا آپ بور نہیں ہوجائیں گے؟ خاص طور سے جبکہ آپ اپنے اندر یہ بات جانتے ہوں گے کہ یہ سب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا… جب آپ کو یہ احساس ہوگا تب یہ جنت جہنم میں بدل جائے گی! یہ سست وخواہشات کی تکمیل پر مبنی دائمی زندگی ہی اصل عذاب ہے.

انسان میں لذت کے احساس کی وجہ اس کے لاشعور میں اس بات کا ادراک ہے کہ یہ لذت دائمی نہیں، جب انسان خوش ہوتا ہے اور اس خوشی سے لطف اندوز ہوتا ہے تو اس لطف کی وجہ اس کی اپنے عقل باطن میں غم کی موجودگی کا یقین ہے، غم کے بغیر خوشی کی لذت حاصل نہیں کی جاسکتی، خوشی اور غم چاہے کتنے ہی متضاد ہوں یہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں چنانچہ جنت جیسی خالص خوشی ولذت کی زندگی کا وجود نا ممکن ہے.

غم وخوشی کا ایک اور عنصر جو پہلے سے کسی طور کم اہمیت کا حامل نہیں اور وہ زندگی کے فناء اور محدودیت کا لاشعور میں احساس ہے، جب لوگ خوش ہوتے تو ان کی عقل باطن میں یہ ادراک جاگزیں ہوتا ہے کہ زندگی محدود اور مختصر ہے چنانچہ اس سے جتنی خوشیاں کشید کر سکتے ہو کر لو مگر جنت کا انسان کیا کرے گا؟ کیا یہ جانتے ہوئے کہ یہ زندگی ابدی ہے وہ اس سے لطف اندوز ہوسکے گا؟ اس صورت میں جنت یقیناً اسے الٹی پڑ جائے گی اور ایک دن تمام ساکنانِ فردوس اجتماعی خودکشی کر کے خدا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیں گے !!

انبیاء اور مؤمنین یہ جان ہی نہ سکے کہ مسرت کے اسباب مادی نہیں نفسیاتی ہیں، خوشی دراصل ایک عقلی حالت ہے، لذت ومسرت نفس سے اور انسان کی نفسیاتی حالت سے پھوٹتے ہیں، حوروں کی فوج، شراب اور دولت کے انبار دل میں خوشی نہیں ڈال سکتے کہ کتنے ہی زبوں حال مسرت کی ایسی زندگی گزارتے ہیں جن کی امراء بس خواہش ہی کر سکتے ہیں.

انسانی زندگی کی تنظیم میں خدا حلال وحرام کی سیاست پر انحصار کرتا ہے، مگر کیا اسے حرام کرنے کے الٹے اثر کا ادراک نہیں تھا؟ کیا اس نے ” ہر ممنوع مرغوب ہوتا ہے ” کو مد نظر رکھا تھا؟ کیا اس نے اس درخت سے سبق نہیں سیکھا جسے اس نے آدم پر حرام کردیا تھا؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس درخت کو آدم پر حرام نہ کرتا تو وہ اس میں سے کبھی نہ کھاتا؟

حرام کی سیاست حرام کا چیختا اشتہار ہے، یہ اس حرام چیز کی تاکید اور اس پر روشنی ڈالنے کے مترادف ہے جو کہ دوسری صورت میں اندھیروں کے طاقِ نسیاں میں دھری ہوتی اگر اس سے خبردار نہ کیا گیا ہوتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا ہوتے ہوئے وہ یہ بات بھول گیا تھا، اسے سمجھنے کے لیے افلاطون کی ضرورت نہیں، دیکھیے وہ ممنوع کتابیں اور فلمیں جو کہ اگر ممنوع نہ ہوتیں تو کوئی انہیں گھاس نہ ڈالتا، خدا کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ سرخ بتیوں کو توڑنا انسان کی جبلت ہے، حرام فعل میں دہری لذت ہوتی ہے، ایک حرام چیز کی لذت اور ایک حرام کرنے کی لذت، شراب کو حرام کرنے کے بعد اس کی لذت ہی دوگنی ہوگئی، ایک نشہ کی لذت اور دوسری حرام کی لذت… تو کوئی پوچھے اس خدا سے کہ وہ اس سب سے کیا چاہتا ہے؟ کسی چیز کو حرام کر کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا اور پھر اس حرام کو کرنے پر لوگوں کے چیتھڑے اڑانے کے پیچھے اس کا کیا مقصد ہے؟ کیا اسے ان گناہ گاروں کو سزا دینے کی بجائے انہیں جزاء نہیں دینی چاہیے؟ کیا انہوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کی بات نہیں مانی؟ در حقیقت.. کیا خدا نے جنت کے لاکھوں درختوں میں سے محض ایک پر پابندی لگا کر آدم کو خود اس ملعون درخت کو کھانے کی دعوت نہیں دی تھی؟ اور کیا آدم نے اس درخت کو کھا کر اس دعوت پر لبیک نہیں کہا؟ کیا اسے آدم کو انعام سے نہیں نوازنا چاہیے؟

آدم پر بات چلی تو ذہن میں ایک اور قاتلانہ سوال اٹھا… خدا نے ہی کہا تھا کہ ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری (اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا – سورہ الانعام، آیت 164)” تو پھر ہم آدم کے گناہ کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟ اگر اس نے یہ گناہ کیا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ اربوں لوگ ایسے گناہ کا بوجھ کیوں اٹھا رہے ہیں جو انہوں نے سرے سے کیا ہی نہیں؟ تاریخ میں ایسے بڑے قصے پڑھے ہیں جن میں قومیں اپنے حاکموں کی حماقتوں کی سزا بھگتتے ہیں مگر جہاں پوری انسانیت ہی ایک ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہی ہو تو میرے خیال سے یہی عین ظلم ہے خاص طور سے جب جرم محض ایک سیب/گندم کھانے جتنا فضول ہو !!

خدا ہی مورد الزام ہونا چاہیے، نہ صرف یہ کہ اس نے آدم کو وہ درخت کھانے کی کھلی دعوت دی اوپر سے آدم کو جنت سے نکالنے جیسا اتنا بڑا فیصلہ اس کے دور رس اثرات کو مد نظر رکھے بغیر ہی کر ڈالا، اگر وہ سیب والے فضول معاملے سے صرفِ نظر کر لیتا تو غلطیاں وہیں رک جاتیں اور انسانی تاریخ پر محیط خطرناک غلطیاں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی وبربادی وہیں تھم جاتی.

صرف یہی کوئی اکلوتی حرکت نہیں، ہم میں سے کس نے خدا کے ہاتھوں ہونے والی اس انسانی تباہی کے بارے میں نہیں سنا جب اس نے اپنے ایک چہیتے فرشتے کو ایک کافر بستی کو نیست ونابود کرنے کے لیے بھیجا تو فرشتے نے واپس آکر اسے خبر دی کہ اس بستی میں ایک عبادت وپرہیز گزار بندہ بھی رہتا ہے کہ شاید خدا کو اس بستی اور اس کے لوگوں پر ترس آجائے مگر خدا نے چھوٹتے ہی کہا کہ: "ففیہ فابدا (اسی سے شروع کرو!!)” یہ عابد چاہے عابد نا بھی ہو اور چاہے اس کا عمل اور دین اس کی شفاعت نہ کر سکا ہو سزا کا قطعی مستحق نہیں ہے کیونکہ وہ کسی گناہ میں شریک نہیں ہوا، اس کے باوجود خدا خود کو منصف وعادل کہتا ہے، اتنا سادہ سا مسئلہ اگر کسی مبتدی جج کے سامنے بھی پیش کردیا جاتا تو وہ اس میں فیصلہ کرنے میں غلطی نہ کرتا کجا وہ ہستی غلطی کر جائے جس نے روزِ قیامت لوگوں سے حساب لینا ہے؟ انسانیت اس سے کیسے بچ پائے گی جبکہ اس میں انصاف کی ادنی تر خوبی نہیں ہے؟ اس بوڑھے شیخ سے کیوں شروعات کی جائے جبکہ وہ خود کہتا ہے کہ کوئی کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا؟، کاش وہ اس سے سیکھتا اور اپنے کیے پر شرمندہ ہوتا، مگر نہیں کیونکہ ایک اور جگہ پر کہتا ہے کہ: ” اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں کو فواحش پر مامور کر دیا تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے پھر اس پر عذاب کا حکم ثابت ہو گیا۔ اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا۔ – سورہ الاسراء، آیت 16 ” اس خدائی جرم میں اہلِ بستی ہی قیمت چکائیں گے کیونکہ ان کے آسودہ لوگ فواحش کر رہے تھے ! بچوں عورتوں اور بوڑھوں کی چیخ وپکار خدا کی شفاعت ورحمت کو قطعی نہیں جگا سکتیں، باعثِ جنون یہ ہے کہ وہی بستی کے آسودہ لوگوں کو فواحش کرنے کا حکم دیتا ہے حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ: ” قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء (کہدو کہ اللہ بے حیائی کے کام کرنے کا تو حکم نہیں دیتا) سورہ الاعراف، آیت 28 ” کوئی بھی عقل یہ کھلا تضاد قبول نہیں کر سکتی کہ ایک با انصاف خدا ہوتے ہوئے وہ فواحش کا حکم کیونکر دے سکتا ہے؟ اور کیا یہ تباہی مچانی ضروری تھی؟ وہ اس کا الٹ بھی تو کر سکتا تھا کہ بجائے بستی کے آسودہ لوگوں کو فواحش پر لگا کر سزا دینے کے انہیں اچھائی پر لگا کر جزا بھی تو دے سکتا تھا؟

منطق کو کون سی دیوار پر ماروں؟

105 Comments

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
    جناب اینڈرسن شا صاحب ، یہ میرا آپ کے بلاگ پر پہلا تبصرہ ہے امید کرتا ہوں نظرانداز نہیں فرمائیں گے. بات یہ ہے کہ زندگی کے رنج والم ، دکھ، بیماری، پریشانی، قدرتی آفات اور مسائل کو دیکھ کر ایک عام شخص خدا کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ خدا اس سے اسکی خوشیاں چھینا چاہتا، اسے پریشان کرتا، اسے ڈراتا ، دھمکاتا اور فکر میں مبتلا کرتا ہے۔ اس بدگمانی میں وہ فراموش کر بیٹھتا ہے کہ خدا رحمٰن، رحیم، شفیق، مہربان، محبت کرنے والا، پالنے والا اور ساری اچھی صفات کا حامل ہے۔
    اس بدگمانی کی بنیادی وجہ خدا کی اسکیم سے ناواقفیت ہے۔ اگر خدا نے یہ دنیا ہمارے دائمی آرام اور سکون کے لئے بنائی ہوتی تو یہ اعتراض جائز تھا۔ لیکن اس کی دنیا تو ایک امتحان کا کمرہ ہے۔اس کمرے کا رنگ و روغن، پنکھے، کرسیاں،قلم ، دوات اور دیگر سازو سامان عارضی بھی ہے اور یہ محض آزمائش کی غرض سے دیا گیا ہے۔اسی طرح ہر شخص کے امتحانی پرچے سوالات مختلف ہیں۔ کسی کے پرچے میں امارت ہے تو کہیں غربت و افلاس، کسی کے پاس اولاد ہے تو کہیں بے اولادی، کسی اور حکمرانی ملی اور کوئی ایک عامی ہے وغیرہ۔
    ایک امتحان میں بیٹھا طالب علم اپنی مرضی کا سوالنامہ طلب کرے تو بے وقوف ہے۔ اسی طرح ایک انسان خدا کی عطا یا اسکی محرومی پر اعتراض کرے تو پاگل۔ خدا کی اسکیم کو سمجھ لیں تو مادی وسائل کا ملنا اور چھننا برابر ہے کیونکہ دونوں ہی میں آزمائش کا پہلو پوشیدہ ہے۔ لیکن خدا کی اسکیم سے ناواقفیت ہو تو یہ خدا کے بارے میں بد گمانی پیدا کرتی ہے اور یہ بدگمانی کفر تک لے جاسکتی ہے۔ یہ تحریر پروفیسر عقیل صاحب کے بلاگ سے لی گئی ہے، خدا کی اسکیم کے متعلق مزید معلومات ان ہی کے بلاگ سے ملاحظہ فرما لیں : http://aqilkhans.wordpress.com/category/%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD%DB%8C-%DA%A9%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%A7%DA%BA/

    جزاک الله خیر
    عبدالرؤف

      1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
        اسلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
        جناب اینڈرسن شا صاحب ، آپ کا یہ قطعی خیال غلط ہے کہ میں نے آپ کے بلاگ کی مکمل تحقیق کئے بنا ہی تبصرہ کردیا تھا. آپ کی ایک اور غلطی یہ بھی ہے کہ بنا مکمل حقیقت کئے ہی آپ کا انداز کسی بھی بات میں فیصلہ کن ہو جاتا ہے.
        خیر اصل بات یہ ہے کہ کافی عرصہ سے میں آپ کے بلاگ کا خاموش قاری ہوں اور میں نے آپ کے تقریبا تمام مضامین کا بمعہ تبصراجات کے تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ آپ کے بلاگ پر زیادہ تر تبصرہ کرنے والے شرکاء علمی مباحثہ کرنے کے بجائے بہت جلد مضمون نگار کے عقیدہ اور ذات کے متعلق شک کا شکار ہوجاتے ہیں. میرے خیال میں اسکی تین وجوہات ہیں :
        ٠١. آپ کے شائع کردہ مضامین میں بہت ہی کم حوالے ہوتے ہیں. جبکہ زیادہ تر مذہبی مضامین طنزیہ ، منفی اور قاری کو متردد کردینے والے ہوتے ہیں. اور یہ تو آپ کو بھی علم ہوگا کہ بلا تخصیص درستگئی صحت کے کسی بھی مشہور مذہب یا عقائد کے خلاف لکھے ہوے تمام مضامین بلا مستند دلائل کے سختی کے ساتھ ناقابل قبول ہوتے ہیں. چاہے وہ مضامین خود کتنے ہی درست کیوں نہ ہوں.
        ٠٢. آپ کبھی بھی یہ نہیں ظاہر کرتے ہیں کہ جو مضامین آپ شائع کیا کرتے ہیں ، انکی اصل کیا ہے، یعنی کہ آیا وہ آپ کی خود کی تحریر و تحقیق کا نتیجہ ہوتی ہیں یا کسی اور کے مضمون کا ترجمہ ؟ [میرا غالب گمان ترجمہ کی طرف ہے.]
        ٠٣. آپ تبصرہ کرنے والوں کے سوالات کے آسان و سیدھے جوابات دینے کے بجائے گول مول اور مبہم جوابات دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ، اپنے قاری کو مضمون میں کافی متردد کر چکنے کے بعد بھی آپ اپنے جوابات میں بھی کافی طنز کرتے اور انھیں چڑاتے رہتے ہیں.
        امید کرتا ہوں کہ آپ نے میری مخلصانہ باتوں کا قطی برا نہیں منایا ہوگا. یقین جانیں میں نہ تو آپ کو بد عقیدہ تصور کرتا ہوں ، کہ میں آخر کون ہوتا ہوں جو اپنے ہی جیسے کسی اور انسان کے عقیدہ میں شک کروں اور اسکے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کروں [علما و فقہا کی بات اور ہے. کہ یہ انکی ذمہداری ہے کہ دین کی تعلیمات کی روشنی میں عقیدہ کی خرابی کی نشاندہی کریں] اور نہ ہی میرا مقصد آپ کی اصلاح کرنے کا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی واضح کردوں کہ میرا یہ ایمان ہے کہ لوگوں کی بے سروپا باتوں سے نہ تو اسلام کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ ہی اسلام کے رب ، اسکی کتاب اور اسکے نبی کی شان میں کوئی کمی آتی ہے. ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ان باتوں سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوجاتی ہے. اور اسی کی روک تھام کے لیے پاکستان میں ختم نبوت اور توہین رسالت کے قوانین نافذ کیے گیے ہیں.

        میری اس طویل وضاحت کے بعد اب آپ کی بھی مہربانی ہوگی کہ آپ ان منطقی مغالطوں کی نشاندہی فرما دیں ، جن سے آپ کے خیال میں جناب عقیل صاحب کا مضمون بھرا ہوا ہے. کیونکہ میں نے اس مضمون کو نہایت توجہ سے پڑھا ہے اور میری کوتاہ نظری کہ مجھ کو کوئی غلطی نظر نہیں آ رہی ہے. باقی رہی الله رب العزت کی اسکیم کے متعلق ساری تفصیلات تو خود قرآن میں درج ہے اور آپ کو لازمی اسکا علم ہوگا کیونکہ ایک صاحب کو آپ نے چلینج کرتے ہوے دعوی کیا تھا کہ ماشا الله سے آپ کو قرآن بمعہ ترجمہ کے حفظ ہے. خیر الله رب العزت کی اسکیم کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے بمعہ قرآنی و عقلی دلائل کے جناب عقیل صاحب ہی کا لکھا ہو ایک دلچسپ افسانہ یہاں سے ملاحضہ کیا جاسکتا ہے :
        http://aqilkhans.wordpress.com/2011/10/11/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D8%A2%DB%8C%D8%A7-%DB%81%D9%88%DA%BA%D8%9F%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AF%D9%84/
        جزاک الله خیر
        عبدالرؤف

        1. " جناب اینڈرسن شا صاحب ، آپ کا یہ قطعی خیال غلط ہے کہ میں نے آپ کے بلاگ کی مکمل تحقیق کئے بنا ہی تبصرہ کردیا تھا. آپ کی ایک اور غلطی یہ بھی ہے کہ بنا مکمل حقیقت کئے ہی آپ کا انداز کسی بھی بات میں فیصلہ کن ہو جاتا ہے. "

          جہاں تک میرا خیال ہے آپ نے پہلے مندرجہ بالا تبصرہ کیا تھا بعد میں بلاگ کے دیگر موضوعات کا مطالعہ کیا تھا 🙂 خیر ہوسکتا ہے میں غلط ہوں، جہاں تک آپ کی دوسری بات کا تعلق ہے کہ تو یہ نتیجہ آپ نے کیسے اخذ کیا؟

          " خیر اصل بات یہ ہے کہ کافی عرصہ سے میں آپ کے بلاگ کا خاموش قاری ہوں اور میں نے آپ کے تقریبا تمام مضامین کا بمعہ تبصراجات کے تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ آپ کے بلاگ پر زیادہ تر تبصرہ کرنے والے شرکاء علمی مباحثہ کرنے کے بجائے بہت جلد مضمون نگار کے عقیدہ اور ذات کے متعلق شک کا شکار ہوجاتے ہیں. میرے خیال میں اسکی تین وجوہات ہیں : "

          جہاں تک قارئین کے رویے کی بات ہے تو آپ کی بات درست ہے لیکن اس کی وجوہات پر میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا، اصل بات یہ ہے کہ یہاں مذہب پر رتی برابر بھی تنقید کسی کو برداشت نہیں یہی وجہ ہے کہ آم لوگ فوراً عقائد پر آجاتے ہیں جن پر خود امت مسلمہ آج تک متفق نہیں ہوسکی..

          " ٠١. آپ کے شائع کردہ مضامین میں بہت ہی کم حوالے ہوتے ہیں. جبکہ زیادہ تر مذہبی مضامین طنزیہ ، منفی اور قاری کو متردد کردینے والے ہوتے ہیں. اور یہ تو آپ کو بھی علم ہوگا کہ بلا تخصیص درستگئی صحت کے کسی بھی مشہور مذہب یا عقائد کے خلاف لکھے ہوے تمام مضامین بلا مستند دلائل کے سختی کے ساتھ ناقابل قبول ہوتے ہیں. چاہے وہ مضامین خود کتنے ہی درست کیوں نہ ہوں. "

          اس نقطے سے بھی میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا، بلکہ کوئی بھی غیر جانبدار شخص آپ سے اتفاق نہیں کرے گا کہ میرے مضامین میں حوالے نہیں ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس جتنے حوالے میں دیتا ہوں شاید ہی کوئی دیتا ہو، اس بات کا اقرار تو میرے مخالفین بھی کر چکے ہیں شاید آپ کی نظر سے نہ گزرا ہو، اکثر اوقات تو کئی مضامین حوالہ جات کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے التواء کا شکار رہتے ہیں، اب بھی تین عدد تحریریں پانچ ماہ سے محض اسی لیے التواء کا شکار پڑی ہیں، لہذا آپ کا یہ نقطہ میں مسترد کرتا ہوں.. 🙂

          " ٠٢. آپ کبھی بھی یہ نہیں ظاہر کرتے ہیں کہ جو مضامین آپ شائع کیا کرتے ہیں ، انکی اصل کیا ہے، یعنی کہ آیا وہ آپ کی خود کی تحریر و تحقیق کا نتیجہ ہوتی ہیں یا کسی اور کے مضمون کا ترجمہ ؟ [میرا غالب گمان ترجمہ کی طرف ہے.] "

          بعینہ یہی سوال آپ کسی اور بلاگر سے کر کے دیکھیں، اپنے پسندیدہ عقیل صاحب سے ہی کر لیں 🙂

          " ٠٣. آپ تبصرہ کرنے والوں کے سوالات کے آسان و سیدھے جوابات دینے کے بجائے گول مول اور مبہم جوابات دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ، اپنے قاری کو مضمون میں کافی متردد کر چکنے کے بعد بھی آپ اپنے جوابات میں بھی کافی طنز کرتے اور انھیں چڑاتے رہتے ہیں. "

          یہ بات درست ہے، لیکن آپ نے صرف اس کے ایک پہلو کو اجاگر کیا ہے، یہ حرکت میں کس کے ساتھ کرتا ہوں؟ صرف ان لوگوں کے ساتھ جنہیں مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہے یا جو صرف بے دلیل بونگیاں مارنے آتے ہیں..

          " امید کرتا ہوں کہ آپ نے میری مخلصانہ باتوں کا قطی برا نہیں منایا ہوگا. یقین جانیں میں نہ تو آپ کو بد عقیدہ تصور کرتا ہوں ، کہ میں آخر کون ہوتا ہوں جو اپنے ہی جیسے کسی اور انسان کے عقیدہ میں شک کروں اور اسکے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کروں [علما و فقہا کی بات اور ہے. کہ یہ انکی ذمہداری ہے کہ دین کی تعلیمات کی روشنی میں عقیدہ کی خرابی کی نشاندہی کریں] اور نہ ہی میرا مقصد آپ کی اصلاح کرنے کا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی واضح کردوں کہ میرا یہ ایمان ہے کہ لوگوں کی بے سروپا باتوں سے نہ تو اسلام کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ ہی اسلام کے رب ، اسکی کتاب اور اسکے نبی کی شان میں کوئی کمی آتی ہے. ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ان باتوں سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوجاتی ہے. اور اسی کی روک تھام کے لیے پاکستان میں ختم نبوت اور توہین رسالت کے قوانین نافذ کیے گیے ہیں. "

          یہ باتیں بہت اچھی ہیں 🙂

          " میری اس طویل وضاحت کے بعد اب آپ کی بھی مہربانی ہوگی کہ آپ ان منطقی مغالطوں کی نشاندہی فرما دیں ، جن سے آپ کے خیال میں جناب عقیل صاحب کا مضمون بھرا ہوا ہے. کیونکہ میں نے اس مضمون کو نہایت توجہ سے پڑھا ہے اور میری کوتاہ نظری کہ مجھ کو کوئی غلطی نظر نہیں آ رہی ہے. باقی رہی الله رب العزت کی اسکیم کے متعلق ساری تفصیلات تو خود قرآن میں درج ہے اور آپ کو لازمی اسکا علم ہوگا کیونکہ ایک صاحب کو آپ نے چلینج کرتے ہوے دعوی کیا تھا کہ ماشا الله سے آپ کو قرآن بمعہ ترجمہ کے حفظ ہے. "

          اتفاق سے اس امتحان کا جواب پہلے ہی یہاں موجود ہے 🙂

          http://realisticapproach.org/?p=2880

          "خیر الله رب العزت کی اسکیم کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے بمعہ قرآنی و عقلی دلائل کے جناب عقیل صاحب ہی کا لکھا ہو ایک دلچسپ افسانہ یہاں سے ملاحضہ کیا جاسکتا ہے : "

          شکریہ، مگر خیال رہے کہ میں اس پر کوئی رائے زنی نہیں کرنے والا.. 🙂

          1. جہاں تک میرا خیال ہے آپ نے پہلے مندرجہ بالا تبصرہ کیا تھا بعد میں بلاگ کے دیگر موضوعات کا مطالعہ کیا تھا خیر ہوسکتا ہے میں غلط ہوں، (مجھے افسوس ہے کہ آپ کا خیال غلط ہے، ثبوت یہ ہے کہ تقریبا ٥ ماہ پہلے ٩ اکتوبر ٢٠١١ کو آپ کو twitter پر یہ پیغام (@RealisticAppro : Hi, Why your blog is not working? I hope every thing is fine. [realisticapproach.org]) کسی اور نے نہیں بلکہ میں نے ہی بھیجا تھا) جہاں تک آپ کی دوسری بات کا تعلق ہے کہ تو یہ نتیجہ آپ نے کیسے اخذ کیا؟(آپ کے مضامین اور جوابات دونوں ہی سے آپ کی یہ عادت جھلکتی ہے ، مثال کے طور پر آپ نے میرے پہلے تبصرے کے سلسلے میں جو رائے قائم کی تھی وہ ظاہر ہے کہ بنا کسی تحقیق کے ہی کی تھی نا ! اور پھر میرے دوسرے تبصرے میں اچھی خاصی وضاحت کے باوجود بھی آپ نے میری بات پر یقین نہیں کیا کہ میں کافی عرصہ سے آپ کے بلاگ کا خاموش قاری ہوں. پس ثابت ہو کہ میرا اندازہ کچھ اتنا زیادہ غلط بھی نہیں ہے.)
            جہاں تک قارئین کے رویے کی بات ہے تو آپ کی بات درست ہے لیکن اس کی وجوہات پر میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا، اصل بات یہ ہے کہ یہاں مذہب پر رتی برابر بھی تنقید کسی کو برداشت نہیں یہی وجہ ہے کہ آم لوگ فوراً عقائد پر آجاتے ہیں جن پر خود امت مسلمہ آج تک متفق نہیں ہوسکی..(تنقید کا برداشت نہ کرنا تو انکی عقیدت و حمیت کی بنا پر ہوتا ہے ، کیونکہ چاہے کوئی خود دین پر رتی برابر بھی عمل نہ کرتا ہو مگر پھربھی دین کے سلسلے میں وہ کوئی تنقید اس لیے برداشت نہیں کرتا ہے کیونکہ اسطرح اسکے ان عقائد پر چوٹ پڑتی ہے جن کی بنیاد پر اسکی زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے با الفاظ دیگر آپ اسکے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں وہ اسکو برداشت بھی کرلے ؟ یہ کام صرف آزمودہ و پختہ کار لوگوں کا ہے اور عام افراد سے ایسی امید رکھنا دیوانگی ہے- افسوس کہ امت مسلمہ کے بنیادی عقائد کے حوالے سے بھی آپ کی رائے غلط ہے کیونکہ اگر اس حوالہ سے آپ کی بات درست مان لی جاے تو پھر یہ ماننا پڑے گا ہے کہ دراصل ایسی کسی امت کا کبھی وجود ہی نہیں رہا ہے جسکو امت مسلمہ کہا جاسکے، جبکہ اس بات کا انکار نا ممکن ہے. تو ثابت ہوا کہ آپ کا خیال غلط ہے.)
            اس نقطے سے بھی میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا، بلکہ کوئی بھی غیر جانبدار شخص آپ سے اتفاق نہیں کرے گا کہ میرے مضامین میں حوالے نہیں ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس جتنے حوالے میں دیتا ہوں شاید ہی کوئی دیتا ہو، اس بات کا اقرار تو میرے مخالفین بھی کر چکے ہیں شاید آپ کی نظر سے نہ گزرا ہو، اکثر اوقات تو کئی مضامین حوالہ جات کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے التواء کا شکار رہتے ہیں، اب بھی تین عدد تحریریں پانچ ماہ سے محض اسی لیے التواء کا شکار پڑی ہیں، لہذا آپ کا یہ نقطہ میں مسترد کرتا ہوں.. (میں بھی ایک غیر جانبدار آدمی ہوں ، خیر آپ کی مرضی ہے قبول کریں یا مسترد.)
            بعینہ یہی سوال آپ کسی اور بلاگر سے کر کے دیکھیں، اپنے پسندیدہ عقیل صاحب سے ہی کر لیں (میں تو اس بات پر توجہ دلانا کہ رہا تھا کہ جب عام روش سے ہٹ کر بات کی جاتی ہے تو مضبوط دلائل بھی ساتھ میں دینے پڑتے ہیں. ورنہ آپ کی بات کی اہمیت نہیں ہوتی ہے.)
            یہ بات درست ہے، لیکن آپ نے صرف اس کے ایک پہلو کو اجاگر کیا ہے، یہ حرکت میں کس کے ساتھ کرتا ہوں؟ صرف ان لوگوں کے ساتھ جنہیں مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہے یا جو صرف بے دلیل بونگیاں مارنے آتے ہیں..(مگر یہ اہل علم کا طرز عمل نہیں ہے.)
            یہ باتیں بہت اچھی ہیں (بے لاگ تنقید کو کھلے دل سے قبول کرنے کا شکریہ)
            اتفاق سے اس امتحان کا جواب پہلے ہی یہاں موجود ہے
            http://realisticapproach.org/?p=٢٨٨٠( پہلے سے پڑھ رکھا ہے، قضا و قدر کی بحث ہے ، مگر پھر بھی منطققی مغالطوں کی نشاندہی نہیں کی ؟)
            شکریہ، مگر خیال رہے کہ میں اس پر کوئی رائے زنی نہیں کرنے والا.. (آپ کی مرضی)

          2. (مجھے افسوس ہے کہ آپ کا خیال غلط ہے، ثبوت یہ ہے کہ تقریبا ٥ ماہ پہلے ٩ اکتوبر ٢٠١١ کو آپ کو twitter پر یہ پیغام (@RealisticAppro : Hi, Why your blog is not working? I hope every thing is fine. [realisticapproach.org]) کسی اور نے نہیں بلکہ میں نے ہی بھیجا تھا

            یہ جان کر اچھا لگا تاہم میں نے یہ نتیجہ یوں اخذ کیا کہ تبصرہ کرنے کے بعد آپ کا آئی پی دیگر موضوعات کا مطالعہ کرتے ہوئے پایا گیا، اگر آپ اتنے پرانے قاری ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ پہلے تبصرے کے بعد آپ پڑھے ہوئے موضوعات کو دوبارہ کیوں پڑھ رہے تھے؟

            آپ کے مضامین اور جوابات دونوں ہی سے آپ کی یہ عادت جھلکتی ہے ، مثال کے طور پر آپ نے میرے پہلے تبصرے کے سلسلے میں جو رائے قائم کی تھی وہ ظاہر ہے کہ بنا کسی تحقیق کے ہی کی تھی نا ! اور پھر میرے دوسرے تبصرے میں اچھی خاصی وضاحت کے باوجود بھی آپ نے میری بات پر یقین نہیں کیا کہ میں کافی عرصہ سے آپ کے بلاگ کا خاموش قاری ہوں. پس ثابت ہو کہ میرا اندازہ کچھ اتنا زیادہ غلط بھی نہیں ہے.

            میرا خیال ہے میں اس کا جواب اوپر کے تبصرے میں دے چکا ہوں، میں نے رائے آئی پی کی بنیاد پر قائم کی تھی.

            تنقید کا برداشت نہ کرنا تو انکی عقیدت و حمیت کی بنا پر ہوتا ہے ، کیونکہ چاہے کوئی خود دین پر رتی برابر بھی عمل نہ کرتا ہو مگر پھربھی دین کے سلسلے میں وہ کوئی تنقید اس لیے برداشت نہیں کرتا ہے کیونکہ اسطرح اسکے ان عقائد پر چوٹ پڑتی ہے جن کی بنیاد پر اسکی زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے با الفاظ دیگر آپ اسکے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں وہ اسکو برداشت بھی کرلے ؟ یہ کام صرف آزمودہ و پختہ کار لوگوں کا ہے اور عام افراد سے ایسی امید رکھنا دیوانگی ہے- افسوس کہ امت مسلمہ کے بنیادی عقائد کے حوالے سے بھی آپ کی رائے غلط ہے کیونکہ اگر اس حوالہ سے آپ کی بات درست مان لی جاے تو پھر یہ ماننا پڑے گا ہے کہ دراصل ایسی کسی امت کا کبھی وجود ہی نہیں رہا ہے جسکو امت مسلمہ کہا جاسکے، جبکہ اس بات کا انکار نا ممکن ہے. تو ثابت ہوا کہ آپ کا خیال غلط ہے.

            سیدھی سی بات ہے، لوگوں کو اگر تنقید برداشت نہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایسے ناقدانہ ویب سائٹس کی زیارت کرنا چھوڑ دیں، صرف اس بنیاد پر کہ لوگوں کو تنقید پسند نہیں تنقید نہیں چھوڑی جاسکتی، اس ضمن میں ہمارے لوگوں کا رویہ انتہائی منافقانہ ہوتا ہے، جب کسی اور کے دین پر تنقید ہوتی ہے تو یہ خوشی سے نعرے لگاتے ہیں اور جب ان کے اپنے دین پر ہوتی ہے تو پھر رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں، کیا دوسروں کے دین پر تنقید کرنے سے ان کے عقائد پر چوٹ نہیں پڑتی؟ اسلامی عقائد کے حوالے سے آپ کی بات لا علمی پر مبنی ہے، کیا بریلوی عقائد اور دیوبندی عقائد ایک ہیں؟ کیا دیوبندی عقائد اور اہل حدیث عقائد ایک ہیں؟ اور کیا شیعہ عقائد باقی عقائد سے میل کھاتے ہیں؟ یقینا نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ سب فرقے ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں لہذا ایسی کسی امت کا کوئی وجود نہیں سوائے معدودے چندے لوگوں کے دماغوں میں.

            میں تو اس بات پر توجہ دلانا کہ رہا تھا کہ جب عام روش سے ہٹ کر بات کی جاتی ہے تو مضبوط دلائل بھی ساتھ میں دینے پڑتے ہیں. ورنہ آپ کی بات کی اہمیت نہیں ہوتی ہے.

            یہ بات درست ہے کہ عام روش سے ہٹ کر بات کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ مضبوط دلائل سے ہی بات کی ہے، اب چونکہ دلائل ایک مخصوص عقیدے کے خلاف ہوتے ہیں اس لیے آپ کی طرح اکثریت کو انہیں تسلیم کرنے میں تامل ہوتا ہے ورنہ انہیں اپنے عقائد سے ہاتھ دھونا پڑے گا، لہذا آسان طریقہ یہی ہوتا ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ سامنے والے نے کوئی دلیل پیش نہیں کی، آپ میری کوئی بھی بات بے دلیل ثابت نہیں کر سکتے.

            مگر یہ اہل علم کا طرز عمل نہیں ہے.

            اہل علم ہونے کا کبھی دعوی بھی نہیں کیا، میں جتنا درست ہوسکتا ہوں اتنا ہی غلط بھی ہوسکتا ہوں 🙂

            پہلے سے پڑھ رکھا ہے، قضا و قدر کی بحث ہے ، مگر پھر بھی منطققی مغالطوں کی نشاندہی نہیں کی ؟

            تحریر میں واضح جواب موجود ہے، میں کسی کی تحریر کو خصوصی نشانہ بنا کر کوئی محاذ نہیں کھولنا چاہتا، تحریر آپ کی ہوتی تو بات ہوسکتی تھی 🙂

          3. پہلے تبصرے کے بعد آپ پڑھے ہوئے موضوعات کو دوبارہ کیوں پڑھ رہے تھے؟ (محص یاداشت کو تازہ کرنے کے لیے. کہ مجھ کو قوی امید تھی کہ آپ سے لمبی بحث چھڑ جا ئے گی )
            سیدھی سی بات ہے، لوگوں کو اگر تنقید برداشت نہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایسے ناقدانہ ویب سائٹس کی زیارت کرنا چھوڑ دیں، صرف اس بنیاد پر کہ لوگوں کو تنقید پسند نہیں تنقید نہیں چھوڑی جاسکتی، اس ضمن میں ہمارے لوگوں کا رویہ انتہائی منافقانہ ہوتا ہے، جب کسی اور کے دین پر تنقید ہوتی ہے تو یہ خوشی سے نعرے لگاتے ہیں اور جب ان کے اپنے دین پر ہوتی ہے تو پھر رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں، کیا دوسروں کے دین پر تنقید کرنے سے ان کے عقائد پر چوٹ نہیں پڑتی؟(کچھ کچھ آپ کی بات بھی درست ہے، اس ضمن میں ہم سب کو اصلاح کی ضرورت ہے)
            اسلامی عقائد کے حوالے سے آپ کی بات لا علمی پر مبنی ہے، کیا بریلوی عقائد اور دیوبندی عقائد ایک ہیں؟ کیا دیوبندی عقائد اور اہل حدیث عقائد ایک ہیں؟ اور کیا شیعہ عقائد باقی عقائد سے میل کھاتے ہیں؟ یقینا نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ سب فرقے ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں لہذا ایسی کسی امت کا کوئی وجود نہیں سوائے معدودے چندے لوگوں کے دماغوں میں. (شیعہ کو چھوڑ کر باقی گروہ پچھلے ١٥٠ سال میں بنے ہیں ، تو کیا اس سے بھی امت کا وجود نہیں تھا؟ ویسے بھی یہ سارے سنی گروہ صرف برصغیر کی پیداوار ہیں تو کیا ان کے علاوہ کہیں بھی مسلمان نہیں ہیں؟ اور پھر آپس میں یہ بھی صرف فروعات پر اختلاف کرتے ہیں اور اصول میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے سوائے شیعہ یا قادیانی فرقوں کے ساتھ. اس لیے یہ آپس میں کسی کو کافر نہیں کہتے ہیں سوائے کچھ شیعہ یا سب قادیانی فرقوں کے, واضح رہے میں ہر گروہ کے اجتماعی عقائد کی بات کر رہا ہوں نہ کہ کسی کے انفرادی عقیدہ یا عمل کی.)
            آپ میری کوئی بھی بات بے دلیل ثابت نہیں کر سکتے.(اگر چیلنج کر رہے ہیں تو پھر تو آپ کے ہر ہر مضمون کا پوسٹ مارٹم کرنا پڑے گا جس کے لیے نہ تو میرے پاس اتنا وقت ہے اور نہ ہی آپ آپ کے پاس ہوگا. ورنہ ثبوت کے طور پر دیکھ لیں کہ اسی مضمون میں یہ باتیں بلادلیل تحریر کی گئی ہیں یا پھر فکری مغالتوں سے پر ہیں :
            (منافقت کے آنسو بہاتے ہیں -) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا آپ لوگوں کے دلوں کے بھید جانتے ہیں؟
            (مؤمن خدا کی عبادت میں اتنی تکلیفیں جنت کی لالچ میں اٹھاتا ہے) – دلیل کہاں ہے ؟ – احسان مند و عشق حقیقی بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں ؟
            (اسے اپنا مطلب ہوتا ہے خدا کی فکر نہیں ہوتی)- – دلیل کہاں ہے ؟ – کیونکہ چاہے اسکی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے – اور جب وہ ہی سب کا حاکم و داتا ہے اور وہ حکم دیتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا اور اسکے سوا کسی کے پاس کچھ بھی اختیار نہیں کہ کسی کو کچھ دے یا لے سکے تو پھر ظاہر ہے کہ اسی سے ہی مانگا جائے گا ، کیا آپ کے خیال میں خدا کے منکرین و خدا کے نافرمان ابلیس کو کوئی اور نوازتا ہے؟ اور خدا کی کیا فکر کرنی ہے ؟ کیا کوئی مخلوق بھی کبھی خالق کے لیے اصول مرتب کرتی ہے؟
            (یہ خود کو ذلیل کر کے خدا کے غرور اور کبریاء کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خدا کی محبت یا اسے راضی کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کے پاس جو خزانے ہیں ان کے لیے) – دلیل کہاں ہے ؟ – جسکو مالک کی خشنودی اور حمایت حاصل ہو تو پھر اسکو کوئی اور فکر یا اسکی کوئی اور حاجت باقی رہے گی کیا؟
            (وہ اس منافقت کی پرواہ نہیں کرتا،) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا آپ نے قرآن میں منافقین کے متعلق الله کا فیصلہ نہیں پڑھ رکھا ہے؟ اسی لیے مسلسل عرض کر رہا ہوں کہ اس دنیاوی زندگی کے متعلق قرآن میں بتائی گئی خدائی اسکیم کو سمجھنے کی کوشش کریں ، کیونکہ سارے مسائل کی جڑ اسی خدائی اسکیم سے لاعلمی یا پھر درست طور سے نہ سمجھنا ہے.
            ( انبیاء اور مؤمنین یہ جان ہی نہ سکے کہ مسرت کے اسباب مادی نہیں نفسیاتی ہیں) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا آپ کا یہ دعوی درست مان لینے کی صورت میں ہم تمام انبیا اور مومنین کو گمراہ اور آپ جناب کو حق پر تسلیم نہیں کرلیتے ہیں؟ تو پھر کون سی بات زیادہ درست ہو سکتی ہے. ایک آدمی درست اورتمام انبیا اور مومنین گمراہ یا پھر اوہ ایک آدمی گمراہ اور تمام انبیا اور مومنین حق پر ؟ برائے مہربانی منطق کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش فرمایے گا.
            (ایک دن تمام ساکنانِ فردوس اجتماعی خودکشی کر کے خدا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیں گے) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا جنت میں جانے کے بعد بھی موت کا امکان ہے؟
            (کتنے ہی زبوں حال مسرت کی ایسی زندگی گزارتے ہیں جن کی امراء بس خواہش ہی کر سکتے ہیں)مگر وہ پرمسرت زندگی کے حامل افراد انہی امرا کے طرز حیات پر رشک کرتے اور دن ، رات ان جیسی ہی آسائشیں پانے کی کوششوں میں زندگی برباد کرتے ہیں. اس بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیں ؟
            (انسانی زندگی کی تنظیم میں خدا حلال وحرام کی سیاست پر انحصار کرتا ہے) تو کیا آپ کے خیال میں انسان کی تخلیق تو الله نے کی ہے ، مگر آپ اس سے زیادہ انسان کی نفسیات کو جانتے ہیں کہ وہ تو قرآن میں جنت کی نعمتیں گنوارہا ہے اور آپ کہتے ہیں جنت جیسی خالص خوشی ولذت کی زندگی کا وجود نا ممکن ہے ؟
            (تو کوئی پوچھے اس خدا سے کہ وہ اس سب سے کیا چاہتا ہے؟ کسی چیز کو حرام کر کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا اور پھر اس حرام کو کرنے پر لوگوں کے چیتھڑے اڑانے کے پیچھے اس کا کیا مقصد ہے؟) امتحان اور آزمائش کس بلا کا نام ہے؟ کامیابی و ناکامی کس بات پر منحصر ہوتی ہے؟ ساکنان جنت و دوزخ کا انتخاب کس بنیاد پر ہوگا؟ خبردار اب جبریہ و قدریہ کی بحث چھیڑنے سے پہلے یہ یاد رکھیے گا کہ انسان اتنا بااختیار ہے کہ ایک وقت میں اپنی ایک ٹانگ زمین سے اٹھا کر بھی بآسانی کھڑا رہ سکتا ہے مگر وہی انسان ایک ہی وقت میں بنا کسی سہارے کے زمین سے اپنی دونوں ٹانگیں ایک ساتھ اٹھانے کی صورت میں زمین پر گر جانے پر مجبور ہے. بس اتنا سا فرق ہے انسان کے اختیار اور اسکی تقدیر میں.
            (کیا اسے ان گناہ گاروں کو سزا دینے کی بجائے انہیں جزاء نہیں دینی چاہیے؟ کیا انہوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کی بات نہیں مانی) آپ ہی کے سوال کو ذرا گھما کر کرتا ہوں کہ – ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے جس میں کچھ ایسے اعمال مذکور ہوتے ہیں جن کے کرنے پر سزا وہ دیتے ہیں ، تو کیا آپ کی یہی منطق وہاں بھی لاگو ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اور اگر نہیں تو پھر پہلے سے ممنوع چیزوں پر متنبہ کرنے کے لیے خدا پر بے انصافی کا الزام کیوں؟
            ( تو پھر ہم آدم کے گناہ کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟)- دلیل کہاں ہے ؟ – ایک اور مغالطہ – یہ کس نے کہا کہ آپ ہمارے جدامجد آدم علیہ سلام کے کسی گناہ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں – پھر عرض کروں گا خدارا الله کی خدائی اسکیم برائے تخلیق انسان کو سمجھ لیں انشاالله تمام مشکلیں آسان ہو جائیں گی.
            (جب جرم محض ایک سیب/گندم کھانے جتنا فضول ہو) – اول تو جرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا جرم ہی ہوتا ہے. اب آپ ایک قتل کریں یا ١٠٠ ، سب ہی جرم ہیں. دوئم ادھر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ الله ہماری توجہ سیب یا گندم کے کھائے جانے پر نہیں بلکہ اپنے ایک حکم کی نافرمانی کے نتیجہ مبذول کرا رہا ہے – امید ہے کہ یہ مغالطہ بھی ختم ہو گیا ہو گا.
            ابھی کے لیے اتنا ہی کافی ہے – آخری پراگراف بھی قرآن کی غلط تفسیر پر مبنی ہے – اگر اوپر والے تمام نکات پر مطمئن ہوں تو بقیہ پراگراف پر بھی بات کی جاسکتی ہے.)

  2. آپ جس طرح کی باتیں لکھ رهے هیں
    ان میں سے بہت سی باتوں کے جواب تو میں دو سکتا هوں
    اور کچھ کے نهیں
    لیکن یه ضرور کہوں گا
    که اپ
    بہت خاص باتیں بہت عام لوگوں ميں کر رهے هیں
    جو که آداب اهل علم کے خلاف هے
    آپ ایک تنی هوئی تار پر چل رهے هیں
    جس سے گرنے کا اندیشه هے
    سلمان رشدی صرف فکشن لکھنے پر معتوب هے
    اور اپ کو علم هی هو گا
    اپ سے کبھی محفل کرنے کو جی چاهتا هے
    تاکه
    کچھ اپ سے لے سکیں اور کچھ اپ کو دے سکیں
    آپ کا مخلص

    1. assalam alaikum,
      shukr he english likhne ka option he. i hate typing in urdu.do dafa google transliterate per likha aur wo loss hogya.
      khair.
      Anderson Shaw sahab apki tehreer ne kafi saarey sawalat dimagh me jaga diyey hn
      kuch to khair se bachpan se tang kiye huey they jin me se majority apki tehreer me cover hogaey hain. magr kuch aur new sawalat hn jinka apki tehreer me zikr nahi he
      khair sb se pehle to ye bta dun keh alhamdulillah aik muslim hun aur islam ke usooloon per paband bhi. ye isliye zarooro tha takeh apke commentators mujhko agnostic, atheist ya kafir na keh dain.
      khair
      school waghaira me jo islam sikha us se na to sawalat uthna ruk sakey na unka jawab mil saka. her koi pata nhi kiun her mushkil sawal per blind faith ka zikr ker deta he. thats quite frusrtating to be honest. ab insan sawal poochey to gunahgaar na poochey to pareshan kidher ja ker ser phorey? kuch esi hi situation buht se teenagers ki hoti he. ghor kiya jey to dunya ka her mazhab kisi na kisi shakal me khuda se mutaaruf kerata he aur uske hukm manney ki taleem deta he. aur khuda ki lamatnaahi taaqatoon ka dars de ker dera ker uske hukm manwata he werna azab ki waeed he, aur agr waqai der ker ya inaam ki lalch me hi sahi uski batain maan li to ye fantasy milti he keh ab ap buht aalaa o arfaa hogaey hn aur apko buht nawaza jaeyga ‘in heaven’ , no body tells us where is this heaven and what is this heaven in reality…sirf religious books me hi inka zikr he.
      jab her mazhab aik hi terha ki bat kerta he, khuda aur khudai fojdaaro ke zerye insaan ko jaza aur saza aur ehkaamaat sunata he ….aur jis khuda ka zikr he wo na dikhta he na samne aata he ….then why should anyone believe all this? sb ko chor ker apne dil dimagh ko pareshani aur apki dunya ko rok-thaam se azad ker lena hi aqalmandi he…
      chalo ji ye bhi hogya…soch liye keh ye sb mazhabiyat aur denyat sirf kitabi batain hain
      ab ?
      ab phir se un basic sawalat ki terf ajate hn jin se bachey huey they mazhab ki wajha se… yani insaan kainaat aur zindagi….
      ab koi mazhab nahi apni kahaniyaan suna ker in sb sawalat ka jawab dene ko….magr in sawalo ko jawab to chahye…
      insan aur kainaat do nazr aane aur mehsoos hone wali chez he, aur zindagi bhi kuch had tak mehsoos ho hi jati he.. sawal ye he keh insan kon he kiun he, ye sb kainat kiun he, aur hum sb kahan se ay hn aur aaey chale ja rhe hn aur kahan jana he….zindagi se pehle kiya tha aur mot ke bad kiya he? kainat se pehle kiya tha aur agr ye kainat na rhi to uske bad kiya hoga? zindagi kiun banai gai ye sb nizam kiun aur kese bana? aj ke dor aur qabal-az-hayat aur baad-az-marg me koi taaluq he?agr he to wo kiya he?
      ye sb kuch ese sawalat hn jin ke jawab buht tang kerte hn.

      Anderson Shaw sahab me bhi un chand logon me se aik hun jis ne in batoon per socha he. magr mujhe philosophy ne kabhi attract nahi kiya. esa lagta he keh philosophy bhi mazhab ki aur khudai fojdari ki aik shakal he, yani aik log khuda ke nam per jo batain keh rhe hain , dosrey yani philosophers wohi sb kuch apni aqal ke nam per ya mantaq ke nam per keh rhe hain. jb me aik "without solid proof” chez ko reject keru to mera dimagh dosri "without solid proof” cheez ko kese qabool ker sakta he? aur philosophers ke sath aik aur masla bhi he wp ye keh wo log dunya ke usoolon per mawraa ko define kerne ki koshish kerte hn, jabkeh mazhab mawra ko dunya ki limits se azad kerta he… jese rainbow ke humko sirf seven colours nazr ate hain magr actual me light ka spectrum buht bara he jisme kai infra red aur ultra violet colours bhi hn jo keh hum dekh nhi skte sirf apne sensors se ‘detect’ kerke unke hone ka pata laga skte hn.still we can neither imagine, nor understand how those colours look like…. bilkul isi terha mazhab bhi mawra aur dunya ka faraq btata he…yani dunya wo 7 colours wala rainbow he jo hum dekh sakte hn..jabkeh mawra me aur bhi colours hn jo humko pata nhi sirf unke hone ka pata he…. thats why i dont like to read philosophy for basic questions about human, universe and life.
      if you have anything to say to relief my tension you are most welcome.
      best wishes
      nudrat

  3. assalam alaikum,
    shukr he english likhne ka option he. i hate typing in urdu.do dafa google transliterate per likha aur wo loss hogya.
    khair.
    Anderson Shaw sahab apki tehreer ne kafi saarey sawalat dimagh me jaga diyey hn
    kuch to khair se bachpan se tang kiye huey they jin me se majority apki tehreer me cover hogaey hain. magr kuch aur new sawalat hn jinka apki tehreer me zikr nahi he
    khair sb se pehle to ye bta dun keh alhamdulillah aik muslim hun aur islam ke usooloon per paband bhi. ye isliye zarooro tha takeh apke commentators mujhko agnostic, atheist ya kafir na keh dain.
    khair
    school waghaira me jo islam sikha us se na to sawalat uthna ruk sakey na unka jawab mil saka. her koi pata nhi kiun her mushkil sawal per blind faith ka zikr ker deta he. thats quite frusrtating to be honest. ab insan sawal poochey to gunahgaar na poochey to pareshan kidher ja ker ser phorey? kuch esi hi situation buht se teenagers ki hoti he. ghor kiya jey to dunya ka her mazhab kisi na kisi shakal me khuda se mutaaruf kerata he aur uske hukm manney ki taleem deta he. aur khuda ki lamatnaahi taaqatoon ka dars de ker dera ker uske hukm manwata he werna azab ki waeed he, aur agr waqai der ker ya inaam ki lalch me hi sahi uski batain maan li to ye fantasy milti he keh ab ap buht aalaa o arfaa hogaey hn aur apko buht nawaza jaeyga ‘in heaven’ , no body tells us where is this heaven and what is this heaven in reality…sirf religious books me hi inka zikr he.
    jab her mazhab aik hi terha ki bat kerta he, khuda aur khudai fojdaaro ke zerye insaan ko jaza aur saza aur ehkaamaat sunata he ….aur jis khuda ka zikr he wo na dikhta he na samne aata he ….then why should anyone believe all this? sb ko chor ker apne dil dimagh ko pareshani aur apki dunya ko rok-thaam se azad ker lena hi aqalmandi he…
    chalo ji ye bhi hogya…soch liye keh ye sb mazhabiyat aur denyat sirf kitabi batain hain
    ab ?
    ab phir se un basic sawalat ki terf ajate hn jin se bachey huey they mazhab ki wajha se… yani insaan kainaat aur zindagi….
    ab koi mazhab nahi apni kahaniyaan suna ker in sb sawalat ka jawab dene ko….magr in sawalo ko jawab to chahye…
    insan aur kainaat do nazr aane aur mehsoos hone wali chez he, aur zindagi bhi kuch had tak mehsoos ho hi jati he.. sawal ye he keh insan kon he kiun he, ye sb kainat kiun he, aur hum sb kahan se ay hn aur aaey chale ja rhe hn aur kahan jana he….zindagi se pehle kiya tha aur mot ke bad kiya he? kainat se pehle kiya tha aur agr ye kainat na rhi to uske bad kiya hoga? zindagi kiun banai gai ye sb nizam kiun aur kese bana? aj ke dor aur qabal-az-hayat aur baad-az-marg me koi taaluq he?agr he to wo kiya he?
    ye sb kuch ese sawalat hn jin ke jawab buht tang kerte hn.

    Anderson Shaw sahab me bhi un chand logon me se aik hun jis ne in batoon per socha he. magr mujhe philosophy ne kabhi attract nahi kiya. esa lagta he keh philosophy bhi mazhab ki aur khudai fojdari ki aik shakal he, yani aik log khuda ke nam per jo batain keh rhe hain , dosrey yani philosophers wohi sb kuch apni aqal ke nam per ya mantaq ke nam per keh rhe hain. jb me aik "without solid proof” chez ko reject keru to mera dimagh dosri "without solid proof” cheez ko kese qabool ker sakta he? aur philosophers ke sath aik aur masla bhi he wp ye keh wo log dunya ke usoolon per mawraa ko define kerne ki koshish kerte hn, jabkeh mazhab mawra ko dunya ki limits se azad kerta he… jese rainbow ke humko sirf seven colours nazr ate hain magr actual me light ka spectrum buht bara he jisme kai infra red aur ultra violet colours bhi hn jo keh hum dekh nhi skte sirf apne sensors se ‘detect’ kerke unke hone ka pata laga skte hn.still we can neither imagine, nor understand how those colours look like…. bilkul isi terha mazhab bhi mawra aur dunya ka faraq btata he…yani dunya wo 7 colours wala rainbow he jo hum dekh sakte hn..jabkeh mawra me aur bhi colours hn jo humko pata nhi sirf unke hone ka pata he…. thats why i dont like to read philosophy for basic questions about human, universe and life.
    if you have anything to say to relief my tension you are most welcome.
    regards
    Nudrat

    1. میرے خیال سے معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب کوئی آپ کو کچھ معلومات دیتا ہے اور آپ ان معلومات میں درستگی کی مقدار نہ جانتے ہوں تو اس صورت میں آپ کے سامنے دو آپشن ہوتے ہیں یا تو ان پر اندھا یقین کر لینا یعنی بلائینڈ فیتھ یا ان پر شک کرنا، اور اگر اتفاق سے آپ نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے عقلی خمیر میں شک اور سائنٹفک میتھڈ کے بیج موجود ہیں.. یہ آپشن بھی آپ کو دو مزید آپشنز کے سامنے کھڑا کردے گا، یا تو آپ ہمیشہ کے لیے حالتِ شک پر رہیں، اس صورت میں آپ کبھی کوئی بھی پیش رفت نہیں کر سکیں گے، یا معلومات کی ان کے مصادر سے تصدیق کریں، یہ دوسرا آپشن کافی تھکا دینے والا ہے کیونکہ اس کے لیے آپ کو سینکڑوں یا شاید ہزاروں کتابیں پڑھنی پڑیں گی اور شاید آخر میں آپ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان ساری کتابوں میں حقیقی معلومات نہیں ہیں بلکہ یہ ان کی بہت ساری سطور کے ماحاصل میں ہے اور شاید تب آپ یہ بھی دریافت کر لیں – اتنے تھکا دینے والے دلچسب سفر کے بعد – کہ علم ہی در حقیقت انسانیت کی منزلِ مقصود ہے جو آپ کو کسی نہ کسی مرحلے پر حقیقت سے آشکار کر سکتا ہے… امید ہے بات سمجھ گئے ہوں گے… 🙂

  4. assalam alaikum
    janab aneeqa naz sahiba
    ye janat aur dozakh ki details ko agr ‘literal meaning’ me liya jaey tb to waqai koi bhi khatoon ko jannat me attraction nhi feel hogi, aur mard hazraat ki bhi feeling kuch us jesi hi hogi jese ooper article me Anderson Shaw sahab ne likha he. mujhey yahan ye nahi kehna keh islam ka description ghalat he,magr me aik aur nazrye se is bat per roshni dalne me interested hun. ap ne yaqeenan 1400 saal pehle ke arabs ke halaat to perh rkhe hun gy. unke paas zindagi ka taqreeban wohi version tha jisko aj hum Africa ke kisi na-maloom qabeelon me hi dekh sakte hain . it was just a little better than stone age. us waqt ke arab muashrey me aurat ki hesyat ‘expendable asset’ ki thi . us waqt na to aurtoon ka koi role tha society me na koi position. us waqt ke arabs ki mentality ke hisaab se definations utri thi janat aur jahanum ki. , bilkul usi terha jes baqi cheezain bhi esi explainations me hn jo us waqt ke log smjh sakain… kiunkeh unhi ko islam smjh ker usko aagey dunya me phelana tha bcz Mohammad SAWW akhri nabi they
    gr 1400 sal pehle ke log aj ke dor me ajain to isi dor ko janat aur jahanum smjh ne lagaingy lekin hum jante hain keh yeh abhi tak dunya ki life hi he…lolz…khair. islam Allah per belief is terha ka sikhata he keh Allah limitless he , aur insaaf kerta he aur kereyga inshallah, aur Raheem he … muslims ka ye bhi belief he keh koi cheez Allah ki qudrat se bahr nhi he… jb is sb belief ke sath aj ki dunya ko dekhain to ye kiun nahi sochte hun log keh jis insaan ne itni taraqqi ki he to uska khaliq to lazmi insan se behtr hoga is sb me…to bs isi bat ko jannat aur jahannum ke concept me fit kerke dekhye…. jitna difference 1400 sal pehle ke arabs life style aur jannat ki details me he usi hisaab se ap aj ke muashrey ka life style se agey ker ke dekhain aur sochain keh jis Allah ne insan ke dimagh ko heraan kerdene wali inventions n discoveries banai hn to kiya wo is se behtr bnane per qaadir nahi he??? yaqeenan he… aur agr nahi he to wo khuda kehlani ke laiq hi nahi kiunkeh agr khuda ki limit he to us limit tak pohncha ja skta he….khuda ke liye lazim he keh wo limitless ho…

    khair. meri bat ke jesa aik article mila he aik jagha. pehl lain to aur asani se bat smjh asake gi….
    regards
    Nudrat

  5. جنت، دوزخ ، حور، شہد اور دودھ کی نہریں میترا تو خیال ہے کہ سب علامت ہیں۔ کیونکہ معاشرے میں ہر ذہنی اٹآھن کے لوگ پائے جاتے ہیں اس لئے لالچ کی سطحیں اسی حساب سے رکھی جاتی ہیں۔ اب حور سے ایک خاتون کو کیا رغبت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح جتنے نعمتیں مردوں کے لئے بتائ گئ ہیں اسکا عشر عشیر بھی خواتین کے لئے نہیں ہے تو کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ عورتوں کے پاس عیش و آرام یا عیاشی کے بنیادی تصورات ہی نہیں۔ دوسری طرف ایک عورت کے لئے سب سے بڑی نعمت ماں ہونا قرار دی جاتی ہے جبکہ جنت کی زندگی میں نسل کے آگے بڑھنے کا کوئ تصور ہی نہیں ہے تو آخر ایک عورت کیا کرے گی اس لحاظ سے تو عورت کارخانہ ء قدرت میں ایک فالتو شے محسوس ہوتی ہے۔ جسے دنیا میں نسل انسانی کو جاری رکھنے کے لئے رکھا گیا اور جسکی آخرت کا فیصلہ بھی دنیا کے مردوں کی وجہ سے ہوگا۔ حالانکہ یہ عین ممکن ہے کہ اسے دنیاوی مردوں سے صرف تکلیفیں ہی ملی ہوں۔
    مردوں کے لئے انعامات کی یہ قطار کس لئے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ اس زمانے میں مردوں کو جو چیز بھاتی تھی وہی اسکے لئے رکھی گئ۔ دودھ اور شہد کی نہریں بھی اسی لئے بتائ گئیں۔ عرب کے صحرا میں باغوں کے دلکش نقشے بھی اسی لئے آئے۔
    در حقیقت ایک ذی شعور شخص کے لئے جنت اور دوزخ کوئ معنی نہیں رکھتے۔ اگر میں کسی بچے کی زندگی بچانے میں کامیاب ہو جاءوں تو میرے لئے اس خوشی سے بڑھ کر کوئ خوشی نہیں ہو سکتی کہ ایک لمحہ تھا کہ وہ نیست و نابود ہوجاتا لیکن میں نے کوشش کی اور اسپہ وہ لمحہ نہیں آیا۔ یہ خوشی اس وقت قائم رہے گی جب تک میرے احساسات زندہ رہیں گے جب تک وہ بچہ زندہ رہے گا۔ یعنی میرے لئے ابدی رہے گی۔
    سو جنت کا اور دوزخ کا تصور خام لوگوں کے لئے خام اور خاص لوگوں کے لئے خاص ہے۔

  6. ندرت صاھبہ تو آپ اس بات سے متفق ہیں کہ چودہ سو سال پہلے جو باتیں کہی گئیں وہ مطلق حقیقت نہیں ہیں بلکہ اس زمانے کی تہذیب اورحالات کو سامنے رکھ کر کہی گئیں. اگر آجکا زمانہ ہوتا تو وہ ایسی نہ ہوتیں. بس پھر کیا بات رہ گئ.

    1. assalam alaikum
      aneeqa sahiba bare khatrnaak mor nikal liya meri batoon se… chalye me maths ki example se smjhanti hun apni bat ko. ap aik teacher hn aur apko INTERNET ka concept dena he students ko. ap ke pas aik ‘typical illetrate’ student he jo kisi unknown tribal village se aya he. to btaiye ap kiya tareeqa apnain gi? ap yaqeenan us ke level tak ja ker kuch na kuch smjha dene ki koshish ker lain gi takeh usko kuch na kuch idea ho hi jy….ab usi class me koi internet IT age ka student betha he wo apke words per tanqeed kerey keh ye kahan ka science he etc….
      did u get my point? bat words ke ya batoon ke literal meanings and context ki nahi he balkeh us me explained usool ki he…aur islam ke yehi usool universal hn…

  7. برائے عبدالرؤف صاحب تبصرہ

    واہ بھئی کیا بات ہے، اس حساب سے تو دنیا کا کوئی بھی شخص کوئی ایک سطر بھی نہیں لکھ سکتا کیونکہ ہر دو لفظوں کے بعد اسے دلیل پیش کرنی پڑے گی..؟! کیا خوب کیڑے نکالے ہیں آپ نے، چلیے بھگتتے ہیں.. 🙂

    پہلے تبصرے کے بعد آپ پڑھے ہوئے موضوعات کو دوبارہ کیوں پڑھ رہے تھے؟ (محص یاداشت کو تازہ کرنے کے لیے. کہ مجھ کو قوی امید تھی کہ آپ سے لمبی بحث چھڑ جا ئے گی )

    تو گویا آپ خوب تیاری کر کے آئے ہیں 🙂

    (شیعہ کو چھوڑ کر باقی گروہ پچھلے ١٥٠ سال میں بنے ہیں ، تو کیا اس سے بھی امت کا وجود نہیں تھا؟ ویسے بھی یہ سارے سنی گروہ صرف برصغیر کی پیداوار ہیں تو کیا ان کے علاوہ کہیں بھی مسلمان نہیں ہیں؟ اور پھر آپس میں یہ بھی صرف فروعات پر اختلاف کرتے ہیں اور اصول میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے سوائے شیعہ یا قادیانی فرقوں کے ساتھ. اس لیے یہ آپس میں کسی کو کافر نہیں کہتے ہیں سوائے کچھ شیعہ یا سب قادیانی فرقوں کے, واضح رہے میں ہر گروہ کے اجتماعی عقائد کی بات کر رہا ہوں نہ کہ کسی کے انفرادی عقیدہ یا عمل کی.)

    مجھے اس بات سے اتفاق نہیں، اسلامی تاریخ میں ایسے کئی فرقے بنتے اور تحلیل ہوتے رہے ہیں، شیعہ تو رہنے دیجیے خود سنیوں میں فقہی اختلافات پر قتل وغارت گری ہوتی رہی ہے عقائد اور کفر کے فتووں کی تو بات ہی رہنے دیں..

    (منافقت کے آنسو بہاتے ہیں -) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا آپ لوگوں کے دلوں کے بھید جانتے ہیں؟

    یہی سوال آپ کے لیے ہے، آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ وہ منافقت کی آنسو نہیں بہاتے؟

    (مؤمن خدا کی عبادت میں اتنی تکلیفیں جنت کی لالچ میں اٹھاتا ہے) – دلیل کہاں ہے ؟ – احسان مند و عشق حقیقی بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں ؟

    عشق حیقیقی وغیرہ سب صوفیانہ بکواسیات ہیں، اسلام میں کوئی عشق حقیقی وتقلیدی نہیں ہوتا، اگر جنت میں حوریں نہ ہوتیں تو مساجد میں دھول اڑ رہی ہوتی.. خالہ جی کے گھر کے لیے مساجد میں ناک نہیں رگڑی جا رہی ہوتی..!

    (اسے اپنا مطلب ہوتا ہے خدا کی فکر نہیں ہوتی)- – دلیل کہاں ہے ؟ – کیونکہ چاہے اسکی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے – اور جب وہ ہی سب کا حاکم و داتا ہے اور وہ حکم دیتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا اور اسکے سوا کسی کے پاس کچھ بھی اختیار نہیں کہ کسی کو کچھ دے یا لے سکے تو پھر ظاہر ہے کہ اسی سے ہی مانگا جائے گا ، کیا آپ کے خیال میں خدا کے منکرین و خدا کے نافرمان ابلیس کو کوئی اور نوازتا ہے؟ اور خدا کی کیا فکر کرنی ہے ؟ کیا کوئی مخلوق بھی کبھی خالق کے لیے اصول مرتب کرتی ہے؟

    آپ ہی کی بات لیتا ہوں کہ چاہے اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے، اسے مانا جائے یا نہ مانا جائے دنیا اسی طرح چلتی رہے گی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسے نا ماننے والے اسے ماننے والوں کی بنسبت زیادہ بہتر حالت میں ہوتے ہیں، در حقیقت دنیا کو کسی خدا کی ضرورت ہے ہی نہیں.. اس کے ساتھ یا اس کے بغیر اچھے لوگ اچھا کام کرتے رہیں گے اور برے لوگ برے کام کرتے رہیں گے ہاں اتنا ضرور ہے کہ اچھے لوگ برا کام کریں اس کے لیے مذہب ضروری ہے.

    (یہ خود کو ذلیل کر کے خدا کے غرور اور کبریاء کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خدا کی محبت یا اسے راضی کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کے پاس جو خزانے ہیں ان کے لیے) – دلیل کہاں ہے ؟ – جسکو مالک کی خشنودی اور حمایت حاصل ہو تو پھر اسکو کوئی اور فکر یا اسکی کوئی اور حاجت باقی رہے گی کیا؟

    کیا واقعی مومنین کو صرف خدا کی خوشنودی ہی چاہیے جنت نہیں، اس کی حوریں نہیں، شراب کی نہریں نہیں؟ اگر خدا اور اس کی مخلوق کا تعلق اتنا ہی پاکیزہ ہے تو مقدس کتابیں حوروں اور شراب کی نہروں کے لالچ سے کیوں بھری پڑی ہیں؟ اور کیا اس لالچ کے بغیر کوئی عبادت کرنے کا تکلف کرتا؟

    (وہ اس منافقت کی پرواہ نہیں کرتا،) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا آپ نے قرآن میں منافقین کے متعلق الله کا فیصلہ نہیں پڑھ رکھا ہے؟ اسی لیے مسلسل عرض کر رہا ہوں کہ اس دنیاوی زندگی کے متعلق قرآن میں بتائی گئی خدائی اسکیم کو سمجھنے کی کوشش کریں ، کیونکہ سارے مسائل کی جڑ اسی خدائی اسکیم سے لاعلمی یا پھر درست طور سے نہ سمجھنا ہے.

    حضرت خدا کو مومنین کی پرواہ ہوتی تو وہ دنیا میں اتنے ذلیل وخوار نہ ہوتے، ویسے مومنین ہی تو کہتے ہیں کہ خدا کی ذات بے نیاز ہے، تو پھر وہ کیوں پرواہ کرنے لگا؟ رہی خدا کی سکیم تو ایسی کسی سکیم کا کوئی وجود نہیں کیونکہ اس کے لیے خدا کا موجود ہونا لازمی ہے اور نا ہی یہاں قرآن کو مقدس کتاب تسلیم کر کے بات کی جا رہی ہے جو آپ قرآن کا حوالہ دے رہے ہیں کہ خدا نے منافقین کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے، منافقین اب بھی موجود ہیں تو خدا نے کیا کر لیا؟

    ( انبیاء اور مؤمنین یہ جان ہی نہ سکے کہ مسرت کے اسباب مادی نہیں نفسیاتی ہیں) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا آپ کا یہ دعوی درست مان لینے کی صورت میں ہم تمام انبیا اور مومنین کو گمراہ اور آپ جناب کو حق پر تسلیم نہیں کرلیتے ہیں؟ تو پھر کون سی بات زیادہ درست ہو سکتی ہے. ایک آدمی درست اورتمام انبیا اور مومنین گمراہ یا پھر اوہ ایک آدمی گمراہ اور تمام انبیا اور مومنین حق پر ؟ برائے مہربانی منطق کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش فرمایے گا.

    تو آپ کو اس بات کی دلیل چاہیے کہ خوشی کے اسباب مادی ہوتے ہیں نفسیاتی نہیں.. اچھا یار مادی ہوتے ہیں 🙂
    رہی بات درست یا غلط کی تو میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں ہی عین حق ہوں، لیکن کیا انبیاء غلط نہیں ہوسکتے؟ اور کیا انبیاء ہوتے بھی ہیں؟ یہ بات بھی کبھی کسی نے ثابت کی؟

    (ایک دن تمام ساکنانِ فردوس اجتماعی خودکشی کر کے خدا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیں گے) – دلیل کہاں ہے ؟ – کیا جنت میں جانے کے بعد بھی موت کا امکان ہے؟

    اس سے پہلے آپ جنت کی موجودگی کی دلیل پیش کریں 🙂

    (کتنے ہی زبوں حال مسرت کی ایسی زندگی گزارتے ہیں جن کی امراء بس خواہش ہی کر سکتے ہیں)مگر وہ پرمسرت زندگی کے حامل افراد انہی امرا کے طرز حیات پر رشک کرتے اور دن ، رات ان جیسی ہی آسائشیں پانے کی کوششوں میں زندگی برباد کرتے ہیں. اس بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیں ؟

    ایسا کوئی قاعدہ نہیں ہے، یہ درست ہے کہ اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے لیکن ان مادیات کی دوڑ میں وہ مسرت کی زندگی سے محروم ہوتے ہیں، حقیقی پر مسرت زندگی صرف قناعت پسند شخص ہی گزارتا ہے جن کی شدید کمی ہے لیکن ہمارے ارد گرد ایسے مثالیں پھر بھی موجود ہیں.

    (انسانی زندگی کی تنظیم میں خدا حلال وحرام کی سیاست پر انحصار کرتا ہے) تو کیا آپ کے خیال میں انسان کی تخلیق تو الله نے کی ہے ، مگر آپ اس سے زیادہ انسان کی نفسیات کو جانتے ہیں کہ وہ تو قرآن میں جنت کی نعمتیں گنوارہا ہے اور آپ کہتے ہیں جنت جیسی خالص خوشی ولذت کی زندگی کا وجود نا ممکن ہے ؟

    نقطہ اعتراض کا مقتبس متن سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.

    (تو کوئی پوچھے اس خدا سے کہ وہ اس سب سے کیا چاہتا ہے؟ کسی چیز کو حرام کر کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا اور پھر اس حرام کو کرنے پر لوگوں کے چیتھڑے اڑانے کے پیچھے اس کا کیا مقصد ہے؟) امتحان اور آزمائش کس بلا کا نام ہے؟ کامیابی و ناکامی کس بات پر منحصر ہوتی ہے؟ ساکنان جنت و دوزخ کا انتخاب کس بنیاد پر ہوگا؟ خبردار اب جبریہ و قدریہ کی بحث چھیڑنے سے پہلے یہ یاد رکھیے گا کہ انسان اتنا بااختیار ہے کہ ایک وقت میں اپنی ایک ٹانگ زمین سے اٹھا کر بھی بآسانی کھڑا رہ سکتا ہے مگر وہی انسان ایک ہی وقت میں بنا کسی سہارے کے زمین سے اپنی دونوں ٹانگیں ایک ساتھ اٹھانے کی صورت میں زمین پر گر جانے پر مجبور ہے. بس اتنا سا فرق ہے انسان کے اختیار اور اسکی تقدیر میں.

    بہت خوب تو یہاں آزمائش چل رہی ہے، یعنی اسے نتائج کا نہیں پتہ اس لیے وہ چیک کر رہا ہے کہ کون اس کی بات مانتا ہے اور کون نہیں مانتا، آپ نے خود ہی ثابت کردیا کہ خدا جاہل ہے اور کون کیا کرے گا اسے کچھ خبر نہیں 🙂

    (کیا اسے ان گناہ گاروں کو سزا دینے کی بجائے انہیں جزاء نہیں دینی چاہیے؟ کیا انہوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کی بات نہیں مانی) آپ ہی کے سوال کو ذرا گھما کر کرتا ہوں کہ – ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے جس میں کچھ ایسے اعمال مذکور ہوتے ہیں جن کے کرنے پر سزا وہ دیتے ہیں ، تو کیا آپ کی یہی منطق وہاں بھی لاگو ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اور اگر نہیں تو پھر پہلے سے ممنوع چیزوں پر متنبہ کرنے کے لیے خدا پر بے انصافی کا الزام کیوں؟

    میرے خیال سے یہاں آپ مدعا سمجھے نہیں، اور سمجھانے کا اپنے پاس وقت نہیں..

    ( تو پھر ہم آدم کے گناہ کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟)- دلیل کہاں ہے ؟ – ایک اور مغالطہ – یہ کس نے کہا کہ آپ ہمارے جدامجد آدم علیہ سلام کے کسی گناہ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں – پھر عرض کروں گا خدارا الله کی خدائی اسکیم برائے تخلیق انسان کو سمجھ لیں انشاالله تمام مشکلیں آسان ہو جائیں گی.

    میں نے کب کہا کہ ہمارے تصوراتی جد امجد آدم علیہ السلام کسی کے گناہ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں؟ 🙂

    (جب جرم محض ایک سیب/گندم کھانے جتنا فضول ہو) – اول تو جرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا جرم ہی ہوتا ہے. اب آپ ایک قتل کریں یا ١٠٠ ، سب ہی جرم ہیں. دوئم ادھر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ الله ہماری توجہ سیب یا گندم کے کھائے جانے پر نہیں بلکہ اپنے ایک حکم کی نافرمانی کے نتیجہ مبذول کرا رہا ہے – امید ہے کہ یہ مغالطہ بھی ختم ہو گیا ہو گا.

    بالکل جرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا جرم ہی ہوتا ہے لیکن قتل کی سزا ایک ماہ قید اور چوری کی سزا پھانسی نہیں ہوسکتی… تاہم میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی بھی گھٹیا ترین ملک کی گھٹیا ترین قوم کے قانون میں سیب کھانا جرم ہوگا یا اس کے کھانے پر پابندی ہوگی سوائے خدا کے قانون میں، جہاں تک حکم کی نافرمانی کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر اس سیب یا گندم سے منع نہ کیا گیا ہوتا تو کیا آدم وہ سیب یا گندم کھاتا؟ در حقیقت منع کر کے خدا نے خود ہی اس کی توجہ اس کی طرف مبذول کرا دی اگر وہ ایسا نہ کرتا تو آدم کبھی وہ سیب یا گندم نہ کھاتا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آدم کو پھنسانے کی ایک سازش تھی اور یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ اس نے یہ سیب کھانا ہے جس کا اعتراف خود حضرت آدم علیہ السلام کر چکے ہیں.

    1. مجھے اس بات سے اتفاق نہیں، اسلامی تاریخ میں ایسے کئی فرقے بنتے اور تحلیل ہوتے رہے ہیں،
      (آپ شائد بھول رہے ہیں ہیں کہ آپ نے دیوبندی، بریلوی، اہلحدث اورشیعہ کی بات تھی اور یہ سب برصغیر کی ہی پیداوار ہیں کیونکہ یہ سب علاقاجات برصغیر ہی میں موجود ہیں سوائے شیعہ کے، اگر متفق نہیں تو دلیل سے رد کریں ، یہ طریقہ قابل قبول نہیں کہ بلا دلیل رد کردیا یہ کہہ کر کہ اتفاق نہیں ، اور اہم بات یہ کہ گروہ اور فرقہ میں بھی فرق کیجئے ، یہ دونوں الگ الگ اصطلاحات ہیں اور دونوں کا الگ الگ حکم ہے. مثال دیوبندی، بریلوی، گروہ کے حکم میں ہیں جبکہ شیعہ فرقہ ہیں. ویسے بظاہر تو آپ بھی گذشتہ فرقوں میں سے ایک کے احیا کی کوششوں میں سرگرم لگ رہے ہیں، باقی دلوں کے بھید الله ہی بہتر جانتا ہے ، ہم تو ظاہر پر قیاس کرتے ہوئے یہی پوچھیں گے کہ (بقول شاعر) کریدتے ہو راکھ جستجو کیا ہے؟ )

      شیعہ تو رہنے دیجیے خود سنیوں میں فقہی اختلافات پر قتل وغارت گری ہوتی رہی ہے عقائد اور کفر کے فتووں کی تو بات ہی رہنے دیں..
      (سمجھ سے بڑھ ہے کہ آخر ان باتوں سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ بہرحال ان باتوں سے امت مسلمہ کی عدم موجودگی کسی طرح ثابت نہیں ہوتی ہے. اور کفر کے فتووں کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ فرد پر لگائے جاتے ہیں نہ کہ جماعت پر. لہذا پھر بھی امت ان باتوں سے تحلیل نہیں ہو جاتی ہے.)

      یہی سوال آپ کے لیے ہے، آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ وہ منافقت کی آنسو نہیں بہاتے؟
      (یہ الزام میں نے نہیں آپ نے دھرا ہے ان پر لہذا اپنے دعوی کو ثابت کرنا بھی آپ ہی کی زمہ داری ہے نہ کہ میری، پس جواب دیجئے کہ آپ کو کیسے یہ علم ہوا کہ وہ منافقت کے آنسو بہاتے ہیں ؟ ورنہ قبول لیجے کہ آپ نے خدا سے اپنی نفرت میں اسکے عبادت گذار بندوں پر ایک جھوٹا الزام لگایا ہے.)

      عشق حقیقی وغیرہ سب صوفیانہ بکواسیات ہیں، اسلام میں کوئی عشق حقیقی وتقلیدی نہیں ہوتا، اگر جنت میں حوریں نہ ہوتیں تو مساجد میں دھول اڑ رہی ہوتی.. خالہ جی کے گھر کے لیے مساجد میں ناک نہیں رگڑی جا رہی ہوتی..!
      (دلیل ! حضرت دلیل کدھر ہے ؟ کیونکہ بلا دلیل کے تو لوگ انبیا کی نہیں مانتے پھر آپ کس کھیت کے مولی ہو؟)

      آپ ہی کی بات لیتا ہوں کہ چاہے اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے، اسے مانا جائے یا نہ مانا جائے دنیا اسی طرح چلتی رہے گی،
      (بے شک ! جب تک اور جس طرح اسکا خالق چاہے گا یہ دنیا چلتی ہی رہے گی، چاہے کوئی اور چاہے یا نہ چاہے ، مگر میرے ان سوالات کے جواب تو پھر بھی ابھی تک ندارد ہیں نا ؟ کیا آپ کے خیال میں خدا کے منکرین و خدا کے نافرمان ابلیس کو کوئی اور نوازتا ہے؟ اور خدا کی کیا فکر کرنی ہے ؟ کیا کوئی مخلوق بھی کبھی خالق کے لیے اصول مرتب کرتی ہے؟)

      بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسے نا ماننے والے اسے ماننے والوں کی بنسبت زیادہ بہتر حالت میں ہوتے ہیں،
      (الله ہی کی مہربانی سے ، وقتی طور پر اس عارضی دنیا میں اور وہ بھی محض مادی لحاظ سے ، مگر یہ نہ بھولیں کہ : گر آج بھی ہو ابراہیم کا سا ایمان پیدا- آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا – اقبال )

      در حقیقت دنیا کو کسی خدا کی ضرورت ہے ہی نہیں.. (دلیل کدھر ہے ؟ اور کیوں ضرورت نہیں ہے؟ پھر اس دنیا کا خالق کون ہے؟ اور اس کو چلا کون رہا ہے؟ )

      اس کے ساتھ یا اس کے بغیر اچھے لوگ اچھا کام کرتے رہیں گے اور برے لوگ برے کام کرتے رہیں گے
      (بظاہر درست مگر حقیقت میں آپ کا یہ اندازہ غلط ہے- کیونکہ یہ دنیا نہ تو اچھے چلا رہے ہیں اور نہ ہی برے لوگ، لہذا انکے اعمال سے دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے.)

      ہاں اتنا ضرور ہے کہ اچھے لوگ برا کام کریں اس کے لیے مذہب ضروری ہے.
      (کچھ سمجھ نہیں آئی ذرا وضاحت کریں کہ کیا کہنا چا رہے ہیں ؟ اچھے لوگ برا کام کریں یا نہ کریں ؟ اور یہ اچھے لوگ کون ہوتے ہیں اور برا کام کیا ہوتا ہے ؟ اس کا تعین کون اور کیسے کرتا ہے؟ )

      کیا واقعی مومنین کو صرف خدا کی خوشنودی ہی چاہیے جنت نہیں، اس کی حوریں نہیں، شراب کی نہریں نہیں؟ اگر خدا اور اس کی مخلوق کا تعلق اتنا ہی پاکیزہ ہے تو مقدس کتابیں حوروں اور شراب کی نہروں کے لالچ سے کیوں بھری پڑی ہیں؟ اور کیا اس لالچ کے بغیر کوئی عبادت کرنے کا تکلف کرتا؟
      (بے شک آج بھی الله کے ایسے عاشق موجود ہوں گے جو کہ بنا کسی لالچ کے الله کی عبادت صرف اسی لیے کرتے ہیں کہ الله کا حکم ہے ، آپ شائد امتحان کے بنیادی مقصد کو نہیں سمجھ رہے ہیں – دراصل امتحان ہے ہی اس بات کا کہ جانچا جائے کہ اپنے حالات و نفس کا مقابلہ کرتے ہوئے ، شیطان کے بہکاوے میں نہ آکر ایسا کون ہے جو اپنی مرضی و شوق سے، اور کون ہے جو خوف سے اور کون ہے جو لالچ سے عبادت کرتا ہے ، اسی حساب سے سب کے مراتب بھی الگ الگ ہونگے اور منکرین کی کوئی جگہ جنت میں نہیں ! ایک مثال سے بات کی مزید وضاحت کرتا ہوں ، ایک طالبعلم سال بھر کس لیے اپنا کھیل کود ، آرام ، سیر و تفریح اور دوستیاں سب کو چھوڑ کر یا محدود کر کے پڑہنے کی تکلیف اٹھاتا ہے ؟ کیا سالانہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ؟ یا پھر محض انعام کی لالچ میں ؟ ظاہر ہے کہ امتحان میں کامیابی کے لیے وہ اتنی بڑی قیمت ادا کرتا ہے، جبکہ ہم سب کو علم ہے کہ سارا سال اس بات کی لالچ سب ہی طالبعلموں کو دی جاتی ہے کہ اگر اچھے نمبر لیے تو انعام ملے گا ، اب اگر آپ پھر بھی یہ کہیں کہ نہیں اس نے تو اچھے نمبر محض انعام کی لالچ میں لئے تھے تو پھر مجھ کو یہی کہنا پڑے گا کہ اگر آپ نہ سمجھنا چاہیں اور ھٹ دھرمی کریں تو میں کیا کرسکتا ہوں! اور (بقول شاعر ) سب کچھ سمجھ کے جو نہ سمجھے وقت اسے سمجھاتا ہے.)

      حضرت خدا کو مومنین کی پرواہ ہوتی تو وہ دنیا میں اتنے ذلیل وخوار نہ ہوتے، (صرف مومنین ہی نہیں بلکہ اپنی سب مخلوقات کی پرواہ ہے جبھی تو بار بار انبیا و رسل محض ہمیں ہمارے اس وعدہ کو یاد دلانے کو بھیجے کہ جو کہ ہم خود ہی اس کی خلافت حاصل کرنے کی لالچ میں اس سے عہد الست میں کرآئے تھے حوالہ قرآن میں سورہ احزاب کی آیت نمبر ۷۲ میں بیان ہوتا ہے۔
      “بے شک ہم نے امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا – قرآن میں سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۷۲ اور ۱۷۳ میں مختصر طور پر عہد الست کا واقعہ بیان کیا گیا ہے. نیچے بھی ذکر آنے والا ہے.)

      ویسے مومنین ہی تو کہتے ہیں کہ خدا کی ذات بے نیاز ہے، (مومنین خود سے نہیں کہتے بلکہ قرآن کی سورت الاخلاص میں ہم کو بتایا گیا ہے.)

      تو پھر وہ کیوں پرواہ کرنے لگا؟ (اوپر بات ہو گئی ہے.)

      رہی خدا کی سکیم تو ایسی کسی سکیم کا کوئی وجود نہیں (الله کی خدائی اسکیم کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ جب اللہ نے اپنی تمام مخلوقات میں سے کسی کو زمیں پر اپنا نائب / خلیفہ کو مقرر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تو اس نے سب کو آفر کی کہ جو کوئی اسکا خلیفہ بننا چاہتا ہے اسے ایک سخت امتحان میں پاس ہونا ہوگا جسکا ذکر قرآن میں سورہ احزاب کی آیت نمبر ۷۲ میں بیان ہوا ہے۔ “بے شک ہم نے امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا”۔ یہ امانت کیا تھی ؟ یہ درحقیقت اسی آزمائش اور امتحان کی دعوت تھی۔ اللہ نے آسمانوں، زمین اور انسان کو یہ آفر کی کہ آیا وہ اس امتحان میں اترنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ انسان کے پاس آپشن تھا کہ وہ بھی زمین و آسمان کی طرح منع کردیتا لیکن اس نے اس چیلنج کو اپنے اختیار سے قبول کرلیا “ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو زبردستی بھی انسان کو اس آزمائش میں دھکیل دیتا اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہ ہوتا لیکن انہوں نے انسان کو انتخاب کا حق دینے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام انسانوں کی ارواح کو نکالا، ہر روح کو دیکھنے ، سننے ، سو چنے اور بولنے کی طاقت دی ۔ گویا یہ ایک جسم کے قالب کے بغیر ایک وجود تھا جو رابطے اور شعور کے تمام لوازمات سے بھرپور تھا۔ تمام ارواح کو مستقبل کے امتحان سے آگاہ کرنے کے لئے اللہ نے اپنے فرشتوں کے ذریعے بتادیا کہ وہ انسان کو اپنی جنت کا وارث بنانا چاہتے اور ابدی بادشاہی کا تاج پہنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ایک امتحان سے گذرنا ہوگا. قرآن میں سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۷۲ اور ۱۷۳میں مختصر طور پر عہد الست کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ “جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسلوں کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بنایا (اور ان سے پوچھا تھا) کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں ہم (اس بات کے) گواہ ہیں۔ (یہ ہم نے اس لئے کیا کہ) قیامت کے دن کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس بات سے بےخبر تھے یا یہ کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے باپ دادا پہلے ہی سے کرتے آئے تھے اور ہم تو ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے (اور جیسا بڑوں کو کرتے دیکھا ہم بھی ویسا ہی کرنے لگے) تو (اے اللہ ،) کیا ان غلط راہ (نکالنے) والوں کے فعل پر تو ہمیں ہلاک کر دے گا؟” اب اگر اس آیت کو غور سے پڑھو تو علم ہوگا کہ اللہ نے جب اس اہتمام سے آدم کی پشت سے ارواح کو نکالا تو محض توحید کا اقرا ر نہیں کروایا بلکہ آئندہ کی زندگی کا نقشہ بھی پیش کیا ہوگا جبھی تو اللہ نے کہا کہ قیامت کے دن تم توحید کے منکر نہ ہوجانا ۔ قیامت کا ذکر جب روحوں کے سامنے کیا گیاتو یہ لازم تھا کہ آزمائش کا پورا نقشہ پیش کیا جائے ورنہ مجرد قیامت کا ذکر کرنا ارواح کے لئے ناقابل فہم ہوتا۔اسی طرح ارواح کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر انہوں نے شرک کیا اور عذر ہی پیش کیا کہ ان آباء اجدا د بھی ایسے ہی تھے تو یہ عذر ناقابل قبول ہوگا۔ یہ ساری تفصیلات ارواح کی سمجھ میں اسی وقت آسکتی تھیں جب دنیا میں پیش آنے والی زندگی کا خاکہ پیش کیا جائے۔)

      کیونکہ اس کے لیے خدا کا موجود ہونا لازمی ہے
      (الله معاف کرے، آپ خدا کی عدم موجودگی ثابت کردیں – پھر جو کہیں گے میں کروں گا – بصورت دیگر ہم ایک الگ مباحثہ اس پر بھی کر لیں گے. اصول طے کر کے.)

      اور نا ہی یہاں قرآن کو مقدس کتاب تسلیم کر کے بات کی جا رہی ہے
      (شائد آپ کے لیے مقدس نہ ہو ، میرے لیے تو ہے ، اور اسکی تقدس پر بھی ایک الگ مباحثہ کیا جا سکتا ہے.)

      جو آپ قرآن کا حوالہ دے رہے ہیں کہ خدا نے منافقین کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے، منافقین اب بھی موجود ہیں تو خدا نے کیا کر لیا؟
      (آپ میری بات نہیں سمجھے ، میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ منافقیں تو نبی پاک کے وقت میں بھی تھے ، لہذا اپنی طرف سے قیاس آرائی کرنے کے بجائے کہ الله کو شائد کسی کی منافقت کی پروا نہیں یا پھر الله منافقین کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہا ہے بلکہ ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ قران نے ہم کو اس سلسلہ میں کیا ہدایت دی ہے کہ الله منافقین کے ساتھ قیامت میں کیا معاملہ کرنے والا ہے؟)

      تو آپ کو اس بات کی دلیل چاہیے کہ خوشی کے اسباب مادی ہوتے ہیں نفسیاتی نہیں.. اچھا یار مادی ہوتے ہیں
      (آپ بات کو مذاق میں ٹال گئے ، مجھ کو اس کی دلیل نہیں چاہیے کہ خوشی کے اسباب مادی ہوتے ہیں یا نفسیاتی، کیونکہ یہ حقیت ہے کہ خوشی کے اسباب مادی نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ نفسیاتی اور روحانی ہوتے ہیں ، ورنہ نبی پاک ہم کو غنی بننے کے لیے دعا کرنے کی ہدایت کون دیتے؟ یاد رہے کہ غنی کے معنی امارت کے نہیں ہوتے ہیں. خیر ، میں تو دراصل آپ سے اس بات کی منطقی دلیل مانگ رہا تھا کہ منطقی لحاظ سے کون سی بات زیادہ درست ہو سکتی ہے. ایک آدمی درست اورتمام انبیا اور مومنین گمراہ یا پھر اوہ ایک آدمی گمراہ اور تمام انبیا اور مومنین حق پر ؟ – اس بار پھر نہ ٹال دیجے گا.)

      رہی بات درست یا غلط کی تو میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں ہی عین حق ہوں،
      (اچھی بات ہے ، ایسا دعوی کبھی کرنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اکثر بعد میں اپنے منہ ہی کی کھانی پڑجاتی ہے ، بقول شاعر : ابتدا یہ کہ میں اور دعوی علم کا – انتہا یہ کہ بہت پچھتایا اس دعوی پر.)

      لیکن کیا انبیاء غلط نہیں ہوسکتے؟
      (انبیا غلط میں ہو سکتے ہیں – کیونکہ بقول قرآن وہ معصوم ہوتے ہیں اور الله انکی غلطیوں سے حفاظت فرماتا ہے)

      اور کیا انبیاء ہوتے بھی ہیں؟ (بے شک ہوتے ہیں)

      یہ بات بھی کبھی کسی نے ثابت کی؟ ( ثبوت یہ ہے کہ سارے مذہب پرست اس بات میں ایک ساتھ غلط نہیں سکتے ہیں)

      اس سے پہلے آپ جنت کی موجودگی کی دلیل پیش کریں ( جب الله نے کہ دیا تو ثبوت کی کیا ضرورت؟ لیکن آپ نے پھر جواب گول کردیا کہ کیا جنت میں جانے کے بعد بھی موت کا امکان ہے؟ )

      نقطہ اعتراض کا مقتبس متن سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.
      ( دراصل اگلا نکتہ بھی اسی سے متعلق تھا اسی لیے مختصرا الگ الگ لکھ دیا تھا. خیر اب ایک ہی نکتہ بنا دیتا ہوں ، کیونکہ آپ نے سارے ہی سوالات گول کر دیے ہیں – تو کوئی پوچھے اس خدا سے کہ وہ اس سب سے کیا چاہتا ہے؟ کسی چیز کو حرام کر کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا اور پھر اس حرام کو کرنے پر لوگوں کے چیتھڑے اڑانے کے پیچھے اس کا کیا مقصد ہے؟ امتحان اور آزمائش کس بلا کا نام ہے؟ کامیابی و ناکامی کس بات پر منحصر ہوتی ہے؟ ساکنان جنت و دوزخ کا انتخاب کس بنیاد پر ہوگا؟ اور کیا آپ کے خیال میں انسان کی تخلیق تو الله نے کی ہے ، مگر آپ اس سے زیادہ انسان کی نفسیات کو جانتے ہیں کہ وہ تو قرآن میں جنت کی نعمتیں گنوارہا ہے اور آپ کہتے ہیں جنت جیسی خالص خوشی ولذت کی زندگی کا وجود نا ممکن ہے ؟

      بہت خوب تو یہاں آزمائش چل رہی ہے، یعنی اسے نتائج کا نہیں پتہ اس لیے وہ چیک کر رہا ہے کہ کون اس کی بات مانتا ہے اور کون نہیں مانتا، آپ نے خود ہی ثابت کردیا کہ خدا جاہل ہے اور کون کیا کرے گا اسے کچھ خبر نہیں (پہلی بات کہ آزمائش سے یہ مراد آپ کیوں لے رہے ہیں کہ اسے نتائج کا نہیں پتہ ؟ کیونکہ امتحان اللہ تعالی کے علم کے لیے نہیں ہے بلکہ ہم انسانوں کی تسلی کے لیے ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک استاد کو اپنے کسی شاگرد کی کامیابی یا ناکامی کا مکمل یقین ہو، لیکن پھر بھی محض اس یقین کی بنا پر اسے پاس یا فیل تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تقدیر اللہ تعالی کے علم کو کہتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس نے انسان پر اس تقدیر کو ٹھونسا ہے۔ جو انسان نے کرنا تھا، وہ اللہ تعالی پہلے سے جانتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے خود سے نیکی اور بدی کے فیصلے کر کے انسان پر انہیں ٹھونس دیا ہے بلکہ الله نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ نیکی یا بدی جو دل کرے منتخب کر لو ، مگر انسان کے منتخب کرنے سے پہلے ہی الله کے علم ہے کہ انسان کیا منتخب کرے گا. مگر پھر بھی وہ انسان کو اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے. تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں.)

      میرے خیال سے یہاں آپ مدعا سمجھے نہیں، اور سمجھانے کا اپنے پاس وقت نہیں.. (سبحان الله کیا بات ہے آپ کی – ادھر ہم اپنا وقت برباد کے جا رہے ہیں اور آپ کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ اپنی بات ہی درست طور سے سمجھا دیں . ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ میں ایک مارکیٹنگ فرم کا ملازم ہوں لہذا مارکیٹنگ کی ان باتوں کو بخوبی سمجھتا ہوں. اسی لیے آپ پر آپ ہی کی منطق کو الٹ کر ایسا سوال کیا تھا جس کا جواب آپ شائد کبھی نہیں دیں گے. پھر سے سوال دھرا رہا ہوں کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے جس میں کچھ ایسے اعمال مذکور ہوتے ہیں جن کے کرنے پر وہ سزا دیتے ہیں ، تو کیا آپ کی یہی منطق وہاں بھی لاگو ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اور اگر نہیں تو پھر ممنوع چیزوں پر پہلے ہی سے متنبہ کرنے کے لیے خدا پر بے انصافی کا الزام کیوں؟)

      میں نے کب کہا کہ ہمارے تصوراتی جد امجد آدم علیہ السلام کسی کے گناہ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں؟
      (شائد غلط پڑھ لیا ہے دوبارہ سے پڑھ لیں اصل بات یہ تھی : یہ کس نے کہا کہ آپ ہمارے جدامجد آدم علیہ سلام کے کسی گناہ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں )

      بالکل جرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا جرم ہی ہوتا ہے لیکن قتل کی سزا ایک ماہ قید اور چوری کی سزا پھانسی نہیں ہوسکتی… تاہم میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی بھی گھٹیا ترین ملک کی گھٹیا ترین قوم کے قانون میں سیب کھانا جرم ہوگا یا اس کے کھانے پر پابندی ہوگی سوائے خدا کے قانون میں،
      (وہ قادر مطلق ہے جو چاہے حکم کرے ، ہم تو حکم کے غلام ہیں، آپ سیب کے رو رہیں ہیں ، ہم کے تو رمضان کے دنوں میں سوائے آرام کرنے کے پورے ایک ماہ تک سارا حلال رزق استعمال کرنے تک ممانعت ہے !)

      جہاں تک حکم کی نافرمانی کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر اس سیب یا گندم سے منع نہ کیا گیا ہوتا تو کیا آدم وہ سیب یا گندم کھاتا؟
      (شائد کھا لیتے یا نہیں کھاتے ، الله ہی کو بہتر علم ہوگا.)

      در حقیقت منع کر کے خدا نے خود ہی اس کی توجہ اس کی طرف مبذول کرا دی اگر وہ ایسا نہ کرتا تو آدم کبھی وہ سیب یا گندم نہ کھاتا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آدم کو پھنسانے کی ایک سازش تھی اور یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ اس نے یہ سیب کھانا ہے جس کا اعتراف خود حضرت آدم علیہ السلام کر چکے ہیں. (اس جیسی بات پر اوپر تبصرہ ہو چکا ہے.)

      نوٹ : ہماری گفتگو بلا کسی خاص سمت و مقصد کے ہو رہی ہے ، کیا ہی اچھا کہ ہم کچھ اصول و ضوابط ہی متعین کرلیں ، تاکہ دونوں کا وقت بھی بچے اور کچھ نفع بھی حاصل ہو.

      1. حضرت آپ کے سوالات سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ آپ یہاں محض مجھے زچ کرنے آئے ہیں، تحریر میں عام اور کامن سی باتوں پر جو ہر کوئی جانتا ہے محض رائے زنی کی گئی تھی آپ کے ہر دو لفظوں پر دلیل کا تقاضہ تو خدا بھی پورا نہیں کر سکتا اور نا ہی یہ سلسلہ اس طرح کبھی رکنے والا ہے، اس طرح کے کیڑے تو پھر قرآن سے بھی نکالے جاسکتے ہیں طبع نازل پر گراں نہ گزرے تو ملاحظہ فرمائیں:

        السماء ذات البروج – این الدلیل؟ من قال ان السماء ذات بروج وکیف تثبت ذلک؟
        والیوم الموعود – ای یوم موعود؟ لم نسمع فی حیاتنا عن یوم موعود ومن ہو ہذا الذی وعدنا بہذا الیوم؟ این الدلیل؟
        وشاہد ومشہود – من ہؤلاء؟ اثبت وجودہم اولاً؟
        قتل اصحاب الاخدود – فعلا؟ من قتلہم؟ ومتی قتلہم؟ ہات الدلیل؟
        النار ذات الوقود – ایۃ نار وای وقو د؟ ارنا ایاہا واثبت وجودہا بالدلیل؟

        غرض کے آپ کے طریقے سے تو ہر چیز کی واٹ لگائی جاسکتی ہے قبلہ، یہ وطیرہ نہ تو اہل علم کا ہے اور نا ہی اہل دانش کا.. امید ہے سمجھ گئے ہوں گے والا فعلی عقولکم السلام مع السلام..

        1. محترم اینڈرسن شا صاحب لگتا ہے کہ آپ برا مان گئے ہیں ، الله کرے کہ میرا خیال غلط ہو ، مگر درست ہونے کی صورت میں معذرت قبول فرمائیں کیونکہ میرا مقصدقطعی آپ کو تنگ کرنا یا زچ کرنا نہیں تھا . کاش کہ آپ بات کو اتنا کھیچنے کے بجائے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ جب میں کافی وقت سے آپ کے بلاگ کا خاموش قاری ہوں تو اب اچانک سے کیوں تبصرہ کیا؟ تو آپ کو ضرور یہ علم ہو جاتا کہ میں آپ سے دراصل ایک علمی مباحثہ کرنا چاہ رہا تھا ، مگر آپ نے بات کو کوئی اور ہی رنگ دے دیا اور پھر ہم دونوں ہی کسی اور ہی رخ پر چل پڑے ، خیر ہم اب بھی یہ کام کر سکتے ہیں اور اگر آپ اپنے بلاگ پر یہ پسند نہ کریں تو email پر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے. صرف ایک شرط ہے کہ سوالات کو ٹالنے کے بجائے ، مدلل جوابات دینا ہونگے ، اور جواب نامعلوم ہونے کی صورت میں معذرت بھی کی جاسکتی ہے. رہی قرآن کی باتوں پر دلیل طلب کرنا تو جب الله سے ملاقات ہو گی اور اگر اس نے اجازت دی تب اسی سے ہر بات کی حقیقت پوچھ لیں گے اور تب تک قرآن کو برحق جان کر اسکو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسکے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے.

          ایک اور بات کہ یوں تو میں بھی کسی قابل نہیں ہوں اور دنیا کے اس سمندر میں ایک قطرے سے بھی کم اہمیت ہے لیکن پھر بھی “قطرہ قطرہ ملے تو سمندر ضرور بنتا ہے” کا قائل ہوں لہذا اسی سمندر کی تلاش کے لئے مثبت، فکری اور انقلابی سوچ کو اپنے اندر اور دوسروں کے اندر بیدار کرنے کی وقتاً فوقتاً کوشش کرتا رہتا ہوں یہ بات بھی بخوبی جانتا ہوں کہ ہر بندہ اپنا ایک الگ اندازِ بیاں اور اندازِ سوچ رکھتا ہے اور اگر اسی انداز کو وہ مثبت پہلو دے دے تو وہ کم از کم فکری انداز کا مالک ضرور بن جاتا ہے، باقی آپ کی کوئی بات مجھ کو گراں نہیں گذرتی، اس لئے آپ سے بھی گزارش ہے کہ کھل کر بات کیا کریں ، کیونکہ میں تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی بات کہہ دینے کی مکمل آزادی کے حق میں ہوں

          ایک بات اور ویسے تو بلاگ نگار بننے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ چھوٹی سی متنازع ”شُرلی“ چھوڑ دو اور لوگوں کو بحثوں میں الجھائے رکھو لیکن یہ بھی ساتھ میں مدنظر رکھیں کہ انسانوں کے درمیان آپ کا بلاگ آپ کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے یعنی جیسے آپ، ویسا آپ کا بلاگ ، اور الله نے ہم پر ایسے نگہبان مقرر کر رکھیں جو ہر بات لکھ لیا کرتے ہیں اور ان کے لکھے پر ہمارا حساب ہونا ہے، باقی جو دل کرتا ہے، جیسا دل کرتا ہے، بس لکھ دو ، بلاگ آپ کی جاگیر ہے، جس میں جیسے چاہو، جس انداز میں چاہو، گھومو پھرو. موج مستی کرو، سیکھو سیکھاؤ اور زندگی جیو. اب ”موج مستی“ کا کوئی ”پُٹھا سِدھا“ مطلب نہ نکال لینا۔ تنقید سے کبھی نہ ڈرو کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس نے آج تک کسی کو نہیں بخشا لہذا ہو سکے تو تنقید سے کچھ سیکھو. وسلام

          1. حضرت اس میں ناراضگی والی کوئی بات نہیں، یہ ایک بحث برائے بحث چل نکلی تھی جسے روکنا ضروری تھا، باقی مجھ پر وحی تو نازل نہیں ہوتی کہ مجھے پتہ چل جائے کہ جناب کون کتنے عرصے سے قاری ہے اور اب اچانک تبصرہ کیوں کر رہا ہے 🙂

            رہی آپ کے مباحثے کی بات تو آپ جس مقصد کے لیے مباحثہ کرنا چاہتے ہیں وہ مجھے پہلے سے ہی معلوم ومفہوم ہے لہذا اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا پھر بھی آپ مصر ہوں تو یہیں بلاگ پر ہی سر عام کر لیں کہ چھپ کر مباحثہ کرنے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا..

          2. جناب آپ مباحثہ کے مقصد اور جو آپکو پہلے سے ہی معلوم ومفہوم ہے اس پر روشنی ڈالیں تو بات آگے بڑہایں.

    2. تاہم میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی بھی گھٹیا ترین ملک کی گھٹیا ترین قوم کے قانون میں سیب کھانا جرم ہوگا یا اس کے کھانے پر پابندی ہوگی سوائے خدا کے قانون میں، جہاں تک حکم کی نافرمانی کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر اس سیب یا گندم سے منع نہ کیا گیا ہوتا تو کیا آدم وہ سیب یا گندم کھاتا؟ در حقیقت منع کر کے خدا نے خود ہی اس کی توجہ اس کی طرف مبذول کرا دی اگر وہ ایسا نہ کرتا تو آدم کبھی وہ سیب یا گندم نہ کھاتا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آدم کو پھنسانے کی ایک سازش تھی اور یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ اس نے یہ سیب کھانا ہے جس کا اعتراف خود حضرت آدم علیہ السلام کر چکے ہیں.

      assalam alaikum janab Anderson Shaw sahab….ooper aik paragraph paste kiya eh apki likhai ka. is per hi sirf bat kerni he. baqi apki aur Abdul rauf sahab ki batain perh li hn…khair… esa he keh ye concept keh insan ko jis bat se mana kiya jaey wo us ki terf attract hota he…is bat ke peechey insan ki ‘curious nature’ kar ferma he na keh uski ‘dis-obeying nature’ jesa keh apko bacho me is ka andaza hota hoga…nache mann ke sache hote hn…phir bhi unko mana kiya jaey kisi bat se to wo uski terf attract hote hn…jese kisi bhi grm cheez se mana kiya jata he keh touch kerne per hath jal jyga…to jis bache ko logic nhi smjh ai gai hogi ya wo phir bhi curious hoga wo ja ker grm cheez ko hath laga ker hath jala ker smjh hi jata he keh kiu mana kiya jata he (aur phir bara ho ker apne choto ko bolta he keh hum ne esa kiya to ye result aya tum na kerna..lolz) khair… insan by nature disobedient nahi he, sirrf curious he… aur wo ‘built in goodness package’ ke sath hi dunya me aaya he jisko aam fehm me zameer kaha jata he… aur is zameer ka kam he ghalati ki nishandahi kerke us se mana kerte rehna… ye to thi aik bat
      ab dosri bat keh ye te tha keh Adam A.S. ko janat se dunya me aana tha aur is ke liye Allah ki A.S. ko to apni is ‘fate’ ka ilm nahi tha….unko to janat me rehne ka kaha gaya tha aur bas sirf aik plant ka phal mana kiya gya tha….aur Adam A.S. koi curiosity ki wajha se to wo khane nahi gaey, unko shaitan ne behkaya …is ke liye dekh lain quran
      surah baqrah ayat 36
      surah araaf ayat 20,21 jahan saaf shaitan ki bat likhi he keh usne kiya lalch di thi Adam A.S. ko
      surah taahaa ayat 117-121 jahan Allah ne saaf lafzoon me Adam A.S. ko warning di keh kiya nuqsan hoga aur uska bad shaitan ke waswasey ka waqya he
      agr ap quran ko Allah ka kalam mantey hain to in ayat se apko saf pata chal jyga keh Adam ne kis wajha se Allah ki nafermani ki thi…aur yaqeenan ye bhi pata chal jyga keh wo wajha apki batai hui wajha se alag he.
      ab teesri bat ye keh ye kon sa insaf he kleh itni choti si nafermani ki itni bari saza keh sirf aik fruit kha liya to janat se utha ker dunya me phaink diya jaey aur phir her terf se museebatain aati rahain…. yaqeenan isko itni choti picture me dekha jy to ye koi insaan nahi he balkeh zulm he…. lekin picture ko dekh rhe hn to her angle se dekhye… aik terf Allah he jisne her cheez ko banaya, insan ko bhi banaya, aur her bat per qadir he. kuch waqt pehle hi Allah ne Adam ko sidja kerwaya tamam farishtoon se aur tb hi Iblees ne inkar kiya to Allah ne Adam A.S. ko warn bhi kiya iblees ki dushmani ke barey me…phir bhi Adam A..S. ne na sirf iblees ki bat suni balkeh usko obey bhi ker liya…..imagine urself in such a position….
      ap dunya ke sb se bare sorcerer hn ap ne aik mamooli sa be-hesyat keera banaya he aur usko sirf aik choti si bat se mana kiya he aur us ko kerne ke nuqsan bhi btain hn aur usko apki taqat ka bhi andaza he phir bhi wo mamoli keera apki nafermani kerta he….apko kitna ghussa ayga? wont you feel like torturing it till eternity keh uski himmat kesi hui mere hukm ko talne ki????
      but Allah ne sirf jo kaha tha wohi kiya,yani janat se nikal diya magr dunya me bhi be-aasra nhi bheja….sath reassurances bhi thi keh Allah ki terf se instructions aur guidelines aati rahaingi, aur ye bhi keh aik time period ke liye hi dunya me bheja ja rha he eternity ke liye nahi…..
      aur uske bad dunya me jb Adam A.S. ne apni ghalti ki maafi mangi to maafi bhi milgai…aur inshallah aakhirat me janat bhi miljygi unko….
      kiya ap ne kisi aik bhi country ke qanoon me esa insaf dekha he jis me gunah kerne wali ki fitrat ke hisaab se usko saza milti ho? nakeh uske gunah ke hisab se…. na fermani to shaitan ne bhi ki thi…aur nafermani hi Adam ne bhi ki thi….dono Allah ki makhloooqat hain….aik terf Allah ka sb se ibadat guzaar jin jo keh farishtoon ka sardaar bhi he (isn’t it a big thing?) to dosri terf aik kamzor sa insan jis se koi faida to milega nhi Allah ka
      phir bhi shaitan mardood thehra aur iAdam A.S. ko baad me maafi milgai aur saza bhi simple si hi mili.
      koi aik misaal dn aisey insaaf ki?
      khud ko temporary tor per khuda ke tor soch ker bhi dekhyega zaroor…
      regards
      Nudrat

      1. ندرت صاحب جیسا کہ آپ کے پہلے تبصرے سے معلوم ہوا کہ آپ کو اردو لکھنے سے نفرت ہے اسی طرح عرض ہے کہ ہمیں رومن اردو سے نفرت ہے، آپ جو یہ اتنے طویل تبصرے رومن میں تحریر فرماتے ہیں انہیں پڑھنا ہم جیسوں کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں، یقین کریں میں آپ کا یہ تبصرہ بمشکل تمام آدھا ہی پڑھ سکا ہوں اور اس میں بھی کئی الفاظ سمجھے سے باہر ہیں، خاکسار سرنگوں ہوکر آپ سے عاجزانہ التجاء کرتا ہے کہ اگر گفت وشنید مقصود ہو تو تبصرہ حقیقی اردو میں فرمایا کریں ورنہ ہمیں معذور جانیں کہ یہ فرنگی اردو ہمارے بس سے باہر ہے… 🙂

          1. ارے نہیں جناب آپ کو نا اہل قرار دینے کی بندہ جسارت نہیں کر سکتا ہم تو بس گفتگو کو آسان بنانے کے لیے اردو کے حق میں ہیں، رومن پڑھنے کی عادت نہیں چاہے انگریزی ہو یا رومن میں اردو.. 🙂

  8. رؤف صاحب! آپ جن پروفیسر صاحب کے گرویدہ ہوئے جا رہے ہیں وہ صرف آئیں بائیں شائیں لکھ سکتے ہیں اور آئیں بائیں شائیں کرنے والے ہی وہاں تبصروں میں ان کی تعریف کرتے ہیں۔ دو تین دفعہ پروفیسر صاحب سے ان کی تحریروں کے متعلق چند سوالات کیا کر لیے جواب دینا درکنار وہ تبصرے ہی شائع نہیں ہوئے۔ جو بندہ اپنے لکھے پر کسی کو جواب ہی نہ دے سکے اس کا حوالہ دینا ہی فضول ہے۔

    1. جبران صاحب مجھ کو تو پروفیسر عقیل صاحب صرف آئیں بائیں شائیں کرنے والے نہیں لگتے ہیں ، آپ کے جو سوالات ہوں مجھ کو بھیج دیں ، میں ان سے جوابات حاصل کر کے آپ کو بھیجنے کی کوشش کروں گا. بس اس بات کا خیال رکھا کریں کہ آپ کبھی ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو لوگ دین و دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے خود تو کچھ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں ان کو داد دینے کی بجائے انہیں دل شکستہ کرتے رہتے ہیں.

  9. یہ دنیا جنت بھی اور جہنم بھی . اچھے کام کرکے ایکدوسرے کیساتھ خوش رہو یا پھر برے کام کرکے ایکدوسرے کے آگے ذلیل ہوجاؤ. یہ ہے جنت اور جہنم.

    ہمارے ملک میں مشہور بات یہ رہی کہ یہاں‌ہندو مسلم فسادات عام ہیں (جو کہ خالص سیاسی تھے) مگر اب بالکل نہیں. یہاں کے پبلک ٹرانسپورٹس، ریسٹورنٹس، بیئر بار، پب اور ڈسکو کے علاوہ شادی بیاہ اور غم و خوشی کی تمام تقریبات میں سبھی مذاہب و عقیدے کے ماننے والے ایک ساتھ ہوتے ہیں. یہی یہ منظر ہے جو میرے لئے جنت ہے 🙂

      1. عالم ارواح میں. حوالہ : ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُورِھِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَھُمْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَا أَن تَقُولُواْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْن﴾(الأعراف:۱۷۲)‘‘اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا،یعنی ان سے پوچھا:‘‘کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟’’ وہ کہنے لگے: ‘‘کیوں نہیں۔ ہم گواہ ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے۔’’یہ اقرار اس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔‘‘

        اب بذریعہ قرآن ہم یہ تو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا:﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾ (الأعراف:۱۷۲)‘‘کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟’’ لیکن اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے ہیں اور نہ ہی جان سکتے ہیں۔کیونکہ اگر یہ گفتگو اولیائے کرام کی طرف کئے جانے والے الہام کی صورت میں تھی تو بغیر آواز کے ہو گی۔اگریہ الہام تھا تو وحی نہ تھی اور اگر وحی تھی تو الہام نہ تھا۔اگریہ روح سے گفتگو تھی تو جسم سے نہ تھی اور اگرجسم سے ہم کلامی تھی توروح سے نہ تھی۔

        یہ پہلوبہت اہم ہے،کیونکہ عالم مثال،عالم برزخ یا عالم ارواح میں دیکھی یا سنی ہوئی چیزوں کو اس عالم کے معیاروں پرپرکھنا بہت بڑی غلطی ہے۔صادق و امین حضرت محمدﷺنے ہمیں بتایا ہے کہ منکر اور نکیر قبر میں ہمارے پاس آکر ہم سے سوال وجواب کریں گے،لیکن یہ سوال و جواب کیسے ہوگا؟کیا وہ روح کو مخاطب کریں گے یا جسم کو؟کوئی بھی صورت ہو نتیجہ ایک ہی ہے کہ میت ان کی بات کوسنے گی،لیکن اس کے اردگرد اور پاس موجود لوگوں کوکچھ سنائی نہیں دیتا حتی کہ اگرٹیپ ریکارڈر اور مائیکروفون بھی قبرمیں رکھ دیاجائے تب بھی کوئی چیزریکارڈنہ ہوگی،کیونکہ قبر کی گفتگو کے ابعاد اس دنیاکے ابعادسے مختلف ہیں۔آئن سٹائن وغیرہ نے اشیاء کے چوتھے اور پانچویں بعد کا ذکرکیاہے۔ابعادکے اختلاف سے اشیاء کی حقیقت بھی بدل جاتی ہے۔

        اس سے ثابت ہوتاہے کہ ارشادِخداوندی:﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾ روحوں سے خاص خطاب ہے، جسے سننے یا یاد رکھنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے،گوبسااوقات ہمارے وجدان پر اس کا پرتو پڑ جاتاہے،دوسرے لفظوں میں ہم اپنے وجدان پرپڑنے والے پرتو کے ذریعے اس گفتگو کو محسوس کر سکتے ہیں۔

        ایک مرتبہ ایک اہل علم اس موضوع پرگفتگو کر رہا تھا تو ایک شخص نے اس سے کہا: ‘‘مجھے تو اس گفتگو کا احساس یاشعور نہیں ہے۔’’عالم نے اس سے کہا:‘‘لیکن مجھے اس کا شعور ہے۔اگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے تو یہ تمہارا مسئلہ ہے۔میں بخوبی جانتا ہوں کہ مجھے اس کا احساس و شعور ہے۔’’ اگرمجھ سے پوچھاجائے کہ میرے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ تو میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ جب میں محدود اور فانی ہونے کے باوجود اپنے دل میں ہمیشہ رہنے کی خواہش محسوس کرتاہوں تو مجھے خداکی اس آواز کا احساس ہوتا ہے۔ محدود کے لیے لامحدود کا ادراک ممکن نہیں ہے۔میں بھی چونکہ محدود ہوں، اس لیے میں اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت حاصل نہیں کرسکتا، لہٰذاجب میں اپنے دل میں لامحدود ذات اورہمیشگی کی طرف میلان پاتاہوں تو مجھے اس ہم کلامی کے پیش آنے کا احساس ہوتا ہے، ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اس محدود دنیاکی ایک حقیر سی مخلوق ہونے کی حیثیت سے میں اپنی چندروزہ زندگی گزارنے کے بعد موت کی آغوش میں چلاجاتااورمیری عمر کی طرح میری سوچیں اورآرزوئیں بھی محدود ہوتیں،لیکن مجھے ہمیشہ رہنے کی فکررہتی ہے، میرے دل میں ہمیشہ جینے کی خواہش پروان چڑھتی ہے،جنت اور جمالِ خداوندی کے دیدارکاشوق مجھے بے چین کیے رکھتاہے اورساری دنیاکی بادشاہت بھی میری خواہشات کی تسکین نہیں کرپاتی۔اپنی یہ کیفیت دیکھ کرمیں کہتاہوں کہ میں نے اس مکالمے کو محسوس کیاتھا۔

        وجدان کی حقیقت کچھ بھی ہو وہ ہر لحظہ خدا کا مشتاق رہتا اور اس کے گن گاتاہے۔ وجدان کبھی غلط بیانی نہیں کرتا۔جب تک اسے اس کا مطلوب حاصل اور اس کی خواہش پوری نہ ہو گی اس وقت تک اسے راحت ملے گی اور نہ ہی وہ خوشی اور اطمینان حاصل کرپائے گا۔ ارشادخداوندی ہے:﴿أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ (الرعد:۲۸)‘‘سن رکھو! کہ اللہ کی یاد سے ہی دل آرام پاتے ہیں۔’’چونکہ دل لطائف ربانیہ میں سے ایک لطیفہ ہے،اس لیے اسے صرف اسی صورت میں سکون حاصل ہو گا جب وجدان مقام اطمینان کو پالے گا۔

        یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ برگساں وغیرہ جیسے بہت سے فلاسفہ تمام عقلی اور نقلی دلائل کو چھوڑکرصرف وجدان کواللہ تعالیٰ کے وجودکی دلیل قراردیتے ہیں،حتیٰ کہ جرمن فلسفی کانٹ نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی عظمت و جلال کے شایانِ شان طریقے سے جاننے کے لیے میں نے اپنی تمام معلومات کو ایک طرف رکھ دیا۔برگساں نے اس راستے میں ذکاوتِ حس کو اپنا راہنما بنایا۔وجدان اور ضمیر کا وجود اس کے نزدیک واحد دلیل ہے۔ خداکے انکارسے ضمیر اور وجدان کوایذا پہنچتی ہے اور ایمان باللہ سے انہیں مسرّت اوراطمینان حاصل ہوتاہے۔

        جب انسان اپنے وجدان کی آوازپرکان لگاتاہے اوراس کی گہرائی میں جھانکتا ہے تو ایک ازلی اور ابدی معبودپر ایمان لانے کے خواہش شدت سے محسوس کرتا ہے۔ یہ کیفیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد:﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾کے جواب(بَلٰی)کی دلیل ہے۔اگر انسان اپنے وجدان کی گہرائیوں سے آنے والی آواز پر کان لگائے تواس آواز کو سن سکتا ہے،لیکن اگراس نے اس آواز کو اپنی عقل یا جسم میں تلاش کیاتواسے ناکامی کاسامنا ہو گا،کیونکہ یہ آوازہرشخص کے ضمیرمیں پنہاں ہے اور اسے صرف ضمیر کی آوازکے ذریعے ہی ثابت کیاجاسکتاہے۔انبیاء،اولیاء اور اصفیاء یہ بات سمجھتے تھے اورانہوں نے اس کی اچھی طرح وضاحت کی ہے۔ ان کے لیے اس میں کوئی ابہام نہ تھا۔

        اگراس حقیقت کوہم عقلی طورپرثابت کرناچاہیں تویہ ممکن نہیں،کیونکہ عقل صرف صنوبر یا اورئنٹل پلین(Oriental Plane)جیسی موصیص چیزوں کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے،لیکن جو شخص اپنے وجدان کی آواز پر کان لگاکر اپنے باطن میں جھانکے گاوہ اس آوازکو سنے گا اور اس حقیقت کوپالے گا۔

          1. جی ہاں ادہر ہی سے کاپی کیا تھا – مگر چونکہ آپ نے عقیل صاحب والے لنک کے سلسلے میں سردمہری کا اظہار کیا تھا اسی لیے اسبار لنک نہیں دیا – کاپی محض استفادہ کے لیے کیا تھا – ورنہ میں نہ تو کوئی مصنف ہوں اور نہ ہی کسی بلاگ کا مالک – اور نہ ہی میرا انکی یا کسی کی بھی تحریر پر کوئی دعوی ہے – لہذا مجھ پر سرقہ کا الزام نہی لگتا ہے.

  10. رؤف جی، جو مرے ہیں ان سے پوچھو کہ مرنے کے بعد کدھر چلے جاتے ہیں؟ ہم تو ابھی زندہ ہیں، اور مرنے کے بعد کی ہمیں کیا خبر اور فکر!
    آپ کو پتہ نہیں کہ روزانہ بچے کہاں سے آ رہے ہیں؟ اتنا تو ضرور پتہ ہوگا ہی کہ آپ کہاں سے آگئے!

    1. عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، سوال یہ تھا کہ آیا آپ نے کبھی یہ سوچا بھی ہے کہ موجودہ مختصر حیات کی ابتداء سے پہلے اور انتہاء کے بعد بھی کچھ ہے یا نہیں ، جسکا جواب مل گیا کہ آپ کی سوچ نہایت سطحی اور گھٹیا ہے۔
      سطحی اس لیے کہ آپ کو مرنے کے بعد کی نہ خبر ہے اور نہ فکر!
      گھٹیا اس لیے کہ آپ علمی گفتگو کرنے کے بجائے ذاتیات پر آ گئے !
      خیر اچھا ہی ہوا کہ آپ کی قابلیت کا اندازہ جلد ہی ہو گیا ، اسطرح‌آیندہ محتاط رہوں گا. وسلام

  11. جبران
    24 February 2012 at 12:26 AM

    رؤف صاحب! آپ جن پروفیسر صاحب کے گرویدہ ہوئے جا رہے ہیں وہ صرف آئیں بائیں شائیں لکھ سکتے ہیں اور آئیں بائیں شائیں کرنے والے ہی وہاں تبصروں میں ان کی تعریف کرتے ہیں۔ دو تین دفعہ پروفیسر صاحب سے ان کی تحریروں کے متعلق چند سوالات کیا کر لیے جواب دینا درکنار وہ تبصرے ہی شائع نہیں ہوئے۔ جو بندہ اپنے لکھے پر کسی کو جواب ہی نہ دے سکے اس کا حوالہ دینا ہی فضول ہے۔

    جواب تو اینڈرسن شا صاحب نے میری بات کا بھی نہ دیا .
    https://realisticapproach.org/%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%DB%81%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D9%86/
    اب کیا کیجئے؟؟؟ (:

    1. جناب آپ کا تو ایک آدھ جواب نہیں دیا گیا ہو گا، حالانکہ دوسروں کو جو سیکڑوں جوابات مل رہے ہیں آپ وہ نہیں دیکھ رہے؟
      پروفیسر صاحب تو صرف جزاک اللہ والے کمنٹس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر آپ اور رؤف صاحب پسند کریں تو ان کی کسی تحریر پر جا کر تبصرے کر لیتے ہیں دیکھتے ہیں وہ کتنے جوابات دے پاتے ہیں۔

      1. آپ کو پہلے بھی دعوت دی تھی – پھر سے دعوت دیتا ہوں کہ سوالات ارسال کردیں – جوابات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے – باقی رہا عقیل صاحب کا طرز عمل تو اپنے بلاگ کے متعلق ہوگی انکی کوئی پالیسی جس کا مجھ کو علم نہیں – میں‌چونکہ صاحب بلاگ نہیں اور اگر اینڈرسن شا صاحب ہمارے سوال و جواب کے تبادلہ کے سلسلہ کو ادھر پسند نہ کریں تو آپ مجھ کو برقی خط اس پتے پر بھیج سکتے ہیں :‌ rauf_baloch@yahoo.com

  12. برائے عبدالرؤف صاحب تبصرہ

    جناب کسی مؤمن سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حقیقت کی سنجیدہ تلاش میں فکر مخالف کے ساتھ مباحثہ کرے گا عبث ہے، اور بالخصوص مسلمان سے.. مؤمن ہمیشہ سامنے والے کو راہ راست پر لانے کے لیے ہی کوشاں رہتا ہے، یعنی گفتگو سے پہلے ہی وہ یہ تسلیم کیے ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور سامنے والا باطل پر اور اسے سامنے والے کو ظلمات کے اندھیروں سے دین کے اجالوں میں لانا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا موقف دفاعی ہوتا ہے اور وہ ہر بات کی جیسے اور جس طرح بھی ہوسکے جسٹیفیکیشن کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے بھلے اس کے نقطے میں کتنے ہی سقم کیوں نہ ہوں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا اور ایسی ایسی تاویلیں لاتا ہے کہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو، آپ کی بابت میرا یہی خیال ہے کہ آپ بھی محض اس لیے مباحثہ چاہتے ہیں تاکہ خاکسار کو راہ راست پر لے آئیں اور عند اللہ ماجور ہوں ورنہ آپ کی اس خواہش کے پیچھے اور کوئی مقصد کارفرما نظر نہیں آتا..

    اگر میرا خیال غلط ہے تو تصحیح فرمائیں 🙂

    1. محترم ، نہایت ہی فسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ خاکسار کے متعلق آپ کے نیک اندازے ایک بار پھر سے غلط ہیں ، کیونکہ آپ شاید بھول رہے ہیں کہ فدوی کے دوسرے ہی تبصرے میں یہ درج تھا کہ "” امید کرتا ہوں کہ آپ نے میری مخلصانہ باتوں کا قطی برا نہیں منایا ہوگا. یقین جانیں میں نہ تو آپ کو بد عقیدہ تصور کرتا ہوں ، کہ میں آخر کون ہوتا ہوں جو اپنے ہی جیسے کسی اور انسان کے عقیدہ میں شک کروں اور اسکے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کروں [علما و فقہا کی بات اور ہے. کہ یہ انکی ذمہ داری ہے کہ دین کی تعلیمات کی روشنی میں عقیدہ کی خرابی کی نشاندہی کریں] اور نہ ہی میرا مقصد آپ کی اصلاح کرنے کا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی واضح کردوں کہ میرا یہ ایمان ہے کہ لوگوں کی بے سروپا باتوں سے نہ تو اسلام کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ ہی اسلام کے رب ، اسکی کتاب اور اسکے نبی کی شان میں کوئی کمی آتی ہے. ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ان باتوں سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوجاتی ہے. اور اسی کی روک تھام کے لیے پاکستان میں ختم نبوت اور توہین رسالت کے قوانین نافذ کیے گیے ہیں. ” جس کے جواب میں آنجناب نے فرمایا تھا کہ "یہ باتیں بہت اچھی ہیں”. امید کرتا ہوں کہ جناب کو تسلی ہو گئ ہوگی کہ میرا مقصد تو محض حق بات کو پوھنچادینا ہے، اور ہدایت دینا تو صرف اللہ تبارک و تعالی کے ہاتھ میں ہے، حوالہ : اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ: إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورة القصص28: 56)
      “(اے محمد ﷺ!)یقینا آپ ،جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔”
      اب آپ بھی کچھ عرض کریں گے کہ نہیں ؟

      1. آپ کے اسی تبصرے سے ایک اقتباس:

        "امید کرتا ہوں کہ جناب کو تسلی ہو گئ ہوگی کہ میرا مقصد تو محض حق بات کو پوھنچادینا ہے"

        قبلہ ہاتھ گھما کر کان کو پکڑنے والی بات ہے، ہدایت دینا مقصد نہ ہوا حق بات پہنچانا ہوگیا اور حق بات پہنچانے کا مقصد کیا ہے؟ یقیناً ہدایت دینا، گول منطق کا بہترین نمونہ 🙂

          1. اب اگر آپ خبر پہنچانے اور ہدایت دینے کو ایک دوسرے کا مترادف گردانتے ہیں تو اس میں آپ کا قصور ہے نہ کہ منطق کا ! برائے مہربانی کسی اچھی لغت سے رجوع کریں.

          2. یہ گول منطق اس لیے نہیں ہے کیونکہ "حق بات” پہنچانے کا مقصد ہدایت دینا نہیں بلکہ "حق شناسی” کروانا ہوتا ہے اور جب آپ حق کو شناخت کرلیتے ہیں تو ہدایت پا لیتے ہیں.. 🙂

          3. سوال اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ خبر پہنچانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا جسے خبر پہنچانا مقصود ہے وہ بے خبر ہے؟ الفاظ کے ہیر پھیر سے منطقی مغالطہ بہرحال ختم نہیں ہوتا.. 🙂

        1. تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو اقرار ہے کہ یہ گول منطق نہیں ہے؟ کیونکہ ان سوالات کہ خبر پہنچانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا جسے خبر پہنچانا مقصود ہے وہ بے خبر ہے؟ سے منطق کے غلط ہونے اور گول ہونے کا اثبات نہیں ہوتا ہے.
          خیر اب آتے ہیں سوالوں کی طرف :
          سوال : خبر پہنچانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا جسے خبر پہنچانا مقصود ہے وہ بے خبر ہے؟
          جواب: سورۃ العصر ، اس میں بلا تخصیص باخبر یا بےخبر کے سب ہی کو خبر پہنچانے (حق بات کی تلقین) کا حکم دیا گیا ہے.

          1. قصہ مختصر کہ آپ اس بے فائدہ سلسلہ تبادلہ تبصرہ جات سے اکتا گئے ہیں. ٹھیک ہے ، اگر ایسے ہے تو ایسے ہی صحیح .

          2. یعنی میرے صاف اور واضح انکار کردینے کے باوجود آپ کے نزدیک اپنے اور آپ کے قیمتی وقت کو تبادلہ تبصرہ جات میں برباد کرنے کے پیچھے میرا مقصد آپ کو راہ راست پر لاکر عند اللہ ماجور ہونا ہے ہونے کے سواء اور کچھ نہیں ہے؟ جبکہ میرا اصل مقصد محض ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے علمی سرمایہ سے فائدہ حاصل کرنا ہے.

          3. آپ کے مباحثے کی خواہش کے متعلق میں نے کہا تھا کہ اس کا مقصد پہلے سے ہی معلوم ومفہوم جس پر آپ نے استفساراً اس پر روشنی ڈالنے کو کہا تو میں نے عرض کیا کہ اس کے پیچھے آپ کا مقصد خاکسار کو راہ راست پر لاکر عند اللہ ماجور ہونا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور مقصد کی کارفرمائی نظر نہیں آتی اس پر آپ نے ارشاد کیا کہ میرے نیک اندازے غلط ہیں اور آپ کا مقصد مجھے راہ راست پر لانا نہیں بلکہ حق بات پہنچانا ہے اور یہیں سے آپ سرکلر لاجک یعنی گول منطق کے گرداب میں ان جانے میں پھنس گئے کہ دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، پہلی تاویل کو غلط قرار دے کر جو دوسری تاویل آپ نے پیش کی وہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ پہلی تاویل کی ہی دوسری شکل ہے، میری نشاندہی کرنے پر آپ نے اپنی گول منطق جاری رکھی اور فرمایا کہ حق بات پہنچانے کا مقصد ہدایت دینا نہیں بلکہ حق شناسی کروانا ہے، یہاں بھی پہلی تاویل کو مسترد کر کے آپ نے جو دوسری تاویل پیش کی وہ بعینہ وہی ہے جسے آپ نے مسترد کردیا اگرچہ الفاظ بدل گئے، اس پر میرا تبصرہ "حق بات” اور "حق شناسی” کی گول منطق کو واضح کرنے والے مغالطے پر مشتمل تھا جس پر آپ نے مومنین کی روایتی تاویلی قلابازی کھاتے ہوئے فرمایا کہ میں "خبر پہنچانے” اور "ہدایت دینے” کو ایک دوسرے کا مترادف گردانتا ہوں اور اس طرح آپ اپنی آخری بات سے بھی پھر گئے جس کے مطابق آپ "حق شناسی” کروانے آئے تھے اور سارا معاملہ "خبر پہنچانا” ٹھہرا، اس پر بھی خاکسار نے آپ سے عرض کیا کہ سوال اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اگر معاملہ محض خبر پہنچانا ہی ہے تو خبر پہنچانے سے کیا مقصد حاصل ہونے کی توقع ہے؟ اگر اس سوال کا جواب دے دیا جائے تو آپ کا مغالطہ صاف طور پر واضح ہوجائے گا.. مجھے ہر طرح سے غلط قرار دینے کی عجلت میں آپ نے میرا اندازہ غلط قرار دیا جو کہ درست تھا نتیجتاً آپ ایک منطقی مغالطے میں پڑ گئے اور تاویل پر تاویل گھڑتے چلے گئے اور شاید اب بھی اسے جاری رکھیں.. 🙂

          4. بھئی میں نے تو بحث کی اس لڑی کا خلاصہ پیش کیا ہے اگرچہ بقول آپ کے سلسلہ بے فائدہ ہی ہے تاہم اکتانے والی کوئی بات نہیں آپ جاری رکھنا چاہتے ہیں تو بصد شوق جاری رکھیں.. 🙂

  13. رؤف صاحب اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ پیدا ہونے سے پہلے آل عالم ارواح میں تھے تو اس زمانے کی یا وہاں کی کوئی بات یا واقعہ آپ کو یاد ہے؟ اگر نہیں تو مرنے کے بعد دنیا والا آپ کا زمانہ آپ کو قبر میں کیسے یاد رہے گا؟
    سائنس کسی مذہب کو نہیں مانتی اور نہ سائنس کسی مذہب کی محتاج ہے پھر بھی کئی سائنسی حقائق کو مسلمان اپنے مذہب میں پہلے سے موجود پاتے ہیں۔ بہرحال جہاں تک میرا خیال ہے سائنس آج تک روح کو نہیں ڈھونڈ پائی، کہ انسان کے جسم میں روح ٹائپ کی کوئی چیز موجود ہے، جس پر آپ کا سارا گیم منحصر ہے۔ اس پر بھی تھوڑا دھیان دیجیے گا پلیز۔

    1. جبران صاحب ، یہ میری نہیں بلکہ قرآن کی بات ہے ، میں نے تو محض وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی ، مکمل تفصیل اسی ربط پر لکھی ہوئی ہے جدہر سے میں نے یہاں نقل کیا تھا ، مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ کریں :‌
      01. http://jaridah.wordpress.com/2012/02/13/%D8%B4%DA%A9%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%A7%D8%AF%DB%81/
      02. http://jaridah.wordpress.com/2012/02/15/%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%88%D9%85%D9%86-%DB%94-%D8%A7%D9%84%DB%8C%DA%AF%D8%B2%D9%86%DA%88%D8%B1-%D9%81%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%DA%AF/
      خلاصہ ان باتوں کا یہ ہے کہ : سائنسدان ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر مادہ کو توڑیں تو اس میں سے الیکٹران اور پروٹان بر آمد ہوتے ہیں جو کہ شاید روشنی( فوٹون)کے بنے ہوئے ہیں.(فوٹون: دراصل روشنی کے وہ یونٹس ہوتے ہیں جن میں وہ سفر کرتی ہے). اسی طرح انسان کی اصل بھی کسی غیر مرئی ہالہ (روح) کو قرار دیا جاتا ہے جو کہ روشنیوں سے بنا ہوا ہے، ورنہ اگر یہ کہا جائے کہ انسان مادہ کے سوا کچھ اور نہیں تو وہ توانائی کہاں سے آتی ہے جو انسان کو زندہ رکھتی ہے اور مرنے کے بعد وہ کہاں چلی جاتی ہے؟
      اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ جن سائنسدانوں نے روح کے وجود کو ثابت کرنے اور اسکا وزن معلوم کرنے کی بھی کوششیں کی ہیں انکے نزدیک روح‌کا وزن 21 گرام ہے . حوالہ : http://en.wikipedia.org/wiki/Duncan_MacDougall_(doctor)

      1. سائنسدان ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر مادہ کو توڑیں تو اس میں سے الیکٹران اور پروٹان بر آمد ہوتے ہیں جو کہ شاید روشنی( فوٹون)کے بنے ہوئے ہیں.(فوٹون: دراصل روشنی کے وہ یونٹس ہوتے ہیں جن میں وہ سفر کرتی ہے).

        یہ بات سراسر غلط ہے، مادہ ذروں پر مشتمل ہوتا ہے اور ذرہ الیکٹران اور پروٹان وغیرہ پر مگر یہ روشنی کے بنے ہوئے نہیں ہوتے اور نا ہی روشنی کے فوٹونز کا ان سے کوئی تعلق ہے.

        اسی طرح انسان کی اصل بھی کسی غیر مرئی ہالہ (روح) کو قرار دیا جاتا ہے جو کہ روشنیوں سے بنا ہوا ہے

        مجھے اس بندے کا نام بتائیں جس نے یہ بات کہی ہے پھر میں اسے ایک تھپڑ رسید کر کے آسانی سے ثابت کردوں گا کہ اس کی اصل غیر مرئی روح یا روشنی نہیں بلکہ مادہ ہے.. 😀

        ورنہ اگر یہ کہا جائے کہ انسان مادہ کے سوا کچھ اور نہیں تو وہ توانائی کہاں سے آتی ہے جو انسان کو زندہ رکھتی ہے اور مرنے کے بعد وہ کہاں چلی جاتی ہے؟

        اطلاعاً عرض ہے کہ مادہ اور توانائی ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں، یعنی مادہ ہی توانائی اور توانائی ہی مادہ ہے انتہائی ابتدائی طبیعات کے مطالعے سے آپ کو یہ بات آسانی سے معلوم ہوجائے گی 🙂

        رہی روح کا وزن کرنے والے اس ڈاکٹر کی بات تو آپ ہی کے حوالے سے ایک اقتباس پیش ہے:

        His results have never been reproduced, and are generally regarded either as meaningless or considered to have had little if any scientific merit.

        قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو ڈاکٹر روح کو ثابت کرنے اور اس کا وزن کرنے کے لیے مرتے انسانوں پر تجربات کرتا رہا اسی ڈاکٹر نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جانوروں میں روح نہیں ہوتی پندہ کتے زہر دے کر مار ڈالے.. 😀

  14. بحوالہ عبدالرؤف صاحب تبصرہ

    قبلہ کبھی کسی کے کسی بھی طرح کے ربط دینے پر نا تو قد غن لگائی ہے اور نا ہی سرد مہری کا اظہار کیا ہے، حتی کہ اگر آپ چاہیں تو یہاں اپنی تحریریں شائع بھی کر سکتے ہیں بھلے وہ میری ذات یا عقیدے کے خلاف ہوں اور بھلے انہیں شائع کرنے والا میرا جانی دشمن ہو، مزید برآں آپ پر سرقہ کا الزام نہیں لگایا بلکہ ایک اخلاقی عمل کی طرف توجہ دلائی ہے دل آزاری ہوئی ہو تو بندہ معافی کا خواستگار ہے.. 🙂

      1. تجاہل عارفانہ کی حد کردی آپ نے تو — مگر کسی بات سے اختلاف نہیں کیا — جس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ یہ سب کی سب باتیں من و عن درست ہیں.
        ویسے یہ سب تفصیلات آپ ہی کے بلاگ سے کشید کی گئ ہیں اور آپ کے کسی قاری کے اس سوال ( کہ آپ اگر اس خدا کے تصورسے ہمیں‌ بھی روشناس کرا دیں کہ جس کے آپ قائل ہیں تو بہت نوازش ہوگی.) کو مدنظر رکھ کر لکھا ہے.
        اب سوچ رہا ہوں کہ ہماری گفتگو کو پڑھ کر آپ کے قاری کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ درپردہ میں آپ سے ملا ہوا ہوں اور یہ بھی آپ کا اپنی تشہیر کرانے کا کوئی ڈھکوسلہ نہ ہو – ھھ ھھ ھھ

        1. بدتمیزی اور گالیوں سے مخالفین کو نوازنا ہمارے نبی عربی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہیں سکھایا ہے. لہذا اسکی توقع اور امید مجھ سے نہ رکھی جائے. اور کسی دوسرے کے عمل کا میں جوابدہ نہیں ہوں.

        2. ہا ہا ہا یہ تجاہل عارفانہ والی بات خوب کہی… اختلاف نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اختلاف نہیں ہے.. کچھ باتیں غلط ہیں تاہم میں نشاندہی نہیں کروں گا 😀

          جی ہاں بالکل اگر آپ مجھ سے با اخلاق گفتگو جاری رکھیں گے تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ آپ مجھ سے ملے ہوئے ہیں یا عبد الرؤف میں ہی ہوں، یہ غلط فہمی دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ مجھ سے کھلی بدتمیزی کریں اور گالیوں سے میری تواضع کریں اس صورت میں آپ کو مجاہد اسلام کا خطاب بھی مل سکتا ہے.. 🙂

  15. ہمم جب مادہ اور توانائ ایک ہی چیز ہیں تو روح اور جسم بھی الگ چیز نہ ہوئے۔ اس لئے مرنے کے بعد انسان کے جسم سے کوئ چیز الگ نہ ہو سکے گی۔ عبدالرءوف صاحب کے اس نظرئیے کی بنیاد پہ روح یا جسم کسی ایک کو نظر اانداز کرنا پڑے گا۔ میرا خیال ہے کہ اینڈرسن شا صاحب کو اسی بات پہ اختلاف ہے۔
    جب خدا کو سمجھنے کے لئے کسی اور جہت کی ضرورت ہے تو استدلال یہ کہتا ہے کہ روح کو سمجھنے کے لئے بھی کوئ اور جہت چاہئیے ہوگی۔ کیونکہ خدا نے روحوں سے تو خطاب کیا بہ نفس نفیس لیکن انسان سے نہیں۔
    یہاں میرے ذہن میں ایک سوال اور آتا ہے کہ موسی سے اللہ کی گفتگو کس جہت میں ہوتی تھی۔

    1. سلام علیکم،
      آپکی باتو کے جواب میں مزید کوئی فسلفہ یا استدلال بیان کرنے کا موڈ نہیں ہے. ایک بات ضرور تنگ کر رہی ہے سو وو پوچھ لوں. سوال یہ ہے کہ کیا آپکو واقعی الله کے ہونے کا یقین ہے؟ کیا آپکو واقعی لگتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بنانے والا بھی ہے جس نے اس سب کو فالتو میں نہیں بنا دیا؟ اور یہ کہ اس سب کا کوئی مقصد ہوگا؟ اگر نہیں لگتا تو آگے کی ساری باتیں بیکار ہی ہوجاتی ہیں نا؟؟؟ دنیا کے بننے کی جو کہانیاں مذہب والے بتاتے ہیں، روح، فرشتے، موت کے بعد زندگی ، جزا سزا، یہ سب کون سا اس دنیا میں نظر آتا ہے….جیسے باقی کہانیاں ویسے یہ مذہبی کہانیاں بھی ہیں اگر ان پر یقین نا ہو… جیسے کوئی fiction story ہو alice in wonderland جیسی… یا matrix جیسی… یا harry potter … یا lord of the rings … آپ کی مرضی ان سب پر ایمان لا کر اس سب concepts کو سچ سمجھ لیں یا نہیں… fiction ہو یا religion سب بکواس ہے اگر اس پر یقین نا ہو…. عقیدہ بننا یا یقین آنا کسی بھی بات پر دو میں سے ایک وجہہ سے ہو سکتا ہے…. یا تو آپ سنی سنی پر اندھا بھروسہ کر کے سچ مان لیں ….یا پھر rational logical thinking کی کسوٹی پر اس بات کو پرکھ لینے کے بعد اس پر یقین کریں
      fiction اور فلسفہ دونوں انسانوں کا بنایا ہوا ہے اسکا ہم کو پتہ ہے سو یہ دونوں غلط اور سہی ہونے کے ٥٠-٥٠ حساب میں ہیں …ٹھیک ہے نا….مگر آپ اس پر فوکس کریے جو انسان کے اختیار اور طاقت سے باہر ہے… کیونکہ جسکو ہم نے تسخیر کر لیا اسکو change یا recreate بھی کر ہی سکتے ہیں… ذرا ایک بار سوچیے کہ یہ دنیا یہ کائنات اور زندگی یہ سب خود بخود بن گئی ہے یا واقعی انکا کوئی خالق ہے….یعنی کہ کائنات خود اپنی خالق ہے یا کائنات کا کوئی خالق ہے…. یہ وو سوال ہے جسکا جواب باقی کے زندگی کے اصول بناتا ہے….جب آپ اسکا جواب ڈھونڈ لیں تب مذہبیات پر بحث کریے گا اسکے پہلے یہ ویسا ہے کہ بچے نے abc تو پڑھی نہیں اور لگا poetry کے رموز اوقاف سمجھنے….
      مذہبیت پر سارے debates کرنے والوں کو یہی مشورہ ہے میرا کہ پہلے اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ خدا کو مانتے بھی ہیں یا نہیں… اگر نہیں مانتے تو کیوں فالتو کی tension اپنے سر لے رکھی ہے….کھاؤ پیو عیش کرو پا جی چار دن کی چاندنی میں ….
      اور اگر واقعی آپکی عقل خدا کے وجود کو پہچان گئی ہے تب ڈھونڈیں کہ خدا آپ سے کیا چاہتے ہے….
      اس سب کو کوئی personal hit یا کرارا طنز مت سمجھےگا بلکہ ایک sincere مشورہ سمجھےگا… کیونکہ یہ یہی ہے …میں نے بھی یہی کیا ہے اپنی زندگی کے ساتھ
      الله حافظ

      Regards
      Nudrat

    2. ہمم جب مادہ اور توانائی ایک ہی چیز ہیں تو ہم بجلی کے تار اور اس میں موجود بجلی (کرنٹ) میں فرق کیوں کرتے ہیں؟ جب مادہ اور توانائی ایک ہی چیز ہیں تو ہم بجلی کے بلب اور اسکی روشنی میں فرق کیوں کرتے ہیں؟ امید ہے میرا اشارہ جناب اینڈرسن شا سمیت آپ کی بھی سمجھ شریف میں آہی گیا ہوگا کسطرح جب مادہ اور توانائ ایک ہی چیز ہیں مگر پھر بھی جسم و روح دو الگ الگ چیزیں ہیں؟

      یہ ایکدم درست بات ہے کہ جب خدا کو سمجھنے کے لئے کسی اور جہت کی ضرورت ہے تو استدلال یہ کہتا ہے کہ روح کو سمجھنے کے لئے بھی کوئ اور جہت چاہئیے ہوگی۔ کیونکہ خدا نے (عہد الست میں) روحوں سے تو خطاب کیا (تھا) بہ نفس نفیس لیکن انسان سے نہیں.(مگر وہ اس بات کے لیے قطعا مجبور نہیں ہے، جب اور جیسے اسکا دل کرے بات کرتا اور اپنی سنواتا ہے!)

      باقی رہا یہ سوال کہ حضرت موسی علیہ سلام سے اللہ کی گفتگو کس جہت میں ہوتی تھی تو اسکا علم مجھ کو نہیں ہے، مگر میرا گمان ہے کہ اسی جہت میں ہوتی تھی جس میں ہم آپ رہتے ہیں. اگر مزید تفصیلات درکار ہوں تو کسی مستند عالم سے حاصل کرلیں.

  16. (((تاہم میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی بھی گھٹیا ترین ملک کی گھٹیا ترین قوم کے قانون میں سیب کھانا جرم ہوگا یا اس کے کھانے پر پابندی ہوگی سوائے خدا کے قانون میں، جہاں تک حکم کی نافرمانی کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر اس سیب یا گندم سے منع نہ کیا گیا ہوتا تو کیا آدم وہ سیب یا گندم کھاتا؟ در حقیقت منع کر کے خدا نے خود ہی اس کی توجہ اس کی طرف مبذول کرا دی اگر وہ ایسا نہ کرتا تو آدم کبھی وہ سیب یا گندم نہ کھاتا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آدم کو پھنسانے کی ایک سازش تھی اور یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ اس نے یہ سیب کھانا ہے جس کا اعتراف خود حضرت آدم علیہ السلام کر چکے ہی))))

    سلام علیکم جناب مکّی صاھب، یہ پوسٹ میں نے دوبارہ سے type کر کے پوسٹ کرنے کی زحمت کر لی کیونکہ اس میں لکھا ہوا concept آپ تک پہنچانا مقصد ہے .
    خیر ، اوپر اپ کی لکھی ہی بات نقل کی ہے اور اس کا جواب دیا ہے نیچے
    آپ کا کہنا ہے کہ انسان کو جس چیز سے روکا جاتے تو وو اسی کی طرف جاتا ہے اور یہ انسان کی فطرت میں ہے. جب کہ تصویر کا یہ ایک چھوٹا حصّہ ہے . اصل میں بات یہ ہے کہ انسان فطرتا ‘dis -obeyer ‘ نہیں ہے بلکہ وہ تجسّس رکھتا ہے اور اس وجہہ سے جو بھی نی یا الگ چیز اسکو سمجھ آتی ہے اسکی طرف کھینچتا ہے. اس کی بہترین مِثآل بچے ہیں . انکو بظاھر جس سے روکا جاتے وو ہی کرنے کو جاتے ہیں جیسے بجلی کی تار یا پلگ وغیرہ ہیں. مگر کسی بچے کو اسکی ہوش کی عمر میں اگر بجلی کا جھٹکا لگ جاتے کیا وو اسکے بعد بھی بجلی کی چیزوں سے کھیلے گا؟ اول تو وہ خود ہی ڈرتا رہے گا مگر پھر بھی اگر کوئی بڑا اسکو کسی بجلی کی چیز سے منا کرے تو کیا وو بچہ اسکو "اپنی فطرت سے مجبور ہو کر disobey کرے گا؟” ہرگز نہیں. کیونکہ اسکی فطرت میں نافرمانی تھی ہی نہیں شروع مے بھی .
    بچے اور بڑے دونو ضد میں بھی کرتے ہیں اکثر الٹے کام جیسے کسی کو بولا جاتے کہ آپ کو xyz جگہ جانے یا xyz کم کرنے کی اجازت نہیں ہے .جب تک وجہہ نہیں بتائی جاتے گی یا دوسرے کو ہماری عقل سمجھ پر بھروسہ نہیں ہوگا وو ہماری بات نہیں مانے گا کیونکہ یہاں انسان شوری اور لا شعوری طور پر بھی یہ سمجھ چکا ہے کہ جیسے ہم limited ہیں ویسا ہی دوسرا انسان بھی limited ہے اور یہ لازمی نہیں کہ وو جو کہ رہا ہے وہ کسی solid عقلی وجہہ سے ہی کہ رہا ہے اسی لئے وو blind obedience کی بجاے تحقیق کرنا زیادہ ضروری سمجھتا ہے پھر جو اسکی عقل کا فیصلہ ہوتا ہے وو وہی کرتا ہے. یہ بھی انسان کی ایک فطرت کا ہی حصّہ ہے جسکو دوسرے ضد کہ کر negative بنا دیتے ہیں . ایک سادہ سی مثال دیکھ لیں کہ alcohol میں کچھ فائدے ہیں اور کچھ نقصان بھی. اب کسی تینگر کو جسکو پتا ہو کہ اسکو پینے سے کتنا مزہ آتا ہے اسکو آپ منا کریے alcohol سے تو وہ ظاہر ہے نہیں سنے گا کہ دیکھو تو ابّا کو اپنے دور میں مزے کیے ہوں گے اب میرا وقت ہے تو lecture شروع ہوجاتا ہے انکا، ابّا میری تفریح چاہتے ہی نہیں ہیں. بلا بلا … خیر ، آپ لاکھ روکتے رہیں جب تک آپ solid reasons پر بات نہیں کریں گے اسکی عقل میں نہیں آیگا.مگر آپ ایک دن ایک گھنٹہ لگا کر وو سب studies اور researches جمع کر لیں جس میں alcohol کے short term اور long term side effects موجود ہیں اور اسکے بعد آپ اچھے سے سمجھا کر وو سب اسکو دے دیں کہ اسکو بھی پڑھ لینا تاکہ میری نصیحت کی وجہہ سمجھ آجاے تو اسکے بعد کیا اپکا teenager بچہ آپ کی نافرمانی کرے گا؟ ہرگز نہیں کیونکہ اب سوال آپکی بات ماننے کا ہے ہی نہیں اب سوال اسکی اپنی بہتری کا ہے سو جب بھی وو اس معاملے پر سوچے گا تو فیصلہ اپنی بہتری کے حق مے ہی کرےگا….. اپر اس پراگراف کے شروع میں ہی میں نے دو وجہہ لکھی ہے نافرمانی کی، ایک تو یہ کہ جب تک دوسرے کو وجہہ سمجھ نہیں ے گی وو بات نہیں مانے گا. دوسری وجہہ یہ کہ جب تک اسکو ہماری sincerity اور عقل پر بھروسہ نہیں ہوگا تب تک بھی وو ہماری بات نہیں مانے گا. اگر آپ میری طرح کمپیوٹر programming کی فیلڈ میں "toddler ” کی حثیت رکھتے ہیں تو یقینن آپکو میری یہ مثال سمجھ آجاے گی. جب میں نے کمپیوٹر استمعال کرنا شروع کیا تب user manual سے اسکے بارے میں سیکھا اور جب windows استمال کرنا شروع کیا تب بھی دوسروں سے سیکھا کیونکہ مجھے تو abc بھی نہیں آتی تھی اور آج تک بھی "obey and follow ” کا ہی سلسلہ چل رہا ہے کیونکہ مے نے بھروسہ کیا ہے اپنے سکھانے والوں پر کہ انہو نے سہی سکھایا ہو گا ….بس اس بھروسہ کرنے سے پہلے انکی credibility اپنی عقل سے judge کرلی تھی…. اور یقینن آپ بھی یہی کرتے ہونگے اس سب معاملات میں جنکی عقل سمجھ آپکو نہیں ہوتی ہوگی ( جیسے doctor سے معاملہ ) ….. کیا اب بھی آپکو لگتا ہے کہ انسان فطرت کے حساب سے نافرمان ہے؟
    میرا پہلا point یہی ہے کہ انسان نافرمان نہیں ہے بلکہ تجسّس کرنے والا ہے … اور ہر انسان کے ساتھ ایک built -in goodness package with tester موجود ہے جس کو عام فہم میں عقل اور ضمیر کہتے ہیں respectively .
    ————————-
    میرا دوسرا point یہ ہے کہ الله نے یہ طے کر رکھا تھا کہ آدم کو دنیا میں آنا ہے اور کیسے آنا ہے یہ بھی الله کو پتہ تھا. مگر آدم کو الله نے یہ سب نہیں بتایا تھا. انکے پاس انکے اعمال کی choice تھی. صرف انکو جنت کہ ایک پودے کا پھل منا کیا تھا کہ اسکو نہیں کھانا ورنہ تمکو نقصان ہوگا . پھر بھی آدم نے وو کھا لیا کیونکہ شیطان نے بہکا دیا اور ایک نقصان کی چیز کو آدم ایک فائدے کی چیز سمجھ کر اس فائدے کی لالچ میں کھا گئے… اس کا حوالہ ان دو جگہوں پر دیکھ لیں قرآن میں…جناب قرآن کے ترجمے مجھکو اردو میں unicode والے نہیں مل رہے سو یہاں انگلش والے ہی کوپے کر دے ہیں
    [2.36] But the Shaitan made them both fall from it, and caused them to depart from that (state) in which they were; and We said: Get forth, some of you being the enemies of others, and there is for you in the earth an abode and a provision for a time.
    [2.37] Then Adam received (some) words from his Lord, so He turned to him mercifully; surely He is Oft-returning (to mercy), the Merciful.
    [2.38] We said: Go forth from this (state) all; so surely there will come to you a guidance from Me, then whoever follows My guidance, no fear shall come upon them, nor shall they grieve

    دوسرا حوالہ
    [7.19] And (We said): O Adam! Dwell you and your wife in the garden; so eat from where you desire, but do not go near this tree, for then you will be of the unjust.
    [7.20] But the Shaitan made an evil suggestion to them that he might make manifest to them what had been hidden from them of their evil inclinations, and he said: Your Lord has not forbidden you this tree except that you may not both become two angels or that you may (not) become of the immortals.
    [7.21] And he swore to them both: Most surely I am a sincere adviser to you.
    [7.22] Then he caused them to fall by deceit; so when they tasted of the tree, their evil inclinations became manifest to them, and they both began to cover themselves with the leaves of the garden; and their Lord called out to them: Did I not forbid you both from that tree and say to you that the Shaitan is your open enemy?
    تیسرا حوالہ
    [20.116] And when We said to the angels: Make obeisance to Adam, they made obeisance, but Iblis (did it not); he refused.
    [20.117] So We said: O Adam! This is an enemy to you and to your wife; therefore let him not drive you both forth from the garden so that you should be unhappy;
    [20.118] Surely it is (ordained) for you that you shall not be hungry therein nor bare of clothing;
    [20.119] And that you shall not be thirsty therein nor shall you feel the heat of the sun.
    [20.120] But the Shaitan made an evil suggestion to him; he said: O Adam! Shall I guide you to the tree of immortality and a kingdom which decays not?
    [20.121] Then they both ate of it, so their evil inclinations became manifest to them, and they both began to cover themselves with leaves of the garden, and Adam disobeyed his Lord, so his life became evil (to him).
    [20.122] Then his Lord chose him, so He turned to him and guided (him).

    اوپر دے ہوے حوالوں کو اردو میں ڈھونڈ کر کے پڑھ لیں اور آسانی ہو گی سمجھنے میں. خیر اتنا تو پتہ چل ہی گیا ہوگا کہ آدم نے جس وجہہ سے نافرمانی کی تھی وو ہرگز انکی فطرت کی نافرمانی کی عادت کی وجہہ سے نہیں تھی بلکہ آدم کو شیطان نے بہکایا تھا.
    —————————
    اب میرا تیسرا point : یہ سوال بلکل جائز ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک چوٹی سی نافرمانی کی اتنی شدید سزا دی جاتے. یعنی کہ خدا اتنا ظالم ہے کہ صرف ایک پھل کیا کھا لیا کہ اٹھا کر جنت سے نکل باہر اور دنیا مے پھینک دیا انسان کو اور اوپر سے یہ شیطان کی مصیبت سر پر دل دی اور آخرت کا عذاب الگ ہے؟؟؟…واقعی یہ تو سر-ا-سر ظلم ہے … اب دیکھے اس بات کو دوسرے رخوں سے بھی. ایک طرف الله کی ذات ہے اسی نے انسان کو بنایا سب کچھ بنایا اور ہر چیز پر قادر ہے ، الله کی طاقت اور authority کا اندازہ تمام مخلوقات کو ہے (ابھی آدم کی پیدائش کے بعد کے وقت کا ذکر ہے ) اسے مے الله نے تمام مخلوقات کو حکم دیا سجدہ کرنے کو آدم کو اور ابلیس نے انکار کر دیا اپنے غرور کی وجہہ سے. ، اب الله نے آدم کو warn کر دیا ابلیس کی کھلی دشمنی کے بارے میں اور ہدایت بھی دے دی جنت میں رہنے کے بارے میں اور اس ایک پودے کے پھل کے نقصان کا بھی بتا دیا اس سب کے باوجود انسان نے نافرمانی کر دی…. کچھ لمحوں کے لئے اپنے آپ کو اس جگہ رکھے کہ آپ دنیا کے سب سے بڑے sourcerer ہیں اور آپ نے ایک معمولی حثیت کا کیرا بنایا ہے اور اسکو صرف ایک چھوٹی سی بات سے منا کیا ہے اور پھر بھی وو آپکی بات نہ مانے جبکہ آپ نے صرف ایسے ہی حکم نہیں دیا بلکہ اپنی بات مناسب طرح سے سمجھا کر کی تھی….آپ کو غصّہ نہیں آیگا کہ اسکی ہمّت کیسے ہی کہ مجھسے پنگا کرتا ہے؟اپ کا دل انہی چاہے گا کہ اسکو ٹھیک سے سزا دی جاتے ؟ لیکن کیا الله نے بھی ایسا ہی کیا؟ نہہ الله نے تو صرف جتنا پہلے سے کہا ہوا تھا بس اتنا ہی کیا یعنی جنت سے دنیا مے بھیج دیا مگر بے آسرا نہیں… ہدایت بھی دی اور آیندہ کے لئے بھی guidelines کا کہا اور سب سے ضروری ہدایت بھی دے دی کہ دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا انجام کیا ہے…. پھر الله سے جب آدم نے معافی مانگی تو وو بھی مل گئی اور انشاللہ آخرت میں جنت بھی میگی انکو اور ہر فرمانبردار نیک انسان کو. …..
    یہ تو تھا آدم کی نافرمانی کا معاملہ…اب دیکھے کہ ابلیس کی نافرمانی کا فیصلہ جو الله نے کیا کہ نہ صرف اسکو ذلیل کرکے جنت سے نکالا بلکہ آخرت مے اسکے لئے جہنم کا سب سے برا ٹھکانہ ہوگا…ایک طرف معمولی سا انسان جس کی فطرت میں کمزوریاں ہی بھری ہیں اور دوسری طرف ایک طاقتور جن جو کہ نہ صرف فرشتوں کا سردار ہے بلکہ سب سے زیادہ عبادت گزار بھی ہے…. دونو نے حکم کی نافرمانی کی تھی…مگر الله نے دونو کو انکی فطرت کے حساب سے انصاف دیا….ہے کوئی ایک بھی دنیا کی چھوٹی یا بڑی عدالت جہاں کا انصاف ایسا ہو؟ کوئی ایک مِثآل بھی دے دیں تو مان لوں

    1. میرا پہلا point یہی ہے کہ انسان نافرمان نہیں ہے بلکہ تجسّس کرنے والا ہے

      قرآن آپ سے اتفاق نہیں کرتا:

      کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾
      مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے۔ – سورہ العلق آیت 6

      اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ ۚ﴿۶﴾
      کہ انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ – سورہ العادیات آیت 6

      قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ ﴿ؕ۱۷﴾
      انسان مارا جائے یہ کیسا ناشکرا ہے۔ – سورہ عبس آیت 17

      وَ اٰتٰىکُمۡ مِّنۡ کُلِّ مَا سَاَلۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ ﴿۳۴﴾
      اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف ہے ناشکرا ہے۔ – سورہ ابراہیم آیت 34

      خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۴﴾
      اسی نے انسان کو نطفے سے بنایا مگر وہ کھلم کھلا جھگڑالو بن گیا۔ – سورہ النحل آیت 4

      آپ کے باقی کے نقطے بھی محض آپ کی اپنی قیاس آرائیاں ہیں، ذیل میں ایک حدیث نقل کر رہا ہوں:

      قال البخاري: حدثنا قتيبة، حدثنا أيوب بن النجار، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:

      « حاجَّ موسى آدم عليهما السلام فقال له: أنت الذي أخرجت الناس بذنبك من الجنة وأشقيتهم.

      قال آدم: يا موسى أنت الذي اصطفاك الله برسالاته وبكلامه، أتلومني على أمر قد كتبه الله علي قبل أن يخلقني، أو قدره علي قبل أن يخلقني.

      قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فحجَّ آدم موسى ».

      خلاصہ اس حدیث کا یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے آدم سے فرمایا کہ تم ہو جس نے اپنے گناہ سے لوگوں کو جنت سے نکلوایا اور ان کی شقاوت کا سبب بنے تو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ تم مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کر رہے ہو جس کا اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے پہلے ہی فیصلہ کردیا تھا..

      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح آدم نے موسی پر حجت قائم کردی..

      یعنی یہ سب ٹوپی ڈرامہ تھا..

      اور مبارک باد قبول فرمائیں.. 😀

  17. سلام علیکم ،
    جناب کتنے آرام سے پورے comment میں سے ایک جملہ پکڑ کر اور باقی ساری باتو کو ہضم کر کے اس پر بحث کر کے اپنے حساب سے دوسرے کو چاروں شانے چت کر دیتے ہیں آپ مکّی صاحب. خاص کر کہ جو سوال اٹھایا گیا ہو اسکو تو جیسے دیکھتے بھی نہیں جواب دینا تو دور کی بات ہے. جناب آپکے کچھ جملے جو شرو مے copy کے تھے وہاں تنقید کی گئی تھی اس بات پر کہ ایک سیب یا گندم کھانے کی اتنی بڑی سزا…. جناب اسی کا جواب دیا تھا اور آخر میں یہی پوچھا تھا کہ جیسا انصاف کیا گیا کیا دنیا مے کہیں ملتا ہے؟ آپ نے جواب تو دیا نہیں الٹا میرے ہی پوانٹ نمبر ٢ کو میرے خلاف لکھ کر سمجھ رہے ہں کہ تیر مار لیا. جو حدیث آپ نے لکھی ہے اس مے کوئی نی بات نہی بتائی گئی. اور جناب آپ میرے کوممنٹس میں جو قرآن کے حوالے ہیں انکو کسی بھی جگہ سے پڑھ لیں انشا الله ہر جگہ سہی ہی ملیں گی اپنی طرف سے نہیں قیاس آرائی کی ہے.
    آپ نے صرف میرا ایک ہی جملہ اٹھا کر اس پر قرآن کی آیات ڈھیر کر دی ہیں جبکہ میری بات یہ تھی کہ انسان کی فطرت ایسی نہیں ہے….. یعنی وہ فطرت کے حساب سے نافرمان نہی ہے… مگر مے نے کہی بھی یہ نہیں کہا کہ وو نافرمانی کرتا نہی ہے …action مے نافرمانی ہوتی ہے ، مگر فطرت مے نہیں ہے….. یہ کہا تھا میں نے…. اور جو پوانٹ نمبر ٣ مے انصاف والی بات ہے وو اسی نکتے پر ہے کہ ابلیس اور آدم دونو کو سزا ملی مگر ایک نے نافرمانی اپنی بیوقوفی مے کی اور دوسرے نے اپنے غرور مے کی…. اسی حساب سے سزا ملی….مے نے کہی بھی اس بات کا انکار نہیں کیا کہ آدم یا انسان کوئی بھی نافرمانی کرنے سے مبرا ہے….

    1. ذہن اصل میں سیب (یا گندم) میں اٹک جا تا ہے-جب کہ اس واقعہ میں جس درخت کو شجر ممنوعہ کہا گیا ہے وہ شجر افزایُش نسل ہے- اور افزایُش نسل مرد اور عورت کی مباشرت کی محتاج ہے- اسی لیُے کہا گیا کہ جو چاہے کھاوُ پیو مگر اس شجر کے پاس بھی نہ جانا کیونکہ بس یہی پھل ابھی نہیں کھانا- شیطان اب بھی بنی آدم کو اسی پھل کا لالچ دے کر یا اسی گھمنڈ پر اکسا کر جو اس نے آدم کو سجدہ نہ کر کے کیا تھا، خدا کی سرکشی پر اکساتا ہے-
      اور بنی آدم کا یہ قصہ اسی لیئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے ذریعے خدا نے اپنے بندوں کو متنبہ کیا ہے یہ دو ایسے محرکات ہیں جن پر قابو کرکے وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ واقعی مسجود ملایئک ہے- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو زنا اور تکبر سے
      سے محفوظ رکھے-

    1. بے شک، یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اینڈرسن شا صاحب سے بحث کرنا فضول ہے ، اور اس حقیقت کی کئی ثبوت و گواہ ادھر ہی موجود ہیں. مگر دل چھوٹا نہیں کرتے، آپ کا کام محض کہہ دینا تھا، سو آپ نے اپنا کام پوری دیانتداری سے پورا کردیا ، جسکے ہم گواہ بھی ہیں، اب آگے ہدایت دینا تو اللہ کا کام ہے. اب اسکی مرضی جو وہ چاہے کرے.

  18. اتنا توہماری عقل بھی بتاتی ہے کہ اس ساری کائنات کا وجود خودبہ خود نہیں ، کوئ نہ کوئ اس کو بنانے والا ہے ضرور.
    یہاں تک تو بات کنفرم ہے.
    اس کے آگے کوئ کمیونیکشن گیپ تو ضرور ہو سکتا ہے مگر
    اینڈرسن شا بھائ جس طرح آپ سوچتے ہو ایسا نہیں،
    سوری باس
    میں بڑا فین تھا آپ کا ، (تقریبا ایک سال سے پڑھ رہا ہوں آپ کو)
    پر اب آپ سے ہمدردی کا احساس جاگ رہا ہے ، آئی ایم ریلئ سوری.

    1. بھئی تہافت الفلاسفہ والے ابو حامد کے مطابق فلسفہ کفر وزندقہ ہے، پہلے یہ تو پتہ کر لیں کہ کیا فلسفے کی پاداش میں ان ملاؤوں پر کفر کے فتوے تو نہیں لگائے گئے؟ انہیں زندہ درگور تو نہیں کیا گیا؟ اگر نہیں تو پھر ابن رشد کا کیا قصور تھا؟ اور یہ بھیک کی روٹیاں توڑنے والے ہڈ حرام کیا فلسفہ جھاڑیں گے!! زیادہ سے زیادہ یہی کہ علم ومذہب میں کوئی تضاد نہیں اور دونوں کے میدان عمل الگ الگ ہیں چنانچہ ٹکراؤ چہ معنی دارد! پھر جب بازار میں "قرآنی آیات اور سائنسی حقائق” نظر آتی ہے تو اس جھوٹ کا پردہ چاک ہوجاتا ہے اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ چندے پر پلنے والا مولوی ہر چیز میں "انگلی” کرنا چاہتا ہے اور اس خدائی بزنس کو مزید وسعت دینے کا خواہش مند ہے تاکہ حرام کے ٹکڑوں اور مہتمم صاحب کی توند دونوں میں اضافہ ہو.. بچپن میں قاری صاحب سے "مروا کر” دینی علوم سے فیض یاب ہونے والا یہ مولوی ہر چیز کا عالم ہونے کا دعوی کرتا ہے، ذرا اس سے جینیٹک انجنیئرنگ کے بارے میں تو پوچھیے؟ کبھی نہیں کہے گا کہ مجھے نہیں پتہ بلکہ فتوی دے گا..!؟ ان گدھوں کے فلسفے کا پرنالہ ایک ہی طرف بہتا ہے اور یہ سب جانتے ہیں کس طرف.. ویسے آپ کا دیا ہوا ربط اپنی بے بضاعتی کا منہ بولتا ثبوت آپ ہے کہ جی یہ ہمارے بس سے باہر ہے آپ یہ کتابیں پڑھ لیں شاید آپ کو جواب مل جائے..! آخر میں ایک قطعہ آپ کی نذر کرتا ہوں:

      أطلق النار على كذبة تأنيب الضمير
      واعبد الفكر وقدس عقلك الحر المنير
      لا تفكر بعد هذا في كبير أو صغير
      كلهم مثلي حيارى ليس يدرون الصواب

  19. صاحب، یہ کمرۂ امتحان و آزمائش والی احمقانہ تبلیغی فینٹسی بھی خوب ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ کمرۂ امتحان میں داخل ہونے سے پہلے ہم سے کوئی فارم بھی بھروایا گیا تھا؟ ہماری رضامندی بھی لی گئی تھی کہ ہمیں اس امتحان میں ڈالے جانے اور پاس ہونے سے دلچسپی ہے؟ بس، آنکھ کھلی تو ایک دہشت ناک آواز نے کان میں چنگھاڑ کر اطلاع دی کہ بچُّو، تمھاری بدقسمتی ہے کہ مسلمان کے گھر پیدا ہو گئے ہو، چلو اب دو امتحان!

  20. اور خبردار! کمرۂ امتحان سے باہر نکلنے والا مرتد قرار دے کر قتل کیا جاتا ہے، اس لیے باہر بامعنی زندگی گزانے والے خوش باش لوگوں میں جا ملنے کا سوچنا بھی مت جو علم حاصل کرنے، محبت کرنے اور محنت سے اس دنیا کو بہتر بنانے کے فضول اور مذموم کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ کافر لوگ چونکہ پرچہ دے ہی نہیں رہے، اس لیے ضرور ایبسنٹ لگے گی اور فیل ہو کر (عارضی زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونے کے بعد) ضرور جہنم میں جائیں گے۔ زیادہ دل گھبرائے تو خودکش بمبار بن کر ان کی خوشیوں کو خاک میں ملا دو اور شارٹ کٹ پکڑ کر جنت میں حوروں کے پاس جا پہنچو!

  21. "آدم پر بات چلی تو ذہن میں ایک اور قاتلانہ سوال اٹھا… خدا نے ہی کہا تھا کہ ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری (اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا – سورہ الانعام، آیت 164)” تو پھر ہم آدم کے گناہ کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟ اگر اس نے یہ گناہ کیا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ ”

    تبصرہ نگار جو غالباً چنگیز خان صاحب ہیں، بہت ہی احمقانہ بات قرآن کریم کے حوالے سے لکھ گئے ہیں، جو میں نے اوپر کاپی کی ہے، انہیں چاہیے کہ یہ قرآن کریم سے اس بات کو ثابت کریں۔ قرآن یہ تو کہتا ہے کہ کوئی شخض کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، لیکن وہ یہ کہا کہتا ہے کہ آدم کے گناہوں کا بوجھ تم اٹھاؤ؟ بالکل درست بات ہے، ہمارا کیا قصور ہےکہ ہم آدم کے گناہوں کا بوجھ اٹھائیں۔آپ دراصل چونکہ سارے مذاہب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، فلہذا آپ اسلام کو بھی ایک مذہب سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں، اور اسکا تقابلی جائزہ دیگر مذاہب سے کر رہے ہیں، اسی لیے آپ نے آیت قرآن کریم کی اور گناہ کا حوالہ "بائبل” سے دے دیا۔

    آپ کے مضمون کے حوالے سے مزید اگر بات کی جائے تو بلاشبہ مذاہب نے خدا کا جس قسم کا نقشہ کھینچا ہوا ہے وہ بلاشبہ ایسا ہے کہ خدا کا تصور ایک جابر بادشاہ کی طرح کا ہی لگتا ہے جسے ہر وقت اپنی خوشنودی اور عبادت کی پڑی رہتی ہے، لیکن قرآن کریم کی رو سے ایسا ہے ہی نہیں۔ اللہ ہمیں عبادت کرنے کا تو کہتا ہے لیکن یہ وہ عبادت نہیں جو عموماً مذہبی دنیا میں سمجھی جاتی ہے، بلکہ عبادت کا اصل مفہوم مسلسل کسی کی غلامی اختیار کرنا، اسکے احکامات ماننا ہے۔فلہذا اللہ کی عبادت یہ ہے کہ ہم اسکے احکامات کو دل سے مانیں اور اس پر عمل درآمد کریں تا کہ ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ پورے قرآن کریم سے خدا کی وہ پوجا پاٹ ثابت نہیں جو اس وقت نام نہاد مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ کر رہے ہیں۔ اور نہ ہی خدا کوئی ہوس کا مارا نفسیاتی بادشاہ ہے جسے خود کو خوش کروا کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔اللہ نے اپنے احکامات کو نافذ کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے نافذ کرنے میں ہماری ہی فائدہ ہے، اوروں کی بات ہم نہیں کرتے لیکن ہم خود قرآن کریم کی آیات سے ہی دنیا کا بہترین
    1 : سیاسی نظام
    2: معاشی نظام
    3: معاشرتی نظام پیش کر سکتے ہیں
    اور خدا کو نہ ماننے والوں کو ، اور خدا کو ماننے والوں دونوں کو چیلنج ہے کہ وہ اس سے بہتر سیاسی نظام پیش کر دیں تو میں خدا کو ماننا چھوڑ دوں گا۔

    1. "جرات تحقیق” پر کوئی تبصرہ نہ تو ایڈیٹ و ڈیلیٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی تبصرہ کو روکا جاتا ہے، یہ "جرات تحقیق” کی پالیسی ہے۔
      اگر "جرات تحقیق” کا کوئی قاری یہ چاہے کہ وہ "جرات تحقیق” تک اپنا پیغام تو پہنچائے، لیکن وہ شائع نہ ہو تو اسے چاہئے کہ admin@realisticapproach.org پر ای میل ارسال کردے۔

  22. ایک چھوٹا سا سوال جو مجھے پریشان کر رہا ہے
    کوئی مسلمان نماز روزہ زکوات
    دینا چھوڑ دے
    جھوٹ بولے
    شرک کرے
    سود کھائے
    تو مذھب کے ٹھیکیدار اس کو سمجھاتے ہیںؐ
    اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو
    وہ کہتے ہیں اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دو اللہ قیامت میں اس کو سزا دے گا
    لیکن وہی شخص اگر اعلانیہ کافر ہوجائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔

    قرآن کھول کر دیکھتا ہوں تو
    وہاں لکھا ہے کہ
    جو اچھا کرے یا برا کرے اس کو
    اس دنیا میں کھلی چھوٹ ہے
    اچھائی کا صلہ یا برائی کا بدلہ اس کو قیامت مین ملے گا
    پھر یہ بھی لکھا ہے کہ جو ھدایت چھوڑ کر گمراہی کی طرف گیا
    اس کو اللہ عزاب دے گا
    پھرسورت الکافرون میں یہ بھی لکھا ہے کہ
    اے کافرو
    تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر
    تو سوال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا
    اوربڑا ہوکر اپنے عقل فھم سے اسلام کو چھوڑنا چاہتا ہے
    تو کیوں یہ مذھب کے ٹھیکیدار اس کے لیے موت کی سزا مقرر کرتے ہیں
    جب کہ یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے
    میرے جیسے لاکھوں کروڑوں ہیں جو اندر سے کافر بن چکے ہیں
    لیکن اپنے کفر کا اظھار وہ اپنے گھر والوں سے بھی نہیں کر سکتے
    کہاں گئی وہ لکم دینکم ولیدین والی آیت

    شاھد شی کافر

  23. کوئی بھی عقل یہ کھلا تضاد قبول نہیں کر سکتی کہ ایک با انصاف خدا ہوتے ہوئے وہ فواحش کا حکم کیونکر دے سکتا ہے؟ اور کیا یہ تباہی مچانی ضروری تھی؟ وہ اس کا الٹ بھی تو کر سکتا تھا کہ بجائے بستی کے آسودہ لوگوں کو فواحش پر لگا کر سزا دینے کے انہیں اچھائی پر لگا کر جزا بھی تو دے سکتا تھا؟

    منطق کو کون سی دیوار پر ماروں
    – جواب: جی نہیں منطق کو نہ ماریں کسی دیوار پر منطق دیوار پر مارنے کی کوشش کی ناکامی سے اللہ پر آپ ایک اور منطق لگادیں گے- آپکا اپنا سر دے مارئے سب سے نزدیکی دیوار پر، اپ کی یہ کیفییت کے منطق دیوار پر مارنے کی ذہنی حالت میں مشورہ اللہ کو اسکے امور مین دے رہے ہیں دنیا اور انسانوں کے حالات کو اللہ کے وجود سے مصبت میں ہیں سوچنے سے پہلے ذات اللہ کون ہے اور کیا ہے جان لیتے تو !!!
    خیر اب دیوار پر سر ماریں اور سب کو سکوں سے رہنے دیں اس سر کا نہ آپکو فائدہ ہے اور نہ اس میں آنے والے خیالات کا کسی کو فائدہ ہے

  24. واقعی عقل کی کوئ حد ممکن ھے، لیکن پے عقلی کی کوئ حد نہیں ھوتی ،
    سورۃ الاسراء کہاں ھے قران پاک میں ؟ سورۃ کے نام کے ساتھ اس کا نمبر بھی لکھیں
    کیوں دین کے پیچھے پڑےھیں؟ اللہ سے ڈرو، اللہ کے ہر کام میں حکمت ھوتی ھے۔

    1. کمال ہے کہ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ قران میں الاسراء نامی کوئی سورت بھی موجود ہے یا نہیں، پھر بھی آپ الٹا ہمیں ہی تبلیغ پر مصر ہیں؟ آپ کے اس تبصرے کے تناظر میں آپ کی اس بات سے بالکل اتفاق ہے کہ ”بے عقلی کی کوئی حد نہیں ہوتی“۔
      سورۃ الاسراء قرآن کی ۱۷ ویں سورت ہے، اسے سورت بنی اسرائیل کے نام سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔
      سورۃ الاسراء

      1. انتہائ معزرت۔۔۔۔۔۔۔میرےپاس سید شاہ فھدبن عبدلعزیز آل سعود کی جانب سے مفت تقسیم کردہ قران پاک (PDF) ھے، جس میں یہ سورۃ بنی اسرائیل کے نام سے ھے۔ اس قران پاک کا ترجمہ حضرت مولانا محمّد جونا گڑھی اور تفسیری حواشی اعلی حضرت مولانا صلاح الدین یوسف جیسے مجتھدین کے تحریر کردہ ھیں اور آپ ھیں کہ سب کی ایسی تیسی کرنے پر تلے بیٹھے ھیں۔۔۔۔۔کھاں راجا بھوج، کھاں گنگو تیلی۔۔آپ نے مجھے ،لامحدود بےعقل، قرار دیا۔۔شکریہ۔۔ اللہ آپکو ھدائت دے۔
        آپ سوچ رھے ھیں کہ بندہ ذھین معلوم پڑتا ھے،جلدی پھنسے گا۔ یہ آپکی خام خیالی ھے۔ 60 سال کی عمر میں آ کر کافر ھو جاؤں؟ ایک شعر پیش خدمت ھے شائد آپ کو سمجھ آ جاۓ۔
        افسوس صد ھزار سخن ھاۓ گفتنی
        خوفے فسادے خلق سے ناگفتہ رہ گۓ۔
        انشااللہ آپکی اصلاح کر کے چھوڑوں گا اگر آپ بھاک نہ گۓ تو۔۔۔۔۔اس ضمن میں بھی ایک شعر پیشے خدمت ھے شائد آپ کو سمجھ آجاۓ۔
        کروں گا ذھر کھا کر خودکشی میں عقد کرتے ھی
        بلا سے جان جاۓ، تجھ کو بیوہ کر کے چھوڑوں گا۔

    1. بس جناب! ھو گۓ لاجواب۔
      ھمارا ایمان تو اس قسم کی ملحدانہ نظمیں بھی متزلزل نہ کر سکیں۔
      اللہ آپ کو ایمان کی دولت سے مالا مال فرماۓ۔۔۔آمین۔
      —–نظم پیش اے خدمت ھے———
      بلاؤ اس خدا کو جس کا دعوۂ ھے کہ میں قادر ھوں، عادل ھوں
      بلاؤ آسماں سے ابن اے آدم کے توّھّم کو
      نظام اے جبر کے صدیوں پرانے اس محافظ کو کہ جو سرمایہ داروں، زرپرستوں کی مقدّس اور بوسیدہ کتابوں میں
      چھپا بیٹھا ھے اس عہد اے خرد افروز کی گستاخ آنکھوں سے
      بلاؤ اور کہو اس سے
      یہ مقتل جس میں مزدوروں، کسانوں، بیکسوں کا خون بہتا ھے
      یہ مقتل جس میں محکوموں کےاور حق مانّگنے والوں کے بے توقیر لاشے ھیں
      یہ مقتل جس میں مجبوروں کی محنت اور مشقت قتل ھوتی ھے
      اسی مقتل میں ھم جو منکر اے یزداں ھیں، کافر ھیں
      تجھے بھی انتقاما” قتل کرتے ھیں۔۔۔۔۔

        1. حیرت ھے کہ۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے خدا پہلی علت نہیں ھے۔۔۔۔۔۔۔جیسے دقیق مضمون کے خالق کو معلوم نہ پڑا کہ وہ کس بات سے لاجواب ھوا۔ ھاں اگر معلوم ھو بھی جاۓ تو کون سا سرخاب کا پر لگ جاۓ گا یا قیامت آ جاۓگی؟
          ایک آسان سا شعر سنیۓ، آپ کو شائد ھی سمجھ آۓ کیوں کہ میرا مشاھدہ ھے کہ سہل تحریر آپ کے لۓ دشوار ہوتی ھے۔ بحر حال شعر پیش اے خدمت ھے،
          جاگنے والے تیرا کیا کہنا
          سونے والے کو کچھ خبر نہ ھوئ
          اللہ آپ کو ایمان کی دولت سے مالا مال فرماۓ۔۔۔آمین۔

  25. اگر یہ دنیا ایک امتحان ہے تو سب کو امتحانی پرچہ ایک جیسا کیوں نہیں ملتا۔ راجستھان کے صحرا میں رہنے والے ایک غریب چرواہے کو اتنا مشکل اور طارق جمیل کو اتنا آسان کیوں؟؟؟
    کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟؟؟

جواب دیں

105 Comments
scroll to top