Close

مذاھب سنگدلی پھیلانے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟

مذاھب سنگدلی پھیلانے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
دنیا میں جتنے بھی مذاھب ہیں یہ کبھی نہ کبھی اپنا مکروہ چہرہ ضرور دکھاتے ہیں، مسیحی جادوگر اور جادوگرنیاں کہہ کر جلاتے رہے، یہودی خدا کی توحین پر سنگسار اور مسلمانوں نے آج کی دنیا میں طوفانِ ظلم و دھشت برپا کر رکھا ہے، یہ مذھبی اتنے سنگدل اور انسانیت کے جذبے سے محروم کیوں ہوتے ہیں؟

اس سوال کا جواب مذاھب کے بنیادی عقیدہ آخرت میں پایا جاتا ہے، گو کہ دنیا میں بھی ابراھیمی ادیان کی شریعتیں کچھ کم ستم ظریف نہیں مگر آخرت کی سزائیں اور ان کا تصور انسان کو دھشت زدہ کر دیتا ہے، دوسری طرف یہ لاشعوری طور پر انسان میں سفاکیت بھرنے اور دوسرے سے نفرت کو بڑھانے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

مثلاً ‘کفار و مشرکین کے لئیے اللہ تعالی نے جہنم کا دائمی عذاب تیار کر رکھا ہے’، یعنی انہیں ہمیشہ کے لئیے آگ کی جھیل میں ڈالا جائے گا، جہاں انہیں ہر طرح کا عذاب دیا جائے گا۔ جب ایک عام مذھبی کے ذہن میں ایک غیر مذھبی شخص کے لئیے اسی عذاب کا تصور موجود رہتا ہے، نتیجتاً وہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کافر سے شدید نفرت کرتا ہے ، اب وہ اللہ کا پیروکار اور بندہ بننے کے لیئے لاشعوری یا شعوری طور پر اس شخص سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ جب نفرت بڑھتی ہے تو اسکی شدید ترین شکل تشدد و قتال کی صورت میں سامنے آتی ہے، یہی سوچ داعش اور طالبان جیسے شدت پسند گروہوں کی قاتلانہ و ظالمانہ نفسیات میں واضع طور پر کار فرماء نظر آتی ہے۔

خدا کی طرف سے دردناک عذاب کی نوید کی وجہ سے مومنین غیر مومنین کو صرف اور صرف جہنم کا ایندھن سمجھنے لگتے ہیں، اسی باعث فرقہ وارانہ اور مذھبی فسادات ابھرتے ہیں۔ دوسری طرف آخرت میں انسان کے بہت سے افعال کے لیئے شدید سزاؤں کا بیان معاشرے میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر انتہائی اقدام کا باعث بن جاتا ہیں۔ لاشعوری طور پر ان افعال کی سزا کو انسان آخرت کی تصوراتی سزا کے پیمانے پر ماپنے لگتا ہے جسکے باعث دنیا میں ان گناہوں کے لئیے کوئی بھی ظلم و تشدد سے بھرپور سزا اسکو کم لگنے لگتی ہے، یعنی سفاکیت و سنگدلی کا معیار بڑھ جاتا ہے۔ بصورت دیگر آخرت کی شدید سزائیں انسان کو شدید احساسِ گناہ کے باعث نفساتی مریض بھی بنا دیتی ہیں۔ اور یہ شدید احساسِ گناہ بھی دوسروں کے لئیے نفرت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ جو خود سے نفرت کرتا ہے وہ دوسروں سے زیادہ شدید نفرت کرتا ہے۔

انسان کسی کا ہاتھ کاٹنے، کسی پر کوڑے برسانے، کسی کو سنگسار کرنے یا پھر کسی مشرک کو قتل کرنے کے بعد یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتا ہے کہ خدا نے بھی تو ایسے لوگوں سے نفرت ہی رکھی ہے، ہم نے ان کو تکلیف دے کر اسکا ہی کام کیا ہے، یہ سوچ انسان کی اندرونی انسانیت کو مارنے کے لیئے کافی ہوتی ہے۔ دوسری طرف جب ایک مذھب کے لوگ دوسرے مذھب یا نظریے کے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں(گو کہ یہ ظلم انکے اپنے مذھب میں منع بھی ہو)تب بھی انکو دکھ اس لئیے نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انکا خدا دوسروں کے بجائے انکو زیادہ پیار کرتا ہے اور انکے اس فعل کو نظر انداز کر دے گا۔

اس لئیے مذاھب انسان میں شعوری اور لاشعوری دونوں ذرائع سے نفرت بھرتے ہیں، اسی باعث مذھبی انسانیت کے جذبے سے عاری دنیا میں خونی درندوں کی طرح چیر پھاڑ کرنے کو اپنے خدا کی اعلیٰ ترین خدمت مانتے ہیں۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top