اگر کوئی افسانوی قصہ یا فکر کسی دوسرے قصے یا فکر سے مشابہت رکھتی ہو تو منطقی طور پر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بعد والے نے پہلے والے سے اقتباس کیا ہے یا اس سے متاثر ہوا ہے.. اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ذرا مانوی مذہب پر ایک نظر ڈالتے ہیں.
مانی 216ء عیسوی کو بابل میں پیدا ہوا..
اس نے دعوی کیا کہ اللہ نے اسے ایک فرشتے کے ذریعے بتایا ہے کہ وہ پہلے کے تمام انبیاء جیسے زرداشت، عیسی، بدھا کی رسالت کی تکمیل کرنے آیا ہے اور آخری نبی ہے..
مانی پر بذریعہ وحی ایک کتاب بھی اتاری گئی جو اللہ کا کلام تھا..
مانوی مومن دن اور رات میں چار نمازیں پڑھتے تھے اور سال میں ایک ماہ روزے بھی رکھتے تھے..
مانوی عقیدے کے مطابق جب کوئی نیک مانوی مرتا ہے تو اسے جنت ملتی ہے جس میں تمام تر تعیشات کے ساتھ ساتھ خوبصورت حوریں بھی شامل ہیں..
مانی سب لوگوں سے اچھا ہے یعنی ” خیر الناس ” ہے اور انسانیت کو ظلمات کے اندھیروں سے بچانے کا ذمہ اسی کے سر ہے اور جو لوگ اس کی رسالت پر یقین نہیں رکھتے حقیقت سے بے بہرہ ہیں یا حقیقت کا صرف کچھ حصہ جانتے ہیں (یعنی دوسرے انبیاء کو ماننے والے)..
مانوی مذہب نے بہت مقبولیت حاصل کی اور جزیرہ عرب تک پہنچا.. یعنی اسلام کو پیدا کرنے والے ماحول میں مانوی فکر اور روایات جانی پہچانی تھیں..
ان سب حقائق سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ نتیجہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے.