Close

خدا کی عظمت

عدم کے بطن سے نمودار ہونے والے ایک انتہائی چھوٹے سے نقطے سے اتنی بڑی اور خوبصورت کائنات کا وجود میں آنا حیرت انگیز امر ہے… اس نکتے پر میں اکثر مذہب پرستوں سے اتفاق کروں گا کہ عقل کے لیے ابھی تک ایسی نامعقول بات کا تصور کرنا تقریباً نا ممکن ہے… بلکہ مضحکہ خیز طور پر یہ کائناتی تعجب خیزی فرض کرنا اس قدر نا ممکن ہے کہ ہمیں اپنے وجود کے أغاز کے نا معقول مسئلے کے حل کے لیے اس سے بھی بڑی نا معقول چیز فرض کرنی پڑجاتی ہے… بلکہ یہ سمجھانے کے لیے کہ ہم اس قدر بے وقوف ہیں کہ اس کائنات کو نہیں سمجھ سکتے ہم ایک ایسی قوت کا وجود فرض کرلیتے ہیں جو ہم سے بھی زیادہ ذہین اور اس کائنات سے بڑی ہے جو اس کائنات کے وجود کی وجہ ہے، اور ہٹ دھرمی یہ کہ اوپر سے یہ قوت ہمیں خود اُس پر سوچنے تک سے بھی منع کرتی ہے اور یوں ہم اپنی حماقتوں کی ساری وجوہات اس قوت پر ڈال دیتے ہیں جسے ہمارا ذہین ہونا منظور نہیں… کیا کبھی آپ نے سوال سے بھاگنے کا اس سے بڑا احمقانہ طریقہ دیکھا ہے؟ بات پلے پڑی؟ اگر نہیں تو یوں سمجھتے ہیں:

سلیم: تم نے اس آدمی کو کیوں مارا؟
جاوید: کیونکہ ” بابا ” نے کہا تھا.
سلیم: بابا نے تمہیں اس آدمی کو مارنے کے لیے کیوں کہا؟
جاوید: بابا کچھ بھی کرنے میں آزاد ہے ہمیں اس سے اس طرح کے سوالات کرنے کا حق نہیں ہے.
سلیم: مگر میں سمجھنا چاہتا ہوں.
جاوید: ہماری عقل ناقص اور چھوٹی ہے چنانچہ ہم جتنی بھی کوشش کر لیں ہم بابا کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتے.

یہ اور ایسے کئی اسباب اور مسببات ہیں جن کے ذریعے اصل جواب سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا جواب پیش کیا جاتا ہے جو اپنے آپ میں ” ناجواب ” ہوتا ہے.

جوابات کے اس ” گول مول ” انداز میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ خدا پر اس قدر کائناتی نقائص اور برائیاں چپکا دیتا ہے کہ ذہنوں میں موجود خدا کا وہ اعلی تصور ڈھیر ہوکر رہ جاتا ہے.. یہ چیزوں اور معاملات کی وجوہات اور مسببات پر ایک انتہائی سطحی فکر ہے جہاں بُری باتوں کو گول مول القاب عطاء کر کے حقیقی جوابات سے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے.. یوں مذہب کی تاریخ نے خدا میں جو خامیاں تخلیق کی ہیں اور جن میں سب سے بڑا کردار مذہب کے ٹھیکے داروں نے ادا کیا ہے، یوں ہیں:

نکما: خدا اس قدر نکما ہے کہ اس کی بہترین تخلیق ایک بے وقوف اور برے جانداروں پر مشتمل ہے جو نہ صرف اس کا ادراک نہیں کر سکتے بلکہ انہیں درپیش مصیبتوں میں سے وہ اس کی حکمت تک نہیں سمجھ سکتے.

محدودیت: خدا آسمان پر کچھ مخصوص مقامات پر موجود ہوتا ہے جیسے عرش اور زمین پر اس کے کچھ چند گھر.

فضولیت: خدا بلا کسی وجہ اور مقصد کے ازل سے موجود ہے اور اچانک ہی وہ بلا وجہ آسمان اور زمین بنانے کا فیصلہ کرتا ہے جس میں نا تو اس کا کوئی فائدہ ہے اور نا ہی اس کی مخلوق کا.

سخت گیری: خدا اتنا سخت گیر ہے کہ اس کی سختی دنیا کے تمام ظالموں، مجرموں اور قاتلوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بے قصور لوگوں پر ڈھائے جانے والے طبعی وغیر طبعی مظالم خاموشی سے ایک تماش بین کی طرح دیکھتا رہتا ہے اور ذرا بھی جنبش نہیں کرتا.

درندگی: خدا اتنا بڑا درندہ ہے کہ وہ زندہ مخلوق بنا کر انہیں زندگی کی مصیبتیں جھیلنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے، پھر بھی اس کا جی نہیں بھرتا اور وہ انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں بھونتا رہتا ہے، حالانکہ وہ اس مخلوق کا دردناک انجام جانتا ہے مگر پھر بھی وہ انہیں تخلیق کرتا ہے.

انتہاء پسندی: خدا اتنا بڑا انتہاء پسند ہے کہ وہ اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک مخلوق کو برتر قرار دیتا ہے، پھر اس مخلوق میں بھی بعض کو بعض پر برتر قرار دیتا ہے اور پھر ان بعض میں سے کچھ کو ان باقیوں سے برتر قرار دیتا ہے اور یوں انتہاء پسندی کا یہ سلسلہ ادنی تر درجے تک جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے تاریخ خون خرابے سے بھری پڑی ہے.

خباثت: خدا خبیث ہے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر معذور مخلوق پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق ساری زندگی محتاجی اور عذاب میں مبتلا رہتی ہے.

خوں خوار: خدا خوں خوار ہے کیونکہ وہ ایسی مخلوقات تخلیق کرتا ہے جو ایک دوسرے کو کھا کر زندہ رہتی ہیں.

سطحیت: خدا بہت سطحی ہے، کیونکہ اتنی عظیم کائنات تخلیق کرنے، اور اس قدر پیچیدہ انسان پیدا کرنے کے بعد جو اس کی حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتا اسے اس کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی اور فضول قسم کی باتوں پر سزا دیتا ہے جیسے رفع حاجت، کھانے کی اقسام، بستر پر شریک شخص کی جنس وغیرہ.

عاجزی: خدا اپنی مخلوقات سے بات کرنے سے بالکل عاجز وقاصر ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کچھ ہزار سال بعد وہ ایک نبی بھیجتا ہے جس کے ساتھ اس کا ایک پیغام ہوتا ہے جسے ممکنہ طور پر ہر زمان ومکان کے لیے کارآمد ہونا چاہیے ہوتا ہے مگر وہ پیغام کارآمد نہیں ہوتا چنانچہ وہ دوبارہ ٹرائی کرتا ہے اور کچھ عرصہ بعد ایک اور نبی ایک اور پیغام کے ساتھ دوبارہ بھیجتا ہے اور خدا کی ناکامیوں کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے.

جہالت: خدا مکمل طور پر طبیعات، کیمیاء، طب، جغرافیا، تاریخ، ادب، انسانی آداب واخلاق سب سے مکمل طور پر نا واقف اور جاہل ہے، اس کی مقدس کتابیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں.

عظمت کا جنون: خدا خطرناک حد تک عظمت کے جنون میں مبتلا ہے، مخلوقات کو تخلیق کرنے کا اس کا واحد مقصد یہی ہے کہ وہ دن رات، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، نہاتے دھوتے بس اس کی تسبیح کرتے اور اسے سجدے کرتے رہیں.

جنس کا عقدہ: خدا ایک مشرقی مرد کی ذہنیت کا حامل ہے جو جنس کے عقدے کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عورت سے جلتا کڑھتا رہتا ہے اور ہر دم اسے نیچا دکھانے اور اسے ڈبوں میں پیک کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، عورت چاہے دنیا کی آخری اعلی ترین ڈگری ہی کیوں نا حاصل کر لے اس کی نظر میں وہ پھر بھی ایک جاہل گنوار بھنگی سے کم تر ہی رہتی ہے کیونکہ وہ ہر حال میں اپنے ہم جنسوں کو اس سے برتر دیکھنا چاہتا ہے، عورت کے جسم سے تو اسے خاص الرجی ہے جو ذرا سا بھی کہیں سے اگر نظر آجائے تو اس کا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتا ہے، ہاں اس کے ہم جنس بھلے چڈی بنیان میں گھومتے رہیں.

غصہ: خدا ہمیشہ غصے میں رہتا ہے، ہر فضول سی بات پر غصے میں اس کا عرش ہلنے لگتا ہے، مثلاً اگر کوئی کسی غلط شخص کے ساتھ ہمبستر ہوجائے تو خدا آپے سے باہر ہوجاتا ہے.

تنہائی: خدا دائمی نزلے کی طرح دائمی ازلی تنہائی کا شکار ہے یوں اس پر پڑنے والے غصے کے دورے اور عذاب دینے کے اس کے مختلف پیچیدہ طریقے سمجھ میں آتے ہیں، جو تنہائی کا شکار ایک بیمار ذہن کی علامت ہیں.

یہ تھیں خدا کی کچھ مختصر بیماریاں جن کا مختلف مذاہب کا خدا شکار نظر آتا ہے، قومیں جتنا مذہب کے ٹھیکیداروں کو ڈھیل دیتی جائیں گی خدا کی یہ بیماریاں اس قدر پیچیدہ ہوتی چلی جائیں گی، چنانچہ میری تمام سچے مؤمنین کو یہ نصیحت ہے کہ اگر آپ خدا تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اسے خود تلاش کریں، کسی کو بھی یہ اجازت مت دیں کہ وہ خدا کی صورت بگاڑ کر اسے سونے کی طشتری میں آپ کو پیش کرے، اس طرح خدا حقیقت کی تلاش وجستجو سے عاجز دماغوں کے لیے ایک لذیذ پکوان بن کر رہ جائے گا، اگر خدا موجود ہے اور اسے آپ میں دلچسبی ہے تو اسے آپ کو اپنی پہچان کرانے میں کسی واسطے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے، حقیقت جاننے کے لیے آپ کا سچا ہونا کافی ہے.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top