مذاہب کے ماننے والوں کا ہمیشہ یہ دعوی رہا ہے کہ خدا نے ہی طبیعات (فزکس) کے تمام قوانین تخلیق کیے ہیں چنانچہ ہمیں یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ ” خدا کو کس نے تخلیق کیا؟ ” کیونکہ اس صورت میں ہم – قوانین کے خالق اور جن کے لیے قوانین بنائے گئے – میں برابری کردیں گے.
پہلی نظر میں یہ بات کافی معقول معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر آپ مُقدس مُتون پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ ساری بات بکواسِ محض ہے، کیونکہ طبیعات کے قوانین خدا پر بھی لاگو ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ خدا سے بھی پہلے سے موجود ہیں، اور چونکہ طبیعات کے قوانین خدا کے وجود سے بھی پہلے سے موجود ہیں چنانچہ یہاں ایک اور خالق کا وجود لازم ہوجاتا ہے جس نے خدا اور طبیعات کے قوانین کو تخلیق کیا.
مثلاً قرآن میں ہے کہ:
” اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ” (سورہ الاعراف، آیت 54)
(کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا)
لغت میں ” عرش ” کا مطلب بادشاہ کا بستر یا کرسی ہے تاہم یہاں کرسی مراد ہے ثبوت کے طور پر سورہ البقرہ کی آیت 255 میں ہے کہ:
” وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ”
اور ” استوی ” سے مراد لیٹنا یا بیٹھنا ہے، یعنی قرآن نے خدا کو ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا ہے جو تھکا دینے والے خدائی امور کی انجام دہی کے بعد تھک ہار کر آرام کی غرض سے اپنی کرسی پر جا بیٹھتا ہے، اس سارے قضیے میں سب سے دلچسب بات خدا کا اس کرسی پر بیٹھنا ہے، اگر خدا طبعی قوانین سے ماوراء ہے تو اسے بیٹھنے کے لیے کرسی کی ضرورت کیوں ہے؟ خدا کا کرسی پر بیٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی قوت ایسی ضرور موجود ہے جو اسے نیچے کی طرف کھینچ کر اس کرسی پر بٹھاتی ہے، اور یہ قوت یقیناً کششِ ثقل ہے.
اگرچہ یہ ثابت ہوگیا کہ کششِ ثقل کے قوانین خدا پر بھی لاگو ہوتے ہیں تاہم اب بھی ایک مشکل سوال باقی ہے، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ کرسی ایک مادی چیز ہے؟ اس سوال کا جواب بھی قرآن میں موجود ہے:
” وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ ” (سورہ ہود، آیت 7)
(اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا)
پانی ایک طبعی مادی چیز ہے جو کائنات کے کئی سیاروں کے علاوہ ہمارے اس چھوٹے سے کرہ ارض پر بھی پایا جاتا ہے، عرش کا پانی پر ہونا یا سادہ لفظوں میں پانی کا اس عرش کو اٹھانا اس بات کی بین دلیل ہے کہ خدا کو اٹھانے والا یہ عرش ایک مادی چیز ہے، ویسے بھی اس نتیجے کی ضرورت نہیں کیونکہ کششِ ثقل کا وجود ہی کافی ہے جو عرش کو پانی کی طرف دھکیل رہا ہے، گویا ساتویں آسمان پر بھی کششِ ثقل موجود ہے 😀
” علمائے حق ” کی طرف سے اس مسئلے کے دو ممکنہ جوابات ہوسکتے ہیں، پہلا جواب کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ:
”ہم نہیں جانتے کہ کیسے، یعنی ہم جانتے ہیں کہ خدا عرش پر بیٹھتا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ کیسے اس عرش پر بیٹھتا ہے، خدا کو کسی مخلوق یا مادی چیز سے تشبیہ دینا غلط ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ” لیس کمثلہ شیء ” (اس کے جیسی کوئی چیز نہیں) ”
اس جواب کا جواب پانی ہے، عرش کے پاس پانی کا ہونا اس جواب کے رد کے لیے کافی ہے کیونکہ پانی ایک مادی چیز ہے جس پر طبیعات کے قوانین لاگو ہوتے ہیں، جب قرآن یہ کہتا ہے کہ پانی نے عرش کو اٹھایا ہوا ہے تو اس طرح وہ ایک ایسے مادے کو جس پر طبیعات کے قوانین لاگو ہوتے ہیں معاملے میں داخل کردیتا ہے، اب ایک طبعی مادی چیز ایک ایسی چیز کو کیسے اٹھا سکتی ہے جو طبیعات یا کائنات سے ماوراء ہے؟
دوسرا ممکنہ جواب وہی گھسا پٹا ہے کہ:
” ہمیں اپنی محدود عقل کو ایسے معاملات میں نہیں الجھانا چاہیے، ہم ایک انتہائی ضعیف مخلوق ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ”
اس کا جواب بھی وہی گھسا پٹا ہے کہ خلقت میں نقص خالق کے نقص کی دلیل ہے، اگر میری محدود عقل نے خدا کے وجود کے مسئلے پر کوئی منطقی تضاد دریافت کر لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خدا اپنے آپ تک رسائی کے لیے کچھ چیزیں دستیاب کرنے سے قاصر ہے، میری یہ عقل (مذاہب کے ماننے والوں کے مطابق) خدا کی ایک مخلوق کے سوا کچھ نہیں ہے جسے اس خدا نے اپنا آپ منوانے کے لیے اپنے بندوں میں ودیعت کی ہے، تو اگر میری عقل اس کے وجود کا ادراک کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو یہ عقل کا نقص ہے جسے خدا نے کچھ مخصوص خواص کے ساتھ بنایا ہے.