ہر مذہب کی طرح اسلام بھی پہلے مسئلہ پیدا کرتا ہے پھر اس کا حل پیش کرتا ہے، موت کا خوف بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے، پہلے مسلمان کو موت سے ڈرنا سکھایا جاتا ہے، منکر ونکیر، عذابِ قبر اور سکرات الموت کی خوفناک کہانیاں سنائی جاتی ہیں جو کسی ہارر فلم سے کم خوفناک نہیں، اچھی طرح ڈرانے دھمکانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ جی حل موجود ہے اور وہ ہے مذہبی تعلیمات پر مکمل عمل درآمد.
موت کا ڈر مذہب کا کھڑا کیا ہوا معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایسی تہذیبیں موجود ہیں جن میں موت کو کوئی ایسی خوفناک چیز نہیں سمجھا جاتا، مدغشقر، شمالی رومانیہ اور مکسیکو میں لوگ مردے کو الوداع کہنے کے لیے جشن مناتے ہیں اور بیئر پیتے ہیں.
اس کے قطعی برعکس اسلام میں موت کا خوف شدید تر ہوتا ہے جس کی جھلک جنازے کی نمازوں اور مردے کے لیے رحمت اور مغفرت کی طویل اور گڑگڑاتی دعاؤوں میں دیکھی جاسکتی ہے، اسی طرح عیسائی بھی جنازوں کی تقریبات میں کافی مبالغہ آرائی کرتے ہیں.
اسلام انسان کو یہ ❞آسرا❝ دیتا ہے کہ اس کی زندگی بس اس دنیا کے ساتھ ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی دوسری دنیا میں دوبارہ زندہ ہوگا، یہ بعد از مرگ کی دنیا ہے، اگر یہ درست ہے تو پھر موت کے خوف کو انہوں نے سر پر اتنا کیوں سوار کر رکھا ہے؟ عام طور پر توقع یہ کی جاتی ہے کہ ملحد مومن سے زیادہ موت سے خوف کھائے گا، تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے، مومن کو ملحد سے زیادہ موت کے اندیشے لاحق ہوتے ہیں، ثبوت کے طور پر مذہبی لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں جو موت کے بعد کے خوفناک اور ہولناک ترین قصوں سے بھرا پڑا ہے، جہنم کے جلاد فرشتے جو آپ کو دیکھتے ہی آپ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے شاید خود کھا جائیں گے، مسٹر منکر اور مسٹر نکیر جو قبر میں گھستے ہی آپ کو دبوچ لیں گے اور آپ کے ساتھ کے بی سی کھلیں گے وغیرہ وغیرہ..
مومن شخص اپنی زندگی کی درجہ بندی اپنی کامیابیوں، کارکردگی، خوشی اور تجربے کی بنیاد پر نہیں کرتا بلکہ بعد از مرگ ساتویں فلور پر زندگی کی تیاری کے حوالے سے کرتا ہے، وہ اپنی زندگی ایک ایسے ❞وعدے❝ کے چکر میں برباد کردیتا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، دوسری دنیا سے کسی نے واپس آکر اس دوسری دنیا کی موجودگی کی ❞تصدیق❝ نہیں کی، مومن انسان ایک ڈرپوک انسان ہوتا ہے… اس کے ایمان کا معیار موت سے خوف کی مقدار پر ٹِکا ہوتا ہے.
مومن کی زندگی کی سب سے بدترین چیز اس کا یہ تصور نہ کر سکنا ہے کہ کوئی اس خوف میں اس کا شریک نہیں ہے، مجھے ایسی ای میل موصول ہوتی رہتی ہیں جو موت سے ڈرانے کے عنصر پر مشتمل ہوتی ہیں اور چیلنج کرتی ہیں کہ میں ضرور توبہ کروں گا اور مرنے سے پہلے پچھتاؤں گا.
اس بارے کچھ ملحدین یا الحاد کی طرف سفر کرتے لوگوں کے خطوط بھی موصول ہوتے ہیں.. ایسے لوگوں کے موقف کو سجھنا آسان ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے ❞اسلامی کلچر❝ سے سالوں تک فیڈنگ لی ہوئی ہوتی ہے کہ پرانی عادتیں آہستہ آہستہ ہی مرتی ہیں، میں بھی موت کے بارے میں سوچتا ہوں بلکہ بعض اوقات یہ افکار مجھے ❞ڈسٹرب❞ بھی کرتے ہیں مگر میں اس اس کی ٹینشن نہیں لیتا.. میں اس طرح نہیں سوچتا کہ موت کے اس پار کوئی ❞اسلامی بم❝ لے کر میرا انتظار کر رہا ہے.
ساری زندگی موت کو اپنا نصب العین بنائے رکھنا خود آپ کے اپنے حق میں ایک جرمِ عظیم ہے.. علم، ریاضی، دریافتیں، پیار، شاعری، موسیقی، اخلاق کی بجائے موت ہی انسانیت کا نصب العین کیوں ہونی چاہیے؟
موت کے خوف سے اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹنا گھاٹے کا سودا ہے.. آپ اپنی اکلوتی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جس کے بعد اور کوئی زندگی نہیں ہے اور یہی مومنین آپ کے اور اپنے آپ کے ساتھ کرتے ہیں.
مسلمانوں کی ایک طویل تاریخ ہے جو یہ فرض کرتی ہے کہ ان کے شرعی اور فقہی عقائد ایک مطلق حقیقت ہیں، پھر اس متنازعہ شریعت سے وہ اپنی مرضی کے نتائج نکالتے ہیں جو کہ ان پر بھی اختلاف ہوتا ہے اور انہیں معاشرے پر تھوپتے ہیں.. یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا اخلاقی قضیہ ہے خاص طور سے جب ہم ان سب برائیوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو صدیوں سے مسلمانوں نے اپنے ان ❞تُکوں❝ پر اعتراض اور تنقید کرنے والوں کے ساتھ روا رکھی ہے اور آج تک رکھی ہوئی ہے.
اسلام آپ میں زندگی اور اس کی امیدوں سے محبت کو قتل کردیتا ہے اور اسے ❞دار الفناء❝ اور ❞دار الزوال❝ قرار دیتا ہے اور یہ کہ اے انسان جو کچھ تم دیکھ رہے ہو وہ سب دھوکہ اور فریب ہے، اس بارے ریت کا خدا کہتا ہے کہ:
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾ (سورۃ الحدید آیت 20)
ترجمہ: جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت و آرائش اور تمہارے آپس میں فخرو ستائش اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب و خواہش ہے اسکی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس سے اگنے والی کھیتی کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ کھیتی خوب زور پر آتی ہے پھر اے دیکھنے والے تو اسکو دیکھتا ہے کہ پک کر زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں کافروں کے لئے عذاب شدید اور مومنوں کے لئے اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ:
1- زندگی دو حصوں پر منقسم ہے، یہ دنیا پہلی زندگی ہے جبکہ بعد از مرگ ایک اور زندگی بھی وجود رکھتی ہے.
2- پہلی زندگی فانی ہے جبکہ زندگی نمبر ٹو ہمیشہ باقی رہے گی (مجھ سے ضرور ملیے گا).
3- دنیا کی یہ پہلی زندگی گھٹیا ہے اور برائیوں کی آماجگاہ ہے.
4- اس فانی زندگی کی ہر چیز کا ایک آغاز اور انجام (موت) ہے مگر ساتویں فلور کی زندگی جس کا ❞وعدہ❝ کیا گیا ہے اس کا کوئی انجام نہیں ہے (یعنی مرنے کے بعد آپ پھر سے نہیں مریں گے.. اس آخری نکتے سے مجھے اتفاق ہے).
اور آخر میں انسان اس خوبصورت دنیا کے ❞لہو ولعب❝ میں گرفتار ہوجاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ موت کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے، اس بات پر ریت کا خدا اسے سزا دیتا ہے اور اس کی چمڑی جلانے کے بعد اسے ادھیڑ لیتا ہے اور پھر ایک اور چمڑی سے اسے بدل دیتا ہے، اس طرح اس بہیمانہ سزا کا یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری رہتا ہے..
کیا بکواس ہے..!؟
کیا آپ اتنے احمق ہیں کہ آپ کا اس طرح سے استحصال کیا جائے؟
نا ہی موت کے بعد کوئی زندگی ہے اور نا ہی بار بار آپ کی چمڑی جلائی اور بدلی جانے والی ہے.. یعنی اگر کوئی خوبصورت حسینہ آپ کی طرف دیکھ کر مسکرائے تو آپ کو چاہیے کہ استغفر اللہ کہہ کر اور اس پر لعنت بھیج کر بھاگ کھڑے ہوں کیونکہ جنت میں حوریں آپ کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں.. یہ حسینہ آپ کو کھسکا ہوا سمجھے گی اور شاید آپ کے جنسی رجحانات کے بارے بھی شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجائے..
الغرض کہ ہمیں زندگی کو نا امیدی کی نظروں سے دیکھنا چاہیے تاکہ خدا کے وعدے سے فیض یاب ہوسکیں.. یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی آپ سے کہے کہ ابھی کام کریں اور اجرت آپ کو مرنے کے بعد ملے گی!! ایسی آفر دینے والے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہوگا؟ لیکن اگر میں آپ سے کہوں کہ الحاد کا وعدہ ریت کے خدا کے وعدے سے کہیں اچھا ہے تو! جانتے ہیں کیسے؟
الحاد پہلے آپ کو ایک بری خبر سناتا ہے اور وہ یہ کہ مرنے کے بعد نا تو ہم اس ساتویں فلور پر جانے والے ہیں اور نا ہی کوئی قیامت ہے اور نا ہی ایسا کوئی تربوز اور اخروٹ وجود رکھتا ہے.. پھر آپ کو خوشخبری سناتا ہے کہ آپ بغیر کسی رقیب کے خوف سے اپنی زندگی سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکتے ہیں.. آسمان پر رہنے والی کوئی بھی خرافی ہستی آپ کو نہیں جلانے والی جسے نا تو کسی نے دیکھا ہے اور نا ہی کبھی کوئی دیکھے گا..
اس مومن انسان کی اخلاقیات کی کیا قیمت ہے جو موت کے خوف اور ابدی زندگی کے حصول کے لیے اچھے کام کرتا ہے؟
انسان کی اخلاقیات کو اس کے احساسات، دوسروں پر رحم کرنے کے حقیقی جذبات، اس کی تعلیم اور عقلیت پسندی سے پھوٹنا چاہیے ناکہ بعد از مرگ کسی سزا کے خوف سے..
اگر مومن کی اخلاقیات کا محرک موت اور سزا کا خوف ہے تو ایسی مذہبی اخلاقیات انتہائی گھٹیا، فرسودہ اور بے بنیاد ہیں.. ایسے ❞مطلبی❝ انسان کو کسی طرح کی کوئی جزاء نہیں ملنی چاہیے..
یہ درست کہ مجھے مرنے کی جلدی نہیں مگر میں موت سے نہیں ڈرتا، کسی آپریشن سے پہلے جب آپ کو نشے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے تو اس کے بعد آپ کے سارے احساسات ختم ہوجاتے ہیں، موت بھی ایسے ہی ہے.. نا ہی کوئی احساس ہوگا اور نا ہی کوئی درد.. جس طرح پیدا ہونے سے پہلے آپ نے کچھ محسوس نہیں کیا تھا اسی طرح مرنے کے بعد بھی آپ کچھ محسوس نہیں کریں گے.. نا ہی کوئی منکر اور نکیر برآمد ہوں گے اور نا ہی قبر سے گنجے سانپ نکلیں گے.
مجھے چاہنے والوں کی رنجیدگی کا مجھے رنج ضرور ہوگا مگر میری تعزیت ان کے دلوں میں میرے اچھی یادیں ہوں گی، ہم اپنے بعد کے لوگوں کے لیے کچھ چھوڑ جانے کے لیے جیتے ہیں، یہی انسانیت ہے کہ ہم اپنے بعد کے لوگوں کی زندگی بہتر کر سکیں، زندگی خوشی اور محبت میں گزاریں اور لوگوں کے لیے اچھی یادیں چھوڑ کرجائیں تاکہ وہ آپ کی اچھائیوں کو یاد کر سکیں.. یہی زندگی کا مطلب ہے.
آئن سٹائن (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ:
❞میں ایسے خدا کے وجود کا تصور نہیں کر سکتا جو اپنی مخلوقات کو جزاء اور سزا دیتا ہے اور اس کے جذبات ہم انسانوں کی طرح ہیں جیسے انتقام اور محبت اور نا ہی میں جسمانی موت کے بعد انسان کی زندگی کی طرف واپسی کے امکان کا تصور کر سکتا ہوں.. یہ ان ڈرپوک اور کمزور لوگوں کی امید ہے جن پر خود غرضی چھائی ہوئی ہے کہ وہ ایسی سوچیں قبول کرتے ہیں❝
جاگو… وہ تم سے جھوٹ بول رہے ہیں!