Close

حق موجود یا حق غیر موجود

حق غیر موجود مابعدالطبعیات فلسفے کی وہ شاخ ہے جو ہمیں ہر چیز کی حقیقت سے آگاہ کرتی ہے. اور ابدی اور لافانی مسائل کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے. مابعدالطبعیات، حیات و کائنات اور خدا کے تصور کو زیر بحث لاتی ہے. اس میں مادی اور غیر مادی مسائل شامل ہیں، جس کی حقیقت کی تلاش میں فلسفی سرگرداں رہتا ہے. اور غور و فکر کر کے مختلف سوالات کرتا ہے. مثلاًکیا کوئی ایسی لافانی طاقت ہے جو حیات و کائنات کے نظام کو کنٹرول کیے ہوئے ہے؟ اس عالم کا نقطہ آغاز کیا ہے؟ اور ابتدائی سرچشمہ کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
ہم یہاں اسلامی نقطۂ نظر سے اس عالم کے نقطہ آغاز کی بابت مابعدالطبعیات پر بات کریں گے اور دیکھیں گے اللہ اور اس کے رسول کا اس کائنات کی تخلیق کے متعلق دعوی کیا ہے؟. اور اس دعوے کی حیثیت کیا ہے. اہل مذاہبآ کا خدا کا تصور یا تو جابر سردارِ قبیلہ کے تصور کے مترادف ہے، جس کے احکامات کو بے چوں چراں مان لیا جائے یا پھر ایک ایسے سادہ باپ کی مانند ہے جو اپنی اولاد کے معاملات میں دلچسپی تو لیتا ہے لیکن زیادہ روک ٹوک کا قائل نہیں. یہودیت، عیسائیت، اور اسلام میں خدا اور بندے کا تعلق انہی تصورات کے گرد گھومتا ہے. جس میں خدا کہیں انتہائی مہربان اور شفیق نظر آتا ہے تو کہیں اچانک اس کے تیور بدل جاتے ہیں اور وہ ذرا ذرا سی بات پر بے انتہا خفا نظر آتا ہے. جب خدا اور کائنات کے تعلق کا ذکر آتا ہے اور ایسی کائنات کے جس میں یہ دنیا اور اس میں بسنے والے بھی شمار ہوتے ہیں تو پھر روحانی مقنن اور آسمانی باپ کی جگہ ایک عظیم صناع لے لیتا ہے. قرآن کی سورہ اعراف کی آیت نمبر54اور سورہ فصلتکی آیت نمبر 9 تا 12میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے کس طرح چھ یا آٹھ دنوں میں صنعت گری کرتے ہوئے اس عالم کو خلق کیا. اگر خدا کو فطرت و موجوداتِ عالم کی صورت گری کیلئے بطور ایک فنکار، صناع یا مصور تسلیم کر لیا جائےتو اس سے انسانی مقام و مرتبہ مجروح ہوتا ہے. لہذا اس قسم کے خدا کے تصور سے انکار ناگریز ہو جاتا ہے. ظاہر ہے جب ایک صانع مصنوعات کو بناتا ہے، مثلاًایک معمار مکان بناتا ہے یا جولاہا کپڑے بنتا ہے، تب ظاہر ہے کمہار بغیر مٹی کے اور نجار بغیر لکڑی کے کیا اپنی صنعتی قوت کا اظہار کر سکتا ہے؟ پھر اس عظیم صناع نے اس عالم کی صنعت گری کس چیز سے کی؟ اس تناظر میں یہ بات لازم ہو جاتی ہے کہ عدم میں خدا کی طرح مادہ بھی خود بخود موجود تھا. اور اس مادے سے خدا نے اس عالمِ رنگ و بو کی صنعت گری کی. لیکن یہاں بھی مذہب یہ کہتا ہے کہ اس عالم کے خلق ہونے سے پہلے عدم تھا، اور خدا اس کائنات کو عدم سے وجود میں لایا جو ہمیشہ سے ہے اب ایک نیا سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ جب عدم تھا یعنی جب کچھ نہ تھا، تب اس “کچھ نہ تھا” میں خدا کہاں سے آیا؟ پھر اس عدم میں خدا کے ساتھ ساتھ وہ کائناتی مادہ بھی موجود تھا جس سے خدا نے اس عالم کو خلق کیا. اب یا تو صرف عدم تھا جس میں واقعتاً اور حقیقتاً کچھ نہیں تھا، یا پھر اس عدم میں خدا اور مادہ دونوں موجود تھے اور عدم نہ تھا. یہاں قرآن کی ایک آیت اس بات پر استدلال کرتی ہے کہ عدم یعنی جب کچھ نہ تھا تب بھی خدا نہ صرف موجود تھا بلکہ کائناتی مادہ بھی اس عدم میں موجود تھا، جس سے خدا نے اس عالم کو خلق کیا.
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ﴿سورۃ النحل٤٠﴾
ترجمہ: ہم جس کام کےکرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارا اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہم اسے کہہ دیں کہ ہو جا پھر ہو جاتا ہے
گویا ایک عظیم صناع “اس” یعنی لمحہ موجود میں موجود مادہ سے کہہ رہا ہے کہ “ہو جا” اور وہ ہو جاتی ہے. یعنی جب کون و مکان نہ تھا، نہ زمین تھی نہ کائنات تھی، نہ یہ عالم تھا، جب کچھ نہ تھا صرف عدم تھا اور اس عدم میں بھی خدا موجود تھا، اب توحید کا تقاضہ تو یہ ہے کے صرف خدا کا وجود ہونا چاہئے تھا، لیکن عدم سے پرے. مگر خدا عدم میں ہی تھا، اور تب ہی خدا کسی “اس” سے کہتا ہے کہ “ہو جا” اور وہ ہوجاتی ہے. یہ آیت استدلال کرتی ہے کہ عدم میں خدا بھی تھا اور کوئی “اس” بھی تھا. ظاہر ہے یہ “اس” کائناتی مادہ ہی تھا. جس سے خدا نے اس عالمِ رنگ و بو کو خلق کیا. گویا خدا واحد نہیں تھا بلکہ مادہ اس کا شریک تھا. جس کی مدد سے اس نے صنعت گری کی. یعنی مادہ کے بغیر اس کائنات کی صنعت گری ممکن ہی نہ تھی، اور مادہ اور خدا دونوں ہی عدم میں موجود تھے. اب کچھ متکلم الہیاتی مدرسے کہتے ہیں کہ مادہ “روحانی” تھا. اور اس روحانی مادے سے خدا نے اس کائنات کو خلق کیا. لیکن یہ استدلال اپنی ماہیت میں غیر منطقی ہے. روحانی مادے سے وجودی مادہ خلق کرنے کا کہنا ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ میں نے ذہن میں کسی چیز کا تصور کیا اور لمحہ موجود میں حقیقتاًآن موجود ہوئی. لہذا اولین مادے کو روحانی متصور کرنا لغو خیال ہے. کائنات کی تخلیق کے متعلق قرآن کی سورہ اعراف میں کون و مکان کو زمان کی قید میں تخلیق کرنے کی بات کی جا رہی ہے، اور یہ بات ایسے ہی ہے جیسے ٹیلی وژن کا موجد کہہ رہا ہو کے میں ٹیلی وژن کی ایجاد کے وقت ٹیلی وژن دیکھ رہا تھا. زمان کی قید میں رہتے ہوئے مکان کو خلق کرنے کا دعوی ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس دعوی میں کتنی لغویت ہے. جب زماں تھا ہی نہیں تب یہ خالق زماں کی حدود و قیود میں کیسے آ گیا؟ کیا جب خالق اس کائنات کو خلق کر رہا تھا اس وقت وہ کسی ایسے کرہ پر موجود تھا جس میں دن اور رات کا آنا جانا لگا ہوا تھا؟ گویا اس عالم کے خلق کرنے والے نے اس عالم کو کسی کرے پر موجود رہ کر خلق کیا. اور وہ جس کرے پر موجود تھا، وہ کرہ کسی سورج کے قریب موجود کوئی سیارہ تھا! جس پر سورج کے گرد گردشوں کی وجہ سے دن اور رات کا آنا جانا لگا تھا. جو چیز خلق کی جا رہی ہو اس کی پہلے سے موجودگی چہ معنی دارد؟ یہ تصور ہی لایعنی اور فضول ہے. اگر ہم نے کوئی ناول لکھنا ہو تو ہم پہلے سے اس کے کردار اور مرکزی خیال وغیرہ کے متعلق خامہ فرسائی کر سکتے ہیں. اگر ہم سے کوئی پوچھے کے ناول میں کیا ہوگا؟ تب ہم اس ناول کے تصور پر قیاس آرائی کریں گے، اس کے پلاٹ پر بات کریں گے، لیکن ایسا قطعی نہیں ہے کہ ہم مستقبل قریب میں لکھے جانے والے ناول کو پہلے سے ہی کسی کو پڑھنے کیلئے دے دیں. اور کہیں کہ جناب یہ لکھنا ہے مستقبل قریب میں! کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو ایجاد کسی موجد نے مستقبل میں ایجاد کرنی ہو لیکن وہ اس کے ایجاد کرنے سے پہلے ہی اسے استعمال کر رہا ہو؟ اب ظاہر ہے جب نہ زمان تھا نہ مکان تھا، تب انہی کی موجودگی میں ان کو خلق کرنے کی بات کی جا رہی ہے، جو کے صاف ظاہر ہے لایعنی ہے اور یہ دعوی بے بنیاد ٹھہرتا ہے. یہ دعوی اس اعتبار سے بھی لغو ہے کے دن اور رات کا آنا جانا صرف ان سیاروں میں پایا جاتا ہے جو اس عالم میں موجود کسی بھی نظام شمسی کا حصہ ہوں. ظاہر ہے جب کوئی نظام شمسی ہی نہ تھا پھر دن اور رات کے سانچے میں کس کو تخلیق کیا جا رہا تھا. ایسا دعوی ایک انسان کر سکتا ہے کوئی قادر مطلق خدا نہیں، جس نے واقعتاً اور حقیقتاًاس عالم کو تخلیق کیا ہو.
ہونا تو یہ چاہئے کے ہم اس مقام پر رک جائیں کہ جہاں خدا خدا نہیں رہتا. لیکن پھر بھی اتمامِ حجت کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں خدا انسان اور وجود کے متعلق قرآن پاک میں کیا ارشاد فرماتے ہیں، اور اپنے وجود سے متعلق کیا استدلال کرتے ہیں. وہ آیت اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ہے. خدا خود اپنی ہی تخلیق کا مظہر نہیں ہو سکتا. اگر خدا نور ہے، تو وہ نور جو کچھ بھی ہو (یہاں کچھ بھی سے مراد اہل اسلام کی وہ تاویلات ہیں جو وہ نور سے متعلق کرتے ہیں) لیکن بہرحال اپنا وجود رکھتا ہے. اور جو کچھ بھی عالم مظاہر میں موجود ہے اسے جانا جا سکتا ہے، دریافت کیا جا سکتا ہے، اور وہ موجود تجربات و مشاہدات کی زد میں آ سکتا ہے. اور اس خدائی نور کا تجربات و مشاہدات کی زد میں آنے کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ وہ خود اپنی ہی تخلیق کا مظہر ہے اور ہر قانونِ قدرت,عالمِ مظاہر کی طرح اسے بھی گرفت میں لایا جا سکتا ہے، پرکھا جا سکتا ہے. یہاں گرفت میں لانے اور پرکھنے کا مطلب یہی ہے کہ جیسے انسان اس عالم مظاہر کو تسخیر کرتا جا رہا ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا جب خود اپنی ہی تخلیق کا مظہر ہے پھر وہ خدا نہیں رہتا بلکہ خدا کے مرتبے سے معزول ہو جاتا ہے. کیونکہ خالق اور مخلوق بہرحال باہم متضاد ہیں. کیا کوئی خالق خود اپنی ہی مخلوق ہو سکتا ہے؟ مخلوق ابتدا رکھتی ہے جبکہ خدا کوئی ابتدا نہیں رکھتا. مخلوق کو زوال ہے لیکن خدا کی صفت تو یہ کہتی ہے کہ اسے کوئی زوال نہیں. کیا واجب الوجود بیک وقت خالق اور مخلوق ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، قطعی نہیں. یہ انتہائی نامعقول بات ہے. خدا کا نور ہونا اسے اس عالمِ مادی کا محتاج کر دیتا ہے. یا تو وہ خالق ہے یا پھر مخلوق ہے. دونوں کا امتزاج سخت مہمل اور لغو بات ہے. ایک سخت لایعنی بات ہے. کوئی خدا خود اپنی ہی تخلیق کا مظہر نہیں ہو سکتا. بہت جلد الہیاتی ماہرین کو اس اجمال کی لن ترانیوں کا احساس ہوگیا. چنانچہ انہوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ “خدا وجود سے بھی برتر و ماوراء ہے“۔
اس نقطے پر بات کرنے سے پہلے ہم کچھ باتیں کریں گے. ہمارے تصورات اور خیالات ان کے الفاظ و تصورات کے معنی و مفہوم کے بارے میں ربط و تعلق کس طرح دیکھا جائے؟ اور کون سے تصورات کو قبول کیا جائے، یا پھر کس طرح ان کا جائزہ لے کر نتائج نکالے جائیں اور آخرکار ان کے قبول یا عدم قبول کا جواز پیش کیا جائے. یہ فلسفیانہ عمل ہے جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے. اولاًتو معنی اور تصورات کی تحلیل کا مرحلہ ہے پھر منطقی روابط و تحلیل کا مرحلہ ہے پھر تصورات کی قدر اور اہمیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور آخر میں ان تصورات کو قبول کرنے یا رد کرنے کے بارے میں جواز فراہم کیا جاتا ہے. اس تمام تر تحلیل کا مطلب یہ ہے کہ صداقت کی جھلک حاصل ہو جو تعصبات، گنجلک خیالات و الفاظ کے گورکھ دھندوں سے پاک ہو.
مذاہب میں موجود بعض عقائد واضح نہیں ہیں اور نہ ہی جن کی کوئی منطقی وضاحت کی جا سکتی ہے، مذاہب کے وہ تمام مسائل جن کی ہزارہا عجب عجب تاویلات، ایک دوسرے سے یکسر مختلف پیش کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں، فلسفہ میں اس صورتحال کو جنم دینے والے مسائل کو مبہم اور غیر واضح کہا جاتا ہے. اور ان کی نتائجیت پر پہنچنے وقت تحلیل و ترتیب کے دوران ان کے گنجلک پن کو صاف اور واضح کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ تو سرے سے کوئی مسائل ہی نہیں جس پر جھگڑا کیا جا رہا ہے. ایسے میں یہ عقائد غیر اہم اور بے قدر و قیمت قرار دیئے جاتے ہیں. اگر نتائجیت کا طریق کار کا ان عقائد پر متوافق اطلاق کیا جائے تو جلد ہی معلوم ہو جاتا ہے روایتی مابعدالبعیاتی دینیات کا تقریباًہر قضیہ یا تو بے معنی ہے یا گورکھ دھندہ ہے. جہاں ایک لفظ کی دوسرے سے تعریف کی جاتی ہے اور ان کی تعریف دوسرے الفاظ سے، لیکن اس کے باوجود ہم اس کے حقیقی معنی و مفہوم تک نہیں پہنچ پاتے. ایسے قضایا قطعاًلغو خیال کئے جاتے ہیں۔
غرضیکہ اس قسم کا سارا کوڑا کرکٹ راہ سے ہٹا دیا جائے اور اس طرح جو باقی بچے ان کے بارے میں سائنسی مشاہداتی طریقہ کار سے تحقیق و تفتیش کی جائے. مابعدالطبعیاتی دینیات چاند کی چمک سے زیادہ نہیں جو اچھی لگے لیکن بے مصرف ہو. ہم اس گورکھ دھندے کو کس طرح اپنی فکر سے دور کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے اس کے معنی کے اطلاق سے، جس کی صورت یہ ہوگی، اگر ہم سے سوال کیا جائے کہ کسی چیز کے سخت ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو اس کا جواب ہوگا کہ اس تصور کے عواقب اور نتائج. اگر یہ کہا جائے کہ فلاں چیز سخت ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ اس پر رگڑ کا نشان ڈالنا ممکن نہیں. غرض تصورات کے معنی ان کے متوقع کارآوری اور نتائج میں ہے، اور ان عواقب کو ہم عملی طور پر جانتے ہیں. جب تک کہ ایک تصور کو قبول کر کے تجربے میں نہ لایا جائے اس کے معنی و مفہوم کا ذکر کرنا عبث ہے. یعنی کسی تصور کا معنی اس کا عملی نتیجہ ہے، اور عام زندگی میں اس کے عملی اثرات ہیں. جبکہ مابعدالطبعیاتی دینیات میں یہ خاصیت مفقود ہے. ظاہر ہے جب ہم تصور کر کے یہ دعوی کرتے ہیں کہ گنجے فرشتے موجود ہیں، تب ہمیں اس تصور کی وضاحت بھی کرنی ہوگی اور اس کے وجود کے حق میں دلائل بھی دینے ہونگے. ایسے دلائل کہ جن سے گنجے فرشتوں کا نہ صرف وجود ثابت ہو جائے، بلکہ ان دلائل پر چل کر ہم انہیں دریافت بھی کر لیں، لیکن اگر کوئی ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تب اس دعوے کی حیثیت بغیر ثبوت و شواہد کے کوئی معنی اور حقیقت نہیں رکھتی. حقیقت بھی یہی ہے کے انسان اپنے ذہن میں کسی بھی قسم کی تصوراتی دنیا آباد کر لے، لیکن یہ تصوارتی دنیا اس وقت تک ذہنی مخلوق ہے جب تک کہ اس کا حقیقی وجود وہ ثابت کرکے نہیں دکھاتا .اور ایسا عملاًہو نہیں سکتا،اس تناظر میں خدا کے مابعدالطبعیاتی دینیاتی تصور کو ہم عقل کے پاس لئے چلتے ہیں جو اس پر کوئی بھی حکم لگانے کی سب سے زیادہ مجاز ہے. اور اس مسئلے میں سب سے زیادہ استحقاق بھی اسی کا ہے کہ وہ اس مسئلے پر بربنائے علم کوئی بھی حکم لگائے. یہاں آ کر سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ الہیات بذات خود کیا ہے؟ اور الہیاتی ماہرین کس طرح خدا کی تعریف کرتے ہیں؟ Theology سے مراد وہ علم یا علوم ہیں جو خدا کے بارے میں بحث کرتے ہیں یعنی الہیات۔کسی بھی واجب الوجود کے دعوے دار کو اس معیار پر پرکھا جاتا ہے جو پیمانے اور کسوٹی الہیات نے طے کر رکھے ہیں. ہر مذہب کی الہیات کا ایک پیمانہ ہے جو ان کی الہامی کتب میں بیان کیا گیا ہے. اور انہی الہامی پیمانوں سے واجب الوجود پر بحث کی جاتی ہے. اور اس طرح ہر مذھب اپنے اپنے الہیاتی پیمانوں سے اپنے خدا کو سچا خدا ثابت کرتا ہے. لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بین المذاہب خدا کی ذات پر گفتگو کی جاتی ہے. اور بالآخر تمام مذاہب کی گفتگو اس نتیجے پر آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ خدا ایک ہے. جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا. حالانکہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ خدا کے ساتھ ساتھ عدم میں مادہ بھی موجود تھا جس سے اس عظیم صناع نے صنعت گری کی، لیکن مذاہبِ عالم الہیات میں خدا کی ذات پر گفتگو کرتے وقت الہیاتی کسوٹی کے علاوہ ہر اس الہامی نگارشات کو قطعی فراموش کر کے نتائج اخذ کرتے ہیں جو کے بذات خود ایک غیر منطقی سی بات ہے۔
اسلام میں الہیات کا پیمانہ سورہ اخلاص ہے. جس سے خدا کی صفات و کمالات اور اس کے وجود کو ثابت کرتے وقت، اس کے وجود پر استدلال کرتی ہوئی دیگر قرآنی آیات کو الہیاتی مدرسے فراموش کر دیتے ہیں. ظاہر ہے یہ الہیاتی ماہرین کی منافقت کے سوا کچھ نہیں. اب اس سے آگے بڑھتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ الہیات میں خدا کیا ہے؟ لاطینی میں خدا کو Ens Causa Sui کہا گیا ہے. اور اس کے معنی عام طور پر یہ لیے جاتے ہیں کہ یہ “ایک ایسی ہستی ہے جو وہ ہونا چاہتی ہے، جو وہ ہے” خدا کی یہ تعریف کم و بیش تمام مذہبی فرقے اور بیشتر فلسفیانہ و الہیاتی مدرسے قبول کرتے ہیں. خدا کا یہ تصور نیم فلسفیانہ اور الہیاتی تصور ہے. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کسی ایسی ہستی کا وجود ہو سکتا ہے جو اجتماع ضدین ہو، جس میں حال اور مستقبل کی کامل عینیت کا تقاضا شامل ہو. یہ کہنا کہ ایک ہستی وہی ہے جو وہ ہونا چاہتی ہے، ایک بدیہی طور پر غیر معقول اور منطقی طور پر لغو تصور ہے. اس تصور کو انسانی سیاق میں رکھ کر دیکھیں تو اس کی تصویب واضح ہو جائے گی. ہم وہ ہونا چاہتے ہیں جو ہم نہیں ہیں. اگر کو اعلیٰ ڈگری نہیں ہے تو حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر معاشرے میں ہماری کوئی توقیر نہیں تو اس کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ہماری کوشش بار آور ثابت ہوتی ہے تو ہم وہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہم وہی ہیں جو ہم ہونا چاہتے تھے. لیکن یہ کہنا قطعی بے معنی ہوگا کہ ہم وہی ہیں جو ہم ہونا چاہتے ہیں. اسی طرح یہ بات مہمل ہوگی اگر میں بادشاہ ہوں تو چاہوں گا کہ بادشاہ بنوں، اس بات کا تو امکان ہے کہ اگر میں بادشاہ ہوں تو بادشاہ رہنا چاہتا ہوں. لیکن یہ لایعنی بات ہے کہ میں بادشاہ ہوتے ہوئے بادشاہ ہونا چاہوں. جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے کہ: “میں ایک چھُپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو اِس لئے پیدا کیا تاکہ یہ میری پہچان کرے ‘‘۔
یعنی خدا اپنی پہچان کرانا چاہتا تھا جو پہلے نہیں تھی. اور صرف انسان کے وجود سے ہی ممکن تھی. یہاں خدا اپنی پہچان کے سلسلے میں انسان کے وجود کا محتاج محض ہو جاتا ہے. چنانچہ چار و ناچار اس نے اس عالم کو اور انسان کو خلق کیا تاکہ پہچانا جائے. کیونکہ اس کے بغیر اس کی پہچان ممکن نہ تھی. گویا خدا کی ہستی وہ ہونا چاہ رہی ہے جو وہ اس سے پہلے نہ تھی. یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کے خدا کی ہستی جو بھی ہے لیکن اس ہستی کی اس کے علاوہ کوئی غرض و غائیت نہیں کہ اپنی مرضیات کی اطاعت و بندگی اپنی مخلوق سے کرائے. اور وہ انسان سے اس بات کی طالب ہے کہ وہ اس کی ہدایتوں کی پیروی کرے اور اسی کی اطاعت کرے اور اس کی راہنمائی میں چلے، اور اسی کو واحد نصب العین مانتے ہوئے اس کا یقین رکھے، اس کے علاوہ اس کی کوئی غرض و غائیت نہیں. چنانچہ اس ضمن میں خدا کی ہستی کا مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ صرف اپنے قوانین پر عمل درآمد کرانا چاہتا ہے. پھر کہا جاتا ہے کہ وہ بے نیاز ہے. اگر وہ واقعتاًبے نیاز ہے تب مذہب کے کھڑاک کے ذریعے گناہ و ثواب، جنت و دوزخ جیسے خوف، لالچ اور ترغیب کی ضرورت اسے انسانوں کا نیازمند بنادیتی ہے. یعنی خدا کی ہستی کے ہونے کا مقصد صرف خود کو منوانا ہے، کسی قادر مطلق خدا سے اس قسم کی خواہش کا اظہار ہونا اس کے قادر مطلق ہونے پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیتا ہے. جیسا قرآن میں مذکور ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿سورۃ الذاریات:٥٦﴾
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں
اور انسان کے وجود کا مقصد ایک ایسے موجود کی جی حضوری قرار پاتا ہے جس کا کوئی وجود نہیں. کیونکہ تمام الہیاتی مدرسے اور تمام مکاتب فلسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ خدا کی ہستی وجود سے بھی برتر و ماورا ہے. اس نقطے پر ہم ایک الہیاتی ماہر کی رائے سے استفادہ کرتے ہوئے گفتگو کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے. حضرت جون ایلیا فرماتے ہیں کہ:
”جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے. تب ہم اسے ایک ماہیت قرار دیتے ہیں. ہم گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر موجود شے ہے اور ہر شے موجود ہے. شیئیات اور وجود ہم معنی ہیں. اب ہم کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا شے ہے. اگر اس کا مطلب یہ نہیں تو پھر اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ خدا لا شے ہے. لا شے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، ایک لاموجود اور ایک یہ کہ وہ موجود جو شے نہ ہو، کچھ اور کیا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب مابعدالطبعی فکر کے تمام نمائندوں کو دینا ہے۔“
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کے خدا وجود سے بھی ماورا ہے. اب ہم دیکھتے ہیں کے واجب الوجود کو موجود کہا جائے تو اس کے وجود کی تعریف کرنا خدا کے دعوے داروں کیلیے ناممکن ہو جاتا ہے. چنانچہ اس سے گھبرا کر انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ واجب الوجود ایسا موجود ہے جو وجود سے بھی ماورا ہے. یہ بذات خود ایک بدیہی طور پر غلط تصور ہے. جس کا جواب مابعدالطبعیاتی دینیات کے پاس نہیں. اور ما بعد الطبعیاتی دینیات کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک تصوراتی دنیا، جس کا گھر ذہن ہے. اور اگر ذہن میں پائے جانے والی مخلوقات حقیقی وجود رکھتی ہیں تب مابعدالطبعیاتی دینیات کے نمائندوں اور اہل مذاہب کو اس بات کا بھی اقرار کرنا ہوگا کہ ہر دین کا ہر ایک کردار حقیقتاً اور واقعتاًوجود رکھتا ہے. بلکہ پھر ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ سپر مین، آئرن مین، بیٹ مین، ٹارزن، ڈریکولا جیسے تمام فکشن کریکٹر بھی حقیقتاًوجود رکھتے ہیں.

1 Comment

  1. ایک اور شاندار مضمون پرمبارکباد قبول فرمائیے !

    مجھے تو مزے کی بات یہ لگتی ہے کہ مابعد الطبیعات کی ساری بحث اس وقت شروع ہوتی نظر آتی ہے جب مسلمان روم و فارس کو بزور تیغ زیر کر چکے تھے (تبلیغ کے ذریے نہیں )- قرآن میں ان مباحث کو کوئی ممتاز جگہ نہیں دی گئی، اکا دکا مقامات پر ایسی مبہم آیات موجود ہیں جنکو کھینچ تان کے اس دائرے میں گھسیٹ لیا جاتا ہے – آخر اگر قرآن سب انسانیت کے لئے آیا تھا تو اسکا اسلوب اتنا ‘بدووانہ ‘ کیوں تھا؟ کیا انسانیت بحیثیت مجموعی یونانی و ہندی مباحث کو بھول چکی تھی ؟ چلو اہل یونان پر زوال آچکا تھا ، مگر ہندی فکری روایت تو ترو تازہ تھی ، رومیوں میں یحییٰ النوحی (John Philoponus ) جیسے لوگوں کو گزرے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، تو پھر قرآن اتنی آسانی سے ان فکری روایات سے صرف نظرکیسے کر سکتا ہے؟ یا تو قرآن ایسے حتمی دلائل پیش کرتا اور ایسے انداز میں کرتا کہ یہ مسائل ہمیشہ کے لئے حل ہو جاتے- ظاہر ہے ایسا نہ ہو پایا اس لئے کہ خود مسلمانوں میں ان قرانی آیات اور یونانی اور ہندی نظریات (جنکا شامل کیا جانا ناگزیر تھا کیوں کہ اسلامی فکری بنیاد خاصی کمزور تھی) کے اختلاط کے نتیجے میں کوئی اتفاق راے نہ بن سکا !

جواب دیں

1 Comment
scroll to top