Close

مسروقہ تہذیب

تہذیب قوموں کی ہزاروں سالوں کی تعمیری محنت کا نتیجہ ہوتی ہے، چینی اور فرعونی تہذیبیں اس کی روشن مثالیں ہیں.. ایک فارسی تہذیب بھی ہے جس پر مسلمانوں نے قبضہ جما کر اسے خود سے منسوب کر لیا اور اسے اسلامی تہذیب کا نام دیا.

تیسری صدی ہجری میں ری شہر کی لائبریریوں میں موجود کتابوں کی صرف فہرست پر مشتمل دس ضخیم جلدیں موجود تھیں، اس کے علاوہ مرو میں دس لائبریریاں موجود تھیں، انہی کتابوں اور لائبریریوں کا ہی نتیجہ تھا کہ فُرس میں بیرونی، ابن سینا، رازی او عمر الخیام جیسے مفکر وعالم ابھرے.. حتی کہ ابو نواس جو ہارون الرشید کا پسندیدہ شاعر تھا فارسی النسل تھا.

اسلامی تاریخ یا ثقافت کے تمام نابغہ روزگار وعلماء عرب نہیں بلکہ فارسی نسل کے تھے جو یا تو اسلام میں زبردستی داخل کیے گئے یا "اسلم تسلم” کے اصول کے تحت مجبور تھے یا جزیہ سے بچنا چاہتے تھے.

ابو بکر الرازی خراسان کے ری شہر کے فارسی عالم اور طبیب تھے، ابو القاسم محمد الاصطرخی جو جغرافیے کے عالم تھے کا تعلق فارس کے شہر اصطخر سے تھا، المسالک والممالک کے ابن خردازیہ فارسی النسل تھے، فلکیات دان عبد الرحمن الصوفی جس نے ستاروں کی نشان دہی کے لیے آسمان کا نقشہ بنایا تھا فارسی النسل تھا، علی بن العباس المجوسی ایک ماہر طبیب تھا جس نے Pulmonary circulation دریافت کی تھی کا تعلق فارس کے شہر اہواز سے تھا اور بغداد کے ہسپتال میں خدمات انجام دیتا تھا جس کا نام ” البیمارستان العضوی ” تھا، ہسپتال کے نام سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسلامی ثقافت پر فارسیوں کا کس قدر اثر تھا، ابن سلیمان السجستانی، مشہور فلکیات دان جس نے زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کی بنیاد پر اسطرلاب بنایا تھا سجستان کا فارسی تھا، ابن الہثیم، مشہور ریاضی وطبیعات دان فارسی النسل تھا، البیرونی، الخوارزمی، ابن مسکویہ، ابن سینا، ابن جریر الطبری ودیگر سب فارسی النسل تھے.

اس کے مقابلے میں عرب علم کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ معلم اور تعلیم کو ایک حقیر پیشہ سمجھتے تھے جسے صرف کم تر لوگ ہی اپنانے تھے.. کیا صفر اور اعداد عربوں کی ایجاد تھی؟ یعقوبی کہتے ہیں: "ومن کتاب بطلیموس عملوا من ذلک المختصرات والزیجات وما أشبہہا من الحساب ووضع التسعہ احرف الہندیہ التی یخرج منہا جمیع الحساب والتی لا تدرک معرفتہا وہی 123456789 – بطلیموس کی کتاب سے مختصرات اور زائچے اور حساب میں اس جیسی چیزیں بنائی گئیں اور نو ہندی حرف لگائے گئے جن سے حساب نکلتا ہے اور جن کی معرفت کا ادراک نہیں کیا جاسکتا جو یہ ہیں 123456789” صفر کے بارے میں کہتے ہیں: "واذا خلا بیت منہا یجعل صفراً ویکون الصفر دارۃ صغیرۃ – اور اگر کوئی بیت ان سے خالی ہو تو صفر ہوتا ہے اور صفر ایک گول دائرہ ہوتا ہے” یعقوبی تک اعداد کو "المختصرات والزیجات” قرار دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ان کا نام معلوم نہیں تھا اور انہیں "ہندی حروف” قرار دیتے ہیں بلکہ مزید فرماتے ہیں کہ "ان کی معرفت کا دراک نہیں کیا جاسکتا” یعنی یہ ان کے لیے مشکل ہیں تو پتہ چلا کہ اعداد اسلامی نہیں بلکہ ہندوستانی ایجاد ہے اور عربوں کو ان کے بارے میں کافی دیر کے بعد پتہ چلا، یاد رہے کہ یعقوبی مسلمانوں کے اولین مؤرخین میں سے ہیں جن کی "تاریخ الیعقوبی” مشہور ہے.

مسلمان معاشریات دان ابن خلدون اپنی کتاب ” مقدمہ ابن خلدون ” میں عربوں کو یوں بیان کرتے ہیں: "اذا کانت الامۃ وحشیۃ کان ملکہا واسع وذلک لانہم اقدر علی التغلب والاستبداد واستعباد الطوائف ولقدرتہم علی محاربۃ الامم وسواہم لانہم ینزلون من الآہلین منزلۃ المفترسین من الحیوانات العجم وھؤلاء مثل العرب – اگر امت وحشی ہو تو ان کا ملک وسیع ہوتا ہے کیونکہ وہ غلبہ پانے، ظلم کرنے اور گروہوں کو غلام بنانے پر زیادہ قدرت رکھتے ہیں، ان میں قوموں سے جنگ کرنے کی مقدرت ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں پر درندہ جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایسے لوگ عربوں کے جیسے ہیں” اپنی اسی کتاب کے دوسرے حصے کے چھبیسویں باب میں جس کا عنوان ہے کہ جب عرب کسی وطن پر غالب آجائیں تو اس پر بربادی جلد آجاتی ہے کہتے ہیں: "والسبب فی ذلک انہم امۃ وحشیۃ باستحکام عوائد التوحش واسبابہ فیہم فصار لہم خلقا وجبلۃ وکان عندہم مستحباً – اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک وحشی امت ہے، ان میں وحشی پن کے تمام اسباب مستحکم ہوگئے ہیں اور ان کی خلقت وجبلت بن گئے ہیں اور یہ ان کے ہاں مستحب ہے”

ابن خلدون نے عربوں کی خوبیاں بیان کرنے کا حق ادا کردیا، عربوں کی تعریف میں ان کی کتاب کا یہ باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، یاد رہے کہ اسلام کے آغاز میں عربوں نے ہی اسلام کو پھیلانے کی ذمہ داری اٹھائی تھی، اب جس قوم میں ابن خلدون کی بیان کردہ خوبیاں ہوں تو آپ اس دین کی شکل کا تصور کر سکتے ہیں جسے وہ ملکوں ملکوں پھیلائیں گے؟!

جہاں تک عربوں کا فلسفے میں حصہ ڈالنے کا معاملہ ہے تو ناقدین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عربوں نے فلسفے کو محض نقل کیا کیونکہ فلسفے اور فلسفیانہ مدارس ان پر اثر انداز ہوئے نا کہ وہ ان پر اثر انداز ہوئے، معتزلیوں کی تحریک بھی یونانی فلسفے کے اثر کا نتیجہ تھی رہی بات ترجمہ کی تو ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں ترجمہ کی تحریک کی قیادت سریانی عیسائیوں نے کی تھی عربوں نے نہیں حتی کہ جب خلیفہ منصور شدید بیمار ہوئے تو عرب طبیب اس کے مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام رہے اور اسے ایک فارسی طبیب سے علاج کا مشورہ دیا جو ہر مرض کا علاج کر سکتا تھا جس پر خلیفہ منصور سخت برہم ہوا اور انہیں ڈانٹے ہوئے کہا: "فان مات الرجل ماذا نحن فاعلون فنموت نحن ایضاً؟ – اگر وہ آدمی مرجائے (یعنی وہ فارسی طبیب) تو ہم کیا کریں گے کیا ہم بھی مرجائیں گے؟” پھر اپنے وزیر کو اس فارسی طبیب کو بلوانے کے لیے کہا اور اپنا علاج کروانے کے بعد اسے اپنے طبیبوں کو سکھانے کے لیے کہا اور سریانی مترجمین کو علوم کے ترجمے کے کام پر مامور کیا اور انہیں خوب نوازا کہ ہر ترجمہ شدہ کتاب کے وزن کے برابر سونا تول کر مترجم کو دیا جاتا تھا.

فارسی تہذیب یا جسے اب اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے حالانکہ اسے اسلامی ثقافت کہا جانا چاہیے فُرس سے نقل کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا کیونکہ عربوں کو تو بس جنگوں، اموالِ غنیمت، غلام، باندیاں، جزیہ، خراج وغیرہ سے دلچسبی تھی اور اس سے فرصت ہی نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان میں کوئی بھی قابلِ ذکر عالم پیدا نہ ہوسکا کہ تمام علماء یا تو فارسی النسل تھے یا غیر عرب یعنی عجم تھے.

26 Comments

  1. عام طور پہ عرب بدوئوں کی تہذیب کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے. اسکی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اسلام نے وہاں جنم لیا. اسی کی بنیاد پہ بیشتر لوگ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ عربوں کا اسلام درست اسلام ہے. کچھ تو عربوں کو برا بھلا کہنا بھی گناہ خیال کرتے ہیں.
    ھالانکہ حجہ الوداع میں رسول اللہ نے اس بات پہ زور دیا کہ کسی عرب کو کسی عجمی پہ اور کسی عجمی کو کسی عرب پہ کوئ فوقیت ھاصل نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی فتوھات کے ساتھ ہی اس مسئلے نے سر اٹھا لیا تھا. بالخصوص ایرانی فتح کے ساتھ شدت سے یہ بات آئ کیونکہ اہل فارس تہذیب میں عربوں سے خاصے برتر تھے. اس چیز کا اہل فارس کو بھی احساس تھا.
    ابھی میں کچھ دنوں پہلے غلام احمد پرویز کی کتاب مقام حدیث پڑھ رہی تھی. انہوں نے متنازعہ احادیث کو عجمی سازش قرار دیا. واللہ اعلم. کیونکہ شبلی نے حدیثیں گھڑنے میں جن لوگوں کے نام لئے ہیں انکی بڑی تعداد تو عرب معلوم ہوتی ہے.

    1. بجا فرمایا اسلام کی وجہ سے عربوں کو مفت کا تقدس حاصل ہوگیا ہے جس کے وہ رتی برابر بھی اہل نہیں، ان کی جہالت کے نمونے اب بھی عرب ملکوں میں جاکر دیکھے جاسکتے ہیں اور نتیجتاً یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ وہی قوم ہے جس کی بہادری کے قصے اسلامی تاریخ میں بیان کیے جاتے ہیں!!

  2. بوقت طلوع اسلام شہر مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور انکے صحابہ و ساتھیوں کی زبان چونکہ عربی تھی، اسی لیے قرآن، احادیث، سیرۃ اور دیگر اسلامی علوم کی سبھی ابتدائی کتب عربی زبان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ صرف اہل عرب ہی کے رسوم و رواج کو "اسلامی تہذیب” گردانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے جوکہ تمام دنیا کے جن و انس کے لیے اتارا گیا ہے لہذا دنیا بھر کے مسلمانوں میں پائے جانے والے عام تاریخی رسم و رواجوں کو ظاہر کرنے والی اصطلاح ہی ‘اسلامی تہذیب‘ کہلائی گی۔ پس اسلامی تہذیب، مشترکہ طور پر عربی، ایرانی، ترکی، منگول، بھارتی، ملایائی اور انڈونیشیائی تہذیبوں کا معرقہ ہے۔

    1. تمام دنیا کے جن و انس کے لیے اتارا گیا ہے لیکن عملی طور پر آپ کو کہاں پر نظر آتا ہے؟؟ اتنا آفاقی دین اور اس قدر فلاپ کہ اس کے ماننے والے تک اس پر عمل نہیں کر سکتے۔ اگر تمام انسانیت و جنات کے لیے ہوتا تو ایسا قابل عمل بھی ہونا چاہیے تھا جو اس کے آغاز لے کر آگے کے ہزاروں سال تک انسان کا ساتھ دے سکے۔ ابھی تک مسلمان خود اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ ان کا کون سا مسلک درست ہے، ہر کسی کی اپنی مسجد ہے، یہ کیا ہے بھائی؟ آپ کے خیال میں سبھی درست ہیں یا صرف آپ کا مسلک؟

      1. وہ سبھی درست ہیں جوکہ اس کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی حدود سے باہر نہیں نکلتے ہیں. اور حدود کی تفصیل قرآن و حدیث (سنت) سے علم میں آتی ہے. اور اسلام پر آپ کے اس الزام ” کہ یہ قابل عمل نہیں یا اپنے آغاز لے کر آگے کے ہزاروں سال تک انسان کا ساتھ نہیں دے سکتا ہے۔” کا جواب یہ ہے کہ اسلام اسقدر آسان ہے کہ قیامت تک کے ہر انس و جن کو باآسانی اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ اسکی تخلیق کا کیا مقصد ہے اور اسکو دنیا و آخرت میں کامیابی کسطرح حاصل ہوگی. آپ کو میرا چیلنج ہے کہ آپ اسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسا مذہب یا نظا م نہیں بتلا سکتے جو کہ ابتداء سے لے کر انتہاء تک کے سوالات کے شافی جوابات کامل یقین کے ساتھ دیتا ہو.
        نوٹ: الحمد اللہ میرا کوئی مسلک نہیں ہے سوائے اسلام کے! اور میں مسلمان محض اسلیئے نہیں کہ ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا، بلکہ اسلیئے ہوں کہ مجھ کو اسلام کے علاوہ اور اس سے بہتر کوئی اور نظام حیات نہیں ملا. اگر آپ کو علم ہو تو میرے علم میں ضرور لایئے گا. بصورت دیگر آپ سوچ سکتے ہیں کہ کون کسقدر نقصان میں ہے.

          1. محض مان لینے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا کبوتر کے آنکھ بند کرلینے سے بلی بھاگ جاتی ہے یا شترمرغ کے ریت میں سر دے لینے سے اسکی جان بچ جاتی ہے؟ لہذا اسلام کا پیروکار ہونے کے بنا میرا آپ کو بھی چیلنج ہے کہ آپ اسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسا مذہب یا نظا م نہیں بتلا دیں جو کہ ابتداء سے لے کر انتہاء تک کے تمام سوالات کے شافی جوابات کامل یقین کے ساتھ دیتا ہو.
            ایسا کون سا مذہب یا نظام ہے جس میں انسان کو یہ پتا لگتا ہو کہ اسکی تخلیق کا کیا مقصد ہے اور اسکو دنیا و آخرت میں کامیابی کسطرح حاصل ہوگی؟

          2. چیلنج قبول کرکے مجھ کو غلط ثابت کردیں نہیں تو جو دل کرے کہتے رہیےمحض آپ کے کہہ دینے سے صحیح کو غلط تھوڑی نا مان لیا جائے گا.

          3. وہی بات دوبارہ لکھنے کے سوا آپ نے کچھ نہیں کیا سو جواب اب بھی وہی اور بات وہیں کی وہیں.. 🙂

      1. بے شک کر لیجیے ! کیونکہ تہذیب و تمدن کی لغوی تعریف کی روشنی میں‌ دنیا بھر کے مسلمانوں میں پائے جانے والے عام تاریخی رسم و رواجوں کو ظاہر کرنے والی اصطلاح ہی ‘اسلامی تہذیب‘ کہلائی گی۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ اسکو جو دل کرے وہ نام دیں اس سے اسلام یا مسلمانوں کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟

          1. تہذیب (Civilization):
            ایک سماج یا تہذیبی گروہ جو کسی مقام پر کاشت کرتے ہوئے مقیم ہوتاہے اور اپنی زندگی گذارتا ہے۔ اور اس گذارنے والی زندگی میں وہ تمام شعبہ جات رہتے ہیں جو کہ ایک سماج میں عمومی طور سے پائے جاتے ہیں۔ اور یہ تہذیب اس گروہ کا ورثہ ہوتا ہے۔
            http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%DB%81%D8%B0%DB%8C%D8%A8

            ثقافت-تمدن (culture):
            تہذیب و ثقافت یعنی وہ رسم و رواج اور طور طریقے جو ہماری اور آپ کی زندگی پر حکم فرما ہیں۔ تہذیب و ثقافت یعنی ہمارا ایمان و عقیدہ اور وہ تمام عقائد و نظریات جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں شامل ہیں۔
            http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=149117
            ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے‘‘۔ اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات ، افعال ، خیالات اور رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
            http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AB%D9%82%D8%A7%D9%81%D8%AA

            معاشرہ (society) :
            افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جسکی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں
            http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%A8:%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D8%B1%DB%81
            اوپر دی گئی تعریف سرمایہ دارآنہ سیکولر جمہوری نظام حیات کے حساب سے ہے جبکہ معاشرہ کے بارے میں‌اسلامی فہم یہ ہے کہ یہ افراد کے علاوہ 3 مزید عناصر سے ترکیب پاتا ہے اور یہی عناصر افراد کے باہمی تعلق کو متعین کرتے ہیں :-
            1 : عوام کے افکار
            2: عوام کے جذبات اور
            3: رائج الوقت نظام حکمرانی
            صفحہ نمبر 3 اور 4 : http://khilafat.dk/materiale/Society-1.pdf

            تمدن‘ امیری‘ ظاہری شرافت‘ جسمانی خواہشوں کے پورا کرنے اور مادّی عیاشیوں کے سمندر میں تیرتے پھرنے کا نام نہیں ہے۔تمدن‘ دل کی امیری‘ روح کی شائستگی‘ نظر کی گہرائی‘ اور دوسروں کے زندہ رہنے کے حق کو ماننے اور اُنہیں قبول کرنے کا نام ہے۔

            لوگوں کا مہذب اور متمدن ہونا اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی ذات میں پائی جانے والی اعلیٰ خوبیوں کی اصلاح کرتے کرتے اُنہیں کس حد تک اپنی دوسری فطرت بنالیا ہے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا متمدن ہونا اُن کے لباس سے اور ہر طرح کے مادی ذوق سے استفادہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے‘ تو وہ ایک طرح سے اُ ن لوگوں میں شمار ہوں گے جو صحیح تخمینہ لگانا نہیں جانتے۔ ایسے لوگ درجنوں جسمانی زندگیوں کے بوجھ تلے پسے جانے والے بدبخت ہیں ۔
            http://pk.fgulen.com/index.php?option=com_content&view=article&id=83&catid=13&Itemid=2

            المختصر اوپر دی گئی تعریفات کی روشنی میں ساری دنیا کے مسلمین کا کسی بھی خطئہ زمین سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی ؛ انکا نظام الحیات اسلام کے تابع ہونے کی بنا پراسلامی تہذیب ہی کہلائےگا.

          2. محترم آپ نے جو انگریزی والا ربط دیا تھا اس میں بھی بعینہ یہی بات درج ہے جو میں نے آپ کو اردو روابط سے نکال کر دیا تھا ، اب آپ نے میرے نتائج کو محض اردو میں ہونے کی بنا پر اسلامی چھلنی شدہ تعریفات کہہ کر پس پشت ڈال دیا. جبکہ اگر آپ کے دیئے گئے ربط کے پہلے پراگراف کو پڑھیں تو اسمیں بھی وہی تمام باتیں کہی گئ ہیں جو کہ میں نے آپ کو اردو میں فراہم کی. آپ کے دیئے گئے انگریزی ربط کے مطابق تو آج تک تہذیب کی کوئی جامع تعریف ہی متعین نہیں ہوسکی ہے اور یہ انسانوں کے ثقافتی، تمدنی، مادی اور اخلاقی ترقیوں کے مجموعے کا نام ہے جسکو مختصرا ثقافت اور معاشرہ کہا جاتا ہے. اسی لیے میں نے آپ کو اردو میں تہذیب ، ثقافت اور معاشرہ کی تعریفات فراہم کی تاکہ ہم محض‌الزام تراشی اور منفی ردعمل کی نفسیات سے بالاتر ہو کر کچھ بامقصد مباحثہ کرسکیں.

            آپ کو منطق اس لیے بودی لگ رہی ہے کیونکہ آپ نے یہ فرض کرلیا ہے کہ مذہب سے پہل تہذیب تشکیل پاتی ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب پہلے آیا تھا حضرت آدم کے ساتھ پھر تہذیب تشکیل پائی تھی، پھر جب بعد کے لوگوں نے بنیادی مذہب میں تحریفات کی تو نیا مصلح (نبی،رسول) بھیجا گیا اور اسکے ماننے والے ایک نئے مذہب کے پیروکار کہلائے جبکہ حقیقت میں تو صرف مصلح نیا تھا جوکہ پرانے بنیادی مذہب میں کی گئی تحریفات کی اصلاح کرنے کو آیا تھا. اور پرانے لوگوں نے بنیادی مذہب میں من پسند تبدیلیاں کرکے نیا مذہب تشکیل کیا تھا.

            باقی رہا مسلمانوں کا طرز عمل تو یہ ہر مسلم کا فریضہ ہے کہ وہ بت شکن بنے نہ کہ بت تراش و بت فروش ، اسی لیے مسلم نے صرف بت سازی کو چھوڑ کر باقی تہذیبی عناصر کو ہمیشہ نئی زندگی دی ہے، اسکی اعلی مثالیں اہل اسلام کے سنہرے دنوں میں فن تعمیر اور علوم کی ترقی ہے. آپ کی دی ہوئی تمام مثالوں میں 2 کو چھوڑ کر باقی سب بت شکنی کے واقعات ہیں لہذا اگر آپ کے خیال میں بت و مجسمہ سازی ہی تہذیب کی علامت ہی تو مجھ کو آپ کی ذہنی صحت پر شک ہوتا ہے. اور آپ جلدی میں سومنات کے بت شکن محمود غزنوی کو بھول گئے شائد!

            ان 2 واقعات کے مقاصد بمعہ حوالوں کے درکار ہیں : خلیفہ ہارون الرشید نے ایوان کسری کو تباہ کرنے کی کوشش کیوں کی، اور حضرت عمر نے کیوں کتب خانہ اسکندریہ کو تباہ کا حکم دیا تھا؟ جبکہ الطاف حسین حالی نے تو مسدس میں لکھا ہے کہ : حریم خلافت میں اونٹوں‌پہ لدکر – جمے سے تھے مصر و یونان کے دفتر (1879ء، مسدس حالی، 31)

          3. حضرت قبلہ وکعبہ وجوامع المساجد، اردو وکیپیڈیا کا ربط میں بھی دے سکتا تھا مگر وہاں تہذیب کا مضمون نا مکمل ہے اسی لیے آپ کو انگریزی وکیپیڈیا کا ربط عنایت کیا تھا تاکہ ایک غیر جانبدار ذریعے سے تہذیب کی تعریف دیکھ لیں مگر آپ نے اسے نظر عنایت نہ بخشی اور اسلامی فلٹر سے گزری تعریفات اٹھا لائے ہیں، اس حساب سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک قوم ہزاروں سال محنت کر کے ایک تہذیب تشکیل دیتی ہے پھر اچانک کہیں سے ایک مذہب آ نمودار ہوتا ہے اور اس قوم کا کوئی شخص وہ مذہب اپنا لیتا ہے تو محض اس وجہ سے گزشتہ ہزاروں سالوں کا اس قوم کا سارا تہذیبی ورثہ مفت میں اس نئے مذہب کے نام ہوجائے گا؟ اس بودی منطق کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو یہی دلیل بعینہ دوسرے مذاہب کے لیے کارگر کیوں نہیں ہوسکتی؟ یہی کلیہ عیسائیت، یہودیت یا ہندو مت کے لیے لاگو کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس طرح دنیا کی ساری تہذیبیں مفت میں مختلف مذاہب کے کھاتے میں آجائیں گی اور اصحابِ تہذیب ڈگڈگی بجاتے رہ جائیں گے.. ویسے بھی مسلمانوں کو تہذیب وتمدن کی بات کرتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے، تاریخ میں دیکھیں تو اسلام ہمیشہ تہذیب شکن ہی رہا ہے، اوپر تصویر میں جو قدیم مصری تہذیب کے اہرامات نظر آرہے ہیں مسلمانوں کے ہر دلعزیز خلیفہ مامون نے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کی ضخامت کی وجہ سے منہ کی کھائی اسی طرح خلیفہ ہارون الرشید نے ایوان کسری کو تباہ کرنے کی کوشش کی مگر اسے بھی منہ کی کھانی پڑی، حضرت عمر کے حکم پر حضرت عمرو بن العاص نے کتب خانہ اسکندریہ کو تباہ کر کے علم وتہذیب دوستی کا بڑا اچھا ثبوت دیا تھا، طالبان کے ہاتھوں بدھا کے مجسموں کی تباہی کون سی تہذیب دوستی کی علامت تھی اور کس تہذیب کی نمائندگی کر رہی تھی؟ مسلمانوں کا بس چلتا تو سابقہ تمام تہذیبوں کے آثار مٹا ڈالتے.. اب جبکہ انہیں تہذیبوں کی اہمیت کا پتہ چلا ہے تو اپنا احساس کمتری دور کرنے کے لیے بڑی بے شرمی سے یہ دعوی داغ دیتے ہیں کہ جی یہ ساری تہذیبیں اسلامی تہذیبیں ہیں سوال یہ ہے کہ کیا مذاہب تہذیبیں تشکیل دینے آئے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر خیال کیجیے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ مذہب جاتا رہے اور آخر میں صرف تہذیب ہی بچ جائے جو اگلی نسلوں کی عبرت کے لیے کسی عجائب گھر میں رکھی ہو..

          4. حضرت کبھی آپ نے عیسائی تہذیب کا نام سنا ہے؟ کیا آپ کوئی ایک ایسی تہذیب بتا سکتے ہیں جو ہمارے لیے اپنا مذہب چھوڑ گئی ہو؟ دیوارِ چین کس مذہب سے منسوب ہے؟ اگر آپ کے خیال میں آپ کی بیان کردہ تعریف انگریزی وکیپیڈیا کے مطابق ہے تو وہاں کہاں لکھا ہے کہ تہذیب کی بنیاد مذہب ہے اور دنیا کی مختلف تہذیبوں کو صرف ایک مذہب ہائی جیک کر سکتا ہے؟ اسلام میں ایسی کوئی خوبی بھی ہے جس سے کسی طرح کی تہذیب کے پنپنے کے آثار پیدا ہوں؟ مصوری حرام، مجسمہ سازی حرام، موسیقی حرام، اداکاری حرام اور علوم فقط دینی ہی جائز ایسی میں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کسی طرح کی کوئی تہذیب پنپ سکتی ہے تو مجھے اس کی ذہنی صحت پر شبہ ہے.

            رہی یہ بات کہ مذہب آدم کے ساتھ آیا تھا تو نظریہ ارتقاء کے دور میں آدم کی خرافت کی بات کرنا مجذوب کی بڑ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا، جہاں تک مسلمانوں کے بت شکن ہونے کی بات ہے تو حجرِ اسود کو چاٹتے اور مزارات پر ماتھا ٹیکتے وقت یہ بت شکنی کہاں مر جاتی ہے؟

            جہاں تک حوالوں کی بات ہے تو یہ خاکسار ڈھیر لگا دے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنی تاریخ کے اتنے عام واقعات تک کا نہیں پتہ تو پھر بحث چہ معنی دارد؟ چنانچہ کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاؤ!

          5. اسلام ایک مکمل دین ہے نہ کہ عیسائیت کی طرح محض ایک مذہب ، اسی لیے عیسائیت یا کسی بھی مذہب کی تہذیب نہیں ہے ، سوائے اسلام کے.

            آپ کے محبوب نظریہ ارتقاء کی نفی تو آج خود سائنسدانوں نے کردی ہے ، جسکی تفصیلات آپ ادھر سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں : http://en.wikipedia.org/wiki/Objections_to_evolution
            اور اس سلسلے میں ترکی کے ایک مسلم عالم جناب ہارون یحیی نے بھی کافی اہم کام کیے جوکہ ادھر سے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں :‌http://www.harunyahya.com/en/works/47831/Uncle_Darwin__We_Havent_Changed
            اگر پھر بھی آپ کی تسلی نہیں ہو رہی ہو تو برائے مہربانی مجھ کم علم کے ایک آسان سوال کا جواب عنایت فرمانے کی زحمت کردیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کچھ بندر تو انسان بن گئے جبکہ باقی سارے آج تک بندر ہی چلے آ رہے ہیں اور جنگلوں اور ہمارے شہروں کے چڑیاگھروں میں اپنے انسانی شکلوں والے رشتہ داروں کی تفریح طبع کی خاطر قید رہتے ہیں؟

            حوالے دے دیتے تو اچھا رہتا، اور اس بات کی تحقیق بھی ہو جاتی ہے کہ یہ واقعات کتنے سچے ہیں ویسے بھی میں نہ تو کوئی عالم ہوں اور نہ ہی تاریخ کا حافظ. اسلام کے حوالے سے آپ کے سوالات کو فلحال نظر انداز کر رہا ہوں کہ محض بحث برئے بحث مقصود نہیں.

  3. سب بنا بنایا ڈھکوسلا مذہب ہے، جس کیلئے تاریخ و شواہد کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ عقل ماننے کو تیار ہی نہیں.
    جب کوئی انٹرٹینمنٹ تھا ہی نہیں اور کہہ دیا لو مانو کہ میں نبی، اور یہی انٹرٹینمنٹ ہوگیا پھر عقیدہ اور مذہب بھی.
    یار اینڈرسن شا تبصرہ باکس کیلئے فل ایڈٹ ٹولس بھی لگا دیتے! نہ اسمائلی ہے نہ بھانگڑا.

  4. تہذیب و ثقافت کی تاریخ ا تنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ ہے۔انسانی تاریخ اور اس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسانی سماج اپنی آنے والی نسل کو علم سے روشناس کراتا رہا ہے۔ علم دو طرح کا ہوتا ہے، ایک حقیقی علم جس میں خیالات، عقائد، رویے، روایات، اور طور طریقے شامل ہیں۔اس طرئقہ علم کو کلچر بھی کہا جا تا ہے۔اور دوسری قسم کا علم جس میں ، سائنسی، تکنیکی اور انتظامی امور کا علم ہے۔ اس طریقہ علم کو تہذیب بھی کہا جا تاہے۔جدید دانشوروں نے علم کو آرٹ اور سائنس میں تقسیم کردیاہے۔یہ ایک غیر مناسب تقسیم ہے۔

    کلچر انگریزی زبان کا سب سے پیچیدہ لفظ ہے۔ کلچر یعنی ثقافت کی تشریح اس طرح ہے۔’ آکسفورڈڈکشنری کے مطابق روایات اور عقائد،زندگی گزارنے کا طریقہ اور کسی ملک یا گروپ کی سماجی تنظیم کا نام کلچر ہے‘۔کلچر کسی بھی فرد و سماج اور قوم و ملک کے عادات و اطوار اور ان کے رویے کے تشخص کا نام ہے۔مشہور ماہر معاشیات امرتیہ سین نے اپنی کتاب (Identity and Violance ) میں کلچر پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کے کلچر کوئی Homogeneousشئے نہیں ہے بلکہ اس کے اندر مختلف شکلیں ہیں۔اور اس میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہوتا اور کلچر سماج کے دیگر عوامل اور تصورات کے ساتھ تبادلہ کرتا ہے۔ مشہور انگریزی شاعر میتھیوآرنلڈ (Mathew Arnold)کہتے ہیں۔کلچر کو مناسب طور پر اگر بیان کیا جائے تو اسکی بنیاد تجسس میں نہیں بلکہ اسکی بنیاد محبت اور کمال میں ہے۔ یہ کمال Perfection کا مطالعہ ہے۔ یہ حقیقی معلومات کی سائنسی قوت سے نہیں چلتا بلکہ بہتر کام کرنے کی اخلاقی اور سماجی قوت کے بل بوتے پر چلتا ہے۔

    اسلامی تہذیب و ثقافت کے چار اصول ہیں۔۱) تو حید ، ۲)رسالت، ۳)آخرت، اور ۴)ذوق جمال وفکری طہارت۔ان نظریاتی اصولوں پرزبان، علاقہ، موسمی تغیرات، جغرافیائی فاصلے اور تاریخی عوامل میں سے کسی کا اثر نہیں پڑتا۔یہ اصول ہر دور میں، ہر علاقہ اور ہر نسل میں غیر متغیر رہتے ہیں۔ لیکن ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے عملی مظاہر ہر معاشرے اور ہر جغرافیائی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہیں گے۔لیکن ان میں تبدیلی اور تغیر کے باوجود وہ سب اسلامی کلچر کے مظاہر کہلائیں گے۔اسلامی کلچر کی بنیاد یہ ہے کہ انسان صرف حیوان نہیں بلکہ اللہ تعالی کا خلیفہ ہے۔اسی تصور کے ساتھ انسان کی زندگی کا مقصداللہ کی خشنودی بن جاتا ہے۔مقصد کی طرف موڑنے میں عقائد کا اہم رول ہے۔

    مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے میدان عمل، میدان فکر، اور میدان تخلیق میں اپنا ایک مخصوص نقشہ قائم کیا تھا۔میدان عمل میں معاشیات، معاشرت، سیاست، تعلیم، اور عمرانیات میں ایک خاص قسم کا نظام قائم کیا تھا۔ میدان فکر میں ان کی ذہانت نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور آئندہ ارتقاء کی راہ بھی متعین کردی۔میدان تخلیق میں انہوں نے اپنی جمالیاتی روح کی حرکت سے زندگی کے جمال کو نکھارنے اور مالا مال کردینے کا سامان کیاجو ان کے ادب، فنون لطیفہ اور فلسفہ میں نمودارہوا۔اسلام ایک مکمل تہذیب و کلچر کا نقشہ دیتا ہے۔توحید پرستی، انسانیت کا احترام، آفاقیت، عالمی اخوت، عالمی بھائی چارہ، عالمی امن، وحدت انسانیت، وحدت فکر و عمل، فرد شناسی، فرض شناسی، جوابدہی کا احساس، اور اعتدال و توازن وغیرہ۔ یہ سب اسلامی کلچر کی خصوصیات ہیں۔اور اسلامی کلچر جن غیر اخلاقی صفات کو اپنانے سے منع کرتا ہے وہ اس طرح ہیں شرک و بت پرستی، نسل پرستی، قوم پرستی، علاقہ پرستی، تنگ نظری، فتنہ و فساد، نمود و نمائش، بے قید آزادی اور رہبانیت وغیرہ ہیں۔

    کلچر کسی بھی سماج کی شناخت اور کسی بھی نظریہ کا ترجمان ہوتا ہے۔ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ایک مکمل کلچر انسانیت کو دیتا ہے۔اور امت اس کلچر کے فروغ و استحکام کی علمبردار بنائی گئی ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ایک تکثیری سماج میں اسلام کے نفوذ کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔ اس لیے اسلامی خطوط پر کلچرکی ترقی کے لیے پاپولر کلچر(popular culture) کا استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔عربی کلچر کے دو مظاہرے شاعری اور خطابت تھے ۔ حضورؐکا اسوۂ ہمیں یہاں رہنمائی کرتاہے کہ آپؐ نے عہد جاہلیت کی شاعری کو مسترد نہیں کیا، البتہ اخلاقی اصول بیان کرکے اس کی حد بندی کردی۔ اورفن خطابت کو جوں کا توں قبول کیا، البتہ اسے صداقت کے تابع کردیا۔اب ہمیں اس دور کے پاپولر کلچر کا استعمال کرکے اسلام کی اشاعت کا کام انجام دینا ہے۔ اور سماج کو کلچر کے غلط استعمال سے روکنا ہے۔
    حوالہ:
    http://rafeeq-e-manzil.sio-india.com/%D9%BE%D8%A7%D9%BE%D9%88%D9%84%D8%B1-%DA%A9%D9%84%DA%86%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85/

  5. برائے عبد الرؤف صاحب تبصرہ

    قبلہ وکعبہ علامہ وشیخ المحدیثین وامام المتکلمین جناب عالی المقام حضرت عبدالرؤف صاحب دامت برکاتہم العالیہ (ابھی صرف اتنے ہی القابات یاد آسکے ہیں :D) یقین کیجیے مجھے اندازہ تھا کہ آپ ارتقاء کے خلاف کیا اٹھا کر لانے والے ہیں اور وہی آپ نے کیا بھی، ارتقاء کو تخلیقیوں نے ہمیشہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں، آپ جو ربط اٹھا کر لائے ہیں وہ ان اعتراضات پر مشتمل ہے، تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا ہو تو اسی وکیپیڈیا پر Level of support for evolution کا صفحہ بھی ہے، اگر آپ کو یہ صفحہ پڑھنے میں دل چسبی نہ ہو تو ایک چھوٹا سا پیراگراف یہاں نقل کرنے کی جسارت کروں گا:

    The Discovery Institute, a pro–intelligent design lobby group located in the United States, also claims that because there is a significant lack of public support for evolution, that public schools should, as their campaign states, "Teach the Controversy”. Nearly every scientific society, representing hundreds of thousands of scientists, has issued official statements disputing this claim[2] and a petition supporting the teaching of evolutionary biology was endorsed by 72 US Nobel Prize winners.[6] Additionally, US courts have ruled in favor of teaching evolution in science classrooms, and against teaching creationism, in numerous cases such as Edwards v. Aguillard, Hendren v. Campbell, McLean v. Arkansas and Kitzmiller v. Dover Area School District.

    بلاگستان کے نئے ستارے بلال صاحب نے حال ہی میں حیاتیاتی ارقتاء پر ایک مضمون لکھا ہے اور مزید کا ارادہ رکھتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ان مضامین کے مطالعے سے آپ کو خاطر خواہ تشفی ہوگی، تاہم اگر دل کو خوش رکھنے کی خواہش ہو کہ ارتقاء غلط ہے تو یہ تحریر پڑھ لیں.. 😀

    رہا آپ کا سوال کہ بندر کیوں موجود ہیں تو ظاہر ہے آپ نے ارتقاء پڑھا نہیں ورنہ یہ سوال نہ کرتے اور میں نے بھی نہیں پڑھا مگر سوال نہیں کیا 😀

    خیر حیاتیات میرا شعبہ نہیں، اگر فلکیات پر سوال کرتے تو خاکسار حتی المقدور کوشش کرتا اب میں محض آپ کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی تاویل گھڑ لاؤں تو یہ غلط ہوگا اس لیے اعتراف ہی بہتر ہے کہ بندہ اس بارے قطعی لا علم ہے، ایک موٹی بات جو میرے علم میں ہے وہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک اصل کی الگ الگ شاخیں ہیں شاید یہ اصل Hominidae ہے تاہم میں یقین سے نہیں کہہ سکتا تجسس ہو تو خود تلاش وبسیار کی سعی کریں اور تصدیق کر لیں، میری طبع پر حیاتیات انتہائی گراں گرزتی ہے 🙂

    اور یہ کیا.. آپ نے اسلام کے حوالے سے سوالات نظر انداز کردیے؟ تو کون سی بڑی بات ہے.. میں نے بھی کردیے.. 😀

    رہا عدنان اوکطار المعروف ھارون یحیی تو ان حضرت پر ایک ننھی منی تحریر لکھنے کا ارادہ ہے سو Stay Tuned..

  6. برائے عبد الرؤف صاحب تبصرہ

    اسلام ایک مکمل دین ہے نہ کہ عیسائیت کی طرح محض ایک مذہب ، اسی لیے عیسائیت یا کسی بھی مذہب کی تہذیب نہیں ہے ، سوائے اسلام کے.

    ارے میں تو بھول ہی گیا تھا کہ ہم تہذیب پر جھگڑا کر رہے ہیں 😀

    تو مدعا یوں ہے کہ عیسائیت ایک مذہب ہے اور اسلام ایک دین ہے اور چونکہ عیسائیت ایک مذہب ہے لہذا اس کی کوئی تہذیب نہیں ہوسکتی اور چونکہ اسلام ایک دین ہے تو اس کی تہذیب ہوسکتی ہے، سوال یہ ہے کہ اسلام کو یہ استثناء کیوں حاصل ہو؟ کیونکہ وہ دین ہے؟ دین کا مطلب کیا ہے؟ کہیں Religion تو نہیں؟ اور مذہب کیا ہے؟ کہیں یہ بھی تو Religion نہیں؟ ایک ہی لفظ کے مترادفات استعمال کر کے آپ محض الفاظ سے کھیل رہے ہیں کوئی دلیل نہیں پیش کر رہے خشبو لگا کے.. 🙂

  7. اینڈرسن شا صاحب مجھ کو اتنے بڑے بڑے القابات سے مت پکاریے کہ میں اسکا مستحق نہیں ہوں. طارق اقبال صاحب کی پوسٹ میں مجھ کو تو کوئی غلط بات نظر نہیں آئی اور بلال امتیاز صاحب کی مزید پوسٹس کا منتظر رہونگا کیونکہ ابھی تک انہوں نے جتنا لکھا ہے اس سے بحرحال انسان اور بندر ایک دوسرے کے رشتہ دار ثابت نہیں ہوتے ہیں، باقی رہی جنیات میں تبدیلی کرکے مختلف اور بہتر شکل و نسل کی اجناس حاصل کرنا تو اس کے نہ تو تخلیقی منکر ہیں اور نہ ہی اس بات سے خالق کے وجود کا انکار ثابت ہوتا ہے بلکہ نظریہ ارتقاء کے اس پہلو سے تو خالق کے تخلیقی کاموں کی تفصیل ہمارے علم میں آتی ہے جس سے انسان فائدہ اٹھا کر من پسند اجناس کی نشونما کرلیتا ہے. جو بات نظریہ ارتقاء کی ہضم نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ آخر آج کے بندر انسانوں کے شہروں میں انسانوں کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ انسان کیوں نہیں بن جاتے؟
    اس ضمن میں آپ نے تو اپنی تہی دامنی کا اقرار کرلیا ، جس طرح میں قرآن کا حافظ یا عالم نہیں ہوں اسی طرح میں حیاتیات یا فلکیات کا بھی ماہر نہیں ہوں، بلکہ یہ سب میری فیلڈ ہی نہیں‌ہےمگر پھر بھی اپنے بنیادی عقائد کا دفاع کرنے کی صلاحیت الحمداللہ ضرور رکھتا ہوں، اور یہی وہ مقام ہے جس سے آپ بار بار کنی کترا کر نکل جاتے ہیں. کبھی منطق کو گول کہہ کر تو کبھی تاویلات گڑہنے کا کہہ کر. بھائی میرے مجھ کو یہ تو علم ہے نہیں ہے کہ آپ کو دین سے کیا شکایت ہے، مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ دین کے ٹھیکیداروں کی کم علمی اور بداعمالیوں کی بناء پر نہ تو دین غلط ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی خالق کائنات کے وجود کی نفی ممکن ہے.
    اینڈرسن شا : سوال یہ ہے کہ اسلام کو یہ استثناء کیوں حاصل ہو؟ کیونکہ وہ دین ہے؟ دین کا مطلب کیا ہے؟ کہیں Religion تو نہیں؟ اور مذہب کیا ہے؟ کہیں یہ بھی تو Religion نہیں؟
    جواب : اگر انگریزی زبان دین کا درست مفہوم ادا کرنے سے قاصر ہے تو کیا اس وجہ سے ہم لفظ دین کی غلط تشریح پر مطمئن ہوکر اپنے دین اسلام کو اسکے اعلی درجہ سے گرا کر دیگر مذاہب کے صف میں کھڑا کردیں؟ آپ کو علم ہوگا کہ دین عربی زبان کا لفظ ہے لہذا اسکے درست معنی و مفہوم کے لیے آپ عربی سے مدد لیں گے نہ کہ انگریزی سے. میں لفظ دین کو نظام حیات کے مترادف کے طور پر لیتا ہوں ، جوکہ دین اسلام ہے، اب اگر آپ اسلام کے علاوہ کسی اور موجودہ مذہب میں یہ صلاحیت ثابت کردیں تو مزید مباحثہ کر لیتے ہیں. بصورت دیگر اپنی ازلی ہٹ دھرمی کا اعتراف کر لیں تاکہ ہم دونوں کا مزید قیمتی وقت محض بحث برائے بحث میں ضائع ہونے سے بچ سکے.

    1. حضرت امیر الاتقیاء وصعید الانبیاء عبدالرؤف بلوچ صاحب کیا آپ مجھے عربی سکھا رہے ہیں؟ عربی میں مذہب کوئی بھی ہو اسے دین ہی کہا جاتا ہے اس لفظ کا ایسا کوئی جناتی مطلب نہیں ہے جو آپ اس سے کشید کرنا چاہتے ہیں، عربی میں ہم کہتے ہیں الدین المسیحی، الدین البوذی، الدین الہندوسی، الدین الاسلامی وہلم جراَ… لا فرق یا صغیری فالدیانہ تبقی دیانۃ مہما حاولت لی عنق المعنی.. آپ بھلے اس سے نظام حیات کا مطلب نکالتے رہیں مگر لغوی معنوں اس کا ایسا کوئی مطلب نہیں ہے..

      اب بھی تسلی نہ ہو تو اپنا قرآن ہی کھول کر دیکھ لیں جہاں قرآن اسلام کو دین کہتا ہے وہیں دوسروں کے مذہب کو بھی دین ہی کہتا ہے کیونکہ اور کوئی لفظ ہے نہیں، ملاحظہ فرمائیں:

      سورہ آل عمران آیت 83
      اَفَغَیۡرَ دِیۡنِ اللّٰہِ یَبۡغُوۡنَ وَ لَہٗۤ اَسۡلَمَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا وَّ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُوۡنَ ﴿۸۳﴾
      پھر کیا یہ کافر اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ سب اہل آسمان و زمین خوشی یا ناخوشی سے اللہ کے فرمانبردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

      سورہ آل عمران آیت 85
      وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۸۵﴾
      اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو گا وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا۔

      سورہ النساء آیت 171
      یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ
      اے اہل کتاب اپنے دین کی بات میں حد سے نہ بڑھو

      سورہ الانعام آیت 137
      وَ کَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیۡرٍ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ قَتۡلَ اَوۡلَادِہِمۡ شُرَکَآؤُہُمۡ لِیُرۡدُوۡہُمۡ وَ لِیَلۡبِسُوۡا عَلَیۡہِمۡ دِیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿۱۳۷﴾
      اسی طرح بہت سے مشرکوں کو ان کے شریکوں یعنی شیطانوں نے ان کے بچوں کو جان سے مار ڈالنا اچھا کر دکھایا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر خلط ملط کر دیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے سو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ۔

      اس کے باوجود اگر بفرض محال آپ لفظ دین کا کوئی "آفاقی” مطلب نکال بھی لیں تو بھی اس سے دوسروں کی تہذیبوں کو چرانے کا جواز نہیں نکلتا.. 🙂

جواب دیں

26 Comments
scroll to top