سُبْحَانَ ٱلَّذِى أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَىٰ ٱلْمَسْجِدِ ٱلأَقْصَا ٱلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَآ إِنَّهُ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلبَصِيرُ
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، وہ (مسجد اقصیٰ) کہ برکت دی ہم نے جس کے ماحول کو تاکہ دکھائیں اُسے ہم کچھ اپنی نشانیاں، بیشک اللہ ہی ہے سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا۔(سورۃ بنی اسرائیل، آیت :1)
واقعہ معراج احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، نبیؑ کریم نے فرمایا، میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، میرے پاس حکمت اور ایمان سے بھرپور سونے کا ایک طشت لایا گیا۔ میرے سینے کو پیٹ کےآخری حصے تک کھولا گیا، اور اُسے آبِ زمزم سے دھونے کے بعد ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس ایک سواری لائی گئی جو گدھے سے بڑی اور گھوڑے سے چھوٹی تھی۔ یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر چلا، جب میں آسمانی دنیا پر پہنچا تو وہاں بتدریج پہلے آسمان پر حضرت آدم، دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ، تیسرے پر حضرت یوسف، چوتھے پر حضرت ادریس، پانچویں پر حضرت ہارون، چھٹے پر حضرت موسیٰ ملے۔ جب نبیؑ کریم وہاں سے آگے بڑھنے لگے تو حضرت موسیٰ نے رونا شروع کر دیا، کسی نے رونے کی وجہ پوچھی، حضرت موسیٰ نے فرمایا ” یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوّت دی گئی ہے، اس کی امّت میں سےجنّت میں داخل ہونے والے میری امّت کے جنّت میں داخل ہونے والوں سے زیادہ ہوں گے۔” ساتویں آسمان پر نبیؑ کریم حضرت ابراہیم سے ملتےہیں، آپ کا آخری پڑاؤ سدرۃ المنتہیٰ ہوتا ہے، آپ کو جنّت اور دوزخ کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے، یہیں پر آپ کی امّت پر پچاس نمازیں فرض کی جاتی ہیں، واپسی پر حضرت موسیٰ آپ کو سمجھا کر اللہ میاں کے پاس واپس بھیجتے ہیں کہ پچاس نمازیں بہت زیادہ ہیں،آپ کی امت اس فریضے کو نبھا نہیں پائے گی۔ نبی کریم حضرت موسیٰ کےسمجھانے پر کئی بار اوپر نیچے جا کر فرض کی گئی نمازوں کی تعداد پانچ تک لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔(صیح بخاری، والیوم نمبر 5، حدیث نمبر 3626 کی تلخیص)
” میں (مقام) حجر میں سو رہا تھا کہ میرے پاس حضرت جبرئیل آئے، پھر انہوں نے مجھے اپنے پاؤں سے دبایا، میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی، میں اپنی آرام گاہ کو واپس لوٹا ( یعنی پھر لیٹ گیا) وہ دوبارہ آئے اور مجھے پھر اپنے پاؤں سے دبایا۔ تو میں پھر اٹھ بیٹھا اور کچھ نہ دیکھا۔ میں پھر اپنی آرام گاہ کو لوٹا، تو تیسری بار وہ میرے پاس آئے اور اپنے پاؤں سے دبایا، میں اٹھ بیٹھا تو انہوں نے میرا بازو پکڑ لیا، میں انکے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، تو وہ مجھے لے کر مسجد کے دروازے کی طرف نکلے، تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چوپایہ خچر اور گدھے کےدرمیان (قد والا) موجود ہے۔ جس کی رانوں میں دو پنکھ ہیں، جن سے وہ اپنے دونوں پاؤں کو کھجا رہا تھا۔ ( اسکی صفت یہ ہے) کہ اپنی نظر کی انتہا پر اپنا اگلا پاؤں رکھتا ہے۔ انہوں نے مجھ کو اس پرسوار کرایا،اس کے بعد میرے ساتھ نکل چلے، نہ وہ مجھ سے دور ہوتے نہ میں ان سے“۔
” قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” جب میں اس پر سوار ہونے کے لیئے اس کے پاس گیا تو وہ شوخی کرنے لگا، تو جبرئیل نے اپنا ہاتھ اس کی ایال پر رکھا اور کہا، اے براق تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے تجھے شرم نہیں آتی۔ اے اللہ کی قسم، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی اللہ کا ایسا بندہ سوار نہیں ہوا جو آپؐ سے زیادہ عزت والا ہو، (نبیؑ کریم نے) فرمایا، تو (براق)ایسا شرمندہ ہوا کہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اور خاموش کھڑا ہو گیا،یہاں تک کہ میں اس پر سوار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر رسول اللہ چلے اور جبرائیل بھی آپ کےساتھ چلے، یہاں تک کہ آپ کولے کر بیت المقدس پہنچے،تو وہاں ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا ءکو پایا، تو رسول اللہ نے انکی امامت کی اور انہیں نماز پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تین برتن لائےگئے، ان برتن میں دودھ، ایک میں شراب اور ایک میں پانی تھا۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب وہ ( برتن) میرے سامنے پیش ہوئے تو میں نے کسی کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا۔ اگر اس نے پانی لیا (تو خود بھی ) ڈوبا اور اس کی امت بھی ڈوبی۔ اگر اس نے شراب لی ( توخود بھی ) گمراہ ہوا اور اس کی امت (بھی) گمراہ ہوئی۔ اور اگر اس نے دودھ لیا ( تو خود بھی ) راہ راست پا لی،اور اس کی امت (بھی) راہ راست پر لگ گئی۔ فرمایا کہ پھر تو میں نے دودھ کا ہی برتن لیا، اور اس میں سے پیا تو جبرائیل نے مجھ سے کہا اے محمد! آپ نے راہ راست پا لی اور آپ کی امت ( بھی) راہ راست پر لگ گئی۔(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
حضرت عباس سے مروی ہے، کہ ہجرت سے ایک سال قبل 17 ربیع الاول کو نبیؑ کریم کو بیت المقدس لے جایا گیا۔ جب آنحضور براق کے پاس گئے تو اُس نے بھڑکنا شروع کر دیا، حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ اُس پر رکھا اورکہا، اے براق تجھے شرم نہیں آتی، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی بندہ سوار نہیں ہوا جو اللہ کے نزدیک ان سے افضل ہو، براق یہ سُن کر شرم سے پانی پانی ہو گیا اور رک گیا کہ میں اس پر سوار ہوں۔ پھر اس نے کان ہلائے اور زمین سمیٹ دی۔ یہاں تک کہ ان کا کنارہ براق کے قدم پڑنے کی آخری جگہ تھی۔ اس کی پشت اور کان دراز تھے۔جبرئیل میرے ساتھ اس طرح روانہ ہوئے کہ نہ میں انہیں چھوڑتا تھا، نہ وہ مجھے چھوڑتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھے بیت المقدس پہنچا دیا، براق اپنے مقام پر پہنچ گیا جہاں وہ کھڑا ہوتا تھا۔ جبرائیل نے اسے وہاں باندھ دیا.اس جگہ رسول اللہ سے پہلے تمام انبیا ءکی سواریاں باندھی جاتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا، میں نے تمام انبیاء دیکھے جنہیں میرے ارد گرد جمع کر دیا گیا تھا۔ میں نے ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ کو دیکھا۔ خیال ہوا ضرور ان کا کوئی امام ہو گا، جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا، میں نے سب کے آگے نماز پڑھی، دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب توحید کے ساتھ بھیجے گئے ہیں۔
بعض اہل علم نےکہا کہ اس شب حضور گم ہو گئے، عبدالمطلب کے لڑکے آپ کی تلاش و جستجو میں نکلے، عباس ابن المطلب بھی نکلے اور ذو طوی تک گئے تو پکارنے لگے یا محمد! یا محمد! رسول اللہ نے جواب دیا، لبیک (میں حاضر ہوں) انہوں نے کہا، اے میرے بھتیجے! تو نے قوم کو پریشانی میں ڈال دیا، کہاں تھا؟فرمایا، میں بیت المقدس سے آیا ہوں، پوچھا اسی شب میں؟ آپ نے فرمایا ہاں، انہوں نے کہا، کیا آپ کے ساتھ سوائے خیر کے کوئی اور بات تو پیش نہیں آئی۔ فرمایا مجھے خیر کے سوا کوئی اور بات پیش نہیں آئی۔(طبقات ابن سعد)
معراج سے واپسی پر نبیؑ کریم بہت پریشان تھے، آپ کو یقین تھا کہ مشرکین مکہ ان کی باتوں کا یقین نہیں کریں گے۔ آپ نے اپنی پریشانی کا ذکر حضرت جبرائیل سے کیا۔ ” رسول اللہ نے جبرئیل سے فرمایا، میری قوم میری تصدیق کبھی نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا، ابوبکر آپ کی تصدیق کریں گے، وہ صدیق ہیں“۔ (طبقات ابن سعد)
ام ہانی حضرت ابو طالب کی بڑی بیٹی تھیں، آپ کا اصلی نام فاختہ تھا، لیکن ابن اسحاق آپ کا نام ہند بتاتے ہیں، آپ کو اپنے بیٹے ہانی کی نسبت سے ام ہانی کہا جاتا تھا۔ روایتوں کےمطابق حضور اُم ہانی سے شادی کرنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ آپکا کوئی کا ذریعہ معاش نہیں تھا، اور آپ اپنے چچا کے سہارے زندگی گزارتے تھے، لہذا آپ کے چچا نے یہ سوچ کر آپ کو رشتہ دینے سےانکار کر دیا کہ جو آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ میری بیٹی کو کیا کھلائے گا، لہذا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ھبیرہ بن عبدالوہاب سے کر دی ۔فتح مکہ کے بعد آپ نے پھر ام ہانی سے شادی درخواست کی، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اس شادی کے بعد اپنے بچوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھ پائیں گی۔ معراج کی مبارک رات اُم ہانی گھر میں اکیلی تھیں اور نبیؑ کریم اُن کے گھر سوئے تھے
” وہ اس رات کہیں بھی نہیں گئے تھے۔ وہ اس رات میرے گھر سوئے تھے۔ انہوں نے عشاءکی نماز پڑھی اور وہ سوئے اور میں سوئی۔ فجر سے کچھ پہلے کا وقت تھا کہ انہوں نے مجھے جگایا، صبح کی نماز ادا کی اور کہا۔ اے ام ہانی! میں آج رات کی آخری نماز تو تم لوگوں کے ساتھ اس وادی میں پڑھی۔ جیسا کہ تم نے دیکھا، پھر میں بیت المقدس پہنچا اور وہاں نماز پڑھی۔ اور پھر صبح کی نماز ابھی تمہارے سامنے پڑھی،جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو۔ وہ باہر جانے کیلئے اُٹھے تو میں نے ان کی قمیض پکڑ لی، جس سےانکا پیٹ ننگا ہوگیا جو ایسا تھا جیسے کوئی مصری کپڑا تہہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے التجا کی، یا رسول اللہ ان لوگوں کو یہ مت کہنا، وہ تمہیں جھوٹا کہیں گے اور تمہارا مذاق اُڑایں گے۔ آپ نے فرمایا، واللہ میں تو ضرور ان سے یہ کہوں گا “۔(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
ام ہانی اپنی ایک حبشیہ باندی کو حکم دیتی ہیں کہ رسول کریم کے پیچھے پیچھے جائے اور سنے کہ رسول اللہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں اور لوگوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ نبیؑ کریم کو عمر بن ہشام ( ابوجہل) ملتا ہے اور پوچھتا ہے، کوئی نئی تازی؟ ، آپ فرماتے ہیں،آج رات مجھے بیت المقدس کی سیر کرائی گئی۔ اس نے تعجب سے کہا، بیت المقدس کی؟، آپ نے اثبات میں جواب دیا، تو اس نے کہا کہ میں اگر اور لوگوں کو لے آؤں تو یہ بات ان سب لوگوں کو بتائیں گے۔ آپ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“چنانچہ ابوجہل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے آپ سے عرض کیا، جو بات آپ نے مجھے بتائی تھیں وہ انہیں بھی بتائیے، چنانچہ آپ نےمجمع کو بتایا کہ آج رات میں بیت المقدس گیا اور وہاں نماز پڑھی، اس کو ناممکن سمجھ کر بعض سامعین جھٹلاتے ہوئے سیٹیاں بجانے لگے، بعض تالیاں پیٹنے لگے، اور پھر یہ خبر پورے مکہ میں پھیل گئی “۔(تاریخ ابن کثیر جلد دوم)
رسول اللہ کا مذاق اور تمسخر اڑانے والوں میں بنی اسد قبیلہ کے اسود بن مطلب، بنی زہرہ کےاسود بن عبد یغوث، بنی مخزوم کے ولید بن مغیرہ، بنی سہم سے عاص بن وائل اور بنی خزاعہ سےحارث بن طلاطلہ بہت پیش پیش تھے۔ آپ نے بنی اسد کے اسود کیلئے بد دعا فرمائی۔ “یا اللہ، اس کو اندھا کر دے اور اس کو اس کے بیٹے کی موت پر رُلا “
معراج شریف کا واقعہ مکہ کے لوگوں کیلئے کسی طور بھی قابل قبول نہ تھا ” بعض لوگوں نے پوچھا مسجد بیت المقدس کے کتنے دروازے ہیں۔ میں نے اس کے دروازے شمار نہ کئے تھے، مگر میں ان کی طرف دیکھتا ہوں۔ اور ایک ایک دروازہ شمار کرتا تھا، اس طرح لوگوں کو بتا دیتا تھا۔ میں ان لوگوں کے قافلوں کو جو راستے میں تھے، اور ان کی علامات کو بھی بتایا“۔(طبقات ابن سعد)
ابوہریرہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا، میں ھجر (کعبہ کا بغیر چھت کا حصہ) پر تھا اور قریش مجھ سے معراج کے متعلق پوچھ رہے تھے اور بیت المقدس سے متعلقہ ایسے سوال کر رہےتھے۔ جن کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا، اس دن میں اس قدر جھنجھلایا ہوا تھا کہ پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہوا۔ تب اللہ نے اس (بیت المقدس) کو میری آنکھوں کے سامنے ظاہر کیا، میں نے اس کی طرف دیکھا اور قریش کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے۔ میں نے اپنے آپ کو نبیوں کے درمیان پایا، میں نے حضرت موسیٰ کو عبادت کرتے دیکھا، اُنکا جسم بہت مضبوط اور گٹھا ہوا تھا جیسے وہ شنوعہ قبیلے کے ہوں، میں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو عبادت کرتے دیکھا، ان کی شکل عروۃ ابن سعود الثقفی سے بہت مشابہ تھی۔ میں نے حضرت ابراہیم کو عبادت کرتے دیکھا، اُن کی شکل آپ کے ساتھی (نبیؑ کریم) سے بہت ملتی تھی۔ جب نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو کسی نے کہا، یہ مالک ہیں، جہنم کے نگراں، انہیں سلام کرو، میں ان کی طرف مڑا لیکن انہوں نے مجھے پہلے سلام کر دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان: حدیث نمبر۔328)
” یہ (معراج کا قصہ) سُن کر بہت سے جو پہلےمسلمان تھے اور عبادت گذار تھے، وہ اسلام سے تائب ہو گئے۔ بہت سوں نے اسلام سے کنارہ کشی کر لی، کچھ حضرت ابوبکر کے پاس گئے اورکہا اب تم اپنے دوست کے متعلق کیا کہتے ہو، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پچھلی رات یروشلم گیا تھا، وہاں عبادت کی اور واپس مکہ آ گیا “۔
حضرت ابوبکر نے کہا تم نبیؑ کے متعلق جھوٹ بول رہے ہو، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ حضور اس وقت کعبہ میں قریش کو یہی واقعہ بتا رہے ہیں تو آپ نے کہا۔ ” اگر وہ یہ کہتے ہیں تو یہ سچ ہے، مجھے ان پر یقین ہے۔ اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ عرش سے بھیجا ہوا اللہ کا پیغام زمیں پر میرے پاس چند گھڑیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اور میں اس پر یقیں کرتا ہوں۔ اور معراج اتنی غیر معمولی واقعہ نہیں کہ تمہارے دماغ یوں چکرائیں، جتنا کہ یہ (وحی) ہے“(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
اس کے بعد حضرت ابوبکر حضور کے پاس گئے اور معراج کی تصدیق چاہی، جب حضور نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے حضور سے یروشلم کے متعلق تفصیلات چاہیں۔ جب بھی حضور کچھ بتاتے، ابوبکر فرماتے ” بالکل سچ، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں” حتیٰ کہ آپ نے پوری داستان بیان کر دی۔ حضرت ابوبکر کی اس گواہی سے خوش ہو کر حضور نے کہا ” انت یا ابابکرصدیق، اے ابوبکر! تم صدیق (سچا۔ راست گو) ہو۔
اہل مکہ کے اس رویے کے باعث آپ کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی، مالک دو جہاں نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کی اشک شوئی کی۔ ” حسن نے کہا کہ اس وجہ سے ان لوگوں کے متعلق جو اپنے اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، اللہ نے نازل فرمایا۔
وَمَاجَعَلْنَا ٱلرُّءْيَا ٱلَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَٱلشَّجَرَةَ ٱلْمَلْعُونَةَ فِي ٱلقُرْآنِ وَنُخَوِّ فُهُمْ فَمَا يَزِيدُ هُمْ إِلاَّ طُغْيَاناًكَبِيراً
اور جو نظارا ہم نے تمہیں دکھایا ہے اور جس درخت پر قران میں لعنت بھیجی گئی ہے، یہ تو لوگوں کیلئے ہم نے آزمائش بنائی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان میں سخت سرکشی ہی کو زیادہ کرتا ہے۔(سورۃبنی اسرائیل، : )60
شب اسراء کی صبح، زوال کے وقت رسول اللہ کے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے، اور آپ کو نماز کی کیفیت اور اوقات سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ کے حکم سے تمام صحابہ کرام جمع ہوئے، اور جبرئیل علیہ السلام نے اگلے دن آپ کو نماز پڑھائی، صحابہ کرام آپ کی اقتداء کرتے اور نبی حضرت جبرائیل کی۔ (تاریخ ابن کثیر)
(نوٹ: ہم نے صرف ان روایات کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے جو معراج کے واقعے کو بیان کرتی ہیں، اب یہ روایات آپس میں کس قدر متصادم ہیں یہ آپ خود ہی ملاحظہ کرلیں، خصوصاً یہ بات کہ واقعہ معراج کب پیش آیا اور شب معراج اللہ کے رسول کہاں تھے؟)
مذہبی داستانوں میں خالق کا اپنی مخلوق کے ساتھ رابطہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ وہ خدا کے فرستادہ ہیں انہیں خدا کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کے ثبوت کے طور پر اس طرح کی داستانیں بیان کرنی ہی پڑتی تھیں۔ مندرجہ بالا احادیث میں آپ نے پیغمبر اسلام اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا خلاصہ پڑھا، اس طرح کے واقعات بائبل میں بھی مذکور ہیں ۔
بائبل کے مطابق خالق نے زمین پر آ کر کئی بار حضرت ابراہیم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ لیکن پھر پروردگار کو نہ جانے کیا سوجھی کہ حضرت یعقوب سے پنجہ آزمائی کر ڈالی اور نتیجتاًمنہ کی کھائی۔ کُشتی ہارنے کے بعد حضرت یعقوب نے خالق سے ان کا نام پوچھا تو نہ صرف خالق نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا بلکہ ایسا بھاگا کہ زمیں پر آ کر اپنی مخلوق سے ملنا ہی ترک کر دیا۔ اس نا خوشگوار واقعے کے بعد جب بھی خالق کو مخلوق سے ملنے کی خواہش ہوئی تو خالق نے مخلوق کو پہاڑوں پر بلا لیا
“اور یعقوب اکیلا رہ گیا اور پو پھٹنے کےوقت تک ایک شخص وہاں اس سے کشتی لڑتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ اس پر غالب نہیں ہوتا تو اسکی ران کو اندر کی طرف سے چھوا، اور یعقوب کی ران کی نس اس کے ساتھ کشتی کرنے میں چڑھ گئی۔ اور اس نے کہا کہ جب تک تو مجھے برکت نہ دے میں تجھے جانے نہیں دوں گا۔ تب اس نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے۔ اس نےجواب دیا یعقوب۔ اس نے کہا کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا، کیوں کہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔ تب یعقوب نے اس سے کہا کہ میں تیری منت کرتا ہوں، تو مجھے اپنا نام بتا دے۔ اس نے کہا تو میرا نام کیوں پوچھتا ہے؟ اور اس نے اسے وہاں برکت دی“۔(کتاب مقدس، عہد نامہ عتیق، باب پیدائش)
گئے وقتوں میں خالق اور مخلوق میں بہت زیادہ بے تکلفی ہوا کرتی تھی، مخلوق اکثر اپنےخالق کیلئے دعوت (قربانی) کا انتظام کیا کرتی۔ خالق کو بھنے گوشت کی خوشبو بہت پسند تھی، اور اس گوشت کو کھانے کیلئے وہ اکثر زمین پر آیا کرتا تھا۔ خالق کے ساتھ مخلوق کا تعلق بہت ہی ایماندارانہ نوعیت کا ہوا کرتا تھا۔ خالق کی املاک کی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی اور اس کے حصّے کے کھانے کو بالکل بھی نہیں چھیڑا جاتا تھا۔
قدیم مصری عقیدے کے مطابق مرنے والے اپنی موت کے بعد دوات نامی زیر زمین علاقے میں پہنچتے ہیں،جہاں وہ حساب و کتاب کیلئے ماعت نامی دیوی کے حضور میں پیش ہوتے ہیں۔ وہاں انہیں منفی اعترفات کرنے پڑتے ہیں، کہ میں نے فلاں برا کام نہیں کیا۔ اگر وہ جھوٹ ہو تو اعتراف کرنے والے کے دل کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ بعد میں اس کے دل کا وزن کیا جاتا ہے، اور اس وزن کے حساب سے سزا اور جزاء کا تعین کیا جاتا۔ خالق کی خوراک اور املاک کے حوالے سے چند منفی اعترافات۔
میں نے خدا کی املاک نہیں چرائی
میں نےخداوں کی خوراک نہیں چرائی
میں نے خدا کیلئے مختص جانوروں کو ( اپنےلیئے) ذبح نہیں کیا۔
(کتابِ مردگان سے اقتباسات)
تاریخ ہمیں اٹھارویں صدی قبل مسیح میں حمورابی نامی بابلی بادشاہ کے متعلق بتاتی ہے، جسےمردوخ یا شمش نامی دیوتا پہاڑ پر بلاتا ہے اور اُسے “ضابطہ حمورابی” نام سے مشہور پتھر کی سلوں پر کندہ تحریر دیتا ہے۔ کچھ صدیوں بعد خالق حضرت موسیٰ کو کوہ سینائی پر بلاتا ہے اور انہیں بھی پتھر کی سلوں پر کندہ دس احکامات تھما دیتا ہے، حضرت موسیٰ خالق سے اُس کا نام پوچھتے ہیں، لیکں خالق بڑی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عبرانی میں کہتا ہے ” میں جو ہوں، سو ہوں“۔ (یعنی تم اپنے کام سے کام رکھو) کیوں کہ اس زمانے میں یہ عقیدہ تھا کہ اگر کوئی خُدا کا نام جان لے تو وہ خدا پر قابو پا لیتا ہے اور خدائی طاقت کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔ حضرت یعقوب والا حادثہ رب ذوالجلال ابھی تک نہیں بھولے تھے۔ خالق اور مخلوق میں دوریاں بہت تیزی سے بڑھ رہی تھیں ۔
واقعہ معراج کی اصل حقیقت
ساسانی دور حکومت کے ایران میں ” اردا ویراف نمگ” کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی جس کا سن تحریر تقریباً 270 سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ زرتشتی عقیدے کے مطابق ژند اوستا کے بعد یہ دوسری اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردا ویراف نام کے ایک زرتشتی پادری کا ذکر ہے، جو اپنے خدا آہور مزدا سے ملنے کیلئے آسمانوں پر جاتا ہے، لیکن چھ دن پر محیط اس کا یہ سفر جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتا ہے۔ اردا ویراف کی راہنمائی حضرت جبرائیل کی بجائے ادار نامی فرشتہ اور متقی سروش کر رہے ہوتے ہیں۔ سفرکے آغاز میں اردا ویراف کو چینوت نامی پُل عبور کرنا ہوتا ہے، جو تلوار جتنا پتلا اور تیز ہے، اگر کوئی نیک آدمی آتا ہے تو وہ پل بڑا ہو جاتا ہے اور نیک آدمی اس پر سے گزر جاتا ہے، لیکن گناہگار لوگ اس پل سے کٹ کٹ کر نیچے اہرمن کی دوزخ میں گر جاتے ہیں (پل صراط کےساتھ کس قدر مشابہت ہے)۔ ادار فرشتے کی مدد سے پل پار کرنے کے بعد اردا ویراف” حوض کوثر” کی بجائے “روشنیوں کےشہر” پہنچتا ہے۔ اپنے اس سفر کے بعد اردا ویراف کو جنت اورجہنم کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اردا ویراف وہاں مختلف لوگوں سے ملتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے گناہ یا نیکی کے کام کئے ہوتےہیں۔
چینوت پل پار کرنے کے بعد ” متقی سروش اور ادار فرشتے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ چلو آؤ تاکہ ہم تمہیں جنت اور دوزخ دکھائیں۔ اور وہ شان و شوکت اور آسانیاں اور خوشیاں اورمسرت اور خوشبوئیں جو نیکو کاروں کا اجر ہیں۔ ہم تمہیں وہ تاریکی، ذلت، بدقسمتی، تکلیف، شر، درد، ڈر، بیچارگی، اذیت، بدبو اور مختلف سزائیں بھی دکھائیں گے جس سے گناہ گار، راکھشس اور جادوگر دوچار ہوں گے۔ ہم تمہیں سچ اور جھوٹ کی جگہیں دکھائیں گے۔ ہم تمہیں ان نکو کاروں کو دیا جانے والا اجر دکھائیں گے، جن نکوکاروں کا آہور مزدا، عظیم فرشتوں،جنت اور دوزخ پر ایمان تھا، ۔ اور دکھائیں گے خدا اور عظیم فرشتوں کی حقیقت اور اھرمن اور شیاطین کی غیر حقیقت، اور مرنے والوں کے دوبارہ اٹھنے کی حقیقت اور ان کو دئیےجانے والے مستقبل کے بدن۔ ہم تمہیں دکھائیں گے جنت کے اندر آہور مزدا اور عظیم فرشتوں کا نکو کاروں کو دیا گیا اجر۔ ہم تمہیں مختلف اذیتیں اورعذاب دکھائیں گے جوگناہ گاروں کو اھرمن اور دیگر راکھشسوں کی جہنم کے اندر دی جائیں گی۔
اسکے بعد میں نے رہِ نجوم پر پاؤں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کی وجہ سے یہ پارسا ٹھہرے۔
پھر اردہ رہِ قمر کو جاتا ہے، جس میں موجود لوگوں کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہیں۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کیوجہ سے یہ یہ پارسا ٹھہرے۔ اس کےبعد اردہ رہِ آفتاب کے لوگوں سے ملتا ہے اور ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حاکم ہوئے اور انہوں نے بہت اچھی حکومت کی۔
وہاں سے گزر کر اردہ جنت پہنچتا ہے، تو سب سے پہلے اسے وہ عورتیں ملتی ہیں جنہوں نے اچھا سوچا، اچھا بولا، اچھے کام کیئے اور اپنے خاوندوں کی فرمانبرداری کی، ان عورتوں کا لباس سونے، چاندی اور جواہرات سے جڑا ہوتا ہے۔ اسکے بعد اردہ جنت کے دیگر حصوں میں پھرتا ہے، جہاں اسے سونے کے تخت پر بیٹھی کئی روحیں نظر آتی ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی کے مختلف کام کیئے تھے۔ آردہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور اسکے ہمراہی اسے بتاتے رہتے ہیں، کہ کس آدمی نے دنیا میں کون سے نیک کام کئے، جس کے بدلے اسے جنت میں یہ مقام عطا ہوا۔
جنت کے بعد اردہ کو دوزخ کی جانب لایا جاتا ہے، پہلے اسے ایک پل کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے،جس کے نیچے ایک بہت ہی اداس قسم کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے، اردہ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دریا ان مردوں کے آنسوؤں سے بنا ہے جنہوں نے مرنے والوں کیلئے ناحق آنسو بہائے۔ اسکے بعد اردہ دوزخ کے اندر گناہ گاروں کو دی جانے والی اذیت کے مناظر دیکھتا ہے، متقی سروش اور آدر فرشتہ تفصیل بتاتے ہیں کہ کس آدمی کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔
” میں ایک جگہ آیا، میں نے ایک آدمی کی روح دیکھی، جو ایک سانپ کی طرح تھی، وہ ایک شعاع کی طرح اس کے منہ میں آ جا رہی تھی۔ بے شمار سانپ اس کے اعضا کےساتھ لپٹے ہوئے تھے۔ میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا: اس جسم نے کون سے گناہ کئے ہیں کہ اس کی روح اس شدید عذاب کا شکار ہے۔ متقی سروش اور ادار فرشتے نے بتایا یہ ایک ایسے گناہگار کی روح ہے جو ہم جنسی کا مرتکب ہوا، اور اس نےایک مرد ( کے عضو تناسل) کو اپنے جسم کے اندر آنے دیا۔ اب اس کی روح شدید عذاب سے دوچار ہے۔
میں نے ایک آدمی کی روح کو دیکھا جس کے منہ میں حائضہ عورت کی گندگی ڈالی جا رہی تھی، اور وہ اپنے بیٹے کو پکا کر کھا رہا تھا۔ میں نے پوچھا، اس جسم سے کونسا گناہ سرزد ہوا کہ اسکی روح کو یہ عذاب دیا جا رہا ہے۔ متقی سروش اور ادار فرشتے نے کہا: یہ اس نابکار آدمی کی روح ہے جس نے حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کی “۔
میں نے ایک آدمی کی روح کو دیکھا جس کی زبان کو کیڑے کتر رہے تھے، میں نے پوچھا اس جسم سے کون سے گناہ سرزد ہوئے۔ متقی سروش اور اراد فرشتے نے بتایا کہ یہ ایک ایسے نابکار کی روح ہے جس نے بہت زیادہ جھوٹ بولے، یوں اس نے دیگر مخلوق کو نقصان پہنچایا۔
میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا جو اپنے دانتوں سے اپنی لاش کو چبا رہی تھی، میں نے پوچھاکہ یہ کس کی روح ہے، متقی سروش اور ادار فرشتے نے بتایا، کہ یہ ایسی بدکار عورت کی روح ہے جو جادو کرتی تھی “۔
آخری دن اردا ویراف کو ساتویں آسمان پرلے جایا جاتا ہے، جہان اسے خدائے بزرگ و برتر کا دیدار نصیب ہوتا ہے، وہاں اردا ویراف کو پتہ چلتا ہے کہ آہور مزدا کی کوئی شکل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ابدی نور ہے۔ اس کے بعداردا ویراف کی روح زمیں پر اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے۔ (مزید تفصیلات کیلئے دیکھیئے: اردہ ویراف نمگ)
شب معراج کو نبی کریم کو بھی ان کی خواہش پر دوذخ کا ڈھکنا اٹھا کر دوزخ کے عجائبات دکھائےجاتے ہیں، آپ نے بھی اردہ ویراف کی طرح مختلف لوگوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا:
“پھر میں نے وہ لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کی طرح تھے، ان کے ہاتھ میں آگ کے گولوں کی طرح کے پتھر تھے، جنہیں وہ منہ میں ڈالتے تھے اور وہ ان کے مقعد سے باہر نکلتے تھے، مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے۔
پھر میں نے چند لوگ دیکھے ان جیسے پیٹ میں نے کبھی نہیں یکھے، جب وہ جہنم میں لائے جاتےہیں تو ان پر جیسے پیاسے اونٹ گزر جاتے ہیں، اور ان میں ہلنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ سود خور تھے۔
پھر میں وہ لوگ دیکھے جن کے سامنے چکنا فربہ گوشت تھا، اور اس کے ساتھ دبلا ( دبلے جانورکا) اور بدبودار گوشت بھی، اور وہ لوگ چکنے اور فربہ گوشت کی بجائے وہی دبلا اور بدبودار گوشت کھا رہے تھے، مجھے بتایا گیا،کہ یہ وہ لوگ تھے جو ان عورتوں کو جو حلال ٹھہرائی گئیں تھیں، ان کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔
پھرمیں نے ایسی عورتیں دیکھیں جو اپنی چھاتیوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ وہ تھیں جنہوں نے( اپنے) مردوں کے پاس ایسا بچہ داخل کرا دیا جو ان کا اپنی اولاد میں سے نہیں تھا“۔ (محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
واقعہ معراج کا جائزہ
ھیکل سلیمانی کو تقریبا٘ ایک ہزار قبل مسیح حضرت سلیمان نے تعمیر کروایا تھا۔ بابلی بادشاہ بخت نصر نے 586 قبل مسیح میں یروشلم پر قبضہ کر کے ھیکل سلیمانی کو آگ لگا دی۔515 قبل مسیح میں اس معبد کو دوبارہ بنایا گیا، لیکن 70ء میں ٹائٹس اور اسکے رومی سپاہیوں نے حملے کے بعد اسے سطح زمین کے برابر کر دیا۔ جب معراج کا مبارک واقعہ پیش آیا، اُس وقت وہاں نہ مسجد اقصیٰ تھی اور نہ ہی معبد سلیمانی۔ بلکہ وہ جگہ شہر بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کیلئے استعمال ہوتی تھی۔
کیا وجہ ہے، خدا نے جب بھی اپنے بندے سے رابطہ کیا، اس نے ان وقتوں کی میسر ” ٹیکنالوجی” سے ہی کیوں استفادہ فرمایا۔ حمورابی اور حضرت موسیٰ کو پتھر کی سلوں پر کندہ احکامات دئیے، آج کے وقتوں میں خدا یقیناَ جدید ذرائع استعمال کرتا۔ حضور کے زمانہ میں کسی کو پیغام دینے کیلئے کسی کو بھیجنا پڑتا تھا،اسی لئے حضرت جبرئیل بذات خود اللہ کا پیغام لے کر آتے تھے۔ اگر رسول اللہ آج ہوتے تو اللہ میاں حضرت جبرائیل کے ذریعے وحی بھیجنے کی بجائے رسول اللہ کو ای میل کرتے۔ حضور کے زمانے میں سواری کیلئے گھوڑا اور گدھا ہی میسر تھے، اور چونکہ آسمان کی جانب اڑنے کیلئے پروں کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اللہ میاں نے سرور کونین کیلئے اڑنے والا گدھا بھیجا۔ آج کے وقتوں میں اللہ میاں یقیناَ سپیس شپ یا خلائی شٹل بھیجتے۔ نبی تو در کنار،جب جبرئیل حضور کو قبیلہ بنو قریظہ پر حملہ کرنے کی صلاح دینے آتےہیں، تب وہ بھی گدھےپر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے کشیدہ کاری سے مزین عمامہ سر پرباندھا ہوتا ہے۔(تفصیل کیلئے دیکھئے: سیرت محمد بن اسحاق )
سوال یہ ہے کہ رسول اللہ مکہ سے سیدھے ہی عرش پر کیوں نہیں گئے؟، کیا یروشلم میں عرش پر جانے کیلئے کوئی شارٹ کٹ راستہ موجود تھا؟۔ کیا وہاں پر کوئی وورم ہول تھا؟۔ اگر انبیا کی نماز کی امامت کروانی ہی مقصود تھی تو وہ مکہ میں کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟۔ کیا سواریوں کی کمی کیوجہ سے دیگر انبیاءکرام کیلئے مکہ پہنچنا مشکل تھا؟۔ اگر اللہ میاں نے یروشلم میں وورم ہول بنایا تھا تو کیا وہ ایسا ہی وورم ہول مکہ میں نہیں بنا سکتا تھا؟۔ اور وہ سیڑھی جس پر چڑھ کر نبیؑ کریم عرش معلیٰ پہنچے،کیا ایسی سیڑھی مکہ میں نصب نہیں ہو سکتی تھی؟۔کیا اس میں کوئی تکنیکی مسائل در پیش تھے، یا اللہ میاں کو مکہ کی نسبت یروشلم زیادہ عزیز ہے؟۔
جب نبی کریم براق پرسوار ہونے لگے تو براق کیوں بھڑکنے لگا، کیا اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اسے کس مقصد کیلئے زمین پر بھیجا گیا ہے، کیا اسے اللہ میاں یا حضرت جبرائیل نے اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا؟۔ لہذا اس نے زمین پر آتے ہی اپنے زمینی بھائیوں(گدھوں) کی طرح دولتیاں جھاڑنی شروع کر دیں !!!۔
پروردگار عالم جو عقل کل ہے، اس کے ” ذہن ” میں یہ کیوں نہیں آیا کہ وہ براق کو نبیؑ کریم کےپاس ہی چھوڑ دیتا، مشرکین مکہ اس معجزاتی جانور کو دیکھ کریقینا آپ پر ایمان لے آتے، اور آپ کو ” دین حق ” کو پھیلانے کیلیئے اتنی قتل و غارت نہ کرنی پڑتی۔ زمینی فضا کے اندر تو براق کے پروں کی سمجھ آتی ہے، اس فضا سے باہر نکل جانے کےبعد ان پروں کا کیا استعمال تھا؟ اور اس فضا سے باہر نکل کر نبیؑ کریم کیسے زندہ رہے، آپ تو انسان تھے اور آپکو آکسیجن کی بھی تو ضرورت تھی، آج تک دریافت شدہ کائنات کی سرحد زمین سے 12 ملین نوری سال ہے، اگر عرش بریں اس سے بھی آگے ہے، تو براق کس رفتار سے اڑ کر عرش پر پہنچا، اور نبی کریم اس رفتار سے اڑتے ہوئے زندہ کیسے رہے، آپ کے پاس تو کسی قسم کا کوئی حفاظتی لباس بھی نہیں تھا۔
جہاں رسول اللہ نے انبیاءکرام کی نماز کی امامت فرمائی، کیا وہ معبد سلیمانی تھا جو انکی پیدائش سے تقریباَ 570 سال قبل تباہ ہو چکا تھا یا مسجد اقصیٰ، جسے خاندان بنوامّیہ کے عبدالمالک بن مروان نے حضور کی وفات کے 73 سال بعد بنوایا تھا۔ کیا حضور پاک کا آسمانی گدھا ایک ٹائم مشین تھا، جو حضور کو انکی پیدائش سے 570 سال پہلے تباہ شدہ معبد میں لے گیا تھا، یا انکی وفات کے 73 سال بعد بننے والی مسجد میں۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ کُوڑےکا ڈھیر مسلمانوں کا قبلہ اوّل تھا؟، اور اسی کوڑےکے ڈھیر پرحضور نے انبیا کی نماز کی امامت فرمائی تھی؟۔ اور حضور مکہ کے سادہ لوح لوگوں کو کس مسجد کے دروازوں کی تفصیل بتا رہے تھے؟۔
اللہ میاں نے پہلے مسلمانوں پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، حضور کا بار بار اوپر جا کر نمازیں کم کروانا، خدا اور اس کے رسول کے درمیاں مکالمے کی بجائے ایک ایسی دوکان کا سا سماں پیدا کرتا ہے، جہان ایک دوکاندار اور گاہک خاتوں کے درمیاں کسی چیز پر مول تول ہو رہاہے۔ اور بھلا ہو اس یہودی پیغمبر کا کہ اس کی وجہ سے ہمیں پچاس کی بجائے پانچ نمازوں کا حکم ہوا، وگرنہ دن بھر نمازیں پڑھ پڑھ کے ہماری تو مت ماری جانی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ پچاس نمازوں کے پڑھے جانے کی جو مشکل حضرت موسیٰ نے نوٹ فرما لی تھی، وہ نہ ہی حضور کے ذہن میں آئی اور نہ ہی اللہ میاں کے۔ حضرت موسیٰ اللہ میاں اور ہمارے نبیؑ دونوں سے زیادہ عقلمند ثابت ہوئے۔
حضور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز کی امامت کرواتےہیں اور تمام انبیا اُن کے پیچھے ہوتے ہیں،جب حضور آسمانوں پر پہنچتےہیں، تووہ نبی پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتے ہیں، کیا اُنکے پاس حضور سے بھی زیادہ تیز رفتارسواری تھی کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد حضور سے پہلے ہی اپنے اپنے آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں؟
تمام احادیث کے مطابق نماز نبیؑ کریم کے عرش پر موجودگی کے وقت فرض ہوئی، اور جبرئیل دوسرے دن آپ اور دیگر صحابہ کرام کو نماز پڑھنا سکھاتے ہیں۔ تو پھر آپ نے عرش پر جانے سے پہلے کس قسم کی دو رکعت نماز ادا کی، اور آپ نے دیگر انبیاؑ کرام کی امامت کیسے فرمائی، جبکہ آپ کو تو سرے سے نماز پڑھنا آتی ہی نہیں تھی۔ اور معراج پر جانے سے پہلے اس رات آپ نے اس اکیلی عورت کے گھر پر کس قسم کی نماز ادا فرمائی تھی۔
حدیث بخاری کے مطابق جب آپ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملتے ہیں، تو آپ کو دو دریا نظر آتےہیں، آپ جبرئیل سے ان کے متعلق پوچھتے ہیں، تو آپ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دریائے فرات اور نیل کے منبع ہیں۔ اگر ان دریاؤں کا منبع آسمانوں پر ہے تو دیگر دریاؤں کے منبع کہاں ہیں۔
حضرت ابوبکر نے حضورکے معراج کی گواہی دی، جس پر انہیں صدیق کا خطاب ملا، لیکن ایک جھوٹی گواہی دینے پر انہیں ابوبکر صدیق کی بجائے کیا ابوبکر کذاب نہیں کہنا چاہئے۔
ہو سکتا ہےمعراج نبوی کے متعلق سب حدیثیں غلط ہوں، تمام مسلمان تاریخ دانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ لیکن یہ معراج کا واقعہ قرآن میں کیونکر درج ہوا۔ کیا اس کا مطلب ہے، کہ وہ افواہ سچی نکلی کہ بنوامّیہ کےدور میں قراؑن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کیا یہ ممکن نہیں ہے، کہ عبدالملک بن مروان کے مسجد اقصیٰ بنانے کے بعداس آیت کو قرآن میں درج کیا گیا ہو؟۔ لیکن اللہ میاں نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ خودقرآن کی حفاظت کریں گے ( ویسے حفاظت تو انہیں اپنی پہلی الہامی کتابوں کی بھی کرنی چاہیئے تھی)۔ توکیا اللہ میاں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا؟۔ کیا اللہ میاں اپنے وعدہ سے پھر گئے؟، یا اللہ میاں سے پھر ایک بار پھر چوک ہو گئی؟
This is very interesting, informative, and eye-opening article. I just want to make one correction. Most of the galaxies we see are 10 to 12 billion light years away. Moreover, the diameter of visible universe is 28 billion light years. Hence, the boundary of our universe cannot be 12 million light years away from us. Anyway Brother Ghulam Rasool is right. Ascension (Miraj) story is nothing but a fairy tale stolen from Zoroastrian scriptures. Why do Muslims still believe in such nonsense?
Please excuse me for posting my comments in English. Google Urdu Transliteration still does not work on my laptop.
ye kisi aasman pe jany ka zikr nahi balke hijrath ki bath ho rahi hay, (bait ul haram) = Makka, se aqsa , door daraz muqam, Madina ka zikar hay jo kushada sarzamen thi or ,jis ki fiza asmani inqilab ke liye saazgar thi ye sab kuch is liye kia gaya ke Khuda apne ke Khuda un bato ko ashkar kar day jis ka waada bar bar kia jatha raha, is ke foran baad Moosa ke kitab ka zikr hay. Moosa ko bhi isi tharah zabith .hayath atha kia gaya tha or us ko bhi hijrath karni pari thi
Dear waqarr khan
very good explanation about word ” aqsa” far of place that is hat time from madeena possible
بہت شاندار کاوش ہے..
چونکہ اسلام سے پہلے کی پوری سیاسی، معاشی، تہزیبی، سقافتی، اور مذہبی تاریخ مسلمانوں کے نزدیک جہالت تھی لحاظہ اسلام سے پہلے کے ایسے تمام اساطیر اسلام کو بدنام کرنے کے لیے شیطان مردود کی پلاننگ تھی..
کیوں کے شیطان کو پہلے سے محمد کے آفاقی،الوھی اسلام کا پتہ تھا،
Few points one must keep in mind if one believes in Allah, that Allah doesn’t need us, or our prayers nor our Emaan as Allah is beyniyaz.
The contributors of this website need to remember few following points.
1. To believe in the unseen as mentioned in the very first of the ayat of Surah Baqarah from
2.2 – 2.7 “This is the Book about which there is no doubt, a guidance for those conscious of Allah. Who believe in the unseen, establish prayer, and spend out of what We have provided for them, And who believe in what has been revealed to you, [O Muhammad], and what was revealed before you, and of the Hereafter they are certain [in faith]. Those are upon [right] guidance from their Lord, and it is those who are the successful. Indeed, those who disbelieve – it is all the same for them whether you warn them or do not warn them – they will not believe.”
So anyone who doesn’t believe in this point of “believe in the unseen”, should not read the other points as rest of the Quran would become meaningless. If they find Miraj as a funny and flawed fable because it defies scientific logic then the entire notion of religion is a fable. You cannot be selective in religion. Either it’s a complete submission to Allah or be as you are.
2. All creation (mankind) was created at once and in a single covenant before Allah they vowed the following:
7-172 “And [mention] when your Lord took from the children of Adam – from their loins – their descendants and made them testify of themselves, [saying to them], "Am I not your Lord?” They said, "Yes, we have testified.” [This] – lest you should say on the day of Resurrection, "Indeed, we were of this unaware.”
The above verse is a confirmation of the existence of our Soul prior to its union with our physical body. The testimony and affirmation by our Soul, before our Lord Rabb, is also acknowledged. A warning is also given to our Soul. Least, we may get too involved into the material world and forget the pledge or have doubts for our sacred Covenant with Allah. A Muslim who has his faith in the Day of Judgment has also to believe in the Primordial Covenant with Allah.
3. One Religion – All the prophets and all the scriptures point to only one religion i.e. Islam (submission to the Almighty). The series of prophets starting from hazrat Adam to hazrat Muhammad swt brought the single message of Oneness of God. It’s the followers who divided the religion into different names such as Zoroastrianism, Judaism, Christianity so on and so forth. And then later, they altered the religion to suit their lifestyles. In many ayaat, Quran has pointed this out when Jews and Christians altered the fundamentals of the religion such as the laws of Sabath and Jesus as being the son of God.
3-67 “Abraham [Ibrahim] was neither a Jew nor a Christian. He was an upright Muslim, who knew Allah”.
Now, if Quran or Hadees mentions some idea or incident which is similar to the previous religions, all it means that Islam is the continuation of the previous religions and it’s the same religion being offered by the same Almighty.
4. Day of Judgment – As mentioned by Ghulam Rasool that why Allah did not give Muhammad swt Buraq after the Miraj to show to the people of Makkah as a proof? Well the answer lies in the belief in the Day of Judgment. All the religious laws existing in this world set boundaries for good and evil. If you do good, you will be successful in the Day of Judgment and vice versa. If the notion was to convert everyone to be a good law abiding Muslim so everyone would pass the Judgment test at the end, what was the point of creating this entire canvas of humanity? Allah could have given Buraq or angels to Muhammad swt, or any other miracle but that is not the intention of Allah as said by Himself in many occasions in Quran. This was the same argument and demand presented by Quraish that show us something or why not you bring the wrath of Allah now or why not the nobles or the rich of Quraish were chosen by Allah.
So this world is a test for every individual to recognize oneness of Allah and remember the covenant which has been taken by his soul even before he was born. In order to be successful, one must need to abide by the laws.
7-178 – Whoever Allah guides – he is the [rightly] guided; and whoever He sends astray – it is those who are the losers.
Ahsen sahib, greetings… Your time and effort in wrting this message is much appreciated and it refelcts the sincerity of your convictions.
I was going to click the "Like” button on this message, but then I realized that I actually only like, no, LOVE, one thing (and ONLY that one thing) in your long message. Let me quote you:
"… anyone who doesn’t believe in this point of “believe in the unseen”, should not read the other points as rest of the Quran would become meaningless. … Either it’s a complete … or be as you are. …” Beautifully said.
And that is where the argument ends.
But, unfortunately you mixed ‘goat droppings in the milk’ when you went preaching on and on and on… It was all unnecessary and controversial.
اگر کوئی انسان کانسی کے زمانے کے قصے کہانیوں پر یقین کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا حق ہے، آپ کے اتنے لمبے تبصرے پر کیا کہوں، اگر آپ کے تبصرے کی آخری دو لائینیں ہی لے لی جائیں، تو اس سے مذہب دھوئیں کی طرح اڑ جاتا ہے۔ اگر خدا ہی چاہتا ہے کسی کو ہدائت دینا اور کسی کو گمراہ رکھنا۔ تو پھر یہ روز جزا و سزا چہ معنی دارد۔ خدا خود ہی کسی کو گمراہ رکھے، اور پھر اسے اس گمراہی اور سرکشی کی سزا دے۔ اور جن کو خدا نے خود ہدائت دی، ان کو جزا دے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
I am baffled that one can be so ignorant towards something they are writing about. I mean come on, everyone knows your propaganda then why the pretense?. And as for your "very logical and rational” objection on the PHILOSOPHY OF GUIDANCE, I’d really love to answer your argument. I’ll just quote a verse from Quran and it’s quite self-explanatory: "We have sent down to you the Book for the people with truth. So, whoever follows the guidance, it is for his own good, and whoever goes astray, he will go astray only to his own detriment.” So as evident, Quran is the source of all Guidance and if one deliberately turns himself away from the divine message seeking guidance elsewhere, God lets him go astray. Now it doesn’t sound so unfair, Mr. Ghulam Rasool. Does it? Now please don’t make fun of yourself and find yourself some audience who is dumb enough to believe your wretched "Tahqeeq”. Thank you
واقعہ معراج کے سلسلہ میں تاریخ مین جو مختلف واقعات ہین مسلمانوں کے رسول کے علاوہ، انکے حقائق اور انکے رد میں غلام رسول نے کوئی گفتگو نہین کی،جزاء اور سزاء اور تاریخ میں جنت جہنم کا تصور کیا انسان کا خود کا اختراع کردو ہے، جب زمیں پر اہل حکومت اتنے زور اور اختیار والے تھے تو انسان کیون کر معبود اور خالق کا نظریہ تراشا –
جراءت تحقیق اور غلام رسول اس ایک انسانی گروہ کی سیاہ کاریوں کو کیون ہدف تنقید اور تکذیب بناتے ہین کیون کہ دنیا میں جو اور عقاید ہین جیسے بدہ مذہب، ھندو مذہب یا مسیحیت یا یہودیت آج کے اخبار ان سب کے جور اور ستم کے اعمال سے بھرے ہین کیا ایک انسانی صالح معاشرہ کیلئے صرگ عقیدہ اسلام کو اس دنیا میں ممنوع کردینے سے امن ہو جائیگا؟؟؟
مسلمانون کے قتل و خون کے واقعات بہت سنے جاتے ہین لیکن اور لوگوں مین بھی یہی واقعات اسی تناسب سے موجود ہین
1- مسجد اقصی کے بارے میں کوٖڑے کرکٹ کی جگہ ہونا – یہ معلومات کیا وہ کچرا پھعنکنے والوں نے غلام رسول کے کان میں کہا کیون کہ تاریخ اس خاص ذریعہ علم پر خاموش ہے یا غلام رسول کو بھی کوئی گھوڑے سے چھوٹا اور خچر سے بڑا گدھا آیا کرتا ہے-مسجد حرام بھی نہین تھی خانہ کعبہ کا کمرہ تھا اور بس اسکے اطراط لوگ عبادت کیا کرتے تھے-مسجد عمارت کیلئے نہین جگہ کیلئے استعمال ہونے والا لفظ ہے زبان عربی میں
ابوبکر کے لئے ابو بکر کذاب کہا گیا ہے تو کیا یہ انداز ignorance and dumbness نہین ہے کیون دھمکی کی زبان استعمال کی گئی رسول عربی میں بھیجے ہوئے کو کہتے ہین غلام رسولِ کنجر ہے لگتا تو ایسے ہی ہےجراءت تحقیق میں اگر غلام رسول کو ابوبکر کی ذات میں نقص دکھائی دیتا ہے تو ابو بکر کو تو صاحب معراج کی صحبت حاصل تھی –
بہر حال ساری گفتگو واقعہ معراج کے بارے میں فضول اور یاوہ گوئی سے زیادہ نہین ہے غلام رسول کنجر کا تنصرہ
نوٹ:- لفظ کنجر استعمال کرنا میرا اپنا ارادہ نہین لیکن جب اس نے ابوبکر الصدیق کے لئے لفظ کذاب لکھا تو ضروری ہوگیا اسکو کنجر لکھون اور یہ ضرور ہے بھی-جیسے ولید بن مغیرہ کا حرام کی اولاد ہونا اسکو پتہ چلا – غلام رسول کنجر بھی اپنے بارے تحقیق کرلے
ghulam rasool sb dont do this every religion give us a message of goodnes although it has( islam) may have many queries but it dosent mean that u destroy it by taking examples of identical thing from other religious books from the begning peoples are divided in the name religion ,u are and this website is spending much of time only abusing those thing which dosnt have much worth,man will die one day he will see what ever he belive or may be dosnt see anything,and bye the way this realistic approach wat u want to do i dont think u are doing good job but i think u are making confuion in those minds those are already confued, millions of peoples doing many good things in the name of Allah,they help poors,they respect their parants they are good with society only because they believe in Allah,but wat u do here is amazing u want to destroy better part of it.
پتہ نہیں کون dumb یا ignorant ہے یا نہیں ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ آپ لوگوں کی تبصروں میں گالیاں یا دھمکیاں ضرور ہوتی ہیں۔ قران ایک مکمل ہدایت کی کتاب ہے، یہ آپ کا دعویٰ ہے۔ اسی سچی اور ہدائیت کی کتاب میں ایک ایسی مسجد کا ذکر ہے جو اس وقت سرے سے تھی ہی نہیں، جس سے اس کے سچی کتاب ہونے کا دعویٰ کمزور پڑ جاتا ہے۔ اب اس کتاب کے بقایا دعوؤں کےمتعلق کیا کہا جائے۔
او اغلام بد بخت سؤر, کیوں لوگوں کو دھوکا دیتا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کا نام استعمال کرکے?
لعنت دیا ماریا کوئ ہور نام ورت .
توں پیغمبر علیہ سلام تے یار غار نو کزب کہویں تے کوئ حرج نئ تے تینوں کوئ کنجر کہوے تے گالی?
فٹے منہ تیرے ایہو جۓ ہوۓ دا سؤر دیا تخماں.
اخلاق محمدی کا مظاہرہ —– بھئی بہت خوب، لطف آ گیا۔
This verse
7-178 – Whoever Allah guides – he is the [rightly] guided; and whoever He sends astray – it is those who are the losers
contradicts totally with this verse.
We have sent down to you the Book for the people with truth. So, whoever follows the guidance, it is for his own good, and whoever goes astray, he will go astray only to his own detriment.”
First verse means pre-determination and second implies free will. Are your translations authentic?
Once upon a time I too strongly believed that Quran was from Allah, the One and Only God. He sent down the Quran so that people take guidance from it, find the Straight Path, live a blissful life on earth, and enjoy eternal life in the paradise after they die. Also, we believed that Torah and Injeel too were Divine Books given to Moses and Jesus. Obviously, they too were sent down for the same purpose mentioned above. Now please take a moment to ponder over these questions with an open mind.
Did Torah provide guidance to the Jews or improve their lives?
Did Injeel guide Christians to Straight Path?
Are Muslims taking any guidance from the Quran?
Is Quran helping Muslims to live a blissful life on earth?
If your answer is no, you must admit that God’s books failed to accomplish their purpose. I am sure you believe “God” knows about the future. How come He still sent down His books knowing very well that people would not take any guidance from them?
How strange people call upon their gods all their lives but never get a reply even once. But when someone consults his or her Rubb (Mind), he or she often receives the response faster than the speed of light. Many great discoveries and invention arrived this way as well. Scientists almost never call upon God for help. But they surely seek help from their Mind.
All the books we find on our earth are the product of human intellect. The so-called Holy Scriptures are no exception. The compilation of Quran sounds the work of a team, not one person. Obviously, a team of experts went through old scriptures and took any material they liked. The work might have been carried out under the direction and supervision of the team leader who is often called the Prophet of God. That also explains why it took them 23 years to complete the book. Their intentions might be good and, indeed, they produced a great guide for the Arabs of that era. However, later generations attributed this work to Allah or God and declared it Divine Guidance for all humanity for all times and places. They irony is that the books is not even able to guide Arabs today. How can this book guide rest of the humanity that does not understand Arabic? Mind you human intellect has evolved beyond the imagination of those Bedouin Arabs who lived 1400 year ago and it continues to evolve without the help of any Divine Book.
Can any person whose mother tongue is not Arabic understand the Quran?
Why the Creator appointed His or Her last Messenger to one nation, i.e. Arabs?
Did Almighty forget about all other nations of this world?
Are not other nations justified in complaining that they could not read and understand Quran, as it was in a language they did not speak?
What if the last Prophet was born in China and the Quran was in Chinese language. Would you be able to read and understand Quran in Chinese language?
If the book is from our Creator, why did not He or She ensure that all earthlings understand His or Her Message?
The Creator could have easily appointed a Messenger in every nation in the world and thus delivered the same Message to each nation in its own language simultaneously. Why He or She did not do so?
Do you believe Almighty sent down Quran in Arabic because this language is easy to understand? What if I prove that the language people all over the world find easier to learn and understand is English, not Arabic?
I have met many deaf students from all over the world. Most of them learn English while studying in USA. They either have very little or no knowledge of the language spoken in their home countries. For example Pakistani deaf students do not know Urdu and Arab students know very little or no Arabic at all. After a few years in USA these deaf students are able to read and write English. They even earn degrees from universities. Would not a deaf person wonder why Almighty did not send Quran in English?
We claim the Message is for all mankind but majority of mankind cannot read this message. What a shame! Can our real Creator commit such blunder?
سر میرا اکاؤنٹ آ پ نے ابھی تک متحرک نہیں کیا. پلیز اسے متحرک کریں. دوسری بات آپکے دلائل کا انداز، اور الفاظ کا خوبصوت استعمال دیکھ کر انتہائی خوشی اور حیرت ہوئی کہ اردو زبان سے آگاہی رکھنے والوں میں بھی اسلام کے متعلق اتنی جانکاری ھے. سر ایک بات عرض کرنا چاہتا ھوں. سر جو کوشش اپ کررہے یہی کام میں پچھلے پندرہ سال سے کافی ہلکے الفاظ میں اپنے معاشرے میں کررھا ھوں. سر،پڑھے لکھے مسلمانوں سے عقیدت کا بخار اتارے بغیر ھماری کاوشیں رنگ نہیں لائیں گی .ہمیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جس طرح مسلمان اپنے عقیدے کو حق سمجھ کر تبلیغ اور اظہار رائے کی آزادی کا حق استعمال کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اسی طرح اپنے نظریات کو درست سمجھنے کےبناءپر ہمیں بھی اپنے نظریات کی ترویج کا تھوڑا حق دینا تو گوارا کریں. اسلامی تاریخ کے بقول چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام نے مکہ کے اندر دس سال تک اسلام کی تبلیغ کی اور مکہ کے بت برستوں نے یہ چیز برداشت کی کیا ھمارے پاکستانی عوام آج کے ترقی یافتہ دور میں ہمیں صرف پانچ سال برداشت کرنے کا حوصلا دکھا پائیں گے؟ یہ اور بات ھے کہ ابھی تک تو یہ ہمیں ایک دن کیلئے برداشت کرنے کے رودارنہیں ہیں.
آپ کا اکاؤنٹ کل ہی ایکٹی ویٹ کردیا گیا تھا
یہ بات کہ اہل مکہ نے ۱۰ سال موقعہ دیا اور اسکے بدل پاکستان کے عقیدہ اسلام کے لوگ بھی کم از کم ۵ سال دیں
بات بالکل واجبی اور حق کی ہے- کیا جو سب مکہ کے لوگوں نے نئے دین اور اسکے ماننے والوں کے ساتھ کیا آپ بھی برداشت کرنے تیار ہیں؟؟؟ ۳ سال شعب ابی طالب میں محصور رکھا، اور اس دوران کیا کیا ہوا اسکی تفصیل آپ پر استعمال کی جا سکتی ہے؟؟؟
امید کہ جواب ضرور دیں گے
محترمی ASRBNIN
کیا آپ کو معلوم ہے کہ شعب ابی طالب میں صرف مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ مشرکین مکہ یا کافر بھی شعب ابی طالب میں کافروں کے ہی "مظالم” برداشت کر رہے تھے۔ کافروں نے تو مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر رکھا تھا تو یہ کافر جو مسلمانوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے وہاں کیا کر رہے تھے؟
امید ہے کہ آپ کے پاس جواب نہیں ہوگا 😀
آپ اپنے سوال کا جواب دیکھین بات گھمائین نہین جواب ہربات کا ہو ضروری نہین شعب ابی طالب میں وہ سب تھے منجملہ مسلمانون کے – اور یہ بنی ہاشم کا مقاطعہ تھا – اور عرب ثقافت اور مکہ شریف کی زندگی کے بارے میں علم کی صلاحیت ہی نہین ہے ان لوگوں میں ورنہ اتنی تفصیل معلوم ہونے پر مسلمان ہوتے نہ کہ اپنی خود کی گفتگو سے خود کو ” زنیم ” ثابت کرتے رہتے ہو-
اللہ علیم خبیر کے رسول کا یقین نہ ہونا ،خمیر کا پتہ دیتا ہے
Dear All
First of all I apologize for writing in English and reason I explained earlier on some other blog that I don’t know typing in Urdu which is my native language, and feel sorry for that,
I read the article and logic given in article is looks sound, But the logical comment is from Mr. Shahid, and being a Muslim I know that our society don’t have passion for debate on the basis of logic, we people believe on imposing the decisions,
شاندار
یہ ایلیئن ابڈکشن Alien Abduction جیسا کوئی نفسیاتی معاملہ ہے۔ نیم غنودگی میں فرشتے نے انکا پیٹ چیرکر آب زم زم سے دھویا ۔ ایسا تو بیسویں اور اکیسویں صدی میں کئی لوگ بھی اظہار کرچکے ہیں ان لوگوں کے نفسیاتی تجزئے کئے گئے تو معلوم ہوا کہ انہوں نے خواب دیکھے تھے اور وہ یہ خواب دیکھنا چاہتے تھے اس لئے اسکا اثر اتنا زیادہ ہوا کہ وہ اسکو حقیقی واقعہ سمجھ بیٹھے۔ یقین کریں ایسا خواب ہر بندہ دیکھتا ہے لیکن چونکہ ہر بندہ خبطی نہیں ہوتا اس لئے خواب کو وہ خواب ہی سمجھتا ہے۔ محمد نے ایک خواب دیکھا اور اسکو سچا سمجھ کر جب بیان کیا تو اپنی طرف مزید باتیں بھی اس میں ایڈ کردیں۔
خواب کے دعوے کی کوئی نہ تکذیب کرتا نہ تصدیق
احمق اک کیفیت ہوتی ہے اور وجدان بھی
i m sorry,i cant type urdu fonts,ihave gone thru website and found it very informative and making things very clear once i started reading it open mind. i see people here are usually using abusive language instead of searching for the right answers, if the things here are not palatable to their faith. i dont blame such people because these are accidental muslims, they are muslims only for one reason, they were born in muslim family.nothing else.and they were taught to read quran even before they could read their own name, i am sure you all have been to a nursery school, where in chorus teacher recites five qalma’s and the whole class sing behind the teacher’s voice without even knowing the meaning of a single word of it. how can one expect one of them to be logical when their faith doesnt allow logic to be practised.