Close

موت کا خوف

 

ہر مذہب کی طرح اسلام بھی پہلے مسئلہ پیدا کرتا ہے پھر اس کا حل پیش کرتا ہے، موت کا خوف بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے، پہلے مسلمان کو موت سے ڈرنا سکھایا جاتا ہے، منکر ونکیر، عذابِ قبر اور سکرات الموت کی خوفناک کہانیاں سنائی جاتی ہیں جو کسی ہارر فلم سے کم خوفناک نہیں، اچھی طرح ڈرانے دھمکانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ جی حل موجود ہے اور وہ ہے مذہبی تعلیمات پر مکمل عمل درآمد.

موت کا ڈر مذہب کا کھڑا کیا ہوا معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایسی تہذیبیں موجود ہیں جن میں موت کو کوئی ایسی خوفناک چیز نہیں سمجھا جاتا، مدغشقر، شمالی رومانیہ اور مکسیکو میں لوگ مردے کو الوداع کہنے کے لیے جشن مناتے ہیں اور بیئر پیتے ہیں.

اس کے قطعی برعکس اسلام میں موت کا خوف شدید تر ہوتا ہے جس کی جھلک جنازے کی نمازوں اور مردے کے لیے رحمت اور مغفرت کی طویل اور گڑگڑاتی دعاؤوں میں دیکھی جاسکتی ہے، اسی طرح عیسائی بھی جنازوں کی تقریبات میں کافی مبالغہ آرائی کرتے ہیں.

اسلام انسان کو یہ ❞آسرا❝ دیتا ہے کہ اس کی زندگی بس اس دنیا کے ساتھ ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی دوسری دنیا میں دوبارہ زندہ ہوگا، یہ بعد از مرگ کی دنیا ہے، اگر یہ درست ہے تو پھر موت کے خوف کو انہوں نے سر پر اتنا کیوں سوار کر رکھا ہے؟ عام طور پر توقع یہ کی جاتی ہے کہ ملحد مومن سے زیادہ موت سے خوف کھائے گا، تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے، مومن کو ملحد سے زیادہ موت کے اندیشے لاحق ہوتے ہیں، ثبوت کے طور پر مذہبی لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں جو موت کے بعد کے خوفناک اور ہولناک ترین قصوں سے بھرا پڑا ہے، جہنم کے جلاد فرشتے جو آپ کو دیکھتے ہی آپ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے شاید خود کھا جائیں گے، مسٹر منکر اور مسٹر نکیر جو قبر میں گھستے ہی آپ کو دبوچ لیں گے اور آپ کے ساتھ کے بی سی کھلیں گے وغیرہ وغیرہ..

مومن شخص اپنی زندگی کی درجہ بندی اپنی کامیابیوں، کارکردگی، خوشی اور تجربے کی بنیاد پر نہیں کرتا بلکہ بعد از مرگ ساتویں فلور پر زندگی کی تیاری کے حوالے سے کرتا ہے، وہ اپنی زندگی ایک ایسے ❞وعدے❝ کے چکر میں برباد کردیتا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، دوسری دنیا سے کسی نے واپس آکر اس دوسری دنیا کی موجودگی کی ❞تصدیق❝ نہیں کی، مومن انسان ایک ڈرپوک انسان ہوتا ہے… اس کے ایمان کا معیار موت سے خوف کی مقدار پر ٹِکا ہوتا ہے.

مومن کی زندگی کی سب سے بدترین چیز اس کا یہ تصور نہ کر سکنا ہے کہ کوئی اس خوف میں اس کا شریک نہیں ہے، مجھے ایسی ای میل موصول ہوتی رہتی ہیں جو موت سے ڈرانے کے عنصر پر مشتمل ہوتی ہیں اور چیلنج کرتی ہیں کہ میں ضرور توبہ کروں گا اور مرنے سے پہلے پچھتاؤں گا.

اس بارے کچھ ملحدین یا الحاد کی طرف سفر کرتے لوگوں کے خطوط بھی موصول ہوتے ہیں.. ایسے لوگوں کے موقف کو سجھنا آسان ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے ❞اسلامی کلچر❝ سے سالوں تک فیڈنگ لی ہوئی ہوتی ہے کہ پرانی عادتیں آہستہ آہستہ ہی مرتی ہیں، میں بھی موت کے بارے میں سوچتا ہوں بلکہ بعض اوقات یہ افکار مجھے ❞ڈسٹرب❞ بھی کرتے ہیں مگر میں اس اس کی ٹینشن نہیں لیتا.. میں اس طرح نہیں سوچتا کہ موت کے اس پار کوئی ❞اسلامی بم❝ لے کر میرا انتظار کر رہا ہے.

ساری زندگی موت کو اپنا نصب العین بنائے رکھنا خود آپ کے اپنے حق میں ایک جرمِ عظیم ہے.. علم، ریاضی، دریافتیں، پیار، شاعری، موسیقی، اخلاق کی بجائے موت ہی انسانیت کا نصب العین کیوں ہونی چاہیے؟

موت کے خوف سے اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹنا گھاٹے کا سودا ہے.. آپ اپنی اکلوتی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جس کے بعد اور کوئی زندگی نہیں ہے اور یہی مومنین آپ کے اور اپنے آپ کے ساتھ کرتے ہیں.

مسلمانوں کی ایک طویل تاریخ ہے جو یہ فرض کرتی ہے کہ ان کے شرعی اور فقہی عقائد ایک مطلق حقیقت ہیں، پھر اس متنازعہ شریعت سے وہ اپنی مرضی کے نتائج نکالتے ہیں جو کہ ان پر بھی اختلاف ہوتا ہے اور انہیں معاشرے پر تھوپتے ہیں.. یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا اخلاقی قضیہ ہے خاص طور سے جب ہم ان سب برائیوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو صدیوں سے مسلمانوں نے اپنے ان ❞تُکوں❝ پر اعتراض اور تنقید کرنے والوں کے ساتھ روا رکھی ہے اور آج تک رکھی ہوئی ہے.

اسلام آپ میں زندگی اور اس کی امیدوں سے محبت کو قتل کردیتا ہے اور اسے ❞دار الفناء❝ اور ❞دار الزوال❝ قرار دیتا ہے اور یہ کہ اے انسان جو کچھ تم دیکھ رہے ہو وہ سب دھوکہ اور فریب ہے، اس بارے ریت کا خدا کہتا ہے کہ:

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾ (سورۃ الحدید آیت 20)

ترجمہ: جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت و آرائش اور تمہارے آپس میں فخرو ستائش اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب و خواہش ہے اسکی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس سے اگنے والی کھیتی کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ کھیتی خوب زور پر آتی ہے پھر اے دیکھنے والے تو اسکو دیکھتا ہے کہ پک کر زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں کافروں کے لئے عذاب شدید اور مومنوں کے لئے اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ:

1- زندگی دو حصوں پر منقسم ہے، یہ دنیا پہلی زندگی ہے جبکہ بعد از مرگ ایک اور زندگی بھی وجود رکھتی ہے.

2- پہلی زندگی فانی ہے جبکہ زندگی نمبر ٹو ہمیشہ باقی رہے گی (مجھ سے ضرور ملیے گا).

3- دنیا کی یہ پہلی زندگی گھٹیا ہے اور برائیوں کی آماجگاہ ہے.

4- اس فانی زندگی کی ہر چیز کا ایک آغاز اور انجام (موت) ہے مگر ساتویں فلور کی زندگی جس کا ❞وعدہ❝ کیا گیا ہے اس کا کوئی انجام نہیں ہے (یعنی مرنے کے بعد آپ پھر سے نہیں مریں گے.. اس آخری نکتے سے مجھے اتفاق ہے).

اور آخر میں انسان اس خوبصورت دنیا کے ❞لہو ولعب❝ میں گرفتار ہوجاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ موت کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے، اس بات پر ریت کا خدا اسے سزا دیتا ہے اور اس کی چمڑی جلانے کے بعد اسے ادھیڑ لیتا ہے اور پھر ایک اور چمڑی سے اسے بدل دیتا ہے، اس طرح اس بہیمانہ سزا کا یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری رہتا ہے..

کیا بکواس ہے..!؟

کیا آپ اتنے احمق ہیں کہ آپ کا اس طرح سے استحصال کیا جائے؟

نا ہی موت کے بعد کوئی زندگی ہے اور نا ہی بار بار آپ کی چمڑی جلائی اور بدلی جانے والی ہے.. یعنی اگر کوئی خوبصورت حسینہ آپ کی طرف دیکھ کر مسکرائے تو آپ کو چاہیے کہ استغفر اللہ کہہ کر اور اس پر لعنت بھیج کر بھاگ کھڑے ہوں کیونکہ جنت میں حوریں آپ کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں.. یہ حسینہ آپ کو کھسکا ہوا سمجھے گی اور شاید آپ کے جنسی رجحانات کے بارے بھی شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجائے..

الغرض کہ ہمیں زندگی کو نا امیدی کی نظروں سے دیکھنا چاہیے تاکہ خدا کے وعدے سے فیض یاب ہوسکیں.. یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی آپ سے کہے کہ ابھی کام کریں اور اجرت آپ کو مرنے کے بعد ملے گی!! ایسی آفر دینے والے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہوگا؟ لیکن اگر میں آپ سے کہوں کہ الحاد کا وعدہ ریت کے خدا کے وعدے سے کہیں اچھا ہے تو! جانتے ہیں کیسے؟

الحاد پہلے آپ کو ایک بری خبر سناتا ہے اور وہ یہ کہ مرنے کے بعد نا تو ہم اس ساتویں فلور پر جانے والے ہیں اور نا ہی کوئی قیامت ہے اور نا ہی ایسا کوئی تربوز اور اخروٹ وجود رکھتا ہے.. پھر آپ کو خوشخبری سناتا ہے کہ آپ بغیر کسی رقیب کے خوف سے اپنی زندگی سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکتے ہیں.. آسمان پر رہنے والی کوئی بھی خرافی ہستی آپ کو نہیں جلانے والی جسے نا تو کسی نے دیکھا ہے اور نا ہی کبھی کوئی دیکھے گا..

اس مومن انسان کی اخلاقیات کی کیا قیمت ہے جو موت کے خوف اور ابدی زندگی کے حصول کے لیے اچھے کام کرتا ہے؟

انسان کی اخلاقیات کو اس کے احساسات، دوسروں پر رحم کرنے کے حقیقی جذبات، اس کی تعلیم اور عقلیت پسندی سے پھوٹنا چاہیے ناکہ بعد از مرگ کسی سزا کے خوف سے..

اگر مومن کی اخلاقیات کا محرک موت اور سزا کا خوف ہے تو ایسی مذہبی اخلاقیات انتہائی گھٹیا، فرسودہ اور بے بنیاد ہیں.. ایسے ❞مطلبی❝ انسان کو کسی طرح کی کوئی جزاء نہیں ملنی چاہیے..

یہ درست کہ مجھے مرنے کی جلدی نہیں مگر میں موت سے نہیں ڈرتا، کسی آپریشن سے پہلے جب آپ کو نشے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے تو اس کے بعد آپ کے سارے احساسات ختم ہوجاتے ہیں، موت بھی ایسے ہی ہے.. نا ہی کوئی احساس ہوگا اور نا ہی کوئی درد.. جس طرح پیدا ہونے سے پہلے آپ نے کچھ محسوس نہیں کیا تھا اسی طرح مرنے کے بعد بھی آپ کچھ محسوس نہیں کریں گے.. نا ہی کوئی منکر اور نکیر برآمد ہوں گے اور نا ہی قبر سے گنجے سانپ نکلیں گے.

مجھے چاہنے والوں کی رنجیدگی کا مجھے رنج ضرور ہوگا مگر میری تعزیت ان کے دلوں میں میرے اچھی یادیں ہوں گی، ہم اپنے بعد کے لوگوں کے لیے کچھ چھوڑ جانے کے لیے جیتے ہیں، یہی انسانیت ہے کہ ہم اپنے بعد کے لوگوں کی زندگی بہتر کر سکیں، زندگی خوشی اور محبت میں گزاریں اور لوگوں کے لیے اچھی یادیں چھوڑ کرجائیں تاکہ وہ آپ کی اچھائیوں کو یاد کر سکیں.. یہی زندگی کا مطلب ہے.

آئن سٹائن (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ:

❞میں ایسے خدا کے وجود کا تصور نہیں کر سکتا جو اپنی مخلوقات کو جزاء اور سزا دیتا ہے اور اس کے جذبات ہم انسانوں کی طرح ہیں جیسے انتقام اور محبت اور نا ہی میں جسمانی موت کے بعد انسان کی زندگی کی طرف واپسی کے امکان کا تصور کر سکتا ہوں.. یہ ان ڈرپوک اور کمزور لوگوں کی امید ہے جن پر خود غرضی چھائی ہوئی ہے کہ وہ ایسی سوچیں قبول کرتے ہیں❝

جاگو… وہ تم سے جھوٹ بول رہے ہیں!

41 Comments

  1. عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی پر یقین موجودہ زندگی کو سہل اور پرسکون بناتا ہے۔ مگر ہرگز ایسا نہیں ہے۔ آخرت میں عیاشیوں کے خواب دیکھتے دیکھتے مسلمان اس حقیقی زندگی کو نہ صرف اپنے لئے جہنم بنا لیتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی جہنم بنانے میں ساری زندگی گذار دیتے ہیں۔

  2. اگر عقل مندون كي اخلاقیات کا محرک رياست كي سزا اور موت کا خوف ہے تو ایسےعقل مندون کو کسی نا کسی طرح كوي award دينا لازم هي ، أور هو سکے تو ان کو ہمیشہ کی زندگی کا انجکشن لگا دینا چاہیے. آخر ایک عمر اخلاقیات کے تحت گزاری ہے کوئی ریوارڈ تو ہونا چاہہے نہ

    اور جن بیچاروں پر ظلم ہوا ہے انھیں رو دھو کے چپ ہو جانا چاہیے . کہانی ختم

    1. معاف کیجیے.. قانون یہ نہیں بتاتا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط.. ستر کی دہائی تک امریکہ میں سیاہ فاموں پر بسوں کی اگلی سیٹوں پر بیٹھنے پر پابندی تھی… لہذا یہ کہنا کہ اخلاقیات کا محرک ریاست کی سزا اور موت کا خوف ہے بے تکی بات ہے.. اگر راہ چلتے کسی بھکاری کو آپ چندہ دیتے ہیں تو یہ کام آپ اپنی مرضی سے کرتے ہیں، ریاست آپ کو مجبور نہیں کرتی.. رہی بات موت کے خوف کی تو پوسٹ دوبارہ پڑھ لیجیے کہ موت کو کس نے سر پر سوار کر رکھا ہے..

  3. اور ان مظلوم حضرات کا مجھے رنج ضرور ہوگا جو ریاستی نظام کے تحت انصاف نہ حاصل کر سکے اور اب مرنے کے بعد بھی کچھ نہ حاصل کر سکیں گے . میں ان کے لئے صرف دکھی ہوں کیوں کے مرے نزدیک یہی انسانیت ہے ،، اور مرے پاس ان کے لئے جنگل کا قانون ہے کیوں کے آخرت کی تو پہلے ہی نفی ہو چکی ہے

    1. عمران صاحب آپ ایک ایسے امر کی بات کر رہے ہیں جس کا عمومی دنیا کے نزدیک نصف نصف امکان ہے، ریاست میں کسی کو ظلم سہنا پڑا تو یہ ظالم ریاست یا اس مظلوم کی اپنی خطا ہے، لیکن اگر مظلوم کی داد رسی آپ کی نام نہاد آخرت میں بھی نہ ہوئی تو یہ ناانصافی کس کے کھاتے میں جائے گی۔
      پھر دعوت فکر

      1. آخرت کی تو نفی ہو چکی ہے:)
        ظالم ریاست کے خطا کا تعین تو  کر دیاے ، مظلوم اب آگے کیا کرے ، یا خود ظلم کا بدلہ لے ، تو بتایا نہ کے مظلوم کے لئے جنگل کا قانون ہے نہ

        اور یہاں تو بحث ہے امکانات کی ہو رہی ہے،

      1. لیکن آپ نہی سمجھتے نہ ، میرا point اس کےعظیم ہونے کے متلق نہی ہے ، اس کے افکار یا تحقیق سے متعلق ہے ، جو غلط ثابت ہوا ، ہو سکتا ہے کہ کسی تحقیق کے نتیجے میں اس کا مضمون میں دیا گیا خیال غلط ثابت ہو. ————- "عقل مند” لوگ تو مارے جائیں گے نہ

        1. اسکا پوائنٹ غلط ثابت کرنے والے بھی اسی جیسے عقلمند لوگ تھے۔ میرا پوائنٹ آپ بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پائے۔ اگر مستقبل میں یہ مذہب بھی قدیم مذاہب کی طرح جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا تو "ایمانداروں” کا کیا بنے گا؟ دنیا تو خراب کر ہی بیٹھے سنی سنائی پہ ایمان لا کر، آگے بھی سیاہ اندھیرا ہوا تو کس کو کوسیں گے؟
          جھوٹ کا پلندہ ثابت تو خیر ہو ہی چکا ہے، بس اقرار کی دیر ہے، اور "ایماندار لوگ” حضرت آئن سٹائن علیہ السلام کی طرح صاحب کردار تھوڑا ہی ہیں کہ اپنی غلطی کا سرِ عام اعتراف کریں، بلکہ ہٹ دھرمی تو انکی شاید گھٹی میں پڑی ہے۔ آخر کار انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینی ہیں کہ سچ سن ہی نہ پائیں۔

          1. بہت خوب ، یہاں مومنین عقلمندوں کے لئے پرشان ہیں اور فکر والے ایمان والوں کے لئے

            اور آپ کی تحریر میں ایک بہت بڑا "”” اگر "”” ہے

  4. آئن اسٹائن ہو یا کوئی اور اسکی تحقیق اور خیالات غلط ہو سکتے ہیں لیکن آئین اسٹائن جیسے لوگ خدا کا نبی ہونے کا دعوا نہیں کرتے اسی لئے جب انکی بات غلط ثابت ہوتی ہے تو اسکو تسلیم کرلیتے ہیں۔جو خود کو اللہ کا پیغامبر ہونے کا دعوا کرتے ہیں ان میں یہ جرات نہیں ہوتی ہے کہ اپنی ہی غلطی کو تسلیم کرلیں۔

    1. بھائ صاحب ،نبی ہونے کا دعوا نہ کیا ، خدا سے انکار کا کر دیا ، اپنی اپنی جہت ہے، اپنے اپنے دلائل

      پہلے آئنسٹائن نے کیا اب ہاکنگ نے کیا ، اپنے اپنے دور اپنے اپنے ابو جہل،

      اب یہ نہ کہ دیجیے گا کے ان کو ابو جھل کہ دیا 🙂

          1. کسی چیز کی موجودگی یا غیر موجودگی پر دلیل کا محال ہونا اس کی موجودگی یا عدم موجودگی کے امکان کو یکساں نہیں کردیتا

          2. کسی چیز کی موجودگی یا غیر موجودگی پر دلیل کا محال ہونا اس کی موجودگی یا عدم موجودگی کے امکان کو یکساں نہیں کردیتا، اس طرح واقعات کو اس وہمی سبب سے منسلک کرنا آسانی سے ممکن ہے کیونکہ اسے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اس کی اکلوتی دلیل دراصل متوہم یا وہم شدہ ہے کیونکہ یہ ایک مریض ذہنیت کا شاخسانہ ہے.. مومنین یہی کچھ کرتے ہیں، وہ اس کائنات کی ہر چیز کے وقوع پذیر ہونے یا نہ ہونے کا سہرا ایک ایسی چیز کے سر ڈال دیتے ہیں جسے وہ خدا کہتے ہیں جبکہ اصل میں وہ اسے ثابت کرنے پر ہی قادر نہیں ہیں.
            https://realisticapproach.org/%D8%A8%D8%B9%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%D8%B9%DB%8C%D8%B1/

        1. ہاکنگ کے اور آئنسٹائن کے پہلے کے نظریات بھی دلائل سے ثابت تھے ، پہلے اپ وہ صحیع مانتے تھے اب یہ درست ہیں ، ٢٠-٢٥ سال بعد کچھ اور درست ہوں گے ، بہت اچھے …………

          سائنس دنوں کا ٹریک ریکارڈ تو نبیوں سے ملتا جلتا ہے 🙂 …………………………..

  5. پتا نہیں کیوں لوگ دنیا کی خوبصورتیاں ہی دیکھ کر کیوں اس کے بنانے والے کے گن گاتے ہیں۔ لولے لنگڑے، پاگل، اندھے، بہرے اور لاچار انسان دیکھ کر اس کے بنانے والے سے سوال کیوں نہیں کرتے؟
    روڈوں کے کنارے جانوروں کی طرح پڑے انسان پتا نہیں کیوں پیدا کرتا ہے جن کو دن بھر صرف روٹی کی فکر ستاتی ہے کسی کی عبادت کیا خاک کریں گے۔
    عقل مند حضرات ذرا تصور کریں کہ بھوک پیٹ سونا کیا چیز ہوتی ہے، بے بسی و لاچاری کس چیز کا نام اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلنا کس قدر درناک ہے۔ جب کوئی دوسرا انسان غریب کی تذلیل کرتا ہے یا جھڑک دیتا ہے تو دل پر کیا گزرتی ہے؟ یہ سب کچھ مالک بڑے مزے سے دیکھتا رہتا ہے۔

          1. شکر ہے آپ نے کوئی فتویٰ جاری نہی کر دیا ، ورنہ میں تو غیر اسلامی ” فقہ” سے خارج ہو جاتا 🙂

  6. سبحان اللہ ، آپ نے ثابت کردیا کہ اسلام اسی طرح پھیلا ہے۔ اسلام کے خلاف بات کرنے پر اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی قتال کیا گیا تحا نتیجہ یہ نکلا کہ زندہ رہنے کے لئے اسلام قبول کرنا لوگوں کی مجبوری بن گئی ۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ خباثت کو بچانے کیلے اس قسم کے فسطائی حربوں کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ تصور حسین نے ثابت کردیا کہ اسلام بھی در حقیقت ایک فاشزم ہے جسکو بدمعاشی کے ذریعے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن انٹر نیٹ کی بدولت بہت جلد یہ فسطائیٹ ختم ہونے والی ہے کیوں کہ جھوٹ صرف اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک کہ سچ کا گلا طاقت سے روکا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

41 Comments
scroll to top