سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میری نظر میں بچوں کا جواز شادی کے بندھن سے مشروط نہیں ہے، ہر انسان کا جواز اس کے اپنے وجود اور ذات میں پوشیدہ ہے لہذا میری انسانیت کی شریعت میں کوئی حرامی یا ابن الزنا نہیں ہے، یہ تحقیری الفاظ جو انسان کی تذلیل اور اس کے انسان ہونے کے حق کی توہین کرتے ہیں خدا کی شریعت میں ہیں جس کا دعوی ہے کہ وہ انسان سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے!!
” تم حق کو جانتے ہو اور حق تمہیں آزاد کرتا ہے ” یہ یوحنا کی انجیل کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کا فرمان ہے، تو کیا مجھے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مقدس خاندان کے بارے میں جاننے کا حق ہے؟ کیا یہ خاندان خدا مریم اور مسیح (علیہ السلام) پر مشتمل ہے یا خدا روح القدس اور مسیح (علیہ السلام) پر مشتمل ہے… یا پھر صرف خدا یوسف اور مسیح (علیہ السلام)؟ کیوں نہ ان کی معجزانہ ولادت پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے اگرچہ ان کا وجود ہی ایک تاریخی شخصیت کے طور پر متنازعہ ہے تاہم یہاں مجھے اس سے کوئی دلچسبی نہیں ہے کہ وہ تھے یا محض بولس کے ذہن کی اختراع تھے، سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی خدا کے بیٹے تھے؟ یا وہ خدا بیٹا اور روح القدس کے مثلث کا حصہ ہیں؟ یا پھر وہ کنواری ولادت کا شاخسانہ ہیں جس میں خدا اور فرشتوں نے اہم کردار ادا کیا؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ انتہائی سادہ طریقے سے یوسف بڑھئی کے بیٹے ہوں یا پھر کسی ایسے شخص کے جس نے بدنامی اور معاشرے کے ڈر سے تاریخ کے اندھیروں میں چھپنا منظور کیا؟
بی بی مریم ایک نوجوان دوشیزہ تھیں جن کی منگنی انجیلوں کے مطابق یوسف بڑھئی نامی شخص سے ہوئی تھی، یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا مگر ایک دن خدا کا ایک فرشتہ ان کے پاس آکر انہیں بتاتا ہے کہ وہ حاملہ ہیں مگر یقیناً یوسف بڑھئی سے نہیں بلکہ براہ راست خدا سے!! اور وہ انتہائی سادگی سے یہ بات قبول کر لیتی ہیں، رہے یوسف تو جیسے جیسے حمل کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں انجیلوں کے مطابق انہیں شک ہونا شروع ہوجاتا ہے، یوسف بڑھئی کو مطمئن کرنے کے لیے وہی فرشتہ انہیں خواب میں آکر حقیقتِ حال سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو بچہ بی بی مریم کے پیٹ میں پل رہا ہے وہ ان کا نہیں بلکہ خدا کا ہے؟؟ کچھ عرصہ بعد بی بی مریم کے ہاں ایک لڑکے کی ولادتِ با سعادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یسوع رکھتی ہیں اور یوسف جو اس بچے کے والد نہیں ہیں ان پر اس بچے کی ساری ذمہ داری آن پڑتی ہے.
کیا یسوع (علیہ السلام) کی اس افسانوی ولادت میں کوئی خاص پیغام ہے؟ کیا ان کا کسی کنواری کے بطن سے پیدا ہونے میں کوئی فائدہ ہے؟ اگر وہ باقی ابراہیمی انبیاء کی طرح سادہ اور طبعی طریقے سے پیدا ہوتے تو اس میں کیا نقصان ہوتا؟ یقیناً کچھ نہیں، یہاں تکلف اور کہانی گھڑنے کی کوشش قطعی واضح ہے، انجیلوں کے مصنفوں کی یہ فنکاری سمجھنے کے لیے کسی فلاسفر کی ضرورت نہیں، جہاں یہ مصنفین ایک فرشتہ گھڑتے ہیں جسے کسی نے نہیں دیکھا جو بی بی مریم کو ایک اچانک اور ناگہانی حمل کی بشارت دیتا ہے وہ بھی ایک ایسے باپ سے جس کی اس نے کبھی خواب میں بھی توقع نہیں کی ہوگی، پھر ایک خواب گھڑا جاتا ہے جو بے چارے یوسف کو دکھایا جاتا ہے اور اسے ایک ایسے بچے کا باپ بنا دیا جاتا ہے جو اس کا ہے ہی نہیں، پھر یہودیوں کی ایک کثیر آبادی گھڑی جاتی ہے جو تاریخی طور پر وجود ہی نہیں رکھتی، پھر بی بی مریم اور یوسف کو بیت لحم پہنچا دیا جاتا ہے جہاں مسیح (علیہ السلام) کی آمد کی سابقہ پیشگوئیوں کے عین مطابق نہ صرف ایک ولادت گھڑی جاتی ہے بلکہ ایسے لوگ بھی پیدا کر لیے جاتے ہیں جو اس بچے کو سجدہ کرتے ہیں.. غرض کہ یہ ساری میتھالوجی اس وقت رائج مشرقی مذاہب سے چوری شدہ ہے.
یہ تو تھا وہ افسانوی سا انجیلی قصہ، اس قصے کا دوسرا رخ انتہائی سادہ اور سہل ہے جس کا تعلق ایک ایسی نوجوان دوشیزہ سے ہے جو کسی شخص سے منگنی شدہ یا شادی شدہ ہے، یوں اسے حمل ٹھہر جاتا ہے اور وہ ایک لڑکا پیدا کرتی ہے بالکل جس طرح روزانہ ساری دنیا میں یہ عمل ہوتا ہے، تو پھر کہانی کو اتنا افسانوی ٹچ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اس معجزانہ ولادت پر دنیا کے کروڑوں لوگ ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں مگر کیا اس یقین کے پیچھے کسی مقصد کو تلاش کیا جاسکتا ہے؟ یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ ایک کنواری دوشیزہ کے جسم میں انڈہ خود ہی کیسے فیزن کے عمل سے گزرنا شروع ہوگیا؟ اس نے ایک خلیے کے کروموسومز کو 23 سے 46 میں کیسے دگنا کر لیا جو مولود کے زندہ ہونے کے لیے کم سے کم حد ہے؟ اگر معجزانہ طور پر یہ رکاوٹیں ہم پار کر بھی لیں تو بھی سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مولود لڑکا کیسے ہوگیا جبکہ جو کروموسوم لڑکے کی جنس کا تعین کرتا ہے وہ صرف باپ کے پاس ہوتا ہے ماں کے پاس نہیں؟
کنواری کا بچہ پیدا کرنا صرف مسیحی کہانی نہیں ہے، یہ افسانہ یسوع (علیہ السلام) کی پیدائش سے بہت پہلے مشرقِ وسطائی وغیر مشرقِ وسطائی مذاہب میں موجود تھا:
1- عراقی خدا تموز کو ایک کنواری نے جنم دیا تھا.
2- مصری خدا اسیرس 25 دسمبر کو ایک کنواری کے ہاں پیدا ہوا تھا.
3- یونان کا ہرکولیس دسمبر کے مہینے میں ایک کنواری سے پیدا ہوا تھا.
4- بھارتی خدا کرشنا بھی دیوکی نامی کنواری سے پیدا ہوا تھا اور صلیب پر مرا تھا.
5- بدھا بھی ایک مایا نامی کنواری سے 25 دسمبر کو پیدا ہوا تھا اور صلیب پر مرا تھا.
اور یوں ہی افسانے تہذیب در تہذیب اور نسل در نسل چلتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی صورت عقائد کی شکل میں موجود رہتے ہیں، مگر زمانہ کوئی بھی ہو، یہ افسانے ہمیشہ حق سمجھے جاتے ہیں اور ان پر بحث کرنے والا بد بخت ہمیشہ کافر.