مسلمانوں کا دعوی ہے کہ آزادی اور ڈیموکریسی چونکہ مغرب سے درآمد کی گئی ہے اس لیے یہ ہمارے معاشروں کے لیے مناسب نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان کے لیے آزادی اس کی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے جو ان آزادیوں سے زیادہ بہتر اور افضل ہے جو مغرب اپنے شہریوں کو دیتا ہے۔۔ تو کیا یہ بات درست ہے؟
جب ہم مذہبی اداروں اور اسلامی جماعتوں کی ترکیب پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ چاہے یہ ووٹنگ کا نظام ہی کیوں نہ استعمال کریں ان کا ڈھانچہ مخروطی ہی رہتا ہے جس میں طاقتِ اقتدار صرف چند محدود شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہے جنہیں علماء، مرشدین اور آیات اللہ کہا جاتا ہے، اگر یہ ادارے اسی طبقے کے گرد گھومتے ہیں تو ایسے میں یہ لوگ ڈیموکریسی کی کیا سمجھ رکھتے ہیں؟
مسلمانوں کی تمام تر ادبیات میں انسانی آزادی کی حقیقت کو بگاڑنے کے لیے جھوٹ، دھوکہ بازی اور الفاظ کے ہیر پھیر سے کام لیا گیا ہے، اسلام آن لائن اور اس جیسی دیگر ویب سائٹس کا ایک چکر لگا کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر اس تحریر کے عنوان میں لفظ اسلام کو ہٹا کر اس کی جگہ فاشٹ ازم لکھ دیا جاتا تو معنی میں کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔
اسلام آزادی کا مصدر کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اس کی خون آلود میلی شریعت میں آج بھی رق اور غلامی کے گندے قوانین موجود ہیں؟ یہ اسلام انسانوں کو آزادی کیسے دے سکتا ہے جو مرد اور عورت اور مالک اور غلام کے حقوق میں تفریق کرتا ہے؟ اسلام سے آزادی کیسے پھوٹ سکتی ہے جبکہ وہ ایک ہی وطن کے شہریوں کے حقوق اور واجبات میں محض اس لیے تفریق کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے مذہب اور عقیدے میں مسلمانوں سے مختلف ہیں؟۔۔۔۔ بھکاری نے کیا بھیک دینی ہے!؟
جرمن مستشرق فرینز روزینتھل (Franz Rosenthal) اپنی کتاب مسلم تصورِ آزادی (The Muslim Concept of Freedom Prior to the Nineteenth Century) میں کہتے ہیں کہ:
❞اسلام میں آزادی کا مطلب فرد کو قانون اور خدائی نظام کے حوالے کرنا ہے❝
وہ مزید کہتے ہیں کہ اسلام اور عیسائیت میں آزادی کے حوالے سے ایک قدرِ مشترک ہے، دونوں ہی غیر شرعی وہمی آزادی کی تلاش کے خلاف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی لغت میں لفظ آزادی کا وجود ہی نہیں ہے، کیونکہ آزادی یعنی ❞حریۃ❝ لفظ ❞حر❝ کا اشتقاق ہے جو ❞عبد❝ یعنی غلام کا الٹ ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان کا غلام نہ ہو، آزادی کا آج کا مفہوم پہلی بار عربوں کے ہاں ابن حیان، فارابی اور رازی کی تحریروں میں ملتا ہے جو یونانی فلسفہ سے متاثر تھا، تاہم یہ بھی خالی خولی باتوں سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکا اور اس کا عملی اطلاق کبھی دیکھنے میں نہیں آیا جیسا کہ بعد میں یورپ میں دیکھنے میں آیا۔
آزادی کا جو گیت آج کے مسلمان گاتے پھرتے ہیں اس کے مطابق انسانی آزادی قطعی مسترد ہے کیونکہ یہ مغرب سے آئی ہے، اس کا اکلوتا اور حقیقی متبادل صرف اللہ کی عبودیت (غلامی) میں مضمر ہے۔۔ لیکن اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس اصول کو اپنا کر ہم آزاد انسانی معاشرے تشکیل دے سکتے ہیں؟
قطعاً نہیں۔۔ وہ ان الفاظوں سے لوگوں کے ذہنوں سے کھیل رہے ہیں، ان کا سارا مطلب یہ ہے کہ ❞اصل آزادی❝ یہ ہے کہ آپ آسمان کے قوانین کے تابع ہوجائیں جسے وہ ❞شریعت❝ کہتے ہیں۔۔ اب کس نے کہا ہے کہ یہ قوانین آسمانی ہیں؟ یقیناً وہ خود۔۔ اسلام کے مولوی، مطوع، شیخ، امام، آیات اللہ اور کاہن۔۔ اب آپ پر یہ قوانین لاگو کون کرے گا؟ یہ بھی وہ خود کریں گے جنہوں نے ان قوانین کو گھڑا ہے۔۔ اب اگر آپ نے ان کے ان گھڑے ہوئے قوانین کو توڑا تو آپ کو سزا کون دے گا؟ سزا بھی یہی لوگ دیں گے کیونکہ ساری طاقت اور حکمرانی انہی کے پاس ہوگی، صرف انہیں ہی یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ سیاستدانوں کو ڈکٹیٹ کریں کہ کون سے قوانین بنائے جاسکتے ہیں اور کون سے نہیں۔۔ اچھی گیم ہے۔۔ ہے نا!؟ اپنی سادگی کے ساتھ جسے صرف بے وقوف ہی نگل سکتے ہیں مسلم رائے عامہ بالکل یہی راگ الاپتی رہتی ہے۔
یہ نا تو آزادی ہے اور نا ہی ڈیموکریسی۔۔ آزادی تب ہوتی ہے جب اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے نا کہ مولویوں اور آیات اللہ کے۔۔ اسلام کا جدید طرزِ حکومت اریسٹوکریسی سے ملتا جلتا ہے جو اب نا پید ہوچکی ہے اور جس میں اقتدار مذہبی ملاؤوں اور ان کے نمائندہ سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، یورپ کی اشرافیہ کا یہ دعوی تھا کہ وہ آسمانی تعلیمات کے مطابق حکومت کرتے ہیں اور غلاموں۔۔ مطلب عوام پر ❞خدائی قانون❝ لاگو کرتے ہیں۔۔ اگر آپ الفاظ بدل لیں۔۔ مقدس کتاب کی جگہ اسلامی شریعت رکھ دیں تو آپ ہر بار اسی جھوٹ، اسی فریب اور اسی نتیجے تک پہنچیں گے۔۔
یہ ایک فول پروف پلان ہے جو اقتدار پر قبضے اور عوام کو ❞مذہبی اریسٹوکریسی❝ کے ذریعے رام کرنے کے سے شروع ہوتا ہے اور لاہوتی نظامِ حکومت پر ختم ہوتا ہے جس کے بعد امارت یا خلافت کھڑی کی جائے گی اور ہم ساتویں صدی عیسوی کے کنیزوں اور باندیوں کے دلدادہ خلیفہ کے زیر نگیں ہوجائیں گے جو ہمارے بچوں کو جنگوں اور غزوات کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دے گا۔
اسلام کے شیخ اور آیات اللہ ڈیموکریسی پر براہ راست حملہ نہیں کرتے، بلکہ وہ تین مراحل پر مشتمل ایک ننگی گیم کھیلتے ہیں:
1- یہ دعوی کرنا کہ انسان کو اس کی پوری آزادی نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس پر شہوت مسلط ہے لہذا اسے کچھ ❞شرعی❝ ضابطوں کا پابند ہونا چاہیے۔
2- ایسی مثالیں تلاش کرنا جو مغربی آزادی کے منفی پہلو اجاگر کرتی ہوں جیسے: ❞سویڈن کی ایک عورت نے اپنے کتے سے شادی کر لی۔۔ کیا یہی مغرب کی نام نہاد آزادی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔ بے وقوف ایسی کہانیوں کے جال میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں جن کی خیر سے ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔
3- پھر آپ کی عقل کی وکالت کرتے ہوئے آپ کو اس نتیجہ پر پہنچاتے ہیں کہ آزادی لا محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ انسان کی ذاتی سلوکیات، آزادی اور اختیارات پر کچھ پابندیاں لاگو ہونی چاہئیں مگر کس معیار کے مطابق؟ یقیناً ان کے اپنے معیارات کے مطابق ☺
اسلام میں آزادی یا اسلام میں جمہوریت کے حوالے سے کوئی بھی کالم پڑھ لیں، آپ کو اس میں یہی مذکورہ تین لالی پاپ پوشیدہ نظر آئیں گے۔
یہاں پر اسلام مسلمانوں کی انتہا پسندی اور نسل پرستی کے پوشیدہ جذبے پر چوٹ لگا کر ایک حساس کھیل کھیل رہا ہے۔۔ مسلمان عورت کے حوالے سے انتہائی انتہا پسند ہواقع ہوئے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ وہ کسی بھی طرح مرد کے برابر ہوجائے یا اسے آزادی مل جائے۔۔ اسلامی دنیا کے اندر اس کی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔۔ شام، عراق اور کردستان میں آبروریزی کی بلند شرح، مصر میں خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی ہراسمنٹ، سعودی عرب میں عورت کو ملازمتیں نہ کرنے دینا اور گاڑی نہ چلانے دینا، غیرت کے نام پر اسے برقعہ نامی سیاہ تمبو میں لپیٹ کر اس کی آزادی سلب کرنا وغیرہ۔۔
مسلمان دوسرے مذاہب کے خلاف بھی انتہا پسند واقع ہوئے ہیں جو ان کی نظر میں ❞تحریف شدہ مذاہب❝ ہیں لہذا ان کا آسمانی قانون بھی ❞جعلی❝ ہے اور سلفی، وہابی ورژن کی طرح ❞خالص❝ نہیں ہے، لہذا ایک آزاد انسانی جمہوری معاشرے کے تحت ان کفار سے مساوات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مسلمان فکری طور پر مختلف طبقوں کے بھی خلاف ہیں، وہ ملحدین کے خلاف ہیں، سیکولروں کے خلاف ہیں، لبرلوں کے خلاف ہیں حتی کہ مذہبی طور پر معتدل لوگوں کے بھی خلاف ہے لہذا انہیں ان کے برابر مساوی حقوق اور آزادیاں کیسے دے دی جائیں؟
ذرا سوچیے کہ ایک اسلامی جمہوری نظام کے اندر کیا کیا نہیں ہوگا؟ تصور کرنا بھی محال ہے۔۔ دیکھیے جمہوری اسلامی ایران میں روز کیا ہوتا ہے۔۔ ہم جنس پرستوں کو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے، سیکس کرنے پر مرد وزن کی گردنیں اتار دی جاتی ہیں، شراب پینے والوں کو کوڑے مارے جاتے ہیں اور عورتوں کو لباس کی وجہ سے مارا پیٹا جاتا ہے۔۔ یہی وہ اسلامی ڈیموکریسی ہے جو آپ کے انتظار میں ہے، یہی ❞حقیقی اسلامی آزادی❝ ہے۔
اسلام نے مسلمانوں کو ڈرا ڈرا کر نفسیاتی بنا دیا ہے، جب مولوی کسی مسلمان سے کہتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیوی آزادی کے نام پر کسی اور کے ساتھ سوئے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ لواطت سرِ عام سڑکوں پر ہو؟ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیٹی سکول سے حاملہ ہوکر آئے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ آزادی کے نام پر تمہاری بیٹی کسی یہودی یا عیسائی سے شادی کر لے؟ کیا تمہیں مغرب کی یہ آزادی چاہیے؟ یہ سب سن کر مسلمان چیختے ہوئے مولوی کے قدموں میں گر جاتا ہے اور کہتا ہے: ❞نہیں۔۔ مجھے مذہبی حکمرانی چاہیے۔۔ تم مجھ پر حکومت کرو پلیز۔۔ اقتدار اللہ کے لیے ہے عوام کے لیے نہیں❝۔