Close

سائنس، مذہب اور مولویات

ہمارے ایک انجنئیر دوست نے اس بلاگ پر کہی گئی باتوں سے اختلاف کرتے ہوئے ان کی جانچ کے لئے ایک کتاب کا لنک دیا، جسکا مطالعہ بجائے خود ایک دل گردے کا کام ہے، لیکن مناسب نہ تھا کہ اس سے صرفِ نظر کرتے، چنانچہ پڑھا۔

یقین نہیں آتا کہ اس بے دردی سے حقائق کو موڑ توڑ کر بھی پیش کیا جا سکتا ہے، عوام الناس کے لاجک سے نابلد ہونے، کسی عقیدے کی خواہش اور جذبات کا بڑا فائدہ اٹھایا گیا ہے چنانچہ سوچا کہ تھوڑا تھوڑا کر کے اس کتاب میں بیان کئے گئے دعووں کے بارے میں کچھ بیان کرنا چاہئے۔

——————————————————————————————————————

Appeal to Authority، اس کی ایک شکل یوں ہے  کہ ایک شخص کسی ایسے موضوع پر کلام کرتا ہے کہ جس پر اسے سند حاصل نہیں ہوتی۔ یعنی ایک شخص کا غیر متعلقہ موضوع پر کلام کرنا اورنتیجہ نکالنا یا   فیصلہ صادر کرنا۔ ایسے فیصلوں یا  نتائج کی درستگی مشکوک یا غلط  بھی قرار دی جا سکتی ہے۔مگر اکثر اوقات یوں ہوتا ہے کہ اس مغالطے کا شکار لوگ  اوپر بیان کئے گئے شخص کے  نکالے گئے نتائج اور فیصلوں کو درست اور حرف ِ آخر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا ممکن بھی ہے کہ وہ درست ہو  یا کسی حد تک درست ہو، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ سرے سے درست ہی نہ ہو ۔

مصنفِ کتاب، میری معلومات کی حد تک اس کتاب میں احاطہ کئے گئے دو میں سے کم از کم ایک موضوع میں کوئی سند نہیں رکھتے، ذکر تو انہوں نے ایک کا بھی نہیں کیا لیکن یہ فرض کرتے ہوئے (جو کہ غلط بھی ہوسکتا ہے)، کہ ایک اسلامی مدرسے میں انہوں نے چھ سال میں نہ صرف علومِ اسلامیہ پہ عبور حاصل کیا بلکہ  وہ علمِ ادیان میں  غیر متنازعہ سند بھی رکھتے ہیں۔ البتہ سائنس میں انکی حیثیت غیر مسلمہ یعنی غیر مستند ہے۔  چنانچہ ایک غیر مستند عالم کی حیثیت سے یہ بھی ممکن ہے کہ مصنف سرے سے غلط ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ درست  یا کسی حد تک درست ہو۔ ہمارے پاس یہ جانچنے کے لئے  ایک اوزار موجود ہے، اور وہ ہے منطق اور تجزیہ۔

آئیے اس اوزار کی مدد سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انکی تصنیف میں کتنا وزن ہے۔

مولانا وحید الدین صاحب نے اپنی کتاب "مذہب اور سائنس” میں فکری نوعیت کے بعض مسائل سے کلام کیا ہے تاکہ اسلام کے اعتقادی نظام کا دفاع کیا جاسکے۔ دیباچے میں وہ فرماتے ہیں کہ مذہبی تعلیمات  مجرد تعلیمات (سرسری تعلیمات یا خلاصہ) نہیں ہیں بلکہ کائنات کی ابدی صداقتیں ہیں اور ہماری نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان صداقتوں سے ہم آہنگ کریں، نہ تو ہم انکا انکار کر سکتے ہیں نہ غیر جانبدار ہو سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ دوسرا رویہ ہم کو ابدی تباہی سے ہمکنار کرے گا۔ یوں وہ دیباچے ہی میں اپنے قارئین کو ایک منطقی مغالطے میں گھیرنے کی (کافی حد تک کامیاب) کوشش کرتے ہیں کہ جسکا نام ہے "Appeal to the Consequences of a Belief” ۔ اس مغالطے کی ایک شکل جو مصنفِ کتاب نے استعمال کی ہے وہ عام فہم الفاظ میں کچھ یوں ہوگی۔ "یہ بات حقیقت ہے، کیونکہ اگر لوگوں نے اس بات کو حقیقت نہ جانا تو اسکے منفی نتائج نکلیں گے”۔

انہی کی اس اپروچ کو اپناتے ہوئے ہم یہ دعویٰ داغتے ہیں کہ ایک نیکی کا اور ایک بدی کا خدا ہے، نیکی کا خدا کمزور ہے جبکہ بدی کا خدا طاقتور کیونکہ اکثر وہی غالب آتا ہے اور یہ ایک ابدی صداقت ہے، دنیا اسی لئے قائم ہے کہ بدی موجود ہے اگر آج بدی ختم ہو جائے تو دنیا کا فنا ہونا اٹل ہے، ہمارے پاس بدی کے خدا کی پرستش اور ہر سال اسے ایک خوبصورت کنواری  لڑکی کی بھینٹ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ہم یا تو اسکے پیروکار ہیں یا پھر اسکے مخالف اور نیکی کے کمزور خدا کے پیروکار۔ بدی کے خدا کی پرستش نہ کی گئی تو اسکے بھیانک نتائج نکلیں گے اور ازلی تباہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔

آگے چل کے مصنف کہتے ہیں کہ مذہب کی تعلیمات کو قطعی صورت میں جاننے کا ذریعہ وحی ہے،  خدا کے پیغمبروں نے ان تعلیمات کو براہِ راست خالقِ کائنات سے لیکر انسانوں تک پہنچایا  اور شکوک کے ازالے کے لئے  کہا کہ "کیا تم اس خدا پر شک کرتے ہو جس نے ذمین و آسمان کو پیدا کیا”۔ یعنی فطرت کو خدا کی دلیل قرار دیا۔

دوسرے لفظوں میں مصنف کہہ رہے ہیں کہ مذہبی تعلیمات کی قطعیت سے جانکاری ممکن نہیں جب تک کہ براہِ راست خالقِ کائنات سے رابطہ نہ ہو۔ جبکہ راہِ راست رابطہ صرف انبیاء ہی کے لئے مختص ہے تو ایک عام انسان کے لئے سوائے اسکے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ان بزعمِ خود انبیاء کی "بتائی” ہوئی پر ایمان لے آئے۔ تو  بات یہاں پھر ایمان والی ہی آجاتی ہے، کہ قطعی جانکاری ایک عام انسان کے لئے ممکن نہیں، وہ صرف انبیاء ہی کے پاس ہے۔ تم بس ایمان لے آؤ ان کے کہے پر۔

عامیوں کے لئے فطرت ہی خدا کی دلیل ہے، کہ دیکھو پرندہ اڑ رہا ہے، دیکھو سورج نکلتا اور غروب ہوتا ہے، دیکھو  ذمین کیسے اپنے مدار میں چکر کاٹتی ہے، دیکھا کیسے دن رات ہوتے ہیں،  دیکھو کون بارش برساتا ہے، کون ہے "خدا” کے سوا کون یہ کر سکتا ہے۔ بہت عمدہ۔ مزید کچھ کہنے کی احتیاج رہ جاتی ہے اس دلیل پر؟

اب بکر کہتا ہے کہ ایک نیکی کا خدا ہے اور ایک بدی کا۔ نیکی کا خدا اچھی والی بارش برساتا ہے جبکہ بدی والا خدا زلزلے اور طوفانی بارشیں برساتا ہے۔ اچھا خدا کبوتر اور فاختائیں بناتا ہے اور بدی کا خدا گدھ اور سانپ جیسی مخلوقات بناتا ہے۔ دیکھو سامنے کی بات ہے کہ بنگال میں ایک ٹین کی بنی مسجد پر بجلی گری اور کتنے سارے نمازی ماہِ رمضان میں، نماز کے دوران کوئلہ بن گئے، کون ہے سوائے بدی کے خدا کے جو ایسی طاقت کا مظاہرہ کر سکے؟ تو لازم ہے کہ ہم اسی کی اطاعت کریں، کہ بدی کا خدا ہی ہمیں نقصان دے سکتا ہے اور نیکی کے خدا پر زبردست ہے، تو ہم کیوں نہ اسکو راضی کر کے نقصان سے بچ جائیں۔

جی مولانا صاحب، آئیں اور ثابت کریں غلط اس فطری مظہر سے نکالی گئی دلیل کو۔

آگے فرماتے ہیں کہ جدید مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مذہب انسان کا فطری جذبہ ہے، کسی طرح اسکو انسان سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ بس اتنا  کہہ کر اس سے ایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش غلو کے ضمن میں آئے گی کیونکہ یہی "جدید” مطالعہ کہ جسکی وہ مثال دے رہے ہیں آگے جا کے کہتا ہے کہ یہ مطالعہ قطعی طور پر خدا کا  وجود یا غیر وجود ثابت  نہیں کرتا، نہ ہی حیات بعد الممات کا ثبوت دیتا ہے۔ صرف اس بنیاد پر کہ ایک خاص طرز پر سوچنا نسبتا آسان ہے،  اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ آسان طرزِ سوچ درست بھی ہے۔

جیسا کہ کہتے ہیں کہ  بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں اور انکی فکر بہت فطری ہوتی ہے۔ اب اگر تقریبا ہر بچہ اپنے باپ کو سوپر مین اور مافوق الفطرت قوتوں کا مالک سمجھتا ہے  تو یہ  اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ ایسا ہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اسکا باپ بھی اربوں دیگر افراد کی طرح ایک عام انسان ہے۔

اسی مطالعے کے مطابق یہ دلیل کسی خالق کے انکار کے حامی بھی اسی صداقت سے استعمال کر سکتے ہیں کہ جس طرح کسی خالق کے اقرار کے حامی۔ چنانچہ مصنف نے اپنے ذاتی خیالات و عقائد کے رنگ میں اس مطالعے کے نتائج کو رنگ ڈالا۔ اور اس جانبداری کی بھی وجہ ہے۔ وہ یہ کہ دینی مدرسے کا کورس کرنے کے بعد جب مصنف کے سامنے مذہب کے حوالے سے سوال رکھے جاتے تھے تو وہ ششدر رہ جاتے تھے کہ انکے جواب تو انکو بتائے ہی نہیں گئے، چنانچہ انہوں نے سائنسی جنرلز اور دیگر مشہورِ زمانہ لوگوں کی تصنیفات کے مطالعے کئے اور  اسمیں سے اپنے حق میں دلائل تلاش کرنا شروع کئے۔ یعنی کہ  ریسرچ کے شروع ہی میں بجائے غیر جانبداری اختیار کرنے کے،  انہوں نے دین و مذہب کو حق گردانتے ہوئے اسکے دفاع میں دلائل اکھٹے  کرنا شروع کئے جو کہ کسی طور سے درست طریقہ نہیں چنانچہ  کچھ اچنبھے کی بات نہیں کہ انکے اخذ کردہ نتائج میں جابجا مختلف مغالطے، اور آدھی سچائیاں، اور دوسروں کی بات کی غلط اور بے موقع تشریحات موجود ہیں۔

یہ تو تھا اس کتاب کے دیباچے کا تجزیہ۔ نتائج مرتب کرنا ہم قاری پہ چھوڑتے ہیں۔ باقی کتاب پہ گفتگو  اسی عنوان کے تحت جاری رکھیں گے۔ تب تک کے لئے اجازت (حصہ دوم) ۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top