Close

مدینہ کی ریاست ــ حصہ سوم

حضرت عثمان کا دور

مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ جب عمر مدفون ہوئے،تو میں حضرت علی کے پاس آیا۔آپ غسل کر کے اس طرح کی پوشاک پہنے ہوئے تھے، لگتا تھا، انہیں یقین ہے، کہ وہ خلیفہ بنائے جائیں گے۔ حضرت عمر نے کوئی جانشین مقرر نہیں کیا تھا، البتہ ایک مجلس شوریٰ بنا دی تھی۔جس کو کہا گیا تھا، کہ ان کی وفات کے تین دن تک کوئی نئے خلیفہ کا کثرت رائے سے فیصلہ کرلیں۔طبری لکھتا ہے۔ کہ حضرت عمر نے حضرت صہیب سے کہا، جب علی، عثمان، زبیر، عبدالرحمان، طلحہ، سعد، اکٹھے ہو جائیں، تم ان کے سر پر کھڑے ہو جانا، اگر پانچ متفق ہوں، اور ایک اختلاف کرے، تم اس کا سر تلوار سے پاش پاش کر دینا۔ اوراگر چار متفق ہوں، تو باقی دونوں کی گردنیں اڑا دینا۔ اگر تین متفق ہوں،تو عبداللہ بن عمر کو ثالث بنانا۔ اور جو متفقہ فیصلے سے انحراف کرے، ان کو قتل کرا دینا۔

اسلامی طرزِ انتخاب

آج کل اسلامی احیاء پسند، خلافت راشدہ کے ابتدائی دور کو آج کے مروجہ جمہوری نظام کے مماثل قرار دیتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ’اسلامی جمہوریت‘ میں اپوزیشن کی کوئی گنجائش نہ تھی، پہلے خلیفہ کے وقت بھی زبردستی بیعت کروائی گئی تھی،اسلام میں کسی سیاسی نظام کا کوئی خاکہ نہیں۔ وہ قبائلی معاشرت کے لوگ تھے، امیر کے چننے کیلئے بیعت کا طریقہ قبل اسلام سے تھا۔ بعد از اسلام بھی کسی نے خلافت کا استحقاق، تقویٰ اور نیکی کی بنیاد پر نہیں مانگا، بلکہ رسول سے قرابت، یا قبائلی برتری کی بنیاد پر جتایا گیا۔ حضرت عمر کی وفات کے چوتھے روز نماز فجر کے وقت انصار و مہاجرین اور امراء لشکر اکٹھے ہوئے۔ وہاں ایک دوسرے کے خلاف تلخ کلامی شروع ہو گئی، بنو امیہ اور بنو ہاشم کے درمیاں تکرار ہونے لگی، قرابت داری کی بنیاد پر ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے لگے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف نے حضرت عثمان کے ہاتھ بیعت کر لی، جو کہ حضرت عثمان کے رشتے دار تھے۔ حضرت علی نے اس پر اعتراض کیا، تو عبدالرحمان نے فرمایا، علی تم مخالفانہ حیل و حجت نہ کرو، میں نے غور و فکر سے فیصلہ کیا ہے۔ تمام روایات اس پر شاہد ہیں کہ جانشینی کا فیصلہ خوشگوار ماحول میں نہیں ہوا تھا، اور مبینہ طور پر علی یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ “اس اجتماع کے بعد تلواریں بے نیام ہونگی، اور امانت میں خیانت ہوگی”۔ حضرت عمر نے جو مجلس شوری مقرر کی تھی، اس میں کوئی انصاری صحابی شامل نہیں تھا۔حضرت عثمان کا تعلق بنو امیہ سے تھا۔ اسلام قبائلی عصبیت کا خاتمہ کرنے میں میں کامیاب نہ ہو سکا۔

حضرت عثمان کا طرزِ خلافت

حضرت عثمان نے خلیفہ بنتے ہی مقربین کو مقرر کردہ وظائف کے علاوہ ان کیلئے انعام و اکرام جاری کر دیئے۔ حضرت زبیر کو چھ لاکھ اور حضرت طلحہ کو دو لاکھ درہم دیئے۔ اور وہ قرض بھی معاف کر دیئے، جو انہوں نے حضرت عثمان سے لئے تھے۔ حضرت عمر نے قریش کے لوگوں پر پابندی لگائی ہوئی تھی کہ مدینے سے باہر اسلامی مفتوحہ علاقوں میں نہیں جا سکتے، انہیں خدشہ تھا صحابہ کرام ان کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا نہ کر دیں۔ حضرت عمر کا خیال تھا حضور اکرم کی ساتھ قرابتداری کے لحاظ سے ان کے جو وظیفے مقرر ہیں، وہ ان کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ لیکن حضرت عثمان نے نقل و حرکت کی پابندی ہٹا لی اور قریش قبیلے کے لوگ نئی سلطنت کی وسعتوں میں پھیل گئے۔

اب ان صحابہ کرام نے اپنے پیسے کو تجارت میں لگا کر اسے مزید دوگنا کر نا شروع کر دیا، یعنی مدینے میں بھی امراء کا ایک نیا طبقہ تشکیل پانے لگا جسے قریش ارسٹو کریسی (Aristocracy)کہہ سکتے ہیں۔ ان صحابہ کرام نے پیغمبر اسلام کے ساتھ اپنی قبائلی قرابت داری کا خوب استعمال کیا اور مختلف شہروں میں بڑی بڑی ملکیتیں اور جائدادیں بنا لیں۔ لوگ بھی اس لالچ میں ان کے قریب ہو گئے کہ آئندہ یہ خلیفہ بھی بن سکتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر دنیاوی متاع کے طلب گار تھے، ثواب و آخرت کے کم۔

حضرت عثمان کے دور میں مصر اور شمالی افریقہ کے علاقوں پر چڑھائی کی گئی اور ان کو فتح کر لیا گیا۔ حضرت عثمان نے کوفہ میں بنو امیہ کے دباؤ کے تحت سعد بن ابی وقاص کو معزول کیا اور ولید بن عقبہ کو یمنی قبائل کی مخالفت کی وجہ سے گورنری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یعنی کوفہ شہر کا طرز زندگی قبائلی نہیں تھا، وہاں اسلامی اتحاد نام کی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ کوفہ میں ان بنیادوں پر فتنہ و فساد ابھرنے شروع ہو گئے کہ مفتوحہ علاقوں کی زمینوں اور دولت پر کن کا قبضہ ہونا چاہئے؟ مقامی اور فاتحین کے درمیان کیا تعلقات ہونے چاہئیں؟

حضرت عمر نے مفتوحہ علاقوں کی زمینوں پر عربوں کے قبضہ کی مخالفت کی تھی۔ وہ مقامی لوگوں کے پاس چھوڑ دی تھی تاکہ ان کی آمدنی خراج کی صورت میں بیت المال میں جمع ہو کر عام مسلمانوں کے کام آتی رہے۔ لیکن حضرت عثمان نے اہل حجاز اور عام عربوں کو مفتوحہ علاقوں میں جا کر زمینیں خریدنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حجاز کے کئی صحابہ کرام بڑی بڑی منقولہ اور غیر منقولہ املاک کے مالک بن گئے۔ انہوں نے سر سبز و شاداب او ر زرخیز زمینیں خرید لیں۔ جس سے عراق اور دوسرے علاقوں میں بڑی بڑی جاگیریں وجود میں آگئیں۔ جبکہ دوسری طرف غلام، مزدور اور موالی طبقات میں اضافہ ہو گیا۔ عرب معاشرہ کچھ اس طرح کے طبقات میں تقسیم ہو گیا۔ فاتح عرب، مفتوح عجمی، قریش سرمایہ دار اور جاگیر دار، کھیت مزدور اور چھوٹے مالکان اراضی۔ بے زمین عرب بدو اور شہروں کا چھوٹا درمیانہ طبقہ۔

زراندوزی کے مسئلے پر ہی حضرت ابو زر غفاری کا شام کے گورنر معاویہ سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے دولت مند وں کے خلاف اور غریبوں کی حمایت میں تقریر کی۔ جس پر معاویہ نے حضرت عثمان کو لکھا کہ ابو ذر غفاری میرے لئے مشکلا ت پیدا کر رہا ہے۔ خلیفہ عثمان نے جواب میں لکھ بھیجا کہ ابو ذر غفاری کے ساتھ نرمی برتو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔۔حضرت ابو ذر کی حضرت عثمان کے ساتھ دولت کی بے جا تقسیم پر کئی بار تلخ کلامی ہوتی رہی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے، کہ عہد عثمانی میں اسلامی مملکت میں طبقاتی تضاد کس قدر شدید ہو گیا تھا۔ حضرت عثمان پر کنبہ پروری کے الزامات عائد ہوتے رہے۔

حقیقتاً اسی دور میں سنتِ رسول اور عترتِ رسول کو بنیاد بنا کر امت مسلمہ دو فریقوں میں بٹنے لگی تھی۔ اہل سنت و جماعت کے علماء حبِ اہل بیت کے معاملے کو ایک یہودی نو مسلم عبداللہ بن سبا کی گھڑی سازش قرار دیتے ہیں۔ وہ بصرے اور کوفے میں جاکر تقریریں اور پروپیگنڈا کرتا تھا کہ اے مسلمانو! تمہارے درمیان آلِ رسول موجود ہے اور تم ان کو خلیفہ نہیں بناتے۔ ڈاکٹر طہ حسین ابن سبا کی اس داستان کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔

حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ان کے پاس ایک لاکھ دینار اور دس لاکھ درہم تھے۔ کئی جاگیریں تھی، بے شمار اونٹ اور گھوڑے تھے۔ زبیر نے ترکے میں پچاس ہزار دینار، ایک ہزار گھوڑے اور ہزار لونڈیاں چھوڑیں تھی۔ طلحہ کی عراق سے غلہ کی تجارت سے یومیہ آمدنی ایک ہزار دینار تھی۔ عبدالرحمان کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے، ہزار اونٹ، دس ہزار بکریاں، چوراسی ہزار دینار موجود تھے۔ زید بن ثابت نے ایک لاکھ دینار کی جاگیر کے علاوہ سونے چاندی کی اینٹیں چھوڑیں۔ ان کے بصرہ، کوفہ، اسکندریہ، مصر میں بڑے بڑے مکانات تھے۔

جرات تحقیق

یہ تھی صحابہ کرام پر مشتمل وہ حکمران اشرافیہ، جو ابتداء میں دولت سے نفرت کرتے تھے، وہی مال و زر جمع کرنے کے شوقین ہو گئے۔ مساوات محمدی کی ساری مثالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اور ان پر انسانی فطرت و جبلت غالب آ گئی۔ اس طرح کے واقعات بھی ہوئے کہ خمس بیت المال میں جمع کرانے کے بجائے اسے خرد برد کر دیا گیا۔ اور رشتے داروں کو جی بھر کر مال و زر جمع کرنے کا موقع دیا گیا۔ اپنے لوگوں میں بلا استحقاق زمینیں الاٹ کی جاتی رہیں۔ قبائلی معیشت و معاشرت کا جاگیرداری معیشت و معاشرت میں ڈھلنا ایک تاریخی عمل تھا۔ فتوحات، خونریزی، اور استبدادیت تاریخی عمل کے لازمی اجزاء تھے۔ ان کے کردار میں دین اسلام کا نہ کوئی رول ملتا ہے، نہ کوئی عمل دخل۔ اسلام کی “مثالی اقدار” جو آج لوگوں کو سنائی جاتی ہیں، خیالوں کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی۔

مشاجراتِ صحابہ

حضرت عثمان کا قتل اور حضرت علی و دیگر صحابہ سے مناقشہ کے بارے میں جب ہم تاریخ اسلام پڑھتے ہیں، تو صحابہ کرام کے درمیان ایسے افسوسناک واقعات اور ایک دوسرے کے بارے میں کہے گئے ایسے کلمات ملتے ہیں،جن کے بارے میں عام مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتے۔ صحابۂ کرام میں باہمی نفاق کی یہ حالت تھی، تو عام مسلمانوں کے رویوں میں کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ حضرت علی، حضرت عثمان پر کنبہ پروری کا الزام لگاتے رہے۔ اور عثمان سمجھتے تھے کہ حضرت علی مفسدین کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان کا موقف تھا کہ ان سے پہلے کے دو بزرگوں (ابو بکر اور عمر) نے بنظرِ احتساب اپنے قرابت داروں کو فائدے نہ پہنچائے۔ “حالانکہ رسول اللہ اپنے قرابت داروں کا خیال رکھا کرتے تھے اور ان کی مدد کیا کرتے تھے”۔ عبداللہ بن مسعود ایک صحابی تھے، وہ بھی حضرت عثمان کی طرز حکومت پر سخت نقطہ چینی کرتے تھے۔ ایک دن جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے، تو عثمان منبر رسول پر خطبہ دے رہے تھے۔تو حضرت عثمان نے کہا، ’’ لوگو! تمھارے پاس ایک چھوٹا سا رینگنے والا جانور آیا ہے۔ حضرت عائشہ نے آواز دی، اے عثمان! آپ رسول اللہ کے مصاحب کو ایسا کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عثمان کے کہنے پر عبداللہ بن مسعود کو نہ صرف زبردستی مسجد سے نکال دیا گیا، بلکہ زدو کوب بھی کیاگیا جس سے ان کی پسلی ٹوٹ گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت علی کھڑے ہوگے، اور عثمان کی اس حرکت پر ملامت کی۔

اسی طرح ایک بار حضرت عمار بن یاسر نے حضرت عثمان کی اقرباء پر وری پر مذمت کی۔ جب انہوں نے بیت المال سے ایک ہیرا نکال کر اپنے خاندان میں سے کسی کو دے دیا۔ حضرت عثمان نے اسے اتنا پیٹا، کہ وہ بے ہوش ہوگئے۔ لوگ انہیں اٹھا کر امّ المومنین امّ سلمہ کے گھر لے آئے۔ایک اور موقعے پر بھی حضرت عثمان نے حضرت عمار کو گالیاں دیں، لاتیں ماریں جب کہ وہ بوڑھے اور ضعیف تھے۔

امیر معاویہ سات سال تک شام، لبنان، فلسطین کے حکمران ہونے کی وجہ سے طاقتور اور ایک کامیاب حکمران تھا اور ان میں خود خلیفہ بننے کی خواہش پیدا ہو جانا فطری تھی۔ معاویہ بہت اچھا منتظم تھا۔ اس نے نظم و ضبط بھی اچھی طرح قائم کر رکھا تھا۔

شہادت حضرت عثمان

حضرت عثمان کا انجام یوں ہوا کہ کچھ مصری بلوائی حضرت عثمان کی خلافت کے خلاف مدینے میں آگئے، انہوں نے حضرت علی، طلحہ، اور زبیر کی مدد چاہی، لیکن انہوں نے بلوائیوں کی عثمان کے خلاف کسی حرکت کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن بلوائیوں نے مدینے کی گلیوں میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا اور خیمہ زن ہوگئے۔ حضرت عثمان نے مختلف شہروں میں امداد کے لئے خطوط بھیجے۔ اور منبر پر چڑھ کر مصری باغیوں کے خلاف سخت زبان میں تقریر کی۔ اس پر دو طرفہ ہنگامہ بڑھ گیا، لوگوں نے ایک دوسرے پر پتھر مارنے شروع کر دیئے۔ حضرت عثمان بھی سنگباری کی زد میں آگئے اور وہ بے ہوش کر منبر سے گر پڑے۔ ان کا محاصرہ چالیس دن برقرار رہا۔ اس دوران قتل و غارت بھی ہوتا رہا۔بنو امیہ نے حضرت علی پر الزام لگایا کہ سب کچھ اس نے کروایا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ مصری بلوائی واپس چلے گئے تھے کہ راستے میں انہوں نے حضرت عثمان کے ایک جاسوس کو پکڑ لیا، جس پاس ایک خط تھا، جس میں مصر کے حاکم کو لکھا تھا، کہ وہ مصر پہنچنے پر ان بلوائیوں کو قتل کر دے۔ چنانچہ مذکورہ بلوائی غصہ کے مارے پھر مدینہ واپس حضرت عثمان کے پاس آگئے، حضرت عثمان نے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی خط نہیں لکھا۔ میرے خلاف دو مسلمان گواہ لے کر آو۔ بحث و تکرار چلتا رہا۔ حضرت عثمان نے کہا کہ “اگر میں تمھاری مرضی کے مطابق کام اور تقرریاں کروں، تو میری حثیت باقی نہیں رہے گی”۔ حضرت عثمان نے دستبردار ہونے سے بھی انکار کر دیا۔

واقعہ کے مطابق محمد بن ابو بکر تیرہ افراد کے ساتھ حضرت عثمان کے گھر گھسے۔ محمد بن ابوبکر نے عثمان کی داڑھی پکڑ لی اور کہنے لگے معاویہ نے تم کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ حضرت عثمان نے کہا اے میرے بھتیجے! میری داڑھی چھوڑ دے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے دیکھا انہوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا، جو بھالا لے کر گیا اور ان کا سر پھوڑ ڈالا، اور پھر سب لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو قتل کر دیا۔ “حضرت عثمان کی زوجہ نائلہ درمیان میں حائل ہوئیں، لیکن سودان کی تلوار سے ان کی انگلیاں نصف ہتھیلی کے ساتھ کٹ کر دور جا گریں اور پھر اس نے ایک اور وار کر کے خلیفہ کی گردن تن سے جدا کر دی۔ اس کے بعد بلوائیوں نے گھر کا سارا مال و متاع لوٹ لیا، اور مدینہ میں ان کے قتل کا اعلان کر دیا۔ باغیوں نے قتل کرنے کے بعد ان کو دفنانے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔ بڑی مشکل سے رات کو چھپ کر چند لوگوں نے حضرت عثمان کو دفنایا تھا۔حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ بائیس روز رہا اور وہ 2 مئی 656ء کو قتل ہوئے۔

یہ ہے، وہ اسلام کا سیاسی نظام اور مدینے کی ریاست جسے آج کی مسلمان نسلوں کو سنہرے دور کے طور پر پیش کرکے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ان مولویوں سے جب پوچھیں گے، تو وہ کسی ایک فرد یا کچھ افراد پر الزام دھر دیں گے۔ حالانکہ ان واقعات میں کسی طرح کا بھی کوئی اخلاقی معیار، چھوٹے بڑے کی تمیز، کوئی تہذیب کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ اور یہ سب وہ لوگ تھے، جو پیغمبر اسلام کی صحبت میں رہ چکے تھے اور ان سے تربیت پا چکے تھے۔

27 Comments

  1. محترم ارشد محمود صاحب ! آپ نے یہ پوسٹ 2013 میں لکھی ھے مگر ابھی تک کسی نے کوی تبصرہ نھیں کیا – میرے خیال میں اس کی وجہ صرف یہ ھے کہ آپ نے ایسا لکھا ھے جیسے کسی ملک کا سفر نامہ لکھا جاتا ھے -ایک سیاح کسی ملک کے سفر پر جاتا ھے اور واپسی پر جو دل میں آے لکھ لیتا ھے – تصدیق کرنے کرانے کی ضرورت نھیں ھوتی- بھای آپ ایک ایسے دین کی رد کر رھے ھو جو 1450 سو سال سے چلا آرھا ھے – اگر آپ کسی حدیث یا تاریخ کا حوالہ دیتے تو شاید پڑھنے والا بھی کوی دلچسپی لیتا- کسی کا رد کرنا ھے تو کم از کم کسی کتاب کا حوالہ تو دو ؟

      1. پہلی بات تو یہ بتادیں کہ کیا یہ سارہ واقعہ (جتنا ارشد محمود نے لکھا) اول سے آخر تک طبری میں موجود ھے ؟ دوسری بات یہ کہ اگر تاریخ طبری میں ایک بات سند کے ساتھ لکھی ھے تو آپ سند کا حوالہ دیں بجاے طبری کے- پوری امت اس بات پر متفق ھے کہ طبری میں بہت ساری ایسی باتیں لکھی ھے جن کا کوی سر پیر نھیں -آپ کسی چیز کو ثابت کرنا چاھے تو اپنے آپ سے توکم سے کم مخلص رھیں – کتنے ہی واقعات ھے جو احادیث میں موجود ھے آپ ان کا حوالہ دیں تو اس سے کسی کو انکار کی گنجایش نھیں – مثال کے طور پر جب حضرت ولید نے شراب پی کر نماز پڑھای تو حضرت عثمان نے انھیں 40 کوڑوں مارے -یہ واقعہ بخاری میں موجود ھے- اس سے ذھن میں سوال اتا ھے کہ یہ کیسے لوگ تھے جو شراب کے نشے میں نماز پڑھاتے تھے- شاید میں آپ کو اپنا مطلب سمجھا سکوں میرا مطلب یہ ھے کہ آپ جو بات کریں حوالہ کے ساتھ کریں اور حوالہ ایسا ھو جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قابل قبول ھو ؟

        1. یہ کون سی امت ہے جس کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طبری مین بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں، امید ہے کہ آپ اس ”اتفاق رائے“ کو مکمل حوالے کے ساتھ درج فرمائیں گے۔ طبری صرف مؤرخ نہیں ہیں، بلکہ ان کا شمار اسلام کے مایہ ناز محدثین اور مفسرین میں ہوتا ہے، اگر طبری جیسے متبحر عالم بھی اپنی تصانیف میں بھی ایسی روایات درج کریں کہ جن کا کوئی سر پیر نہیں پھر تو طبری کے عالم دین ہونے پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے، اس بات پر ذرا غور فرمایئے گا۔ فرق ملحوظ رکھئے کہ صحاح ستہ احادیث کی کتابیں ہیں، تاریخ کی نہیں۔

  2. آپ نے میرا پھلا سوال گول کر دیا میرا کمنٹ دوبارہ پڑہ لیں -طبری نے اپنی طور پر ایک کاوش کی ھے – وہ ایک عالم تھے اس سے بھی کوی انکار نھیں- ان سب چیزوں کے علاوہ وہ ایک انسان بھی تھے- ان سے اگر کوی غلطی ھوی یا انھوں نے بغیر تحقیق کیے کوی بات لکھی تو ان کی ذات کو نشانہ بنانے کی بجاے ھمیں اس بات کی تحقیق کرنی چایے اگر ثابت ھوجاے تو صحیح ورنہ غلط- آپ اور ھم سب جانتے ھیں کہ اسلام کا منمبع قرآن اور احادیث ھیں پھر احادیث میں جو مقام بخاری و مسلم کاھے کسی سے پوشیدہ نھیں اس کے بعد ابو داود ‘نسای ‘ ابن ماجہ وغیرہ وغیرہ – لیکن سب مانتے ھیں کہ صحیحین کے علاوہ حدیث کے ہر کتاب میں موضوع ‘منکر ‘ضعیف احادیث موجود ھیں- ایسے میں اگر آپ کسی حدیث کا حوالہ دیں اور وہ صحیح نہ ھو تو یہ کوی حوالہ نھیں مانا جاے گا -اب آپ اس سے بھی کم معیار پر آجایں تو وہ کسی عالم کی لکھی ھوی کتاب کی ھے اس کتاب میں اگر وہ عالم کسی قرآنی آیت یاصحیح حدیث کا حوالہ دیتا ھے تو قابل قبول ورنہ رد کیا جاے گا- ایسے میں میری آپ سے گزارش ھے کہ بجاے آپ اس عالم کی کتاب کا نام لکھ کر فارغ ھوجاے آپ وہ حوالہ لکھیں جو اس عالم نے اپنے کتاب میں نقل کی ھے —— باقی آپ نے پوچھا ھے کہ وہ کونسی امت ھے جو طبری کی بہت سی باتوں کو نھیں مانتا تو میری معلومات کی حد تک کراچی میں موجود ‘جماعت توحید’ حزب اللہ ‘ جماعت المسلمین اور اھلحدیث کے لوگ طبری کی باتوں کو حرف آخر نھیں مانتے بلکہ تحقیق کرنے کے بعد صحیح یا غلط مانتے ھیں اور بھی کچھ جماعتیں ھوںگی میں نے اپنی معلومات کی حد تک ذکر کیا —- آخری گزارش ھے کسی کی کمنٹ کا مشتعل ھو کر جواب نہ دیں کیوںکہ آپ بقول خود اے ون گریڈ میں درس نظامی سے تمعہ لے چکے ھیں اور انتہای گہرای سے مذھب اسلام کا جایزہ لیا ھے تو جس آدمی میں اتنی کوالیٹیز ھو اسے کسی کمنٹ سے مشتعل ھو کر جواب دینا اچھا نھیں لگتا ھے

    1. سلام نثار صاحب
      جناب نظامی صاحب نے میرے ایک سوال کا جواب ابھی تک نہیں دیا الٹا مجھے سوال کردیا.
      آپ نے بجا لکھا ہے کہ جب نظامی صاحب سے جواب نہ بن پاۓ تو بات کو گول کرنے کا ہنر استعمال کرتے ہیں.

      1. وعلیکم السلام افتخار صاحب ! قرآن اگر کسی جگہ کفار سے بات کرتا ھے تو کہتا ھے قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ – اس کامطلب ھے کہ اگر کوی دلیل کے ساتھ بات کریں تو ھمیں سننا چاھیے – نظامی صاحب سے میں یہی کہنا چاھتا تھا کہ ارشد محمود نے اتنا کچھ لکھا مگر حوالہ کوی نھیں آپ صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ھیں کہ یہ طبری میں آیا ھے – بلکہ ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ اگر کوی بخاری و مسلم کی حدیث بھی بیان کریں تو باب ‘جلد ‘ حدیث نمبر دینا چاھیے تاکہ بندہ حوالہ دیکھ سکے

        1. خود ساختہ علمی سائیٹ کے تمام لکھاریوں اور قاریوں کا اداب بجالاتا ہوں.
          جناب نثار صاحب آپ کی عمر کا تعین نہ ہونے پر بھائ کہنے پر ہی اکتفا کروں گا.
          میرے کچھ بھائیوں,بچوں جیسے دوستوں نے اس سائیٹ کے خلاف میرے اشتہار پڑھ کر ان لوگوں کی بہت تحقیر کی جس پر بندہ ناخواندہ بنام عاطف و افتخار وغیرہ کو باز رہنے اور ان کی تحریروں کا مطالعہ کرنے سے اجتناب کی تلقین کرتا رہا .
          میں بھی بھول کر ان کو بیکار آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا رہا اور آخر میں ان لوگوں سے معﺫرت کرلی .
          ایک برخوردار افتخار نے مجھے مجبور کیا کہ کوئ نثار نامی صاحب کے پاس شفاف قسم کاآئینہ ہے جو ان حضرات کا اصلی چہرہ دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے , آپ ایک بار نثارصاحب کے کمنٹس ضرور پڑھ لیں .
          ناچاہتے ہوۓ بھی بچے کے اصرار پر میری گزارش ہے کہ ان حضرات کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور جو ضمیر کو درست لگے اس پر عمل پیرا رہیں.
          رہی بخاری شرہف کے حوالہ جات کی بات تو ان کے ایک مضمون بنو قریضہ کے قتل کی بارے میں بخاری کی ایک حدیث کوجس کا حوالہ مجھے یاد نہیں کی تحقیق کرنے پر حدیث کی کتاب میں موجود پایا. جس میں لکھا ہوا ہے کہ جبرآئیل فرشتہ نبی صلعم کے پاس آیا ,سر خاک آلود تھا اور ہاتھ میں کدال تھی اور یہ کہ یہودیوں کے قتل پر مصر تھا.
          اس حدیث کو پڑھنے پر مجھے سید سلمان ندوی صاحب کی ایک تحریر یاد آگئ جس میں لکھا تھا کہ بہت ساری حدیثیں من گھڑت بھی ہیں جسے مسلمانوں نے نۓ سرے سے مرتب کرتے ہوۓ من و عن تحریر کردیا ہے کہ کہیں گنہگار ہی نہ ہو جائیں. جس میں غور کرنے والے متشکک ہوجاتے ہیں.
          رہے قرآن کے حوالہ جات تو یہ حضرات جب خدا کا ہی انکار کرتے ہیں تو رسول صلعم یا قرآن و حدیث کو کیونکر اہمیت دیں گے.

    2. 1- آپ کے پہلے سوال کا جواب میں دے چکا ہوں کہ ارشد صاحب کی یہ تحریر تاریخ طبری کے مطالعے پر مبنی ہے۔
      2- بالکل جس طرح طبری انسان تھے، بالکل اسی طرح ہی بخاری و مسلم بھی طبری ہی کی طرح انسان تھے۔
      3- ہمارے لئے اعتراض کرنے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ عالمِ اسلام میں مستند قرار دی جانے والی کتابوں میں یہ واقعات مذکور ہیں۔ کسی غیر مسلم کو بھلا کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کے رجال کے گورکھ دھندے میں ہاتھ کالے کرے۔
      4- ”اتفاقِ رائے“ والی بات پر آپ کا جو جواب ہے اس پر سوائے ہنسنے کے اور کوئی تبصرہ بے کار ہے کہ اگر جناب کے نزدیک ”اجماعِ امت“ سے کراچی کی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے لوگوں اتفاق، امت کا اتفاق رائے ہے تو اس پر ہنسنے کے سوا اور کوئی تبصرہ ممکن ہی نہیں ہے۔
      5- مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو میرے جواب میں اشتعال کہاں نظر آ گیا۔

  3. آپ سے اس جواب کی توقع نہ تھی ۔ طبری کی طرح کی تفاسیر کے حوالے کے بارے میں یہ کہنا کہ کہ” ارشد صاحب کی یہ تحریر تاریخ طبری کے مطالعے پر مبنی ہے۔” کیا خوب حوالہ ھے یعنی طبری کی 7 جلدوں کی سٹڈی کرنے کے بعد پتہ چلے گا کہ ارشد صاحب نے صحیح لکھا ھے یا غلط ؟ اس کے بجاے وہ جلد نمبر صحفہ نمبر دے سکتے تھے- دوسری بات یہ کہ آپ طبری اور بخاری کو ایک لیول کے لوگ نہ کہے – ابن جریر طبری ایک تاریخ داں تھے جبکہ امام بخاری محدث تھے دونوں کی حیثیت میں بڑا فرق ھیں -باقی میرے جواب پر آپ کو ھنسی آرھی ھے تو ھنسنے پر کوی پابندی نھیں – میں تو صرف یہ چاھتاتھا کہ کسی تاریخ داں کے کتاب کے بجاے آپ وہ حوالہ دیں جہاں سے یہ واقعہ اس تاریخ داں نے نقل کیا ھے تو یہ بہتر ھوتا کیونکہ اسلام کا منمبع قرآن و حدیث ھیں اس کے علاوہ اگر آپ تاریخ کی کتاب کا واقعہ بطور ثبوت دیتے ھیں تو میرے جیسے لوگوں کے نزدیک اس کی کوی اھمیت نھیں ھے

    1. ضروری نہیں ہوتا کہ ہر جواب توقع کے مطابق ہی ہو، ہم پر ذمہ داری صرف اس صورت عائد ہوتی ہے کہ تحریر میں مذکور کوئی بات اسلامی کتابوں میں درج نہ ہو۔ تاریخ طبری سے واقف شخص کو ضرورت نہیں ہے کہ وہ طبری کی تمام جلدیں کنگھالے۔

  4. اب آپ کے اس جواب سے اپ کی وہ اےون ڈگری میری نظر میں مشکوک ھو گیی جو اپ نے وفاق المدارس العربیہ سے لی ھے – بہرحال میرا خیال غلط تھا میں سمجھ رھا تھا کہ بحث سے ھم کسی نتیجہ پر پہنچ جاینگے – میری باتیں یقینا آپ کو بری لگی ھوگی معافی چاھتا ھوں

  5. نھیں بھای آپ اپنی ڈگری (جس کی اگر واقعی کوی حقیقت ھے) مجھ سے کیوں تصدیق کرواینگے ؟ میں نے تو صرف اس لیے کہا کہ آپ نے خود ھی اپنے آپ کو ھای لایٹ کیا ھے ” اور درجہٴ ممتاز ﴿اے ون گریڈ﴾ میں وفاق المدارس العربیة سے الشھادة العالمیة ﴿ماسٹرز ان اسلامک اسٹڈیز اینڈ عربیک﴾ حاصل کی۔ مذہب اسلام کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کیا،”
    اس پیرگراف کو کوی بھی پڑھے گا یہی سمجھے گا
    باقی آپ نے جو عربی ضرب المثل پیش کی ھے یہ اس بات کا ثبوت ھے کہ آپ اپنے آپ کو بہت بڑی چیز اور دوسروں کو نا سمجھ مانتے ھیں
    آخری گزارش یہ ھے کہ آپ نے ایک سایٹ بنای ھے جس پر آپ ساری دنیا کے تمام مذاھب اور اللہ کا انکار کرتے ھیں -یہ بہت بڑی بات ھے -آپ پر لوگ تنقید کرینگے ‘آپ سے لوگ حوالے مانگینگے آپ سے بحث مباحثہ کریں گے اگر آپ میں یہ سب برداشت کرنے کی ھمت نھیں تو یہ سب لاحاصل ھیں- سوری دوبارہ کمنٹ کرنے کی گستاخی نھیں کروں گا –

    1. آپ کوئی نیا کیس نہیں ہیں، یہ صورت حال اکثر و بیشتر پیش آتی رہتی ہے۔ یہاں مسلمانوں کو انگلی پکڑ کر ان کی کتابوں کی طرف رہنمائی کرنی پڑتی ہے، چمچہ ان کے منہ تک لے جانا پڑتا ہے، انہی کی فرمائش پر ان کو آئینہ دکھایا جاتا ہے اور پھر وہ برا بھی مان جاتے ہیں۔ چلئے اب منہ کھولئے تو میں آپ کو بتاؤں کہ ارشد محمود صاحب کی تحریر پڑھ کر اگر آپ کو اس تحریر کے کسی حصے پر یہ اعتراض ہے کہ مصنف نے کوئی بات اپنے پاس سے غلط طور پر اسلامی تاریخ سے منسوب کر دی ہے تو آپ تحریر کے اس حصے کی نشاندہی کیجئے، ہم آپ کو اس کے حوالہ جات پیش کر دیں گے کہ یہ بات تاریخ اسلام کی کتابوں سے ہی نقل کی گئی ہیں، اپنے پاس سے گھڑی نہیں گئی ہیں، باقی ان روایات کے سند کے جھگڑے میں ہمیں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ آپ کا معاملہ ہے۔ ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ یہ روایات تاریخِ اسلامی کی کلاسیک کتابوں میں درج ہیں۔ لہذا ہم پر یہ اعتراض کرنے کے بجائے کہ ہم ان روایات کو پیش کرتے ہیں، آپ کو اس سے پہلے ان محدثین، مفسرین، اور علماء کا محاسبہ کرنا چاہئے جنہوں نے یہ روایات اپنی کتابوں میں درج کی ہیں۔

      1. "علامہ” صاحب آپ کو کیا ضرورت پیش آتی ھے مسلمانوں کو انگلی پکڑ کر رھنمای کی ‘ کیا اس کے بدلے میں آپ کو جنت ملے گی یا آپ جھنم سے بچ جاینگے ؟ کیوںکہ آپ سزا و جزا کو تو مانتے ھی نھیں ھیں ؟ پھر آپ لوگوں نے کیوں اتنی بڑی ھیڈک لی ھوی ھے ؟ مسلمانوں کو چھوڑ کر عیسایوں کو دعوت دیں اپنی نظریات کا ‘ وہ مسلمانوں سے زیادہ بات کو سمجھتے ھیں -یعنی جو لوگ سمجھنا نھیں چاھتے آپ کیوں ان کے پیچھے پڑھے ھیں اور سب سے بڑی بات آپ کو اس کے بدلے میں کچھ نھیں ملے گا پھر آپ کی یہ عنایت مسلمانوں پر ھی کیوں ؟
        ارشد محمود کا لکھا ھوا سارے کا سارہ جھوٹ کا پلندہ ھے اس لیے ارشد محمود کے بجاے آپ ان کا دفاع کرنے اگیے-
        آپ لوگوں کا نظریہ ھے کہ” اگر کوی اپنی بہن ‘ بیٹی ‘ حتی کہ اپنی ماں سے بھی سکس کرنا چاھے اور ماں ‘بہن ‘بیٹی ایگری ھوتو یہ جایز ھے ” یہ ایک ایسا نظریہ ھے کہ کوی بھی اسے قبول نھیں کرے گا
        بہرحال آپ لوگوں کا نظریہ ھے آپ لوگوں کو مبارک ھو

        1. سانپ کا ڈسا ہوا شخص اگر دوسروں کو بے لوث ہو کر، کسی اجرت کی توقع سے بے نیاز ہو کر سانپ کے ضرر سے لوگوں کو آگاہ کرے تو یہ ایک مستحسن قدم شمار ہوگا۔ ہم لوگوں کو مذہب کے مضرت رساں پہلووں سے آگاہ کرتے ہیں، سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں اور سمجھ رہے ہیں۔ آزادئ اظہار رائے ہمارا حق ہے، اور ہم دوسروں کے لئے بھی اس حق کے اسی طرح قائل ہیں جس طرح خود اپنی ذات کے لئے۔ اگر ہماری آزادئ اظہار سے تکلیف ہے تو ہماری باتوں کا ردّ کیجئے، لیکن ہمیں خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔
          ارشد محمود صاحب کی یہ تحریر نہیں بلکہ آپ کی اسلامی تاریخ پر لکھی گئی تمام کتابیں ہی جھوٹ کا پلندہ ہیں، ارشد محمود نے تو صرف ان واقعات کو اپنی تحریر میں نقل کیا ہے، اصل مصدر تو اسلامی کتابیں ہی ہیں اس لئے جھوٹ کا پلندہ درحقیقت یہی کتابیں ہیں۔
          ہم تو سائنسی بنیادوں پر کزن میرج تک کے خلاف ہیں۔ یہ تو اسلام ہے جو بتاتا ہے کہ نسلِ آدم کی افزائش بھائی بہنوں کے باہمی جنسی تعلقات سے ہوئی، لوط کی بیٹیوں نے نطفہ اپنے باپ سے حاصل کرکے اولاد پیدا کی، ابراہیم نے اپنی باپ شریک بہن سے شادی کی، قرآن میں مذکور ہے کہ لوط نے قوم کو اپنی بیٹیاں پش کیں: قَالَ هَـٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِىٓ إِن كُنتُمْ فَـٰعِلِينَ۔ اور آپ کے چہیتے پیغمبر نے اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی پر پہلے نظر رکھی، اور پھر طلاق دلوا کر اپنے حرم میں شریک کیا۔
          بہتر ہوگا کہ آپ نے پہلے جو موضوع چھیڑا تھا، پہلے اسے ہی نمٹا لیں، پھر کوئی دوسرا موضوع شروع کریں، یہ نہیں کہ جب انگلی پکڑ کر راستہ دکھایا تو انگلی چھڑا کر بھاگ کر دوسری گلی پکڑ لی۔

          1. لگتا ھے غلطی سے ھاتھ دکھتی رگ پر رکھ لیا – اگر اپنے آپ سے اور اپنے "جرآت تحقیق ” سے مخلص ھو تو اس بات کا اقرار کرلو کہ آپ لوگ اپنے بہن ‘بیٹی اور ماں کے ساتھ سیکس جایٰز سمجھتے ھو ( شاید کرتے بھی ھو ) آپ کے اس اقرار سےپتہ چل جاے گا کہ آپ میں کتنی جرآت ھے ۔ لمبی چھوڑی بحث سے کچھ حاصل نھیں ھوگا

          2. وہ تو موضوع کو چھوڑ کر ادھر ادھر بھاگنے سےمعلوم ہو رہا ہے کہ کس کی دکھتی رگ پر ہاتھ پڑنے کی وجہ سے تلملا رہا ہے۔ یہاں جو موضوع چھیڑا تھا اسی پر قائم رہیں، نکاح بالمحارم کا موضوع چھیڑنا ہے تو غلام رسول صاحب کی پوسٹ الحاد اور سماجی رویئے پر چھیڑیئے، لیکن پہلے یہ موضوع نمٹا لیں۔

  6. ثبوت کے طور پر آپ کی آواز کی ریکارڈینگ میرے ایک محترم دوست کے پاس موجود ھے جس میں آپ نے اس کے پوچھنے پر بتایا کہ اگر بہن ‘بھای یا کوی بھی رشتہ آپس میں ایگری ھو تو وہ سیکس کر سکتے ھیں ؟

    1. ہم پر تاریخ اسلامی کو مسخ کرنے کا الزام عائد کرنے کا راگ الاپنے سے بات شروع کرکے جب آپ بے بس و لاجواب ہوگئے تو آپ نے تان جا کر نکاح بالمحارم پر توڑی۔ یہ کون سی سنت ہے؟ ہر اعتراض کا جواب دیا جائے گا، لیکن کوئی ڈھنگ کا طریقہ کار اختیار کریں۔ کسی بات کے جواب سے انکار نہیں کیا، آپ کو بتایا کہ پہلے جو موضوع آپ نے شروع کیا تھا، اسے نمٹائیں۔

      1. اگر آپ یہاں اپنا کوئی خفیہ ایجنڈا لے کر آئے تھے اور خود بقول آپ کے وہ ”مشن“ پورا ہو چکا ہے یعنی اب آپ کا یہاں کوئی کام باقی نہیں رہا، تو یہاں کسی بھی قسم کی سرگرمی میں شرکت سے آپ خود ہی دست بردار ہو چکے ہیں۔ اس لئے اب آپ کسی گلہ کا حق باقی نہیں رکھتے ہیں۔

  7. دو دن سے میرے ھر تبصرے کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھ دیتے ھو مگر میری ایک بات کا جواب نھیں تمھارے پاس – یہ اس بات کا ثبوت ھےکہ آپ کے پاس میرے سوال کا کوی معقول جواب نھیں ھے اور یہ سارہ ڈرامہ آپ لوگوں نے صرف اسلام کو بدنام کرنے کے لیے رچایا ھے اور کچھ نھیں- یعنی دو دن سے آپ بحث کر رھے ھیں مگر میری ایک چھوٹے سے سوال کا جواب نھیں آپ کے پاس ؟

    1. آپ مہذب انسانوں کی طرح مکالمے کے اصول کے مطابق پہلے خود جس موضوع کو چھیڑا تھا اسی پر قائم رہیں، لیکن چونکہ وہ موضوع چھیڑ کر آپ پھنس چکے ہیں، بے بس ہوچکے ہیں، اور آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے، اس لئے اس موضوع سے بھاگ کر دوسرا موضوع چھیڑ لیا، مجھے اس موضوع پر بھی بات کرنے میں کوئی عار نہیں ہے، کیونکہ یہاں عقل بمقابلہ مذہب ہے، لیکن پہلے اپنے چھیڑے ہوئے موضوع کو کسی کنارے تک پہنچایئے۔ ایک طرف آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کا مشن مکمل ہو چکا ہے، اور پھر آپ کو اس قدر بے چینی بھی لاحق ہے اس کے باوجود ”جرات تحقیق“ سے پیچھا بھی نہیں چھڑا پا رہے، ؏ تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ۔ یہ میرا تحمل ہے کہ میں آپ کی ہفوات کا پھر بھی جواب دے رہا ہوں، ورنہ آپ نے اپنے 3 نومبر کے کمنٹ میں لکھا تھا کہ ”سوری دوبارہ کمنٹ کرنے کی گستاخی نھیں کروں گا“ لیکن اپنے قدموں پر قائم رہنے والا، اپنی غلطی تسلیم کرنے والا بھلا پھر مسلمان کیسے کہلوا سکتا ہے؟۔ اپنا اور میرا وقت برباد نہ کریں، ارشد محمود کی تحریر کے اس حصے کی نشاندہی کریں جو آپ کے بقول ہم نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اپنی طرف سے گھڑ کر مضمون میں شامل کر دیا ہے، اس کے علاوہ اگر کچھ بھی جواب آیا تو اس بات کا ثبوت ہوگا کہ آپ نے تاریخ اسلام کا ناکام دفاع کرنے کے لئے محض بہتان بازی اور افترا پردازی سے کام لیا۔

  8. او بھای کیا بلکل ھی سٹھیا گیے ؟ اپنے کمنٹس بھی دوبارہ دیکھ لیں اور میرے بھی – میں کہاں بھاگوںگا ؟میں نے تو اپ سے سوال کیا ھے جواب نہ دیکر تو آپ بھاگ رھے ھیں ؟ میں نے پوچھا تھا کہ ارشد محمود کا یہ مضمون آپ لوگوں نے حوالہ دیے بغیر لکھا ھے -پھر آپ نے اس کا دفاع کیا کہ یہارشد محمود کا طبری سے حاصل مطالعہ ھے – بتاییں کہ یہ کوی حوالہ یا سند ھوا ؟ آپ کم از کم صفحہ نمبر جلد نمبر کا حوالہ دینگے کیونکہ ھر آدمی آپ کی طرح "علامہ” نھیں ھوتا اور ضروری نھیں کہ ھر آدمی پہلے سے طبری پڑہ چکا ھے بہت سارے لوگ طبری کا صرف نام سنے ھوے ھیں اس لیے حوالہ ضروری ھوتا ھے آپ ارشد محمود کے پورے مضمون میں حوالہ نام کا کوی چیز دکھاییں ؟
    دوسری بات میں نے کہا تھا کہ دوبارہ آپ کے سایٹ پر آکر کمنٹ نھیں کرونگا لیکن آپ نے اس کا جواب دیا تو بحث پھر چل پڑی – ویسے سچ بتاییں آپ یہی چاھتے ھیں نا کہ میں کوی تبصرہ نہ کروں ؟
    مجھے کوی شوق نھیں خامخوہ کی بحث لیکن میرے کسی سوال کا آپ نے جواب نہ دیا

جواب دیں

27 Comments
scroll to top