یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے کہ جن تخلیقیوں کی ویب سائٹس سے انٹیلی جینٹ ڈیزائن اور نظریہ تخلیق کے حامی عام مسکین تخلیقیے اپنے موقف کی تائید کے لیے اقتباسات کاپی کر کر کے پیش کرتے ہیں جھوٹی ہوتی ہیں، یہ ویب سائٹس ارتقاء کے خلاف انشائی تقریری مضامین لکھ کر ان میں نامور علماء کے اقتباسات اس طرح سے موڑ توڑ کر پیش کرتی ہیں گویا یہ ان کے اعترافات ہوں تاکہ نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کیا جاسکے.. بعض اوقات ان ویب سائٹس کی جعل سازی اس قدر بھونڈی ہوتی ہے کہ بھانڈا پھوٹنے کے باوجود بھی یہ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش تک نہیں کرتے جو ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے.. اس کی ایک بڑی مثال عدنان اوکطار کی ویب سائٹ ہے..
تاہم کروڑوں کا سوال یہ ہے کہ عدنان اوکطار المعروف ہارون یحیی اور اس جیسے دیگر مذہب پرست تخلیقیوں کی علمی حیثیت اور مصداقیت کیا ہے؟
ذرا سی گوگلنگ کرنے پر پتہ چلا کہ صاحب در حقیقت جامعہ میمار سنان سے فنون لطیفہ میں فارغ التحصیل ہیں.. اب بھلا حیاتیات اور ارتقاء کا فنونِ لطیفہ سے کیا تعلق؟ ہوسکتا ہے تخلیقیوں کی نظر میں ہو کہ یہ چاہیں تو مٹی کو بھی سونا ثابت کر سکتے ہیں.. 😀
بہرحال مزید تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ صاحب 1986 میں 10 ماہ تک پاگل خانے میں رہ چکے ہیں..!! 1991 میں انہیں کوکین رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور طبی جانچ سے ان کے خون میں نشے کی کثیر مقدار پائی گئی، 1999 میں انہیں کئی سکینڈلوں کے تحت گرفتار کیا گیا جن میں دھمکیاں، جرائم پیشہ تنظیم کا قیام اور ترکی ماڈل ابرو سمسک Ebru Simsek کو ہراساں کرنا شامل ہے کیونکہ اس نے عدنان اوکطار کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے سے انکار کردیا تھا، ترکی کی عدالتوں میں یہ کیس دو سال تک چلتے رہے جس کے دوران زیادہ تر مدعیان نے دھمکیاں ملنے پر اپنے کیس واپس لے لیے اور یوں تخلیقیوں اور اسلام کے یہ ہیرو جیل سے آزاد ہوئے جبکہ اس کی تنظیم کے دیگر دو ساتھوں کو ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی.. 2008 میں ترکی کے daily Cumhuriyet اخبار نے بتایا کہ عدنان اوکطار نے اپنی تنظیم کی خواتین ارکان کو امیر گھروں کے نوجوان سائنسدانوں کو جنس کی لالچ دے کر کچھ خصوصی محفلوں میں شرکت کرنے پر اکسایا، اخبار کے مطابق ایک خاتون کو زبردستی سولہ مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا، ان جنسی تعلقات کی فلمیں بنا کر عدنان اوکطار کے حوالے کی گئیں جنہیں تنظیم چھوڑنے کے خواہش مندوں کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جرم ثابت ہونے پر عدالت نے اسی سال عدنان اوکطار اور اس کے دیگر 17 ساتھیوں کو تین سال قید کی سزا سنائی، عدنان اوکطار کی ذاتی سیکریٹری سے جب ان سب حرکتوں کے پیچھے کارفرما فلسفے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: "جنسي تعلقات قائم كرنا”. (حوالہ 1 –2)
اسلامی تخلیقیوں کا یہ فرشتہ صفت اور پاکباز نجات دہندہ اپنی کتاب "اطلسِ تخلیق” (Atlas of Creation) کو اپنی زندگی کی بہترین کتاب قرار دیتا ہے، اس کتاب میں اس نے بزعم خود یہ ثابت کردیا ہے کہ متحجرات یعنی فوسلز نظریہ تخلیق کی تائید کرتے ہیں کیونکہ یہ ان جاندار انواع سے بالکل مماثل ہیں جو اب زندہ ہیں، صاحب نے یہ کتاب ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر سکولوں، تحقیقی اداروں اور یورپی وامریکی جامعات کو مفت میں "زبردستی” ارسال کی اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کرایا، 2007 میں یہ کتاب فرانس میں اس بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی کہ فرانسیسی وزارتِ تعلیم کو ایک بیان جاری کرنا پڑا جس میں کہا گیا کہ ہماری تعلیم ارتقاء پر مبنی ہے اور اس کتاب کی ہمارے ہاں کوئی جگہ نہیں.
یونیورسٹی آف مینی سوٹا موریس میں حیاتیات کے پروفیسر مائرز اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں:
"The general pattern of the book is repetitious and predictable: the book shows a picture of a fossil and a photo of a living animal, and declares that they haven’t changed a bit, therefore evolution is false. Over and over. It gets old fast, and it’s usually wrong (they have changed!) and the photography, while lovely, is entirely stolen”
"کتاب کا عمومی انداز حسبِ توقع اور تکراری ہے: کتاب ایک متحجرہ اور ایک زندہ جانور کی تصویر دکھا کر یہ فیصلہ کردیتی ہے کہ یہ ذرا بھی تبدیل نہیں ہوا چنانچہ ارتقاء غلط ہے، اس بات کو اتنا دہرایا جاتا ہے کہ بوریت ہونے لگتی ہے، جو کہ عموماً غلط ہے (وہ تبدیل ہوئے ہیں!) جبکہ وہ خوبصورت تصاویر مکمل طور پر چوری شدہ ہیں.”
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کتاب میں جتنی بھی تصویریں ہیں ساری کی ساری انٹرنیٹ سے اٹھائی گئی ہیں خاص طور سے گراہم اون کی ویب سائٹ پر خصوصی شبِ خون مارا گیا ہے.. 😀
آکسفرڈ یونیورسٹی میں ارتقائی حیات اور ایتھالوجی کے پروفیسر رچرڈ ڈاکنز نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں جانداروں کی غلط زمرہ بندی کی گئی ہے اور مصنف کو سمندری سانپ اور برقی بام مچھلی میں فرق تک کا نہیں پتہ.. 😀
پروفیسر ہومر جیکبسن ایک 84 سالہ امریکی کیمیاء دان اور محقق ہیں جو بروکلین کالج نیویارک میں کیمیاء کے پروفیسر رہے ہیں اور اب بیس سال سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، 2007 میں پروفیسر جیکبسن نے امریکن سائنٹسٹ میگزین کے چیف ایڈیٹر کو ایک خط لکھا اور 52 سال پہلے شائع ہونے والے اپنے ایک تحقیقی مقالے کے کچھ حصے واپس لینے کا مطالبہ کیا.. مگر کیوں؟
ہوا یہ کہ 1955 میں پروفیسر جیکبسن نے ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا: Information, Reproduction and the Origin of Life اس مقالے میں انہوں نے اربوں سال پہلے زمین پر امائنو ایسڈ کی خودکار افزائش پر بحث کی، امائنو ایسڈ پروٹینز کی بنیاد ہوتے ہیں اور اس طرح یہ زندگی کی بھی بنیاد ہیں، پروفیسر جیکبسن کا یہ مقالہ سٹینلی ملر کے مشہور تجربے جو 1953 میں کیا گیا تھا کے دو سال بعد شائع ہوا جس میں ملر بجلی کو پانی اور غیر نامیاتی مواد میں کیمیائی تعامل کے لیے توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نہ صرف امائنو ایسڈ بلکہ دیگر نامیاتی اجسام بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا، پروفیسر جیکبسن سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملر کے تجربے میں توانائی کے مصدر کو نظر انداز کردیا اور کہا کہ ابتدائی زمین کے سمندروں میں امائنو ایسڈ کی خودکار تشکیل ناممکن ہے.. اس وقت کسی نے بھی اس مقالے پر توجہ نہیں دی بلکہ خود پروفیسر جیکبسن بھی اسے بھول گئے تھے مگر ایک اتفاق نے انہیں اس کی یاد دلا دی جب انہوں نے اپنا نام گوگل میں ڈال کر سرچ کیا اور 52 سال بعد انہیں اپنی غلطی پر پچھتانا پڑا..
گوگل کے پہلے دس نتائج میں ذیل کے روابط شامل تھے:
http://www.darwinismrefuted.com
http://www.evolution-facts.org
یہ ویب سائٹس تخلیقیوں کی ہیں جو نظریہ ارتقاء کو غلط قرار دیتی ہیں، DarwinismRefuted.com نامی ویب سائٹ نے جو عدنان اوکطار کی ملکیت ہے پروفیسر جیکبسن کے اُس مقالے کا ایک اقتباس نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کرنے کے لیے ان کے اعتراف کے طور پر پیش کیا کہ زندگی کے لیے درکار اجزاء خودکار طور پر پیدا نہیں ہوسکتے:
"Directions for the reproduction of plans, for energy and the extraction of parts from the current environment, for the growth sequence, and for the effector mechanism translating instructions into growth-all had to be simultaneously present at that moment [when life began]. This combination of events has seemed an incredibly unlikely happenstance”
اپنے کام کو ارتقاء کے خلاف استعمال ہوتے ہوئے دیکھ کر انہیں شدید صدمہ پہنچا مگر یہ تو صرف آغاز تھا، جب انہوں نے اپنے اصل مقالے سے رجوع کیا تو انہیں پتہ چلا کہ ہارون یحیی کے صفحہ پر ان کی بات کا جو اقتباس درج ہے اسے موڑ توڑ کر پیش کیا گیا ہے، جب انہوں نے علم کے نام پر یہ جعلسازی دیکھی تو اپنے مقالے کا وہ حصہ واپس لینے کا فیصلہ کیا اور سائنٹفک امریکن کے ایڈیٹر کو خط لکھ کر اعتراف کیا کہ انہوں نے جو لکھا تھا وہ غلط تھا چنانچہ 1955 میں لکھے گئے ان کے مقالے کے وہ غلط حصے منسوخ کردیے جائیں، علمی حلقوں نے پروفیسر جیکبسن کے اس اقدام کی تعریف کی.. آخر حقیقی عالم اور جعلی عالم میں کوئی تو فرق ہے..!؟
پروفیسر جیکبسن کے مقالے کے اقتباسات اب بھی ہارون یحیی کی ان دونوں ویب سائٹس پر ذیل کے صفحات پر موجود ہیں:
http://www.darwinismrefuted.com/20questions01.html
http://www.harunyahya.com/de/kollaps02.php
اور چونکہ اردو کی سب سے بڑی علمی جعلسازی پر مبنی ویب سائٹ قرآنک سائنس کا ارتقاء کے خلاف لکھا گیا یہ مضمون – جیسا کہ مضمون کے آخر میں حوالہ دیا گیا ہے – ہارون یحیی کی ویب سائٹ سے استفادہ کر کے لکھا گیا ہے لہذا یہ جعلسازی یہاں بھی موجود ہے بلکہ مضحکہ خیز حد تک جاتے ہوئے نہ صرف پروفیسر جیکبسن کو کیمیاء (chemistry) کی بجائے خرد حیاتیات (Microbiology) کا ماہر قرار دیا گیا ہے اور ان کے بیان کی گردن مزید مروڑتے ہوئے اس میں خدائی مداخلت بھی داخل کردی ہے بلکہ انتہائی بھونڈے طریقے سے پروفیسر جیکبسن کے بیان کو نوبل انعام یافتہ علماء جیمس واٹسن اور فرانسس کریک کی ڈی این اے کی ساخت کی دریافت کے پس منظر سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے:
"خرد حیاتیات (Microbiology) کے امریکی ماہر جیکب سن اس کیفیت پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں : ’’نسل خیزی، دستیاب ماحول سے توانائی اور (درکار) اجزاء کا حصول، سلسلوں کی افزائش، اور احکامات کو افزائش میں بدلنے والے اثر پذیر نظام کے لئے ساری اور مکمل ہدایات کو اُس وقت (جب زندگی کی ابتداء ہوئی) ایک ساتھ موجود ہونا چاہئے تھا۔ ان واقعات کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا اس قدر ناممکن ہے کہ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے، اور اکثر کسی خدائی مداخلت کا مرہونِ منت ہی سمجھا جاسکتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا عبارت، ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے صرف دو سال بعد تحریر کی گئی تھی”
یہ تھی عدنان اوکطار المعروف ہارون یحیی کی علمی اور اخلاقی حیثیت جس سے ارتقاء کے خلاف لکھے گئے اس کے اور اس جیسے دیگر تخلیقیوں کے انشائی مضامین اور کتابوں کی تحقیقی اور علمی مصداقیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.