Close

جبریل – مسیحائے پیغمبر

قرآن کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنے والا واضح طور پر یہ نوٹ کرتا ہے کہ جب بھی حضرت محمدﷺ کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے اچانک جبریل آکر اُن کا مسئلہ حل کردیتے ہیں جو ہمیشہ اُنکی منشا کے عین مطابق ہوتا ہے، مثلاً جب صحابہ کرام نے حرام مہینوں میں قریش کے ایک قافلہ پر حملہ کر کے مالِ غنیمت حاصل کیا اور حرام مہینوں کی وجہ سے سوالات اٹھے تو اچانک جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انہیں خدا کی طرف سے بشارت دی کہ وہ اُن کے صحابہ کے اس فعل پر راضی ہے چنانچہ نبی پر کوئی حرج نہیں کہ وہ لوٹ مار کے مالِ غنیمت سے اپنا حصہ وصول کر لیں (ظاہر ہے اسکے بغیر بحیثیتِ انسان انکی گزر بسر کیسے ہوگی؟)۔

(یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الشَّہۡرِ الۡحَرَامِ قِتَالٍ فِیۡہِ ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ٭ وَ اِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ؕ وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ – اے پیغمبر لوگ تم سے عزّت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا گناہ ہے۔ اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ میں جانے سے بند کرنا اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا جو یہ کفار کرتے ہیں اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ گناہ ہے۔ اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر کافر ہو جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ – سورہ بقرہ آیت 217)

اگرچہ ایسے کئی سیاسی معاملے ہیں جن میں جبریل علیہ السلام آسمان سے بطورِ مددگار بروقت تشریف لا کر اُن کی مشکل آسان کر دیتے ہیں یا اُن کی خواہشات پر تائیدِ ایزدی کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ تاہم اس پوسٹ میں ہم حضرت محمدﷺ کے سیاسی مسائل سے ہٹ کر صرف اُنکے ذاتی مسائل پر نظر ڈالیں گے کہ کس طرح جبریل حسبِ منشاء وحی لے کر آتے ہیں۔.

ام المومنین حضرت زینب بنت جحش محمدﷺ کے چچا کی بیٹی اور اُن کے لے پالک بیٹے حضرت زید بن حارثہ کی زوجہ تھی، ایک دن حضرت محمدﷺ زید سے ملنے گئے تو حضرت زینب نے دروازہ کھولا اور انہیں دیکھتے ہی وہ آپ ﷺ کو پسند آجاتی ہیں، قصہ مختصر کہ کچھ ہی عرصہ بعد حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی اور آپﷺ کے لئے راستہ بن گیا، لیکن یہاں ایک مسئلہ تھا.. مسئلہ یہ تھا کہ سب جانتے تھے کہ حضرت زید آپﷺ کے لے پالک بیٹے ہیں اور اس طرح حضرت زینب اُن کے بیٹے کی بیوی یعنی اُن کی بہو تھیں اور اُن پر حلال نہیں ہوسکتی تھیں.. اب اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟

حل سورہ احزاب کی آیت نمبر 37 کی صورت میں آیا:

(وَ اِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِ اَمۡسِکۡ عَلَیۡکَ زَوۡجَکَ وَ اتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللّٰہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ وَ اللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰہُ ؕ فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا – اور جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان کیا تھا اور تم نے بھی احسان کیا تھا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسکو اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ پھر جب زید نے اس سے تعلق ختم کر لیا یعنی اسکو طلاق دے دی تو ہم نے اسے تمہاری زوجیت میں دیدیا تاکہ مومنوں پر انکے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں جب وہ بیٹے ان سے اپنا تعلق ختم کر لیں یعنی طلاق دے دیں کچھ تنگی نہ رہے اور اللہ کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا۔)

مبادا کوئی اور حضرت زینب کے چکر میں پڑجائے اللہ تعالٰی نے بروقت آیت نازل فرما کر حضرت محمدﷺ کے لیے اُن کی سابقہ بہو کو حلال کردیا، اور مسئلے کا حل بڑا سادہ ہے، یعنی اصلی بیٹوں اور گود لیے ہوئے بیٹوں کی بیویوں میں تفریق کردی گئی، اس کی تصدیق کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر 40 میں گود لینے سے منع کردیا گیا:

(مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا – محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کر دینے والے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔)

اگرچہ تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت زینب سے عقد روایتی اسلامی طریقے سے ہٹ کر یعنی بغیر نکاح یا گواہان کے ہوا جبکہ ابھی عدت کی مدت نہیں گزری تھی۔ لیکن پورے واقعے سے ہمیں تین باتیں پتہ چلتی ہیں۔
نمبرایک: کہ اللہ کو اپنے رسول کی خوشی کتنی عزیز ہے۔
نمبر دو، یتیم بچوں کو اپنا نام دے کر پالنا درست نہیں ہے۔ اس سے شاید ان بچوں کو نام و نسب تو مل جائے لیکن اللہ کو بہرحال یہ پسند نہیں۔
نمبر تین: جن شادی شدہ جوڑوں کی اولاد نہ ہو، انہیں رضائے الٰہی پر شاکر رہنا چاہئے نہ کہ اللہ کی حکمت کو چلینج کرنا چاہئے۔

بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ "ہماری معلومات کے مطابق اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو گود لینے کو حرام قرار دیتا ہے محض اس لیے تاکہ نبی اپنی پسندیدہ خاتون سے شادی کر سکے!” بہرحال ہمیں یہاں اس بات سے بحث نہیں۔

حضرت خدیجہ کی رحلت کے بعد آپﷺ نے حضرت سودہ بن زمعہ سے نکاح کیا، کہا جاتا ہے کہ اس شادی کا مقصد اُن کی دونوں صاحبزادیوں ام کلثوم اور فاطمہ کی دیکھ بھال تھا، حضرت سودہ سے نکاح کے تین سال بعد حضرت محمدﷺ نے حضرت عائشہ کہ اپنے عقد میں لیا جبکہ اسوقت حضرت عائشہ کی عمر مبارک نو سال تھی۔ پھر حضرت زینب بنت جحش اور یوں امہات المومنین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، اتنی شادیوں اور کئی سال گزرنے کے بعد حضرت محمدﷺ نے محسوس کیا کہ حضرت سودہ کی عمر مبارک ڈھل رہی ہے (حالانکہ خود انکی عمر مبارک بھی اسوقت خاصی زیادہ ہوچکی تھی) چنانچہ اُنہوں نے حضرت سودہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا مگر اُنہوں نے منت سماجت کی اور حضرت عائشہ کے حق میں اپنی باری سے دستبردار ہونے پر تیار ہوگئیں، یوں آپﷺ مخمصے میں پڑ گئے، ایک طرف اُن کے پاس ایک عمر رسیدہ کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت نہیں تھا دوسری طرف لوگوں کی باتوں کی فکر.

اب کیا کیا جائے؟

اس کا حل سورہ نساء کی آیت نمبر 128 میں نازل ہوا:

(وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یُّصۡلِحَا بَیۡنَہُمَا صُلۡحًا ؕ وَ الصُّلۡحُ خَیۡرٌ ؕ وَ اُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا – اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کر لیں۔ اور صلح خوب چیز ہے اور طبعیتیں تو خود غرضی کی طرف مائل ہوتی ہی ہیں۔ اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔)

یوں رسول اللہ نے حضرت سودہ کو طلاق نہیں دی کیونکہ وہ اپنی باری سے حضرت عائشہ کے حق میں دستبردار ہوگئی تھیں اور چونکہ جبریل علیہ السلام نے بھی تصدیق کر دی تھی کہ اللہ آپ کے اس فیصلے سے راضی ہے.

اس کے بعد حضرت محمدﷺ کی سیاسی اور دینی طاقت بڑھتی چلی گئی جس کے ساتھ ساتھ ازواجِ مطہرات اور خادماؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور ہر معاملے کے لیے اترنے والی آیات ناکافی ہوگئیں کہ عورتیں اور بھی بہت تھیں جنکو سہارا دینا ضروری تھا اور خود اُنکی عمرِ مبارک ساٹھ سال کے لگ بھگ ہو چلی تھی جبکہ کچھ ناسمجھ لوگوں کا منہ بند کرنا بھی لازم تھا

اس کا حل بھی سورہ احزاب کی آیت نمبر 50 میں نازل ہوگیا:

(یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡۤ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا – اے پیغمبر ﷺ ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جنکو تم نے انکے مہر دے دیئے ہیں حلال کر دی ہیں اور تمہاری باندیاں جو اللہ نے تمکو کفار سے بطور مال غنیمت دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں سب حلال ہیں اور کوئی مومن عورت اگر اپنے آپکو پیغمبر ﷺ حوالے کر دے یعنی مہر کے بغیر نکاح میں آنا چاہے بشرطیکہ پیغمبر ﷺ بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں وہ بھی حلال ہے لیکن یہ اجازت اے نبی ﷺ خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم نے انکی بیویوں اور باندیوں کے بارے میں جو مہر واجب الادا مقرر کر دیا ہے ہم کو معلوم ہے یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔)

اس پر اللہ کی رضا کی مزید تاکید اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جبریل اگلی آیت بھی لے آئے جو سورہ احزاب کی آیت نمبر 51 ہے:

(تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ وَ تُــٔۡوِیۡۤ اِلَیۡکَ مَنۡ تَشَآءُ ؕ وَ مَنِ ابۡتَغَیۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکَ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ تَقَرَّ اَعۡیُنُہُنَّ وَ لَا یَحۡزَنَّ وَ یَرۡضَیۡنَ بِمَاۤ اٰتَیۡتَہُنَّ کُلُّہُنَّ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَلِیۡمًا – اے پیغمبر ﷺ تمکو یہ بھی اختیار ہے کہ جس بیوی کو چاہو پیچھے رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو۔ اور جسکو تم نے پیچھے کر دیا ہو اگر اسکو پھر اپنے پاس طلب کر لو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ اجازت اس لئے ہے کہ انکی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ تم انکو دو اسے لے کر سب خوش رہیں۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے۔ اور اللہ جاننے والا ہے بردبار ہے۔)

یعنی آپﷺ امہات المؤمنین میں سے اگر کسی کو وقت کی ضرورت یا طبیعت کے تقاضے کے تحت "پیچھے رکھنا” چاہیں تو انہیں اجازت ہے اور اگر جنگوں میں باندیاں بنائی گئی (مِمَّنۡ عَزَلۡتَ) عورتوں میں سے کسی سے مباشرت فرمانا چاہیں تو بھی اسکی اجازت ہے۔..

دراصل مفسرین میں (تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ) کی تفسیر میں اختلاف ہے، کوئی کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ہمبستری کے لیے کسی بھی خاتون کا انتخاب کر سکتے ہیں اور جسے چاہے پینڈنگ میں رکھ سکتے ہیں اور اس دوران کوئی اور ان سے عقد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ رسولِ کریم ﷺ کی منتظر ہیں، بعض نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے رسول اللہ اپنی ازواجِ مطہرات، خادماؤں اور ان عورتوں سے جنہوں نے خود کو اُن کے حوالے کردیا ہے جب چاہیں ہمبستری فرما سکتے ہیں اور اس کے لیے عام مومنین کی طرح وہ کسی ٹائم فریم کے پابند نہیں۔.

اور ظاہر ہے امت کا اختلاف رحمت ہی ہے..!

اور پھر جب ازواجِ مطہرات کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ خود مؤرخین میں ان کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے تو اللہ نے اپنے رسول کی عزت اور گھرانے کو دوسروں کی نظروں سے بچانے کے لئے سورہ احزاب کی آیت نمبر 53 کی صورت میں بذریعہ جبرائیل علیہ السلام ارشاد فرمایا:

(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰىہُ ۙ وَ لٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَ لَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ یُؤۡذِی النَّبِیَّ فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمًا – مومنو! پیغمبر ﷺ کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تمکو اجازت دی جائے یعنی کھانے کیلئے بلایا جائے جبکہ اسکے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر ﷺ کو ایذا دیتی تھی اور وہ تم سے حیا کرتے تھے اور کہتے نہیں تھے لیکن اللہ سچی بات کے کہنے سے نہیں شرماتا۔ اور جب پیغمبر ﷺ کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تمکو یہ شایاں نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی انکے بعد نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑا گناہ کا کام ہے۔)

یوں اللہ نے اپنے رسول کو اس خدائی فرمان کے ذریعے یہ اطمینان دلایا کہ اب کوئی اُن کی ازواجِ مطہرات کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا کیونکہ کسی کو اُنکی رحلت کے بعد بھی اُنکی ازواج سے عقد کرنے کی اجازت نہیں، اب یہ ایک الگ بات ہے کہ اس حکمِ ربانی کی وجہ سے درجنوں امہات المؤمنین جن میں بیشتر کی عمر بیس سے بھی کم ہے اور جنہوں نے کثیر تعداد میں ہونے کی وجہ سے جسمانی آسودگی (جو کہ ہر انسان کا فطری تقاضا ہے) کبھی حاصل ہی نہیں کی ہوگی وہ کیا کریں گی؟ اپنے پیارے رسول کی خوشی کی خاطر اللہ عزوجل نے انکی رحلت کے بعد انکی ازواج کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی پابندی لگا کر غیرتِ پیغمبری کا خیال رکھا.

کثیر تعداد میں امہات المؤمنین کے با وجود آپ ﷺ کو اپنی کنیز ماریہ سے خصوصی لگاؤ تھا جو مقوقس نے آپ کو بطور تحفتاً بھیجی تھی، اور روایات کے مطابق وہ بہت حسین اور گوری رنگت والی تھیں۔ ایک رات جب آپ ﷺ حضرت حفصہ کے گھر میں تھے (حضرت عمر بن الخطاب کی بیٹی جو دُنیاوی اعتبار سے کچھ زیادہ خوبصورت نہیں تھیں) حضرت حفصہ کسی کام سے اپنے والدین کے گھر گئی (ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے خود انہیں بھیجا تھا) تو آپ ﷺ نے اس دوران حضرت ماریہ کے ساتھ ہمبستری فرمائی۔ اس دوران حفصہ واپس آگئی اور انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور انسان ہونے کی وجہ سے آپ غصہ میں آگئیں، حضرت محمد ﷺ نے اُنکو منالیا اور وعدہ فرمایا کہ وہ پھر کبھی ماریہ کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے، ماریہ کو ہاتھ نہ لگانے کے آپ ﷺ کے اس وعدے کے اسباب کے متعلق اور بھی روایتیں ہیں تاہم فی الوقت اتنا کافی ہے کہ انہوں نے حضرت حفصہ سے وعدہ کیا کہ وہ ماریہ کو پھر کبھی ہاتھ نہیں لگائیں گے۔

لیکن جلد ہی اس کا حل بھی سورہ تحریم کی آیت نمبر 1 کی شکل میں آسمان سے نازل ہوا:

(یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ – اے پیغمبر ﷺ جو چیز اللہ نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ کیا اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔)

اور یوں جبریل علیہ السلام نے ہمیشہ کی طرح بر وقت آکر حضرت ماریہ سے دور رہنے کا آپ ﷺ کا وعدہ زائل فرما دیا اور اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کی مرضی کے پیشِ نظر انکو پھر حضرت ماریہ کے نزدیک جانے کی اجازت مرحمت فرمادی۔

11 Comments

  1. اگر آگ سے کھیلنا سود مند نتائج کی ضمات مہیا کرے تو آگ سے کھیل لینا چاہیے؟ اور کیا ہر کسی کو یہ آگ آسودگی فراہم کرے گی؟اصل میں آج کی دنیا میں انتہا پسندی اور اعتدال کے درمیان محض ایک پتلی سی لکیر کا فرق باقی رہ گیا ہے۔انتہا پسند سمجھتے ہیں کہ وہ مذہب کی فراہم کردہ اعتدال پسندی کے تحت چل رہے ہیں اور مذاہب مخالفین کا خیال ہے کہ وہ ہی اصل اعتدال والے ہیں۔دونوں ایک ہی سمت بڑھ رہے ہیں اور دونوں کا مقصد بھی ایک ہی منزل کا پتہ دیتا ہے۔مذکورہ بالا تحقیقاتی مضمون اس کی قابل قدر مثال ہے۔جنسی آسودگی کا حصول چاہے مذہب کی بنیاد پر حاصل طاقت کے زیر اثر ہو یا مال و دولت یا کسی قسم کے اقتدار حتی کہ ذہنی و علمی لیاقت کے بل بوتے پر ہو ایک جیسے نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ہر دو صورت میں عورت مرد کے استحصال کی زد میں آتی ہے۔جدید دنیا جس کو عقل و دانش کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے،اس میں عورت کی قابل رحم حالت کسی طور بھی مذاہب کے روایتی قدیم ادوار کی حالت سے چنداں بہتر نہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اب ہم کو عورت کے احتجاج کی خبر ہوجاتی ہے جو قدیم زمانوں میں مفقود تھی۔
    اگر آپ کی پیش کردہ توجیہات کو سامنے رکھا جائے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پیغمبرکی ازداجی زندگی کسی طور بھی اس کی ذاتی زندگی کے زمرے میں نہیں آتی؟مجھےیقین ہے کہ آپ ذاتی زندگی کی بنیادی تعریف کو اچھی طرح جانتے ہوں گے۔کیا اس دور میں جب پیغمبر موجود تھے کسی طرف سے ان کی ذاتی زندگی پر سوالات اُٹھائے گئے؟ اور اگر اُٹھائے بھی گئے تھے تو ایسا دنیا میں ہوتا آیا ہے کہ معروف اورنمایاں لوگوں پر طرح طرح کے سوالات اُٹھائے گئے۔یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ اس وقت کے عرب سماج میں یہ رواج عام تھا اور کثیر الذواجی ایک مستعمل قبائلی روایت تھی جس پر اس وقت کا عرب معاشرہ متفق تھا۔جیسا کہ ہم افریقہ اور دوسرے علاقوں میں دیکھتے ہیں کہ قبائلی روایات جیسا کہ کثیر الذاجی بھی اس میں شامل ہے،اس کو وہ کسی مذہب کے زیراثر ترک کرچکے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ایک ایسے نکتے پرزور صرف کرنے کوشش کی ہے جس کی بالکل ضرورت نہیں تھی کیوں کہ آپ کی تحریر کی ظاہری شکل یہ ہے کہ عقیدہ مند مسلمانوں کو اس موضوع پر اذیت دی جائے جس میں آپ خاصے کامیاب ہوئے ہیں اور اسی طرح کے خیال کے حامل افراد بھی یقینی طور پر اس سے آسودگی کشید کریں گے۔لیکن کیا یہ کوئی علمی کامیابی ہے؟یہ ایک اذیتی فتح ہے جو آپ کی تحریر نے آپ کو آسانی کے ساتھ دلوا دی ہے،لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، میں کسی کا وکیل نہیں ہوں جو صدیوں پہلے کے کسی قبیلے کے کسی فرد یا افراد کی ذاتی زندگیوں کی وکالت کو اختیار کروں ،جس کی ضرورت اس وقت نہیں۔مناسب ہوتا اگر آپ اپنے موضوع کو تھوڑی وسعت دے لیتے اور اسلام کےماننے والوں کے خواتین کے متعلق رویوں پر علمی بات چیت کرتے۔ایک بات یاد رکھیے گا، فاصلے سے ہمیشہ وار کیا جاتا ہے، اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جاسکتا اور اس دینا کا کوئی بھی معاملہ محض وار کرنے سے حل نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو ہمارے پڑوسی افغانستان میں اور عربوں کی سرزمین فلسطین میں دور مار میزائل اور ریمورٹ کنٹرول ہوائی جہاز مکمل کامیابی حاصل کرلیتے۔معاملہ یہ ہے کہ ہم کو زمانوں سے تیار کردہ جذباتی نفرت کو عبور کرنے کے لیے علمی کاوشوں کی ضرورت ہے۔
    کاش تیرے دل میں اتر جائے میری بات
    خیر اندیش
    خامہ بگوش مدظلہ

  2. آپکے پُر مغز تبصرے کا بے حد شکریہ خامہ بگوش صاحب اور موضوع کی حساسیت سے آپکا کنسرن بھی بجا ہے۔ مسئلہ یہاں مذہب کی مخالفت میں انتہا تک جانے کا نہیں ہے۔ دنیا میں ان گنت مذاہب بکھرے پڑے ہیں اور کسی مذہب کی پیروی کرنا نہ کرنا فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔
    کسی کے مذہب کا احترام اگرچہ دوسروں پر فرض نہیں لیکن اگر اس مذہب سے دوسروں کی آزادی پر کوئی آنچ نہیں آتی اور عوام الناس کے لئے مسائل پیدا نہیں ہوتے تو ہمیں ایسے مذاہب سے کوئی اغراض نہیں۔ کوئی فرد اپنا حقِ آزادی استعمال کرتے ہوئے کسی مذہب کی پیروی کرنا چاہتا ہے تو وہ بالکل آزاد ہے۔
    ہاں، جب مذہب کی ترویج کی جاتی ہے، اسکو انسانوں کے مسائل کے حل کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ نومولود بچوں پر مذاہب کے ٹھپے لگا کر دنیا کو فرقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو پھر ایسے میں مذہب کو تنقید حتیٰ کہ تلخ تنقید کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ تنقید بحیثیتِ آزاد انسان، بطور ذمینی باشندہ ہمارا حق ہے۔ ہمارے ساتھی انسانوں کو مذاہب کے ٹولوں میں تقسیم کیا جارہا ہے تو ایسے میں ہم بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ ان مذاہب پر سوال اٹھائیں تاکہ پتہ چلے کہ آیا یہ حقیقت بھی ہیں یا نہیں اور وہ اپنے دعوے میں کس قدر سچے ہیں۔ دعویٰ کرنے والے ہی کو ثبوت کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔
    آخر میں بات بطورِ خاص اسلام کی آتی ہے۔ یہ مذہب بنی نوعِ انسان کے لئے ایک بہت ہی بڑا خطرہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ واحد مذہب ہے جو ایک سیاسی ڈھانچہ بھی فراہم کرتا ہے۔ جو ایک مذہبی نظام حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے ۔ ایک ایسا نظامِ حکومت جہاں عقل و فکر کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔ جہاں شخصی آزادی سلب کی جاتی ہے۔ جہاں مذہبی فکر ایک فرد (یا گروہ) کے دماغ سے نکل کر دوسروے نیوٹرل گروہوں کو نشانہ بناتی ہے۔ جہاں تنقید کے لئے منہ بھی کھولنے کا مطلب موت ہوتا ہے۔ جہاں زندگی کا مقصد ہی موت کی تیاری اور اسکا حصول ہے۔ یہ مذہب حق کا کوئی ثبوت فراہم کئے بغیر خود کو نہ صرف حق سمجھتا ہے بلکہ اسی کہنے کو ہی "حجت” ٹھہراتا ہے۔ اس مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک "پیغام پہنچادینے” کا مطلب ہے کہ ایک غیر مسلم کو یہ زبان سے بتادینا کہ "اللہ ایک ہے، محمد ﷺ اللہ کا رسول ہے اور قرآن اللہ کی سچی اور آخری کتاب ہے”۔ یہ انکے نزدیک اتمامِ حجت ہے۔ اور اس پیغام کے پہنچ جانے کے بعد اگر کوئی اسکی حقانیت پر ایمان نہیں لاتا تو وہ منکر ہے چنانچہ یا تو گھٹنے ٹیک کر، اپنی آزادی سے دستبردار ہوکر، مسلمانوں کی بالادستی تسلیم کر کے جزیہ ادا کرے اور بطور دوسرے درجے کے شہری کے زندگی گزارے یا پھر مرجانے کے لئے تیار ہو جائے۔
    اگر وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ محمد ﷺ کسطرح اللہ کا رسول ہے جبکہ مجھے انکے طرزِ زندگی میں عجیب باتیں پتہ چلی ہیں تو وہ شاتمِ رسول کہلاتا ہے۔ اگر وہ یہ پوچھے کہ میں کیسے یقین کرلوں کہ قرآن اللہ ہی کا پیغام ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ رسول اللہ نے ہم تک پہنچائی ہے۔
    آپ نے دیکھا مسئلہ کہاں پر ہے؟ ایک ایسے یقین کے لئے کہ جس کو کسی بھی طور، عقلی منطقی یا تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا، جان تک لے لینا عبادت کہلاتا ہے (جہاد)۔ یہ مذہب اپنے نہ ماننے والوں کو سور، خنزیر، نجس، جانوروں سے بدتر، جاہل، گنوار ٹھہراتا ہے۔ یہ مذہب اپنے سوا ہر ایک کو فتنہ اور برائی گردانتا ہے۔ یہ مذہب دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے محترم خامہ بگوش صاحب۔ اس کے خلاف آواز اٹھنی بہت ضروری ہے۔ عدم برداشت کا مقابلہ برداشت۔ دھونس دھمکی کا مقابلہ منت سماجت، غرور کا مقابلہ انکساری سے نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا بےوقوفی ہے۔ اور بدقسمتی سے اہلِ ذمین چودہ سو سال سے اس کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ دیگر مذاہب کی طرح اسلام کو بھی ایک عام مذہب سمجھ کر اسکو اسی طرح لیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب آہستہ آہستہ یہ بات سامنے آرہی ہے کہ کسطرح یہ مذہب پوری دنیا کو اپنے زیرِ نگیں کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ عیسائیت کا زہر نکل چکا ہے لیکن اسلام کا زہر ہنوز باقی ہے۔ نائن الیون نے کافی ساروں کی آنکھیں کھولی ہیں اور آپ نے دیکھ ہی لیا ہوگا کہ یہ کینسر کہاں تک سرائیت کر چکا ہے۔

    ہاں شاید آپ کہیں کہ تدریجی حکمت زیادہ پراثر ہے۔ لیکن میرے خیال میں بعض اوقات ‘شاک ٹریٹمنٹ’ زیادہ موثر رہتا ہے۔ یہ مذہب، مذہب سے زیادہ ایک دماغی مرض ہے،ایک ایسا موروثی مرض جو بچپن ہی سے برین واشنگ کر کے ذہن میں پیوست کر دیا جاتا ہے، ایک ایسا مرض جس کا علاج شاک ٹریٹمنٹ ہی ہے۔ یہ باتیں جو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں یہ وہ باتیں ہیں جن پر جان بوجھ کر تاریخ کی گرد جما دی گئی ہے۔ ان باتوں سے خواص اپنی عوام کو روشناس نہیں کرارہے۔ شاید اپنے مفاد کی خاطر؟
    اسلام کے اس سیاہ باب میں وہ کچھ موجود ہے جو وقتی طور پر یقینا ایک مومن کے جذبات میں آگ لگا دے گا (کیونکہ اسکو ان باتوں سے کبھی کسی نے آگاہ ہی نہیں کیا) لیکن اگر اسمیں عقل و شعور کی ذرا بھی رمق باتی ہے تو یہ اسکو جستجو کی طرف بھی مائل کرے گا۔ وہ تلاش کرے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ اگر جراتِ تحقیق پہ جھوٹ بولا جا رہا ہے تو پھر سچ کیا ہے۔ یہ جاننے کے لئے جب وہ تاریخ گھنگھالیں گے، حدیث و قرآن کھولیں گے تو ان پروہ جھوٹ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا جو صدیوں سے انکے ذہنوں میں بچپن سے بٹھایا جاتا رہا ہے۔ انکو سینکڑوں سال سے یہی بتایا جارہا ہے کہ حضرت محمدﷺ رحمت اللعالمین تھے، وجہ کائنات تھے اور نہایت مہربان تھے۔ جب انکے ذہن میں یہ سوال اٹھیں گے کہ اگر وہ مہربان تھے تو انکی مہربانی کے کتنے قصے تاریخ میں موجود ہیں؟ اگر وہ مہربان تھے تو انہوں نے ایک عورت کے خاوند کو اذیتیں دے کر قتل کروا کر اس سے اسی رات شادی کیوں کر لی؟ انہوں نے قافلے کیوں لوٹے؟ انہوں نے اپنے نقادوں کو کیوں معاف نہیں فرمایا۔ وہ پوچھیں گے کہ انکی مہربانی کے قصے کہاں ہیں؟ ان قصوں کے مصدقہ مصدر کدھر ہیں؟ اگر مذہب کے بانی اتنے رحمدل تھے تو اسکے پیروکار اتنے سنگدل کیوں ہیں؟
    اور خامہ بگوش صاحب۔ جس دن مسلمانوں میں اپنے مذہب پر تحقیق اور تلاش کا جذبہ بیدار ہوگیا تو یہ جھوٹ کا گھروندا گرتے ہوئے چند عشروں سے زیادہ نہیں لگے گا۔ ابتدا ہو گئی ہے۔ روشنی کے پھیلنے کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اندھیرا جتنا بھی گاڑھا کیوں نہ ہو صرف ایک شمع ہی سب کچھ عیاں کر دیتی ہے۔
    ہم نے ان تحاریر میں اسلام پر سوال اٹھائے ہیں۔ اسکی حقانیت کو چیلنج کیا ہے۔ اسلئے نہیں کہ ہمیں اسلام سے بحیثیتِ مذہب کوئی رنجش ہے۔ بلکہ اسلئے کہ یہ عالمی امن کو خطرہ ہے۔ اسلئے کہ ہمارے بچوں کو ہماری آنے والی نسلوں کے لئے یہ ایک عذاب ہے۔ اسلئے کہ یہ عدم برداشت کا مذہب ہے۔ دھونس اور دھمکی کا مقابلہ سختی ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شخص (اس کیس میں امتِ مسلمہ) احساسِ برتری میں مبتلا ہے تو اسکو آئینہ دکھانا ہی مسئلے کا حل ہے نہ کہ اسکے اس وہم کو مہمیز دینا۔ مذہب تو بہتیرے پڑے ہیں اور ہمیں کسی سے بطورِ خاص کوئی مسئلہ نہیں ماسوائے اسلام کے۔
    اسلام کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہے۔ ایک قرآن اور دوسرا رسول اللہ کی ذات۔ ہم یہاں اس پلیٹ فارم پر دونوں کا وہ رخ سامنے لا رہے ہیں کہ جس پر ہمیشہ مسلم علماء نے پردے ڈالے رکھے۔ جس کسی نے ان موضوعات پر بولنے کی جرات کی اسے ابدی نیند سلا دیا گیا۔ لیکن آج سائنس اور ٹیکنالوجی اس مقام پر آگئی ہے کہ سچ گھر گھر پہنچے گا۔
    اگر ہم غلط ہیں تو ہم دعوت دیتے ہیں کہ آئیے، ہمارے لگائے گئے الزامات غلط ثابت کیجئے اور ہم اپنے چارجز واپس لے لیں گے اور اپنی غلطی سرِ عام قبولیں گے۔ ہم قرآن، حدیث اور تاریخ کے حوالوں سے اپنے الزام کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ آپ قرآن و سنت اور مصدقہ تاریخ سے ان کو رد کیجئے اور ثوابِ دارین حاصل کیجئے۔
    نوٹ: یہاں لفظ "آپ” عمومی ہے محترم خامہ بگوش صاحب کو بالخصوص مخاطب نہیں کیا گیا۔

    1. جناب ابو الحکم!
      میں خود ایک کٹر مسلم تھا لیکن اب ایک انسان ھوں..
      کچھ دن پھلے مینے اسلام کے پردے میں چھپے بھیڑیوں کی نقاب کشائی کرتی ایک ویب سائٹ ‏realisticapproach.org‏ کو پڑھا بہت ذبردست تھی. مگر افسوس کے اب وھ کھل نہیں رھی. شاید بلاک کردی گئی ہے.
      http://www.faithfreedom.org
      http://www.islam-watch.org
      نے بہت اچھا کام سر انجام دیا ھے مگر ے سائٹس انگلش میں ہیں اس لے سمجھنا ذرا مشکل ہے.
      آپ سے عرضی ہے کے اس تحقیق کو مزید مواد سے پر کیجئے اور پیاسوں کی پیاس بجائے..
      جواب کا منتظر.

  3. محترم خامہ بگوش صاحب نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ

    "اگر آپ کی پیش کردہ توجیہات کو سامنے رکھا جائے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پیغمبرکی ازدواجی زندگی کسی طور بھی اس کی ذاتی زندگی کے زمرے میں نہیں آتی؟مجھےیقین ہے کہ آپ ذاتی زندگی کی بنیادی تعریف کو اچھی طرح جانتے ہوں گے۔”

    یا دوسرے الفاظ میں پیغمبر علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ انکا ذاتی معاملہ تھا اور ہمیں اسمیں ناک گھسیڑنے کا حق حاصل نہیں۔
    خامہ بگوش صاحب، اگر یہ بات کسی عام آدمی کے متعلق کی جائے تو آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوتا۔ لیکن پیغمبرِ اسلام کی ذات تو پیروکاروں کے لئے "مکمل نمونہ” ہے۔ کیا آپکو اس بات سے انکار ہے کہ رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ اور اُن کا خُلق مثالی نہیں ہے؟ "سنتِ رسول” سے کیا مراد ہے پھر؟
    لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورة الأحزاب)۔ انکی سنت کو بنیاد بنا کر علمائے اسلام نابالغ معصوم بچیوں کے نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر کا ذاتی معاملہ تھا؟ کیا انکی زندگی چلتا پھرتا قرآن نہیں تھی؟ اگر اُن کی خانگی زندگی انکا ذاتی معاملہ تھا تو پھر سینکڑوں احادیث کے حوالوں سے ہمیں یہ کیوں بتایا جاتا ہے کہ ٹائلٹ کسطرح استعمال کرتا ہے، کھانا کسطرح کھانا ہے، ہنسنا کیسے ہے، رونا کب ہے، مباشرت کسطرح کرنی ہے، بیویوں سے برتاؤ کسطرح کرنا ہے اور انکے حیض کی حالت میں کیا کیا کچھ کر سکتے ہیں اور کیا کیا کچھ ممنوع ہے۔
    انکا اسوۃ حسنہ ہی تو ہے جسکا نمونہ آپ نے ٹوئن ٹاورز کی صورت میں دیکھ لیا ہے۔ آئے دن دھماکے کن ارشادات کی بنا پر ہو رہے ہیں؟ قرآن کیا ہے اور پیغمبر کی حیات کیا ہے؟ آپ علیہ السلام کی حیات قرآن کا چلتا پھرتا اور مکمل نمونہ ہے۔ آپکی حیات کا کوئی گوشہ قرآن سے باہر نہیں ہے، وہ قرآن کہ جسکا سمجھنا اور اس پہ حرف بحرف، لفظ بلفظ عمل کرنا مسلمانوں کا فرض عین ہے۔ مسلمان اپنی صورت اور اپنی سیرت کو رسول اللہ کی زندگی کے عین مطابق ڈھال لینے کو اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں اور پوری دنیا پر اسکا اثر پڑرہا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ انکے خانگی معاملے تھے ہمیں ان پر انگشت نمائی سے اجتناب کرنا چاہئے؟ ہمیں ہر گز امید نہ تھی کہ آپ ایسے ذہین اور صاحبِ علم شخصیت کے ذہن میں بھی ایسا غیر منطقی سوال سر اٹھائے گا۔ بہرحال شاید یہ ماحول کا اثر ہو، ہم آپکا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے مثبت تنقید کر کے ہمیں اپنا نقطہ نظر مزید واضح کرنے کا موقع دیا۔

    کیا اس دور میں جب پیغمبر موجود تھے کسی طرف سے ان کی ذاتی زندگی پر سوالات اُٹھائے گئے؟

    جی بالکل اٹھائے گئے تھے، جب انہوں نے اپنی بہو، زینب بنت حجش سے (بغیر عدت پوری کئے، بغیر نکاح کئے) شادی کی تو اسوقت کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ اپنی بہو سے نکاح حرام ہے۔ جس پر باقائدہ آیت نازل ہوئی (یا کی گئی) جسمیں گود لی گئی اولاد کو صلبی اولاد کے درجے سے ہٹا دیا گیا۔ اور اس آیت کو اس نکاح کا جواز بنایا گیا۔ اب مسلمانوں کے پاس کیا جواز رہ گیا تھا مزید اعتراض کرنے کو؟
    اسکے بعد آپ نے فرمایا کہ

    یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ اس وقت کے عرب سماج میں یہ رواج عام تھا اور کثیر الذواجی ایک مستعمل قبائلی روایت تھی جس پر اس وقت کا عرب معاشرہ متفق تھا۔

    جی، بالکل کثیر الازدواجی روایت تھی اور ثقافت کا حصہ تھی۔۔۔عورتوں بچوں کا غلام بنانا بھی ثقافت کا حصہ تھا۔۔۔ لیکن کیا پیغمبرِ اسلام ان غلط اور نازیبا روایات کو توڑنے اور ختم کرنے نہیں آئے تھے؟ اگر انکے پاس ان کو ختم کرنے کی طاقت نہ تھی تو کم از کم اجتناب تو کرتے تا کہ ہمارے لئے ایک نمونہ قائم ہوتا۔ لیکن معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے گئے ہیں۔ انہوں نے تو ان خبیث روایات کے خاتمے کی بجائے ان پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ عرب معاشرہ تو بہت ساری چیزوں پر متفق تھا۔ کچھ کا خاتمہ اور کچھ کو قائم؟ شراب کا خاتمہ کہیں اسلئے تو نہیں کہ اسکی بو پیغمبرِ اسلام کو ناگوار تھی اور کثیر الازدواجی اور غلام بنانے کی روایت کہیں اس لئے قائم تو نہیں رکھی گئی کہ آپ ﷺ کی دو ہی پسندیدہ چیزوں میں سے ایک چیز "عورت” بھی تھی؟
    حضرت حسن سے روایت ہے، کہ رسول اللہ نے فرمایا، میں دنیا کی عیش میں سوائے عورتوں اور خوشبو کے کچھ نہیں چاہتا۔
    طبقات ابن سعد: صفحہ 487

    آپ فرماتے ہیں کہ

    مناسب ہوتا اگر آپ اپنے موضوع کو تھوڑی وسعت دے لیتے اور اسلام کےماننے والوں کے خواتین کے متعلق رویوں پر علمی بات چیت کرتے

    جی، بالکل مناسب ہوتا۔ لیکن کیا یہ اس سے زیادہ مناسب نہیں کہ ہم مسئلے کی جڑ کی طرف متوجہ ہوں؟ بجائے زہریلے پھلوں کا تجزیہ کرنے کے ہم درخت کی جڑ ہی کا تجزیہ کیوں نہ کریں اور دیکھیں کہ ان زہریلے پھلوں کی وجہ کیا ہے؟ کس چیز نے ان پھلوں کو زہریلا کر رکھا ہے۔ جناب، آجکل جو مسلم معاشروں میں ہورہاہے اور نتیجہ باقی دنیا کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے اسکی جڑ کیا ہے؟ اسکی جڑ قرآن اور سیرتِ پیغمبر ہی ہے۔ تو ہم کیوں نہ مسئلوں کے بجائے مسائل کے منبع کی طرف متوجہ ہوں؟
    آپ کا نظریہ ہے کہ ہمیں اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہئے۔ لیکن کیا امتِ مسلمہ سے اتفاقِ رائے ممکن بھی ہے؟ ممکن تو ہے، لیکن صرف اس صورت میں کہ انکی عینک لگا کر مسائل کو دیکھا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن اور رسول سے بالاتر کچھ نہیں، ان پر تنقید ممکن نہیں۔ اگر عقل انکو رد کرتی ہے تو عقل کو رد کردو۔ عقل، تجربہ ، مشاہدہ، منطق، حواس سب غلط ہو سکتے ہیں جبکہ قرآن نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیسے اتفاق رائے ممکن ہو؟ وہ کہتے ہیں کہ "چونکہ رسول نے یہ کام کیا، یہ ضرور درست ہے، خواہ ہمیں درست نہ بھی لگے” ایسے میں عقل و شعور کہاں جائے گا؟ رسول نے کہا کہ کفار نجس ہیں، بس وہ نجس ہیں۔ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے بس نہیں ہوسکتے۔ کوئی دوسری بات بھی کرے تو شیطان کا ساتھی اور واجب القتل۔ فتنہ۔
    کیسے ہو اتفاق رائے؟ کیسے پیدا ہو کامن گراؤنڈ۔ ایمان و عقل و متضاد راستے ہیں۔ آیا متضاد راستوں پہ چل کر ایک منزل کو پہنچا جا سکتا ہے؟
    شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

  4. ابولحکم بہت شکریہ، خاصا مسکت جواب ہے۔
    مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ آپ کا جواب میرے اعراضات کا مکمل احاطہ کرتا ہے، لیکن اس سوال وجواب میں سوچنے کے لیے مزید در کھلتے ہیں۔
    معاملہ رسول کی آج سے چودہ سو سال پہلے گزاری زندگی سے متعلق ہے اور اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ رسول کی اس زندگی کو من وعن تسلیم کرنے والوں نے احادیث کے ایسے ذخیرے کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے جس کی اپنی صحت پر لاتعداد عقلی سوالات اُٹھائے گئے ہیں اور آج بھی اس کی گنجائش پوری طرح موجود ہے۔دوسری اہم ترین بات رسول کے بعد آنے والوں کی "ضروریات” ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے رسول کی ذات اور اس سے منسوب احادیث کو منشور بنالیا گیا۔ظاہر ہے اس وقت کے حکمرانوں نے جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، لوگوں پر اپنی حکمرانی کو جائز قرار دینے اور اپنی منشاء کو لاگو کرنے کے لیے رسول کی زندگی اور رسول کے روزمرہ کے بارے روایات گھڑنے والے بھرتی کیے تاکہ اپنی منشاء کو رسول کی ہدایت یا عادت کا لبادہ اوڑھا کر کامیابی حاصل کریں۔
    قدیم زمانے کو اگر مسلمان یا دوسرے مذاہب کے مانے والے تقدس یافتہ تہذیب کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس زمانے سے چلے آتے مذاہب اور مذہبی شخصیات کو جدید زمانے پر تھوپنا چاہتے ہیں تو ابولحکم جی ایسا ہی کام آپ دوست بھی کررہے ہیں جو قدیم زمانے کی رسوم رواج اورمذاہب کو آج کی نظر سے دیکھتے ہیں۔آج کے مساوی جمہوری سماج میں قدیم زمانے کی تہذیب اور رہن سہن مکمل طور پر پسماندہ اور بہت حد تک انسانیت دشمن نظر آتا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ طاقت ور حکمرانوں،قبائلی سرداروں اور مذہبی وڈیروں نے انسانیت کے خلاف جرائم میں یکساں ترکہ چھوڑا ہے۔وہ چاہے مذہبی تھے یا نہیں تھے اُنہیں اُس زمانے کی ترتیب سے دیکھنا چاہیے۔
    اب رہا سوال رسول کی زندگی اور خاص کر عائلی زندگی کا، تو ابوالحکم جی آپ رسول کی رسالت کے قائل نہیں،قرآن اور دیگر مذہبی کتب کو سرے سے خود نوشتہ اور جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ رسول کے متعلق خود اِن کے ماننے والوں کی پھیلائی ہوئی کہانیوں پر یقین کیا جائے؟جن کی بنیاد پر آپ اس مذہب، اس کے بانی اور ماننے والوں کو ردکرتے ہیں؟کیا اس بات پر ہنسنا نہیں چاہیے کہ ہم مذہب اسلام کو نہیں مانتے لیکن مذہب اسلام کی ایسی اساطیر کو مانتے ہیں جن کی بنیاد پر مذہب اسلام کے چیتھڑے اُڑائے جاسکتے ہیں؟
    لامذہبیت ایک الگ چیز ہے لیکن مذہب دشمنی ایک بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔مجھے آپ کی استعمال کردہ اصطلاحات اور طرز کلام سے کوئی رنج نہیں پہنچا ،صرف یہ سوال ضرور ذہن میں پیدا ہوا ہے کہ جس چیز کے وجود ہی سے آپ انکاری ہیں ،پھر اس کی مخالفت کرنے کے لیے آپ کو اسی کے دامن سے خوشہ چینی کرنا پڑتی ہے۔ میں انتہائی احترام کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے احتراضات میں ایک بنیادی سقم یہ ہے کہ آپ نےاپنا سچ ثابت کرنے کے لیے،اپنے ہی قرار دہندہ جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔
    اگر آپ کے پاس اسلام کے تمام مکاتب فکر یعنی فرقہ جات اور اُن کی اپنی اپنی مبادیات کا کماحقہ علم ہوتا تو آپ اتنی آسانی کے ساتھ رسول کی ذات کو نشانے پر نہ رکھتے، لیکن کیا ہوسکتا ہے آپ کو جہاں سے اپنا مقدمہ مضبوط بنانے کے لیے سیمنٹ(مواد) حاصل ہوا ہے وہ خود مسلمانوں کا تیار کردہ ہے۔مسلمانوں نے صدیوں میں اپنی جہالت کو پختہ بنایا ہے اور عقل و تحقیق کو اندھی تقلید کے پاوں تلے روندڈالا ہے، اب اِنہیں اپنے اس طرز عمل کی سزا تو ملنی چاہیے۔ ایک اور بات جو شاید آپ جیسے صاحب علم سمجھ سکتے ہیں وہ ہے،ریاستوں، مذاہب اور کسی حد تک قبائل میں مخصوص افراد کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا گیا”استثناء”جس کا آج بھی کسی نہ کسی صورت میں چلن موجود ہے۔میرا بہت کم مطالعہ مجھے یقین دلواتا ہے کہ رسول کو بھی ایک مخصوص حد تک استثناء حاصل تھا۔اِسی استثناء نے آگے چل کر رسول کو مجبور کیا کہ وہ اپنی ازواج کو پردے کا پابند بنایئں۔عرب بدووں کو اپنے گھر میں بلا اجازت داخل ہونے سے روک دیں، اور ازواجی معاملات میں رسول کو دوسری لوگوں پر بھی ترجیح دی جائے۔مسلمان چوں کہ تاریخی طور پر روایت کے مکمل اسیر ہیں اس لیے اِنہیں رسول سے متعلقہ کسی بھی چیز خواہ اس کا کوئی وجود ہو یا نہ ہو،کو اپنے سینے سے لگا کر رکھنے میں رسول کی محبت نظر آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اِن پر اور ان کے عقائد پر تنقید کا کام آسان ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر رسول کی کمسن زوجہ عائشہ کے بارے میں آج تک سائنسی بنیادوں پر تحقیق نہیں ہوسکی لیکن اس وقت کے حالات و کوائف، بعض تاریخی بیانات اور مواد سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ وہ اتنی کمسن نہیں تھیں جتنا راسخ العقیدہ مسلمان اِنہیں ظاہر کرتے ہیں۔اب کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرنا کسے مرغوب نہیں ہوگا؟ اور خاص کر اگر وہ طاقت ور ہو اور حکمران ہو، جیسا کہ بنی امیہ کے حکمرانوں نے کیا اور یہی وہ لوگ تھے جو اس کو سنت کا درجہ دے کر خود مستفید ہونا چاہتے تھے اور جی بھر کر ہوئے بھی۔آخر میں میں صرف ایک استدعا کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چودہ سو سال پرانے سماج کو آج کی مہذب عینک سے دیکھنااور پھر آج کے اصولوں کی کسوٹی پر پرکھنا کسی طور بھی معروضی نتائج نہیں دے سکتا۔
    خیر اندیش
    خامہ بگوش مدظلہ

    1. رسول کی چودہ سو سال پہلے گزاری گئی زندگی کا ذخیرہ مشکوک اور من گھڑت ہے تو پھر اسے رد کر دیا جائے، قصہ ہی ختم۔ مگر کون ہوتا ہے تیار سُنؔہ کو ترک کرنے۔ اور فرض کیا سنت کو مشکوک قرار دے کر یا "اُس وقت کی ضرورت” کہہ کر نظر انداز کر بھی دیں تو پیچھے بچے گا ہی کیا، شاید پرویزیت۔
      اسوقت کے حکمرانوں نے اگر کامیابی کے ساتھ اسلام کی (اصل؟) صورت کو اپنے ذاتی فوائد کے لئے چھپا لیا تو اب، ڈیڑھ ہزار سال بعد آپ اور ہم کیا امید رکھ سکتے ہیں کہ اسلام اپنی اصل شکل میں (اگر کوئی ہے تو) واپس آسکتا ہے۔ آپ اور ہم یا امتِ مسلمہ کیسے فیصلہ کرے گی کہ اصل اسلام کیا ہے یا قرآن واقعی الہامی کتاب ہے۔ یا حتیٰ کہ محمدﷺ نامی کوئی ہستی وجود بھی رکھتی تھی۔ کہیں ایسا نہ ہوا ہو کہ یہ ہستی بھی کسی حکمران نے اپنے ذاتی فوائد و مقاصد اور ملک گیری کے لئے طاقت کے بل بوتے پر تشکیل دے دی تھی اور آج پوری دنیا اسکا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس صورت میں تو ہمیں اس سے بھی بڑھ کر ایکٹیو ہونا چاہئے اور سچائی کو سامنے لانا چاہئے۔

      قدیم زمانے کو اگر مسلمان یا دوسرے مذاہب کے مانے والے تقدس یافتہ تہذیب کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس زمانے سے چلے آتے مذاہب اور مذہبی شخصیات کو جدید زمانے پر تھوپنا چاہتے ہیں تو ابولحکم جی ایسا ہی کام آپ دوست بھی کررہے ہیں جو قدیم زمانے کی رسوم رواج اورمذاہب کو آج کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

      اگر تو وہ تہذہب صرف اسی وقت تک محدود رہتی تو کوئی مسئلہ نہ تھا۔ لیکن مسئلہ ہی تو یہی ہے کہ امتِ مسلمہ کا دعویٰ ہے کہ اسلام رہتی دنیا تک کے لئے ہے، یہ بہترین نظام ہے جسکے اطلاق و نفاذ کی کوشش ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جب قدیم رواج اور پرانی عرب روایات کو ہمارے اُوپر اس جدید دور میں نافذ کرنے کی باتیں (بلکہ عملی کوششیں) کی جاتی ہیں تو ہم کیوں نہ انکے خلاف آواز اٹھائیں اور بتائیں بلکہ ثابت کریں کہ یہ رواج قدیم ہیں، یہ دستور ہزاروں سال پہلے جاہلیت کے دستور ہیں، آج کا انسان ارتقاء کر چکا ہے اور ہمارے اخلاقی پیمانے تک ان سے مختلف ہیں لہٰذا اسکو ہم پہ نافذ مت کرو۔
      اگر سوا ارب افراد باقی کی دنیا پر چودہ سو سال پرانا نظام لانے کی عملی جدوجہد کریں (کہ جسکا ماخذ ہی آپ جیسے بعض باشعور افراد کے نزدیک مشکوک ہے) تو پھر باقی کی دنیا کا ردِ عمل کیا ہونا چاہئے؟
      جب مسلمان کہتے ہیں کہ "وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ”۔ ہمارے نبی اخلاق کے اعلٰی ترین مرتبے پر فائز ہیں اور آپ یہ دعویٰ کرتے ہو کہ یہ تو چودہ سو سال پرانا اخلاق اور ثقافت ہے۔ کیا قرآن کی اس آیت کو بھی چودہ سو سال پرانا قرار دے کر رد کردیں؟ کیا یہ آیت ہمارے لئے ثبوت نہیں ہے کہ رسول کی حیات ہمارے لئے اخلاق کا بہترین نمونہ ہے؟ ہم کیا کہیں گے جواب میں؟
      یا تو ہم آپکا نقطہ نظر نہیں سمجھ پائے یا پھر آپ ایک اہم پوائنٹ نظرانداز کر گئے۔

      لامذہبیت ایک الگ چیز ہے لیکن مذہب دشمنی ایک بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔

      مذہب دشمنی یہاں عمومی نہیں ہے، جیسا کہ پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ بطورِ خاص اسلام ہمارے زیرِ تنقید ہے۔ اسکی وجہ بھی اُوپر کے تبصرے میں مفصل طور پہ بیان ہو چکی ہے کہ یہ کسطرح پوری نوعِ انسانی کے لئے خطرہ ہے اور خطرے کا سدِّباب اسکو نظرانداز کرنے سے نہیں بلکہ اسکے خلاف لڑنے اور شعور پھیلانے سے ہوتا ہے۔

      ،صرف یہ سوال ضرور ذہن میں پیدا ہوا ہے کہ جس چیز کے وجود ہی سے آپ انکاری ہیں ،پھر اس کی مخالفت کرنے کے لیے آپ کو اسی کے دامن سے خوشہ چینی کرنا پڑتی ہے۔ میں انتہائی احترام کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے احتراضات میں ایک بنیادی سقم یہ ہے کہ آپ نےاپنا سچ ثابت کرنے کے لیے،اپنے ہی قرار دہندہ جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔

      ساری تاریخِ اسلام اور ذخیرہ حدیث مسلمانوں ہی کا لکھا اور جمع کیا ہوا ہے۔ اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے آپکو کوئی نیوٹرل ماخذ نہیں ملتا۔ ایسے میں سچ تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی ڈھونڈنےکے مترادف ہے۔ ایک مثال پیش کروں گا۔
      جب آپ ایک ملزم پہ فردِ جرم عائد کرتے ہیں تو وہ اپنے دفاع میں بولتا ہے۔ شواہد کی عدم موجودگی میں وہ خود اپنے دفاع میں بھلے ذمین آسمان کے قلابے بھی ملا دے وہ کچھ اہمیت کا حامل نہ ہوگا، لیکن اگر اسکے خود کے کہے ہوئے چند الفاظ سے بھی اسکا جرم ثابت ہوتا ہو اور اسکا بیان متضاد ٹھہرتا ہو تو اسکے وہ الفاظ خود اسکے خلاف ثبوت بن جائیں گے۔
      ہم نے اپنا کیس ثابت کرنے کے لئے اس وجہ سے تاریخ قرآن اور سنت کو سامنے رکھا ہے کہ یہی وہ مواد ہے جسکو مسلمان مصدقہ مانتے ہیں۔ ہمارا ملزم اسلام ہے، اور یہ مواد اس ملزم کا بیان۔ اس بیان میں سے جو کچھ بھی ملزم کے خلاف ثبوت مہیا کرے گا یا متضاد ہوگا ہم اسکو ہائی لائیٹ کر کے عدالت (عوام الناس) کے سامنے رکھیں گے اور بقیہ کو ملزم کی اپنے منہ کہی گئی لن ترانی کہہ کر نظرانداز کریں گے کیونکہ مجرم کی خود تعریفی کسی طور اسکے حق میں دلیل کا درجہ نہیں پا سکتی، البتہ اسکی زبان کی لغزش ضرور۔
      بہرحال اسلام کو جھوٹ اور انسانی مذہب قرار دینے کے لئے تو خالی قرآن بھی کافی ہے۔

      ریاستوں، مذاہب اور کسی حد تک قبائل میں مخصوص افراد کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا گیا”استثناء”جس کا آج بھی کسی نہ کسی صورت میں چلن موجود ہے۔میرا بہت کم مطالعہ مجھے یقین دلواتا ہے کہ رسول کو بھی ایک مخصوص حد تک استثناء حاصل تھا۔

      ریاست و قبائل کی حد تک تو استثناء والی بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پیغمبر کی ذات تو دین کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ جب استثناء ہی مہیا کرنا تھا اور ذات کا تعلیمات کے ساتھ تعلق نہ تھا تو پھر اس وقت کے لوگوں کا مطالبہ بھی بجا تھا کہ "فرشتے کیوں نہ اللہ کا پیغام لے کر آئے؟” فرشتے دیکھ کر شاید انکو اور شاید ہمیں بھی ایمان لانے میں دشواری پیش نہ آتی۔ انسان کی صورت میں پیغمبر بھیجنے کا مقصد کیا ہوا پھر؟ کیا یہ استثناء ہی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ معاملہ خاصی حد تک "ذاتی فوائد کے حصول” کا تھا؟ ملک گیری مقصد تھا اور قبائل کو تہہ نگین کرنا ہی مدعا تھا؟ مقام حاصل کرنا مراد تھا؟

      مثال کے طور پر رسول کی کمسن زوجہ عائشہ کے بارے میں آج تک سائنسی بنیادوں پر تحقیق نہیں ہوسکی لیکن اس وقت کے حالات و کوائف، بعض تاریخی بیانات اور مواد سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ وہ اتنی کمسن نہیں تھیں جتنا راسخ العقیدہ مسلمان اِنہیں ظاہر کرتے ہیں۔

      کونسے تاریخی مواد اور حالات و کوائف کی بات ہو رہی ہے یہاں، امید کرتا ہوں کہ آپ اس ناچیز اور دیگر قارئین کے علم میں اضافہ فرما کر شکریہ کا موقع عنایت کریں گے۔ کیونکہ تمام متواتر احادیث سے تو یہی بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ کی چھ سال کی عمر میں شادی ہوئی اور رسول اللہ نے اُن سے جب ازدواجی تعلقات استوار کئے تو وہ محض نو سال کی تھیں۔ کونسا تاریخی مواد ایسا ہے جو اسلامی تاریخ میں احادیث سے زیادہ مصدقہ اور قابلِ بھروسہ بھی ہے اور اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ شادی کے وقت بچی نہیں بلکہ جوان خاتون تھیں۔

      اب کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرنا کسے مرغوب نہیں ہوگا؟

      جی کم عمر بچوں کے لئے جنسی رجحانات رکھنے والوں کے لئے اردو اصطلاح کا علم نہیں البتہ انگریزی میں ایسوں کو pedophile کہاجاتا ہے۔اور اس رغبت کو نفسیاتی مرض کہا جاسکتا ہے صحتمندانہ رجحان نہیں۔ بچوں کو دیکھ کر بڑی عمر کے افراد میں شفقت کے جذبات بیدار ہونا چاہئیں نہ کہ نفسانی اشتعال۔ بچوں کو جنسی نظر سے دیکھنا اخلاقی جرم ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بیماری بھی ہے۔ اگر جدید دور میں اسکا جواز پیش کرنے کے لئے مذہب کو استعمال کیا جاتا ہے تو ایسے میں آپ کیا مشورہ دیتے ہیں کہ خاموشی سے انتظار کریں کہ شعور بیدار ہو اور عقیدت میں اندھے مسلمانوں کو کسی معجزے کے ذریعے پتہ چل جائے کہ ایسا کرنا غلط ہے؟ معجزے خودبخود نہیں ہوا کرتے صاحب۔ ہم نے مسلمانوں کو بتانا ہے کہ جو آپ کر رہے ہو جسکو آپ بمطابق مذہب درست سمجھتے ہو اور جسکو جواز بنا کر آپ معصوموں کی زندگیاں تباہ کرتے ہو وہ غلط ہے وہ شیطانی ہے۔ جس نے ایسا کیا وہ شیطان تھا اور جو ایسا کرتے ہین وہ شیطان کے پیروکار ہیں۔

      آخر میں میں صرف ایک استدعا کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چودہ سو سال پرانے سماج کو آج کی مہذب عینک سے دیکھنااور پھر آج کے اصولوں کی کسوٹی پر پرکھنا کسی طور بھی معروضی نتائج نہیں دے سکتا۔

      یہ بات پہلے بھی بتائی جاچکی ہے اور ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے کہ چودہ سو سال پرانے سماج کو آج کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب اسکو موجودہ دور پہ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی اور عملی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مسلمان یہی تو نہیں سمجھ رہے کہ اسلام کی رسومات اور تعلیمات زمانہ قدیم سے تعلق رکھتی ہیں، موجودہ دور میں یہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔ آجکے دور میں یہ ظلم، زیادتی، بربریت، حماقت، وحشی پن تو کہلائی جاسکتی ہیں نظام نہیں۔
      ہماری کوشش کا مقصد یہی باور کرانا ہے کہ اسلام کی تعلیمات قصہ پارینہ ہیں، تاریک دور کی داستانیں ہیں۔ اگر کوئی اصل اسلام تھا بھی تو وہ تاریخ کی گرد میں کھو گیا ہے۔ ہمیں، ہمارے ساتھی انسانوں اور ہماری نسلوں کو تاریک دور میں نہ دھکیلو۔
      اگر اسلام کا کوئی بہتر ورژن ہے یا کسی فرقے کی تعلیمات اصل اسلام کو پیش کرتی ہیں تو اسے سامنے لانا فرض ہے۔ سوا ارب مسلمانوں کی میجارٹی اگر گمراہی میں پڑی ہے اور حقیقت معدودے چند کے پاس ہے تو ہم اپیل کرتے ہیں کہ اسے سامنے لائیے۔ اس روشنی سے دیگر کو آگاہ کیجئے۔ دنیا کو اس عذاب سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔ جراتِ تحقیق کا مقصد تنقیدِ محض نہیں بلکہ حقیقت کشائی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اسلام کی حقیقت کا وہ علم رکھتے ہیں کہ جس سے بقیہ ناواقف ہیں تو آئیے، بھلے اس پلیٹ فارم ہی کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کا درست ورژن سامنے لائیے۔ اگر یہ عقل و شعور کے مطابق ہے اور موجودہ دور میں قابلِ عمل ہے تو ہم اسے سپورٹ کریں گے۔

  5. Mohtram agar ap k baqool ye sub such hy jo ap ne likha hy tu jo log aap(sallallao waalhewasallam)k sathi thy aur tamam halat se waqif they tu unhon ne ehtijaj kiyun na kiya gya,63 saal jo saath rahy un main aap jesa aqalmand aik b na tha.Aur jo ap ne laghwiyyat arshad farmayi hn kya koi sabbot k ap ki niyyat thik hy,kya ye itna he asan ho ga jitna k dosron pe shak karna.

    1. محترم عمران اعوان صاحب کسی منطقی گفتگو کو رد کرنے کا معیار بھی کم از کم اتنا معیاری ضرور ہونا چاہئے کہ پڑھ یا سن کر یہ مصرعہ زبان پر نہ آئے کہ : ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔یہ ماجرا کہ 63 سال تک ساتھ رہنے والوں نے اپنا حق کیوں استعمال نہیں کیا، اس ضمن میں کچھ گوش گذار کیا جائے تو آپ کو دستاویزی ثبوت کی ضرورت پیش آجاتی ہے کیونکہ آپ نے ذہن میں ایک مفروضہ کو حقیقت کے طور پر جگہ دی ہوتی ہے، بہرنوع کیونکہ معاملہ وضاحت طلب اور عقل سلیم رکھنے والوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے اس لیے کچھ معروضات پیش ہیں:
      سب سے پہلے مکہ شہر کے مقامی معاشی اور معاشرتی حالات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جہاں قبیلہ قریش کی سرداری قائم ہے اور محمد اسی قبیلہ کا فرد ہونے کے باوجود بیت اللہ میں جاری سرگرمیوں کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے کی جدوجہد شروع کرتے ہیں اور لگاتار 13 سال تک ان کو نہ صرف مکہ شہر میں بلکہ اطراف مکہ کے دوسرے قبائل میں عمومی اور حسب دلخواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اس کے پس پردہ حقائق کا اگر آپ بالغ نظری سے جائزہ لیں تو بخوبی واضح ہوجائے گا کہ اصل مسئلہ دعوت حق کا نہیں بلکہ بیت اللہ اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا تھا جو واضح طور پر ہمیشہ سے متمدن دنیا میں بغاوت کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے جس بنا پر عوام کبھی بھی بطیب خاطر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ چند لوگ جنہوں نے اپنی بعض ذاتی وجوہات کی بناپر ان کا ساتھ دینا منظور کیا وہ یقینا کسی اخلاقی دباو کی وجہ سے مجبور ہوئے جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد کو سردار قبیلہ کا فرد ہونے کے باوجود اقتدار پر قبضہ کرنے کے تحریک کیوں پیدا ہوئی تو اس کا سیدھا اور آسان جواب وضاحب طلب نہیں کیونکہ آج تک بھی ہر انسان آسان روزی اور حسب خواہش اختیارات کا خواہاں ہوتا ہے جو انسانی فطرت کا ایک جزو لا ینفق ہے سو وہاں بھی یہی جذبات کارفرما تھے۔ تیرہ سال کے اس تمام عرصے میں مکہ کے عام شہریوں کا کردار کسی اعتبار سے بھی قابل ذکر نہیں تھا سوائے سرداران قریش کے ۔ چونکہ ان کے مفادات پر براہ راست ضرب پڑتی تھی اس لیے انہوں نے اس خطرہ کا سد باب کرنے کے لیے مدینہ تک بھی اس وقت تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں جب تک کہ وہ عسکری قوت کے ہاتھوں مجبور نہیں ہوگئے۔ اس دور میں اہل مدینہ کی جانب سے ان کی پذیرائی کی بھی معقول اور واضح وجوہات موجود ہیں کہ مدینہ کے وہ بت پرست جنہیں مدینہ کے بالادست یہودیوں کے غیر انسانی سلوک کا سامنا تھا اور ان کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی نہیں تھی جس کے ہوتے ہوئے وہ ان کا مقابلہ کرسکتے، لہذا اس امید پر کہ اگر وہ محمد کا دین قبول کرلیں تو یہودیوں کا مقابلہ کرسکیں گے انہوں نے محمد کو مدینہ مدعو کرلیا۔ محمد کو چونکہ جان کے خوف سے مکہ سے فرار ہونا ہی تھاس لیے وہ فورا آمادہ سفر ہوگئے اور محتاط حکمت عملی اختیار کرکےمدینہ میں بہت جلد اپنی پوزیشن خاصی مضبوط کرلی۔ اس تمام عرصہ میں بغاوت میں ساتھ دینے والے ان کے ساتھی کسی طرح بھی ان کے اقدامات یا فیصلوں پرکسی قسم کی رائے زنی کرہی نہیں سکتے تھے کہ وہ سب ان تمام کے مفادات کے منافی ہوتا۔
      اعتراضات کے جوابات مزید تفیل کے ساتھ ضرور دیے جائیں گے۔

  6. پلیز مجھے کوئی یس ڈرامے کی حقیقت بتائے کہ اصل میں ہواکیاتھا

    غزوہ بنی قریظہ :۔

    حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہو کر اپنے مکان میں تشریف لائے اور ہتھیار اتار کر غسل فرمایا، ابھی اطمینان کے ساتھ بیٹھے بھی نہ تھے کہ ناگہاں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے ہتھیار اتار دیا لیکن ہم فرشتوں کی جماعت نے ابھی تک ہتھیار نہیں اتارا ہے اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف چلیں کیونکہ ان لوگوں نے معاہدہ توڑ کر علانیہ جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کیا ہے۔(مسلم باب جواز قتال من نقض العهد ج ۲ ص۹۵)

    چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ لوگ ابھی ہتھیار نہ اتاریں اور بنی قریظہ کی طرف روانہ ہو جائیں، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود بھی ہتھیار زیب تن فرمایا، اپنے گھوڑے پر جس کا نام ” لحیف ” تھا سوار ہو کر لشکر کے ساتھ چل پڑے اور بنی قریظہ کے ایک کنویں کے پاس پہنچ کر نزول فرمایا۔ (زرقانی ج۲ ص۱۲۸)

    بنی قریظہ بھی جنگ کے لئے بالکل تیار تھے چنانچہ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کے قلعوں کے پاس پہنچے تو ان ظالم اور عہد شکن یہودیوں نے حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو (معاذ اﷲ) گالیاں دیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ فرما لیا اور تقریباً ایک مہینہ تک یہ محاصرہ جاری رہا یہودیوں نے تنگ آکر یہ درخواست پیش کی کہ ” حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کر دیں وہ ہمیں منظور ہے۔ “

    حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق میں ایک تیر کھا کر شدید طور پر زخمی تھے مگر اسی حالت میں وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر بنی قریظہ گئے اور انہوں نے یہودیوں کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ

    “لڑنے والی فوجوں کو قتل کر دیا جائے، عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور یہودیوں کا مال و اسباب مال غنیمت بنا کر مجاہدوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ “

    حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے یہ فیصلہ سن کر ارشاد فرمایا کہ یقینا بلا شبہ تم نے ان یہودیوں کے بارے میں وہی فیصلہ سنایا ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے۔ (مسلم جلد۲ ص۹۵)

    اس فیصلہ کے مطابق بنی قریظہ کی لڑاکا فوجیں قتل کی گئیں اور عورتوں بچوں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کے مال و سامان کو مجاہدین اسلام نے مال غنیمت بنا لیا اور اس شریر و بدعہد قبیلہ کے شر و فساد سے ہمیشہ کے لئے مسلمان پرامن و محفوظ ہو گئے۔

جواب دیں

11 Comments
scroll to top