Close

فان لم تستیقظوا ولن تستیقظوا

اپنی تحریروں کے متعلق مجھے اکثر وبیشتر ای میلز موصول ہوتی رہتی ہیں، یہ ای میلز کچھ دوست احباب کی طرف سے ہوتی ہیں اور کچھ نا معلوم حضرات کی طرف سے، بعض ای میلز سنجیدہ ہوتی ہیں اور میری تحریروں میں اٹھائی گئی کچھ باتوں کی وضاحت کی طلبگار ہوتی ہیں، ایسی ای میلز کا میں بھی سنجیدگی سے جواب دیتا ہوں اور حتی المقدور اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں، بعض ای میلز بڑی ہلکی پھلکی سی ہوتی ہیں جیسے وہ صاحب جنہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے حضور میری ہدایت کے لیے دعاء کریں گے، جواب میں، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی دعاء میں فلسطین اور عراق کی یہودیوں اور امریکیوں سے جلد آزادی کی دعاء بھی شامل کر لیں، اسی طرح ایک اور صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے مسجد جاکر توبہ کر لینی چاہیے… کچھ ای میلز کی فکری بالیدگی پر شدید افسوس ہوتا ہے کہ ان کی جہالت بے وقوفی کی حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے، تاہم بیشتر ای میلز عتابی ہوتی ہیں اور یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر میں صرف اسلامی فکر پر ہی کیوں تنقید کرتا ہوں؟ یورپ میں رہنے والے بعض حضرات کا فرمان ہے کہ ایسی تحریروں سے میں یہودیوں اور امریکیوں کو خوش کرنا چاہتا ہوں جبکہ بعض حضرات مجھ پر یہودی مشنری ہونے کا مضحکہ خیز الزام لگاتے ہیں!! ہاں جان کی دھمکیاں دینے والے اس کے علاوہ ہیں.

سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میں ہر اس فکر پر تنقید کرتا ہوں جو میرے معاشرے اور قوم پر منفی اثرات مرتب کرے اور ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے، اگرچہ میں نے عیسائیت پر بھی تنقید کی ہے تاہم اسلامی فکر پر بالخصوص میں تنقید اس لیے کرتا ہوں کیونکہ میں مسلمان ہوں اور میرا اس فکر سے براہ راست تعلق ہے، یہ فکر میری قوم کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، یہ فکر ریورس آرڈر میں چل رہی ہے جو دوسرے کا انکار کرتی اور عقل اور آزادیء فکر کو پتھراتی ہے اور میرے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر اس پر فکری دہشت گردی مسلط کرتی ہے جو بعض اوقات جسمانی دہشت گردی کی حد تک پہنچ جاتی ہے.

اس میں شک نہیں کہ اسلامی فکر کی طرح عیسائی فکر کو بھی تجدید کی اشد ضرورت ہے، فکر جس نوعیت کی بھی ہو اسے تجدید کی ضرورت رہتی ہے ورنہ وہ پتھرا جاتی ہے، تاہم عیسائی فکر پر تنقید اور اس کی تجدید عیسائیوں کی ذمہ داری ہے ناکہ ہماری، اگرچہ ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ آج کی عیسائی فکر یورپ کی تجدیدی تحریک کا نتیجہ ہے جس نے اس پر تنقید کے در اس قدر وا کردیے جو بعض اوقات اس کی مقدس کتاب اور اس کے خدائی مصدر تک پر تشکیک تک پہنچ جاتی ہے مگر نا تو ناقد پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے اور نا ہی اسے کسی قسم کی جسمانی سزا دی جاتی ہے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا، عیسائی دین عام طور پر ایک ذاتی مذہب اور عقیدے کی شکل اختیار کر گیا ہے جو نا ہی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے اور نا ہی لوگوں کی روز مرہ زندگی پر، وہ ان کو کوئی خاص عقیدہ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا اور نا ہی ان کے کھانے پینے اور روز مرہ کے رہن سہن میں اسلامی فکر کی طرح مداخلت کرتا ہے، عیسائی مذہبی فکر یہ نہیں کہتی کہ نماز چھوڑنے والا کافر ہے جس کی سزا موت ہے وہ عیسائیوں کو روزہ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا ورنہ وہ ملت سے خارج ہوجائیں گے، وہ انہیں کوئی شرعی لباس پہننے پر مجبور نہیں کرتا اور نا ہی یہ کہتا ہے کہ عورت ناقصِ عقل ودین اور عورہ ہے جسے دوسروں کی نظروں سے بچا کر رکھنا چاہیے، اگرچہ عیسائیت مسلمان کی عیسائی اور عیسائی کی مسلمان سے شادی کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تاہم اگر ایسی کوئی شادی ہوجائے تو وہ اسے باطل بھی قرار نہیں دیتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک عیسائی کو اپنا مذہب بدلنے یا دہریہ ہونے کی پوری پوری آزادی ہے اور اس جرم کی پاداش میں عیسائیت نہ تو اس کا سر تن سے جدا کرنے کا فتوی دیتی ہے، نا اس کی بیوی کی اس سے طلاق کرواتی ہے اور نا ہی اسے اس کی جائیداد سے بے دخل کرتی ہے.

اس کے مقابلے میں اسلامی فکر حرام اور ممنوع کی فکر ہے، یہ مسلمان کی دقیق تر خصوصیات میں دخل اندازی کرتی ہے، یہ فکر ہمارے بیڈ روم تک گھس آتی ہے، یہ ہماری عورتوں، بچوں اور بیٹیوں میں مداخلت کرتی ہے، یہ ہمارے کھانے پینے، پہننے، بیٹھنے، چلنے پھرنے حتی کہ بیت الخلاء میں جانے اور اس سے نکلنے تک میں مداخلت کرتی ہے، یہ ہماری موت میں بھی مداخلت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہمیں اپنے مردے کس طرح دفن کرنے چاہئیں، قبر کی شکل کیا ہونی چاہیے، اس کا مقام کیا ہونا چاہیے اور قبر میں مردے کی سمت کس طرف ہونی چاہیے، یہ فکر مرنے کے بعد بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی اور عذابِ قبر وآخرت کی صورت میں آنمودار ہوتی ہے، یہ فکر کینسر بن چکی ہے جس کا اللہ اور اس کے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایک بشری فکر ہے جس کا اللہ اور ایمان سے دور کا بھی واسطہ نہیں، یہ فکر عقل کی دشمن ہے اور دوسرے کو مٹانے پر یقین رکھتی ہے اس لیے اس پر تنقید کی جانی چاہیے اور اس کی جگہ ایک آزاد فکر کھڑی کی جانی چاہیے جو دین، عقیدے اور آزادیء فکر کے دروازے کھول دے اور مرد وزن کو اس کی قید سے آزاد کرے، میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دین کو ہی مٹا دیا جائے بلکہ مراد یہ ہے کہ عقل اور دین کو دین کے ٹھیکیداروں سے آزاد کیا جائے جنہوں نے عقل اور دین کو اپنا غلام بنا رکھا ہے.

بہرحال ای میلز سے ہٹ کر اگر بلاگستان پر نظر دوڑائی جائے تو بعض حضرات کو ایسی تنقید ہضم نہیں ہوپاتی اور وہ ہر طرح سے ایسی باتوں کو رد کرنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں کہ کہیں لوگ دقیانوسی روایات سے ہٹ کر سوچنا نہ شروع کردیں، کچھ لوگ تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کرتے ہیں اور ذاتیات پر نہیں اترتے جیسے ڈاکٹر جواد خان صاحب، ایسے لوگوں کی عزت کی جانی چاہیے، تاہم کچھ لوگ تہذیب کے وہ تمام ضابطے – جو شاید ان کا مذہب انہیں نہیں سکھاتا – توڑ کر ذاتیات، گالم گلوچ اور استہزاء پر اتر آتے ہیں اور اپنے ” مقدس ” مذہب کا ” غیر مقدس ” گھٹیا زبان استعمال کر کے دفاع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دین کے دفاع کا حق ادا کردیا اور جنت میں ان کی سیٹ پکی ہوگئی !! ایسے ہی عالم لوگوں میں ایک یہ صاحب بھی ہیں جنہوں نے میری اس تحریر کا ایک گھٹیا اور سطحی قسم کا فضول رد لکھ کر اپنی علمیت کا پردہ چاک کیا ہے.. دراصل ان کے رد میں ایسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں جس کے رد کے لیے مجھے قلم اٹھانا پڑے ساری کی ساری تحریر اپنی جہالت کا منہ بولتا ثبوت آپ ہے، تاہم یہ کشٹ میں نے صرف اس لیے کیا تاکہ ایک مخصوص ٹولے کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ حضرت صاحب چت ہوگئے اور ان سے جواب نہ بن پڑا، میں پہلے بھی ڈاکٹر جواد خان صاحب کے اس رد پر یہ رد لکھ چکا ہوں اور آج بھی ان کے رد کا منتظر ہوں مگر جواب ندارد..!!

تو ہمارے عالم فاضل صاحب فرماتے ہیں کہ:

” عجم پر ہی نہیں ابن الراوندی صاحب یہ عربوں پر بھی حجت تھا اور ہے،بلکہ عربوں پر پہلے حجت ہے اور صرف آج کے عربوں پر نہیں ، نزول قرآن کے وقت جزیر ۃ العرب میں بسنے والے عربوں پر بھی حجت تھا جن کا بچہ بچہ شاعری کر رہا تھا اور فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ تھا جن کا آج کے عربوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ نے قرآن کے اس چیلنج کو صرف عجموں کے ساتھ کیوں خاص کیا ؟ ”

موصوف کی خردمندی پر کیا کہیے کہ اتنی سادہ سی بات ان کے پلے نہیں پڑی، عجم پر قرآن کیوں حجت ہو؟ میری دیگر زبانیں جاننے والے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کسی ایک زبان کی کوئی غزل قصیدہ وغیرہ اردو میں ترجمہ کر کے دیکھیں، مثال کے طور پر اگر آپ کو پشتو آتی ہے تو پشتو زبان کی کسی غزل کا اردو میں ترجمہ کردیں پھر دیکھیں کہ وہ غزل جو اپنی زبان پشتو میں بڑی فصیح وبلیغ تھی اس کا اردو میں ترجمہ ہوجانے کے بعد کیا حشر ہوتا ہے، اب یہ ترجمہ کسی ایسے شخص کو پیش کریں جسے صرف اردو آتی ہو اور اسے کہیں کہ یہ بڑا فصیح وبلیغ کلام ہے پھر اس کا رد عمل دیکھیے، آپ کو ساری بات سمجھ آجائے گی جو میرے فاضل دوست کی عقل دانی میں نہ سما سکی.

ایک اور جگہ وہ فرماتے ہیں کہ:

” ٹھیک ہے جی کہ بلیغ باتیں پڑھنے لکنے سے مشروط نہیں ہیں لیکن قرآن متعدد آیات میں لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دیتا ہے جنکو انہوں نے کسی کے سامنے ظاہر نہیں کیا ہوتا مثلا: اذ ہمت طائفتان منکم ان تفشلا ، اور :یقولون فی انفسہم لو لا یعذبنا اللہ بما نقول۔ اور ظاہر ہوجانے کے بعد متعلقہ لوگوں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ انہی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دینے کی وجہ سے بعض لوگوں نے حضور ﷺ کی منشاء کے خلاف کام کر نے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اگر ہم یہ کام کریں گے تو محمد ﷺ کا خدا محمد ﷺ کو سب کچھ بتا دے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف فصاحت و بلاغت کے دم پر لوگوں کے دل میں چھپی ہوئی بات کی اطلاع دینا ممکن ہے ؟ ”

میرا خیال ہے کہ انہیں پہلے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے، سائنس کی کتاب ہے یا علم نجوم کے خرافات کی؟! مذہب کوئی بھی ہو، دعوی وہ ہمیشہ ایسا داغے گا جس کی کبھی جانچ نہ کی جاسکتی ہو!! دلوں کے حال کوئی جان سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں، تو اگر میں آپ سے کہوں کہ:

” یقولون لو فعلنا لیکتشفنہ ”
” وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے (ایسا) کیا تو وہ جان لے گا ”

تو آپ کے پاس یہ جاننے کا کوئی پیمانہ ہے کہ میں دلوں کے حال جانتا ہوں؟ یقیناً نہیں، یہ محض دعوی برائے دعوے کے سوا کچھ نہیں ہے، قرآن نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے جس سے کوئی راز منکشف ہوتا ہو، اس کے برعکس قرآن بلاغی، لغوی اور تکراری غلطیوں سے اس قدر پُر ہے کہ اسے خدائی کلام قرار دینا خود خدا کی توہین ہے، مثلاً اگر میں عربی میں آپ سے کہوں کہ: قال الکاتب انہ ملحد، کیا یہ جملہ آپ کو منطقی لگتا ہے؟ اگر آپ کو واقعی عربی آتی ہے تو آپ کا جواب یقیناً انکار میں ہوگا کیونکہ بولنے والا یعنی ” المتحدث ” میں ہوں اور ” قال ” میں ضمیر کو اپنی طرف موڑ رہا ہوں جیسے میں کسی اور کاتب کے بارے میں بات کر رہا ہوں، اصولاً مجھے یوں کہنا چاہیے کہ: انا ملحد، ناکہ: قال الکاتب انہ ملحد… اب نمونے کے طور پر یہ آیت دیکھیے جس میں بظاہر خدا ابلیس سے مخاطب ہے:

” قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ” سورہ اعراف آیت 12

یہاں ” قال ” میں ضمیر کس کی طرف ہے؟ خدا نے اس کا ذکر اس طرح کیوں کیا جیسے وہ کسی اور کے بارے میں بات کر رہا ہو؟ مسئلہ سمجھ میں آیا؟ لگتا ہے یہ مثال کافی نہیں تھی، چلیے کوئی اور آیت پکڑتے ہیں تاہم یاد رہے کہ سارا قرآن خدا کی زبانی ہے:

اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾ سورہ ہود آیت 2

کیا معاملات اس سے بھی زیادہ واضح ہوسکتے ہیں؟ قرآن کہتا ہے ” اننی لکم منہ نذیر وبشیر ” ؟ یہاں ” اننی ” میں ضمیر کس کی طرف ہے؟ زیادہ ٹینشن نہ لیں، میں بتاتا ہوں کہ ” اننی ” میں ضمیر کس کی طرف ہے، یہاں ” اننی ” میں ضمیر محمد ﷺ کی طرف ہے، اوپر بھی وہی خدا اور ابلیس کا قصہ سنا رہے تھے اور یہاں بھی وہی یہ وعظ کر رہے ہیں، کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ قرآن خدائی پیغام ہے یا انسانی تصنیف؟

اس کے علاوہ قرآن میں بہت ساری تعبیری، نحوی اور بلاغی غلطیاں موجود ہیں جس سے بجا طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک انسانی خرافت کے سوا کچھ نہیں، مثلا خدا کہتا ہے: ” اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ” (سورہ بقرہ آیت 26) جبکہ بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ یوں کہا جائے: ” بعوضہ فما اصغر ” کیونکہ یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خدا دقیق مثالیں استعمال کرتا ہے نا کہ برعکس! ورنہ یوں کیوں نہیں کہتا کہ: ” فیلاً فما قوق ”؟ ایک اور مثال سیاق کے عدم تسلسل کی ہے جیسے: ” اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ” (سورہ فاطر آیت 10) جبکہ بلاغی تقاضا یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ ” الیہ یصعد الکلام الطیب والعمل الصالح” کیونکہ ” یرفعہ ” زیادہ یا فالتو ہے جس کی ضرورت نہیں، یا پھر یہ دیکھیے: ” وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا  ” (سورہ الکہف آیت 22) یہاں ” فیہم منہم ” کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ خدائی منطق ہے!؟ نحوی طور پر تو بات ہی مت کریں اور یہ ایک چلتے چلتے ہے: ” وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ” (سورہ بقرہ آیت 80) جو کہ غلط ہے، نحوی طور پر ” ایاماً معدودات ” درست ہے ! بلاغت تو اپنی جگہ رہی ریت کے خدا کو تو یارو نحو بھی نہیں آتی!!

قرآن کے دیگر جھولوں میں ایک ہی سورت میں ایک کہانی کو بیان کرنے والے الفاظ کو دوسری کہانی بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے جسے کہانی کا ٹیمپلیٹ کاپی کرنا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، مثال کے طور پر سورہ اعراف دیکھیے:

آیت 60 جس میں قوم نوح کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶۰﴾

آیت 66 جس میں قوم ثمود کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۶﴾

آیت 90 جس میں قوم شعیب کا بیان ہے:
وَ قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَئِنِ اتَّبَعۡتُمۡ شُعَیۡبًا اِنَّکُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿۹۰﴾

————————

آیت 75 جس میں قوم صالح کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لِلَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِمَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ اَتَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرۡسَلٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلَ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۷۵﴾

آیت 88 جس میں قوم شعیب کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ﴿۟۸۸﴾

————————

آیت 109 جس میں قوم فرعون کا بیان ہے:
قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۹﴾ۙ

آیت 127 اس میں بھی قوم فرعون کا بیان ہے:
وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ لِیُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾

————————

آیت 61 جس میں حضرت نوح کا بیان ہے:
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾

آیت 67 جس میں حضرت ہود کا بیان ہے:
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ سَفَاہَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۷﴾

————————

آیت 62 جس میں حضرت نوح کا بیان ہے:
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾

آیت 68 جس میں حضرت ہود کا بیان ہے:
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ ﴿۶۸﴾

————————

آیت 63 جس میں حضرت نوح کا قصہ ہے:
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَ لِتَتَّقُوۡا وَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۶۳﴾

آیت 69 جس میں حضرت ہود کا قصہ ہے:
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ ؕ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ زَادَکُمۡ فِی الۡخَلۡقِ بَصۜۡطَۃً ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۶۹﴾

یہ سارا عرضِ مکرر صرف ایک ہی سورت کی آگے پیچھے کی آیات میں ہے، ذیل میں کچھ دیگر سورتوں کی آیات کا تشابہ پیش ہے:

سورہ اعراف آیت 83
فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ۖ کَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۸۳﴾

سورہ النمل آیت 57
فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ قَدَّرۡنٰہَا مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۵۷﴾

اب سورہ اعراف کی آیت 60 سے آیت 63 تک کا ٹیمپلیٹ دیکھیے جس میں قوم نوح کا قصہ ہے:

قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶۰﴾
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَ لِتَتَّقُوۡا وَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۶۳﴾

اب بالکل یہی ٹیمپلیٹ الفاظ میں معمولی سے ہیر پھیر کے ساتھ ایک اور کہانی کے لیے استعمال کیا گیا، آیت 66 تا 69 جس میں قوم عاد کے قصے کا بیان ہے:

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۶﴾
قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ سَفَاہَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۷﴾
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ ﴿۶۸﴾
اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ ؕ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ زَادَکُمۡ فِی الۡخَلۡقِ بَصۜۡطَۃً ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۶۹﴾

حیرت انگیز طور پر خدا کے پاس الفاظ کی شدید قلت ہے اسی لیے وہ کبھی ایک ہی سورت میں آئی ایک کہانی کا ٹیمپلیٹ اسی سورت میں دوسری کہانے کے لیے بڑے دھڑلے سے کاپی کر لیتا ہے تو کبھی کسی ٹیمپلیٹ کو کسی دوسری سورت میں پہنچا دیتا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کوئی احمق سوال نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس پر ” مقدس ” کا لیبل جو چسپاں ہے..!! یہاں ریت کے خدا کی فصاحت وبلاغت گھاس چرنے چلی جاتی ہے… اور کاپی پیسٹ کا تو پوچھیے ہی مت جس کا قرآن میں ایک انبار موجود ہے، ذیل میں ایک چھوٹا سا نمونہ پیشِ خدمت ہے:

سورہ بقرہ آیت 134
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾

سورہ بقرہ آیت 141
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾

سورہ بقرہ آیت 147
اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۱۴۷﴾

سورہ آل عمران آیت 60
اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾

سورہ بقرہ آیت 5
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾

سورہ لقمان آیت 5
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾

سورہ بقرہ آیت 27
الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾

سورہ الرعد آیت 25
وَ الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۙ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ اللَّعۡنَۃُ وَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الدَّارِ ﴿۲۵﴾

سورہ بقرہ آیت 162
خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ ﴿۱۶۲﴾

سورہ آل عمران آیت 88
خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾

سورہ آل عمران آیت 11
کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۱﴾

سورہ الانفال آیت 52
کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۵۲﴾

سورہ آل عمران آیت 182
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿۱۸۲﴾ۚ

سورہ الانفال آیت 51
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿ۙ۵۱﴾

سورہ الانعام آیت 4
وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴﴾

سورہ یس آیت 46
وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴۶﴾

سورہ الانعام آیت 10
وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۰﴾

سورہ الانبیاء آیت 41
وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِئَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۴۱﴾

سورہ ہود آیت 96
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۶﴾

سورہ غافر آیت 23
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۲۳﴾

سورہ ہود آیت 110
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۱۰﴾

سورہ فصلت آیت 45
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۴۵﴾

سورہ الطور آیت 40
اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ؕ۴۰﴾

سورہ القلم آیت 46
اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ۚ۴۶﴾

سورہ طور آیت 41
اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ ﴿ؕ۴۱﴾

سورہ القلم آیت 47
اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ ﴿۴۷﴾

سورہ الزخرف آیت 83
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ ﴿۸۳﴾

سورہ المعارج آیت 42
فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾

سورہ الواقعہ آیت 67
بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ ﴿۶۷﴾

سورہ القلم آیت 27
بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ ﴿۲۷﴾

سورہ الحدید آیت 1
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾

سورہ الحشر آیت 1
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾

سورہ الصف آیت 1
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾

سورہ یونس آیت 48
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۸﴾

سورہ الانبیاء آیت 38
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾

سورہ النمل آیت 71
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۷۱﴾

سورہ سبا آیت 29
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۹﴾

سورہ یس آیت 48
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۸﴾

سورہ الملک آیت 25
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾

اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن خدائی کلام ہے تو کیا خدا ایسی غلطیاں کر سکتا ہے؟ یا وہ اتنا عاجز ہے کہ ایک سادہ سا کلام بغیر کاپی پیسٹ کے اس سے نہیں کہا جاتا؟ میرے فاضل دوست کے سارے تمسخرانہ سوالات یہیں پر ہی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں، پھر بھی ان کے رد میں ایک بات کی تکرار بڑی دلچسب ہے کہ اس جیسا کلام لاکر دکھاؤ، مثلاً وہ کہتے ہیں:

” تو لاؤ نا ں ایسا کلام رواندی کے بیٹےاور قصہ ختم کرو! ہم بھی لا سکتے ہیں ہم بھی لا سکتے ہیں کی گردان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ”

” یہ الزامی سوالات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس قرآن کے جیسا کلام پیش کرو اور قصہ ختم کرو۔ سامنے والا خود ہی ہار جائے گا۔ اسکی ہار آپ کے اس الزامی سوال کے جواب پر موقوف نہیں ہے۔ – خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے – یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں ”

” تقریبا ناممکن ہوتا ہے سرے سے تو ناممکن نہیں ہوتا۔ اسی لئے فنکار اپنی کاوش کو لیکر غیرت کو للکارنے والا ایسا دعوی نہیں کرتا جیسا قرآن نے کیا ہے ۔ فان لم تفعلو ولن تفعلو: پس اگر تم ایسا نہ کرسکو اور تم ایسا کر بھی نہیں سکتے ”

” یہاں بھی وہی بات نکالو ناں ان بہترین اشعار بلیغ خطبوں اور خوبصورت رسائل کو اور دنیا کے سامنے پیش کرو۔ انتظار کرتے کرتے ہماری ہڈیاں بوڑھی ہوگئیں اور نہ نضر بن حارث نے پیش کیا اور نہ آپ پیش کر رہے ہیں، خالی دھمکیاں دیتے چلے جارہے ہیں کہ ہم بھی کر سکتے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں۔ بھائی کرو گے کس دن؟ جلدی پیش کرو کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ”

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صاحب، میں اور آپ مسلمان کیوں ہیں؟ کیونکہ اتفاق سے ہم ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوگئے کیونکہ ہمارے پاس اپنی پسند کی جگہ پر پیدا ہونے کا کوئی اختیار نہیں تھا، اسی لیے ہم مسلمان ہوگئے کیونکہ ہمیں بچپن سے ہی یہی ” سکھایا پڑھایا ” گیا تھا کہ یہی حق ہے اور بس، جس اتفاق سے یہ صاحب ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئے اسی اتفاق سے اگر یہ کسی عیسائی کے گھر پیدا ہوئے ہوتے تو آج یہ عیسائیت کو حق مان رہے ہوتے اور اسلام کے مقابلے میں عیسائیت کا دفاع کر رہے ہوتے اور بالکل اسی طرح عیسائیت کے خول میں بند ہوتے جس طرح یہ آج مسلمانیت کے خول میں بند ہیں اور انہیں اس کے باہر کی دنیا دیکھنے کی نا تو فرصت ہے اور نا ہی ضرورت کیونکہ حق سونے کی طشتری پر سجھا انہیں ” اتفاق ” سے پڑا ہوا مل گیا، ایسی جاہلانہ باتیں وہی کر سکتا ہے جسے عربی ادب کے بارے میں ذرا بھی علم نہ ہو، اور ان کے خیال میں اس کی ضرورت ہی کیا ہے، محض قرآن کا بلیغ ہونا کافی ہے، باقی سارے عربی ادب کو کچرے میں ڈال دینا چاہیے اور اسی ایک کتاب کو نسل در نسل طوطے کی طرح رٹتے رہنا چاہیے بھلے اس زبانِ غیر کے بے سمجھ رٹے سے ذہن پراگندہ ہوجائیں اور قوم پستی کی گہرائیوں میں جاگرے.

عربی ادب اتنا بڑا باب ہے کہ میں تو کیا کوئی بھی اس کا پورا پورا احاطہ نہیں کر سکتا، چاہے وہ اسلام سے پہلے کا ادب ہو، اسلام کے بعد کا ہو یا آج کے دور کا، یہاں میں امیہ بن الصلت نامی ایک شاعر کا کلام پیش کرنا چاہوں گا، شعراء تو بہت ہیں بلکہ شعراء کا ایک انبار ہے تو پھر امیہ بن الصلت ہی کیوں؟ بھئی اس کی بڑی قوی وجہ ہے، یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کی شاعری میں زمین وآسمان، چاند اور سورج، فرشتے اور انبیاء، حساب وکتاب، جنت و جہنم اور خدا کی وحدانیت کا ذکر تھا اور جس کی شاعری کے نمونے قرآن میں جا بجا پائے جاتے ہیں…!! یہ وہی امیہ بن الصلت ہے نا جس کی شاعری آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق سے سنا کرتے تھے!! یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا کہ ” کاد ان یسلم ” (وہ مسلمان ہونے والا تھا).. بھئی ہوا تو نہیں تھا نا، آپ کیوں یہ بات کر کے اس کے کلام کو کاپی کرنے کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں؟!… اور یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کا …. ارے بھئی ساری باتیں میں ہی بتاؤں گا یا آپ اپنے دل پر بھی کچھ زخم کھائیں گے؟ میرے لہو سے بہار کب تک! ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ وہی امیہ بن الصلت ہے جس کا میرے حریف نے زندگی میں کبھی نام تک نہیں سنا ہوگا..!!

إلى اللـه أُهدي مدحتي وثنائيا
وقولاً رصيناً لا يني الدهرَ باقيا
إلى الملك الأعلى الذي ليس فوقه
إلـه ولا رب يكون مدانيا
وأشهد أنَّ اللـه لا شيءَ فوقه
عليّاً وأمسى ذكره متعاليا
ألا أيُّها الإنسان إياك والردى
فإنك لا تخفي من اللـه خافيا
وإياك لا تجعل مع اللـه غيره
فإن سبيل الرشد أصبح باديا
حنانيْكَ إن الجنَّ كنت رجاءَهم
وأنت إلـهي ربَّنا ورجائيا
رضيت اللـهم بك ربّاً فلن
أرى أدين إلـهاً غيرك اللـه ثانياً
وأنت الذي من فضل منّ ورحمة
بعثت إلى موسى رسولاً مناديا
فقال أعنيّ بابن أُمي فإنني
كثيرٌ به يا رب صلْ لي جناحيا
فقلت لـه فاذهب وهارون فادعو
إلى اللـه وفرعون الذي كان طاغيا
وقولاً لـه أَأنت سويت هذه
بلا وتدٍ حتى اطمأنَّتْ كما هيا
وقولا لـه أَأَنت رفّعْت هذه
بلا عَمدٍ أرفق إذاً بك بانيا
وقولا لـه أأنت سوَّيْتَ وسطها
منيراً إذا ما جنَّه الليل هاديا
وقولا لـه من يرسل الشمس غدوةً
فيصبح ما مست من الأرض ضاحيا
فأنبت يقطيناً عليها برحمةٍ
من اللـه لولا اللـه لم يبق صاحيا
وقولا لـه من ينبتُ الحبَّ في الثرى
فيصبح منه البقل يهتز رابيا
ويخرج منه حبه في رؤوسه
وفي ذاك آيات لمن كان واعيا
وأنت بفضل منك نجيت يونساً
وقد بات في أضعاف حوتٍ لياليا
وإني لو سبحت باسمك ربَّنا
لأكثر إلاَّ ما غفرتَ خطائيا
فربَّ العباد أَلقِ سيباً ورحمة
عليَّ وبارك في بنيَّ وماليا
رُشدت وأنعمت ابن عمرو وإنما
تجنبت تنوراً من النار حاميا
بدينك رباً ليس ربٌّ كمثلـه
وتركك أوثان الطواغي كما هيا
وادراك الدين الذي قد طلبته
ولم تكُ عن توحيد ربك ساهيا
فأصبحتَ في دار كريم مقامها
تعلل فيها بالكرامة لاهيا
تلاقي خليل اللـه فيها ولم تكن
من النار جباراً إلى النار هاويا

امیہ بن الصلت کے صرف اسی ایک کلام میں جہاں اللہ کی وحدانیت اپنے اعلی ترین مراتب پر نظر آتی ہے وہیں حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کا بھی ذکر ہے اور حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر بھی ہے، حیرت انگیز طور پر امیہ بن الصلت کو یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ نے ہی یونس کو مچھلی کے پیٹ سے زندہ برآمد کیا، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سورج کس کے حکم سے ابھرتا ہے، وہ یہ بھی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ سے بڑا اور کوئی نہیں ہے، یعنی امیہ کو پتہ ہے کہ خدا کا نام ” اللہ ” ہے!! جس سے ثابت ہوتا کہ لفظ ” اللہ ” دورِ جاہلیت میں بھی مستعمل تھا اور موحدین تب بھی موجود تھے.. غرض کہ صرف اسی کلام سے قرآن کے آدھے احکام برآمد کیے جاسکتے ہیں.. ایک اور کلام ملاحظہ فرمائیں:

الحمد للـه مُمسانا ومُصَبحنا
بالخير صبَّحنا ربي ومسَّانا
رب الحنيفة لم تنفد خزائنها
مملؤةَ طبَّق الآفاق سلطانا
ألا نبيَّ لنا منَّا فيخبرنا
ما بُعْدُ غايتنا من رأس مُجْرانا
بينا يُرَبِّبُنَا آباؤنا هلكوا
وبينما نقتني الأولاد أفنانا
وقد علمنا لَوَ أنَّ العلم ينفعنا
إن سوف يلحق أُخرانا بأُولانا
وقد عجبت وما بالموت من عجب
ما بال أحيائنا يبكون موتانا
يا رب لا تجعلنّي كافراً أبداً
واجعل سريرة قلبي الدهرَ إيماناً
واخلِط به بُنْيَتي واخلِط به بَشَري
واللحمَ والدمَ ما عُمِّرتُ إنسانا
إني أعوذ بمن حج الحجيج لـه
والرافعون لدين اللـه أركانا
مسلِّمين إليه عند حجِّهمِ
لم يبتغوا بثواب اللـه أثمانا
والناس رَاثَ عليهم أمر ساعتهم
فكلـهم قائل للدين أيَّانا
أيام يلقى نصاراهم مسيحَهمُ
والكائنين لـه وُدّاً وقربانا
هم ساعدوه كما قالوا الـههم
وأرسلوه يَسُوفُ الغيثَ دُسْفانا
ساحي أياطلـهم لم ينزعوا تفثاً
ولم يسلّوا لـهم قملاً وصئباناً
لا تخلطنَّ خبيثاتٍ بطيبة
واخلع ثيابك منها وانجُ عُريانا
كل امرىءٍ سوف يُجْزى قَرْضَهُ حسناً
أو سيئاً ومديناً كالذي دانا
قالت أراد بنا سوءاً فقلت لـها
خزيان حيث يقول الزور بهتانا
وشق آذاننا كيما نعيش بها
وجاب للسمع أصماخاً وآذانا
يا لذة العيش إذ دام النعيم لنا
ومن يعش يلق روعاتٍ وأحزانا
من كان مكتئباً من سيّءٍ ذَقطاً
فزاد في صدره ما عاش ذقطانا

یہ کلام تو شروع ہی اللہ کی صبح وشام حمد سے ہوتا ہے، اس میں وہ کہتا ہے کہ ” لا تجعلنی کافراً ابداً ” کہ اے رب مجھے کبھی کافر مت بنانا بلکہ میرے دل کو ایمان سے بھر دینا..!! اس میں حج کا ذکر بھی ہے اور یہ کہ حج کرنے والے ” مسلمین ” ہوتے ہیں، یہاں بھی اللہ کی حمد اپنے عروج پر نظر آتی ہے، غرض کہ ہم اگر صرف امیہ بن الصلت کی شاعری کا ہی جائزہ لیں تو قرآن اس کے سامنے چغلی کھاتا نظر آتا ہے، جاہلیت کی شاعری سے قرآن کا اقتباس ایک طویل باب ہے جس پر پھر کبھی سورج کی روشنی ڈالی جائے گی، فی الحال میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اگر آپ کو عربی آتی ہے اور مزید کا شوق ہو تو امیہ بن الصلت کے دیوان کا کچھ حصہ یہاں ملاحظہ فرمائیں اور اپنی بے چارگی پر سر دُھنیں.

اور اب میں اپنے فاضل دوست کی اس للکار کی طرف آتا ہوں کہ: ” یہ الزامی سوالات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس قرآن کے جیسا کلام پیش کرو اور قصہ ختم کرو۔ سامنے والا خود ہی ہار جائے گا ” صدقے جاؤں اپنے یار کی اس للکار پر، لیجیے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کیے دیتا ہوں:

 photo fake-quran-01_zpswurnucw0.png

آپ کی ” ہار ” کے لیے کافی ہے یا مزید پیش کروں؟ چلیے کیا یاد کریں گے، ایک اور نمونہ پیشِ خدمت ہے:

 photo fake-quran-02_zpsa2kx4ita.png

جذباتی قسم کے لوگوں کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ انسان جو اپنی عقل سے چاند پر پہنچ گیا اور اب مریخ کو سر کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے وہ ایک معمولی سی کتاب کے آگے بے بس ہوجائے گا؟

فاعتبروا یا اولی الالباب..!!

ویسے اگلی بار کس کا پنگا لینے کا ارادہ ہے؟

81 Comments

  1. ترجمہ تو تم بتاتے نہیں اورعربے یعنی امیج ایسا پیسٹ کیا ہے کہ گوگل سے اس کا ترجمہ کروایا جاسکے .
    دوسرا یہ کہ قرآن کی ملتی جلتی آیتوں کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے . صاف ظاہر ہے خدا کے پاس واقعی الفاظوں کی کمی تھی .

  2. بہت ضروری ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہئں تا کہ حقیقت کیا ہے ہہ واضح ہو.
    اگر کسی کو آپکے خیالات گستاخی لگتے ہیں تو لگیں. اگر کوئ یہ سمجھتا ہے کہ بیان کردہ باتیں غلط ہیں تو اس کا جواب لائے.

  3. سنا ہے کہ تونی بلئیر کی سالی مسلمان ہوگئی.اور تونی بلئیر خود بھی قران کا مطالعہ کرتے ہیں.
    .http://2believeornot2.blogspot.com/2008/11/tony-blair-on-islam-and-quran.html

    دنیا میں دھرادھڑ لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور ایک تم ہو کہ بس……

    ہائے بد بختی ایک اور انسان شیطان کا شکار ہوگیا.

    موقع ملا تو تفصیلی بات عرض کرونگا لیکن اتنا کہتا ہوں کہ آپکے اعتراجات نہایت بےہودہ ہیں.

    قال غائب کا ضمیر اگر قصے مین ذکر ہو تو یہ کلام کے مطابق ہے کیونکہ سامع کو انتظار رہتا ہے اور وہ پوچھتا ہے گائب ہی کے ضمیر سےکہ اس نے کیا کہا اور اس نے کیا کہا،

    اسی لئے کہانیوں میں غائب کا صیغہ ہی بلاغت ہے.

    ایام معدودۃ کا اعتراض پڑھ کر سردھننے کو جی چاہتا ہے کہ ذرا عقل نہیں تم مین کیا خاک عربی جانتے ہو .
    اتنا بھی معلوم نہیں کہ جس جمع کا مفرد مذکر ہو تو اسکے صفت مین مفرد مونث کا صیغہ آسکتا ہے.

    جیسے سرر مرفوعۃ وغیرہ اور اسکے خلاف فرع میں ایام معدودات بھی اسکتا ہے اور یہ الفاظ بھی قران میں ذکر ہیں اگر اللہ عربی سے ناواقف ہوتا تو سرے سے اسکو استعمال میں ہی نہ لاتا.کمال یہ ہے کہ کبھی اصل کا ذکر اور کبھی فرع کا ،موقع کے موافق.

    بعوضۃ فما فوقھا میں بھی اعتراض بودھا ہے کیونکہ اس جگہ یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مین مچھر کے ذکر سے نہیں حیاء کرتا تو جو اس سے فوق مین ہے یعنی عنکبوت اور مکھی کے مثالوں میں کیوں حیاء کروں.

    یا اسکا معنی یہ ہے کہ بعوضۃ فما فوقھا فی الحقارۃ .
    جیسے کہتے ہین کہ یہ بخیل ہے اور وہ اس سے بھی زیادہ ہے.

    اسی طرح جناب آپکے سارے اعتراضات بودے ہیں

    شعراء کے کلام میں احکام، اسلام کیلئے نقل لازم نہیں کرتا ہے کیونکہ اسلام سے قبل عیسائیت اور یہودیت گذر چکے تھے جس کے اصلی راہب بھی موجود تھے نیز عیسی علیہ السلام اور نبی علیہ السلام کے درمیان بھی بعض روایات کے مطابق 4 نبی گزرے ہیں.کیا انکی تعلیمات باقی نہیں رہ سکتی؟؟

    جعلی قران کے صورتوں کے متعلق اتنا کہونگا کہ جو کام کفار مکہ نہ کرسکے وہ آپ نے کر دیا. کیا بد بختی ہے
    روایات کے مطابق کفار مکہ مین سے بھی بعج نے بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت کے اہل ادب نے انکے کلام کو فجول کہہ کر رد کردیا تھا.

    سورۃ کوثر خانہ کعبہ کے دیوار کے ساتھ لٹکی تھی صرف کفار مکہ اتنا بڑھا سکے کہ ما ھذا قول البشر

    . جناب ان جعلی ایات کو لے جاو اور عربی شعرا اور اہل ادب کے سامنے رکھو کہ اسمین وہ کتنی غلطیاں نکالتے ہی کہ نہیں،

    ایسے لوگ جو عربی پڑھ نہیں سکتے تو اسکے سامنے تو عربی گالی کو بھی قران بنا سکتے ہو.

    1. میں یہ چاہوں گا کہ اینڈرسن شا صاحب اِس پوسٹ کا ضرور جواب دیں، میں کسی کی طرف داری نہیں کر رہا لیکن یہ ضرور چاہتا ہوں کہ اتنی حساس بحث، جو اب چھڑ ہی چکی ہے، اسکا کوی حتمی نتیجہ ضرور نکلے جس پہ سب متفق ہوں.

    2. ” قال غائب کا ضمیر اگر قصے مین ذکر ہو تو یہ کلام کے مطابق ہے کیونکہ سامع کو انتظار رہتا ہے اور وہ پوچھتا ہے گائب ہی کے ضمیر سےکہ اس نے کیا کہا اور اس نے کیا کہا ”

      حضرت شیخ الحدیث صاحب، ” قال ” غائب کا ضمیر کب سے ہوگیا؟ یا قرآن کو بچانے کے لیے آپ لغت کی بھی گردن مروڑ دیں گے؟ ذرا لغت کی کتاب کھول کر دیکھیں کہ غائب کے ضمیر کیا ہیں اور کتنے ہیں اس کے بعد یہاں آکر ٹرٹرائیے گا.. اور اگر بفرضِ محال آپ کی بات تسلیم کرلی جائے تو ” اننی ” کون سا ضمیر ہے؟ 😀

      ” ایام معدودۃ کا اعتراض پڑھ کر سردھننے کو جی چاہتا ہے کہ ذرا عقل نہیں تم مین کیا خاک عربی جانتے ہو .
      اتنا بھی معلوم نہیں کہ جس جمع کا مفرد مذکر ہو تو اسکے صفت مین مفرد مونث کا صیغہ آسکتا ہے. ”

      اور میرا آپ کی عربی دانی پر سر دھننے کو جی چاہتا ہے، کیا نکتہ نکالا ہے، صاف ظاہر ہے کہ آپ ” ککھ ” نہیں سمجھے، اگر آپ کی اس دلیل کو مان لیا جائے تو سور بقرہ کی آیت 183-184 آپ ہی کی دلیل سے غلط ہوجاتی ہے:

      یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۴﴾

      ” بعوضۃ فما فوقھا میں بھی اعتراض بودھا ہے کیونکہ اس جگہ یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مین مچھر کے ذکر سے نہیں حیاء کرتا تو جو اس سے فوق مین ہے یعنی عنکبوت اور مکھی کے مثالوں میں کیوں حیاء کروں.
      یا اسکا معنی یہ ہے کہ بعوضۃ فما فوقھا فی الحقارۃ .
      جیسے کہتے ہین کہ یہ بخیل ہے اور وہ اس سے بھی زیادہ ہے. ”

      لغوی طور پر یہاں بلاغت کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ متحدث یہ کہنا چاہتا ہے کہ اللہ چھوٹی ترین مخلوقات جیسے مچھر کی مثال دیتے نہیں شرماتا بلاغت اور مبالغے کے لیے لازم تھا کہ وہ اسی سیاق میں آگے بڑھتا اور کہتا ” او ما تحتہا ” یا ” اصغر منہا ” مگر آیت کہتی ہے کہ ” بعوضہ فما فوقہا ” اب مچھر سے اوپر تو پھر ہاتھی بھی ہوسکتا ہے اور ڈائناسار بھی تو ضخیم مخلوقات کی مثال سے بلاغت کہاں سے برآمد ہوجاتی ہے؟ مگر اس میں آپ کا قصور نہیں ہے، عقل پر پتھر پڑے ہوں تو اپنے سوا ہر چیز بودی ہی نظر آئے گی..

      ” شعراء کے کلام میں احکام، اسلام کیلئے نقل لازم نہیں کرتا ہے کیونکہ اسلام سے قبل عیسائیت اور یہودیت گذر چکے تھے جس کے اصلی راہب بھی موجود تھے نیز عیسی علیہ السلام اور نبی علیہ السلام کے درمیان بھی بعض روایات کے مطابق 4 نبی گزرے ہیں.کیا انکی تعلیمات باقی نہیں رہ سکتی؟؟ ”

      واقعی شعراء کے کلام سے نقل کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ سابقہ مذاہب کے راہب جو موجود تھے جیسے ورقہ بن نوفل.. ہے نا!! اور ہاں ان بیچ کے چار انبیاء کو ثابت کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا ورنہ اپنی ہی دلیل میں پھنس جائیں گے…

      ” جعلی قران کے صورتوں کے متعلق اتنا کہونگا کہ جو کام کفار مکہ نہ کرسکے وہ آپ نے کر دیا. کیا بد بختی ہے ”

      چلو رقیبوں نے کچھ تو تسلیم کر ہی لیا 🙂

      ” روایات کے مطابق کفار مکہ مین سے بھی بعج نے بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت کے اہل ادب نے انکے کلام کو فجول کہہ کر رد کردیا تھا. ”

      یہ روایات صرف یہ کیوں بتاتی ہیں کہ ایسا کلام پیش کیا گیا تھا اور اہلِ ادب نے اسے مسترد کردیاتھا؟ یہ کیوں نہیں بتاتیں کہ وہ کلام کیا تھا؟ تاکہ ہم جائزہ لیں سکیں اور فیصلہ ہوپائے؟ حیرت انگیز طور پر آپ کی یہ روایات صرف آپ ہی کی مرضی کی بات نقل کرتی ہیں اور جہاں پھنسنے کا امکان ہو تو ایسی روایات کو تاریخ کے اندھیروں میں جھونک دیتی ہیں..

      ” سورۃ کوثر خانہ کعبہ کے دیوار کے ساتھ لٹکی تھی صرف کفار مکہ اتنا بڑھا سکے کہ ما ھذا قول البشر ”

      یہ بھی آپ ہی کی روایت ہے نا!! کبھی آپ تسلیم کرتے ہیں کہ جو کام کفار مکہ نہ کر سکے وہ میں نے کردیا اور اب کہہ رہے ہیں کہ کفار اتنے عاجز تھے کہ بس تین لفظ ہی بڑھا پائے اس طرح سے تو میں اس زمانے کے شعراء سے زیادہ بڑا شاعر ہوا.. ہے نا!

      ” . جناب ان جعلی ایات کو لے جاو اور عربی شعرا اور اہل ادب کے سامنے رکھو کہ اسمین وہ کتنی غلطیاں نکالتے ہی کہ نہیں، ”

      کیا اتنا کافی نہیں ہے کہ آپ سے کوئی غلطی نہ نکل سکی؟

      ” ایسے لوگ جو عربی پڑھ نہیں سکتے تو اسکے سامنے تو عربی گالی کو بھی قران بنا سکتے ہو. ”

      جس صاحب کے جواب میں یہ تحریر لکھی گئی تھی ان کے مطابق قرآن عجم پر حجت ہے اور اب آپ فرما رہے ہیں کہ عجم کے سامنے گالی کو بھی قرآن بنایا جاسکتا ہے! ریت کے خدا کے غلاموں کا کوئی ایک دین ایمان ہے؟

      1. اینڈرسن شا :
        قال ” غائب کا ضمیر کب سے ہوگیا؟
        جواب:
        ہان جو بات کو ادھر ادھر موڑنے کی کوشش کرے تو بالکل کر سکتا ہے. جناب قال ضمیر کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قال صیغہ واحد مذکر ہے جو کہ غائب کیلئے استعمال ہوتا ہے. ابھی آئی سمجھ میں بات.
        .
        اینڈرسن شا :
        اگر بفرضِ محال آپ کی بات تسلیم کرلی جائے تو ” اننی ” کون سا ضمیر ہے؟
        جواب:
        سمجھ نہیں آتی یہ اعتراجات کود تو نہیں نکالے ،کواہ مخواہ کسی اور کے کاپی پیسٹ کئے ہیں .اگر نہ جو یہ اعتراض کرتا ہے تو اسکو جواب کی بھی فکر ہوتی ہے لیکن جس کو اعتراضات کی کاپی مل جائے تو پھر اسکو جوابات کی اتنی نہیں پڑی ہوتی.

        جناب لیجئے آپکے اننی کے اعتراض کے جواب

        { إنني لكم منه } أي : قل لهم يا محمد إنني لكم من عند الله
        تفسیر خازن

        اینڈرسن شا :..
        سور بقرہ کی آیت 183-184 آپ ہی کی دلیل سے غلط ہوجاتی ہے؟
        جواب:..
        اگر چہ میں نے اپنے اوپر کے کمنٹ میں جو جواب دیا ہے تو جناب اسکو سمجھے نہیں ،ظاہر ہے عقل کبھی کبھی فیل ہوجاتی ہے. مین نے اوپر کہا کہ
        (اتنا بھی معلوم نہیں کہ جس جمع کا مفرد مذکر ہو تو اسکے صفت مین مفرد مونث کا صیغہ آسکتا ہے.
        جیسے سرر مرفوعۃ وغیرہ اور اسکے خلاف فرع میں ایام معدودات بھی اسکتا ہے اور یہ الفاظ بھی قران میں ذکر ہیں اگر اللہ عربی سے ناواقف ہوتا تو سرے سے اسکو استعمال میں ہی نہ لاتا.کمال یہ ہے کہ کبھی اصل کا ذکر اور کبھی فرع کا ،موقع کے موافق)

        لیکن جب اسکو تمھاری عقل پک نہ کرسکی سمجھیں تو یہ دیکھیں… الخامس بالجمع والإفراد كقوله في سورة البقرة لن تمسنا النار إلا أياما معدودة وفى آل عمران لأن الأصل في الجمع إذا كان واحد مذكر أن يقتصر في الوصف على التأنيث نحو سرر مرفوعة وأكواب موضوعة ونمارق مصفوفة وزرابي مبثوثة فجاء في البقرة على الأصل وفى آل عمران على الفرع

        کیا سمجھے….؟؟؟؟

        اینڈرسن شا :.
        لغوی طور پر یہاں بلاغت کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ متحدث یہ کہنا چاہتا ہے کہ اللہ چھوٹی ترین مخلوقات جیسے مچھر کی مثال دیتے نہیں شرماتا بلاغت اور مبالغے کے لیے لازم تھا کہ وہ اسی سیاق میں آگے بڑھتا اور کہتا ” او ما تحتہا ” یا ” اصغر منہا ” مگر آیت کہتی ہے کہ ” بعوضہ فما فوقہا ” اب مچھر سے اوپر تو پھر ہاتھی بھی ہوسکتا ہے اور ڈائناسار بھی تو ضخیم مخلوقات کی مثال سے بلاغت کہاں سے برآمد ہوجاتی ہے
        جواب:
        پہلی بات تو یہ کہ کفار مکہ نے ہاتھی اور ڈائینسور نہیں دیکھے تھے اور اگر کسی نے دیکھا بھی تھا تو شاذ ونادر.لھذا اسکو مثال میں لانا خلاف قاعدہ ہے کیونکہ مثال مشہور چیز کی بیان ہوتی ہے.

        دوسری بات یہ کہ یہاں بعوضۃ کہ بعد ما تحتہا کا ذکر ہونا چاہئے تھا تو جناب اسکا جواب بھی ہوچکا ہے جو کہ مذکور ہے
        بعوضۃ فما فوقھا فی الحقارۃ

        دوسری بات یہ کہ دراصل قران مین اس ایت سے پہلے عنکبوت اور مکھی کا ذکر ہوا تھا جس پر کفار مکہ یا یہود نے طعنہ دیا کہ یہ کیسی حقیر چیزیں ذکر کی ہیں انہوں نے بھی آپکی طرح کہا ہوگا کہ ڈائناسور ذکر کیا جائے.
        تو جواب مین اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس سے کم جو کہ مچھر ہے اسکے ذکر سے نہیں حیاء کرتا چیجائےکہ عنکبوت اور مکھی تو مچھر سے جسامت میں بڑے ہیں ،اسکے ذکر سے کیوں حیاء کروں.

        اب سمجھے کہ نہیں
        .
        اینڈرسن شا :
        لغوی طور پر یہاں بلاغت کی صریح خلاف ورزی ہے
        جواب:
        بڑے آئے ہو اہل ادب میں سے.تم کون ہوتے ہو قران کی ایات پر اعتراجات کرنے والے. تمہارے بڑے کفار مکہ بھی اس وقت موجود تھے اور گونگے بہرے نہیں تھے،جب یہ ایات نازل ہوگئی تھی ، یہ جن شاعروں کی تم راگ الاپ رہے ہو تو انکے گروہ کے گروہ موجود تھے ،کسی نے اسکو خلاف ورزی قرار ہیں دیا اور تم آگئے کہ معترض بن گئے..امروالقیس کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالو گے ادب عربی میں ..ہیں نا؟؟؟؟

        اینڈرسن شا :
        سابقہ مذاہب کے راہب جو موجود تھے جیسے ورقہ بن نوفل.. ہے نا!! اور ہاں ان بیچ کے چار انبیاء کو ثابت کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا ورنہ اپنی ہی دلیل میں پھنس جائیں گے
        جواب
        ورقہ ابن نوفل نے کہا تھا کہ اگر میں اس زمانے میں زندہ رہا جب حضور صل اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملے تو میں ضرور اسپر ایمان لاونگا. لیکن وہ اس وقت سے قبل فوت ہوگئے.
        4 انبیاء کی بات تو یہ روایت حیات الحیوان میں موجود ہے. صحیح ضعیف کا معلوم نہیں .

        اور دراصل کفار مکہ جو کام نہ کرسکے تو اسلئے کہ ان میں عقل توڑی تھی اور انکو درست کلام اور غلط کلام کا فرق محسوس ہوتا تھا ،لیکن تم تو ان سے بڑ کر ہو کس میں ، ارے جہالت میں کہ جس کام سے انہوں نے ہاتھ روکا ،تم نے اسکو کرنے کا ٹھیکہ لے لیا. جب وہ نہ کرسکے تو تم کیا خاک کر لوگے.؟؟

        عربی بنائی جاسکتی ہے لیکن اسکو قران کے معیار کے مطابق بنانا، یہ ناممکن ہے.

        1. ” ہان جو بات کو ادھر ادھر موڑنے کی کوشش کرے تو بالکل کر سکتا ہے. جناب قال ضمیر کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قال صیغہ واحد مذکر ہے جو کہ غائب کیلئے استعمال ہوتا ہے. ابھی آئی سمجھ میں بات. ”

          حضرت میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ لغت میں غائب کے ضمیر دیکھیں مگر آپ کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے، قاری کی معلومات کے لیے میں یہاں غائب کے ضمیر پیش کر رہا ہوں جو یہ ہیں:

          ہو، ہی، ہما، ہم، ہن، ایاہ، ایاہا، ایاہما، ایاہم، ایاہن، ھاء الغائب، الف الاثنین، واو الجماعہ، نون النسوہ

          یہ ہیں عربی زبان کے غائب کے ضمیر جن میں آپ کی ” قال ” نہیں ہے، قال صیغہ واحد مذکر ضرور ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ فعل ماض مبنی علی الفتح بھی ہے جس کا فاعل ضمیر مستتر ہوتا ہے نا کہ غائب، امید ہے وضاحت ہوگئی ہوگی، اگر اب بھی بات پلے نہیں پڑی تو اپنے عربی کے استاد کی گردن دبوچیں.

          ” سمجھ نہیں آتی یہ اعتراجات کود تو نہیں نکالے ،کواہ مخواہ کسی اور کے کاپی پیسٹ کئے ہیں .اگر نہ جو یہ اعتراض کرتا ہے تو اسکو جواب کی بھی فکر ہوتی ہے لیکن جس کو اعتراضات کی کاپی مل جائے تو پھر اسکو جوابات کی اتنی نہیں پڑی ہوتی.

          جناب لیجئے آپکے اننی کے اعتراض کے جواب

          { إنني لكم منه } أي : قل لهم يا محمد إنني لكم من عند الله
          تفسیر خازن ”

          آپ کا مُفسر یہاں لفظ ” قُل ” زبردستی گھسیڑ رہا ہے جو کہ سورہ ہود کی آیت ایک اور دو میں سرے سے ہے ہی نہیں اور نا ہی اس کے سیاق سے اس قسم کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے، میں ایک بار پھر سورہ ہود کی پہلی اور دوسری آیت یہاں نقل کرتا ہوں:

          الٓر‌ۚ كِتَـٰبٌ أُحۡكِمَتۡ ءَايَـٰتُهُ ۥ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِن لَّدُنۡ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (١) أَلَّا تَعۡبُدُوٓاْ إِلَّا ٱللَّهَ‌ۚ إِنَّنِى لَكُم مِّنۡهُ نَذِيرٌ۬ وَبَشِيرٌ۬ (٢)

          یہاں کوئی بھی غیر جانبدار عربی جاننے ولا ” قُل ” کی خبر نہیں دے گا جیسا کہ تفسیر خازن والا دے رہا ہے، آیت دو میں صرف اتنی سی بات ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو میں (اننی) تمہارے لیے اس میں سے نذیر وبشیر ہوں، اب ” قُل ” تو یہاں ہے نہیں اور نا ہی فِٹ کی جاسکتی ہے، اور سادہ لفظوں میں ” اننی ” کا مطلب ” میں ” بنتا ہے، لیکن آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہو تو ظاہر ہے ایسی جلی باتیں کہاں نظر آتی ہیں.

          ” اگر چہ میں نے اپنے اوپر کے کمنٹ میں جو جواب دیا ہے تو جناب اسکو سمجھے نہیں ،ظاہر ہے عقل کبھی کبھی فیل ہوجاتی ہے. مین نے اوپر کہا کہ
          (اتنا بھی معلوم نہیں کہ جس جمع کا مفرد مذکر ہو تو اسکے صفت مین مفرد مونث کا صیغہ آسکتا ہے.
          جیسے سرر مرفوعۃ وغیرہ اور اسکے خلاف فرع میں ایام معدودات بھی اسکتا ہے اور یہ الفاظ بھی قران میں ذکر ہیں اگر اللہ عربی سے ناواقف ہوتا تو سرے سے اسکو استعمال میں ہی نہ لاتا.کمال یہ ہے کہ کبھی اصل کا ذکر اور کبھی فرع کا ،موقع کے موافق)

          لیکن جب اسکو تمھاری عقل پک نہ کرسکی سمجھیں تو یہ دیکھیں… الخامس بالجمع والإفراد كقوله في سورة البقرة لن تمسنا النار إلا أياما معدودة وفى آل عمران لأن الأصل في الجمع إذا كان واحد مذكر أن يقتصر في الوصف على التأنيث نحو سرر مرفوعة وأكواب موضوعة ونمارق مصفوفة وزرابي مبثوثة فجاء في البقرة على الأصل وفى آل عمران على الفرع

          کیا سمجھے….؟؟؟؟ ”

          بالکل یہ بات درست ہے، لیکن میں نے اوپر بھی آپ پر واضح کردیا تھا کہ آپ بات نہیں سمجھے، میرا اشارہ اس طرف ہے ہی نہیں، سورہ بقرہ کی آیت 80 میں قلت مراد تھی مگر جمع کثرت کردی گئی جبکہ اسے جمع قلت کرتے ہوئے ” ایاماً معدودات ” لکھنا چاہیے تھا ناکہ ” ایاماً معدودہ…. اس کے بالکل برعکس سورہ بقرہ کی آیت 183-184 میں جمع قلت کردی گی جبکہ کثرت مراد تھی، یہاں جمع کثرت ہونی چاہیے تھی کیونکہ مراد جمع کثرت تھی جس کی عدت تیس دن ہے چنانچہ ” ایاماً معدودہ ” لکھنا چاہیے تھا نا کہ ” ایاماً معدودات ”..

          ” پہلی بات تو یہ کہ کفار مکہ نے ہاتھی اور ڈائینسور نہیں دیکھے تھے اور اگر کسی نے دیکھا بھی تھا تو شاذ ونادر.لھذا اسکو مثال میں لانا خلاف قاعدہ ہے کیونکہ مثال مشہور چیز کی بیان ہوتی ہے.

          دوسری بات یہ کہ یہاں بعوضۃ کہ بعد ما تحتہا کا ذکر ہونا چاہئے تھا تو جناب اسکا جواب بھی ہوچکا ہے جو کہ مذکور ہے
          بعوضۃ فما فوقھا فی الحقارۃ

          دوسری بات یہ کہ دراصل قران مین اس ایت سے پہلے عنکبوت اور مکھی کا ذکر ہوا تھا جس پر کفار مکہ یا یہود نے طعنہ دیا کہ یہ کیسی حقیر چیزیں ذکر کی ہیں انہوں نے بھی آپکی طرح کہا ہوگا کہ ڈائناسور ذکر کیا جائے.
          تو جواب مین اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس سے کم جو کہ مچھر ہے اسکے ذکر سے نہیں حیاء کرتا چیجائےکہ عنکبوت اور مکھی تو مچھر سے جسامت میں بڑے ہیں ،اسکے ذکر سے کیوں حیاء کروں.

          اب سمجھے کہ نہیں ”

          حضرت یہاں آپ صرف اپنی مرضی کے مفروضوں سے کھیل رہے ہیں، اگر کفار نے ہاتھی اور ڈائناسار نہیں دیکھے تھے تو اللہ نے تو دیکھے تھے تو پھر انہیں بیان کرنے میں شرم کیسی؟ آپ کہتے ہیں کہ کفار نے مکڑی اور مکھی پر اعتراض کیا تو خدا اس سے بھی ایک اور دقیق جاندار کی مثال دینے نکل کھڑا ہوا جو یقیناً مبالغہ تھا، بلاغت کا قاعدہ یہی تھا کہ مبالغے کو برقرار رکھتا ناکہ اسے توڑ دیتا.

          ” بڑے آئے ہو اہل ادب میں سے.تم کون ہوتے ہو قران کی ایات پر اعتراجات کرنے والے. تمہارے بڑے کفار مکہ بھی اس وقت موجود تھے اور گونگے بہرے نہیں تھے،جب یہ ایات نازل ہوگئی تھی ، یہ جن شاعروں کی تم راگ الاپ رہے ہو تو انکے گروہ کے گروہ موجود تھے ،کسی نے اسکو خلاف ورزی قرار ہیں دیا اور تم آگئے کہ معترض بن گئے..امروالقیس کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالو گے ادب عربی میں ..ہیں نا؟؟؟؟ ”

          کنویں کے مینڈکوں کو ایسی غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں، یہ بلاگ پڑھتے رہیں، دور ہوجائیں گی.

          ” ورقہ ابن نوفل نے کہا تھا کہ اگر میں اس زمانے میں زندہ رہا جب حضور صل اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملے تو میں ضرور اسپر ایمان لاونگا. لیکن وہ اس وقت سے قبل فوت ہوگئے. ”

          اسلام کی آمد سے پہلے فوت ہوئے تھے یا بعد میں؟

          ” انبیاء کی بات تو یہ روایت حیات الحیوان میں موجود ہے. صحیح ضعیف کا معلوم نہیں .

          اور دراصل کفار مکہ جو کام نہ کرسکے تو اسلئے کہ ان میں عقل توڑی تھی اور انکو درست کلام اور غلط کلام کا فرق محسوس ہوتا تھا ،لیکن تم تو ان سے بڑ کر ہو کس میں ، ارے جہالت میں کہ جس کام سے انہوں نے ہاتھ روکا ،تم نے اسکو کرنے کا ٹھیکہ لے لیا. جب وہ نہ کرسکے تو تم کیا خاک کر لوگے.؟؟

          عربی بنائی جاسکتی ہے لیکن اسکو قران کے معیار کے مطابق بنانا، یہ ناممکن ہے. ”

          جاہل کون ہے یہ تو آپ کے اور بلاگستان کے علماء کی باتوں سے پتہ چل ہی رہا ہے رہی بات قرآن بنانے کی تو عربی ادب کے بڑے بڑے ادیب ایسے کئی قرآن بنا کر تمہارے منہ پر مار کر جاچکے ہیں، مگر تہماری آنکھوں پر تعصب کی پٹی اتنی کس کر بندھی ہے کہ تمہیں کچھ نظر نہیں آتا اور نظر نا ہی آئے تو اچھا ہے کہ گدھے کو گدھے کی موت ہی مرنا چاہیے کہ تمہارا وجود اس دھرتی پر بوجھ ہی ہے، تم نے انسانیت کو نا تو کچھ دیا ہے اور نا ہی دے سکتے ہو سوائے کفر، قتل اور دہشت گردی کے فتوؤں کے.

  4. بہت گمنڈ ہے عربی سیکھنے پر

    چلو ایک دو اعتراجات کا جواب تو دو

    1) اِن زیدُ کریمِِ
    اسکی ترکیب کرو.
    2)الحمد للہ رب العالمین کا ترجمہ کرو، لفظ بلفظ ہونا چاہئے.
    اگرترجمہ اس سے شروع کرتے ہو کہ تمام تعریفات …تو جناب تمام تعریفات کا ترجمہ کہاں سے آگیا.

    نیز القلم لزید اور الحمد للہ میں کیا فرق ہے.

    عربی جانتے ہو تو یہ سوالات کیا چیز ہیں .شاباش بچے

    اپنے ان چیلوں سے بھی مدد لو جو ہر وقت تمھارے بلاگ پر منڈلاتے ہیں مردار کھانے کیلئے.

    1. شاید آپ بھول رہے ہیں کہ دفاعی مورچے پر آپ ہیں میں نہیں چنانچہ آپ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کو عربی آتی ہے مجھے نہیں، میں بخوشی آپ کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہوں اگر آپ ثابت کردیں کہ آپ کو واقعی عربی آتی ہے، بس پیش کیے گئے قرآن کا ترجمہ کردیں.. 😀

      1. یہ پتہ بھی عنقریب چل جائے گا کہ میرا رب ریٹائرڈ ہے کہ ان ڈیوٹی ہے.
        تمہارے نظر سے کیا غائب ہوا کہ تم نے بڑکیاں مارنی شروع کی.اب بھی تمہارے کندے پر اسکے دو نگران بیٹھے ہیں.
        قران میں ہے کہ إن ربك لبالمرصاد.تمہارے انتظار میں ہے.

        کھا پی تو رب العالمین کے رہے ہو اور گُن گوگل کے گائے جارہے ہو.گوگل نے جیسے اسکو عقل و جسم دیا ہے.

        1. ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بت توڑے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان بتوں سے اپنی نصرت کی دعاء کریں تاکہ عملی طور پر یہ ثابت کر سکیں کہ ان کے خدا جعلی ہیں، یہی تجربہ آج کے خداؤں پر کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وہ اس امتحان پر پورے اتر پائیں گے؟ کیا یہ خدا اپنے غلاموں کی نصرت کے لیے آئیں گے؟

  5. نا سمجھ، جذباتی، بھڑکیلے، شدت پسند، جنون کی حد تک کٹر مذہبی اور اندھے عقیدتمند بہت دیکھے ـ ان کے کسی بھی ثبوت کو عقل تسلیم نہیں کرتی ـ

    بات سمجھ نہ آئے تو بھڑک جانا اور مزید بھڑک جانا یہ ایک عام مذہب پسند کا روایتی جنون ہے ـ

    اینڈرسن شا ، میں جانتا ہوں کہ تمہاری اِس تحقیقی تحریر سے کچھ مذہب پسند جنون کی حد تک جذباتی ہوجائیں گے حالانکہ تمہاری اِس تحریر میں سمجھدار کیلئے بہت سے اشارے ہیں ـ اور تم ضرور بضرور ایسی تحریریں لکھا کرو تاکہ کم از کم کچھ تو لوگوں کی بینائی لوٹ آئے ـ

    فکر نہ کرو اینڈرسن شا ، کہ تمہاری یہ تحریریں کچھ لوگوں کی سمجھ سے باہر ہیں ـ ہر خاص و عام بھی تمہاری اس تحریر کو سمجھ سکتا ہے بشرط مذہب آڑے نہ آئے ـ اُن لوگوں کے پاس زبردست موٹی کتابیں ہونگی ثبوت کے طور پر، لمبی لمبی کہانیاں بھی ـ مگر اُن کو غلط ثابت کرنے کیلئے تمہاری یہ پوسٹ ہی کافی ہے ـ
    اور تم چھا گئے اینڈرسن شا ـ

  6. جعلی قران کا پول بھی کھل گیا .جناب میں اگرچہ عربی دان نہیں ہوں اور نا ہی اہل ادب عربی میں سے ہوں لیکن
    جعلی قران کے اول تصویر جو تم نے پوسٹ کی ہے تو اسکا جملہ نمبر 5 غلط ہے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے.

    اسمیں عمومی خطاب اسطرح ہے کہ یائیھا الناس انا خلقناکم من تراب صلصال لعلکم تشکرون ،حالانہ یہ جملہ معنی کے لحاظ سے غلط ہے صریح غلط.

    کیونکہ خطاب عام ہے یا ئیھا الناس کے الفاظ سے پھر کہا ہے کہ خلقناکم من تراب صلصال اور پھر کہا ہے کہ لعلکم تشکرون

    حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ تراب صلصال سے صرف آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں . پھر عام انسان نطفہ یا لحم شحم سے بنا ہے.تو صرف رات صلصال (جو کہ آدم کی صفت ہے) سے عام انسانوں کو کس طرح مکاطب کیا جاتا ہے. کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اے پاکستانیوں اور پھر اس نام سے دنیا کے انسانوں سے خطاب کرئے. ظاہر ہے وہ کہیں گے کہ ہم مخاطب ہی نہیں تو احکام کا کیا معنی.کیونکہ پاکستانی صفت تمام انسانوں کی نہیں بلکہ بعض انسانوں کی ہے.

    اب اعتراض یہ ہے کہ صفت کو ایک آدمی والی ذکر اور اسکے ساتھ خطاب عام انسانوں کو مخاطب کیا ہے اور یہ بات درست نہیں ہے فصاحب اور معنی اور مفھوم کے لحاظ سے.

    کیونکہ صرف آدم کو تراب صلصال سے بنایا تھا پھر عام انسانوں کو کیوں یہ بتا کر شکر کی طرف انکو لانے کی کوشش کی جاتی ہے؟؟

    اگر تم یہ اعتراض کرو کہ قران مین بھی صرف صلصال کا لفظ ذکر ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہاں صرف آدم مراد ہوتے ہیں ناکہ تمام عالم انسانیت.

    دوسری بات یہ کہ قران میں بعض مواقع پر عام انسانوں کیلئے تراب کا لفظ ذکر ہے لیکن اسکے ساتھ ہی نطفہ یا بشر (لحم و شحم )کا ذکر بھی ہے تاکہ کوئی یہ اعتراض نہ کرسکے کہ صرف تراب سے آدم پیدا ہوا ہے اور نزول قران کے وقت وہ فوت ہوئے تھے.بلکہ تراب کے بعد نطفہ یا بشر کا ضرور ذکر ضرور ہے تاکہ تمام عالم انسانیت کو خطاب کرنے کا جواز مل سکے اور اعتراض کا موقع نہ رہے.

    یہ تھا آپکا جعلی اور من گھڑت قران .

    میں نے کہا کہ میں اہل زبان یعنی عربی نہیں ہوں اور نا ہی میں اہل عرب کا شاعر یا اہل ادب ہوں ورنہ تمھارے اس جعلی قران کی دھجیاں بکھیر دیتا.

    کفار مکہ میں ایک شخص نے بھی اسطرح کی کوشش کی تھی چنانچہ قران کی ایت والسماء ذات البروج کے مقابلے میں اس نے کہا تھا کہ والنساء ذات الفروج …جس کو سن کر اہل عرب کفار اور اہل ادب نے اسکوخوب بے عزت کیا تھا اور خود کفار مکہ نے اسکے اس مقابلے کا مزاق اڑایا تھا.

    اور یہ جو چیلے ہی‌آپکے ان کی تو دنیاء و اخرت تباہ ہے . ارے کم بختوں اینڈرسن شا کیلئے لوگ ہدایت کی دعائیں کر رہے ہیں اور اگر اسکو ہدایت مل گئی تو تم تو ویسے ہی میدان میں لاوارث رہ جاؤ گے.

    پھر قیامت کے دن نہ کہنا کہ اینڈرسن شا نے ہم کو گمراہ کیا تھا. اور یہ خود تو سدھر گیا اور ہمیں گمراہ کرکے چھوڑ دیا

    1. اول تو بات اب کیڑے نکالنے والی ہی رہ گئی ہے، یہ قاعدہ کس نے وضع کیا ہے کہ صرف آدم ہی صلصال سے بنائے گے تھے؟ کیا یہ لغوی قاعدہ ہے؟ یقیناً نہیں، لغت کی غلطی نکالتے تو بات بھی تھی، اور ویسے بھی اگر اس میں غلطی ہے بھی تو اسے تھوڑے غور وغوض کے بعد دور کیا جاسکتا ہے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، اگر میں قرآن کی لغوی غلطیاں نکالنے بیٹھوں تو آپ تاویلین پیش کرتے کرتے بوڑھے ہوجائیں گے، آخر کو یہ بھی انسانی تصنیف ہے اور وہ بھی.. فرق کوئی نہیں ہے، مقصد صرف ” اس جیسا لاکر دکھاؤ ” کے دعوے کا گھمنڈ توڑنا تھا جو ٹوٹ چکا، اب چیخیں، چلائیں، یا ناچیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا..

  7. فرہان محمود :

    جناب اگر اس فیلد سے واقف نہیں تو کیوں اپنا سر اوکھلی میں دے رہے ہو. سمجھ کر کیا کروگے. جنہوں نے سمجھا، اینڈرسن شا وغیرہ انہوں نے کونسا کمال کردیا ہے ، بس اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. بے چارے.

  8. محمود تمہارے لئے، اور تم جیسے اگر اور ہوں انکے لئے
    .
    امام غزالی کی نصیحت
    بے شک عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لا کر اپنی عبادات اور روزگار میں مشغول رہیں، اور علم (دینی) کو علماء کیلئےچھوڑ کر انکے حوالے کریں ۔عامی شخص کا دینی علم کے سلسلے میں حجت کرنا زناء اور چوری سے بھی زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے۔کیونکہ جو شخص دینی علوم میں بصیرت اور پختگی نہیں رکھتا وہ اگر اللہ تعالیٰ اور اسکے دین کے مسائل میں بحث کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ ایسی رائے قائم کرے جو کفر ہو اور اسکو اسکا احساس بھی نہ ہو کہ جو اس نے سمجھا ہے وہ کفر ہے۔اسکی مثال اس شخص کی سی ہے جو تیرنا نہ جانتا ہو اور سمندر میں کود جائے۔(احیاءالعلوم ۔ص۳۶،ج ۳)

  9. صحیح فرمایا مہتاب خان!! میں چلتا ہوں اور دین کا مطالعہ بالکل بیسک سے شروع کرتا ہوں، یہاں تو عربی کی گرامر پر بحث ہو رہی ہے جبکہ مجھے اردو گرامر کا بھی اِتنا زیادہ پتانہیں ہے. 🙂 اللہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پہ چلنا نصیب فرمائے، آمین !!!

  10. ہمیں خدا کی طرف سے ایسے لوگوں کو صفاءیاں پیش کرنے کی کوی ضرورت نہیں. اللہ ان پر حقیقت خود ہی واضح کر دے گا. دنیا میں ہی ہو جاے تو اچھی بات ہے ورنہ آخرت میں! جب انکار کرنے والے کہیں گے”کاش! میں مٹی ہو جاتا”.
    اور اینڈرسن شا صاحب ہدایت اسی کو ملتی ہے جو سچے دل سےخدا سے اس کی تمنا کرتا ہے. اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرماے

  11. کیا آپ قرآن مجید کے علاوہ کوءی کتاب لا سکتے ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہو. قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اسی نے لیا ہے. پوری دنیا میں لاکھوں حفاظ کڑوڑوں انسانوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس کتاب کو پڑھتے ہیں. کیی کفار بھی اس بات کے معترف ہیں کا اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں ہویء. کیا کویء اب تک ایسی کتاب ایجاد کر سکا؟؟؟؟؟

  12. اینڈرسن شا صاحب،
    آپ کی دو تین باتیں آپ کے لکھے کو غارت کر دیتی ہیں.
    آپ قرآن کو خدا کی کتاب نہیں‌مانتے، آپ خدا کو نہیں‌مانتے، آپ محمد صلعم کو نبی نہیں مانتے اور اس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ آپ حنبلی مسلمان ہیں. کیا آپ ایک پوسٹ اس پر بھی لکھیں گے کہ آپ کس طرح کے مسلمان ہیں. یا چلیں‌آپ مسلمان ہونا ہی ثابت کر دیں.
    آپ اپنے مخالفین کو انتہائی گرے ہوئے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں اور خود کو ہر غلطی سے مبرا خیال کرتے ہیں. یہ سوچ اس آدمی کی نہیں‌ہو سکتی جو اپنے معاشرے کو سنوارنے کا دعوی کرتا ہے.
    خدارا کھل کر سامنے آئیے تا کہ پڑھنے والوں کو پتہ چل سکے کہ آپ کون ہیں اور آپ کے نظریات کیا ہیں. کیا آپ لادین ہیں، ملحد ہیں، یا مرتد ہیں. کیونکہ اسلام پر اتنی سخت تنقید کرنے والا مسلمان ہو ہی نہیں‌سکتا جو مسلمان ہونے کے بنیادی اصولوں کو ہی نہ مانے یعنی خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور قرآن کو خدا کا کلام ماننا.

  13. اچھا ہماری تو بیستی ہوئی، تو کیا آپ کی عزت ہوئی. عجیب وضح کے آدمی ہیں‌آپ.
    احمد صاحب ہمارے لکھے کو ھذیان کہ دیا اور جو خرافات اینڈرسن شا صاحب نے لکھیں ان پر خاموشی اختیار کر لی. یہ کہاں کا انصاف ہے.

    1. جناب ایسا کیا لکھ دیا اینڈرسن شا نے، میرے خیال میں انھوں نے ایک صاحب کی پوسٹ کا جواب دیا ہے، اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوے۔
      اگر آپ کو ان کی باتیں خرافات لگتی ہیں تو ان کا جواب دیں دلیل سے، جیسا کہ اینڈرسن شا نے کیا۔

  14. ہم نے آپ سے کچھ سوالات پوچھے جو ہماری غلطی کی وجہ سے پس پشت چلے گئے. ہمیں واقعی آرٹ والے تبصرے میں‌آپ کی ماں بہن کا نہیں لکھنا چاہے تھا. ہم اس لکھے پر معذرت خواہ ہیں. مگر خدارا اب تو ہمارے پہلے تبصرے کا جواب لکھ دیجیے. اس کی نقل دوبارہ یہاں‌چھاپ رہے ہیں.
    اینڈرسن شا صاحب،
    آپ کی دو تین باتیں آپ کے لکھے کو غارت کر دیتی ہیں.
    آپ قرآن کو خدا کی کتاب نہیں‌مانتے، آپ خدا کو نہیں‌مانتے، آپ محمد صلعم کو نبی نہیں مانتے اور اس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ آپ حنبلی مسلمان ہیں. کیا آپ ایک پوسٹ اس پر بھی لکھیں گے کہ آپ کس طرح کے مسلمان ہیں. یا چلیں‌آپ مسلمان ہونا ہی ثابت کر دیں.
    آپ اپنے مخالفین کو انتہائی گرے ہوئے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں اور خود کو ہر غلطی سے مبرا خیال کرتے ہیں. یہ سوچ اس آدمی کی نہیں‌ہو سکتی جو اپنے معاشرے کو سنوارنے کا دعوی کرتا ہے.
    خدارا کھل کر سامنے آئیے تا کہ پڑھنے والوں کو پتہ چل سکے کہ آپ کون ہیں اور آپ کے نظریات کیا ہیں. کیا آپ لادین ہیں، ملحد ہیں، یا مرتد ہیں. کیونکہ اسلام پر اتنی سخت تنقید کرنے والا مسلمان ہو ہی نہیں‌سکتا جو مسلمان ہونے کے بنیادی اصولوں کو ہی نہ مانے یعنی خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور قرآن کو خدا کا کلام ماننا.

    1. افضل صاحب آپ کو معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہر آدمی سے غلطی ہوجاتی ہے کہ ” وخلق الانسان عجولاً ” اور ایک انسان ہونے کے ناتے سامنے والے کو بھی یہ چیز سمجھنی چاہیے، آپ معذرت نہ بھی کرتے تو بھی میں ںے آپ کی بات کا ہرگر برا نہیں منایا تھا 🙂

      رہی بات آپ کے سوالوں کی تو آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں تو میں مختصراً جواب لکھ دیتا ہوں کہ ابھی میں کچھ اہم کاموں میں مصروف ہوں:

      میں قرآن کو اللہ کی کتاب مانتا ہوں، میں اللہ کو بھی مانتا ہوں، اور خاتم الانبیاء علیہ افضل الصلاہ واتم التسلیم کو بھی صدق دل سے مانتا ہوں، اگرچہ میں اہل حدیث مکتب فکر کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتا ہوں کہ تقلید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کی کرنی چاہیے اور اس کے لیے کسی امام کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے باوجود میں اپنے پیدائشی حنبلی مسلک یعنی تقلید سے چمٹا ہوا ہوں اسے آپ ہٹ دھرمی کہہ سکتے ہیں 😀

      اپنے مخالفین کو میں گرے ہوئے الفاظ سے قطعی یاد نہیں کرتا اور نا ہی آپ میری کسی تحریر سے یہ بات ثابت کر سکتے ہیں، اس کے برعکس جو حضرات خود کو میرا مخالف کہتے ہیں وہ مجھے ایسے غلیظ الفاظ سے یاد کرتے رہتے ہیں اور اپنی مسلمانی ثابت کرتے رہتے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ مجھے کسی حوالے کی ضرورت ہے…

      رہی بات تنقید کی تو فرق صرف نقطہ نظر کا ہے جسے تبدیل ہونا چاہیے، مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنائے تو یہ آپ کی نظر میں گستاخی اور ان کی توہین ہے، لیکن میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر کارٹون بنانے سے خاتم الانبیاء علیہ السلام کی شان میں کمی آتی ہے تو میں انہیں خاتم الانبیاء نہیں مانتا !!

      ولک منی اجمل تحیہ

      1. کہیں ایسا تو نہیں کہ جس قرآن کو آپ مانتے ہیں وہ صرف آپکے پاس ہے ۔ جس خدا کو آپ مانتے ہیں اس سے آپکی ملاقات بھی ہو گئی ہے ۔ مسلمانوں کو درست کرنا اب آپ کی ذمہ داری ہو گئی ہے ۔ مسلمانوں کو بھی اپنی بھلائی کیلئے آپکی باتیں ماننے کی عادت ڈالنی چاہیئے ۔

        1. بالکل بجا فرمایا، جس قرآن کو میں مانتا ہوں وہ صرف میرے پاس ہی ہے جس کی دو سورتیں اوپر پیش بھی کردی ہیں، پہلی سورہ غنم ہے اور دوسری سورہ جاموس ہے، باقی سورتیں راستے میں ہیں جیسے ہی مکمل ہوتی ہیں نبوت کا دعوی داغ دوں گا اور سب سے پہلے آپ کو ہی مطلع کروں گا..

          1. اپنی باتوں پر ہمارے ایمان لے آنے کی امید نہ رکھیئے گا ۔ بہرحال آپکی باتیں انٹرسٹنگ ہیں ۔ امید ہے آپ اپنے کلام (غنم اور جاموس) کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی جلد ہی شائع کر دیں گے ۔ کسی دوسرے کے کیئے ہوئے ترجمے میں اسکا پرسنل بائس بھی شامل ہو جاتا ہے ۔

      2. اینڈرسن شا صاحب آپ خود تو مسلمان ہیں اور باقیوں کو ملحد بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ جب آپ نبی آخر زماں (ص) اور قرآن پر یقین رکھتے ہیں اور اس کتاب کو اللہ کا کلام مانتے ہیں پھر یہ سب بحث چہ معنی دارد؟

      3. مینوں کجھ کجھ تواڈی سمجھ آن لگ پئی اے ، پر فئیر چکرا جانا واں ، تسی کھل کھلا کے اک وڈیوں (یعنی تمام سیاق و سباق ) اپنی گل (نقطہ نظر) دسو (پیش کرو) ہوسکدا اے میرا ووٹ توادے ول ہوجاووے ۔خدا نے کھربوں انسان ہیں پیدا کئیے ہیں کسی کی شکل ،عقل ، فہم، ادراک ، قسمت ایک جیسا نہیں، لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کا نقطہ نظر ایک جیسا ہوتا ہے، بہر حال انسان ہے اور اسے سمجھنا خالق ہی کو سزاوار ہے، آپ کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، جو آپ کو سمجھتے ہیں وہ بھی ادھورے ہیں ، پتہ نہیں کس بنا پر آپ کی تائید کرتے ہیں، لیکن آپ کی سوچ ایک منفرد سمت اشارہ کرتی نظر آتی ہے۔

  15. یہی ہم ٹیسٹ‌کرنا چاہتے تھے کہ اسلام کیخلاف لکھنے والا کتنا پڑھا لکھا اور بردبار ہے. پہلے سوال کا جواب تو گول کر گئے اور دوسرے سوال پر سیخ‌پا ہو گئے. آپ مسلمان ہو نہیں‌سکتے کیونکہ مسلمانوں والی ایک بھی بات آپ کی کسی تحریر میں نظر نہیں آتی. نام سے لگتا ہے مسلمان گھرانے میں‌پیدا ہوئے، مسلمان ہی جوان ہوئے اور پھر مرتد ہوگئے.

      1. جی ہاں بقول صاحب کے میرے تحمل کا امتحان لے رہے تھے اور یہ بھول گئے کہ گالیاں دے کر بھی ان کا تبصرہ شائع کیا گیا ہے بلکہ جتنے لوگوں نے بھی مجھے گالیاں دیں ان سب کے تبصرے یہاں شائع ہوئے ہیں، اگر میں ایسے تبصرے سرے سے شائع ہی نہ کروں تو یہ حضرات میرا کیا بگاڑ لیں گے؟ مگر یہ شاید ان کی نظر میں تحمل نہیں ہے، کیونکہ ان کے ہاں تحمل کا پیمانہ کلاشنکوف ہے..

  16. یہ جو اسلام کیخلاف خرافات لکھنے کا سلسلہ آپ نے شروع کیا ہے اس سے کچھ نہیں‌بگڑنے والا. جو باتیں آپ لکھ رہے ہیں یہ صدیوں سے لکھی جا رہی ہیں اور ان خرافات کے باوجود اسلام مزید پھیلا ہی ہے ختم نہیں ہوا. آپ جیسے لاکھوں لوگوں کی تحاریر سے انٹرنیٹ‌بھرا پڑا ہے، پاکستان میں آپ جیسے ترقی پسند بھی مسلمان اکثریت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے بلکہ روس کی شکست کے بعد امریکہ کے گن گانے لگے اور سرخوں سے سفیدے ہو گئے.

  17. جناب آپ نے تو عجیب مخمصے میں‌ڈال دیا ہے. قرآن کو خدا کی کتاب بھی مانتے ہیں تو پھر آپ نے یہ کیوں‌لکھا
    "اس کے علاوہ قرآن میں بہت ساری تعبیری، نحوی اور بلاغی غلطیاں موجود ہیں جس سے بجا طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک انسانی خرافت کے سوا کچھ نہیں، مثلا خدا کہتا ہے:”
    معاف کرنا ہمارا علم محدود ہے اسلیے آپ کی بہت ساری باتیں جو آپ کے عقیدے سے متصادم ہیں انہیں‌سمجھنے سے قاصر ہیں. اس کی مثال آپ کی موجودہ تحریر ہے جو سراسر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ قرآن انسانی تخلیق ہے، اس میں‌بہت ساری غلطیاں ہیں، اس میں پرانے قصے کاپی کئے گئے ہیں، قرآن کیلیے خدا کے پاس الفاظ کم پڑ گئے اور اس نے بار بار الفاظ دہرائے، قرآن پر ایک شاعر کی چھاپ ہے. آپ کی اس تحریر اور خاص طور پر اس کا اختتام تو آپ کے دعوے یعنی قرآن کو خدا کی کتاب قرار دینے کو مسترد کرتا ہے.
    "جذباتی قسم کے لوگوں کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ انسان جو اپنی عقل سے چاند پر پہنچ گیا اور اب مریخ کو سر کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے وہ ایک معمولی سی کتاب کے آگے بے بس ہوجائے گا؟

    فاعتبروا یا اولی الالباب..!!

    ویسے اگلی بار کس کا پنگا لینے کا ارادہ ہے؟”
    اب اس کے جواب میں ہمیں‌بھی نہ لکھ دینا کہ اور پنگا لو بچو.
    یہی بات ہمیں‌پریشان کر رہی ہے کہ آپ جیسا مسلمان کیسے قرآن کو انسانی کتاب ثابت کرنے کیلیے اتنا زیادہ وقت نکال کر اتنی لمبی لمبی تحاریر لکھ رہا ہے جن کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ قرآن خدا کا کلام نہیں‌ہے.

    1. دیکھیے اب یہ ایک لمبی بحث ہے، مختصراً یہ کہ میری ہر تحریر میں ایک کمزور نقطہ یا ” ویک پوائینٹ ” ہوتا ہے، اس ساری بکواس کو صرف دو منٹ میں (تھوڑے سے استثناء کے ساتھ) زمیں بوس کیا جاسکتا ہے.. یہی وجہ ہے کہ جو سمجھ رہا ہے وہ لطف اندوز ہو رہا ہے اور جو نہیں سمجھ رہا وہ سیخ پا ہو رہا ہے 🙂

  18. امید ہے اس بکواس کو زمین بوس کرنے کیلیے اگلی پوسٹ ضرور لکھیں گے اور بتائیں‌گے کہ ایک مسلمان کیسے اپنے ہی نظیرے کیخلاف قرآن میں کیڑے نکالنے کا حق رکھتا ہے، خدا کے نہ ہونے پر لمبے چوڑے مضامین باندھتا ہے اور نبی پاک کو ایک عام ان پڑھ آدمی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن ان کی تخلیق ہے اور انہوں نے پرانے واقعات کو نہ صرف کاپی کیا ہے بلکہ ایک شاعر کی کاپی کی ہے. ہم سیخ پا نہیں‌ہو رہے بلکہ اس مخمصے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک مسلمان ہوتے ہوئے ہم ان خرافات کا کیسے حق رکھتے ہیں.

    1. ازازیل سب ملکاں دا استاد منیاں جاندا سی (علم دی بناء تے) تے رب دے بڑا لاگے لاگے رہندا سی ،تے اک دن آکھدااے پئی مینوں اینج جاپدا اے(مجھے معلوم ہوتا ہے) اک راندہ درگاہ ہوون والا اے تے سارے ملک سہم گئے ، تے آپے آکھدا اے پئی ڈرو نہ تہاڈے وچوں کوئی نئی جنہوں اے طوق پیئنا ایں ۔ علمی دلائل نل ابلیس کولوں کوئی نئی جت سکدا ،اوہدے لئی صرف آعُوذُ بِااللہِ مِنَ الْشیِطَنِ الْرَ جِیمْ ، کافی اے۔ بھلےّ شاہؒ کہندے نے
      علموں بس کریں او یار
      اکو الف تیرے درکار
      علیم نہ آوے وچ شمار
      جاندی عمر نئی اعتبار۔

  19. تنقید اپنے اوپر کریں ناں‌جناب. کیوں سوا ارب انسانوں کے نبی، اس کے خدا اور اس کی کتاب کو ہدف تنقید بنا کر سب کی دل آزاری کر رہے ہیں. آپ جانیں اور آپ کا خدا جانے، تو پھر انٹرنیٹ پر تحاریر لکھنے سے بہتر تھا آپ اپنا معاملہ اللہ تک ہی رکھتے. انٹرنیٹ پر لکھ کر آپ نے لوگوں کو بھی اپنے گناہ میں‌شامل کر لیا ہے جو آپ کے حواری ہیں.
    ہماری آپ سے یہی التماس ہے کہ خدارا اسلام پر تنقید کرنا ترک کر دیں تا کہ دنیا جہان کے مسلمانوں کی دل آزاری نہ ہو.آپ وہی کچھ کر رہے ہیں جو سویت یونین کے عروج کے دور میں‌ترقی پسند پاکستان میں کیا کرتے تھے.

  20. افضل صاحب، توجہ چاہوں گا :

    ١ ـ دوسرے مذہب پرستوں کو کافر بولنا کیا تنقید نہیں؟
    ٢ ـ دوسرے مذاہب کو جھوٹا ثابت کرنے میں آپ کو مزہ آتا ہے !
    ٣ ـ آپ کی نظر میں صرف قرآن مقدس ہے، اور باقی مذہبوں کی کتابیں بکواس ـ
    ٤ ـ آپ کی مقدس کتاب اور نبی پر تحقیق کرو تو تنقید !
    ٥ ـ آپ کو اپنے انبیاء کی صحیح گنتی اور تاریخ نہیں معلوم ـ
    ٦ ـ آپ پر دوسرے مذاہب کی تنقید جائز ـ اور خود کے مذہب پر کرو تو سیخ پا !
    (دوسروں کا مذاق اُڑاتے ہو، تنقید کرتے ہو، جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو ـ ـ ـ تو پھر میری آپ سے گذارش ہے کہ آپ بھی تاریخی حوالوں سے کچھ ثابت کریں سیخ پا ہونے کی بجائے)
    (نوٹ: میں کٹر مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہوں، میری والدہ دیوبندی جماعت اور والد کا تعلق اہلِحدیث جماعت سے ہے ـ بحرحال، ہم کثیر المذاہب والے سیکولر ملک میں رہتے ہیں ـ میرا خیال اور ماننا ہے کہ جب تک اپنے مذہب میں رہو تو اپنا مذہب کے سِوا باقی مذاہب جھوٹ لگتے ہیں ـ اور ذرا اپنے مذہب سے باہر نکل کر دیکھیں اور محسوس کریں ـ پھر سب کچھ سمجھ آجاتی ہے ـ شروع میں، میں بھی عام مذہبی کی طرح مذہب سے ہٹ کر سوچنے کو گناہ سمجھتا تھا ـ کیونکہ ہم انسانوں کے پاس عقل ہے اور ہم سوچ سکتے ہیں سمجھ بھی سکتے بشرط مذہب کے دائرہ میں نہیں)
    شعیب

    1. جدوں بندہ پل پوس کے وڈا ہوجاندا اے تے اہنوں اختیار کے او بھاویں خبیث بن جائے تے بھاویں انسان ۔ پر اک گل چنگی کیتی اُؤ، پئی کسے دے مذہب نوں نکھِندنا (پیڑا کَہنا یعنی بُرا) اے چنگا کم نئی ، جو چنگا سمجھدے او اہدی دعوت دوو کوئی منےّ بھاویں نہ منےّ انہوں تکےّ نل نہ مناو آپے بھگتے گیا پئیا جدوں کسے یبّ وچ پئے گا۔

  21. شعیب صاحب
    پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی مذہب پر اس طرح تنقید نہیں کی اور نہ ہی دوسری کتابوں کو برا بھلا کہا ہے. آپ جانتے ہیں مسلمان ایسے ہی اپنے نبی سے پیار کرتے ہیں جیسے لوگ اپنے ماں باپ سے. اگر لوگ اپنے ماں‌باپ کیخلاف کوئی بری بات سننے کو تیار نہیں ہوتے تو پھر اپنے نبی کیخلاف کیسے سنیں گے. فرض کریں اگر آپ کی ماں بہن کو کوئی گالی دے اور کہے کہ وہ تنقید کر رہا تھا تو آپ خاموش رہیں گے. نہیں‌ناں. یہی حال مسلمانوں کا ہے.
    تاریخی حوالوں سے ثبوت اب تو انٹرنیٹ‌پر بھرے پڑے ہیں آپ ہر سوال کا جواب ڈھونڈ سکتے ہیں.
    دراصل جب آدمی مذہب سے بیزار ہو جاتا ہے تو پھر اس کی نظر میں خدا اور اس کے مذاہب کی کوئی اہمیت نہیں‌رہتی مگر جو مذہبی آدمی ہے جیسے آپ کے والدین تو آپ اپنے والدین سے پوچھ سکتے ہیں کہ ان کے نبی کیخلاف اس طرح نازیبا الفاظ استعمال کرنا انہیں‌کتنا برا لگتا ہو گا. ہمیں‌امید ہے آپ اپنے والدین کی دلجوئی کیلیے کبھی ان سے وہ باتیں نہیں‌کرتے ہوں‌گے جو اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں. یہی کچھ آپ دوسرے لوگوں کیلیے بھی کر سکتے ہیں. یعنی آپ لادین ہو جائیں، خدا اور اس کے رسول کو نہ مانیں‌مگر خدارا اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کی دل آزاری سے پرہیز تو کر سکتے ہیں.

  22. السلام علیکم ورحمتہ اللہ .
    جو بھائی . اینڈرسن شا صاحب سے اختلاف رکھتے ہیں ، انہیں چاہے کہ اگر وہ صاحب علم ہیں اور قرآن وحدیث کا مکمل علم رکھتے ہیں‌تو ضرور ان سے اپنے سوالات کریں‌، اگر نہیں رکھتے تو برائے مہربانی احتیاط کریں‌کہیں نادانستگی میں رب کائنات کی یا اس کے کلام کی گستاخی نہ ہو جائے .
    اینڈرسن شا صاحب! اگر آپ واقعی اس حوالے سے کچھ مفید گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو کوئی اور پلیٹ فورم منتخب کیا جا سکتا ہے جہاں آپ کے ان تمام اشکال کا جواب دیا جا سکے یا اگر آپ کا مقصد صرف اپنے بلاگ میں ٹریفک کو بڑھانا ہے اور اپنے ہمنواؤں کو اکٹھا کرنا ہے تو پھر جاری رکھیں یہاں‌تک کہ اللہ کی طرف سے فیصلہ آ جائے . امید ہے کہ آپ میری باتوں کا برا نہیں مانیں گئے . اگر مزید مفید گفتگو کی خواہش ہو تو آپ مجھے میری ای میل پر مطلع کر سکتے ہیں . شکریہ .
    والسلام علیکم .

    1. قبلہ میرے پاس اپنا ایک پلیٹ فارم موجود ہے جس پر میں آزادی سے اپنا اظہار خیال کر سکتا ہوں اور دوسروں سے گفت وشُنید بھی، مجھے کسی اور کے پلیٹ فارم پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں آپ کے کسی پلیٹ فارم پر آجاؤں تو سنجیدہ اور اگر نہیں تو بلاگ کی ٹریفک بڑھانے کا خواہشمند!؟ اگر مجھے اپنے بلاگ کی ٹریفک بڑھوانی ہوتی تو سیارہ سے اپنے بلاگ کو خود ہی نہ نکلواتا، آپ کا یہ الزام بے جا ہے 🙂

    2. عکاشہ الاثری بھائی صاحب. بات کو سمجھنے کی کوشش کریں. یہ ٹریفک کی بات نہیں‌ہے اور نہ کسی کو سمجھانے سکھانے یا اس کی اصلاح ہی کی بات ہے. خود اینڈرسن شا صاحب کے اس جملے پر غور فرمائیں‌:
      <>
      ویسے اینڈرسن شا بھائی صاحب. کم از کم میں تو سیخ پا نہیں ہو رہا لیکن …. "لطف اندوز” ہونا بھی میرے لئے ناممکن ہے!

  23. قرآن میں موجود آیت جیسی آیت تو بنانے کی کوشش بھی کی گئی تھی لیکن وہ کوشش ناکام ہو گئی تھی بالکل اسی طرح جس طرح اینڈرسن شا کی کوشش ناکام ہوئی ہے دراصل بات یہ ہے کہ نقل کر لینا آسان ہوتا ہے لیکن اس میں عقل کی بات ڈالنا آسان نہیں ہوتا اگر ایک صاحب بہت اچھی نعت پڑھتے ہیں تو ان کی کاپی کر کے کوئی شخص ان کی یاد دلا سکتا ہے لیکن وہ شخص ان کی جگہ نہیں لے سکتا اینڈرسن شا صاحب نے قران سے غلطیاں بھی نکالی ہیں لیکن مجھے اب بھی امید ہے کہ عربی زبان جاننے والے اینڈرسن شا کی غلط فہمیوں کو دور کریں گے یوں لگتا ہے کہ ہمارے علمائے حق نے انٹرنیٹ کا استعمال شروع نہ کیا تو حالات دگرگوں ہوتے چلے جائیں گے…شرلے چھوڑ دینا آسان ہوتا ہے لیکن اینڈرسن شا نے صرف شرلے نہیں چھوڑے ہیں تحقیقی سوالات بھی کیے ہیں جن کے جوابات آنے ازبس ضروری ہیں باقی یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اینڈرسن شا صاحب اپنے خاص انداز میں طنز و استہزاء کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور عام مسلمانوں کو علم کی مار دے رہے ہیں یہ سوچے بنا کہ آپ کو اگر رب نے اس قدر عطا کیا ہے تو آپ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیے آپ کیوں اس بات کے مشتاق نظر آتے ہیں کہ کفر کے فتووں کی صورت میں آپ کو انعامات ملیں اور آپ درجہ استناد پر فائز ہو جائیں حیرت اس بات پر ہے کہ آپ مقلد ہو کر اس قدر آزاد خیال ہیں اور ہم غیر مقلد ہو کر بھی گستاخی کی مسند پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے!!!اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین!!!

  24. اینڈرسن شا صاحب آپکی تحریر پر اعتراض کرنے والوں کی حالت ایسی ہی ہے جن کے بارے میں قران دعویٰ کرتا ہے کہ وہ گونگے بہرے اور اندھے ہیں اور ایمان نہیں لائیں گے ۔آپکی تحریر نہایت واضح اور صاف ہے لیکن اگر کوئ صرف تنقید اور تنقیص کے لئے اسے پڑھےتو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس کے مثبت پہلووں کا ادراک کر سکے

  25. کیا نام ہے تیرا ؟
    ایان شاہ ؟ نہیں نہیں
    اینڈرسن شاہ ؟ نہیں نہیں
    پھر کون ہو ؟ کیا چاہتے ہو ؟ میں ہالی تک پمبھل پوسے چو نئی نکل سکیا پئی تو ہے کی شے ایں؟ کی سمجھاونا چاہنا ایں؟ دعوی کس چیز دا اے تیرا ؟ مینوں کجھ کجھ سمجھ آونی شروع ہوئی اے پر فیئر میری کم عقل کُم جاندی اے ، تیری بڑی مہربانی ایں میری ایس ای میل تے سوکھی جئی اردو وچ اپنا مدعا لکھ کے بھیج ، ایتھے مینوں کوئی پتہ نئی لگن ڈیا کہ کیہڑا کی کہنا چاہندا اے ، میں انپڑھ ضرور آں پر ماڑا مو ٹا سمجھن دا شوق وی اے ۔ جیوندا رہو تے وس دا رس دا رہو پر مینوں جواب ضرور دیویں ، ہلہّ ، اڈیکاں رکھن والا ، انوارالحق۔

    1. arifkarim صاحب کی ہویا باؤ جی بڑی چھیتی سَوڑے (تنگ) پَئے گئے او ، مینوں گلوں لاہن لئی بلاک والی آپشن ورتو ، نئی تے چمبڑیا رہواں گا ۔ جہاد سب تو پہلے اپنے نفس نل کردا رہناں واں پر ہالی جِتیا نئی ، اللہ چاہئیا تے جت جاواں گا ، تے جیہڑے لوگ چوٹھے جہاد کردے نے پئے اوھوی مغلاطے وچ نے ۔ پر تُسی کی پئے کردے او؟

  26. ان صاحبان کے لیے ایک حقیر کوشش جو خدا ، اسکے نبیؐؑ ، اور قرآن سے منحرف ہیں۔
    شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے حق بات !
    ممکن ہے مرنے سے پہلے خدا ، رسولؐ ﷺ ، اور قرآن کے منکر تائب ہو جائیں ، اور دنیا و آخرت کی لعنت والی زندگی سے بچ جائیں۔ رہی ان لوگوں کی بات جو قرآن اور احادیث کا غلط استعمال کرکے دنیا میں فساد کئیے ہوئے ہیں تو وہ سراسر ابلیس کے چیلے ہیں ، صیہونی سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔
    وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ۔4/136
    اور جو شخص خدا اور اسکے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ راستے سے بھٹک کر دور جا پڑا۔
    جو شخص اللہ جل شانہ کے ساتھ اس کے فرشتوں کے ساتھ اس کی کتابوں کے ساتھ اس کے رسولوں کے ساتھ آخرت کے دن کے ساتھ کفر کرے وہ راہ ہدایت سے بہک گیا اور بہت دور غلط راہ پڑ گیا گمراہی میں راہ حق سے ہٹ کر راہ باطل پہ چلا گیا۔
    اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ۔ 16/125
    جو اس کے راستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے۔ اور جو راستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔
    دنیا میں ہمیشہ سے ایک ایسی جماعت بھی موجود رہی ہے جن کا کام ہرچیز میں الجھنا اور بات بات میں حجتیں نکالنا اور کج بحثی کرنا ہے یہ لوگ نہ حکمت کی باتیں قبول کرتے ہیں نہ وعظ و نصیحت سنتے ہیں۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں بحث و مناظرہ کا بازار گرم ہو۔
    فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ ،18/29 جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔
    بَلۡ قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍۭ بَلِ افۡتَرٰىہُ بَلۡ ہُوَ شَاعِرٌ ۚۖ فَلۡیَاۡتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَاۤ اُرۡسِلَ الۡاَوَّلُوۡنَ ۔ 21/5
    اتنا ہی نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن حیران کن خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا بلکہ یہ شاعر ہے، ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے۔‏
    ابلیس کے پیرو قرآن سن کر ضد اور ہٹ دھرمی سے ایسے بدحواس ہو جاتے تھے کہ کسی ایک رائے پر قرار نہ تھا، کبھی اسے جادو بتاتے، کبھی پریشان خوابیں کہتے، کبھی دعویٰ کرتے کہ آپ اپنے جی سے کچھ باتیں جھوٹ گھڑ لائے ہیں۔ جن کا نام قرآن رکھ دیا ہے۔ نہ صرف یہ ہی بلکہ آپ ایک عمدہ شاعر ہیں اور شاعروں کی طرح تخیل کی بلند پروازی سے کچھ مضامین موثر اور مسجع عبارت میں پیش کر دیتے ہیں۔ اگر واقع میں ایسا نہیں تو چاہیے کہ آپ کوئی ایسا کھلا معجزہ دکھلائیں جیسے معجزات پہلے پیغمبروں نے دکھلائے تھے۔ یہ کہنا بھی محض عناد سے دق کرنے کے لیے تھا۔ کیونکہ اول تو مکہ کے یہ جاہل مشرک پہلے پیغمبروں اور ان کے معجزات کو کیا جانتے تھے، دوسرے آپ کے بیسیوں کھلے کھلے نشان دیکھ چکے تھے جو انبیائے سابقین کے نشانات سے کسی طرح کم نہ تھے جن میں سب سے بڑھ کر یہ ہی قرآن کا معجزہ تھا۔ وہ دل میں سمجھتے تھے کہ نہ یہ جادو کی مہمل عبارتیں ہیں، نہ بیہودہ خواب ہیں، نہ شاعری ہے۔ اسی لیے جب کوئی ایک بات چسپاں نہ ہوتی تو اسے چھوڑ کر دوسری بات کہنے لگتے تھے۔
    وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚۛ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا ۔ 25/4
    اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
    یعنی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ معاذ اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چند یہودیوں کی مدد سے ایک کلام تیار کر لیا اور اس کو جھوٹ طوفان خدا کی طرف منسوب کر دیا۔ پھر ان کے ساتھی لگے اس کی اشاعت کرنے، بس کل حقیقت اتنی ہے۔
    ف٢ یعنی اس سے بڑھ کر ظلم اور جھوٹ کیا ہوگا کہ ایسے کلام معجز اور کتاب حکیم کو جس کی عظمت و صداقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے، کذب و افتراء کہا جائے۔ کیا چند یہودی غلاموں کی مدد سے ایسا کلام بنایا جاسکتا ہے جس کے مقابلہ میں تمام دنیا کے فصیح و بلیغ عالم و حکیم بلکہ جن و انس ہمیشہ کے لیے عاجز رہ جائیں۔ اور جس کے علوم و معارف کی تھوڑی سی جھلک بڑے بڑے عالی دماغ عقلاء و حکماء کی آنکھوں کو خیرہ کر دے۔
    اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاً ۔25/9
    خیال تو کیجئے! کہ یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں۔ پس جس سے خود ہی بہک رہے ہیں اور کسی طرح راہ پر نہیں آسکتے ۔
    ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔
    فَلَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُوۡتِیَ مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ۚ قَالُوۡا سِحۡرٰنِ تَظٰہَرَا ۟ٝ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا بِکُلٍّ کٰفِرُوۡنَ ۔ 28/48
    پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہنے لگے کہ جیسی (نشانیاں) موسیٰ کو ملیں تھیں ویسی اس کو کیوں نہیں ملیں؟ کیا جو (نشانیاں) پہلے موسیٰ کو دی گئی تھیں انہوں نے ان سے کفر نہیں کیا؟ کہنے لگے کہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق اور بولے کہ ہم سب سے منکر ہیں ۔
    یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ
    یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ، جنہیں ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہوگئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا؟ یا یکفُروا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر نہیں کیا۔
    پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام ہوں گے اور دوسرے مفہوم اس سے قرآن اور تورات مراد ہونگے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر)
    وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ لَئِنۡ جِئۡتَہُمۡ بِاٰیَۃٍ لَّیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُبۡطِلُوۡنَ ۔30/58
    اور ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کر دی ہے اور اگر تم ان کے سامنے کوئی نشانی پیش کرو تو کافر کہہ دیں گے کہ تم تو جھوٹے ہو۔
    یعنی اس وقت پچھتائیں گے اور آج خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ہے قرآن کریم کیسی عجیب مثالیں اور دلیلیں بیان کر کے طرح طرح سے ان کو سمجھاتا ہے، پر ان کی سجھ میں کوئی بات نہیں آتی، کیسی ہی آیتیں پڑھ کر سنائیے یا صاف سے صاف معجزے دکھلائیے وہ سن کر اور دیکھ کر یہ ہی کہہ دیتے ہیں کہ تم (پیغمیر اور مسلمان) سب مل کر جھوٹ بنا لائے ہو۔ ایک نے چند آیتیں بنالیں دوسروں نے تصدیق کر دی۔ ایک نے جادو دکھلایا دوسرے اس پر ایمان لانے کو تیار ہوگئے۔ اس طرح ملی بھگت کر کے اپنا مذہب پھیلانا چاہتے ہو۔
    جن سے اللہ کی توحید کا اثبات اور رسولوں کی صداقت واضح ہوتی ہے اور اسی طرح شرک کی تردید اور اس کا باطل ہونا نمایاں ہوتا ہے۔
    وہ قرآن کریم کی پیش کردہ کوئی دلیل ہو یا ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ وغیرہ ۔ یعنی جادو وغیرہ کے پیروکار، مطلب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی نشانی اور واضح سے واضح دلیل بھی اگر وہ دیکھ لیں، تب بھی ایمان بہرحال نہیں لائیں گے، کیوں؟ اس کی وجہ آگے بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا کفر و طغیان اس آخری حد کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد حق کی طرف واپسی کے تمام راستے ان کے لیے مسدود ہیں۔
    وَ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکٌ مُّفۡتَرًی ؕ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۔ 34/43
    اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض جھوٹ ہے جو اپنی طرف سے بنا لیا گیا ہے اور کافروں کے پاس جب حق آیا تو اس کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔
    یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ یہ شخص نبی رسول کچھ نہیں۔ بس اتنی غرض ہے کہ ہمارے باپ داداوں کا طریقہ چھڑا کر (جس کو ہم قدیم سے حق جانتے چلے آئے ہیں) اپنے ڈھب پے لے آئے اور خود حاکم و متبوع بن کر بیٹھ جائے۔ گویا صرف حکومت و ریاست مطلوب ہے۔العیاذ باللہ
    یعنی قرآن کیا ہے (العیاذ باللہ) چند جھوٹی باتیں جو خدا کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔ ف٧ یعنی یہ نبوت کا دعویٰ جس کے ساتھ چند معجزات و خوارق کی نمائش کی گئی ہے یا مذہب اسلام جس نے آخر میاں کو بیوی سے اور باپ کو بیٹے سے جدا کر دیا ہے۔ یا قرآن جس کی تاثیر لوگوں کے دلوں پر غیر معمولی ہوتی ہے، صریح جادو کے سوا اور کچھ نہیں ۔ العیاذ باللہ
    وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ ۔41/26
    اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے لگیں تو) شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو۔ ‏
    قرآن کریم کی آواز بجلی کی طرح سننے والوں کے دلوں میں اثر کرتی تھی۔ جو سنتا فریفتہ ہو جاتا اس سے روکنے کی تدبیر کفار نے یہ نکالی کہ جب قرآن پڑھا جائے، ادھر کان مت دھرو اور اس قدر شور و غل مچاؤ کہ دوسرے بھی نہ سن سکیں۔ اس طرح ہماری بک بک سے قرآن کی آواز دب جائے گی۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں کہ کام کی بات کو شور مچا کر سننے نہ دیا جائے۔ لیکن صداقت کی کڑک مچھروں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے کہاں مغلوب ہوسکتی ہے ان سب تدبیروں کے باوجود حق کی آواز قلوب کی گہرائیوں تک پہنچ کر رہتی ہے۔
    وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ۔ 41/45
    اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کر دیا جاتا اور یہ اس (قرآن) سے شک میں الجھ رہے ہیں۔
    یعنی جیسے آج قرآن کے ماننے اور نہ ماننے والوں میں اختلاف پڑ رہا ہے۔ پہلے تورات کے متعلق بھی ایسا ہی اختلاف پڑ چکا ہے پھر دیکھ لو وہاں کیا انجام ہوا تھا۔ بات وہ ہی نکل چکی کہ فیصلہ آخرت میں ہے۔
    ف١١ یعنی مہمل شکوک و شبہات ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ ہر وقت دل میں کھٹکتے رہتے ہیں۔
    وَ لَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ وَّ اِنَّا بِہٖ کٰفِرُوۡنَ ۔43/30
    اور جب ان کے پاس حق (یعنی قرآن) آیا تو کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔
    یعنی ابلیس کے پیرو قرآن کو جادو بتلانے لگے۔ اور پیغمبر کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
    قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ کَفَرۡتُمۡ بِہٖ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی مِثۡلِہٖ فَاٰمَنَ وَ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ۔ 46/10
    کہو(اے نبیؐ) کہ بھلا دیکھو تو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اسی طرح کی ایک (کتاب) کی گواہی دے چکا اور ایمان لے آیا اور تم نے سرکشی کی (تو تمہارے ظالم ہونے میں کیا شک ہے؟ ) بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‏
    ذٰلِکَ مَبۡلَغُہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اہۡتَدٰی ۔ 53/30
    ان کے علم کی یہی انتہا ہے تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور اس سے بھی خوب واقف ہے جو راستے پر چلا ۔‏
    یعنی جس کا اوڑھنا بچھونا یہ ہی دنیا کی چند روزہ زندگی ہو کہ اس میں منہمک ہو کر کبھی خدا کو اور آخرت کو دھیان میں نہ لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بکواس کو دھیان میں نہ لائیں۔ وہ خدا سے منہ موڑتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی شرارت اور کجروی کی طرف سے منہ پھیر لیں۔ سمجھانا تھا سو سمجھا دیا۔ ایسے بدطینت اشخاص سے قبول حق کی توقع رکھنا اور ان کے غم میں اپنے کو گھلانا بیکار ہے۔ ان کی سمجھ تو بس اسی دنیا کے فوری نفع نقصان تک پہنچتی ہے اس سے آگے ان کی رسائی نہیں۔ وہ کیا سمجھیں کہ مرنے کے بعد مالک حقیقی کی عدالت میں حاضر ہو کر ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے۔ ان کی تمام تر علمی جدوجہد صرف بہائم کی طرح پیٹ بھرنے اور شہوت فرو کرنے کے لیے ہے۔
    یعنی جو گمراہی میں پڑا رہا اور جو راہ پر آیا، ان سب کو اور ان کی مخفی استعدادوں کو اللہ تعالٰی ازل سے جانتا ہے۔ اسی کے موافق ہو کر رہے گا۔ ہزار جتن کرو، اس کے علم کے خلاف ہرگز واقع نہیں ہو سکتا۔ نیز وہ اپنے علم محیط کے موافق ہر ایک سے ٹھیک ٹھیک اس کے احوال کے مناسب معاملہ کرے گا۔ لہذا آپ یکسو ہو کر ان معاندین کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں۔
    اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۪ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ۔68/7
    تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اسکے راستے سے بھٹک گیا۔ اور انکو بھی خوب جانتا ہے جو اسکے راستہ پر چل رہے ہیں ۔
    یعنی پوری طرح علم تو اللہ ہی کو ہے کہ کون لوگ راہ پر آنے والے ہیں اور کون بھٹکنے والے لیکن نتائج جب سامنے آئیں گے تو سب کو نظر آجائے گا کہ کون کامیابی کی منزل پر پہنچا اور کون شیطان کی رہزنی کی بدولت ناکام و نامراد رہا۔
    نوٹ !
    بندہ بالکل انپڑھ ہے لیکن اللہ جلَّ شانہہ کے فضل سے قرآن حکیم ، احادیثِ ، اور تفسیر کا مطالعہ کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ مناظرا نہیں صرف اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔ ‏

  27. عالیشان تحریر ھے بھائ انوارالحق! ۔۔۔ اگر اس میں قرانی حوالوں کے ساتھ ساتھ کوئ عقل کی بات بھی ھوتی تو مضمون کو چار چاند لگ جاتے۔۔۔آپ نے لکھا کہ "بندہ بالکل انپڑھ ہے”۔۔۔ خود کو انپڑھ کہنا آپ کی کسر نفسی ھے ورنہ میں تو آپ کا معتقد ھوں ۔۔۔ آپ جیسے نابغہ روزگار بھلا روز روز ھاتھ آتے ھیں؟۔۔۔ میری اپنی بھی ذھنی حالت ٹھیک نھیں ھے۔ جب سے اس فورم پر آیا ھوں، بے شمار ملحدانہ خیالات اور سوالات ذھن میں جنم لینے لگے ھیں، بار بار توبہ کرنی پڑتی ھے جس طرح ریح کے مومن مریض کو بار بار وضو کرنا پڑتا ھے۔۔۔ میرے ذھن میں ایک چھوٹا سا سوال اٹکا ھوا ھے۔ مجھے یقین ھے کہ اس سوال کا جواب مجھے میرے عالم و فاضل بھائ انوارالحق سے ضرور ملے گا۔۔۔ ھمارہ ایمان ھے کہ ایک دن ھم سب نے اللہ کے روبرو پیش ھونا ھے، وھاں اگر کوئ بدبخت انسان اللہ سے یہ کہہ دے کہ جا میں تجھے نھیں مانتا، کر لے جو کرنا ھے۔۔۔ تو اللہ تبارک و تعالئ کیا کرے گا ؟ ۔۔۔ ظاھر ھے کہ اللہ اسے دوذخ میں ڈال دےگا یا دوسری صورت یہ ھو سکتی ھے کہ اللہ چونکہ نہائت رحم کرنے والا بھی ھے اس لیۓ اسے معاف فرما کر جنت میں جگہ دے دے۔۔۔ سوال یہ ھے کہ کیا قادر مطلق خدا کے پاس ان دو صورتوں (options) کے علاوہ کوئ تیسری option بھی ھے ؟۔۔۔اگر ھے تو وہ option کیاھو سکتی ھے اور اگر نھیں ھے تو وہ قادر مطلق کیسے ھوا۔۔۔ (نعوذ بااللہ)۔۔۔ویسے میں نے اس فورم کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ھے کیوں کہ یہ فورم ملحدوں کا ڈیرہ ھے ۔

جواب دیں

81 Comments
scroll to top