Close

اللہ کا دشمن کون ہے؟

میں اس شخص کا دشمن کیسے ہوسکتا ہوں جس سے میں کبھی ملا ہی نہیں اور جو مجھے جانتا بھی نہیں؟

مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ انسان کا قتل ایک جرم ہے الا یہ کہ وہ اللہ کا دشمن ہو۔۔

تو پھر اللہ کا دشمن کون ہے؟

کیا آپ کے کچھ ایسے دشمن ہیں جنہیں آپ قتل کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ کا شکر ہے کہ میرے کوئی دشمن نہیں ہیں! یہ درست کہ آفس میں مجھے شپنگ منیجر سے نفرت ہے جو ہر پرفارما میں کیڑے نکال کر میرا کام بڑھا دیتا ہے، محلے کی مسجد کے مولوی سے بھی مجھے نفرت ہے جو دن رات لاؤڈ سپیکر پر گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنے آقائے مُردار پر درود وسلام بھیجتا ہے اور سارے محلے کا سکون برباد کرتا ہے۔۔ اور چڑیا گھر سے بھاگے ہوئے اس بھنگی سے بھی مجھے نفرت ہے جو آج کل کیپٹل ٹاک میں نظر آتا ہے۔۔ طارق جمیل سے بھی مجھے نفرت ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اب اسے پاگل خانے بھیج ہی دیا جانا چاہیے۔۔ تاہم ان میں سے کسی کے لیے میں موت کا متمنی ہرگز نہیں ہوں اور نا ہی انہیں قتل کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں کیونکہ آخر کار میں ایک انسان ہوں اور میرے کچھ اصول اور اخلاقیات ہیں جن کا میں خود کو پابند سمجھتا ہوں۔

سیرتِ نبوی میں قتل اور اجتماعی نسل کشی کے کئی واقعات ہیں، بنی قریظہ کے یہود یا خیبر اس کی مثال ہیں، بنو قریظہ کے قتلِ عام کے بارے میں خون سے لتھڑی مُعطر سیرتِ مصطفی ہمیں بتاتی ہے کہ جب وہ شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکل آئے تو صلعم نے انہیں بنی النجار کے ایک گھر میں قید کردیا اور ایک ایک کو باہر نکال کر ذبح کرتا گیا اور خندق میں پھینکتا گیا جبکہ باقی قیدیوں کو پتہ ہی نہ تھا کہ ان کے ساتھ باہر کیا ہو رہا ہے حالانکہ شکست کے معاہدے کے مطابق صلعم کو ان کے مال کے بدلے ان کی جان بخشنی تھی مگر صلعم نے اپنی سرشت کے مطابق غداری کی، اس دوران کٹتی انسانی گردنوں اور بہتے خون کے ان ہولناک مناظر نے انصار کے دل دہلادیے، یہ وہ لوگ تھے جو صلعم کے مدینہ آنے سے پہلے ان کے پڑوسی تھے اور ان سے ان کے اچھے برادرانہ تعلقات تھے لہذا انہوں نے صلعم کو یہ قتلِ عام روکنے کے لیے کہا مگر صلعم اپنی مکارانہ فطرت سے مجبور تھا، اس نے کسی کی نہ سنی اور یہ بہیمانہ قتلِ عام جاری رکھا جہاں خونین سیرت کے مطابق چھ سو سے سات سو انسانوں کی گردنیں اتاری گئیں پھر صلعم نے ان کے مال ودولت اور عورتوں پر قبضہ کر لیا، سب سے بڑا انعام حیی ابن اخطب کی بیٹی صفیہ تھی جس سے صلعم نے بغیر عدت کے اس کے باپ اور شوہر کو قتل کرنے کے بعد فوری طور پر شادی رچا لی۔۔ (تفسیر الطبری میں دیکھیے سورۃ الاحزاب کی آیت 26 کی تفسیر، صفحہ 421)

اس قصے کو جسٹی فائی کرنے کے لیے مسلمانوں کے ایک ہزار ایک بہانوں سے مجھے حیرت نہیں ہوگی۔۔ خاص طور سے جبکہ وہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تھے لہذا ان کے ساتھ جو کچھ ہوا بالکل ٹھیک تھا کہ یہ اُس جلاد اللہ کی حکمت ہے جس نے احمقوں کی طرح آسمان کو بغیر ستونوں کے اٹھا رکھا ہے۔

 

پھر اللہ کا دشمن آخر ہے کون؟

اللہ کے دشمن کی تعریف وضع کرنا خاصہ مشکل کام ہے، کیا یہ وہ ہندو ہے جو بتوں کی پوجا کرتا ہے یا بدھ مت؟ یا یہ وہ عیسائی ہے جو صلیب کی پوجا کرتا ہے؟ کیا یہ وہ رافضی ہے جو رسول کے پالتو پیارے صحابہ کو گالیاں دیتا ہے؟ یا خشک دماغ وہابی یا قادیانی، یا بہائی، یا صوفی، یا اسماعیلی، یا سیکولر، یا کمیونسٹ یا پھر وہ جو مسلمانوں سے کسی بات پر اختلاف کرے؟

ابھی تک اللہ کے دشمن کی کوئی تعریف نہیں مل سکی؟

چاروں آسمانی کتابیں، قرآن، تورات، انجیل اور اور نبیوں کے نبی سید قطب کی کتاب فی ظلال القرآن یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ اللہ کے دشمنوں کو تباہ وبرباد کردیا جائے جبکہ ان میں سے ہر کوئی دوسرے کو اللہ کا دشمن سمجھتا ہے، شیعہ اور سنی ایک دوسرے کو اللہ کا دشمن سمجھتے ہیں بلکہ قصہ تخلیق کے آغاز سے ہی اللہ کا ایک دشمن موجود تھا۔۔ ذرا بوجھیے تو وہ کون ہے؟۔۔۔۔۔ جی ہاں یہ ابلیس ہے۔۔

حضرتِ مسیح اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت کریں مگر یہی بات وہ خود پر لاگو نہیں کرتے اور اپنے دشمن شیطان سے محبت نہیں کرتے بلکہ اسے صلیب کا دشمن قرار دیتے ہیں، میں نے کبھی ایسا شخص نہیں دیکھا جو اپنے آلہ قتل سے اس قدر محبت کرتا ہو جتنا کہ یہ شخص کرتا ہے، یعنی اگر اسے پھانسی دے کر مارا جاتا تو کیا وہ رسیوں سے محبت کرتا؟!

قرآن اور سیرت میں اللہ کے بہت سارے دشمنوں کا ذکر ہے، موسی کا فرعون اللہ کا دشمن تھا، ابو لہب اللہ کا دشمن تھا، ابو جہل، مسیلمہ، نمرود، عامر بن طفیل، لوط کی بیوی، مایکل جیکسن، برکت حسین اوباما اور ہر وہ شخص جو گناہ کرتا ہے اللہ کا دشمن ہے۔۔

اللہ کے دشمن کی گالی صحابہ میں خاصی پاپولر ومقبول تھی، جب اللہ کی بے نیام تلوار خالد بن الولید نے بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ کا قتل کیا جو مرتد نہیں ہوا تھا اور اسلام کو اپنے تمام تر ارکان سمیت قبول کر لیا تھا مگر اس نے اپنے اوپر قریش کے تسلط کو مسترد کردیا تھا، تو ہمارے اس جلیل القدر صحابی نے اسے صرف قتل کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی بیوی لیلی بنت المنہال التمیمیہ سے فوری طور پر شادی بھی رچا لی جو اپنی خوبصورت ٹانگوں کی وجہ سے بہت مشہور تھی اور اسلامی عدت کی شرط کو دیوار پر دے مارا، اس طرح اس نے اپنے رسول کی سلفیانہ اتباع کی جس نے صفیہ بنت اخطب سے شادی کرتے وقت عدت کی شرط کو خود ہی پامال کردیا تھا، عباس محمود العقاد اپنی کتاب ❞عبقریۃ خالد❝ میں اس عورت کا المیہ لکھتے ہیں:

(کان ثدییہا ینضحان بلبن الرضاع من اولاد لہا من مالک)
❞مالک سے اس کی اولاد کے لیے اس کے پستان دودھ سے بھرے ہوئے تھے❝

خالد جنگی مجرموں کے لیے ایک بہترین نمونہ تھا حتی کہ عمر نے اس سے کہا تھا کہ:

(یا عدو اللہ قتلت امرءاً مسلماً ثم نزوت علی امراتہ، واللہ لارجمنک بالاحجار)
❞اے اللہ کے دشمن ایک مسلمان شخص کو مار کر اس کی بیوی پر سوار ہوگئے، اللہ کی قسم میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کروں گا❝

ایک اور قصے میں حضرت ابو ہریرہ نے جب بحرین کے بیت المال کی کرپشن سے دس ہزار درہم بنائے تو حضرت عمر نے اسے ❞اللہ اور اس کی کتاب کا دشمن❝ قرار دیتے ہوئے اس کی کتوں کی طرح اتنی پٹائی کی کہ وہ لہو لوہان ہوگیا۔

 

اسلامی ملوکیت کے دور میں بھی اللہ کے دشمن کے الزام کی اصطلاح کا استعمال جاری رہا، جب عباسی بنو امیہ کی تخلیق کردہ احادیث کی چھانٹی کر رہے تھے اور انہیں ایسی احادیث سے بھر رہے تھے جو ان کے اقتدار کو جواز دیتیں، ہمیں ہارون الرشید احادیث کے ایک مصنف سے اختلاف کرتے ہوئے ملتا ہے، اور اس سے پہلے کہ وہ اس کا سر کاٹے وہ بے چارہ اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ احادیثِ نبویہ کی جعلسازی میں مہارت رکھتا تھا تو ہارون الرشید جو ایک سال جنگیں لڑتا تھا اور ایک سال حج کرتا تھا اور فارغ وقت میں لوگوں کو قتل کرتا تھا نے اسے ❞اللہ کے دشمن❝ کی گالی دیتے ہوئے مطلع فرمایا کہ جناب ہمارے پاس ابی اسحاق الفزاری اور عبد اللہ بن المبارک جیسے آپ سے اچھے احادیث گھڑنے والے جعلساز موجود ہیں۔ (حوالہ)

آج جمہوری اسلامی پاکستان اللہ کے دشمنوں سے بھرا پڑا ہے جنہیں اسلام پسند اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے روزانہ بموں سے اڑاتے ہیں، جمہوری اسلامی پاکستان کے سارے لیڈر اللہ کے دشمن ہیں، نواز شریف اللہ کا دشمن ہے، اس کا بھائی شہباز شریف بھی اللہ کا دشمن ہے، جنرل کیانی بھی اللہ کا دشمن ہے، حسنی مبارک بھی اللہ کا دشمن ہے، قذافی بھی اللہ کا دشمن تھا، خادم الحرمین الشریفین بھی اللہ کا دشمن ہے، پوپ بھی اللہ کا دشمن ہے، موم بھی اللہ کی دشمن ہے، سلمان رشدی بھی اللہ کا دشمن ہے بلکہ انسان تو انسان اب تو چیزیں بھی اللہ کی دشمن ہونے لگیں ہیں۔۔ ٹی وی بھی اللہ کا دشمن ہے اور اب تو موبائل فون بھی اللہ کی دشمنی سے نہ بچ سکا۔

اگر آپ صلعم کے دشمن ہیں تو آپ خودکار طور پر اللہ کے بھی دشمن ہیں، اور اگر آپ صلعم کے کسی قلیل القدر صحابی کے دشمن ہیں تو آپ اللہ کے بھی دشمن ہیں، اور اگر آپ کسی تابعی کے تابع کے تابع کے تابع کے تابع کے کسی قول سے متفق نہیں ہیں تب بھی آپ اللہ کے دشمن ہیں، اور اگر آپ ثابت شدہ یا متفق علیہا عباسی یا اموی دور کے رسول اللہ سے احادیث گھڑنے والے کسی زندیق سے متفق نہیں ہیں تو بھی آپ اللہ کے دشمن ہیں، اگر آپ لبرل ہیں، یا سیکولر ہیں یا ملحد ہیں اور بھلے ہی آپ کا ان سے دور تک کا کوئی واسطہ نہ ہو تب بھی آپ اللہ کے دشمن ہوں گے۔

آپ شاید یہ تصور نہ کر سکتے ہوں کہ کوئی بازاروں میں جاکر بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو محض اس لیے قتل کرے گا کیونکہ اس کے خیال میں وہ اللہ کے دشمن ہیں۔۔ مگر جہاں اللہ کے دشمنوں کو قتل کرنے کے خدائی احکامات ہوں اور ان احکامات کو ماننے والے بے وقوف بھی ہوں تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔۔ معاملہ بس ایک نظر، پھر ایک مسکراہٹ اور پھر لبیک اور پھر۔۔۔۔ دھڑام۔۔۔۔۔ اور پھر بہتر حوروں کے ساتھ گروپ سیکس جس کا مقابلہ جینا جیمسن کی فلمیں بھی نہیں کر سکتیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف ان بہیمانہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں میں ضمیر کی ذرا سی بھی خلش نہیں ہوتی کیونکہ بے قصوروں کے قتل کے اللہ کے احکامات اسلام کے ماننے والوں کے ہاں اس قدر عام اور بدیہی ہیں کہ انہیں یہ ایک عام بات لگتی ہے، اور کیسے نہ ہو کہ انبیاء کے باپ ابراہیم کو اللہ نے سات سال کے بچے کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو اس نے بلا چوں وچرا اس پر لبیک کہہ دیا کہ اللہ کا حکم بجا لانا ہے چاہے وہ کتنا ہی انسانیت سوز اور گھٹیا ہو۔

اکثر مسلمان نازی ہولوکوسٹ کی محض اس لیے تایید کرتے ہیں کیونکہ یہودیوں نے مستقبل میں فلسطین پر قبضہ کرنا تھا!؟ اسی طرح اکثر مسلمان مغرب سے نفرت کی وجہ سے القاعدہ سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ ہر اس نظریہ سے جو ان کے نظریات سے مختلف ہے، مسلمانوں کے دماغوں میں یہ فکر قومی عسکری آمریتیں گزشتہ سو سال سے ٹھونستی چلی آرہی ہیں۔

مسلمانوں کے دعوے کے مطابق ریت سے برآمد ہونے والے ان کے اس خدا کے حکم کے بغیر کوئی ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، اس قدر بے پناہ طاقت کے باوجود وہ اپنے دشمنوں کو مارنے کے لیے انسانوں کو مامور کرتا ہے حالانکہ وہ یہ گھٹیا کام خود بھی کر سکتا ہے۔۔ ریت کا خدا یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ یہ طریقہ کارگر نہیں ہے، اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو لوگوں کو شروع سے ہی صحیح مذہب میں پیدا کرتا تاکہ وہ میرے دشمن نہ بنیں، تب مجھے دوسروں کو انہیں قتل کرنے کا حکم صادر نہ کرنا پڑتا، تاہم معلوم ہوتا ہے کہ اس نے انہیں جان بوجھ کر غلط مذہب میں پیدا کیا کیونکہ وہ شروع سے ہی انہیں قتل کرنے کی نیت کیے بیٹھا تھا۔

اللہ ہمیں اور آپ کو اپنی دشمنی سے بچائے۔۔۔

آمین۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top