Close

اسلام کو تنقیدی فکر کی ضرورت ہے

 

یہ واضح ہے کہ اسلامی دنیا کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے، ہر جگہ سیاسی خلفشار، کرپشن، معاشی ابتری، اخلاقی تنزلی، تشدد، آزادیوں اور انسانی حقوق کا فقدان اپنے نقطہء عروج پر ہے، یہ وہ کچھ بنیادی خصوصیات ہیں جو واضح طور پر اسلامی معاشروں کو باقی دنیا سے ممتاز کرتی ہیں، اور حالات واضح طور پر صورتِ حال میں اگلی کچھ دہائیوں تک مزید ابتری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اسلامی معاشروں اور ترقی یافتہ معاشروں میں جہاں بہت سارے بنیادی فرق ہیں وہاں ایک اہم فرق آزاد مفکرین اور تنقید نگاروں کا فقدان بھی ہے جو اپنی آزاد تنقید کے ذریعے معاشرتی امراض کی نشاندہی کر سکتے ہوں، خاص طور سے وہ معاشرتی امراض جن کی جڑیں الہیات میں پیوستہ ہیں۔

ہر معاشرے کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں، دیگر معاشروں کے بھی ماضی میں اپنے مخصوص مسائل تھے، تاہم ان معاشروں نے آزاد سوچ کے حامل مفکرین، نقاد اور فلسفیوں کو آگے آنے کا موقع دیا، ان لوگوں نے بغیر کسی قید وبند کے معاشرتی امراض پر کھل کر آزادانہ تنقید کی اور خرابیاں اور ان کے اسباب اجاگر کیے جن میں مذہبی اسباب بھی شامل ہیں، مثال کے طور پر یہودی معاشروں نے سپینوزا، کارل مارکس اور آئن سٹائن ودیگر جیسے نابغہ روزگار پیدا کیے، عیسائی معاشروں نے بھی ڈیکارٹ، کانٹ، ڈیوڈ ہیوم اور برٹرینڈ رسل جیسے عظیم مفکر پیدا کیے، ان مفکرین میں سے بعض نے تو مذہب اور مذہبی رہنماؤوں کو بُری طرح لتاڑا اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا جیسے سپینوزا، مگر اس کڑی تنقید کے باوجود ان کے افکار ونظریات کا گلا نہیں گھونٹا گیا بلکہ ان کی تنقید کو کھلے دل سے سنا گیا، اس کڑی تنقید کی پاداش میں ان کی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا، معاشرتی اور سیاسی میدان میں ان لوگوں کی ترقی پسند سوچ نے مقبولیت حاصل کی اور آخر میں فتح یاب ہوئی، اس کا نتیجہ ان معاشروں کی اصلاح کی صورت میں برآمد ہوا اور وہ ترقی کی راہ پر گامژن ہوگئے۔

اس کے مقابلے میں اسلامی معاشروں نے اپنی تمام تر معاشرتی خرابیوں اور بدعات کے باوجود کبھی بھی سنجیدگی سے اپنے آزاد مصلحین ومفکرین کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا خاص طور سے گزشتہ آٹھ سو سال میں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی دنیا نے ترقی کا ایک دور ضرور دیکھا ہے جسے اسلام کا سنہری دور کہا جاتا ہے اور جس کا دورانیہ 800 سے 1200 عیسوی کے درمیان بنتا ہے، تاہم غالباً اس کی وجہ کا تعلق اس حقیقت سے رہا ہے کہ اسلامی دنیا اپنے بانی محمد (صلعم) اور اس کے چاروں خلفاء کے بعد غلط ہاتھوں میں پڑ گئی، اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسلامی دنیا پر حکومت کرنے والے بنی امیہ کے خلفاء (661ء تا 750ء) اپنے نبی کی تعلیمات کے برعکس کام کرتے رہے اور اسلامی تشریعات کی سخت مخالفت کی ما سوائے ان اوقات کے کہ جب شریعت سے ان کے مفادات کو تحفظ مل رہا ہو وگرنہ دوسری صورت میں انہوں نے ان مفادات کے ❞شرعی❝ حصول کے لیے ہزاروں احادیث گھڑوائیں اور جہاد کو اپنی توسع پسندانہ جنگوں کو جواز دینے کے لیے استعمال کیا اور غیر مسلم عناصر کو اسلام میں داخل ہونے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ جزیہ وصول کر سکیں۔

عباسی دور میں جس کا دورانیہ 750ء عیسوی سے لے کر 1250ء عیسوی تک کا بنتا ہے، عباسیوں نے عربی طور طریقوں سے منہ موڑ کر فارسی تہذیب کے نقوش اختیار کر لیے، اس دور میں فارسی تہذیب اپنی ترقی کے عروج پر تھی اور اس کا دامن پُر شکوہ تہذیبی وثقافتی روایات سے لبریز تھا جو اسلام سے بھی پرانا تھا، یہ بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ عباسیوں نے مذہب سے زیادہ سائنس اور فلسفہ کو زیادہ اہمیت دی، مثال کے طور پر عباسی خلیفہ مامون (813ء تا 833ء) نے قرآن کی مقدس حیثیت سے انکار کردیا اور اسے انسانی تصنیف قرار دیا، اس کی یہ سیاست معتصم (وفات 842ء) اور الواثق (وفات 847ء) کے دور تک چلتی رہی، اس سلسلے میں الواثق کی سیاست مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اسے ❞امیر الکفار❝ کا لقب دے دیا تھا۔

آگے کی نسلوں کے اسلام کے اصل منبع سے دور ہونے کے سبب مخلوط اسلام کو سنہری دور میں داخل ہونے کا موقع ملا اور غیر روایتی نظریات وافکار سامنے آںے لگے، اسی دور میں ہمیں مسلمانوں کی صفوں میں رازی (وفات 945ء) جیسا فلسفی ملتا ہے جو محمد (صلعم) کو دجال، فریبی اور دھوکے باز تک کہہ ڈالتا ہے اور قرآن کو ایک بے کار تصنیف قرار دیتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں، اس کی بجائے وہ ارسطو اور افلاطون کے فلسفے اور اقلیدس اور ہیپوکریٹس کے علوم کو قرآن سے زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ان علوم میں قرآن سے زیادہ عظیم حکمت ہے اور ان سے انسانیت کو پہنچنے والا فائدہ قرآن اور دیگر مقدس کتابوں سے زیادہ ہے جنہوں نے انسانیت کو سوائے تکلیف کے اور کچھ نہیں دیا۔

تاہم یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور جلد ہی بدل گئی، کیونکہ اسی دوران آرتھوڈکس اسلام اپنی قوتیں جمع کر رہا تھا، جلد ہی یہ انتہاء پسند اسلام، انتہاء پسند حجۃ الاسلام امام غزالی (وفات 1111ء) کی محنتِ شاقہ سے ساری اسلامی دنیا میں پھیل چکا تھا، حجۃ الاسلام نے فارابی اور ابن سینا جیسے عظیم فلسفیوں پر کفر کے فتوے لگائے اور فلسفہ اور فلاسفہ کو زندیق قرار دیتے ہوئے ان کے لیے موت کی سزاء تجویز کی، یہ فارابی اور ابن سینا کی خوش قسمتی تھی کہ وہ حجۃ الاسلام کی آمد سے قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ورنہ ان کا انجام بہت برا ہوتا، حجۃ الاسلام سے ہی عربی کا یہ مشہور محاورہ ❞من تمنطق تزندق❝ (جس نے منطق اختیار کی وہ زندیق ہوگیا) منسوب ہے جس سے منطق اور فلسفہ سے ان کی دشمنی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے، جلد ہی اسلامی دنیا پر انتہاء پسندی، جہالت اور سلفیت کے کالے بادل چھا گئے اور ترقی پسند اسلام اپنے زریں عہد میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

جب تک اسلامی دنیا میں رواداری کا فقدان اور ترقی پسند سوچ پر جبر کیا جاتا رہے گا اسلامی دنیا جمود کی اس حالت سے کبھی باہر نہیں آسکے گی جس میں وہ ابھی تک اٹکی ہوئی ہے، ایسی کسی تبدیلی کا مستقبلِ قریب میں بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا، تاہم امید کی ایک کرن کسی اندھیرے کونے میں ہمیشہ موجود ہوتی ہے، کچھ مسلمان جنہیں ملک بدر کیا گیا اور کافر مغرب نے انہیں سہارا دیا اپنی تنقیدی صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں، یہ ❞مرتد❝ مسلمان جیسے ابن وراق جس کی کتاب ❞میں مسلمان کیوں نہیں❝ نے اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور صومالی مصنفہ ایان حرسی علی کی کتاب عالمی سطح پر بیسٹ سیلر رہی ہیں، ایسے لوگوں نے اسلام کی جامد فطرت کی طرف توجہ دلائی اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا جیسا کہ ماضی میں دیگر مذاہب پر تنقید کی گئی تھی۔

سیموئیل ہٹنگٹن اپنی کتاب تہذیبوں کے تصادم (The Clash of Civilizations) میں اسلام اور دیگر انسانوں کے بیچ جاری ایک جنگ کی طرف توجہ دلاتے ہیں، یہ جنگ اسلام کے آغاز سے اب تک جاری ہے اور شاید مزید کئی دہائیوں تک جاری رہے گی، اسلامی تاریخ اپنی ابتداء سے لے کر مغربی استعمار کے دور تک مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک طویل خونی جنگ کے سواء کچھ نہیں ہے جس نے ایشیا، افریقہ اور یورپ میں کروڑوں انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے۔

امریکہ بھی اب اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا، نائین الیون کے واقعے سے لے کر اب تک ساری دنیا میں دہشت گردی کی بارہ ہزار سے زائد کاروائیاں ہوچکی ہیں جن کا سہرا پوری دنیا میں پھیلی اسلامی تنظیموں کے سر جاتا ہے جو اب مسلمان اور غیر مسلمان تک میں تمیز کرنا بھولتی جا رہی ہیں، یہ جنگ ہر سال ہزاروں جانوں کی بلی لیتی ہے اور مستقبلِ قریب میں مزید لاکھوں جانوں کے زیاں کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، اسلام پسند ہی اس جنگ میں ایندھن جھونکتے ہیں اور اس کا پُر امن حل بھی انہی کے پاس ہے، اس خطرے کو اگر کوئی چیز ٹال سکتی ہے تو وہ ہے اس دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ان نظریات کا توڑ جنہیں یہ سلفی دہشت گرد ❞جہاد❝ کے نام پر اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

یہ جنگ دہشت گردانہ کاروائیوں سے نہیں جیتی جاسکتی جس میں یہ سلفی جہادی تنظیمی ماہر ہیں، اور نا ہی اس سے مسلم امت کی حالت میں کسی بہتری کی کوئی امید کی جاسکتی ہے، بلکہ اس سے اسلامی دنیا مزید تنزلی اور پسماندگی کا شکار ہوگی جس کی اصل ذمہ داری اسلام کے جامد نظامِ فکر اور اس نفرت انگیز رویہ پر ہوگی جو وہ دوسرے انسانوں سے روا رکھتا ہے۔

شاید اسلام کے آزاد مفکرین وناقدین کی اگلی نسل دنیا کی توجہ حاصل کر پائے اور اسلام اور باقی غیر مسلمان انسانوں کے بیچ جاری اس قدیم جنگ کا خاتمہ ہوسکے ورنہ اس تہذیبی جنگ سے انسانیت کو شدید نقصان ہوگا اور شکست یقیناً مسلمانوں کی ہی ہوگی۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top