Close

دینِ فطرت زیرِ نشتر

قرآن کہتا ہے: فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَ‌تَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ‌ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ – سورہ روم آیت 30۔
ترجمہ: تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اس آیت کو دلیل بناتے ہوئے علمائے اسلام یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے یعنی اگر کرہ ارض پر ہر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اسلام کا انتخاب کرے گا یا کم از کم توحید کا انتخاب تو کرے گا ہی، اسی معنی میں ایک حدیثِ نبوی میں آیا ہے کہ: ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں، یہ اور اسی طرح کے دیگر مُتون سے یہ علماء یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام تر انبیاء کا مذہب اسلام ہے اگرچہ ان کے حکام اور شرائع میں حالات اور ثقافت کے لحاظ سے فرق ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان مذاہب میں ایک قدرِ مشترک ❞ذات❝ ہے جسے دینِ فطرت کہا جاتا ہے اور جو دوسری چیزوں میں بھی ہے جیسے درخت، پتھر، اور بذاتِ خود انسان.. تمام پتھر اپنی ذات میں پتھر ہیں اس سے قطع نظر کہ ان کا حجم یا رنگ کیا ہے جسے فلسفہ کی زبان میں عرض کہا جاتا ہے، یہ فارمولا درختوں، انسانوں، جانوروں اور دیگر انواع پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے کہ ان کے تمام تر افراد میں ایک قدر مشترک ہے جو ان کا جوہر ہے، ہر چیز کے جوہر کی دو بنیادی خاصیتیں ہوتی ہیں: دوام اور قائم بالذات ہونا، یہ دونوں خاصیتیں عرض کے بر خلاف ہیں جیسے سفیدی جس کا اپنے آپ میں کوئی مستقل وجود نہیں ہے (یعنی قائم بالذات نہیں ہے) بلکہ یہ دوسرے پر معروض ہوتی ہے، اسی طرح اسے دوام بھی حاصل نہیں بلکہ یہ حالات اور مختلف عوامل کے سبب تبدیل ہوتی ہے، تو اگر فرض کر لیا جائے کہ مذہب کا کوئی ایک جوہر ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جوہر آخر ہے کیا؟ مذاہب میں آخر وہ کون سی قدرِ مشترک ہے جس میں یہ دو خاصیتیں پائی جاتی ہیں یعنی دوام اور قائم بالذات ہونا؟ اور دینِ فطرت سے کیا مراد ہے؟
اس ضمن میں تین امکانات بیان کیے جاسکتے ہیں:

1- شاید مذاہب کے جوہر سے مراد ❞ذات❝ ہو، یعنی تمام مذاہب کی قدر مشترک ایک ذات ہو جیسا کہ پتھر، درخت اور انسان کے حوالے سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، یہ ذات ہی وہ توحیدی فطرت ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں آیا ہے، تاہم یہ معنی لینے میں کئی مسائل ہیں جیسے:

1.1- آیت کہتی ہے کہ ❞خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا❝ جبکہ حدیثِ نبوی کہتی ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور والدین اور معاشرہ اسلام اور توحید کی فطرت کو شرک وکفر اور دیگر مذاہب میں بدل سکتے ہیں۔

1.2- فطری چیزوں کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے بیشتر انسانوں میں موجود ہو اور استثناء بہت ہی نادر اور قلیل ہو، جبکہ اس مسئلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ معاملہ بالکل برعکس ہے، تمام تر تاریخی تحقیقات اور خود قرآن کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر انسانی اقوام نہ صرف پہلے دینِ شرک پر تھے بلکہ اب بھی ہیں اور یہ کہ شرک کو توحید پر سبقت حاصل رہی ہے۔

1.3- ہر چیز کی ایک ثابت ذات ہونا دراصل ارسطو کا قول ہے جسے بعد کے فلاسفہ نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے خاص کر ہیوم اور وجودی اور ظاہری فلسفہ کی طرف سے کیونکہ چیزوں کی ذات ثابت نہیں کی جاسکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل ہر چیز میں صرف صفات کا ہی ادراک کر سکتی ہے، انسان اپنی آزادی کے سبب بے ماہیت وجود ہے اور اپنی ماہیت خود بناتا ہے لہذا ایک جنس کے تمام افراد کے درمیان کوئی مشترک ذات نہیں ہے جسے فطرت کہا جائے چنانچہ دینِ فطرت نامی بھی کوئی شئے نہیں ہے۔

1.4- تینوں توحیدی مذاہب کا توحید کی کسی ایک شکل پر اتفاق نہیں ہے، یہودیت میں بنی اسرائیل کا خدا قومی خدا ہے، مسیحیت میں تثلیت ہے، اسلام کا خدا بشری صفات کا حامل ہے، شیعوں کے ہاں اللہ کی ذاتی صفات کچھ اور، اور سنیوں کے ہاں کچھ اور ہیں، اب ان سارے توحیدی مذاہب کے مختلف ومتعدد مقولات کے درمیان ❞دینِ فطرت❝ کہاں ہے؟

2- شاید جوہر سے مراد ❞ہدف❝ ہو، تمام مذاہب کا ہدف مشترک ہے، اور وہ ہے دنیا و آخرت میں سعادت، خوشی وکامرانی کا حصول، یہاں بھی حقیقتِ حال سے متعلق بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، عام مشاہدہ ہے کہ بیشتر مؤمنین مذہب کی سخت پابندی کے با وجود دنیا میں خوشی وکامرانی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو مذہب پر عمل نہیں کرتے یا مذہب کو سرے سے مانتے ہی نہیں اس کے با وجود وہ خوش وکامران ہوتے ہیں خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں، اگر یہ بھی کہا جائے کہ مقصد خوشی وکامرانی کا حصول آخرت میں حاصل کرنا ہے دنیا میں نہیں تو جہاں یہ دعوی معاملے کو مجہول کی کھونٹی پر ٹانگنے کے مترادف ہے وہیں ہر مذہب اس آخرتی مقصد کے حصول کا دعوی کر سکتا ہے اور اسلام کو ان میں کوئی انفرادیت حاصل نہیں ہے۔

3- ہوسکتا ہے مقصد ❞کام❝ میں مضمر ہو، یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہب یا مذاہب کا مشترکہ کام انسان کو اس دنیاوی زندگی میں طمانیت بخشنا ہے، یا الوہی قوانین کے ذریعے معاشرے کے معاملات کو منظم کرنا ہے وغیرہ.. لیکن استقراء کے ذریعے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذاہب کا یہ کام تین قسموں یا انواع پر مشتمل ہے: نفسیاتی، معاشرتی، اور روحانی…

نفسیاتی پہلو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، مذہب مؤمن کو ایک نفسیاتی راحت عطا کرتا ہے اور اس میں بہتر مستقبل کی امید جگاتا ہے چاہے وہ موت کے بعد ہی کیوں نہ ہو، تاہم یہ کام صرف توحیدی مذاہب پر ہی منحصر نہیں ہے، شرک میں بھی یہ خاصیت بدرجہ اتم موجود ہے، رہا معاشرتی پہلو تو جدیدیت نے یہ کام بھی مذہب سے چھین لیا ہے اور عملاً ثابت کیا ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے سول قوانین خدائی شریعت سے زیادہ بہتر اور منصفانہ ہیں مزید برآں شہریت لوگوں کو بلا تفریق ایک معاشرے میں ضم کرنے کے لیے زیادہ کارگر ثابت ہوئی ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر ان کے درمیان تفریق بھی نہیں کرنی پڑتی، رہی بات روحانیت کی تو یہ خوبی بھی کوئی اسلام کی یا توحیدی مذاہب کی جاگیر نہیں، چلتی مثال بدھ مت اور انسانیت کے جدید مفہوم کی ہے جس نے یہ کام توحیدی مذاہب سے کہیں بہتر سر انجام دیا ہے۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top