انسان کا جنسی رویہ ہمیشہ سے ہی اس کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے، انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں انسان مختلف جنسی رویوں اور روایات کے مطابق زندگی گزارتا آیا ہے۔ معاشروں اور مذاہب نے انسان کے کچھ جنسی رویوں پر پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ ممنوعہ جنسی رجحان رکھنے والوں کو کڑی سزائیں دی ہیں، دوسری جانب کچھ مذاہب اور معاشرے ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے مختلف قسم کے جنسی رویوں کو قبول کیا ہے۔
ان رویوں میں سرفہرست ہم جنس پرستی شامل ہے، ہم جنس پرستی انسانی تاریخ جتنی ہی قدیم ہے۔ کچھ قدیم معاشروں میں ہم جنس پرستی کی اجازت رہی، یونانی فلسفی افلاطون نے اپنی ابتدائی زندگی میں ہم جنس پرستی کی حمایت کی، مگر اپنی عمر کے آخری حصے میں اس پر پابندی کا حامی تھا، جبکہ ارسطو نے ہم جنس پرستی کے متعلق افلاطون کے خیالات کو اہمیت نہ دی، اس نے آبادی پر قابو پانے کے لئے ہم جنس پرستی کی افادیت کو تسلیم کیا (گو کہ آج اس کی یہ سوچ ہمیں لغو محسوس ہوتی ہے) ارسطو نے اپنے دور کے مختلف بربر قبائل میں ہم جنس پرستی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قبائل میں ہم جنس پرستی کو ستائشی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
دنیا کے کسی ملک یا علاقے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر زمانہ میں کسی نہ کسی صورت میں ہم جنس پرستی موجود رہی ہے، اس معاملے میں شعر و شاعری اور فنون لطیفہ میں ہم جنس پرستی کے قصے بیان ہوتے آئے ہیں، جب کہ ہم جنس پرستی کی مخالفت کرنے والے معاشروں میں ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو دی گئی سزائیں مؤرخین نے تاریخ کے اوراق میں خون سے قلم بند کر رکھی ہیں۔
یہودیوں کی کتاب احبار میں باب20 کی آیت 13 میں مرقوم ہے:
"اگر کوئی مرد کسی مرد سے صحبت کرے جیسے عورت سے کی جاتی ہے تو اُن دونوں نے نہایت مکروہ کام کیا ہے۔ لہذا وہ ضرور جان سے مار دئیے جائیں۔ اُن کا خون اُن کی ہی گردن پر ہوگا۔”
یہودیت میں ہم جنس پرستی کی سزا سنگساری تھی، مسیحیت نے بھی ہم جنس پرستی کی طرف انتہائی سخت رویہ اپنایا، اسلام نے بھی ہم جنس پرستی کے خلاف سخت رویہ اپنایا، اور اسلامی شریعت کے مطابق ایسے فرد کو اونچائی سے گرا کر یا اس پر دیوار گرا کر ہلاک کرنے کا حکم ہے۔
چرچ کے لئے تقریباً ایک صدی سے اپنے راہبوں کی جنسی بے راہ روی پریشانی کا سبب بنی رہی ہے، وقتاً فوقتاً راہبوں کی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی داستانیں سامنے آتی رہی ہیں۔ چرچ میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات کی نشاندہی کرنے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ ایسے مذاہب جن کی تعلیمات ہم جنس پرستی کی سخت مخالفت کرتی ہیں، ان کی اپنی صفوں میں بچوں سے بدفعلی (Sodomy) عام ہے۔ چرچ کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی صفوں میں غیر فطری بدفعلی سے تو صرف نظر کرتا ہے مگر عالمی منظر نامے پر ہمیشہ فطری ہم جنس پرستی کی مخالفت کرتا ہے جس سے چرچ کی اخلاقی حالت پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
جیسا کہ جنسی فعل انسان کی فطری ضرورت ہے اور کیتھولک چرچ، راہبوں سے مجرد (Celibate) رہنے کا وعدہ لیتا ہے، اس وعدے کے باعث راہب اپنی جنسی خواہش پر جبر کرتے ہیں اور شادی نہیں کرتے، اس صورت میں جنسی جبر ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کر جاتا ہے، جب بھی ان کو موقع ملتا ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری طرف ان کو اپنے تجرد کا بھرم بھی رکھنا ہوتا ہے، اس صورت میں ایسے بچے جو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی پر کسی دباؤ کی وجہ سے خاموشی کو ترجیح دیں ان کا بہترین شکار ثابت ہوتے ہیں، اور راہب اسی لئے بچوں کا چناؤ کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی کو بتاتے نہیں اور راہب کی پارسائی کا پردہ چاک ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اسی معاملے میں تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ اس طرح کے بچہ باز (Pedophile) راہب دو جنسیہ رویہ رکھتے ہیں، اور کسی بھی طرح سے اپنی جنسی تسکین حاصل کر لیتے ہیں، خواہ وہ کسی خاتون سے ہو، کسی بچے سے یا بچی سے، کیونکہ اس معاملہ میں سازگار حالات کار فرما ہوتے ہیں اور راہبوں کو اپنی مجرد زندگی میں زیادہ تر مواقع عورتوں یا لڑکیوں کے بچائے چھوٹے بچوں سے ملتے ہیں۔ اسی بات کا اطلاق مُلا پر بھی ہوتا ہے اور وہ بھی ساز گار حالات کی فراہمی کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہوئے زیادہ تر کم عمر بچوں کو ہی شکار کرتا ہے۔ پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں مدارس اور مذہبی اداروں میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ گو کہ آج تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ تحقیق نہیں ہوئی لیکن اگر ایسی تحقیق کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کے نتائج یورپ اور امریکہ کے راہبوں پر کی گئی تحقیق سے مختلف نہ ہوں گے۔
بچوں کے ساتھ بدفعلی اور ہم جنس پرستی دو الگ الگ چیزیں ہیں، جہاں تک ہم جنس پرستی کا تعلق ہے تو یہ ایک فطری عمل ہے، جانوروں میں بھی ہم جنس پرستی پائی جاتی ہے، مختلف جانور جن میں خزندے(Reptile)، پرندے، ممالئے اور کیڑے مکوڑے شامل ہیں تمام ہی ہم جنس افعال میں سرگرم پائے گئے ہیں۔ انسان کا تعلق جانداروں کے ممالیہ گروہ سے ہے، اور اس گروہ میں ہم جنس پرستی انتہائی عام ہے، شیر، کتے، لگڑ بگڑ، پینگوئن، ہاتھی، زرافے سے لے کر بنوبو (Bonobo) بوزنہ جو انسان سے 98 فیصد جینیاتی مماثلت رکھتے ہیں سبھی ہم جنس پرستی میں مگن پائے گئے ہیں۔
بنوبو چمپینزی کی ہی طرح انسان کا جینیاتی کزن ہے، یہ وہ جانور ہے جس میں 100 فیصد دو جنسیہ رویہ پایا جاتا ہے، یعنی مادہ بنوبو نر بنوبو کے ساتھ ساتھ مادہ بنوبو کے ساتھ بھی جنسی تعلقات استوار کرتی ہیں، جبکہ نر بنوبو بھی نر بنوبو کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں۔ بنوبو کا رہن سہن ایسا ہے کہ اس میں جنسی عمل کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، بنوبو کی دنیا میں مادہ قوی ہوتی ہے اور وہی رہن سہن کے طریقے وضع کرتی ہے، وہی گروہ میں نظم ضبط اور امن قائم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے، اگر کوئی نر بنوبو وبال کھڑا کرے تو مادہ بنوبو جتھوں کی شکل میں اس کی پٹائی کرتی ہیں، مگر اس جھگڑے کے بعد فوراً ہی جنسی عمل شروع ہو جاتا ہے، اور جھگڑا خوش اسلوبی سے ختم ہو جاتا ہے۔ بنوبو سے متعلق کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کے معاشرے میں جنسی عمل صلح صفائی کا ایک ذریعہ ہے۔ نر بنوبو بھی ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل میں مشغول رہتے ہیں، جس میں مقعدی جنسی عمل(Anal Sex) کے ساتھ ساتھ دوسرے کی مشت زنی(Masturbation) کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح مادہ بنوبو میں ایک دوسرے کی اندام نہانی(Vagina) کو ہاتھ سے لذت پہنچانا بھی شامل ہے۔
دوسری جانب ببر شیروں کے نر گروہ میں ہم جنس پرستی انتہائی عام ہوتی ہے، شیر بھی مقعدی جنسی فعل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں ایک ہی شیر مختلف اوقات میں نرینہ اور زنانہ کردار ادا کرتا رہتا ہے۔ امریکہ کے بیل نما بائسن تو عین مقعدی جنسی فعل کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور بآسانی انزال(Orgasm) تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی معاملے میں لگڑ بگڑ جو بنوبو کی طرح مادر سری معاشرہ میں رہتے ہیں ہم جنس پرستی میں مصروف رہتے ہیں، ان میں مادہ بھی دوسری مادہ پر جنسی سواری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ گدھوں، بگلوں اور مختلف قسم کی بطخوں میں ہم جنس پرستی عام ہے، ان میں نر پرندے مل گر گھونسلہ بناتے ہیں اور ایک ساتھ پوری زندگی گزار دیتے ہیں، بگلوں اور بطخوں میں تو ایسا بھی پایا گیا ہے کہ دونوں نروں میں سے ایک کسی مادہ کے ساتھ جنسی عمل کرنے کے بعد اس کے انڈے دینے کا انتظار کرتا ہے اور جب وہ انڈے دے لیتی ہے تو دونوں نر مل کر اسے بھگا دیتے ہیں، بعد ازاں یہ خود ہی انڈوں کو سیکتے ہیں، چوزے نکلنے پر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کو جوان کرتے ہیں۔ دو نر بگلوں کی دیکھ بھال کے باعث ایسے بچوں کی شرح اموات دوسرے بچوں سے انتہائی کم ہوتی ہے۔ بکروں اور بھیڑوں میں بھی ہم جنس پرستی عام ہے اور ایک تحقیق کے مطابق مینڈھوں میں سے تقریباً 20 فیصد ہم جنس پرست ہوتے ہیں۔ ڈولفن بھی ہم جنس پرست ہوتی ہے، پانچ سے چھ ڈولفن ایک وقت مین جنسی عمل میں حصہ لیتے ہیں جن میں سے صرف ایک یا دو مادہ ہوتی ہیں باقی نر اسی دوران نر کے ساتھ بھی جنسی عمل میں حصہ لیتے ہیں، ڈولفن دوسرے ڈولفن کے اعضاء خاص کو چھیڑتے ہیں۔ ہاتھی بھی ہم جنس پرستی میں کسی سے پیچھے نہیں، نر ہاتھیوں کے گروہ میں چھوٹے ہاتھے کسی بڑے اور طاقتور ہاتھی کے ساتھ جنسی تعلقات میں مادہ کا کردار اپنا لیتے ہیں جس سے ان کو گروہ میں اہمیت ملتی ہے۔ زرافے بھی ہم جنس پرستی میں کسی سے پیچھے نہیں بلکہ جب بھی زرافوں میں گردنیں لڑانے کا مقابلہ ہوتا ہے اس کے عین بعد ہی مد مقابل زرافوں میں ہم جنس فعل بھی سامنے آ سکتا ہے۔
جانوروں میں ہم جنس پرستی عام ہے، اور بالکل انسانوں کی طرح لازمی نہیں کہ جو جانور ہم جنس افعال میں سرگرم رہا ہو وہ دوسری جنس کے ساتھ جنسی عمل میں دلچسپی نہ رکھتا ہو، بلکہ دو جنسیہ(Bisexual) رویہ انسانوں کی طرح سے ہی جانوروں میں بھی عام ہے، مگر انسانوں ہی کی طرح جانوروں میں بھی کچھ صرف اور صرف اپنی ہی جنس سے جنسی تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کو ہم حقیقی طور پر ہم جنس پرست کہہ سکتے ہیں۔
یہاں تک ہم نے جانوروں میں ہم جنس پرستی کے رجحان کا جائزہ لے لیا ہے، اب ہم اس کے اخلاقی پہلو کی طرف آ جاتے ہیں، مختلف مذاہب اور طبقاتِ فکر میں ہم جنس پرستی معیوب بلکہ ممنوع سمجھی جاتی ہے، اور ان مکاتب فکر سے ہمیں ہم جنس پرستی کی کڑی مخالفت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مذہب تو ہم جنس پرستی کو خدا یعنی خالقِ کائنات کی جانب سے ممنوع ٹھہراتا ہے، مگر قدرت میں ہمیں خدا کے اس حکم کی نفی ہوتی نظر آتی ہے، اگر خدا کو ہم جنس پرستی اس قدر ہی معیوب اور قابل نفرت معلوم ہوتی ہے تو اس نے بے زبان جانوروں میں یہ خصوصیت کیوں رکھی؟ کیونکہ جانور تو گناہ و نیکی کی تمیز نہیں رکھتے، ایسے میں ان کے تمام افعال خدا کی مرضی کے مطابق مانے جا سکتے ہیں، کیونکہ ابراہیمی مذاہب کے مطابق انسان ہی نیکی و بدی کی تمیز رکھتا ہے اور اسی کے پاس نیکی کو بدی کے مقابلے میں اختیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جبکہ جانور نہ نیکی و بدی کی تمیز رکھتے ہیں نہ ہی ان میں چناؤ کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا ہی چاہتا تھا کہ تمام جاندار جن کا ہم نے ذکر کیا ہم جنس پرستی پر مائل ہوں۔ اس صورت میں یا تو خدا کو ان ہم جنس پرست جانداروں کی تخلیق سے بری الذمہ قرار دینا ہوگایا پھر ان کے ہم جنس پرست غلیظ افعال کا شریک کار، فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔
دوسری جانب اگر قدرتی اخلاقیات(Natural Morality) کے مطابق دیکھا جائے تو قدرت میں ہم جنس پرستی موجود ہے، اور جیسا کہ سائنسی قوانین و تحقیق ثابت کرتی ہے کہ انسان بھی قدرت ہی کے ماتحت ہے اسی لئے انسانی رویوں میں بھی ہم جنس پرستی کا پایا جانا معیوب نہیں۔ بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان ارتقائی طور پر باقی جانداروں سے جڑا ہوا ہے۔
دنیا کے مختلف معاشرے آج ہم جنس پرستوں کو حقوق دے رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم جنس پرستی ایک قدرتی عمل ہے اور ہم جنس پرست بھی انسان ہیں، اس معاملے میں مختلف مذاہب کی طرف سے ہم جنس پرستوں کے حقوق کی تحریک کی مخالفت ہوتی رہتی ہے، مگر سائنسی تحقیق سے سامنے آنے والے نتائج نے آج ان ممالک اور معاشروں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ہم جنس پرستوں کو حقوق دیں تاکہ اس چھوٹی سی اقلیت کو معاشرے اور ملک کا ایک فعال رکن بننے میں مدد ملے۔ مگر دنیا کے دقیانوس اور کم علمی کے گڑھے میں گرے ہوئے معاشرے قرون وسطیٰ کی طرح آج بھی ہم جنس پرستوں کا استحصال کر رہے ہیں۔
آج دنیا پر عیاں ہو چکا ہے کہ ملّا، پادری اور ربّی کی اپنی صفوں میں بھی جنسی درندے بیٹھے ہیں جن کا شکار بہت سے طفل و زن ہیں اور حقیقی ہم جنس پرستوں کے حقوق کی مخالفت کیلئے صف اول میں کھڑے ہیں، اور یہ ملا و پادری اپنی منافقت کا سبق ساری دنیا کو نہین پڑھا سکتے۔ اسی لئے آج ہم جنس پرستوں کے حقوق کی تحریک اپنے عروج پر ہے اور ایک کے بعد ایک چوٹی سر کرتی جا رہی ہے۔