اللہ، شیطان اور فرشتوں کی تجسید کے سبب جو مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان سے بچنے کے لیے انہیں مجاز پر محمول کردیا جاتا ہے لہذا اللہ ایک ابدی اچھائی اور شیطان ایک ابدی برائی بنا دی جاتی ہے تاہم یہ عقیدہ خود اپنے ہی بوجھ کے نیچے دب کر ڈھیر ہوجاتا ہے، ظاہر ہے ایک ابدی اچھائی مجازی جلدوں کو بھوننے کی مجازی دھمکی کیوں دے گی اگر ابدی برائی آدم کو مجازی طور پر سجدہ کرنے سے انکار کردے جس کی وجہ سے اسے اور اس کے چیلوں کو مجازی طور پر جہنم میں جلایا جائے گا؟
جب مؤمن ان مقدس تحریروں کو جن پر وہ اعتقاد رکھتا ہے مضحکہ خیز پاتا ہے تو وہ مجاز میں اپنی جائے پناہ ڈھونڈتا ہے۔۔ چنانچہ قرآن میں عورت کو مارنے کا حکم مجازی ہے، نوح کی کشتی بھی ایک مجازی کشتی ہے بلکہ جب مؤمن کو اللہ اور شیطان کی مستقل موجودگی کی منطقی توجیہ نہیں ملتی جو غصہ کرتے، خوش ہوتے اور دھمکیاں دیتے ہیں تو وہ انہیں بھی مجازی اصطلاحات میں بدل دیتا ہے۔
بلکہ یہ تو کچٖھ بھی نہیں، مؤمن اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جاتا ہے، وہ مجازی چیزوں کے لیے نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہے، بلکہ وہ تو یہ تک سمجھتا ہے کہ یہ مجازی چیزیں ایک حقیقی کتاب کے ذریعے اس سے مخاطب ہونا چاہتی ہیں، اور اس حقیقی کتاب کے اندر مجازی احکامات ہیں جن کا کام اس کی زندگی کو ان مجازی احکامات کے ذریعے آسان اور منظم بنانا ہے تاکہ وہ ان پر ایمان اور اطاعت کی انتہاء کو پہنچ جائے اور پھر مرنے کے بعد یہ مجازی ہستی اسے ایک مجازی جنت میں بھیج دے گی یا پھر ایک مجازی جہنم میں اسے مجازی طور پر سزا دی جائے گی، تعجب خیر امر یہ ہے کہ اس بے چارے مؤمن کو حقیقی بھوک اور پیاس لگتی ہے بلکہ وہ ان لوگوں کو مارنے کے درپے ہوتا ہے جو ان مجازی چیزوں کو نہیں مانتے وہ بھی اس امید پر کہ اس کے صلے میں یہ مجازیات اسے مجازی جنت میں جگہ دلوائیں گی جہاں اسے 72 مجازی حوروں کی صحبت نصیب ہوگی اور وہ شراب وشہد کی مجازی نہروں سے اپنی پیاس بجھا سکے گا، مجاز کی مضحکہ خیز انتہاء میں مؤمن اپنا ملک وگھر چھوڑ کر اللہ کے ایک مجازی گھر کی زیارت کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے، اللہ کے اس مجازی گھر کی حقیقی زیارت میں مؤمن مجازی شیطان کو سات حقیقی پتھر مارتا ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کہ اس نے واقعی ایک حقیقی شیطان کو پتھر مارے ہیں لیکن جب اسے حقیقتِ حال کا سامنا کروایا جاتا ہے تو وہ ایک بار پھر مجاز میں اپنی جائے پناہ ڈھونڈتے ہوئے کہتا ہے کہ شیطان ابدی برائی کی ایک مجازی تعبیر ہے۔
مجاز ان مؤمنین کی ہمیشہ سے پسندیدہ جائے پناہ رہی ہے جو فرسودہ اور سخت قسم کی مقدس تحریروں کی تاویل کر کے ان میں سے زیادہ گہرے اور بلیغ معانی کشید کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں اپنی انسانی حس اور اعلی اخلاقیات سے ہم آہنگ کر سکیں، جدت پسند مؤمن کے دماغ میں یہ تصادم کی ایک دردناک اور جراتمندانہ حالت ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر مذہبی خرافات کو مسترد کرتا ہے مگر وہ معاشرتی اور مذہبی دباؤ کا شکار ہوتا ہے، سب سے بڑا دباؤ موت کا خوف یا اس مجازی خدا کی مجازی سزائیں ہیں جن کا ایمان نہ لانے کی صورت میں وہ شکار ہوگا، مجاز مذہبی عقائد کی فرسودگی اور مؤمن کی عقلیت پسندی کے مابین ایک درمیانہ حل ہے۔
کوئی بھی عام یہودی، عیسائی یا مسلمان واقعتاً اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ کہ زمین کی عمر چھ ہزار سال ہے، یا حواء آدم کی پسلی سے برآمد ہوئی، یا نوح نے جاندار انواع کے چھ ارب جوڑے قطبِ شمالی سے افریقہ تک اور ایمازان کے جنگلوں سے لے کر اسٹریلیا وقطبِ جنوبی تک جمع کیے اور انہیں ٹائٹینک سے بھی کئی گنا بڑی کشتی میں ٹھونس دیا، اور موسی نے واقعتاً بحرِ احمر کو اپنے اُسی ڈنڈے سے چیر ڈالا جو قبل ازیں سانپ بن گیا تھا، یا مسیح واقعی دو ہزار سال پہلے آسمان کی طرف اڑ گیا تھا، یا صلعم نے حقیقتاً ایک پروں والے گدھے پر سوار ہوکر روشنی کی رفتار میں سفر کرتے ہوئے ساتویں آسمان کا سفر کیا۔۔ سبھی کسی نہ کسی سادہ شکل میں ان قصوں پر یقین تو رکھتے ہیں مگر مضحکہ خیز لگنے والے حصوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کا ایمان منطقی نظر آئے، مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی تحاریر جامد ہوتی ہیں اور اپنا پول خود ہی کھولتی نظر آتی ہیں چاہے کوئی بھی انہیں ہاتھ نہ لگائے، اسی لیے مجاز مذہبی تحاریر میں ہر غیر منطقی اور نامعقول کو منطقیانے اور عقلیانے کا ایک بہترین اوزار ہے۔
البتہ بن لادن ٹائپ کے متعصب یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کے ہاں کائناتی مظاہر کی توجیہ میں عقل اور منطق کا کوئی کردار نہیں ہوتا، لہذا وہ اپنی اپنی مذہبی تحاریر کی تاویل کے لیے مجاز کا استعمال نہیں کرتے اور نا ہی اپنی انسانی حس اور مذہبی تحاریر کی بدصورتی میں کوئی توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح وہ تمام تر انسانی اخلاقیات، اصول اور علوم کا انکار کردیتے ہیں جو مذہبی تحاریر سے مطابقت نہیں رکھتے، ایسے لوگوں کے لیے مذہبی تحاریر ہی اخلاق، اقدار اور علوم کا واحد منبع ہیں، بلکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ ساری دنیا بلکہ طبیعاتی قوانین تک کو ان مذہبی تحاریر کے مطابق چلانا چاہیے چاہے وہ کامیاب نہ ہو کیونکہ ان کے خیال میں مسئلہ ہمیشہ انہیں لاگو کرنے کے طریقوں کی خامی میں مضمر ہے ناکہ مذہبی تحریر میں کوئی خرابی ہے۔
بہرحال مؤمن کا اپنی مذہبی تحاریر کے دفاع میں مجاز کا سہارا لینا اور قابلِ تغیر تاویلیں نکالنا وہ آخری تھپڑ ہے جو مؤمن ان مقدس تحاریر پر لعنت بھیجنے سے قبل ان کے منہ پر مارتا ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مؤمن کی انسانی حس اور اخلاقیات اعلی مراتب طے کر رہی ہیں، وہ بنیادی طور پر ہمارے زمانے سے مختلف زمانے سے آنے والی تحاریر جو ہماری زبان نہیں بولتیں اور اپنے زمانے کی اخلاقیات کی قیدی ہیں کا انکار کرتا ہے، یہ مذہبی تحاریر کی انتہاء پسندی کا انکار ہے، ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کا اپنے مذاہب کی ہولناکی کی تاویل کے لیے مجاز کی طرف رجوع کرنا دراصل انسانیت کی طرف رجوع ہے اور اس ہولناکی کا انکار ہے جن سے یہ مقدس کتابیں اٹی پڑی ہیں۔