Close

اوکیم کا نشتر

اوکیم کا نشتر علم منطق کا ایک مشہور اصول ہے جو انگریز فلاسفر اور منطق دان ولیم آف اوکیم کا وضع کردہ ہے، اس اصول کو تمام علمی وتحقیقی میدانوں میں استعمال کیا جاتا ہے، حال ہی میں سائنس فکشن فلم کانٹیکٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں اس اصول کا استعمال بخوبی دکھایا گیا ہے، علم منطق میں اس اصول کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جس کے مطابق کسی بھی چیز کی آسان ترین توجیہ ہی ہمیشہ درست ہوتی ہے اور جب تک ضرورت نہ ہو معاملے میں کسی طرح کی پیچیدگیاں اور مفروضے شامل نہیں کیے جانے چاہئیں مزید برآں کوئی بھی ایسا دعوی جس کی استدلال سے نفی نہ کی جاسکتی ہو باطل ہے، اس اصول کے پہلے حصے کی ایک مثال یوں دی جاسکتی ہے:

پہلا مفروضہ: ایک کائنات ہے.
دوسرا مفروضہ: ایک کائنات ہے اور ایک خدا ہے جس نے یہ کائنات بنائی ہے.

جیسا کہ واضح ہے پہلا مفروضہ دوسرے مفروضے سے زیادہ آسان ہے جس کا مطلب ہے کہ پہلا مفروضہ ہی پسندیدہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرا مفروضہ لازماً غلط ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اسے ایک ثابت شدہ نظریے کے طور پر قبول نہیں کر سکتے، اوکیم کے مطابق اس کے اس اصول سے خدا کے وجود کی تمام تر دلیلیں ساقط ہوجاتی ہیں حالانکہ وہ خود خدا کو مانتا اور انتہائی مذہب پرست تھا مگر اس کا ایمان منطق پر نہیں بلکہ محض ایمان ہی پر قائم تھا اس کے با وجود اس کا کہنا تھا کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں نظریے میں اضافی پیچیدگیاں شامل کرنی پڑیں گی جن کی نا تو ضرورت ہے اور نا ہی یہ نظریے میں کوئی اضافہ کرتی ہیں اوپر کی مثال میں اگر ہم یہ کہیں کہ خدا نے ہی کائنات بنائی ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ خدا کو کس نے بنایا؟ یہاں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ معاملے میں خدا کو شامل کرنے سے نا ہی کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نا ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ کائنات کیوں موجود ہے کیونکہ خود خدا کی بھی کوئی توجیہ نہیں ہے، اوکیم کی نظر میں علم اور لاہوت دو بالکل ہی الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ خدا کے وجود کی کوئی منطقی دلیل وضع کرنا نا ممکن ہے.

اوکیم کے اصول کے دوسرے حصے کے مطابق کوئی بھی ایسا دعوی جس کی نفی نہ کی جاسکتی ہو باطل ہے، مثال کے طور پر کیمبری دور میں اگر کوئی مامل جانور مل جائے تو ہم نظریہ ارتقاء کو رد کر سکتے ہیں اور اگر تجاذب کی حامل کوئی دوسری قوت دریافت ہوجائے تو تجاذب کو رد کیا جاسکتا ہے تاہم تب تک یہی نظریات ہی درست تصور کیے جائیں گے کیونکہ انہیں رد کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے تاہم ہم ایسا دعوی کر سکتے ہیں جسے رد نہ کیا جاسکے جیسے "خدا زمان ومکان سے باہر ہے اور اسے منطقی طور پر نہیں سمجھا جاسکتا” اس طرح حجت کسی بھی طریقے سے ناقابلِ نفی اور ناقابلِ بحث ہوجاتی ہے! ایسی حجت قطعی باطل اور بکواسِ محض ہوتی ہے.. اس اسلوب کی ایک مثال یوں پیش کی جاسکتی ہے:

پہلا: میں اپنے آپ کا باپ ہوں.
دوسرا: تم اپنے آپ کے باپ نہیں ہوسکتے یہ نا ممکن ہے؟
پہلا: میں ایک خاص حالت ہوں جسے عقل سے نہیں سمجھا جاسکتا.

مندرجہ بالا مثال میں ایک ایسی حجت وضع کی گئی ہے جسے دنیا کی کسی بھی دلیل سے رد نہیں کیا جاسکتا اور وہ یہ کہ پہلا شخص عقل کی حدود سے ماوراء ہے اور اس کی حالت کو نہیں سمجھا جاسکتا یوں یہ استدلال فرسودہ اور باطل ہے.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top