Close

عبادت یا ریکارڈر!

کیا خدا نامی یہ ہستی ایک ہی کلام کے بار بار تکرار سے بور نہیں ہوتی؟!

دو لوگوں کے درمیان کسی بھی قسم کا مکالمہ دونوں کی ثقافتی سطح اور اندازِ فکر کی نمائندگی کرے گا مگر جب ہم عبادت کی بات کرتے ہیں جسے ممکنہ طور پر انسان اور خدا نامی اس ہستی کے درمیان مکالمے کی سی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تو یہ بھی اس امر کی عکاس ہے کہ یہ انسان اپنے خدا کو کس طرح دیکھتا ہے.

جب انسان روزانہ اپنے خدا کے حضور پیش ہوکر ایک ہی طریقے سے وہی کلام بار بار دہراتا ہے یہ سوچے بغیر کہ دوسری طرف کی وہ ہستی ایک ہی بات کی بار بار تکرار سے بور بھی ہوتی ہے یا نہیں تو اس طرح وہ گویا یہ یقین دلا رہا ہوتا ہے کہ اس کا خدا محض ایک مشین کی مانند ہے جو روزانہ مخصوص کلام کی تکرار سے ہی چارج ہوتا اور ردِ عمل ظاہر کرتا ہے کیونکہ ایک محبت کرنے والے حقیقی خدا کی حیثیت سے اسے ممکنہ طور پر سننا، بولنا، سمجھنا اور مکالمہ کرنا چاہیے چنانچہ عبادت مکالمے کا ایک ایسا ذریعہ ہونا چاہیے جس میں فریقین ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور ان کے نقطہ ہائے نظر مزید قریب ہوں، اس صورت میں انسان کے خدا نامی اس ہستی کے ساتھ تعلقات درست نہج پر جاتے قرار دیے جاسکتے ہیں.

عبادت اگر انسان کو اس کے خدا کی سطح تک نہ لے جائے تو وہ یقیناً خدا کو اس کی سطح تک لے آئے گی، اور اگر یہ ان میں قربت پیدا نہ کر سکے تو پھر یہ محض کلام کی باطل تکرار ہے جو انسان کو ایک ٹیپ ریکارڈر میں بدل دے گی جو ایک ہی بات بار بار دہرائے چلا جاتا ہے.. ذرا سوچیے اس کی خدا کی کیا حالت ہوتی ہوگی جب وہ یہ ریکارڈ روزانہ کروڑہا بار کروڑہا لوگوں سے سنتا ہوگا.. کیا اسے دردِ شقیقہ نہیں ہوجاتا ہوگا؟

زندہ خدا وہ ہے جس کے ماننے والوں کی عبادت میں زندگی اور تازگی جھلکتی ہے، وہ خدا مردہ ہے جس کے ماننے والوں کی عبادت اسے اپنی ہی نظروں میں گرا کر رکھ دے.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top