Close

مذہب اور فلسفہ میں کیا فرق ہے؟

کیا فلسفے کا مذہب سے کوئی تعلق ہے؟ کیا مذہب فلسفے کی کوئی قسم ہے؟ کیا ہم اسے مذہبی فلسفہ کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ اکثر وبیشتر ہمیں اسلامی فلسفہ، یہودی فلسفہ یا عیسائی فلسفے کی اصطلاحات سننے کو ملتی ہیں؟

کیا فلسفہ اور مذہب میں کوئی مشابہت ہے؟ کیا یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟

مشرقِ بعید کے مذاہب میں جیسے بدھ مت یا تاؤ میں ہمیں مذہب اور فلسفے کا یہ تداخل ملتا ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مشرقی فلاسفر فلسفے کو عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ مشرقی فلسفہ بشمول اسلامی فلسفے کے صوفیات اور پُر اسراریت میں ڈوب گیا اور یونانی فلسفے سے متاثر ہونے کے باوجود اس جیسا عقلی فلسفہ پیدا نہیں کر سکا۔

یہ درست ہے کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے جیسے مذہب اور فلسفے میں کچھ مکسنگ ہے تاہم تشابہ کے باوجود یہ مکسنگ محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔

فلسفہ اور مذہب جن مسائل پر بحث کرتے ہیں وہ بادی النظر میں ایک جیسے لگتے ہیں جیسے اچھائی اور برائی کیا ہے؟ اچھی زندگی گزارنے کا کیا مطلب ہے؟ حقیقت کی فطرت کیا ہے؟ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہونا چاہیے؟ اور زندگی میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟

چنانچہ یہ واضح ہے کہ دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے یوں فلسفے کو مذہب یا مذہب کو فلسفہ سمجھنے کی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے، تو کیا اس کا مطلب ہے کہ ہمارا سامنا ایسے دو مختلف الفاظ سے ہے جن کا معنی ومفہوم ایک ہی ہے؟ نہیں۔۔ یہ درست نہیں ہے، دونوں میں بہت سارے جوہری فرق ہیں بھلے ہی بادی النظر میں ان دونوں کی دلچسبیاں ایک جیسی ہی کیوں نہ لگیں۔۔ مثال کے طور پر مذہب میں مقدس دن ہوتے ہیں جیسے عید، میلاد، محرم، کرسمس وشادی غیرہ، اور مقدس رسومات بھی ہوتی ہیں جیسے نمازیں، حج وغیرہ۔۔ جبکہ فلسفے کے طالب علم کسی قسم کے مراسم کے پابند نہیں مثلاً کالجوں میں افلاطون اور ہیگل کو پڑھنے سے پہلے وہ ہاتھ نہیں دھوتے اس کے برعکس مذہبی تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو قرآن پڑھنے سے پہلے وضوء کرنا پڑتا ہے۔

دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ فلسفہ عقل کو ترجیح دیتا ہے اور تنقیدی فکر کو جلا بخشتا ہے اور ان پر زور دیتا ہے جبکہ مذاہب عقلیت پسندی سے صرف بقدرِ ضرورت ہی استفادہ حاصل کرتی ہیں، ان کا زیادہ زور خالص اندھے ایمان اور منطق، عقل اور حجت کی نفی کرنا ہوتا ہے اور یہ اسی پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔

کچھ فلاسفر ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے دعوی کیا ہے کہ انسان محض عقل سے حقیقت دریافت نہیں کر سکتا اور انسانی عقل کی محدودیت بیان کرنے کی کوشش کی مگر اس کا مطلب بہرحال یہ نہیں کہ فلسفہ اور مذہب ایک ہی چیز بن جائیں گے۔۔ کیوں؟۔۔ پڑھنا جاری رکھیں۔

 

آپ کو ایسا کوئی بھی حقیقی فلاسفر جیسے ہیگل، کانٹ یا رسل یہ کہتے ہوئے نہیں ملے گا کہ اس کا فلسفہ کسی ماڈل کے خدا کی طرف سے وحی کیا گیا ہے، فلاسفر مولویوں کی طرح نہیں ہیں، وہ یہ نہیں کہتے کہ ان کے دعوے کو بغیر بحث کے ایمانی طریقے سے قبول کرنا چاہیے، ایسے دعوے مذہب کی خاصیت ہوتے ہیں جو ہر چیز کو بالآخر خدا پر ایمان یا وحی تک پہنچا دیتا ہے جو کسی آسمانی بھوت کی نازل کردہ ہوتی ہے، چیزوں کو مقدس وغیر مقدس، پاک وناپاک میں تقسیم کرنا مذاہب کی بنیادی خوبی ہے جو فلسفے میں نہیں، مذہب اپنے ماننے والوں کو تحریروں کا تقدس سکھاتا ہے جنہیں وہ مقدس کتابیں کہتے ہیں جبکہ فلسفہ اپنے طالب علموں کو سقراط یا ابن رشد کی کتابوں کی تقدیس کرنے کا نہیں کہتا اور نا ہی ڈیوڈ ہیوم کی کتابوں کو پڑھنے سے پہلے وضو کرنے کی تلقین کرتا ہے، اس کے علاوہ اکثر مذاہب کا معجزوں پر ایمان ہوتا ہے جو اصولی طور پر کسی بھی طرح کے سائنسی یا طبعی قانون کے خلاف ہوتے ہیں، یہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا کائنات کے قوانین کے دائرہ کار کے اندر وقوع پذیر ہونا نا ممکن ہوتا ہے۔

ہر مذہب میں معجزات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور بیشتر اوقات اس مذہب پر ایمان کی اساس بھی، یہ تقریباً تمام مذاہب کی ایک بنیادی اور مشترکہ خاصیت ہے جس کا فلسفے میں کوئی وجود نہیں، مثال کے طور پر نیتشے کسی کنواری کے بطن سے پیدا نہیں ہوا، ہیوم نے کبھی پانی کو شراب میں بدلنے کی کوشش نہیں کی، سپینسر نے ڈنڈوں سے سمندر کو چیرنے کی کوشش نہیں کی، سپینوزا نے سلیمان کی طرح کسی چیونٹی سے بات کرنے کی کبھی حماقت نہیں کی اور نا ہی کبھی فرشتوں نے سارٹر کا سینہ چیر کر اس کا دل دھویا ہے۔۔ چنانچہ اگر مذہب اور فلسفہ کے کچھ مسائل مشترکہ بھی ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایک جیسے ہیں، اس کے برعکس مشترکہ مسائل کے باوجود دونوں ان مسائل کو الگ الگ طریقے سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔

ہمیں فلسفہ اور مذہب میں فرق کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا تاکہ مذہب کے شکار نہ ہوجائیں خاص طور سے جب مذہب خود کو اس طرح سے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے گویا کہ وہ اس زندگی کا فلسفہ ہو.

15 Comments

  1. معجزہ کے حوالے سے ایک بات واضح کر دیجیے۔ ساینس معجزے کو نہیں مانتی،اور ہمیں یہ عام طور پہ دکھای بھی نہیں دیتے، لیکن مدینہ کے نزدیک وادی بیضا یا وادی جن کے بارے میں کیا کہیں گے جہاں ہر چیز Gravity کے اصول کے خلاف چلتی ہے، وادی نیچے ہے اور مدینہ بلندی پہ، لیکن وہان ہر چیز مدینے کی طرف(یعنی اونچای کی جانب) چلتی ہے۔ لوگ اپنی گاریوں کو نیوٹرل کر دیتے ہیں، لیکن گاڑیاں اسی طرف جاتی ہیں اور انکی Speed بھی بڑھتی چلی جاتی ہےaccelerator کو چھوے بنا۔ Youtube پہ بھی videos موجود ہیں اور میری ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ھوی ہے جو خود وھاں جا کہ Experience کر چکے ہیں۔ یہ کیا ہے آپ کی نظر میں؟

    1. بخت بلند صاحب، جرات تحقیق پہ خوش آمدید۔
      منطقی طور پر معجزہ ممکن نہیں ہے۔ کیسے۔۔۔۔
      معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ کوئی ایسا عمل جو قوانینِ فطرت کو violate کرتا ہو۔ جب ایک ایسا عمل ممکن ہو کہ جو کسی قانونِ فطرت کی نفی کر رہا ہو تو پھر وہ قانونِ فطرت، قانون کا درجہ کھو دے گا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ہم اسکو قانونِ فطرت کہہ ہی نہ سکیں گے۔
      چنانچہ قانونِ فطرت کی نفی ناممکن ہے اور اگر کسی قانونِ فطرت کی نفی ہو جائے تو پھر اسکو قانونِ فطرت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس قانون کی نفی ہو جانے کے بعد اس نے قانون کا درجہ کھو دیا۔
      اب آتے ہیں آپ کے سوال کی جانب۔ یہ مظہر صرف سعودیہ کی وادی جن ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے بہت سارے دیگر مقامات پہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور ایسی جگہوں کو "گریویٹی ہِل” کہا جاتا ہے اور یہ مظہر کششِ ثقل کے قانون کے مطابق ہے۔ ویکی پیڈیا کے درج ذیل لنک سے اور گوگل کی خدمات لینے سے اس بارے میں معلومات مل جائیں گی۔ یہ کوئی معجزہ وغیرہ نہیں ہے۔

      http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_gravity_hills

  2. تخت بلند ۔۔۔۔جناب میں اٹلی آباد ہوں ۔۔۔جہاں میں رہتا ہوں اُس شہر کے قریب ہی ایک پہاڑی قصبہ ہے ّ لاوارونےّ ۔۔۔۔۔وہاں بھی بالکلُ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر چیز Gravity کے اصول کے خلاف چلتی ہے۔۔۔۔ پورے پورپ سے سیاح آتے ہیں یہ دیکھنے۔آپ انڑنٹ پہ سرچ کر کہ دیکھ لیں۔یہ کوئ معجزانہ بات نہیں ہیں۔

  3. آپ خود ہی حاکم بنے ھیں۔ اور اپنی مجنونانہ ذہنیت سے حقایق سے چشم پوشی کر رہے ھیں۔ اپ کی تحریرات پڑھ کر اپ کی عقل و دانش پر ھنسی ار ہی ھے۔ رکیک الفاظ اور جملوں سے ابدی حقیقتوں کو جھٹلایا نھیں جا سکتا۔ اگر ہمت ھے تو سنجیدہ تحقیق کا ساتھ میدان میں آو عقل ٹھکانے آجایگی۔

  4. تمام دوستوں کو سلام …
    ابو الحکم صاحب کا بہت بہت شکریہ جنھوں نے انتہائی دلچسپ گفتگو کا یہ پلیٹ فارم مہیا کیا ہے .
    میری ناقص راۓ میں
    مذہب اور فلسفہ انسان کی کیوروسٹی (Curiosity) اور اس سے پیدا شدہ بنیادی سوالوں کو تسلی بخش جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں . فلسفہ اپنی فطرت میں عقلی دلائل اور اس سے حاصل منطقی جواب کو پیش کرتا ہے . چونکہ فلسفہ خالص انسانی ذہانت اور حاصل مادی تحقیق کو استعمال کرتا ہے اس لیے اس میں تبدیلی اور بہتری کے مواقع ہر وقت موجود رہتے ہیں .
    اس کے برعکس مذہب انسانی نفسیات کو استعمال کرتے ہوے ایک ایسی سیاسی طاقت حاصل کرنا چاھتا ہے جس کے ذریے وہ اپنی پسند کا معاشرہ تشکیل دے سکے . اس مقصد کے حصول کے لئے مذہب جہاں اور جیسے چاہے خدا یا غیر معلوم کا لیورج استمال کرتا ہے . چونکہ مذہب میں خدا کا نام بے دریغ استعمال کیا جاتا ہےاس لیے مذہب کا ڈھانچہ اور نظریات جامد اور وقت کے ساتھ چلنے سے قاصر ہوتے ہیں .
    لہذا مذہب ور فلسفے کیا بنیادی فرق ان کے مقاصداور اس کے حصول کا طریقہ ہے .

  5. مذہب کا مقدمہ بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ اس کاینات کا ایک خالق ہے جس نے اس دنیا کو امتحان کہ اصول پر تشکیل دیا ہے. ہر انسان اپنے عمل کا نتیجہ پاے گا اسس دنیوی حیات میں اور اخروی حیات میں.

    فلسفہ اس کہ برعکس کسی بھی مقدمے کو ہر زاویے سے جانچنے کا نام ہے. اب وہ مقدمہ معاشرت کا ہو، سیاست کا ہو، سائنس کا ہو یا پھر مذہب کا. فلسفے کی ماں بھی مذہب ہی ہے. فسا غوررس ، سقراط وغیرہ سب اسی سلسلے کا حصہ ہیں.

  6. جناب عظیم ارحمان صاحب۔ اگر انسان دنیا میں امتحان کے لیئے آتا ہے تو جو پچے پیدا ہونے کے بعد مر جاتے ہیں۔ ان کا پیپر کیسے چیک کیا جائیگا۔ وہ تو امتحان سے پہلے ہی امتحان سے باہر ہو جاتے ہیں۔ معلومات میں اضافے کیلئے آب کے جواب کا انتظار کرونگا۔

جواب دیں

15 Comments
scroll to top