قبل از اسلام کے عربوں کے عربی زبان میں لکھے ہوئے کوئی مخطوطے نہیں ملتے جس سے پتہ چلتا ہے کہ عربی زبان غیر تحریری زبان تھی، ایسی کثیر زبانیں ہیں جن کے بولنے والے ختم ہوگئے یا ہونے کے قریب ہیں، یہ لوگ ایسی زبانیں بولتے ہیں جو آج بھی نہیں لکھی جاتیں، اس وقت دنیا میں چھ ہزار سے زیادہ زندہ زبانیں موجود ہیں تاہم ان کی اکثریت تحریری نہیں ہے، ان میں سے 473 زبانیں ناپید ہونے کے قریب ہیں کیونکہ یہ غیر تحریری زبانیں ہیں اور چونکہ ان کے بولنے والے اقلیت میں ہیں. http://www.ethnologue.com/nearly_extinct.asp
تحریر کے پہلے حصہ میں دکھائے جانے والے مخطوطے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عربی ان حروف میں جنہیں آج ہم پہچانتے ہیں نہیں لکھی جاتی تھی ما سوائے یمن کے (مملکتِ معین، سبا، حضرموت) اور یہ حال اسلام کے ظہور سے تین سو سال پہلے تک تھا چنانچہ ڈاکٹر طہ حسین کے مطابق اسلامیوں کے یہ دعوے کہ جاہلیت کی شاعری لکھ کر کعبے کی دیواروں پر لٹکائی جاتی تھی جنہیں معلقات کا نام دیا گیا محض اسلامی اختراع ہے جس کی کوئی عملی اور عقلی دلیل نہیں ہے کیونکہ عربی زبان لکھی ہی نہیں جاتی تھی پھر شعراء اپنی طویل معلقات کیسے لکھتے تھے؟ اور کعبے کی دیواروں پر لٹکانے سے پہلے انہیں کس پر لکھا جاتا تھا جبکہ جاہلیت کے بعد آنے والا قرآن ہڈیوں، پتوں اور چمڑے پر لکھا جاتا تھا؟ امریء القیس کے معلقہ کو کتنی بھیڑوں کے چمڑے کی ضرورت پڑے گی اور اسے کعبے پر کیسے لٹکایا گیا؟
محمد کی اپنی دعوت شروع کرنے کے بعد بھی عربی لکھنے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے جبکہ حروف کے نقطے اور تنوین اس وقت متعارف نہیں تھے، بعض لغت دانوں کا تو خیال ہے کہ عربی آرامی حروف سے لکھی جاتی تھی جسے شام کے عیسائیوں سے سیکھا گیا تھا (جس طرح آج ہم رومن اردو لکھتے ہیں اور عربی حروف کی بجائے رومن حروف استعمال کرتے ہیں جیسے السلام علیکم کی بجائے assalam-o-alaikum)، مسلمان دعوی کرتے ہیں کہ محمد اپنی وحی زید بن ثابت اور معاویہ بن ابی سفیان جیسے وحی کے کاتبوں کو لکھنے کیلئیے سناتے تھے اگرچہ معاویہ بن ابی سفیان ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا تھا وہ بھی زبردستی لہذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس نے وہ کچھ لکھا ہو جو محمد نے کبھی کہا ہی نہ ہو اگر وہ واقعی کاتب تھا، راوی کہتے ہیں کہ محمد انہیں کوئی آیت سنا کر کہتا تھا کہ اسے ان آیات کے ساتھ لگا دیا جائے جس میں بقرہ کا ذکر ہوا ہے یا نجم کا، کیا ان کے پاس آرکائیو archive کا کوئی نظام تھا تاکہ اس سے رجوع کر کے بقرہ والی آیات تلاش کی جاسکیں؟ اور وہ مسلمان کیا کرے گا جس نے کچھ سال پہلے ان آیات کو یاد کیا پھر اس میں نئی آیات شامل کردی گئیں؟
پھر مسلمان مؤرخوں اور "اخباریوں” نے – جیسا کہ انہیں ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب تاریخ العرب قبل الاسلام میں مخاطب کرتا ہے کیونکہ انہوں نے خبروں کو بغیر کسی تبدیلی کے بالکل ویسا ہی نقل کیا جیسا کہ انہوں نے سنا تھا اور اسے تاریخ قرار دیا – ان لوگوں نے دعوی کیا کہ سارا قرآن محمد کے مرنے سے پہلے ہی لکھا جاچکا تھا، پھر دعوی کیا کہ ابو بکر نے یہ ساری تحریریں ایک مصحف میں جمع کیں اور حفصہ بنتِ عمر جو کہ محمد کی بیوی تھی اس کے پاس رکھوا دیا، پھر بتاتے ہیں کہ عثمان نے معاذ بن جبل کے اصرار پر – جس نے عراق میں ایک ہی سورت کی مختلف قراتیں سنی تھیں اور اسے اس اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں میں تفرقے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا – قرآن کو جمع کرنے کی ذمہ داری نوجوان زید بن ثابت کو سونپی تھی جس نے عثمان سے کہا: "میں وہ جمع کیسے کروں جو رسول اللہ نے اپنی زندگی میں جمع نہیں کیا”…. اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ابو بکر نے قرآن جمع کر لیا تھا تو عثمان کو اسے دوبارہ جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور پھر عثمان نے یہ ذمہ داری نوجوان زید کو ہی کیوں سونپی جبکہ ابی بن کعب جیسے بڑے بڑے صحابہ موجود تھے جسے محمد نے کہا تھا: "میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن پڑھاؤں” تو اس نے کہا: "کیا اللہ نے آپ کو میرا نام لیا” کہا: "ہاں” تو اس کی آنکھیں بھر آئیں (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث 4676) اور عبد اللہ بن مسعود جو دن رات محمد کے ساتھ سائے کی طرح رہتا تھا اور نوے سورتوں کا حافظ تھا ایسے صحابہ کو چھوڑ کر عثمان نے نوجوان زید بن ثابت کا انتخاب کیوں کیا جبکہ اللہ نے ابی بن کعب کو نام سے یاد کیا تھا؟
اور اگر عثمان نے قرآن کو ایک مصحف میں جمع کر کے اس کی چھ کاپیاں بنا کر مختلف ملکوں میں تقسیم کردی تھیں جیسا کہ روایات کہتی ہیں تو اب تک ہمیں ان قرآنوں میں سے ایک بھی قرآن کیوں نہیں ملا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو مسلمان محمد کی تھوک، اس کے وضوء کے پانی اور سر منڈاتے وقت اس کے سر کے بالوں تک کے حصول کیلئیے بے تاب رہتے تھے وہ اس کے قرآن کے پہلے باقاعدہ نسخے کی حفاظت نہ کریں؟ سعودیہ میں اب بھی نبوی آثار کی سیل کیلئیے بولیاں لگتی ہیں، 2005 میں محمد کی قبر پر رکھی جانے والی ایک جائے نماز کو 17 ملین ریال میں فروخت کیا گیا (حلیمہ مظفر – الشرق الاوسط 7-10-2005).
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو جمع کرنے کی ساری تاریخ محض خیالی قصے ہیں جنہیں مسلمان اخباریوں نے دوسری صدی ہجری میں گھڑا ہے، اس وقت دستیاب قرآن کوفی خط میں لکھا ہوا ہے یہ خط جیسا کہ ماہرین لغات کہتے ہیں پہلی صدی ہجری کے خاتمے اور دوسری صدی ہجری کے آغاز میں اس حالت تک پہنچا تھا جس میں کہ یہ قرآن لکھا ہوا ہے (The Qur’an : Catalogue of Exhibition of Quranic Manuscripts At The British Library)
خود کوفہ شہر کی بنیادیں محمد اور ابو بکر کے مرنے کے بعد ہجرت کے 17 ویں سال کو رکھی گئی تھیں جو کہ عمر کا دور تھا، اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کوفی خط آہستہ آہستہ متعارف ہوا اور سینکڑوں سالوں بعد جاکر مکمل ہوا اور پہچان کیلئے اسے کوفی خط کہا جانے لگا تاکہ حجازی خط سے اس کی پہچان ہوسکے، اس کوفی خط میں بھی نقطے اور اعداد نہیں تھے جیسا کہ اس قرآن میں ہیں جسے "مصحف عثمان” کہا جاتا ہے.
اخباریوں کے قصوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ محمد کی زندگی میں قرآن لکھنے والے کئی لوگ تھے اور سب کا اپنا ایک مصحف ہوتا تھا. ابن مسعود کا اپنا ایک مصحف تھا، ابی بن کعب کا اپنا تھا، علی بن ابی طالب کا اپنا اور عائشہ کا مصحف اپنا تھا تو یہ سارے مصحف کہاں گئے؟ 1965 میں یمن کے دار الحکومت صنعاء میں الجامع الکبیر نامی مسجد کی چھت گرنے پر جو قرآنی مخطوطے دریافت ہوئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی صدی ہجری میں قرآن کو ایک متفقہ نسخے میں یکجا کرنے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی تھی، اگر سارے مسلمان عثمان کے جمع کردہ قرآن پر متفق تھے تو انہوں نے مسجد کی ایک اضافی چھت بناکر اس میں سینکڑوں قرآنی مخطوطے چھپانے کی کوشش کیوں کی؟ چھت بھی اتنی مضبوط بنائی کہ 1965 تک چھت کے گرنے تک کسی کو خبر تک نہ ہوسکی کہ اس چھت کی ایک اضافی درز میں قرآنی مخطوطے چھپے ہوئے ہیں! مسجد کی چھت میں قرآنی مخطوطے چھپانے کی کوشش سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چھپانے والوں کو عثمان کے قرآن پر اعتبار نہیں تھا کہ یہی درست قرآن ہے، چنانچہ جس قرآن کو وہ صحیح سمجھتے تھے اس ڈر سے کہ اسے ان سے ضبط نہ کر لیا جائے انہوں نے اسے مسجد کی چھت میں چھپا دیا.
یہ مخطوطے جنہیں یمن کی حکومت نے چھپانے اور مستشرقین کو ان کی جانچ سے روکنے کی بھرپور کوشش کی، قرآن کے قدیم مخطوطوں کے اختلاف کو ثابت کرتے ہیں، ان مخطوطوں میں بھی کاتبوں کی آیات کو مٹاکر ان کے اوپر دوسری آیات لکھنے کی کوشش واضح نظر آتی ہے، اس مضمون میں ہم ان مخطوطوں کی کچھ تصاویر پیش کر کے آج کے قرآن جو عثمان کے قرآن پر مبنی ہے میں فرق دکھائیں گے، تاہم سب سے پہلے چھٹی صدی عیسوی میں محمد کی پیدائش کے وقت کی تحریر کی نوعیت سے آغاز کرتے ہیں:
(منبع http://www.islamic-awareness.org)
یہ عربی مخطوطہ چھٹی صدی عیسوی کا ہے، اس مخطوطے کی جرمن مستشرق اینو لیٹمن Enno Littmann نے دستاویز بندی کی ہے، اس میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ نہ تو اس میں نقطے ہیں اور نا ہی تنوین کی علامات اور یہ اس وقت رائج سریانی تحریر سے ملتا جلتا ہے. اور چونکہ اس وقت زیادہ تر لکھنے والے شام کے عیسائی تھے جو سریانی بولتے تھے اور انہوں نے انجیل اور تمام دینی ڈیٹا اسی میں لکھ رکھا تھا جسے عام لوگ نہ تو پڑھ سکتے تھے اور نا ہی سمجھ سکتے تھے لہذا انہوں نے جیکب آف ایڈیسا Jacob of Edessa جس کی وفات 708 عیسوی میں ہوئی تھی سے درخواست کی کہ وہ یونانی زبان کی طرح سریانی زبان کیلئے حروف علت vowels ایجاد کرے تاکہ یہ زبان پڑھنے میں آسان ہوجائے، پہلے تو اس نے اس ڈر سے منع کردیا کہ اس طرح تمام دینی کتابیں جو حروف علت کے بغیر لکھی ہوئی تھیں ضائع ہوجاتیں.. لیکن بالآخر اس نے ایک درمیانہ حل نکالا اور ایسے حروف ایجاد کئیے جو سطر کے اوپر نیچے لکھے جاسکیں تاکہ لکھے ہوئے الفاظ پر اثر انداز نہ ہوسکیں. اس سے پہلے مختلف آوازوں کی پہچان کیلئیے حروف پر رنگین نقطے لگائے جاتے تھے تاکہ حروف کے اپنے نقطوں سے ان کی الگ پہچان ہوسکے، لفظوں پر لکھے جانے والے ان چھوٹے حروف کا یہ طریقہ کوفی خط میں لکھے جانے والے قرآن میں بھی موجود ہے اور رنگین نقطے بھی. قرآن کو کوفی خط میں لکھنے والے کاتب زبر کی آواز کیلئیے لفظ کے دائیں طرف سرخ نقطہ لگاتے تھے اور پیش کی آواز کیلئیے بائیں طرف نقطہ لگاتے تھے.
یہ مصر میں دریافت ہونے والا ایک مخطوطہ ہے جو 24 ہجری کو لکھا گیا:
اس مخطوطے سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے زمانے میں بھی عربی زبان میں نقطے تقریباً ناپید تھے جبکہ تنوین تو سرے سے تھی ہی نہیں. اور جیسا کہ واضح ہے حرف "ر” حرف "د” کی طرح لکھا گیا ہے اور لفظ زمن میں حرف "ز” حرف "ذ” کی طرح لکھا ہوا ہے. لفظ عشرین میں حرف "ن” حرف "ز” سے مشابہ ہے. اگر عمر کے زمانے میں عربی تحریر کا یہ عالم ہے تو محمد کے زمانے میں کیا عالم رہا ہوگا؟
ہم نہیں جانتے کہ عربی زبان میں نقطے کس نے شامل کئیے اگرچہ عرب مؤرخین کا دعوی ہے کہ یہ ابو الاسود الدؤلی تھا جس کی وفات 69 ہجری کو ہوئی. تاہم ان نقطوں کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا کردار دو لوگوں کا رہا ہے جو یحیی بن یعمر ہے جس کی وفات 90 ہجری کو ہوئی اور ناصر بن عاصم اللیثی ہے جس کی وفات 100 ہجری کو ہوئی. پھر خلیل بن احمد الفراہیدی نے جس کی وفات 170 ہجری میں ہوئی عربی زبان میں تنوین (زیر زبر پیش وغیرہ) شامل کی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ "مصحف عثمان” جس پر آج کا قرآن مبنی ہے اور جس میں نقطے اور تنوین کی علامات موجود ہیں یقیناً خلیل بن احمد کی وفات کے بعد لکھا گیا ہوگا یعنی تقریباً دوسری صدی ہجری کے اختتام اور تیسری صدی ہجری کے آغاز پر، اور یہی مستشرقین کی تحقیق کا نتیجہ ہے.
تحریر کے اگلے حصہ میں ہم قرآن کی بعض آیات کا فرق پیش کریں گے جس کے بارے میں مسلمانوں کا دعوی ہے کہ یہ "ذکرِ محفوظ” ہے.
0 Comments