مساوات تب شروع ہوگی جب میں خود سے شروع کروں گا…
بہت سے لوگ مساوات کا پُرزور مطالبہ کرتے ہیں اور تفریق کا انکار کرتے ہیں بلکہ انتہاء پسندی کے خلاف تقریریں بھی جھاڑتے ہیں، لیکن اگر ہم ان کی حرکتوں کا تھوڑا سا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ اس مساوات کا مطالبہ صرف اپنے لیے کر رہے ہیں دوسروں کے لیے نہیں.
وہ آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ وہ دوسروں کو نظریاتی آزادی سے محروم کر رہے ہوتے ہیں.
وہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان کے مسائل پر ہمدردانہ غور کرے جبکہ وہ دوسروں کے مسائل پر جھومتے ناچتے اور گاتے نہیں تھکتے.
ان کے حقوق کے پیمانے میں کسی دوسرے فریق کے ساتھ مساوات کا کوئی ادنی تر اشارہ بھی نہیں ہوتا، یہ اشارہ صرف ان کی طرف ہی ہوتا ہے، صرف ان کے حقوق اور خواہشات ہی اہمیت رکھتے ہیں، رہی بات دوسرے انسانی معاشروں کی طرف ان کی ذمہ داری کی تو وہ کسی اور کو پوری کرنی چاہیے.
ان کی مساوات سوائے اس ترجیح کے اور کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے آپ کو دنیا کی مطلق بہترین امت قرار دے کر اپنے آپ میں دیکھتے ہیں، جب تک وہ اپنے آپ کے گرد گھومتے رہیں گے، اپنی ہٹ دھرمی کے قیدی رہیں گے اور مساوات کیا ہے یہ کبھی نہیں جان سکیں گے.
مساوات یہ ہے کہ جو میں اپنے لیے چاہوں وہی دوسرے کے لیے بھی چاہوں… دوسرے کو وہ جگہ دوں جو کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی مجھے دے، اس کے رنگ، نسل، عقیدے اور جنس سے بالا تر ہوکر اسے بطور انسان کے دیکھوں، اس کی زندگی میں وہ قیمت دیکھوں جو میں اپنی زندگی میں دیکھتا ہوں.
مساوات تب مکمل ہوگی جب میں دوسرے کو اس نظر سے دیکھنا شروع کروں گا جس نظر سے میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی مجھے دیکھے.
سمجھو ہو کہاں اوروں کو تم اپنے برابر
بس منہ سے مساوات مساوات کرو ہو
فساد کی اصل جڑ يہی ہے کہ ہر آدمی اپنی مرضی کی مساوات اور اپنی مرضی کا اسلام چاہتا ہے ۔ اللہ کو ماننے کا دعوٰی ہے مگر اللہ کی ايک نہيں مانتے
تشریف آوری کا شکریہ چچا جی.. 🙂
چاچا جی کو چاہیئے کہ ایک بار ٹھیک سے معلوم کرلیں کہ اللہ ہم سےکیا منوانا چاہتا ہے پھر دوسروں کو نصیحت کریں گے تو شائدکچھ تاثیر بھی پیدا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
🙂
😀