ایک فوجی دوست کا کہنا ہے، ایسا آدمی جس کے گُن پوری دنیا گاتی ہو لیکن اسے اس کی بیوی تسلیم نہ کرنے وہ آدمی مرد مؤمن تو ہو سکتا ہے، لیکن مرد کامل ہونے کا دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتا۔ مرد کامل ہونے یا کہلوانے کی اسی خواہش کی وجہ سے ہر مرد کے نزدیک قوت باہ نہ صرف انتہائی اہمیت کی حامل ہے، بلکہ باعث افتخار بھی۔ اسی لیے اکثر اوقات مرد حضرات اپنی "کاملیت” کی جھوٹی یا سچی ڈھینگیں مارتے ہوئے ملتے ہیں۔
کاملیت کو پدر سری معاشرے میں انتہائی اہم اور باعث افتخار سمجھے جانے کی وجہ سے اللہ میاں نے جہاں رسول کریم کو دیگر تمام خوبیوں سے نوازا تھا، وہیں انہیں تمام نبیوں کے سردار ہونے کی وجہ سے کاملیت کا وہ معیار عطا کیا جو کسی اور نبی کے حصے میں نہیں آیا۔ آپ کی مردِ کاملیت کی یہ خوبی ہم مسلمانوں کیلئے نہ صرف باعث فخر ہے بلکہ ہم تمام عمر اس سلسلہ میں کوشاں رہتے ہیں کہ اللہ میاں اپنے حبیب کے صدقے ہمیں بھی نبیؑ کریم کی کاملیت کا عشر عشیر ہی عطا فرما دے۔ نبوت سے پہلے نبیؑ کریم قطعا "کامل” نہیں تھے، لیکن نبوت کے بعد آپ کو معجزاتی حد تک کاملیت سے نوازا گیا۔
"حضرت صفواں بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل ایک ہانڈی لے کر آئے، میں نے اس میں سے کھایا تو مجھے جماع میں چالیس مردوں کی قوت دی گئی۔
مجاہد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو چالیس مردوں کی قوت دی گئی۔
طاوؑس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جماع میں چالیس مردوں کی قوت دی گئی تھی”۔
طبقات ابن سعد، جلد اول، حصہ دوم، صفحہ نمبر 473
باخبار محمد بن عمر بتحدیث موسیٰ بن محمد بن ابراہیم از محمد بن ابراہیم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں ہمبستری میں سب سے زیادہ کمزور تھا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایک ہانڈی اتاری، جس میں گوشت تھا، اب جب بھی میں چاہتا ہوں، اسے پا لیتا ہوں۔
باخبار محمد بن عمر بتحدیث اسامہ بن زید لیثی از صفوان بن سلیم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میرے پاس جبرائیل علیہ السلام ایک ہانڈی لیکر آئے، میں نے اس میں کھایا اور مجھے چالیس مردوں کے برابر قوت باہ عطا کر دی گئی۔
باخبار محمد بن عمر بتحدیث محمد بن عبداللہ از زہری از نبی ﷺ: میں نے دیکھا گویا میرے پاس ایک ہانڈی لائی گئی ہے پھر میں نے اس میں سے خوب پیٹ بھر کر کھایا، اب جب بھی میں ہمبستری چاہتا ہوں، کر لیتا ہوں، یہ حال جب سے ہے جب سے میں نے اس ہانڈی سے کھایا ہے۔
باخبار محمد بن عمر بتحدیث معاویہ بن عبداللہ بن عبید اللہ بن ابی رافع از عبداللہ اپنی دادی سلمیٰ، رسول اللہ کی آزاد کردہ لونڈی سے: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی نو عورتوں سے ہمبستری فرمائی، جن کو چھوڑ کر آپ کی وفات ہوئی، جب آپ اپنی ایک عورت سے فارغ ہو کر باہر آتے تو سلمیٰ سے کہتے: مجھ پر غسل کیلئے پانی ڈال، پھر آپ دوسری کے پاس جانے سے پہلے غسل کر لیتے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ کیا آپ کو ایک غسل کافی نہیں ہے؟ فرمایا اس طرح غسل مزید پاکی اور طہارت کا موجب ہے۔
باخبار محمد بن عمر بتحدیث معمر از قتادہ از انس: میں رسول اللہ ﷺ پر پانی ڈالا کرتا تھا جب آپ تمام عورتوں سے فارغ ہو کر غسل کیا کرتے تھے۔
طبقات ابن سعد، جلد چہارم، حصہ ہشتم، صفحہ نمبر 145
حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے انسؓ نے کہا رسول کریم ایک ہی پھیرے میں تمام ازواج سے فارغ (مباشرت) ہو آئے۔ اور ان (بیویوں) کی تعداد گیارہ تھی۔ میں نے انسؓ سے پوچھا، کیا رسول کریم میں اتنی طاقت تھی۔ حضرت انسؓ نے جواب دیا، ہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم کو تیس آدمیوں جتنی قّوت (باہ) دی گئی۔ اور سعیدؓ کا قتادہؓ کے بیان کے بارے میں یہ کہنا ہے، کہ حضرت انسؓ نے انہیں صرف (نبی کریم کی) نو بیویوں کا بتایا ہے۔(گیارہ نہیں)۔
صحیح بخاری، جلد اوّل، حدیث نمبر 268
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس (برائے مباشرت) تشریف لے جایا کرتے تھے، اور اس وقت آپ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں۔
سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر 3203
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، ایک رات رسول کریم اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے ایک ہی غسل سے۔ یعنی سب سے صحبت کی اور آخر میں غسل کیا۔
سنن نسائی جلد 1 حدیث نمبر 266
ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو نوانہ نے ابراہیم بن محمد بن منتثر سے، وہ اپنے والد سے، کہا میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا اور ان سے ابن عمرؓ کے اس قول کا ذکر کیا کہ میں اسے گوارا نہیں کر سکتا کہ میں احرام باندھوں اور خوشبو میرے جسم سے مہک رہی ہو۔ تو عائشہؓ نے فرمایا، میں نے خود نبی کریم ﷺ کو خوشبو لگائی، پھر آپ ﷺ اپنی تمام ازواج کے پاس (برائے مباشرت) گئے اور اس کے بعد احرام باندھا۔
بخاری شریف، جلد اول، کتاب الغسل، حدیث نمبر 270
سنّی فرقہ کے لوگ حضور کے بچوں کی تعداد چھ بتاتے ہیں، زینب، رقّیہ، ام کلثوم، قاسم، طیّب (یا طاہر) اور فاطمہ۔ جبکہ شیعہ مسلک کے لوگوں کے مطابق حضرت خدیجہؓ کی تین بڑی بیٹیاں ان کی پہلی شادی سے تھیں۔ ان کی اپنی اصلی بیٹی صرف فاطمہ تھیں جن کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا تھا۔ بعض روایات کے مطابق وہ خدیجہؓ کی اپنی بیٹیاں تھیں ہی نہیں، بلکہ ان کی بہن ہالہ بنت خویلد کی تھیں، ہالہ کے اپنے خاوند کے ساتھ تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے، ہالہ کی وفات کے بعد حضرت خدیجہ نے انہیں گود لے لیا اور اپنے گھر لے آئیں۔ یاد رہے، نبیء کریم کا بھی ایک لے پالک بیٹا تھا جس کا نام زید بن محمد تھا، ابھی تک سورۃ احزاب کی وہ آیت نازل نہیں ہوئی جس کا مقصد نبی کریم کی اپنی بہو سے شادی کو جائز ٹھہرانا تھا۔
جب نبی کریم کی حضرت خدیجہ سے شادی ہوئی تو کچھ عرصہ بعد ہالہ بنت خویلد کا انتقال ہو گیا، انہوں نے اپنے پیچھے دو بیٹیاں چھوڑیں، ایک کا نام رقّیہ اور دوسری کا نام زینب تھا۔ نبی کریم اور خدیجہؓ نے ان کی پرورش فرمائی، ان وقتوں کا رواج تھا کہ جو کسی کی پرورش کرتے تھے وہی ان کے والدین کہلاتے تھے۔ (الاستغاثہ صفحہ نمبر 69)۔ ابن ہشام کچھ یوں لکھتے ہیں: "نبی کریمؐ سے شادی سے پہلے ان (خدیجہؓ) کی شادی ابی ہالہ بن مالک سے ہوئی تھی، جس سے آپ کی ہند بنت ابی ہالہ اور زینب بنت ابی ہالہ نامی دو بیٹیاں ہوئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمدؐ سے شادی سے پہلے آپ کی (خدیجہؓ) دو بیٹیاں تھیں، اور جو ان سے شادی کرے گا وہ آپ کا داماد کہلائے گا۔ اور ان دونوں لڑکیوں کی حثیت آپ کی (نبیء کریم اور خدیجہؓ) بیٹیوں کی ہو گی”۔
سیّد ابوالقاسم الخوئی، تبصرہ نہج البلاغہ
شیعہ مسلک کا دعویٰ زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتا ہے کہ نبیؑ کریم کی اپنی بیٹی صرف حضرت فاطمہ تھیں کیونکہ اگر زینب، رقیّہ اور ام کلثوم آپ کی اپنی بیٹیاں تھیں تو آپ نے انہیں مشرکین کے نکاح میں کیوں دیا۔ زینب کی شادی ابو العاص بن ربیح سے ہوئی، ابو العاص نے مشرکین کی جانب سے غزوہ بدر میں حصہ لیا اور قیدی بنا، روایات کے مطابق زینب نے فدیہ کے طور پر آپ کو اپنی ماں خدیجہؓ کا ہار بھیجا، جسے دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے ابوالعاص کو بغیر فدیہ کے رہا فرما دیا۔ رقیّہ اور ام کلثوم کی شادی آپؐ کے تایا عبدالعزیٰ (ابو لہب) کے بیٹوں عتبہ بن عبدالعزیٰ اور عتیبہ بن عبدالعزیٰ سے ہوئی جب "سورۃ تبت یدا ابی لہب، الخ” نازل ہوئی تو دونوں نے بغض و عناد کی وجہ سے اپنے باپ کے کہنے پر اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ بعد میں ان دونوں کی شادی حضرت عثمان بن عفان سے ہوئی۔
جس وقت حضرت فاطمہ کی ولادت ہوئی اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر 50 سال تھی، یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب عورتوں کی ماہواری رک جانے کے باعث مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود حضرت خدیجہ نے 4 یا 6 بچے جنے، حضرت فاطمہ کی پیدائش کے وقت رسول کریم 35 سال کے تھے، یہ وہ سال تھا جب کعبہ شریف کی تعمیر نو ہو رہی تھی۔ پانچ سال بعد آپ ﷺ پر نبوت نازل ہوئی، حضرت فاطمہ نے پانچ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، آپ اسلام قبول کرنے والی سب سے کم عمر فرد تھیں۔
حضور نے جب ہجرت کی تب آپ پچاس سال کے تھے، اور حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد آپ ﷺ نے دھڑا دھڑ شادیاں کیں آپ کے حرمِ شریف میں 33 سال کی "بڑھیا ” سودہ بنت زمعہ سے لیکر 9 سالہ کمسن عائشہ سمیت ہر عمر اور ہر رنگ کی امہات المومنین اور کنیزیں تھیں۔ انہی میں سترہ سالہ ریحانہ بنت زیاد، بنو قریظہ کی وہ غیرت مند یہودن بھی تھی جس نے اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑ کر مومنیں کی امی بننے کی بجائے ایک کنیز بننا گوارا کیا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ نبی کریم جن کے پاس 40 مردوں جتنی قوت باہ تھی، حضرت خدیجہؓ کے علاوہ کسی بھی دیگر ام المومنین سے آپ ﷺ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی، کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سب کی سب امہات المومنیں اور کنیزیں بانجھ تھیں، لیکن کیا کیا جائے کہ ان میں سے کچھ کے نبی کریم سے شادی سے پہلے بچے تھے، رملہ بنت ابو سفیان اور ہند بنت ابو امیہ پر تو بانجھ پن کا الزام قطعا نہیں لگایا جا سکتا، وہ پہلی شادیوں سے بچوں کی مائیں تھیں تو کیا 40 مردوں کے برابر قوت باہ محض ایک بڑ تھی؟ نبیؑ کریم کسی غیر معمولی قوت باہ کے قطعا حامل نہیں تھے؟ بلکہ قوت باہ کے حوالے سے آپ ﷺ کی حالت ہم عام گناہگاروں سے بالکل بہتر نہیں تھی، اور جیسے 45۔ 50 سال کی عمر میں امت رسول اللہ کے دیگر افراد کی جنسی طاقت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ آپ قطعا اس قدر مرد کامل نہیں تھے جتنا آپ دعویٰ فرمایا کرتے تھے۔
آپ ﷺ پر آپ کی کنیز ماریہ بنت شمعون کےبطن سے پیدا ہونے والے ابراہیم نامی بچے کا باپ ہونے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے، یہ وہی ابراہیم ہے جن کے متعلق ذکر ہے:
"جب ابراہیم کا انتقال ہوا تو حضور نے کہا کہ ابراہیم کیلئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے، اور اگر یہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا، اور اگر یہ زندہ رہتا تو میں اس کے ننھیالی رشتے دار قبطی غلاموں کو آزاد کر یتا، اور کسی قبطی کو غلام نہ بناتا”۔
سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز باب ما جاء في الصلاة على ابن رسول الله وذكر وفاته، رقم الحدیث: 1511
اسماعیل السدی کہتے ہیں، میں نے اسدؓ بن مالک سے پوچھا آیا رسول اللہﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیمؓ پر نماز (جنازہ) پڑھی تھی۔ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں، اللہ ابراہیمؓ پر رحم کرے وہ اگر جیتے تو صدیق اور نبی ہوتے۔
طبقات ابن سعد، جلد اول، صفحہ نمبر 152
لیکن تاریخ اور حدیثوں کے مطابق کہانی ذرا مختلف نظر آتی ہے۔ رسول کریم کی خواہش کے برعکس حضرت عائشہؓ کو رسول کریم ﷺ اور ابراہیم میں قطعا کوئی مشابہت نظر نہیں آئی۔
"عائشہؓ فرماتی ہیں، ابراہیم جب پیدا ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کو لیے میرے پاس آئے اور فرمایا میرے ساتھ اس کی شباہت دیکھ، میں نے کہا میں نے تو کوئی شباہت نہیں دیکھی، فرمایا اس کے گورے رنگ اور گوشت کو نہیں دیکھتی، میں نے کہا جو صرف دائی (یا اونٹنی) کے دودھ سے پالا جاتا ہے وہ گورا اور موٹا ہوتا ہے۔
طبقات ابن سعد، جلد اول، صفحہ 148-149
"حضرت یونس بن بکیر حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے ام ابراہیم کے بارے میں اس کے ابن عم مابور قبطی کے بارے میں چہ میگوئیاں کیں جو ان کے پاس آتا جاتا تھا۔ تو رسول اللہ نے فرمایا، اے علی یہ تلوار لو اور جاؤ، اگر وہ اس کے پاس ہو تو تہہ تیغ کر دو۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ میں آپ کے حکم کی تعمیل میں گرم لوہے کی طرح ہوں، مجھے آپ کے ارشاد پر عمل درآمد کرنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو گی۔ کیا حاضر وہ چیز دیکھتا ہے جو غائب نہیں ہو سکتا؟ تو رسول اللہ نے فرمایا بالکل، بلکہ مشاہد اور حاضر وہ کچھ دیکھتا ہے جس کے دیکھنے سے غائب عاجز ہوتا ہے۔ میں تلوار حمائل کیے ہوئے اس کے پاس آیا تو مابور کو ام ابراہیم کے پاس پایا، میں نے تلوار میان سے کھینچ لی، تو وہ سمجھ گیا کہ میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں، تو وہ دوڑ کر ایک کھجور پر چڑھ گیا، پھر اس نے خود کو گدی کے بل گرا دیا اور ٹانگیں اوپر کو اٹھا دیں، دیکھا تو اس کا آلہ بول اور عضو تناسل کٹا ہوا تھا۔ وہ مردوں والی حالت سے قطعا محروم تھا۔ میں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا قصہ آپؐ کو بیان کیا، تو آپ ﷺ نے شکر ادا کیا کہ سب تعریف خدا کی ہے جس نے ہم اہل بیت سے اس تہمت کورفع فرما دیا۔
تاریخ ابن کثیر، جلد سوم، حصہ پنجم صفحہ 300
باخبار محمد بن عمر، بتحدیث محمد بن عبداللہ از زہری از انس بن مالک، ام ابراہیم نبی ﷺ کی لونڈی اپنے بالا خانے میں رہتی تھیں اور ایک قبطی ان کے پاس رہتا تھا جو ان کو پانی اور لکڑیاں لا کر دیا کرتا تھا تو لوگوں میں چرچا ہونے لگا کہ ایک دیہاتی ایک دیہاتن کے پاس آتا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی یہ افواہ پہنچ گئی، آپ نے حضرت علیؓ کو اس سلسلہ میں بھیجا، حضرت علیؓ نے اس کو ایک کھجور پر پایا، یہ حضرت علیؓ کی تلوار دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا اور ڈر کے مارے اس کا تہبند کھل گیا، دیکھا تو اس کا ذکر کٹا ہوا تھا۔ حضرت علیؓ نے اسے قتل نہیں کیا اور آپ نبی ﷺ کے پاس آ کر کہنے لگے: یا رسول اللہ اگر آپ کسی کو کسی کام کیلئے بھیجیں پھر وہ چیز اس میں نہ دیکھے تو کیا وہ آپ سے پوچھنے کیلئے آئے۔ فرمایا: ہاں، پھر آپ نے بتایا کہ اس قبطی کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہے، پھر ماریہ کے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے اور جبرائیل نبی ﷺ پر اترے اور فرمایا، السلام علیک اے ابراہیم کے والد، اس سے رسول اللہ ﷺ کی دلجوئی ہوئی۔
طبقات ابن سعد، جلد چہارم، حصہ ہشتم، صفحہ 159
ذرا باریک بینی سے اس واقعے کو غور سے پڑھیے، عقل والوں کیلئے اس میں بہت سے اشارے ہیں، ڈر سے تہبند کھل گیا؟، اگر کوئی درخت کے اوپر چڑھا ہوتا ہے تو اس کا اگلا حصہ درخت کی جانب ہوتا ہے، پشت دیکھنے والوں کی طرف ہوتی ہے، عجیب محسوس ہوتا ہے، حضرت علی نے پیچھے سے اتنی اونچائی پر چڑھے قبطی کا کٹا ہوا عضو تناسل دیکھ لیا، باوجود حضرت علیؓ کی گواہی کے رسول کریم کی تسلی حضرت جبرائیل کے کہنے پر ہوتی ہے، کیا خوبصورتی سے سچ پر "مٹی پائی” گئی ہے۔
حضرت جمیع بن عمیر سے روایت ہے، میں اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان دونوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت کیا، کہ رسول کریم ﷺ زوجہ مطہرہ سے حالت حیض میں کیا عمل اختیار فرماتے۔ فرمایا: آپ ﷺ حکم فرماتے خوب بڑا اور عمدہ قسم کا تہبند باندھنے کا، پھر آپ ان بیوی کے سینہ اور پستان سے لپٹ جاتے۔
سنن نسائی، جلد اول، حدیث نمبر 377
کیا نبیؑ پاک ﷺ صرف حیض والی بیویوں سے یہ سلوک فرماتے تھے، اور کیوں، جب کہ وہ ان کے ساتھ جماع نہیں کرتے تھے، ام المومنین عام گوشت پوست کی خواتیں تھیں۔ کسی بھی عورت خواہ وہ حائضہ ہو یا غیر حائضہ، کے نازک اعضا سے اگر چھیڑ چھاڑ کی جائے تو وہ جوش جذبات سے ابل پڑتی ہے۔ نبیؑ کریم کے حائضہ امہات المومنیں کے پستانوں سے لپٹ جانے کے بعد ان ام المومنین کے اندر جو "گرمی” بھر جاتی تھی، آپ یقینا انہیں ادھورا چھوڑ کر خود سو جایا کرتے تھے، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ اپنی دوسری بیویوں کو بھی اسی آگ میں جلتا چھوڑ کر خود سو جاتے ہوں۔
ایرانی سابقہ مسلمان علی سینا کے نزدیک آپ ﷺ بچپن سے ہی مرگی کی مریض تھے، وحی کے نزول کے وقت سخت سردی میں بھی آپکو پسینے آتے، بے ہوش ہو کر گر پڑنا، ہوش میں آنے کے بعد انتہائی تھکاوٹ ہونا وغیرہ اس کی چند نشانیاں ہیں۔ اسی بیماری کے نتیجہ میں آپ ﷺ بہت جلد نامردی کا شکار ہوگئے تھے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے "انڈر سٹینڈنگ محمد از علی سینا”۔
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا آپ پر یہ اثر ہوا تھا کہ آپ کو خیال ہوتا کہ آپ نے ازواج مطہرات میں کسی کے ساتھ ہمبستری کی ہے، حالانکہ نہیں کی ہوتی۔
صحیح بخاری شریف، کتاب ہفتم، کتاب الطب۔ حدیث نمبر 5765
کیا واقعی خدا کا حبیب کسی یہودی کے جادو کا اس طرح شکار ہو سکتا ہے، کہ وہ بیوی کے ساتھ صحبت نہ کرنے کے باوجود سوچے کہ اس نے صحبت کی ہے، کیا یہ جادو کسی یہودی کا کیا ہوا تھا یا آپ پیرانہ سالی کے "جادو” کا شکار ہوئے تھے؟۔
درج ذیل آحادیث غور سے پڑھیے، ایک بیوی کا اپنے شوہر کے متعلق کہنا ہے:
عائشہؓ نے کہا کہ میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کی شرمگاہ نہیں دیکھی۔
طبقات ابن سعد، جلد اول، حصہ دوم، صفحہ نمبر 479
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک باندی روایت کرتی ہیں، کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا، میں نے اللہ کے رسول ﷺ کا مقام ستر نہیں دیکھا۔
سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح حدیث نمبر 1922
حضرت عائشہ سے روایت ہے، ہم ازواج میں سے کوئی حائضہ ہوتی، اس حالت میں رسول اللہ ﷺ اگر مباشرت کا ارادہ فرماتے تو آپ ازاربند باندھنے کا حکم دیتے باوجود حیض کی زیادتی کے۔ پھر بدن سے بدن ملاتے۔ آپ (حضرت عائشہؓ) نے کہا، تم میں ایسا کون ہے جو نبیؑ کریم ﷺ کی طرح اپنی شہوت پر قابو رکھتا ہو۔
صحیح بخاری شریف، جلد اول، کتاب الحیض حدیث نمبر 302
"نکاح کے وقت میں چھ سال کی تھی اور رخصتی کے وقت نو سال کی، رخصتی کے بعد بھی میں بچیوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، جب آپ تشریف لاتے تو آپ سے میری سہیلیاں چھپ جایا کرتی تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ میرے سے ہٹ کر انہیں بھیج دیا کرتے تھے”۔
طبقات ابن سعد، جلد چہارم، حصہ ہشتم، صفحہ نمبر 385
نبیؑ کریم ﷺ کی قوت باہ کی باتیں ڈینگوں اور لاف زنی کے سوا کچھ نہیں، آپ قوت باہ کے حوالے سے کوئی سپر مین نہیں تھے۔ یہ گڑیوں سے کھیلنے والی کمسن عائشہ کی ناسمجھی تھی جو نبی کریم کے شہوت پر اس قدر "قابو” کو خدائی دین یا کرشمہ نبوت سمجھ بیٹھی اصل حقیقت یہ تھی کہ نبی کریم کا "گڈا” ابدی نیند سو چکا تھا، اور عضو تناسل کی ایستادگی میں مدد دینے والی ویاگرا، گولڈن ڈریگن یا اس نوعیت کی دیگر ادویات کے دستیاب ہونے میں ابھی پندرہ صدیاں باقی تھیں۔