Close

قرآنی جائزہ 3

گزشتہ سے پیوستہ: قسط 1 قسط 2

جب محمد قرآن لایا اس وقت عربی زبان کی ترقی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی، اور چونکہ وحی لکھنے والے اپنی دستیابی اور عدم دستیابی کے باعث ایک دوسرے کی جگہ قرآن لکھتے تھے جب محمد انہیں بتاتا تھا کہ جبریل نے آکر اسے کچھ آیتیں دی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو کچھ بعض کاتبوں نے لکھا دوسروں نے نہیں لکھا، اور چونکہ ہر ایک دو آیتیں ہڈیوں اور چمڑوں پر پر لکھی جاتی تھیں جبکہ قرآن تئیس سالوں کے عرصے میں نازل ہوا چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ اسے ایک مصحف میں جمع کرنے والوں کو اسے جمع کرنے اور لکھنے میں دشواری کا سامنا رہا ہوگا کیونکہ کاتبوں میں لکھنے کی صلاحیت ایک دوسرے سے کافی مختلف تھی جبکہ لکھنے کا طریقہ بھی ہر ایک کا اپنا تھا، اس لیے جب زید اور اس کے ساتھی قرآن لکھنے کیلئیے آئے تو ہر ایک نے بغیر نقطوں کے الفاظ اپنے اندازے یا یاد کرنے کے حساب سے پڑھے، اس وجہ سے نئے مصحف کے الفاظ میں دیگر دستیاب مصاحف کے مقابلے میں فرق آگیا جیسے ابی بن کعب کا مصحف یا ابن مسعود کا مصحف وغیرہ.. اس وجہ سے بعد میں آنے والے فقہاء نے مختلف قراتوں کا شوشہ چھوڑا اور دعوی کیا کہ جب عمر محمد کے پاس ایک ایسا شخص لے کر آیا جو قرآن کو اس طرح سے نہیں پڑھتا تھا جیسا کہ اسے یاد تھا، تو محمد نے اس سے کہا کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے، چنانچہ قراتیں بھی سات ہوگئیں، پھر دس ہوئیں، اور آخر کار پچیس قراتوں تک جا پہنچیں (النشر فی القراءات العشر، ابن الجوزی ص 18)، یہ سب بغیر نقطوں کے حروف کی وجہ سے ہوا جس کی وجہ سے ہر شخص تحریر کو اپنے اندازے سے پڑھتا تھا.

جب قرآن کی سورتوں کی ترتیب کی باری آئی تو ہر سورت کی طوالت اور اس کی آیتوں کی تعداد پر اختلاف ہوگیا، اسی طرح ان دعاؤں کا بھی مسئلہ کھڑا ہوگیا جو محمد پڑھا کرتا تھا کہ یہ قرآن میں سے تھیں یہ محض دعائیں تھیں، نتیجتاً "مصحف عثمان” بے ترتیب آیات کا ایسا مکسچر بن گیا جس میں مکی آیات مدنی سورتوں کے بیچ ٹھنسی ہوئی نظر آتی ہیں اور برعکس بھی، پھر سورتوں کی ترتیب نزول کے تسلسل کے حساب سے نہیں تھی بلکہ زید بن ثابت نے سورتوں کو ان کی طوالت کے حساب سے شامل کرنے کا فیصلہ کیا یہاں بھی سورتوں کی طوالت پر صحابہ میں اختلاف ہوگیا، مثال کے طور پر سورہ احزاب جو "مصحف عثمان” میں صرف تہتر آیات پر مشتمل ہے، عائشہ، ابی بن کعب اور ابن مسعود کا اصرار تھا کہ زید کے "مصحف عثمان” جمع کرنے سے پہلے یہ سورہ بقرہ کے جتنی طویل تھی.

مزید برآں قرآن کی سورتوں کی تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، مصحف عثمان میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں جبکہ ابی بن کعب کے مصحف میں دو اضافی سورتیں ہیں جو سورہ الحفد اور سورہ الخلع ہیں، جبکہ ابن مسعود کے مصحف میں صرف ایک سو بارہ سورتیں ہیں، کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ معوذتین قرآنی سورتیں نہیں تھیں بلکہ محض دعائیں تھیں جو محمد دہراتا رہتا تھا.

اور نہ جانے کیوں اللہ محمد سے یہ کہتا ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے جبکہ قرآن اسے کہتا ہے (فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا – اے پیغمبر ﷺ ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اس سے پرہیزگاروں کو خوشخبری پہنچا دو اور جھگڑالوؤں کو ڈر سنا دو۔ – سورہ مریم آیت 97) یسر یقینا عسر کا عکس ہے جب کہتا ہے کہ "یسرناہ بلسانک” تو اس کا مطلب ہے کہ معاملات کو آسان کرنے کیلئیے قرآن محمد کی زبان میں نازل ہوا جو کہ اہل مکہ کی زبان تھی، ایک طرف آسانی کا دعوی تو دوسری طرف اسے کہتا ہے کہ ہم نے اسے سات حروف پر نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی قرات پر اختلاف کریں؟ عمر بن الخطاب کی ایک روایت میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس نے ایک آدمی کو سورہ یوسف پڑھتے سنا جس نے ایک آیت کو یوں پڑھا (لیسجننہ عتی حین) جبکہ یہ آیت عثمان کے مصحف میں (لیسجننہ حتی حین) ہے، تو عمر نے اس پوچھا کہ تمہیں یہ کس نے پڑھائی ہے؟ تو اس نے کہا کہ ابن مسعود نے، چنانچہ عمر نے ابن مسعود کو خط لکھ بھیجا جس کا متن کچھ یوں ہے (تم پر سلام ہو، اس کے بعد کہ اللہ نے قرآن صاف عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اسے اس قریس کے لہجے میں نازل کیا ہے، اگر تمہیں میرا یہ خط ملے تو لوگوں کو قریش کی زبان میں پڑھانا ناکہ ہذیل کی زبان میں – بحوالہ المنثور فی التفسیر بالماثور، جلال الدین السیوطی ج 4، سورہ یوسف آیت 35)، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا مقولہ فقہائے اسلام نے قرآن کی قرات میں اختلاف کی پریشان کن صورتحال سے بچنے کیلئیے ایجاد کیا کیونکہ محمد وقت کے ساتھ ساتھ آیات بھول جاتا تھا اور اس وجہ سے نماز میں اپنی یاداشت کے حساب سے مختلف طریقے سے پڑھ جاتا تھا اور نئے مسلمان اس سے سنی ہوئی آیات کو یاد کر لیتے تھے یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں قرآن کی قرات میں اختلاف پایا جاتا ہے.

عثمانی مصحف سے ایسی بہت ساری آیات ساقط ہوئیں جو مسلمانوں کو یاد تھیں، ڈاکٹر این مری شمل Annemarie Schimmel کے مطابق یہ بات صنعاء میں دریافت ہونے والے مخطوطوں سے واضح طور پر عیاں ہے جن کی تاریخ پہلی صدی ہجری کی ہے:

makhtoota-albrojاس یمنی مخطوطے میں ساتویں سطر تقریباً مٹ چکی ہے، جبکہ آٹھویں سطر سے سورہ البروج شروع ہو رہی ہے، مصحف عثمان میں یہ سورت کچھ یوں شروع ہوتی ہے:

والسماء ذات البروج (1) والیوم الموعود (2) وشاہد ومشہود (3) قتل اصحاب الاخدود (4) النار ذات الوقود (5) اذ ہم علیہا قعود (6)

جبکہ بغیر نقطوں کے اس یمنی مخطوطے میں یہ سورت اس طرح سے درج ہے:

والسماء ذات البروج (1) والیوم الموعود (2) وشاہد ومشہود (3) قتل اصحاب الاخدود (4) الا فی کتاب الوفود (الوقود) (5) اذ ہم علیہا قعود (6)

یعنی آیت نمبر پانچ بالکل ہی تبدیل ہے اور عثمانی نسخہ میں قطعی وجود نہیں رکھتی!؟

چونکہ لوگ بغیر نقطوں کے الفاظ کو اندازوں سے پڑھا کرتے تھے لہذا مصحف عثمان میں ملتا ہے (والشمس تجری لمستقر لہا – سورہ یس آیت 8 ) جبکہ ابن عباس یوں پڑھتا ہے (والشمس تجری لا مستقر لہا)، سیوطی الاتقان فی علوم القرآن میں الخلیل بن احمد کے حوالے سے کہتا ہے کہ آیت (فجاسوا فی الارض) کو کچھ لوگوں نے (فحاسوا فی الارض) پڑھا تھا. سورہ اسراء کی آیت (وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا) کو کچھ لوگوں نے (وصی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا) پڑھا تھا، ایسے ہی سورہ بقرہ کی آیت (وانظر الی العظام کیف ننشزہا) کو کچھ لوگوں نے یوں پڑھا تھا (وانظر الی العظام کیف ننشرہا) الغرض کہ اندازے کی قرات کی اتنی مثالیں ہیں کہ انہیں اس مضمون میں سمویا نہیں جاسکتا تاہم اس سب سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرآن کو جمع کرنے کی تاریخ کسی طور قابلِ اعتبار نہیں ہے.

اور اب قرآن کے مواد اور اس کے فائدے کی طرف آتے ہوئے خود سے سوال کرتے ہیں کیا اسلام ایسی کوئی نئی چیز لایا ہے جس کے لیے موسی اور عیسی کے بعد ایک اور نبی بھیجنے کی ضرورت پڑے؟ جواب یہ ہے کہ اسلام میں یہودیت اور عیسائیت سے صرف مندرجہ ذیل باتوں کا فرق ہے:

1- محمد اور اس کے گینگ کو قتل عام اور لوگوں کو غلام بنانے کی اجازت جس پر محمد کو فخر بھی تھا، ایک حدیث میں وہ اپنے دوستوں سے کہتا ہے کہ مجھے دوسرے انبیاء پر چھ چیزوں سے فضیلت ہے – جس میں "مجھ پر مال غنیت حلال کردیا گیا” شامل ہے (الجامع لاحکام القرآن، القرطبی، ج 7، سورہ الانفال آیت 1)

2- لوگوں سے تب تک جنگ کرنا جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں یا جزیہ ادا نہ کریں

3- عورت کی بے قدری کرتے ہوئے اسے گھر کا قیدی اور شوہر کا غلام بنانا

4- خدا کو ایک نکاح خواں بنا دینا جو محمد کی من پسند عورتوں سے اس کی شادیاں کراتا پھرتا ہے اور محمد کی اپنی بیویوں کے ساتھ جھگڑے نمٹانے کیلئیے آیات نازل کرتا پھرتا ہے جیسے عائشہ، زینب، حفصہ اور زمعہ

اس کے سوا اسلام کی ہر چیز جیسے روزہ، نماز، زکات، حج، سود کی ممانعت، معبود کی وحدانیت، والدین اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک، تجارت اور تولنے میں ایمان داری، طلاق، شادی، میراث، چور اور زانی کی سزا، یہ سب دونوں سابقہ ابراہیمی مذاہب میں سے کسی ایک یا دونوں میں موجود ہیں بلکہ بعض قوانین پر تو باقاعدہ "جاہلیت” میں عمل بھی کیا جارہا تھا، پھر اس نئے دین سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچا؟ ایسی کتاب بھیجنے میں کیا حکمت ہوسکتی ہے جو خود خدا کو ہی انتہائی خود غرض قسم کی ہستی کے طور پر پیش کرتی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اس نے انسانوں کو محض اپنی عبادت کیلئیے پیدا کیا ہے اور زمین وآسمان پر ہر چیز اسی کی حمد وثناء کر رہی ہے، پھر اپنے آپ کو مکار اور سخت ترین سزا دینے والا قرار دیتے ہوئے کہتا کہ وہ جہنم کو جن وانس سے بھردے گا کیونکہ انہوں نے نئے دین کو قبول نہیں کیا جس میں کچھ نیا نہیں تھا؟ انسانیت کو ایسی کتاب سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس نے غلامی کو قانونی حیثیت دے دی اور ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام بنا دیا اور ان دونوں کو ایک اور خود غرض خدا کا غلام بنایا جسے صرف منت سماجت کرتے اور نمازیں پڑھ کر گڑگڑاتے اور اس سے ایسے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے لوگوں کی آوازیں ہی اچھی لگتی ہیں جو گناہ انہوں نے کیے ہی نہیں جبکہ وہ خود اپنے فرشتوں کے ساتھ ایک بشر پر درود وسلام پڑھنے میں از حد مصروف ہے؟!

قرآن کی زبان – کچھ خوبصورت کلام کے باوجود – ایک کمزور کلام ہے اور بورنگ تکرار سے بھرا ہوا ہے جس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ تکرار قرآن کے کاتب کو مغالطوں میں ڈال دیتی ہے جن سے آسانی سے بچا جاسکتا تھا جیسے عاد اور ثمود کا قصہ جس میں پہلے کہا گیا کہ انہیں ایک چیخ (الصیحہ) سے ہلاک کیا گیا، پھر کہا کہ ایک تھرتھراہٹ (الرجفہ) سے ہلاک کیا گیا پھر کہا کہ طوفان (ریح عاتیہ) سے ہلاک گیا گیا، اگر تکرار نہ ہوتی تو یہ اضطراب پیدا نہ ہوتا، غیر مفید تکرار کی ایک اور مثال دیکھیں:

پہلے نوح سے کہا کہ وہ اپنی قوم سے کہے:
(قُلۡ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ اِنِّیۡ مَلَکٌ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ – کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے اللہ کی طرف سے آتا ہے۔ کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟) (الانعام 50)

پھر محمد سے کہا کہ وہ اپنی قوم سے کہے:
(وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ اِنِّیۡ مَلَکٌ – اور میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں) (ہود 31)

اور اگر فضول تکرار کا کوئی شاہکار درکار ہو تو سورہ رحمن پڑھ لیجئیے جس میں "فبای آلاء ربکما تکذبان” کی گردان ہے، ایک اور بے معنی تکرار کا شاہکار دیکھیں:

(کَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡکُمۡ قُوَّۃً وَّ اَکۡثَرَ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ؕ فَاسۡتَمۡتَعُوۡا بِخَلَاقِہِمۡ فَاسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِخَلَاقِکُمۡ کَمَا اسۡتَمۡتَعَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ بِخَلَاقِہِمۡ – تم منافق لوگ ان لوگوں کی طرح ہو جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں۔ وہ تم سے زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ تھے تو وہ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا) (التوبہ 69)

اس آیت نے تو ساری بلاغت کو دیوار پر دے مارا ہے، چنانچہ یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ یہ کسی ایسے آسمانی خدا کی طرف سے آئی ہے جس نے عربی زبان تخلیق کی ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں اور اسے آدم اور جنت کی زبان بنایا ہے.

قرآن کی کمزور زبان دانی کی ایک چھوٹی سی مثال کے طور پر پیش ہے:

(وَ اِذۡ قُلۡنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ نُخَوِّفُہُمۡ ۙ فَمَا یَزِیۡدُہُمۡ اِلَّا طُغۡیَانًا کَبِیۡرًا – اور جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور جو منظر ہم نے تمہیں دکھایا اسکو لوگوں کے لئے آزمائش کیا اور اسی طرح تھوہر کے درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئ۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو اس سے انکی سرکشی میں اضافہ ہوتا ہے۔) (الاسراء 60)

علم نفس میں ایسے شخص کیلئیے جو ایک موضوع پر فوکس نہ کر سکتا ہو اور رکے بغیر ایک خیال سے دوسرے کی طرف چھلانگ لگا دیتا ہو، ایسے شخص کیلئیے کہا جاتا ہے کہ وہ flight of ideas کا شکار ہے، قاری کو اس آیت سے پلے ہی کیا پڑتا ہے جو ایک خیال سے دوسرے خیال کی طرف بغیر رکے کود جاتی ہے؟ پھر قرآن نے اس آیت سے پہلے یا بعد میں کسی ملعون درخت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا!

کمزور زبان دانی اور انسانی غلطی کی ایک اور مثال دیکھیئے:

(لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَعۡمَامِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ عَمّٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخۡوَالِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ خٰلٰتِکُمۡ اَوۡ مَا مَلَکۡتُمۡ مَّفَاتِحَہٗۤ اَوۡ صَدِیۡقِکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا جَمِیۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًا – نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ خود تم پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جسکی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں۔ یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اور اس کا بھی تم پر کچھ گناہ نہیں کہ سب مل کر کھانا کھاؤ یا جدا جدا) (النور 61).

آیت اندھوں لنگڑوں اور بیماروں کو جنگوں سے مستثنی قرار دینے سے شروع ہوئی اور پھر اچانک گنوائے گئے گھروں سے کھانے پینے کی طرف نکل گئی وہ بھی ایک بے معنی تکرار کے ساتھ حالانکہ بڑی آسانی سے کہا جاسکتا تھا کہ "من بیوت عوائلکم واصدقائکم” مگر وہ رشتہ دار گنوانے بیٹھ گیا، مگر کیونکہ وہ دوسروں کی طرح بشر ہے جو غلطیاں کر سکتے ہیں "بیوت اولادکم” اور "بیوت اجدادکم” کا ذکر کرنا بھول گیا، اگر آیت میں مذکور لوگوں کی پابندی کی جائے تو مسلمانوں پر اپنی شادی شدہ اولاد اور دادا اور دادی کے گھر میں کھانا حرام ہوگا کیونکہ قرآن نے ان کا ذکر نہیں کیا.

اور سب سے بڑی بات جو یہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن کسی اللہ کا کلام نہیں ہے اس میں ناسخ اور منسوخ کی موجودگی ہے، وہ خدا جو اپنے رسول کو ایسی کتاب دے کر بھیجتا ہے جس کا متن تمام خلقت کو تخلیق کرنے سے پہلے ہی لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا تھا اس نے یقینا اسے سوچ سمجھ کر لکھا ہوگا اور یہ یقین کر لیا ہوگا کہ اس میں کوئی تضادات نہیں ہیں، مگر اس میں کوئی دو سو سے زائد آیات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، چنانچہ قرآن کے مصنف نے فرمایا کہ یہ منسوخ ہیں، اگر منسوخ ہیں تو خدا نے انہیں اپنے رسول پر اتارا ہی کیوں جبکہ وہ جانتا بھی ہے کہ یہ منسوخ ہیں؟ اور پھر قیامت تک گردان کے لیے انہیں قرآن میں کیوں چھوڑ دیا گیا جبکہ ان کا کوئی فائدہ ہی نہیں؟

حقیقت میں قرآن نا ہی ذکرِ محفوظ ہے اور نا ہی کسی اللہ کا کلام ہے جس کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں ہے سوائے انسانی تصور کے، بلکہ یہ ایک بشری تصنیف ہے جو تدوین وتحریف کے کئی مراحل سے گزر کر ساتوی صدی عیسوی کے آخر یا آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز میں کہیں جا کر مکمل ہوئی.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top