Close

فان لم تستیقظوا ولن تستیقظوا

اپنی تحریروں کے متعلق مجھے اکثر وبیشتر ای میلز موصول ہوتی رہتی ہیں، یہ ای میلز کچھ دوست احباب کی طرف سے ہوتی ہیں اور کچھ نا معلوم حضرات کی طرف سے، بعض ای میلز سنجیدہ ہوتی ہیں اور میری تحریروں میں اٹھائی گئی کچھ باتوں کی وضاحت کی طلبگار ہوتی ہیں، ایسی ای میلز کا میں بھی سنجیدگی سے جواب دیتا ہوں اور حتی المقدور اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں، بعض ای میلز بڑی ہلکی پھلکی سی ہوتی ہیں جیسے وہ صاحب جنہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے حضور میری ہدایت کے لیے دعاء کریں گے، جواب میں، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی دعاء میں فلسطین اور عراق کی یہودیوں اور امریکیوں سے جلد آزادی کی دعاء بھی شامل کر لیں، اسی طرح ایک اور صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے مسجد جاکر توبہ کر لینی چاہیے… کچھ ای میلز کی فکری بالیدگی پر شدید افسوس ہوتا ہے کہ ان کی جہالت بے وقوفی کی حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے، تاہم بیشتر ای میلز عتابی ہوتی ہیں اور یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر میں صرف اسلامی فکر پر ہی کیوں تنقید کرتا ہوں؟ یورپ میں رہنے والے بعض حضرات کا فرمان ہے کہ ایسی تحریروں سے میں یہودیوں اور امریکیوں کو خوش کرنا چاہتا ہوں جبکہ بعض حضرات مجھ پر یہودی مشنری ہونے کا مضحکہ خیز الزام لگاتے ہیں!! ہاں جان کی دھمکیاں دینے والے اس کے علاوہ ہیں.

سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میں ہر اس فکر پر تنقید کرتا ہوں جو میرے معاشرے اور قوم پر منفی اثرات مرتب کرے اور ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے، اگرچہ میں نے عیسائیت پر بھی تنقید کی ہے تاہم اسلامی فکر پر بالخصوص میں تنقید اس لیے کرتا ہوں کیونکہ میں مسلمان ہوں اور میرا اس فکر سے براہ راست تعلق ہے، یہ فکر میری قوم کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، یہ فکر ریورس آرڈر میں چل رہی ہے جو دوسرے کا انکار کرتی اور عقل اور آزادیء فکر کو پتھراتی ہے اور میرے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر اس پر فکری دہشت گردی مسلط کرتی ہے جو بعض اوقات جسمانی دہشت گردی کی حد تک پہنچ جاتی ہے.

اس میں شک نہیں کہ اسلامی فکر کی طرح عیسائی فکر کو بھی تجدید کی اشد ضرورت ہے، فکر جس نوعیت کی بھی ہو اسے تجدید کی ضرورت رہتی ہے ورنہ وہ پتھرا جاتی ہے، تاہم عیسائی فکر پر تنقید اور اس کی تجدید عیسائیوں کی ذمہ داری ہے ناکہ ہماری، اگرچہ ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ آج کی عیسائی فکر یورپ کی تجدیدی تحریک کا نتیجہ ہے جس نے اس پر تنقید کے در اس قدر وا کردیے جو بعض اوقات اس کی مقدس کتاب اور اس کے خدائی مصدر تک پر تشکیک تک پہنچ جاتی ہے مگر نا تو ناقد پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے اور نا ہی اسے کسی قسم کی جسمانی سزا دی جاتی ہے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا، عیسائی دین عام طور پر ایک ذاتی مذہب اور عقیدے کی شکل اختیار کر گیا ہے جو نا ہی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے اور نا ہی لوگوں کی روز مرہ زندگی پر، وہ ان کو کوئی خاص عقیدہ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا اور نا ہی ان کے کھانے پینے اور روز مرہ کے رہن سہن میں اسلامی فکر کی طرح مداخلت کرتا ہے، عیسائی مذہبی فکر یہ نہیں کہتی کہ نماز چھوڑنے والا کافر ہے جس کی سزا موت ہے وہ عیسائیوں کو روزہ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا ورنہ وہ ملت سے خارج ہوجائیں گے، وہ انہیں کوئی شرعی لباس پہننے پر مجبور نہیں کرتا اور نا ہی یہ کہتا ہے کہ عورت ناقصِ عقل ودین اور عورہ ہے جسے دوسروں کی نظروں سے بچا کر رکھنا چاہیے، اگرچہ عیسائیت مسلمان کی عیسائی اور عیسائی کی مسلمان سے شادی کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تاہم اگر ایسی کوئی شادی ہوجائے تو وہ اسے باطل بھی قرار نہیں دیتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک عیسائی کو اپنا مذہب بدلنے یا دہریہ ہونے کی پوری پوری آزادی ہے اور اس جرم کی پاداش میں عیسائیت نہ تو اس کا سر تن سے جدا کرنے کا فتوی دیتی ہے، نا اس کی بیوی کی اس سے طلاق کرواتی ہے اور نا ہی اسے اس کی جائیداد سے بے دخل کرتی ہے.

اس کے مقابلے میں اسلامی فکر حرام اور ممنوع کی فکر ہے، یہ مسلمان کی دقیق تر خصوصیات میں دخل اندازی کرتی ہے، یہ فکر ہمارے بیڈ روم تک گھس آتی ہے، یہ ہماری عورتوں، بچوں اور بیٹیوں میں مداخلت کرتی ہے، یہ ہمارے کھانے پینے، پہننے، بیٹھنے، چلنے پھرنے حتی کہ بیت الخلاء میں جانے اور اس سے نکلنے تک میں مداخلت کرتی ہے، یہ ہماری موت میں بھی مداخلت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہمیں اپنے مردے کس طرح دفن کرنے چاہئیں، قبر کی شکل کیا ہونی چاہیے، اس کا مقام کیا ہونا چاہیے اور قبر میں مردے کی سمت کس طرف ہونی چاہیے، یہ فکر مرنے کے بعد بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی اور عذابِ قبر وآخرت کی صورت میں آنمودار ہوتی ہے، یہ فکر کینسر بن چکی ہے جس کا اللہ اور اس کے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایک بشری فکر ہے جس کا اللہ اور ایمان سے دور کا بھی واسطہ نہیں، یہ فکر عقل کی دشمن ہے اور دوسرے کو مٹانے پر یقین رکھتی ہے اس لیے اس پر تنقید کی جانی چاہیے اور اس کی جگہ ایک آزاد فکر کھڑی کی جانی چاہیے جو دین، عقیدے اور آزادیء فکر کے دروازے کھول دے اور مرد وزن کو اس کی قید سے آزاد کرے، میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دین کو ہی مٹا دیا جائے بلکہ مراد یہ ہے کہ عقل اور دین کو دین کے ٹھیکیداروں سے آزاد کیا جائے جنہوں نے عقل اور دین کو اپنا غلام بنا رکھا ہے.

بہرحال ای میلز سے ہٹ کر اگر بلاگستان پر نظر دوڑائی جائے تو بعض حضرات کو ایسی تنقید ہضم نہیں ہوپاتی اور وہ ہر طرح سے ایسی باتوں کو رد کرنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں کہ کہیں لوگ دقیانوسی روایات سے ہٹ کر سوچنا نہ شروع کردیں، کچھ لوگ تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کرتے ہیں اور ذاتیات پر نہیں اترتے جیسے ڈاکٹر جواد خان صاحب، ایسے لوگوں کی عزت کی جانی چاہیے، تاہم کچھ لوگ تہذیب کے وہ تمام ضابطے – جو شاید ان کا مذہب انہیں نہیں سکھاتا – توڑ کر ذاتیات، گالم گلوچ اور استہزاء پر اتر آتے ہیں اور اپنے ” مقدس ” مذہب کا ” غیر مقدس ” گھٹیا زبان استعمال کر کے دفاع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دین کے دفاع کا حق ادا کردیا اور جنت میں ان کی سیٹ پکی ہوگئی !! ایسے ہی عالم لوگوں میں ایک یہ صاحب بھی ہیں جنہوں نے میری اس تحریر کا ایک گھٹیا اور سطحی قسم کا فضول رد لکھ کر اپنی علمیت کا پردہ چاک کیا ہے.. دراصل ان کے رد میں ایسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں جس کے رد کے لیے مجھے قلم اٹھانا پڑے ساری کی ساری تحریر اپنی جہالت کا منہ بولتا ثبوت آپ ہے، تاہم یہ کشٹ میں نے صرف اس لیے کیا تاکہ ایک مخصوص ٹولے کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ حضرت صاحب چت ہوگئے اور ان سے جواب نہ بن پڑا، میں پہلے بھی ڈاکٹر جواد خان صاحب کے اس رد پر یہ رد لکھ چکا ہوں اور آج بھی ان کے رد کا منتظر ہوں مگر جواب ندارد..!!

تو ہمارے عالم فاضل صاحب فرماتے ہیں کہ:

” عجم پر ہی نہیں ابن الراوندی صاحب یہ عربوں پر بھی حجت تھا اور ہے،بلکہ عربوں پر پہلے حجت ہے اور صرف آج کے عربوں پر نہیں ، نزول قرآن کے وقت جزیر ۃ العرب میں بسنے والے عربوں پر بھی حجت تھا جن کا بچہ بچہ شاعری کر رہا تھا اور فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ تھا جن کا آج کے عربوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ نے قرآن کے اس چیلنج کو صرف عجموں کے ساتھ کیوں خاص کیا ؟ ”

موصوف کی خردمندی پر کیا کہیے کہ اتنی سادہ سی بات ان کے پلے نہیں پڑی، عجم پر قرآن کیوں حجت ہو؟ میری دیگر زبانیں جاننے والے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کسی ایک زبان کی کوئی غزل قصیدہ وغیرہ اردو میں ترجمہ کر کے دیکھیں، مثال کے طور پر اگر آپ کو پشتو آتی ہے تو پشتو زبان کی کسی غزل کا اردو میں ترجمہ کردیں پھر دیکھیں کہ وہ غزل جو اپنی زبان پشتو میں بڑی فصیح وبلیغ تھی اس کا اردو میں ترجمہ ہوجانے کے بعد کیا حشر ہوتا ہے، اب یہ ترجمہ کسی ایسے شخص کو پیش کریں جسے صرف اردو آتی ہو اور اسے کہیں کہ یہ بڑا فصیح وبلیغ کلام ہے پھر اس کا رد عمل دیکھیے، آپ کو ساری بات سمجھ آجائے گی جو میرے فاضل دوست کی عقل دانی میں نہ سما سکی.

ایک اور جگہ وہ فرماتے ہیں کہ:

” ٹھیک ہے جی کہ بلیغ باتیں پڑھنے لکنے سے مشروط نہیں ہیں لیکن قرآن متعدد آیات میں لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دیتا ہے جنکو انہوں نے کسی کے سامنے ظاہر نہیں کیا ہوتا مثلا: اذ ہمت طائفتان منکم ان تفشلا ، اور :یقولون فی انفسہم لو لا یعذبنا اللہ بما نقول۔ اور ظاہر ہوجانے کے بعد متعلقہ لوگوں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ انہی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دینے کی وجہ سے بعض لوگوں نے حضور ﷺ کی منشاء کے خلاف کام کر نے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اگر ہم یہ کام کریں گے تو محمد ﷺ کا خدا محمد ﷺ کو سب کچھ بتا دے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف فصاحت و بلاغت کے دم پر لوگوں کے دل میں چھپی ہوئی بات کی اطلاع دینا ممکن ہے ؟ ”

میرا خیال ہے کہ انہیں پہلے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے، سائنس کی کتاب ہے یا علم نجوم کے خرافات کی؟! مذہب کوئی بھی ہو، دعوی وہ ہمیشہ ایسا داغے گا جس کی کبھی جانچ نہ کی جاسکتی ہو!! دلوں کے حال کوئی جان سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں، تو اگر میں آپ سے کہوں کہ:

” یقولون لو فعلنا لیکتشفنہ ”
” وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے (ایسا) کیا تو وہ جان لے گا ”

تو آپ کے پاس یہ جاننے کا کوئی پیمانہ ہے کہ میں دلوں کے حال جانتا ہوں؟ یقیناً نہیں، یہ محض دعوی برائے دعوے کے سوا کچھ نہیں ہے، قرآن نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے جس سے کوئی راز منکشف ہوتا ہو، اس کے برعکس قرآن بلاغی، لغوی اور تکراری غلطیوں سے اس قدر پُر ہے کہ اسے خدائی کلام قرار دینا خود خدا کی توہین ہے، مثلاً اگر میں عربی میں آپ سے کہوں کہ: قال الکاتب انہ ملحد، کیا یہ جملہ آپ کو منطقی لگتا ہے؟ اگر آپ کو واقعی عربی آتی ہے تو آپ کا جواب یقیناً انکار میں ہوگا کیونکہ بولنے والا یعنی ” المتحدث ” میں ہوں اور ” قال ” میں ضمیر کو اپنی طرف موڑ رہا ہوں جیسے میں کسی اور کاتب کے بارے میں بات کر رہا ہوں، اصولاً مجھے یوں کہنا چاہیے کہ: انا ملحد، ناکہ: قال الکاتب انہ ملحد… اب نمونے کے طور پر یہ آیت دیکھیے جس میں بظاہر خدا ابلیس سے مخاطب ہے:

” قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ” سورہ اعراف آیت 12

یہاں ” قال ” میں ضمیر کس کی طرف ہے؟ خدا نے اس کا ذکر اس طرح کیوں کیا جیسے وہ کسی اور کے بارے میں بات کر رہا ہو؟ مسئلہ سمجھ میں آیا؟ لگتا ہے یہ مثال کافی نہیں تھی، چلیے کوئی اور آیت پکڑتے ہیں تاہم یاد رہے کہ سارا قرآن خدا کی زبانی ہے:

اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾ سورہ ہود آیت 2

کیا معاملات اس سے بھی زیادہ واضح ہوسکتے ہیں؟ قرآن کہتا ہے ” اننی لکم منہ نذیر وبشیر ” ؟ یہاں ” اننی ” میں ضمیر کس کی طرف ہے؟ زیادہ ٹینشن نہ لیں، میں بتاتا ہوں کہ ” اننی ” میں ضمیر کس کی طرف ہے، یہاں ” اننی ” میں ضمیر محمد ﷺ کی طرف ہے، اوپر بھی وہی خدا اور ابلیس کا قصہ سنا رہے تھے اور یہاں بھی وہی یہ وعظ کر رہے ہیں، کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ قرآن خدائی پیغام ہے یا انسانی تصنیف؟

اس کے علاوہ قرآن میں بہت ساری تعبیری، نحوی اور بلاغی غلطیاں موجود ہیں جس سے بجا طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک انسانی خرافت کے سوا کچھ نہیں، مثلا خدا کہتا ہے: ” اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ” (سورہ بقرہ آیت 26) جبکہ بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ یوں کہا جائے: ” بعوضہ فما اصغر ” کیونکہ یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خدا دقیق مثالیں استعمال کرتا ہے نا کہ برعکس! ورنہ یوں کیوں نہیں کہتا کہ: ” فیلاً فما قوق ”؟ ایک اور مثال سیاق کے عدم تسلسل کی ہے جیسے: ” اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ” (سورہ فاطر آیت 10) جبکہ بلاغی تقاضا یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ ” الیہ یصعد الکلام الطیب والعمل الصالح” کیونکہ ” یرفعہ ” زیادہ یا فالتو ہے جس کی ضرورت نہیں، یا پھر یہ دیکھیے: ” وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا  ” (سورہ الکہف آیت 22) یہاں ” فیہم منہم ” کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ خدائی منطق ہے!؟ نحوی طور پر تو بات ہی مت کریں اور یہ ایک چلتے چلتے ہے: ” وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ” (سورہ بقرہ آیت 80) جو کہ غلط ہے، نحوی طور پر ” ایاماً معدودات ” درست ہے ! بلاغت تو اپنی جگہ رہی ریت کے خدا کو تو یارو نحو بھی نہیں آتی!!

قرآن کے دیگر جھولوں میں ایک ہی سورت میں ایک کہانی کو بیان کرنے والے الفاظ کو دوسری کہانی بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے جسے کہانی کا ٹیمپلیٹ کاپی کرنا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، مثال کے طور پر سورہ اعراف دیکھیے:

آیت 60 جس میں قوم نوح کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶۰﴾

آیت 66 جس میں قوم ثمود کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۶﴾

آیت 90 جس میں قوم شعیب کا بیان ہے:
وَ قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَئِنِ اتَّبَعۡتُمۡ شُعَیۡبًا اِنَّکُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿۹۰﴾

————————

آیت 75 جس میں قوم صالح کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لِلَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِمَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ اَتَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرۡسَلٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلَ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۷۵﴾

آیت 88 جس میں قوم شعیب کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ﴿۟۸۸﴾

————————

آیت 109 جس میں قوم فرعون کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۹﴾ۙ

آیت 127 اس میں بھی قوم فرعون کا بیان ہے:
وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ لِیُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾

————————

آیت 61 جس میں حضرت نوح کا بیان ہے:
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾

آیت 67 جس میں حضرت ہود کا بیان ہے:
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ سَفَاہَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۷﴾

————————

آیت 62 جس میں حضرت نوح کا بیان ہے:
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾

آیت 68 جس میں حضرت ہود کا بیان ہے:
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ ﴿۶۸﴾

————————

آیت 63 جس میں حضرت نوح کا قصہ ہے:
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَ لِتَتَّقُوۡا وَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۶۳﴾

آیت 69 جس میں حضرت ہود کا قصہ ہے:
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ ؕ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ زَادَکُمۡ فِی الۡخَلۡقِ بَصۜۡطَۃً ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۶۹﴾

یہ سارا عرضِ مکرر صرف ایک ہی سورت کی آگے پیچھے کی آیات میں ہے، ذیل میں کچھ دیگر سورتوں کی آیات کا تشابہ پیش ہے:

سورہ اعراف آیت 83
فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ۖ کَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۸۳﴾

سورہ النمل آیت 57
فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ قَدَّرۡنٰہَا مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۵۷﴾

اب سورہ اعراف کی آیت 60 سے آیت 63 تک کا ٹیمپلیٹ دیکھیے جس میں قوم نوح کا قصہ ہے:

قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶۰﴾
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَ لِتَتَّقُوۡا وَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۶۳﴾

اب بالکل یہی ٹیمپلیٹ الفاظ میں معمولی سے ہیر پھیر کے ساتھ ایک اور کہانی کے لیے استعمال کیا گیا، آیت 66 تا 69 جس میں قوم عاد کے قصے کا بیان ہے:

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۶﴾
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ سَفَاہَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۷﴾
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ ﴿۶۸﴾
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ ؕ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ زَادَکُمۡ فِی الۡخَلۡقِ بَصۜۡطَۃً ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۶۹﴾

حیرت انگیز طور پر خدا کے پاس الفاظ کی شدید قلت ہے اسی لیے وہ کبھی ایک ہی سورت میں آئی ایک کہانی کا ٹیمپلیٹ اسی سورت میں دوسری کہانے کے لیے بڑے دھڑلے سے کاپی کر لیتا ہے تو کبھی کسی ٹیمپلیٹ کو کسی دوسری سورت میں پہنچا دیتا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کوئی احمق سوال نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس پر ” مقدس ” کا لیبل جو چسپاں ہے..!! یہاں ریت کے خدا کی فصاحت وبلاغت گھاس چرنے چلی جاتی ہے… اور کاپی پیسٹ کا تو پوچھیے ہی مت جس کا قرآن میں ایک انبار موجود ہے، ذیل میں ایک چھوٹا سا نمونہ پیشِ خدمت ہے:

سورہ بقرہ آیت 134
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾

سورہ بقرہ آیت 141
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾

سورہ بقرہ آیت 147
اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۱۴۷﴾

سورہ آل عمران آیت 60
اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾

سورہ بقرہ آیت 5
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾

سورہ لقمان آیت 5
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾

سورہ بقرہ آیت 27
الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾

سورہ الرعد آیت 25
وَ الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۙ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ اللَّعۡنَۃُ وَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الدَّارِ ﴿۲۵﴾

سورہ بقرہ آیت 162
خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ ﴿۱۶۲﴾

سورہ آل عمران آیت 88
خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾

سورہ آل عمران آیت 11
کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۱﴾

سورہ الانفال آیت 52
کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۵۲﴾

سورہ آل عمران آیت 182
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿۱۸۲﴾ۚ

سورہ الانفال آیت 51
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿ۙ۵۱﴾

سورہ الانعام آیت 4
وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴﴾

سورہ یس آیت 46
وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴۶﴾

سورہ الانعام آیت 10
وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۰﴾

سورہ الانبیاء آیت 41
وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِئَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۴۱﴾

سورہ ہود آیت 96
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۶﴾

سورہ غافر آیت 23
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۲۳﴾

سورہ ہود آیت 110
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۱۰﴾

سورہ فصلت آیت 45
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۴۵﴾

سورہ الطور آیت 40
اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ؕ۴۰﴾

سورہ القلم آیت 46
اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ۚ۴۶﴾

سورہ طور آیت 41
اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ ﴿ؕ۴۱﴾

سورہ القلم آیت 47
اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ ﴿۴۷﴾

سورہ الزخرف آیت 83
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ ﴿۸۳﴾

سورہ المعارج آیت 42
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾

سورہ الواقعہ آیت 67
بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ ﴿۶۷﴾

سورہ القلم آیت 27
بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ ﴿۲۷﴾

سورہ الحدید آیت 1
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾

سورہ الحشر آیت 1
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾

سورہ الصف آیت 1
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾

سورہ یونس آیت 48
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۸﴾

سورہ الانبیاء آیت 38
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾

سورہ النمل آیت 71
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۷۱﴾

سورہ سبا آیت 29
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۹﴾

سورہ یس آیت 48
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۸﴾

سورہ الملک آیت 25
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾

اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن خدائی کلام ہے تو کیا خدا ایسی غلطیاں کر سکتا ہے؟ یا وہ اتنا عاجز ہے کہ ایک سادہ سا کلام بغیر کاپی پیسٹ کے اس سے نہیں کہا جاتا؟ میرے فاضل دوست کے سارے تمسخرانہ سوالات یہیں پر ہی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں، پھر بھی ان کے رد میں ایک بات کی تکرار بڑی دلچسب ہے کہ اس جیسا کلام لاکر دکھاؤ، مثلاً وہ کہتے ہیں:

” تو لاؤ نا ں ایسا کلام رواندی کے بیٹےاور قصہ ختم کرو! ہم بھی لا سکتے ہیں ہم بھی لا سکتے ہیں کی گردان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ”

” یہ الزامی سوالات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس قرآن کے جیسا کلام پیش کرو اور قصہ ختم کرو۔ سامنے والا خود ہی ہار جائے گا۔ اسکی ہار آپ کے اس الزامی سوال کے جواب پر موقوف نہیں ہے۔ – خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے – یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں ”

” تقریبا ناممکن ہوتا ہے سرے سے تو ناممکن نہیں ہوتا۔ اسی لئے فنکار اپنی کاوش کو لیکر غیرت کو للکارنے والا ایسا دعوی نہیں کرتا جیسا قرآن نے کیا ہے ۔ فان لم تفعلو ولن تفعلو: پس اگر تم ایسا نہ کرسکو اور تم ایسا کر بھی نہیں سکتے ”

” یہاں بھی وہی بات نکالو ناں ان بہترین اشعار بلیغ خطبوں اور خوبصورت رسائل کو اور دنیا کے سامنے پیش کرو۔ انتظار کرتے کرتے ہماری ہڈیاں بوڑھی ہوگئیں اور نہ نضر بن حارث نے پیش کیا اور نہ آپ پیش کر رہے ہیں، خالی دھمکیاں دیتے چلے جارہے ہیں کہ ہم بھی کر سکتے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں۔ بھائی کرو گے کس دن؟ جلدی پیش کرو کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ”

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صاحب، میں اور آپ مسلمان کیوں ہیں؟ کیونکہ اتفاق سے ہم ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوگئے کیونکہ ہمارے پاس اپنی پسند کی جگہ پر پیدا ہونے کا کوئی اختیار نہیں تھا، اسی لیے ہم مسلمان ہوگئے کیونکہ ہمیں بچپن سے ہی یہی ” سکھایا پڑھایا ” گیا تھا کہ یہی حق ہے اور بس، جس اتفاق سے یہ صاحب ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئے اسی اتفاق سے اگر یہ کسی عیسائی کے گھر پیدا ہوئے ہوتے تو آج یہ عیسائیت کو حق مان رہے ہوتے اور اسلام کے مقابلے میں عیسائیت کا دفاع کر رہے ہوتے اور بالکل اسی طرح عیسائیت کے خول میں بند ہوتے جس طرح یہ آج مسلمانیت کے خول میں بند ہیں اور انہیں اس کے باہر کی دنیا دیکھنے کی نا تو فرصت ہے اور نا ہی ضرورت کیونکہ حق سونے کی طشتری پر سجھا انہیں ” اتفاق ” سے پڑا ہوا مل گیا، ایسی جاہلانہ باتیں وہی کر سکتا ہے جسے عربی ادب کے بارے میں ذرا بھی علم نہ ہو، اور ان کے خیال میں اس کی ضرورت ہی کیا ہے، محض قرآن کا بلیغ ہونا کافی ہے، باقی سارے عربی ادب کو کچرے میں ڈال دینا چاہیے اور اسی ایک کتاب کو نسل در نسل طوطے کی طرح رٹتے رہنا چاہیے بھلے اس زبانِ غیر کے بے سمجھ رٹے سے ذہن پراگندہ ہوجائیں اور قوم پستی کی گہرائیوں میں جاگرے.

عربی ادب اتنا بڑا باب ہے کہ میں تو کیا کوئی بھی اس کا پورا پورا احاطہ نہیں کر سکتا، چاہے وہ اسلام سے پہلے کا ادب ہو، اسلام کے بعد کا ہو یا آج کے دور کا، یہاں میں امیہ بن الصلت نامی ایک شاعر کا کلام پیش کرنا چاہوں گا، شعراء تو بہت ہیں بلکہ شعراء کا ایک انبار ہے تو پھر امیہ بن الصلت ہی کیوں؟ بھئی اس کی بڑی قوی وجہ ہے، یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کی شاعری میں زمین وآسمان، چاند اور سورج، فرشتے اور انبیاء، حساب وکتاب، جنت و جہنم اور خدا کی وحدانیت کا ذکر تھا اور جس کی شاعری کے نمونے قرآن میں جا بجا پائے جاتے ہیں…!! یہ وہی امیہ بن الصلت ہے نا جس کی شاعری آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق سے سنا کرتے تھے!! یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا کہ ” کاد ان یسلم ” (وہ مسلمان ہونے والا تھا).. بھئی ہوا تو نہیں تھا نا، آپ کیوں یہ بات کر کے اس کے کلام کو کاپی کرنے کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں؟!… اور یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کا …. ارے بھئی ساری باتیں میں ہی بتاؤں گا یا آپ اپنے دل پر بھی کچھ زخم کھائیں گے؟ میرے لہو سے بہار کب تک! ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کا میرے حریف نے زندگی میں کبھی نام تک نہیں سنا ہوگا..!!

إلى اللـه أُهدي مدحتي وثنائيا
وقولاً رصيناً لا يني الدهرَ باقيا
إلى الملك الأعلى الذي ليس فوقه
إلـه ولا رب يكون مدانيا
وأشهد أنَّ اللـه لا شيءَ فوقه
عليّاً وأمسى ذكره متعاليا
ألا أيُّها الإنسان إياك والردى
فإنك لا تخفي من اللـه خافيا
وإياك لا تجعل مع اللـه غيره
فإن سبيل الرشد أصبح باديا
حنانيْكَ إن الجنَّ كنت رجاءَهم
وأنت إلـهي ربَّنا ورجائيا
رضيت اللـهم بك ربّاً فلن
أرى أدين إلـهاً غيرك اللـه ثانياً
وأنت الذي من فضل منّ ورحمة
بعثت إلى موسى رسولاً مناديا
فقال أعنيّ بابن أُمي فإنني
كثيرٌ به يا رب صلْ لي جناحيا
فقلت لـه فاذهب وهارون فادعو
إلى اللـه وفرعون الذي كان طاغيا
وقولاً لـه أَأنت سويت هذه
بلا وتدٍ حتى اطمأنَّتْ كما هيا
وقولا لـه أَأَنت رفّعْت هذه
بلا عَمدٍ أرفق إذاً بك بانيا
وقولا لـه أأنت سوَّيْتَ وسطها
منيراً إذا ما جنَّه الليل هاديا
وقولا لـه من يرسل الشمس غدوةً
فيصبح ما مست من الأرض ضاحيا
فأنبت يقطيناً عليها برحمةٍ
من اللـه لولا اللـه لم يبق صاحيا
وقولا لـه من ينبتُ الحبَّ في الثرى
فيصبح منه البقل يهتز رابيا
ويخرج منه حبه في رؤوسه
وفي ذاك آيات لمن كان واعيا
وأنت بفضل منك نجيت يونساً
وقد بات في أضعاف حوتٍ لياليا
وإني لو سبحت باسمك ربَّنا
لأكثر إلاَّ ما غفرتَ خطائيا
فربَّ العباد أَلقِ سيباً ورحمة
عليَّ وبارك في بنيَّ وماليا
رُشدت وأنعمت ابن عمرو وإنما
تجنبت تنوراً من النار حاميا
بدينك رباً ليس ربٌّ كمثلـه
وتركك أوثان الطواغي كما هيا
وادراك الدين الذي قد طلبته
ولم تكُ عن توحيد ربك ساهيا
فأصبحتَ في دار كريم مقامها
تعلل فيها بالكرامة لاهيا
تلاقي خليل اللـه فيها ولم تكن
من النار جباراً إلى النار هاويا

امیہ بن الصلت کے صرف اسی ایک کلام میں جہاں اللہ کی وحدانیت اپنے اعلی ترین مراتب پر نظر آتی ہے وہیں حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کا بھی ذکر ہے اور حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر بھی ہے، حیرت انگیز طور پر امیہ بن الصلت کو یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ نے ہی یونس کو مچھلی کے پیٹ سے زندہ برآمد کیا، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سورج کس کے حکم سے ابھرتا ہے، وہ یہ بھی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ سے بڑا اور کوئی نہیں ہے، یعنی امیہ کو پتہ ہے کہ خدا کا نام ” اللہ ” ہے!! جس سے ثابت ہوتا کہ لفظ ” اللہ ” دورِ جاہلیت میں بھی مستعمل تھا اور موحدین تب بھی موجود تھے.. غرض کہ صرف اسی کلام سے قرآن کے آدھے احکام برآمد کیے جاسکتے ہیں.. ایک اور کلام ملاحظہ فرمائیں:

الحمد للـه مُمسانا ومُصَبحنا
بالخير صبَّحنا ربي ومسَّانا
رب الحنيفة لم تنفد خزائنها
مملؤةَ طبَّق الآفاق سلطانا
ألا نبيَّ لنا منَّا فيخبرنا
ما بُعْدُ غايتنا من رأس مُجْرانا
بينا يُرَبِّبُنَا آباؤنا هلكوا
وبينما نقتني الأولاد أفنانا
وقد علمنا لَوَ أنَّ العلم ينفعنا
إن سوف يلحق أُخرانا بأُولانا
وقد عجبت وما بالموت من عجب
ما بال أحيائنا يبكون موتانا
يا رب لا تجعلنّي كافراً أبداً
واجعل سريرة قلبي الدهرَ إيماناً
واخلِط به بُنْيَتي واخلِط به بَشَري
واللحمَ والدمَ ما عُمِّرتُ إنسانا
إني أعوذ بمن حج الحجيج لـه
والرافعون لدين اللـه أركانا
مسلِّمين إليه عند حجِّهمِ
لم يبتغوا بثواب اللـه أثمانا
والناس رَاثَ عليهم أمر ساعتهم
فكلـهم قائل للدين أيَّانا
أيام يلقى نصاراهم مسيحَهمُ
والكائنين لـه وُدّاً وقربانا
هم ساعدوه كما قالوا الـههم
وأرسلوه يَسُوفُ الغيثَ دُسْفانا
ساحي أياطلـهم لم ينزعوا تفثاً
ولم يسلّوا لـهم قملاً وصئباناً
لا تخلطنَّ خبيثاتٍ بطيبة
واخلع ثيابك منها وانجُ عُريانا
كل امرىءٍ سوف يُجْزى قَرْضَهُ حسناً
أو سيئاً ومديناً كالذي دانا
قالت أراد بنا سوءاً فقلت لـها
خزيان حيث يقول الزور بهتانا
وشق آذاننا كيما نعيش بها
وجاب للسمع أصماخاً وآذانا
يا لذة العيش إذ دام النعيم لنا
ومن يعش يلق روعاتٍ وأحزانا
من كان مكتئباً من سيّءٍ ذَقطاً
فزاد في صدره ما عاش ذقطانا

یہ کلام تو شروع ہی اللہ کی صبح وشام حمد سے ہوتا ہے، اس میں وہ کہتا ہے کہ ” لا تجعلنی کافراً ابداً ” کہ اے رب مجھے کبھی کافر مت بنانا بلکہ میرے دل کو ایمان سے بھر دینا..!! اس میں حج کا ذکر بھی ہے اور یہ کہ حج کرنے والے ” مسلمین ” ہوتے ہیں، یہاں بھی اللہ کی حمد اپنے عروج پر نظر آتی ہے، غرض کہ ہم اگر صرف امیہ بن الصلت کی شاعری کا ہی جائزہ لیں تو قرآن اس کے سامنے چغلی کھاتا نظر آتا ہے، جاہلیت کی شاعری سے قرآن کا اقتباس ایک طویل باب ہے جس پر پھر کبھی سورج کی روشنی ڈالی جائے گی، فی الحال میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اگر آپ کو عربی آتی ہے اور مزید کا شوق ہو تو امیہ بن الصلت کے دیوان کا کچھ حصہ یہاں ملاحظہ فرمائیں اور اپنی بے چارگی پر سر دُھنیں.

اور اب میں اپنے فاضل دوست کی اس للکار کی طرف آتا ہوں کہ: ” یہ الزامی سوالات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس قرآن کے جیسا کلام پیش کرو اور قصہ ختم کرو۔ سامنے والا خود ہی ہار جائے گا ” صدقے جاؤں اپنے یار کی اس للکار پر، لیجیے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کیے دیتا ہوں:

 photo fake-quran-01_zpswurnucw0.png

آپ کی ” ہار ” کے لیے کافی ہے یا مزید پیش کروں؟ چلیے کیا یاد کریں گے، ایک اور نمونہ پیشِ خدمت ہے:

 photo fake-quran-02_zpsa2kx4ita.png

جذباتی قسم کے لوگوں کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ انسان جو اپنی عقل سے چاند پر پہنچ گیا اور اب مریخ کو سر کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے وہ ایک معمولی سی کتاب کے آگے بے بس ہوجائے گا؟

فاعتبروا یا اولی الالباب..!!

ویسے اگلی بار کس کا پنگا لینے کا ارادہ ہے؟

جواب دیں

0 Comments
scroll to top