ہمارے آس پاس بے شمار مذاہب موجود ہیں اور ہر مذہب حقانیت کا دعویدار ہے۔ انسان جس مذہب کے ماننے والوں میں پیدا ہوتا ہے مرتے دم تک اسی مذہب پہ قائم رہتا ہے۔ شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے پیدائشی مذہب سے دستبردار ہو کر کوئی اور مذہب اپنا لے۔
ایسے میں ہمارے پاس کیا گارنٹی ہے کہ ہم جس مذہب پر کاربند ہیں وہی حقیقت تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ ہم نے اپنے پیدائشی مذہب کو کب پرکھا ہے یا اس کا دوسرے مذاہب کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا ہے؟
بہت سے لوگ اس وہم میں مبتلا ہوں گے کہ وہ اپنے مذہب کے بارے میں اچھی طرح سے جانتے ہیں اور اس کی حقانیت سے آگاہ ہیں، لیکن یقین کیجئے ایسا نہیں ہے۔ یہ بچپن سے کی گئی برین واشنگ کا اثر ہے کہ ہم رٹی رٹائی باتیں دہرا دیتے ہیں، ان پہ ایک بھی لمحہ کے لئے سوچے بغیر۔
ابھی گزشتہ چند عشروں کے دوران کینیڈا کے ایک شخص (John de Ruiter) نے بنی نوعِ انسان کے نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے پیروکاروں کے نزدیک اس کا درجہ یسوع مسیح سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے دعوے کی جانچ کیسے کی جائے۔ کس بنیاد پہ ہم اس کے دعوے کو جھٹلائیں یا اس کی تصدیق کریں گے۔ کیا اس کا خود کا دعویٰ اور اس کے جانثار پیروکاروں کی تصدیق ہمارے لئے کافی ہونا چاہئے؟ کیا ہمارا حق نہیں ہے کہ اس کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سے تصدیق وتسلی کرلیں کہ یہ شخص واقعی ہمارا نجات دہندہ ہے اور کسی آسمانی مقتدر ہستی نے اسے ہمارے لئے بھیجا ہے اور اس کی پیروی میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ ہم کیوں اس کے اپنے کہے گئے الفاظ یا اس کے (ممکنہ عقیدت میں اندھے) پیروکاروں کی بات پہ ایمان لے آئیں۔ یا ہم سرے سے اسکی بات سنے بغیر اسکا انکار کر دیں؟ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ واقعی وہ پیغامبر ہو یا "ریفارمر” ہو اور اللہ نے بنی نوعِ انسان پر رحم کھا کر اسکی صورت میں ایک اور موقع عنایت کیا ہو اور ہم بغیر اسکی بات سنے انکار کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھیں۔
ہم ایسا کیوں نہ کر یں کہ اسکے دعوے کو پرکھ لیں اور جانچیں کہ اسمیں کتنی صداقت ہے؟ اور جب ایسا کر چکیں تو بالکل اسی میعار پر کہ جس پر اسکو پرکھا تھا، اپنے موجودہ مذہب کے دعوائے صداقت کو بھی پرکھیں۔
اپنی بیوی اور تین بچوں کی موجودگی میں اس نے اپنی دو خوبصورت پیروکار بہنوں قطرینہ اور بینیتا کے ساتھ جنسی روابط قائم کئے رکھے اور ان لڑکیوں کے والدین یہ جان کر خوشی سے پھولے نہیں سمائے کہ "حق” نے ان کی بیٹیوں کو ہمبستری کا شرف بخشا ہے۔اس کی اپنی بیوی کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے اس کے خدائی دعوے کی تردید کی اور علیحدگی اختیار کر لی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بیشتر پیروکار اپنے مسیح کی اس روش کے بارے میں جانتے ہیں پر تنقیدی انداز میں سوچنا ہی گوارا نہیں کرتے۔ کیونکہ جب ہم کسی کو خدا، پیغمبر، مسیح یا برتر تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر اس کے گناہ، کمزوریاں یا غلطیاں ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔
جون نامی یہ نجات دہندہ کہتا ہے کہ اس میں اس کی خواہشِ نفسانی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور یہ کہ اس کا تعلق ان لڑکیوں کے ساتھ روحانیت پر مشتمل ہے۔ میرے خیال میں عقیدت کی عینک اتارنے پر یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اس "نبی الانبیاء” نے کس چیز کو روحانیت کا نام دے رکھا ہے۔
شروع میں تو اس نے اس تعلق کا سرے سے ہی انکار کر دیا لیکن جب معاملہ سامنے آگیا تو اس نے جو تاویل دی وہ قابلِ داد ہے۔ اس نے کہا کہ پہلے جب میں نے اس تعلق کا انکار کیا تو وہ "شخصی سطح” پر انکار تھا، اور "شخصی سطح ” پر میرا اب بھی کوئی افئیر نہیں ہے۔ نہ ہی میں شہوت پرست ہوں۔
اس کے پیروکاروں میں ایک مشہور ماہرِ نفسیات بھی ہے کہ جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے تیس سالہ تجربے کی رو سے جان ڈی ریوٹر مکمل طور پر ذہنی صحت مند شخصیت ہے۔ اور مزید کہ:
“John’s responses have cleared questions in my mind that lasted decades… Looking back at it, after having read about or been to so many spiritual teachers and teachings through-out the years, and the questions that lingered in my mind still yet unanswered, the fact that John has answered them with such fullness and clarity, fills my Being with so much Gratitude and Love…”
ایسے پڑھے لکھے اور "باشعور” لوگ کیونکر اس طرح کے فراڈیوں کے ہاتھ بے وقوف بن جاتے ہیں؟ شاید اس لئے کہ لوگ راہنمائی اور ہدایت کی تلاش میں ہیں؟
ہم انسان سہل پسند واقع ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا ہو جو ہماری راہنمائی کرے اور بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے تاکہ ہمیں خود فیصلے کرنے کی کوفت نہ اٹھانی پڑے۔ ہم "نجات” پانے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ ہم جنوں فرشتوں پہ یقین رکھتے ہیں، روحوں کو مانتے ہیں، بھوت پریت، آسیب شیاطین، جادو تعویذ سے ڈرتے ہیں۔ ہم سادھوؤں فقیروں، ملا پنڈت،پیروں پیغمبروں کے پیچھے چلتے ہیں تاکہ ہم سوچنے سمجھنے اور ضمیر کے مطابق زندگی گزارنے کی ذمہ داری سے آزاد ہو جائیں۔
جب ایسے لوگوں کا وجود ہوگا کہ جو پیروکار بننا چاہتے ہیں تو فطری طور پر ایسے لوگ اٹھیں گے جو راہنمائی کا دعویٰ کریں گے۔ جب لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح سوچنا شروع کریں گے تو چرواہے کے بہروپ میں بھیڑیے خود بخود پیدا ہوجائیں گے۔ مذہب ایسے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ ایک جعلساز اٹھتا ہے اور گروہ بناتا ہے جو اس کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے، جب یہ جعلساز مرتا ہے تو احمقوں کا یہ ٹولہ مذہب کا درجہ اختیار کر لیتا ہے اور اس جعلساز کو پیغمبر، سینٹ یا اوتار وغیرہ کے عہدے پہ فائز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کے جانثار عقیدت مند اس سے پُر اسرار حکایتیں منسوب کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے معجزے اور خرق عادات گھڑ لیتے ہیں اور اس کو نبوت کے ساتویں آسمان پر بٹھا لیتے ہیں، حتیٰ کہ خدا تک بنا لیتے ہیں۔
اس کا ایک واضح ثبوت مسلمانوں کی احادیث ہیں۔ بے شمار احادیث میں نبی کریم ﷺ سے معجزات منسوب کیے گئے ہیں حالانکہ خود قرآن جو مسلمانوں کے نزدیک اللہ کی کتاب ہے اور تب سے اب تک محفوظ شکل میں ہے، معجزات کا انکار کرتا ہے۔
وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿سورۃ الاسراء آیت59﴾
ترجمہ: ❞اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لئے موقوف کر دیں کہ پہلے لوگوں نے اسکی تکذیب کی تھی۔ اور ہم نے ثمود کو اونٹنی نبوت صالح کی کھلی نشانی دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ اور ہم جو نشانیاں بھیجا کرتے ہیں تو ڈرانے کو۔❝
یہ قصے کہانیاں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں اور یہی ان کے اثبات کی دلیل بن جاتی ہے۔
آج کے دور میں کوئی مسلمان بھی آزادانہ جنسی میل جول کی تائید نہیں کرے گا لیکن یہی مسلمان کچھ صورتوں میں نہ صرف ان کو قبول کرتا ہے بلکہ اس کے لئے ہر ممکن دلائل بھی پیش کرتا ہے۔
جون کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ "سچائی” تک پہنچ گیا ہے اور دوسروں کی بھی راہنمائی کر سکتا ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ حقیقت کو کیسے جانا جائے؟ کیا کوئی ایسا مذہب ہے جو ہمیں حقیقت سے روشناس کرا دے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ "حقیقت ” ہے کیا اور اس سے کیا مراد ہے؟
حقیقت تو ایک ہی ہوتی ہے جس میں تغیر نہیں ہوتا، جو بدلتی نہیں اور جو ہمیشہ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اگر ہمارا یقین خدا پر ہے تو پھر ہمارا اس بات پر بھی یقین ہے کہ خدا حقیقتِ کاملہ ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم حقیقتِ کاملہ کا ادراک کر سکتے ہیں؟ کیا قطرے میں سمندر سمویا جا سکتا ہے؟ کیا ایک محدود، لامحدود کا احاطہ کر سکتا ہے؟
میں اپنی محدودیت کا ادراک رکھتا ہوں، مجھے اپنی کم علمی کا بھی پتہ ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میں نہیں جانتا۔ عین ممکن ہے کہ حقیقت ایک ہو اور لامحدود بھی ہو، لیکن کیا میں اس کا احاطہ کر سکتا ہوں؟ نہیں!
لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں تلاش ہی ترک کر دوں۔ سمجھنے کے عمل میں مجھے سوال بھی اٹھانے پڑیں گے، اور تعصب سے بالاتر ہو کر کھلے ذہن سے تلاش کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی مجھے یہ بھی واضح طور پر سمجھ لینا ہوگا کہ حقیقت لامحدود ہے جبکہ میں محدود ہوں، چنانچہ میں کبھی بھی ساری حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتا۔ کیونکہ محدود لامحدود کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔
اس وسیع النظری تک پہنچنے کے لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ شخصی عقائد ونظریات پر اس کے ماحول اور تعلیم کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ ہمارے موجودہ عقائد ہمارے گزشتہ تجربات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہر روز ہم نیا کچھ سیکھتے ہیں چنانچہ ہمارے شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے شعور میں اضافے کے ساتھ ہمارے عقائد بھی تبدیل ہوتے ہیں اور عقائد کی یہ تبدیلی بہت آہستگی کے ساتھ لاشعوری طور پر ہوتی ہے۔
یہ جان لینے کے بعد کہ عقائد میں بھی تبدیلی ہر لمحہ واقعہ ہوتی رہتی ہے، مجھے اپنے عقائد سے چمٹے رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں جانتا ہوں کہ انہوں نے بدلنا ہے، تو میں کیوں دوسروں پہ ان کو مسلط کروں۔ میں کیوں ان کی "حقیقت” تک راہنمائی کروں جبکہ حقیقت تک جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، یہ بغیر راستے کے ہے۔
حقیقتِ کاملہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو "دیکھا” جا سکے۔ کیونکہ یہ کوئی "چیز” نہیں ہے۔
حقیقتِ کاملہ کوئی ایسی شئے نہیں کہ جس کو مکمل طور پر "سمجھا” جا سکے۔ کیونکہ یہ لامحدود ہے۔
حقیقتِ کاملہ منزل نہیں ہے اور کوئی ہماری راہنمائی اس تک نہیں کر سکتا کیونکہ حقیقت کوئی "جگہ” نہیں ہے کہ جہاں تک کا سفر طے کیا جائے۔
ہم تو بس اس کو اپنی محدودیت کی حد تک سمجھنے کی کوشش ہی کر سکتے ہیں اور جتنی کوشش کریں گے اتنا ہی حقیقت کے نزدیک تر ہوتے جائیں گے۔۔ ۔ لیکن ہم حقیتِ کاملہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتے ۔
حقیقت آشنائی کا طریقہ سائنسی طریقے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ تھیوری پیش کرتے ہیں لیکن اس پر ایمان نہیں لاتے۔ اس کو بھی مسلسل تشکیک وتجربات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ جب وہ تھیوری (اگر) غلط ثابت ہو جاتی ہے تو انہیں اس تھیوری کو رد کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا۔
گیلیلو نے اس وقت کے عمومی کائناتی نظرئیے پہ شک کیا اور مزید تحقیق کی، نتیجے کے طور پر اس نے جانا کہ حقیقت تو موجودہ عقائد سے بالکل مختلف ہے، اگرچہ اس وقت کے بہت سے علماء و فضلاء نے اس سے اختلاف کیا لیکن آج ہم ان علماء کے نام تک نہیں جانتے جبکہ گیلیلو کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ ڈارون ایک دوسری مثال ہے، وہ بھی مذہبی شخص تھا، لیکن اس نے بائبل پہ سوال اٹھائے اور بائبل میں پیش کی گئی "پیدائش” کی تھیوری پہ شک کیا۔ آج اس کی تھیوری سائنس کے درجے پر ہے اور ہر آنے والا دن اس پر اثبات کی مہر لگارہا ہے۔
جب ہم شک کرتے ہیں، سوال کرتے ہیں ہم نئی چیزیں سیکھتے ہیں ۔ اگرچہ ہم حقیقتِ کاملہ کو نہیں پا سکتے (کیونکہ یہ لامحدود ہے اور ہم محدود)، لیکن ہم اس کے نزدیک تر ہو سکتے ہیں۔ حقیقت ِ کاملہ کا احاطہ ناممکن ہے، ذہن اس کا احاطہ نہیں کر سکتا، کتاب بھی نہیں کر سکتی۔ ۔ ۔ کوئی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ یہ چند (سو/ہزار) صفحوں کی کتاب حقیقتِ کاملہ کا احاطہ کرتی ہے؟ چاہے وہ قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ کیا حقیقت محدود ہے کہ وہ اس کتاب میں سما گئی؟
جب ہم کوئی نئی بات سیکھتے ہیں تو ہم اپنے پرانے نظریات کو رد نہیں کر دیتے، صرف ہمارا ان کو سمجھنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ مثلا ایک فرد قادرِ مطلق کے تصور کا انکار نہیں کرتا، بالکل گیلیلو کے مانند، اس نے زمین کو رد نہیں کیا بلکہ "لوگوں کے زمین کو سمجھنے کو” رد کیا تھا۔ وہ خدا کا انکار نہیں کر رہا، بلکہ لوگوں کے اس کو سمجھنے کا انکار کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر وہ خدا کا انکار نہیں کرتا بلکہ لوگوں کے اس کو سمجھنے کا انکار کرتا ہے کہ "ایک ہستی کہیں چھپی بیٹھی ہے اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھ بے تکے اور غیر منطقی پیغام بھیجتی پھر رہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ ہماری تخلیق کا مقصد اس کی عبادت (اور پیغمبر کی بلا سوچے سمجھے پیروی) ہے اور ایسا نہ کر نے کی صورت میں ابدی سزا ہماری منتظر ہے۔ ۔ ۔ ”
کیا آپ کو اس میں کسی انسانی چالبازی کی بو نہیں آتی؟ قرآن، بائبل اور دیگر "آسمانی” کتابوں کی ناقابلِ عمل اور عقل سے متصادم تعلیمات، ان مذاہب کے بانیوں کے مشکوک اور قابلِ اعتراض طرزِ زندگی اور پھر ان کے پیروکاروں کی جاہلانہ تاویلیں بالکل اسی طرح جس طرح جان دی ریوٹر کا اپنی خوبصورت پیروکاروں سے جسمانی تعلق کی تاویل۔
جان دی ریوٹر کے ایک پیروکار نے بھی کیا تاویل دی ہے اس کے اس بے شرمی والے فعل کی، ملاحظہ کیجئے:
"دوسرے پیغمبر بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتے تھے۔ عین ممکن ہے کہ جنسی عمل ان لوگوں کے لئے کچھ اور معنیٰ رکھتا ہو جو اس عالم مادی سے ذہنی تعلق توڑ چکے ہوں۔ جب آپ حقیقت کو پا لیتے ہیں تو اس قسم کی خواہشات آپ پہ غلبہ نہیں پا سکتیں بلکہ یہ محض نپے تلے مادی وظیفے بن جاتے ہیں جن کا شہوت رانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ جیسے کھانا یا سونا، جو کہ محض ایک جسمانی فعل اور ضرورت ہے، کہ جس میں کوئی ہوس پنہاں نہیں۔ ۔ ۔ آپ جان دی ریوٹر کو پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس نے کم و بیش وہی کچھ کہا ہے جو دیگر انبیاء کہہ گئے ہیں۔ ۔ ۔
– – –
ہو سکتا ہے اس کے ان پیروکاروں کو ایمان کے لئے اپنی ذات سے باہر دوسری ہستی کی ضرورت ہو اور جب تک ان کو اس کی ضرورت ہو وہ ان کو خدا کی طرف سے مہیا کی جا رہی ہو تا آنکہ وہ حقیقت کو اپنے اندر تلاش کر لیں"۔
ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح اندھی عقیدت عقل کو برباد کرتی ہے۔ کارل مارکس نے خوب کہا تھا کہ "مذہب قوموں کی افیون ہے” کس طرح ایک عقیدت مند چیلا اپنے گرو کے گھناونے فعل کو عقلیا رہا ہے اور کس طرح اس کو روحانی رنگ میں پیش کر رہا ہے۔ اس کو یہ نظر نہیں آرہا کہ اس کا گرو اپنی حیوانی خواہشات کو قابو نہیں کر پا رہا اور اپنے پیروکاروں کے اعتماد (اور بیوقوفی) کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ عقیدت مند اس پہ انگلی اٹھانا تو کجا بلکہ اس کے لئے دلیل پیش کر رہا ہے (شاید خود کو مطمئن کرنے کے لیے؟)۔ ۔ ۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اپنی عقل کو ایمان کے ہاتھ گروی رکھ چکا ہے۔
اس کے عقیدت مند دعوے کرتے ہیں کہ ڈی ریوٹر مافوق الفطرت قوتوں کا مالک ہے، انہوں نے اس کے چہرے کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ مقامات پہ پایا جاتا ہے وہ ان کے خواب میں آتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بالکل اسی طرح مسلمان بھی فکری تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ بھی کثیر الازدواجی کی دلیلیں دیتے ہیں۔ وہ بھی کم عمر نابالغ بچیوں کے نکاح کو عین دینِ فطرت گردانتے ہیں کیونکہ یہ ان کے پیغمبر کی سنت ہے۔ دشمن کو رات کے اندھیرے میں گھات لگا کے بغیر کسی پیشگی وارننگ کے قتل کرنا اور ان کے بچوں کو غلام اور بیویوں کو جنسی تسکین کے سامان کے طور پر رکھ لینے اور انکی خریدو فروخت میں ان کو کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ صرف عقائد کی بنیاد پر کسی کو حقارت سے دیکھنا ان کے نزدیک عین ایمان بن جاتا ہے۔ جس حقیقت سے وہ خود واقف نہیں ہوتے اس کے لئے جان تک لے لینا (یا دے دینا) ان کے لئے کارِ ثواب بن جاتا ہے۔
کیا ہمیں اپنا تجزیہ نہیں کرنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی جان دی ریوٹر کے چیلے کی طرح برین واش کر دئیے گئے ہوں اور صحیح غلط کی تمیز سے عاری ہو گئے ہوں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیں دوسرے مذاہب کے عقائد تو مضحکہ خیر معلوم ہوتے ہیں لیکن خود اپنے عقائد میں کوئی عجیب چیز نظر نہیں آتی۔
جس بھی مذہب کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھا جائے وہ کھوٹا نکلتا ہے۔
کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے "حقیقت” پا لی ہے یا یہ کہ وہ "حقیقت” تک راہنمائی کر سکتا ہے۔ صرف احمق یا پھر چالباز لوگ ہی ایسا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب حقیقت تک رسائی کا ذریعہ نہیں ہے کیونکہ حقیقت کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں کہ جس تک پہنچا جائے۔
میرا خیال ہے کہ اب انسان کا عقلی ارتقاء اس سطح تک پہنچ چکا ہے کہ وہ اپنی راہنمائی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنا بند کر دے کیونکہ جب تک بے وقوف بننے والے موجود رہیں گے بے وقوف بنانے والے آتے رہیں گے۔ جب تک پیروکاری کا جذبہ باقی رہے گا، مکار لوگ ان کو گمراہ کرتے رہیں گے۔
جو عقیدہ بھی پیش کیا جائے اس کو پرکھیں، اس کا عقلی جائزہ لیں۔ مذہب کیوں شک کی حوصلہ شکنی کرتا ہے؟ کیونکہ مذہب گھڑنے والے جانتے ہیں کہ یہی وہ اوزار ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتا ہے۔ جب آپ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ایمان شک سے بالاتر ہے تو آپ اس پہ شبہ نہیں کرتے ۔ جب آپ شبہ نہیں کرتے تو آپ تلاش، تحقیق، جستجو نہیں کرتے اور جب آپ کھوج نہیں لگاتے تو آپ بھٹک جاتے ہیں۔ زندگی کا معنی تلاش کرنا ہے تو ایک مذہب سے دوسرے مذہب اور ایک راہنما سے دوسرے راہنما تک بھٹکنا بے کار ثابت ہوگا۔ اس کے بجائے انسانیت میں تلاش کیجئے، خدمت میں محبت میں۔
مرکزی خیال "کونسے مذہب کا انتخاب کیا جائے”
بشکریہ http://alisina.org
"زندگی کا معنی تلاش کرنا ہے تو ایک مذہب سے دوسرے مذہب اور ایک راہنما سے دوسرے راہنما تک بھٹکنا بے کار ثابت ہوگا۔ اس کے بجائے انسانیت میں تلاش کیجئے، خدمت میں محبت میں۔”
بلاشبہ اس سے خوبصورت پیغام ہو ہی نہیں سکتا، اگر نامعلوم خدا کے آگے جھکنےکی بجائے ہم انسانیت کو مذہب بنا لیں تو ہمیں مرنے کے بعد جنت پانے کی ہوس بھی ختم ہو جائے گی۔۔ بہت عمدہ تحریر!!
شکریہ فرحان محمود صاحب
میں آپ کے بلاگ کا نیا قاری ہوں اس لیے موضوع پر کوئی تبصرہ کر کے بحث کے دروازے نہیں کھولوں گا
ہاں تحریر لکھنے کا انداز بلاشبہ زبردست اور تحقیقی ذہن والوں کے لیے اہم ہے
بلاگ پہ خوش آمدید ناصر صاحب۔ امید ہے آتے جاتے رہیں گے۔