علیاء المہدی نے سویڈن میں مصری سفارتخانے کے سامنے عریاں ہو کر صدر مرسی کے شرعی دستور کے خلاف احتجاج کیا، وہ پہلے بھی عریاں ہوکر مصر کے سماجی ڈھانچے کو چیلنج کر چکی تھی، اس کے بعد تو گویا عرب میڈیا میں اس کے خلاف پوری ایک مہم شروع ہوگئی اور سیاسی اسلام کی طاقتوں کے ساتھ جنگ میں جسم کی زبان استعمال کرنے پر اس کا مذاق بنایا گیا.
سیاسی اسلام کے گروہوں نے اس کے عریاں ہونے کو صدر مرسی کے دستور کے حق میں استعمال کیا اور لوگوں کو اکسایا کہ وہ دستور کے حق میں ووٹ دیں، تاہم عرب دنیا کے مثقفین کی تنقید کم الزام تراشیاں سمجھ سے بالا تر ہیں، اگر یہ حضرات آزادی کے دعوے دار ہیں تو اس نے جو کچھ کیا وہ عین آزادی ہے کہ آزادی کی کوئی حدود نہیں ما سوائے اس کے کہ اس آزادی سے دوسروں کی آزادی متاثر نہ ہو، اور عریاں ہوکر اس نے کسی کی آزادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے، اگر کسی کو اسے عریاں دیکھ کر تکلیف ہوئی ہے تو وہ اس کی تصاویر نہ دیکھنے میں آزاد ہے بالکل کہ جس طرح وہ اپنا جسم دکھانے میں آزاد ہے، وہ ایک آزاد عورت ہے اور اپنے جسم کی خود مالک ہے، اس کا جسم نا تو اس کے والد کی ملکیت ہے، نہ معاشرے کی، نہ اس کے دوست کریم کی، اور نا ہی وڈی وڈی داڑھیوں والے ملاؤوں کی اور نا ہی مذاق اڑانے والے مثقفین کی.
اب اگر اعتراض اس بات پر ہے کہ اس کے عریاں ہونے سے لوگوں نے دستور کے حق میں ووٹ دیا اور ریفرنڈم کے نتائج بدل گئے تو اس پر میں یہی کہوں گا کہ ایسے لوگ بھاڑ میں جائیں جو اپنے دستور کا فیصلہ ایک عورت کا جسم دیکھ کر بدل لیتے ہیں، ان لوگوں کو اگر اپنی قومی مصلحت عورت کی شرمگاہ میں نظر آتی ہے تو وہی تنہا اس کی قیمت بھی ادا کریں گے.
رہی بات اس کی ملالہ یوسف زئی سے موازنہ کرنے کی تو ہر ایک کا انکار کرنے کا اپنا انداز، طریقہ اور ثقافتی پس منظر ہے، دونوں نے ہی معاشرے کی تھوپی ہوئی چیزوں کو مسترد کیا اور دونوں نے ہی اس کا اظہار اپنے اپنے طریقے سے کیا اور جو انہیں لگا کہ یہ مؤثر ہے، علیاء ملالہ کی طرح یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں سکول ضرور جاؤں گی یا قتل کی دھمکیوں کے با وجود میں اپنی تعلیم مکمل کروں گی کیونکہ کسی نے اسے پڑھنے سے نہیں روکا مگر چونکہ اس کے معاشرے میں جنسی ایذاء رسانی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے جس سے نا تو با حجاب اور نا ہی بے حجاب عورتیں بچی ہوئی ہیں اور جہاں مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھرپور طور پر استعمال کیا جاتا ہے لہذا اس نے اس پر احتجاج اسی پس منظر میں عریاں ہوکر کیا.
ملالہ کا مسئلہ تعلیم تھا جس پر اس نے اسی مناسبت سے احتجاج کیا اور بھرپور جواب دیا، در حقیقت دونوں بچیوں نے اپنے مقام، معاشرے اور مسئلے کے حساب سے اپنے اپنے طریقے سے مناسب احتجاج کیا چنانچہ مسئلے اور حالات کے فرق کی وجہ سے ان دونوں کا آپس میں موازنہ کوئی معنی نہیں رکھتا.
میرے حساب سے دونوں ہی بہادر اور قابلِ احترام ہیں، تاہم علیاء المہدی کا احتجاج اس امت کے جاہلوں اور پڑھے لکھوں دونوں کے لیے بالکل نیا تھا.
سویڈن میں احتجاج کیا تو کیا
مزا تو تب ہے نا جب مصر میں جا کر یہ کارنامہ انجام دے ۔ کیوں جی
Masha-allah, badi bhadur bacchiyaan hain bhai..
Actually whenever a muslim man sees a woman appriciated by the world ,especially a muslim woman he thinks his religion is under attack . The Muslims feel very insecurie when a girl or woman challenges them and their religion. And it is very easy for them to assasain her character which is a significant teachings of their religion
.