Close

سوشل میڈیا پر جاری اسلامی تنقید و توہین

لفظ تنقید کوئی نیا لفظ نہیں، حکماء کی رائے کے مطابق کسی بھی نظام، شخص یا خیال کی بہتری کے لئے تنقید لازمی ہے، اگر تنقید کا راستہ روک دیا جائے تو جمود طاری ہونے کے باعث تنزلی راج کرنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کسی صورت بھی حل نہیں ہو سکتے۔
ملحدوں کو اکثر بے جا تنقید یا پھر توہین کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں ملحدوں کا مقصد صرف اور صرف مذہب، خاصکر اسلام کی توہین کرنا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں بہت سے دروازے کھولے ہیں وہیں ملحدین ایک احساس تحفظ کے ساتھ اسلام اور دوسرے مذاہب پر تنقید کر سکتے ہیں، سوالات اٹھاتے ہیں، اور کچھ لوگ مذہب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے طنز کے نشتر برساتے ہیں، کچھ مذہبی شخصیات کو گالیاں تک دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ مگر کیا یہ رویہ درست ہے، یقیناً اس سے بہت سے لوگ سکتے میں آتے ہیں، ان کو دکھ ہوتا ہے۔ مگر اس رویے کی وجہ آخر ہے کیا؟
دراصل جب مودبانہ مکالمے کا راستہ بند کیا جاتا ہے اور آپ تنقید سننا ہی نہیں چاہتے تو اس طرح کی صورتحال پیش آتی ہے۔ دراصل دو نظریات فکر، یعنی اسلام اور الحاد کے درمیان مسلمانوں نے ایک ایسی خلیج حائل کر دی ہے جس کو شخصی طور پر پار کرنا ممکن نہیں رہا۔ پاکستان اور اس جیسے دوسرے اسلامی ملکوں میں مسلمان تو دن رات، اپنے مذہب کا پرچار کرتے ہیں، مانگے بنا مانگے دن رات آپ کو اسلامی لیکچر ملتے ہیں، رمضان میں آپ کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے، محرم میں آپ کو مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، ٹی وی دیکھو تو اس پر دن رات اسلام کر پرچار، سوشل میڈیا پر چلے جاؤ تو مسلمان دن رات منافقت کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی مسلمان ہر وقت دانستہ اور غیر دانستہ طور پر غیر مسلم اور ملحدوں کو اسلام پڑھاتے رہتے ہیں، ملحدوں کو مسلمانوں کی منافقت اور بے ایمانی سہنی پڑتی ہے، مذہب کے نام پر بلیک میلنگ بھی ہوتی ہے، یعنی چوبیس گھنٹے مملک خدادا پاکستان میں مسلمان ایک نا ختم ہونے والا اسلامی سلسلہ جاری رکھتے ہیں، جو اسلام سے بیزار آدمی کے لئے کسی ٹارچر سے کم نہیں ہوتا۔
سکولوں اور درسگاہوں میں آپ کو زبردستی اسلام پڑھایا جاتا ہے، اگر آپ دفتر میں بیٹھے ہیں تو کوئی نہ کوئی آپ کو نماز کی ترغیب دینے لگے گا، اسپتال میں ہیں تو وہاں کوئی تبلیغ شروع کر دے گا، کہیں کوئی داڑھی والا آپ کو الٹے ہاتھ سے کھانے پر ٹوکنے لگے گا، پھر اپنے پانچ وقت کے نمازی دوست کی کامچوری کی وجہ سے اس کے حصے کا کام بھی آپ کر رہے ہوں گے۔ یعنی آپ جہاں جائیں گے وہاں آپ کٹر مذہبی لوگوں کو ہر گھٹیا کام کرتے دیکھیں گے۔ مگر آپ بھولے سے بھی ان کے اسلامی لیکچروں اور گفتگو کے جواب میں اسلام پر کوئی منطقی اعتراض نہیں اٹھا سکتے، آپ اسلام کو بھول کر بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے، چاہے کوئی آپ کو ایسی حدیث ہی کیوں نہ سنا رہا ہو جو سائنس کی قبر پر لات رسید کرتی ہو، چاہے کوئی قرآنی آیت لوگوں کے قتل کی ترغیب دیتی ہو، چاہے غیر مسلموں سے نفرت کی نوید کیوں نہ ہو، چاہے اسلامی احکام انسان حقوق کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑا رہے ہوں۔ آپ نے چہرے پر ایک مسکان، اور آنکھوں میں احترام لا کر بس سر ہلانا ہوتا ہے۔
یہ صورتحال مکالمے کے خلاف ہے، یہ وہ صورتحال ہے جس میں لوگ ایک فاصلے پر کھڑے ہیں، آپ کو گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ فریقِ دوئم صرف اپنی سنانا چاہتا ہے، مگر آپ کی سننے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے۔ یعنی ملحد و مومن کے درمیان سیر حاصل گفتگو کے مواقع ناپید ہو چکے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے علاوہ عام زندگی میں ملحدوں کو دن رات اسلام کی جھوٹی اچھائیاں اور تعریفیں سنا سکتے ہیں مگر ان کے نظریات سننے یا ان پر بات کرنے کا حوصلہ آپ میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس صورت میں ملحدوں کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے وہ ہے سوشل میڈیا پر بات کرنے کا، مگر صورتحال گھمبیر ہے، ملحد بھی مسلمانوں ہی سے نکلے ہیں، اور مسلمان ہمیشہ ہی سے مخالف نظریات کو گالی دینا ان کا تمسخر اڑانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور عام زندگی میں مسلمان اپنے ممالک میں مخالف یا مختلف نظریہ رکھنے والے ہر انسان کو اس قدر دیوار سے لگا چکے ہیں کہ لوگ اپنے نظریات ہی چھپانے لگے ہیں۔ لوگ منافقت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ خلیج انتہائی گہری اور انتہائی کشادہ ہو چکی ہے۔ اب ایک طرف کھڑے ہیں مسلمان اور دوسرے طرف کھڑے ہیں ملحد، اور نتیجہ ہے گالیاں دونوں جانب سے۔ ایک ملحد حقیقی زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات کے باعث اپنا غصہ اپنے اندر دبا کر رکھتا ہے، پھر سوشل میڈیا پر فیک آئی ڈی کے ذریعے وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے، اور جب خاموشی ٹوٹتی ہے تو بہت سے بہروپ بھرتی ہے، کوئی طنز کرتا ہے، کوئی تنقید کرتا ہے، کوئی گالی دیتا، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو جائز تنقید کرتے ہیں۔
مگر وہی خلیج، یعنی فاصلہ بہت زیادہ ہے، مسلمان مخالف کو جانتے ہی نہیں، اس کی فطرت کو سمجھتے ہی نہیں، اس لئے وہ تنقید، تضحیک اور گالی میں فرق بھی محسوس نہیں کر سکتے، بلکہ ہر تنقید کو گستاخی ہی سمجھتے ہیں۔ مسلمان دراصل مکالمے میں حصہ لینا ہی نہیں چاہتے۔ یہ کسی بھی بات کا منطقی جواب نہیں دینا چاہتے کیونکہ کسی کو گستاخ کہہ کر اس کا منہ بند کرانے میں کم محنت لگتی ہے۔ اسی طرح ملحدوں کے لئے بھی جائز تنقید کرنے سے میں زیادہ اور گالیاں دینے میں کم محنت لگتی ہے۔ یعنی خلیج بڑھ چکی ہے۔ مگر یہاں معاملات مسلمانوں کی وجہ سے بڑھے ہیں، کیونکہ مسلمان مکالمے اور تنقید کی اجات ہی نہیں دیتے۔ اور جب کسی کو یہ اجازت نہ دی جائے تو وہ ضرور شدت پسند ہو جائے گا۔
مگر توہین دراصل ہے کیا، ہر مخالف کے نظریات توہین ہوتے ہیں۔ مخالف آپ کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں، اس لئے وہ ان کی عزت نہیں کرتے، مسلمان ملحدوں کے نظریات کی عزت نہیں کرتے، اسی طرح ملحد بھی مسلمانوں کے نظریات کی عزت نہیں کرتے۔ مگر جب مکالمے کی فضا دستیاب ہی نہیں رہتی تو شخصی عزت بھی ختم ہو جاتی ہے، دونوں اطراف ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن جاتی ہیں، جس کے باعث لوگوں سے کی جانے والی نفرت نظریات کے خلاف نکلتی ہے۔ اور نتیجہ گالی ہوتا ہے۔ مگر کیا گالی دینا غلط ہے، جی بلکل غلط ہے، گالی دینا معاشرتی طور پر غلط ہے۔ مگر کیا گالی کے لئے کسی کی جان لی جا سکتی ہے؟ بلکل نہیں لی جا سکتی، ہر انسان کو اپنے نظریات اور اپنی سوچ کے مطابق زندہ رہنے کا حق ہے، الفاظ کا جواب پتھر نہیں ہوتے، الفاظ کا جواب الفاظ ہوتے ہیں، گالی کا جواب جاہل کی لغت میں گالی ہے مگر عالم کی لغت میں خاموشی یا دلیل ہے۔
ملحد کے نظریات کو گالی دو تو ملحد سنے گا، مسلم کے نظریات کو گالی دو تو مسلم قتل کرنے پر تیار ہے۔ جب مسلم قتل کرنے کو تیار ہے تو ملحد کبھی بھی مسلم کے نظریات یا اس کی شخصیت کی عزت نہیں کرے گا۔ آپ جس کی جان لینا چاہتے ہیں وہ آپ گو گالی ہی دے گا وہ آپ کو پھولوں کے ہار نہیں پہنا سکتا۔ ملحد مسلح جدوجہد نہیں کر رہے وہ پاکستان میں مومنین کی جارہیت کا بدلہ تلوار سے نہیں دے رہے، اس صورت میں گالی ہی رہ جاتی ہے۔ جب کسی کمزور کو مار پڑتی ہے تو بے اختیار اس کے منہ سے گالی نکلتی ہے۔ سامنے نہیں تو پیٹھ پیچھے نکلتی ہے۔ سوشل میڈیا بلکل پیٹھ پیچھے گالی دینے والی صورتحال ہے۔
مسلمانوں کو مکالمے کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے، اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ مخالف کو جان سے مارنے یا اس کو جان سے مارنے کے خوف میں مبتلا کر کے آپ اس کے نظریات نہیں بدل سکتے۔ آپ مکالمے کے مواقع کم کرتے جائیں، سوشل میڈیا اسلامی توہین کی آماجگاہ بنتا جائے گا۔ وقتاً فوقتاً اس رویے میں بدلاؤ دیکھنے کو ملے گا کبھی کمی آئے گی، کبھی بڑھے گا، مگر میری بات لکھ لیں اگر پاکستان میں مکالمے اور اسلامی تنقید کے لئے سازگار ماحول پیدا نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں توہین اور بدتمیزی کا وہ سونامی آئے گا کہ آپ سے تھامے نہ تھمے گا۔ سارا پاکستان ملحد نہیں ہو گا، مگر ملحدوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ابھی چند لاکھ ہے کل دس، بیس اور تیس لاکھ بھی ہو گی۔ دنیا میں کوئی ایسا نظریہ یا شخصیت نہیں جس کو گالی نہ پڑی ہوئی، جس پر تنقید نہ ہوئی ہو، مگر لوگ تنقید پر روتے نہیں اس کا جواب دیتے ہیں یا اس کو نظر انداز کرتے ہیں۔ کہاوت ہے چاند پر تھوکو تو تھوک اپنے منہ پر گرتا ہے، مسلمانوں کو فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کو چاند سمجھتے ہیں یہ تھوک۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top