دیکھیے ان لوگوں کو جو عبادت گاہوں میں اپنے خداؤں کے آگے بلا تکان ناک رگڑتے خود کو ذلیل کرتے اور منافقت کے آنسو بہاتے ہیں، کبھی کسی نے سوچا کہ ان لوگوں کو یہ سب کرنے پر کیا چیز اکساتی ہے؟ کیا چیز انہیں خود کو ذلیل کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ کیا یہ لوگ یہ سب اپنے خدا کی محبت میں کرتے ہیں؟ خدا سے ان کے تعلق کا راز کیا ہے؟ یہ چاہے کتنا ہی دعوی کیوں نہ کریں کہ وہ یہ سب اپنے خدا کی محبت میں کرتے ہیں تو یہ جھوٹ ہے.
مذہبی منطق کی رو سے بندے اور خدا کا تعلق خرید وفروخت، مصلحت اور خواہشات کی تکمیل کا تعلق ہے، یقیناً مؤمن خدا کی عبادت میں اتنی تکلیفیں جنت کی لالچ میں اٹھاتا ہے، منافقت کے آنسوؤں، حمد وثناء وتسبیح کی وجہ جنت میں حوروں، لونڈوں اور دودھ وشہد وشراب کی نہروں کی لالچ ہے، یہ سب کرنے میں اس کی خواہشات وحاجات ہی اس کے پیش نظر ہوتی ہیں، اسے اپنا مطلب ہوتا ہے خدا کی فکر نہیں ہوتی، اس سے مجھے شاہوں کے ان منافق شعراء کی یاد آتی ہے جو شاہ کی جھوٹی مدح کے لیے صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں تاکہ شاہ کی خوشنودی حاصل کر کے نفع حاصل کیا جاسکے، بندے اور خدا کا تعلق بھی بعینہ یہی ہے، جس طرح شاہوں کے شعراء منافقانہ مدح کرتے ہیں اسی طرح یہ خود کو ذلیل کر کے خدا کے غرور اور کبریاء کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خدا کی محبت یا اسے راضی کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کے پاس جو خزانے ہیں ان کے لیے، خدا کو بھی جو ” دلوں کے بھید خوب جانتا ہے” اس کی خبر ہے مگر چونکہ اس کے غرور وکبریاء کی ہوس پوری ہو رہی ہوتی ہے اور جھکتے روتے گڑگڑاتے غلاموں کا دل آویز منظر اس کے کبریاء کو تسکین پہنچا رہا ہوتا ہے وہ اس منافقت کی پرواہ نہیں کرتا، اس قسم کے تعلق کو تکافلی تعلق کہا جاتا ہے یعنی فائدہ دینا اور فائدہ اٹھانا، ایک ایسا تعلق جسے کسی طرح شریفانہ نہیں کہا جاسکتا اور نا ہی یہ خدا اور مخلوق کے تعلق کی کوئی مثالی صورت ہے.
مخلوق اور خدا کے درمیان یہ غیر اخلاقی اور گرا ہوا تعلق محض یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا، اس کا دوسرا رخ اس سے بھی کہیں بھیانک اور خطرناک ہے، اگر مخلوق کو جنت کی رغبت نہ تو اس صورت میں خدا اسے ڈرا دھمکا کر اور جہنم میں بھوننے کی وعیدیں دے کر عبادت کے لیے مجبور کرتا ہے، اس صورت میں پیدا ہونے والا تعلق دہشت گردانہ وبہیمانہ وجابرانہ ہوتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ خدا عبادت کی یہ جنونی خواہش ہر صورت میں پوری کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی عبادت کے پیچھے اس کی محبت نہیں بلکہ در حقیقت خوف کار فرما ہے وہ اس بہیمانہ تعلق سے صرف نظر کرتا رہتا ہے کیونکہ بالآخر مخلوق اس کے سامنے خود کو ذلیل کر ہی رہی ہوتی ہے.
اس قسم کے تعلقات کی کیا توجیہ ہے؟
اس ظلم وستم کی کیا توصیف ہے؟
بلکہ ایسے خدا کی کیا توصیف ہے جسے محض اپنے غلام بڑھانے اور انہیں ذلیل کرنے کی فکر ہے جبکہ وہ ان کی نیتیں اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ خود سے محبت کرتے ہیں؟
غرض کہ جزاء وسزاء کی سیاست خدا اور مخلوق کی سطح کے تعلق کے لیے قطعی موزوں نہیں.
بیشتر مذاہب اپنے ماننے والوں کو مرنے کے بعد جنت کی نوید سناتے ہیں، زیادہ تر مؤمنین اس جنت کو بڑی سطحیت سے لیتے ہیں، اگر جنت میں زندگی کے تصور کو ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ جنت جنت نہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں بلکہ ایک عذاب ہے، جب ہمیں جنت کی زندگی کی رنگینیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو ہم اس کی لالچ کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم اس کا موازنہ اپنے دنیاوی احساس اور تصور سے کر رہے ہوتے ہیں مگر درحقیقت خواہشات کی تکمیل آخرت کی زندگی میں قطعی مختلف ہوگی.
فرض کریں آپ خدا کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس کے بدلے میں آپ کو جنت نواز دی گئی تو زندگی کا وطیرہ کیسا ہوگا؟ حوروں اور لونڈوں سے گروپ سیکس کرنے اور شراب وشہد کی نہروں سے پیاس بجھالینے کے بعد کیا آپ بور نہیں ہوجائیں گے؟ خاص طور سے جبکہ آپ اپنے اندر یہ بات جانتے ہوں گے کہ یہ سب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا… جب آپ کو یہ احساس ہوگا تب یہ جنت جہنم میں بدل جائے گی! یہ سست وخواہشات کی تکمیل پر مبنی دائمی زندگی ہی اصل عذاب ہے.
انسان میں لذت کے احساس کی وجہ اس کے لاشعور میں اس بات کا ادراک ہے کہ یہ لذت دائمی نہیں، جب انسان خوش ہوتا ہے اور اس خوشی سے لطف اندوز ہوتا ہے تو اس لطف کی وجہ اس کی اپنے عقل باطن میں غم کی موجودگی کا یقین ہے، غم کے بغیر خوشی کی لذت حاصل نہیں کی جاسکتی، خوشی اور غم چاہے کتنے ہی متضاد ہوں یہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں چنانچہ جنت جیسی خالص خوشی ولذت کی زندگی کا وجود نا ممکن ہے.
غم وخوشی کا ایک اور عنصر جو پہلے سے کسی طور کم اہمیت کا حامل نہیں اور وہ زندگی کے فناء اور محدودیت کا لاشعور میں احساس ہے، جب لوگ خوش ہوتے تو ان کی عقل باطن میں یہ ادراک جاگزیں ہوتا ہے کہ زندگی محدود اور مختصر ہے چنانچہ اس سے جتنی خوشیاں کشید کر سکتے ہو کر لو مگر جنت کا انسان کیا کرے گا؟ کیا یہ جانتے ہوئے کہ یہ زندگی ابدی ہے وہ اس سے لطف اندوز ہوسکے گا؟ اس صورت میں جنت یقیناً اسے الٹی پڑ جائے گی اور ایک دن تمام ساکنانِ فردوس اجتماعی خودکشی کر کے خدا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیں گے !!
انبیاء اور مؤمنین یہ جان ہی نہ سکے کہ مسرت کے اسباب مادی نہیں نفسیاتی ہیں، خوشی دراصل ایک عقلی حالت ہے، لذت ومسرت نفس سے اور انسان کی نفسیاتی حالت سے پھوٹتے ہیں، حوروں کی فوج، شراب اور دولت کے انبار دل میں خوشی نہیں ڈال سکتے کہ کتنے ہی زبوں حال مسرت کی ایسی زندگی گزارتے ہیں جن کی امراء بس خواہش ہی کر سکتے ہیں.
انسانی زندگی کی تنظیم میں خدا حلال وحرام کی سیاست پر انحصار کرتا ہے، مگر کیا اسے حرام کرنے کے الٹے اثر کا ادراک نہیں تھا؟ کیا اس نے ” ہر ممنوع مرغوب ہوتا ہے ” کو مد نظر رکھا تھا؟ کیا اس نے اس درخت سے سبق نہیں سیکھا جسے اس نے آدم پر حرام کردیا تھا؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس درخت کو آدم پر حرام نہ کرتا تو وہ اس میں سے کبھی نہ کھاتا؟
حرام کی سیاست حرام کا چیختا اشتہار ہے، یہ اس حرام چیز کی تاکید اور اس پر روشنی ڈالنے کے مترادف ہے جو کہ دوسری صورت میں اندھیروں کے طاقِ نسیاں میں دھری ہوتی اگر اس سے خبردار نہ کیا گیا ہوتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا ہوتے ہوئے وہ یہ بات بھول گیا تھا، اسے سمجھنے کے لیے افلاطون کی ضرورت نہیں، دیکھیے وہ ممنوع کتابیں اور فلمیں جو کہ اگر ممنوع نہ ہوتیں تو کوئی انہیں گھاس نہ ڈالتا، خدا کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ سرخ بتیوں کو توڑنا انسان کی جبلت ہے، حرام فعل میں دہری لذت ہوتی ہے، ایک حرام چیز کی لذت اور ایک حرام کرنے کی لذت، شراب کو حرام کرنے کے بعد اس کی لذت ہی دوگنی ہوگئی، ایک نشہ کی لذت اور دوسری حرام کی لذت… تو کوئی پوچھے اس خدا سے کہ وہ اس سب سے کیا چاہتا ہے؟ کسی چیز کو حرام کر کے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا اور پھر اس حرام کو کرنے پر لوگوں کے چیتھڑے اڑانے کے پیچھے اس کا کیا مقصد ہے؟ کیا اسے ان گناہ گاروں کو سزا دینے کی بجائے انہیں جزاء نہیں دینی چاہیے؟ کیا انہوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کی بات نہیں مانی؟ در حقیقت.. کیا خدا نے جنت کے لاکھوں درختوں میں سے محض ایک پر پابندی لگا کر آدم کو خود اس ملعون درخت کو کھانے کی دعوت نہیں دی تھی؟ اور کیا آدم نے اس درخت کو کھا کر اس دعوت پر لبیک نہیں کہا؟ کیا اسے آدم کو انعام سے نہیں نوازنا چاہیے؟
آدم پر بات چلی تو ذہن میں ایک اور قاتلانہ سوال اٹھا… خدا نے ہی کہا تھا کہ ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری (اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا – سورہ الانعام، آیت 164)” تو پھر ہم آدم کے گناہ کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟ اگر اس نے یہ گناہ کیا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ اربوں لوگ ایسے گناہ کا بوجھ کیوں اٹھا رہے ہیں جو انہوں نے سرے سے کیا ہی نہیں؟ تاریخ میں ایسے بڑے قصے پڑھے ہیں جن میں قومیں اپنے حاکموں کی حماقتوں کی سزا بھگتتے ہیں مگر جہاں پوری انسانیت ہی ایک ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہی ہو تو میرے خیال سے یہی عین ظلم ہے خاص طور سے جب جرم محض ایک سیب/گندم کھانے جتنا فضول ہو !!
خدا ہی مورد الزام ہونا چاہیے، نہ صرف یہ کہ اس نے آدم کو وہ درخت کھانے کی کھلی دعوت دی اوپر سے آدم کو جنت سے نکالنے جیسا اتنا بڑا فیصلہ اس کے دور رس اثرات کو مد نظر رکھے بغیر ہی کر ڈالا، اگر وہ سیب والے فضول معاملے سے صرفِ نظر کر لیتا تو غلطیاں وہیں رک جاتیں اور انسانی تاریخ پر محیط خطرناک غلطیاں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی وبربادی وہیں تھم جاتی.
صرف یہی کوئی اکلوتی حرکت نہیں، ہم میں سے کس نے خدا کے ہاتھوں ہونے والی اس انسانی تباہی کے بارے میں نہیں سنا جب اس نے اپنے ایک چہیتے فرشتے کو ایک کافر بستی کو نیست ونابود کرنے کے لیے بھیجا تو فرشتے نے واپس آکر اسے خبر دی کہ اس بستی میں ایک عبادت وپرہیز گزار بندہ بھی رہتا ہے کہ شاید خدا کو اس بستی اور اس کے لوگوں پر ترس آجائے مگر خدا نے چھوٹتے ہی کہا کہ: "ففیہ فابدا (اسی سے شروع کرو!!)” یہ عابد چاہے عابد نا بھی ہو اور چاہے اس کا عمل اور دین اس کی شفاعت نہ کر سکا ہو سزا کا قطعی مستحق نہیں ہے کیونکہ وہ کسی گناہ میں شریک نہیں ہوا، اس کے باوجود خدا خود کو منصف وعادل کہتا ہے، اتنا سادہ سا مسئلہ اگر کسی مبتدی جج کے سامنے بھی پیش کردیا جاتا تو وہ اس میں فیصلہ کرنے میں غلطی نہ کرتا کجا وہ ہستی غلطی کر جائے جس نے روزِ قیامت لوگوں سے حساب لینا ہے؟ انسانیت اس سے کیسے بچ پائے گی جبکہ اس میں انصاف کی ادنی تر خوبی نہیں ہے؟ اس بوڑھے شیخ سے کیوں شروعات کی جائے جبکہ وہ خود کہتا ہے کہ کوئی کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا؟، کاش وہ اس سے سیکھتا اور اپنے کیے پر شرمندہ ہوتا، مگر نہیں کیونکہ ایک اور جگہ پر کہتا ہے کہ: ” اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں کو فواحش پر مامور کر دیا تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے پھر اس پر عذاب کا حکم ثابت ہو گیا۔ اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا۔ – سورہ الاسراء، آیت 16 ” اس خدائی جرم میں اہلِ بستی ہی قیمت چکائیں گے کیونکہ ان کے آسودہ لوگ فواحش کر رہے تھے ! بچوں عورتوں اور بوڑھوں کی چیخ وپکار خدا کی شفاعت ورحمت کو قطعی نہیں جگا سکتیں، باعثِ جنون یہ ہے کہ وہی بستی کے آسودہ لوگوں کو فواحش کرنے کا حکم دیتا ہے حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ: ” قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء (کہدو کہ اللہ بے حیائی کے کام کرنے کا تو حکم نہیں دیتا) سورہ الاعراف، آیت 28 ” کوئی بھی عقل یہ کھلا تضاد قبول نہیں کر سکتی کہ ایک با انصاف خدا ہوتے ہوئے وہ فواحش کا حکم کیونکر دے سکتا ہے؟ اور کیا یہ تباہی مچانی ضروری تھی؟ وہ اس کا الٹ بھی تو کر سکتا تھا کہ بجائے بستی کے آسودہ لوگوں کو فواحش پر لگا کر سزا دینے کے انہیں اچھائی پر لگا کر جزا بھی تو دے سکتا تھا؟
منطق کو کون سی دیوار پر ماروں؟