
پرسوں ہی خدا خدا کر کے "القضاء والقدر فی ضوء الکتاب والسنہ” نامی کتاب ختم کی، کتاب انتہائی بور اور منطقی مغالطوں سے پُر تھی کیونکہ ایسے مسائل میں منطق کی ویسے بھی کوئی جگہ نہیں ہوتی، مصنف لکھتا ہے: "تقدیر اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے جس کے بارے میں اس کے مقرب ترین فرشتے تک نہیں جانتے، اس میں پڑنا جائز نہیں اور نا ہی عقل کے ذریعے اس کی تلاش کرنی چاہیے” تو گویا انہوں نے خود ہی اعتراف کر لیا کہ مذہبی خرافات میں عقل کا کوئی کام نہیں، ظاہر ہے یہ عقل کے سامنے ٹک نہیں سکتیں، اس اعتراف کے باوجود کتاب کا مصنف حیرت انگیز طور پر اس خیال کو عقلیانے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے!!
مصنف لکھتا ہے کہ خدا نے انہیں تخلیق کرنے سے ہزاروں سال پہلے ہی ان کے اعمال لکھ دیے تھے، اس کے بعد انہیں پیدا کیا تاکہ ان کا امتحان لے کر یہ جان سکے کہ کون اچھا ہے اور کون برا..!! منطقی طور پر کوئی امتحان وضع کرنے کی وجہ کسی چیز کی تصدیق کرنا ہوتا ہے، مثلاً اگر میرے پاس پینسل بنانے کی فیکٹری ہو تو یہ جاننے کے لیے کہ کیا میری فیکٹری میں بننے والی پینسلیں معیار کے مطابق ہیں یا نہیں میں ان کی جانچ کے لیے ایک امتحان یا ٹیسٹ وضع کروں گا، کیونکہ مجھے نتائج کا علم نہیں ہے اس لیے مجھے تصدیق درکار ہے، اسی طرح ڈرائیونگ کا بھی ایک امتحان ہوتا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ جس شخص کا امتحان لیا جارہا ہے وہ ڈرائیونگ جانتا بھی ہے یا نہیں، مگر خدائی ماڈل میں امتحان کے نتائج پہلے سے ہی معلوم ہیں، خدا پہلے سے ہی یہ جانتا ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں، اسی نے ہی لوگوں کی یہ تقدیر بنائی ہے اور اس کا علم مطلق ہے چنانچہ یہاں خدا کا امتحان کون لے گا؟ کیا وہ اپنا امتحان خود لے! اس کے پیدا کردہ انسانوں کا اس پر کوئی اختیار نہیں لہذا وہ امتحان کے نتائج نہیں بدل سکتے کیونکہ خدا ان کے تمام اعمال ان کے سوچنے سے بھی پہلے جانتا ہے بلکہ ان کے پیدا ہونے سے بھی پہلے.. سارے انسان محض روبوٹس ہیں جو پہلے سے لکھے ہوئے کچھ احکامات پر عمل کر رہے ہوتے ہیں.
یہ یاد رکھیں کہ خدا کے مطلق علم کے اصول میں صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی مخلوق کا مستقبل جانتا ہے بلکہ وہ اپنے خود کے افعال کا مستقبل بھی جانتا ہے..!! یہاں خدا ایک اور مصیبت میں پہنس جاتا ہے، کیا خدا اگر چاہے تو اپنا مستقبل بدل سکتا ہے؟ اگر وہ بدل سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنا مستقبل بدلنے سے پہلے ہی اسے علم تھا کہ وہ اپنا مستقبل بدلے گا! اس طرح خدا منطقی طور پر ناممکن اپنے "مطلق علم” کے جال میں پہنس جاتا ہے.. لگتا ہے خدا کی تقدیر کے جال میں صرف ہم ہی نہیں خود خدا بھی پہنسا ہوا ہے.. اچھی بات ہے نا 🙂 ..؟
مومنین کی دلچسب توجیہات کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنی عقل کا بلب بجھا دیں اور اسے حقیقت حال سے الگ کر لیں، مگر میں انہیں مختصراً دو حصوں میں بیان کرنا چاہوں گا:
1- دعاء تقدیر کو بدل سکتی ہے اور صدقہ بلاؤں کو ٹال سکتا ہے اس کا مطلب ہے کہ انسان مخیر یعنی با اختیار ہے.
2- تقدیر کئی قسم کی ہوتی ہے، ایک تقدیر کا تعلق وقت سے ہے اور ایک تقدیر کلی ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا.
پہلی تفسیر "گول منطق” کے مغالطے کا بہترین نمونہ ہے، اگر ہم فرض کر لیں کہ دعاء کرنے یا صدقہ دینے سے خدا تقدیر کو بدل دے گا تو کیا خدا کو آپ کی اس دعاء اور صدقے کا پہلے سے علم تھا یا نہیں؟ یا خدا کو نہیں پتہ تھا کہ آپ دعاء کرنے والے ہیں! مومن کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ جی خدا کو یقیناً علم تھا کہ میں دعاء کروں گا، اس کا مطلب ہے کہ دعاء اور صدقہ آپ کے باقی اعمال کی طرح پہلے سے ہی آپ پر لکھا ہوا تھا، آپ نے یہ دعاء اپنی مرضی سے نہیں کی بلکہ یہ طے تھا کہ آپ نے یہ دعاء کرنی ہے، اور اس طرح ہم پہلے سوال کی طرف واپس چلے جاتے ہیں! اگر کوئی اس بے ہودہ دلیل کا مزید دفاع کرنا چاہتا ہو تو آپ کو اس کی دماغی حالت پر غور کرنا چاہیے.
دوسری تفسیر پہلی سے مشابہ ہے مگر ایک نئے دھوکے کے ساتھ، کتاب کے مطابق مومن فرض کرتا ہے کہ ایک حولی تقدیر ہوتی ہے، ایک کونی، ایک یومی اور ایک معلق تقدیر ہوتی ہے، اس کے بعد کہتا ہے کہ یہ ساری تقدیریں چاہے ایک دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں "لوحِ محفوظ” پر لکھی ہوئی ہیں… جی ہاں ہر چیز اس لوح پر لکھی ہوئی ہے، شیطان کی بغاوت، آدم کا زمین پر اتارا جانا، تمام انبیاء کی اقوام کی ہلاکت یہ ساری باتیں خدا نے خود ہی لکھیں اور ان کے لیے ایک سیناریو تصنیف کیا تاکہ بعد میں اس کائناتی ڈرامے کا ایک کردار بن سکے!! اب کہیں یہ خدا قومِ عاد پر غصہ کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی قومِ ثمود پر برہم ہو رہا ہوتا جیسے اس نے یہ سیناریو خود لکھا ہی نہ ہو! اور اسے پتہ ہی نہ ہو کہ کیا ہونے والا ہے.. جیسے اس لوح پر لکھی ہوئی ساری باتیں اسے بھول گئی ہوں… اور پتہ نہیں خدا کو کسی لوح کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ کیا وہ نسیان کا مریض ہے اسی لیے ہر چیز لکھ کر رکھتا ہے؟ اسے یاد کر کے جان کیوں نہیں چھڑا لیتا؟… چلیے منطق کو دیوار پر مارتے ہیں اور ایک استاد اور اس کے شاگرد کی اس گفتگو پر اکتفاء کرتے ہیں:
استاد: سالانہ امتحان کا وقت آگیا ہے مگر میں نے تم سب کے نمبر پہلے ہی لکھ لیے ہیں اور نتائج بھیج دیے ہیں، تم سب فیل ہو.
طالب علم: کیوں سر؟ پھر امتحان کا کیا فائدہ؟ یہ انصاف نہیں ہے.
استاد: انصاف کیسے نہیں ہے، تمہارے پاس پرچہ حل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے.
طالب علم: اس سے کیا فرق پڑے گا؟ ہم پرچہ حل کریں یا نہیں دونوں صورتوں میں ہم فیل ہی ہیں؟
استاد: تمہیں ان باتوں کا نہیں پتہ لہذا زیادہ سوالات مت کرو اور پرچہ حل کرو لعلکم تعقلون!!
اگلے دن استاد کو پاگل خانے بھیج دیا گیا جہاں خدا پہلے ہی زیرِ علاج تھا.