Close

خدا اور طبعی قوانین

مذاہب کے ماننے والوں کا ہمیشہ یہ دعوی رہا ہے کہ خدا نے ہی طبیعات (فزکس) کے تمام قوانین تخلیق کیے ہیں چنانچہ ہمیں یہ سوال نہیں کرنا چاہیے  کہ ” خدا کو کس نے تخلیق کیا؟ ” کیونکہ اس صورت میں ہم – قوانین کے خالق اور جن کے لیے قوانین بنائے گئے – میں برابری کردیں گے.

پہلی نظر میں یہ بات کافی معقول معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر آپ مُقدس مُتون پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ ساری بات بکواسِ محض ہے، کیونکہ طبیعات کے قوانین خدا پر بھی لاگو ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ خدا سے بھی پہلے سے موجود ہیں، اور چونکہ طبیعات کے قوانین خدا کے وجود سے بھی پہلے سے موجود ہیں چنانچہ یہاں ایک اور خالق کا وجود لازم ہوجاتا ہے جس نے خدا اور طبیعات کے قوانین کو تخلیق کیا.

مثلاً قرآن میں ہے کہ:

” اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ” (سورہ الاعراف، آیت 54)
(کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا)

لغت میں ” عرش ” کا مطلب بادشاہ کا بستر یا کرسی ہے تاہم یہاں کرسی مراد ہے ثبوت کے طور پر سورہ البقرہ کی آیت 255 میں ہے کہ:

” وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ”

اور ” استوی ” سے مراد لیٹنا یا بیٹھنا ہے، یعنی قرآن نے خدا کو ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا ہے جو تھکا دینے والے خدائی امور کی انجام دہی کے بعد تھک ہار کر آرام کی غرض سے اپنی کرسی پر جا بیٹھتا ہے، اس سارے قضیے میں سب سے دلچسب بات خدا کا اس کرسی پر بیٹھنا ہے، اگر خدا طبعی قوانین سے ماوراء ہے تو اسے بیٹھنے کے لیے کرسی کی ضرورت کیوں ہے؟ خدا کا کرسی پر بیٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی قوت ایسی ضرور موجود ہے جو اسے نیچے کی طرف کھینچ کر اس کرسی پر بٹھاتی ہے، اور یہ قوت یقیناً کششِ ثقل ہے.

اگرچہ یہ ثابت ہوگیا کہ کششِ ثقل کے قوانین خدا پر بھی لاگو ہوتے ہیں تاہم اب بھی ایک مشکل سوال باقی ہے، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ کرسی ایک مادی چیز ہے؟ اس سوال کا جواب بھی قرآن میں موجود ہے:

” وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ ” (سورہ ہود، آیت 7)
(اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا)

پانی ایک طبعی مادی چیز ہے جو کائنات کے کئی سیاروں کے علاوہ ہمارے اس چھوٹے سے کرہ ارض پر بھی پایا جاتا ہے، عرش کا پانی پر ہونا یا سادہ لفظوں میں پانی کا اس عرش کو اٹھانا اس بات کی بین دلیل ہے کہ خدا کو اٹھانے والا یہ عرش ایک مادی چیز ہے، ویسے بھی اس نتیجے کی ضرورت نہیں کیونکہ کششِ ثقل کا وجود ہی کافی ہے جو عرش کو پانی کی طرف دھکیل رہا ہے، گویا ساتویں آسمان پر بھی کششِ ثقل موجود ہے 😀

” علمائے حق ” کی طرف سے اس مسئلے کے دو ممکنہ جوابات ہوسکتے ہیں، پہلا جواب کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ:

”ہم نہیں جانتے کہ کیسے، یعنی ہم جانتے ہیں کہ خدا عرش پر بیٹھتا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ کیسے اس عرش پر بیٹھتا ہے، خدا کو کسی مخلوق یا مادی چیز سے تشبیہ دینا غلط ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ” لیس کمثلہ شیء ” (اس کے جیسی کوئی چیز نہیں) ”

اس جواب کا جواب پانی ہے، عرش کے پاس پانی کا ہونا اس جواب کے رد کے لیے کافی ہے کیونکہ پانی ایک مادی چیز ہے جس پر طبیعات کے قوانین لاگو ہوتے ہیں، جب قرآن یہ کہتا ہے کہ پانی نے عرش کو اٹھایا ہوا ہے تو اس طرح وہ ایک ایسے مادے کو جس پر طبیعات کے قوانین لاگو ہوتے ہیں معاملے میں داخل کردیتا ہے، اب ایک طبعی مادی چیز ایک ایسی چیز کو کیسے اٹھا سکتی ہے جو طبیعات یا کائنات سے ماوراء ہے؟

دوسرا ممکنہ جواب وہی گھسا پٹا ہے کہ:

” ہمیں اپنی محدود عقل کو ایسے معاملات میں نہیں الجھانا چاہیے، ہم ایک انتہائی ضعیف مخلوق ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ”

اس کا جواب بھی وہی گھسا پٹا ہے کہ خلقت میں نقص خالق کے نقص کی دلیل ہے، اگر میری محدود عقل نے خدا کے وجود کے مسئلے پر کوئی منطقی تضاد دریافت کر لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خدا اپنے آپ تک رسائی کے لیے کچھ چیزیں دستیاب کرنے سے قاصر ہے، میری یہ عقل (مذاہب کے ماننے والوں کے مطابق) خدا کی ایک مخلوق کے سوا کچھ نہیں ہے جسے اس خدا نے اپنا آپ منوانے کے لیے اپنے بندوں میں ودیعت کی ہے، تو اگر میری عقل اس کے وجود کا ادراک کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو یہ عقل کا نقص ہے جسے خدا نے کچھ مخصوص خواص کے ساتھ بنایا ہے.

10 Comments

  1. علمائے حق کے جوابات کچھ یوں بھی ہوسکتے ہیں :

    ١ ـ یہ سب شیطانی باتیں ہیں جو انسان کے دماغ میں وسوسہ پیدا کرتا ہے ـ
    ٢ ـ ایسی لغو باتیں سوچنے کیلئے انبیاء نے منع کیا ہے ـ
    ٣ ـ توبہ استغفار، خدا کے بارے اس طرح کا سوچنا گناہِ کبیرہ ہے ـ
    ٤ ـ ہمارا مذہب ایسی باتیں سوچنے کی اجازت نہیں دیتا ـ
    ٥ ـ یہ سب شیطانی خیالات ہیں خدا کے خلاف ـ
    ٦ ـ قرآن میں جو بھی ہو آنکھ بند کرکے یقین کرلینا چاہئے ـ
    ٧ ـ تم یقینا شیطان کے بہکاوے میں آکر اس طرح سوچ رہے ہو ـ
    ٨ ـ یا پھر ایسا کوئی واقعہ کہ (کسی نے خدا کے بارے ایسا ہی سوچا تھا اور اُس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا) اور تم سنبھل جاؤ کہ وہی عذاب کہیں تم پر نازل ہوجائے ـ
    ٩ ـ تمہارے سوالات کا جواب بھی قرآن میں موجود ہے ـ اور جواب کیلئے ہم سے بڑے علمائے حق سے پوچھو ـ اگر اُن کے پاس بھی جواب نہ ملے تو ان سے بڑوں کے سے پوچھو اگر پھر بھی جواب نہ ملے تو واللہُ عالم ـ
    ١٠ ـ اور بھی ساری دلیلیں پیش کریں گے اور بالآخر تھک ہار کر یہی کہیں گے کہ تمہیں تو سمجھانا ہی بیکار ہے ـ اور تمہیں سمجھاتے سمجھاتے ہم ہمارا ایمان خراب ہو رہا ہے ـ

  2. جتنے انسان، اتنے ہی انکے پسندیدہ یا ناپسندیدہ خدا ۔ اتنے سارے خداؤں کو ریٹائیرمنٹ کیلئے قائل کرنا یا انسانوں کے زہنوں سے انکے منفی یا مثبت خداؤں کا تصور ختم کرنا تو ایک ناممکن سا کام ہے ۔ تمام انسانوں کو اس کائینات سے مٹا پانے والے کی شائد کوئی مرضی رہ پائے ۔
    جنہوں نے خداؤں کو ثابت کرنے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردیں وہ بھی اپنے خداؤں سے انسانوں کو ملانے میں انٹرسٹڈ نہیں رہے تھے ۔ آپکے فالوورز کی تعداد بڑھنی شروع ہو گئی تو آپکی بھی ساری زندگی گزر جانی ہے پر دینِ تمسخرِ دین کی بلاگی کتاب مکمل نہیں ہو پائیگی ۔
    ہاں آپ کو اس کوشش کا کوئی معاشی فاعدہ ہو رہا ہو تو ٹھیک وگرنہ آپ بھی یہ کام اپنے دینِ تمسخرِ دین کی ٹائم پاسنگ عبادت کے طور پر کرتے رہیں ۔

  3. آپ فزکس کے بہت ہی بنیادی قوانین سے نواقف ہیں. کشش ثقل کے موجودگی صرف اسی وقت ممکن ہے جو کمیتوں کے اعتبار سے عظیم اجسام موجود ہوں. صرف کرسی کی موجودگی سے پیدا ہونی والی کشش ثقل بہت ہی حقیر ہوگی.

    کرسی پر بیٹھنے کے لئے کشش ثقل ضروری نہیں. کسی دوسری فورس کے ذریعے باآسانی یہ کام کیا جاسکتا ہے. یہ فورس اپنی پیدا کردہ بھی ہوسکتی ہے.

    کائنات میں بہت سے جگہیں ایسی ہیں جہاں کشش ثقل کی موجودگی از حد تک کم ہے اور بہت سی جگہیں ایسی ہی جہاں کشش ثقل اتنی زیادہ ہے کہ روشنی تک فرار نہیں ہوسکتی. بلیک ہولز ایسی ہی ایک جگہ ہے جہاں‌کشش ثقل اتنی زیادہ ہے کہ اس کے ججم تقریبآ زیرو لیکن کمیت لامحدود ہوتی ہے. اب تو سائنس دان اینٹری گریویٹی تھیوری کی بات کررہے ہیں۔

    اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ طبیعیات کے قوانین خدا پر اثر انداز ہوتے ہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کائنات میں موجود طاقتور گیما ریز، کاسمس ریز اور ہائی انرجی پارٹیکلز نعوذ بالله خدا کی ہیت ہی تبدیل کرچکے ہونگے یا اسے ختم کرچکے ہونگے۔ اس کے علاوہ طبیعیات کی ایک تھیوری کے مطابق پروٹون ڈیکے بھی ممکن ہے۔ اس حساب سے بھی اب تک خدا کا وجود نعوذ بالله کم ہوچکا ہوگا اور وہ سادہ پارٹیکلز میں تقسیم ہوچکا ہوگا۔

    طبیعیات کے قوانین صرف مادے اور انرجی پر کارگر ہیں جبکہ ہم خدا کو ان دونوں چیزوں کا خالق مانتے ہیں نا کہ ان ہی کا حصہ۔

    طبیعیات کے قوانین خود ایک دوسرے سے متصادم ہیں. مثال کے طور پر آئن اسٹائن کے فزکس اس بات پر کھڑی ہے کہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی چیز ممکن نہیں. جبکہ کوانٹم فزکس میں روشنی سے تیز رفتاری ممکن ہے. فزکس کے یہ دونوں تھیوریز اپنی جگہ درست مانی جاتی ہیں.

    آپ نے جن آیات کا حوالہ دیا ہے ان میں کرسی ایک تشبیہ بھی تو ہوسکتی ہے۔

    1. قبلہ آپ شاید پانی کو نظر انداز کر رہے ہیں، کشش کا باعث کرسی نہیں بلکہ پانی یا وہ جگہ ہے جہاں یہ پانی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ کرسی پانی پر ٹکی ہوئی ہے، جب کرسی پانی پر دھری ہے (اگرچہ کرسی پانی پر نہیں رکھی جاسکتی) تو لازمی بات ہے کہ اس جگہ کی اور پانی کی کمیت بہت زیادہ ہوگی اور کرسی بھی بہت بڑی ہوگی یا پھر آپ کو یہ ماننا پڑے گا خدا سائز میں بہت چھوٹا ہے!! رہی بات کسی اور فورس کی تو چونکہ کرسی اور پانی ہماری جانی پہچانی چیزیں ہیں تو ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ یہ فورس بھی ہماری جانی پہچانی ہی ہونی چاہیے یعنی کشش ثقل، جہاں تک تشبیہ کی بات ہے تو آیت میں ایسی کسی بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ یہ ایک صریح بیان ہے، ویسے بھی مجازیات مومن کی بہترین جائے پناہ ہے.. دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے 🙂

  4. کرسی چھوٹی ہی ہوتی ہے، تخت اور کرسی میں فرق سائز ہی کا ہوتا ہے. اس لئے اس آیات میں کرسی کی تشبیہ دی گئی ہے. کرسی پانی پر نہیں رکھی جاسکتی یہ بات آپ خود کہہ چکے ہیں. سائز میں تو نیوٹرون ستارے بھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان میں انرجی کئی سو ستاروں جتنی ہوتی ہے.
    زمین جتنی کشش ثقل پیدا کرنے کے لئے اس پر موجود سارا پانی بھی ناکافی ہے.

    کشش ثقل سے آزادی بھی طبیعیات کے قوانین سے ثابت ہے. زیرو گریویٹی جیسے حالات پیدا کرنا ممکن ہے اور خلابازوں کو ابتدا میں ایسے ہی ماحول میں رکھا جاتا ہے جو مصنوعی طور پر پیدا کیا جاتا ہے.

    یہاں میں ایک اور چیز کا حوالہ بھی دے دوں۔ ڈارک میٹر جو کہ نظروں سے پوشیدہ ہے لیکن کائنات کی کل کمیت میں اس کا حصہ اچھا خاصا ہے۔ اسی طرح ڈراک انرجی بھی اس کمیت میں اپنے ایک بڑا حصہ رکھتی ہے۔ ہمارے ناقص سائنس اب تک ان دونوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی اور صرف تھیوریٹیکل ثبوت موجود ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کائنات میں اب بھی بہت سے چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ کل تو لیویٹیشن ایک عجوبہ اور عقل انسانی سے مبرا چیز تحی لیکن اب یہ ایک پریکٹیکلی ممکن چیز ہے۔

    اگر میں آپ کی بات مان بھی لیتا ہوں کہ پانی عرش پر موجود ہے اور اس قدر زیادہ مقدار میں ہے کہ کشش ثقل پیدا کرسکتا ہے تو کرسی پر بیٹھنے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ کشش ثقل اثراندا ہوئی۔ خلاباز اگر خلائی اسٹیشن میں بیٹھتے ہیں تو وہاں کون سی فورس ان پر اثر انداز ہوتی ہے؟ اور اگر کشش ثقل آپ کو کرسی پر بیٹھنے پر مجبور کرسکتی ہے تو آپ اٹھ کیسے سکتے ہیں؟ میں نے پہلے بھی بلیک ہولز کی مثال دی تھی جہاں کشش ثقل انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ اتنی زیادہ کے میٹر کو تروڑ مروڑ کے رکھ دیتی ہے۔ اب عرش پر موجود پانی اتنا کثیف ہوسکتا ہے کہ وہ بلیک ہول جیسی صورت پیدا کردے؟ یہ ناممکن بات ہے۔

    کائنات میں صرف کشش ثقل ہی ایک فورس نہیں، اس کے علاوہ تین اور فورسز بھی ہیں۔

    1. ایک دفعہ آپ پھر مغالطے میں پڑ گئے ہیں، جب میں کہتا ہوں کہ کرسی پانی پر نہیں رکھی جاسکتی تو آپ کو یہ بات معقول لگتی ہے، لیکن جب قرآن یہ بات کہتا ہے تو آپ کو یہ بات نامعقول نہیں لگتی!! پھر ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ سائز میں نیوٹرون ستارے بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان میں توانائی کئی سو ستاروں جتنی ہوتی ہے تو دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ کشش ثقل پیدا کرنے کے لیے زمین کا سارا پانی ناکافی ہے !! اگر چھوٹا سا نیوٹرون ستارہ کئی ستاروں کے برابر طاقت رکھ سکتا ہے تو پھر پانی بھی اتنی زیادہ قوت رکھ سکتا ہے، اور اگر اس پانی کی کمیت بہت زیادہ ہو تو یہ اور بھی زیادہ معقول ہوگا اگرچہ قرآن میں پانی کی کمیت کا کوئی تعین نہیں ہے اور نا ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ پانی خلاء میں گھوم رہا تھا یقینا یہ پانی کسی نہ کسی سطح یا کرہ پر موجود ہے اورآیت کے قیاس سے یہی معلوم بھی ہوتا ہے، اور ایک بار پھر آپ ایک طرف کہتے ہیں کہ یہ محض تشبیہ ہے تو دوسری طرف اسی تشبیہ کو آپ ثابت شدہ طبیعات کے قوانین سے رد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خدا ان طبعی قوانین کا پابند ہے؟ اور پھر اگر میں آپ کی بات مان بھی لوں کہ یہ صرف تشبیہ ہے تب بھی کوئی تشبیہ یا مثال کسی حقیقی صورتحال کی وضاحت کے لیے ہی دی جاتی ہے، رہی یہ بات کہ کرسی پر بیٹھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کشش ثقل اثر انداز ہوئی تو میں آپ کی یہ بات مان لیتا ہوں، آپ یہ بتا دیں کہ عرش کو پانی پر کون سی قوت دھکیل رہی ہے 😀

      مزید یہ کہ قرآن میں جب بھی خدا کسی چیز کی تخلیق کی بات کرتا ہے تو خود پہلے ہی کسی نہ کسی زمان ومکان میں موجود ہوتا ہے، قرآن وحدیث سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خدا عدم میں موجود تھا یا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن رشد کائنات کو قدیم قرار دیتے ہیں 🙂

  5. تشبیہ اکثر معقول نہیں لگتی. تشبیہ کا مقصد ہی کسی چیز کو دوسرے الفاظ‌ میں بیان کرنا ہے. گلاب کی پنکھڑی اور ہونٹوں کا کیا مقابلہ..
    نیوٹرون ستاروں کے بارے میں آپ کی معلومات میں‌اضافہ کرتا چلوں کہ یہ ستارے کی عمر کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جب وہ مرنے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے. سپرنوا بننے کے بعد ستارا گرویٹی کلاپس کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کا سارا جحم صرف چند کلومیٹرز تک محدود ہوجاتا ہے. پورا کا پورا ستارہ نیوٹرانز پر مشتمل ہوتا ہے. یہاں یہ بات نوٹ فرما لیں کہ جحم اس کا تقریبا بارہ کلومیٹر ہی ہوتا ہے لیکن اس کی کمیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا. کمیت اس کی ستارے جتنی ہی ہوتی ہے.

    طبیعیات کے قوانین سے میں اس تاثر کو زائل کرنا چاہ رہا ہوں جو آپ کہ خیال میں کشش ثقل کے بارے میں‌ہے. کشش ثقل کوئی ایسی قوت نہیں جو قابل تسخیر نہیں ہے. میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ خدا پر طبعی قوانین لاگو نہیں ہوتی، اگر ایسا نعوذباللہ ایسا ہوتا تو نتیجہ انتہائی بھیانک ہوتا. عرش ٹوٹ کر گرجاتا تو کائنات کی تو واٹ لگ جانی تھی نا.

    آپ کے یہ سوال کہ عرش کو پانی پر کون سی قوت دھکیل رہی ہے کا جواب دینے سے پہلے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ عرش کیا کوئی ایسی چیز ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں‌جاسکتی؟ اس کے علاوہ عرش کا کوئی مادی چیز ہونا کیسے ثابت ہورہا ہے؟ عرش کے اوپر پانی ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ عرش ایک مادی چیز ہے جس نے پانی سنبھال رکھا ہے. لیکن آپ نے پیش کردہ ترجمہ کے مطابق عرش پانی پر تھا.

    کائنات کتنی قدیم ہے اس کا ثبوت تو ہمیں طبیعیات سے مل ہی گیا ہے. سنگولیریٹی سے اتنی عظیم کائنات تک کا سفر ہم طبیعیات کے قوانین سے بیان کرسکتے ہیں. اور کائنات کہاں جا رہی ہے، اس کے بارے میں‌بھی ہم جانتے ہیں. ایک اور سنگولیریٹی اس کائنات کے مقدر میں لکھی ہے.

    ویسے ابھی ابھی ایک سوال میرے دماغ میں آیا ہے کہ کیا جنت اور دوزخ بھی اسی کائنات میں موجود ہیں یا اس کائنات سے باھر ہیں؟

    میں آپ کا پرانا واقف کار ہوں۔ جانتا ہوں کہ آپ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ پہلے پہل تحریریں پڑھ کر اپ سیٹ ہوا تھا لیکن اب سمجھ لگ گئ ہے۔ لیکن آپ نے ہاتھ بہت سخت رکھا ہوا ہے اس کی شکایت بہرحال ہے آپ سے۔

  6. دی گئ آیت میں اس وقت کا تذکرہ ہے جب کائینات بنائ گئ اس وقت خدا کا عرش پانی پہ تھا۔ تخلیق کے بعد وہ عرش پہ ظاہر ہوا۔ اس سے پہلے نہیں تھا۔ اس سے لگتا ہے تخلیق کے بعد خدا نے اپنا مقام عرش تبدیل کر لیا یا اپنے آپکو ظاہر کیا۔ سو اس آیت سے صرف یہ نتیجہ نکل پا رہا ہے کہ عرش کوئ ایسا مقام ہے جو تبدیل ہو سکتا ہے۔ اور جس پہ شاید طبیعیات کے قوانین کسی حد تک نافذ ہو پاتے ہوں۔ مقام عرش سے پہلے خدا کا مقام واضح نہیں۔
    یہ کہا جاتا ہے کہ زمین پہ زندگی نے پہلے پہل پانی سے جنم لیا۔ اور پھر وہ خشکی کی طرف آئ۔ اگرچہ سائینس اسکے لئے اپنے استدلال استعمال کرتی ہے۔ مگر زمینی تاریخ میں کچھ مشترک معلومات زمانہ ء نمعلوم سے منتقل ہو رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ خدا کے عرش کا پانی پہ قائم ہونا اور سائینسی استدلال کہ زندگی نے سب سے پہلے پانی می جنم لیا کیا تعلق ہے۔ لیکن اس میں کوئ قدر مشترک ضرور ہے۔
    اگرچہ علماء کی کثیر تعداد اس بات سے اختلاف کرتی ہے کہ قرآن میں بہت ساری چیزیں علامات کے طور پہ استعمال کی گئ ہیں۔ یعنی جو بیان جس طرح ہیں وہ اسی طرح لیں لیکن اس سے بہت سارے دیگر مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔
    سر سید احمد خان نے بھی بہت ساری الجھنوں سے نکلنے کے لئے قرآن میں علاماتی استدلال کو پیش کیا۔ مثلاً وہ جنات کو باقاعدہ ایک انسان کے مقابلے کی مخلوق نہیں سمجھتے۔ آسمان اور زمین کے چودہ طبق ، جنت اور دوزخ کا وجود رکھنا اور دیگر چیزیں جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہیں۔ انکے نزدیک یہ سب علامات ہیں اور صریح بیان نہیں۔

  7. کافی علمی سطح کی بحث ہے بہت خوشی ہوئی ہے کہ اردو میں ایسے وسیع اور سراسر علمی قسم کے مضامین پر بحث کا سلسلہ چل نکلا ہے شکر ہے کفر کے فتوے نہیں لگ رہے ہیں بس ایک گذارش ہے کہ حتمیت اور قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہ کی جائے نظریات تو نظریات ہوتے ہیں قوانین نہیں بن جاتے اور اگر قوانین بھی موجود ہیں تو ان کی خالق ہستی بھی رب تعالیٰ ہی کی ہستی ہے مجھے سائنس کے بارے میں زیادہ علم تو نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ چونکہ اس کائنات کے نظام کے پیچھے ایک قانون کی کارفرمائی نہیں ہے اس لیے ہم کسی ایک قانون کو اس کائنات کے نظم میں کلی طور پر حرکت پذیر ہوتا نہیں دیکھتے یہ بات اس حقیقت کو واشگاف کرتی ہے کہ ان تمام قوانین فطرت کو متوازن انداز میں چلانے والی کوئی قوت ضرور موجود ہے اور ہم اس لیے ہی تو کہتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے…!!! باقی رہی فرش و عرش کی بات تو چونکہ ہمارا فہم ابھی حتمیت اور قطعیت کی منزل تک نہیں پہنچا اس لیے ہم فرش و عرش کی حقیقت کو ابھی تک کھوج نہیں پائے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارا فہم ناقص ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا نہیں ہیں جب ہم اس کائنات کو کلی طور پر سمجھ جائیں گے تو شاید ہم خدا بن جائیں گے اور ہمارا خیال ہے کہ ہم کبھی بھی خدا نہیں بن سکتے اور نہ ہی کلی طور پر اس کائنات کی حقیقت کا سراغ لگا سکتے ہیں ہاں ہمیں کوشش و کاوش جاری رکھنی چاہیے یقین جانیے اس قدر علمی کام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے امید ہے کہ اس موضوع پر اور بھی تحریریں سامنے آئیں گی….سب کے لیے دعا…..

  8. I fully agree with zoopaki, the dark energy and dark matter are even more in quantity than their visible counterparts. There is visible universe and then there is invisible universe also, the one which is receeding away from us at the speed of light and is more than a light year away, we shall never be able to view that part of the universe because nothing can move faster than light. If we are unable to decipher these mysteries then how we expect to decipher the mystery of God who is the creator of all these mysteries. If our wisdom encompasses everything then why quantum weirdness is still an embarassment for scientists after so many years 🙂

جواب دیں

10 Comments
scroll to top