قرآن کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنے والا واضح طور پر یہ نوٹ کرتا ہے کہ جب بھی حضرت محمدﷺ کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے اچانک جبریل آکر اُن کا مسئلہ حل کردیتے ہیں جو ہمیشہ اُنکی منشا کے عین مطابق ہوتا ہے، مثلاً جب صحابہ کرام نے حرام مہینوں میں قریش کے ایک قافلہ پر حملہ کر کے مالِ غنیمت حاصل کیا اور حرام مہینوں کی وجہ سے سوالات اٹھے تو اچانک جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انہیں خدا کی طرف سے بشارت دی کہ وہ اُن کے صحابہ کے اس فعل پر راضی ہے چنانچہ نبی پر کوئی حرج نہیں کہ وہ لوٹ مار کے مالِ غنیمت سے اپنا حصہ وصول کر لیں (ظاہر ہے اسکے بغیر بحیثیتِ انسان انکی گزر بسر کیسے ہوگی؟)۔
(یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الشَّہۡرِ الۡحَرَامِ قِتَالٍ فِیۡہِ ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ٭ وَ اِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ؕ وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ – اے پیغمبر لوگ تم سے عزّت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا گناہ ہے۔ اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ میں جانے سے بند کرنا اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا جو یہ کفار کرتے ہیں اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ گناہ ہے۔ اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر کافر ہو جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ – سورہ بقرہ آیت 217)
اگرچہ ایسے کئی سیاسی معاملے ہیں جن میں جبریل علیہ السلام آسمان سے بطورِ مددگار بروقت تشریف لا کر اُن کی مشکل آسان کر دیتے ہیں یا اُن کی خواہشات پر تائیدِ ایزدی کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ تاہم اس پوسٹ میں ہم حضرت محمدﷺ کے سیاسی مسائل سے ہٹ کر صرف اُنکے ذاتی مسائل پر نظر ڈالیں گے کہ کس طرح جبریل حسبِ منشاء وحی لے کر آتے ہیں۔.
ام المومنین حضرت زینب بنت جحش محمدﷺ کے چچا کی بیٹی اور اُن کے لے پالک بیٹے حضرت زید بن حارثہ کی زوجہ تھی، ایک دن حضرت محمدﷺ زید سے ملنے گئے تو حضرت زینب نے دروازہ کھولا اور انہیں دیکھتے ہی وہ آپ ﷺ کو پسند آجاتی ہیں، قصہ مختصر کہ کچھ ہی عرصہ بعد حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی اور آپﷺ کے لئے راستہ بن گیا، لیکن یہاں ایک مسئلہ تھا.. مسئلہ یہ تھا کہ سب جانتے تھے کہ حضرت زید آپﷺ کے لے پالک بیٹے ہیں اور اس طرح حضرت زینب اُن کے بیٹے کی بیوی یعنی اُن کی بہو تھیں اور اُن پر حلال نہیں ہوسکتی تھیں.. اب اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟
حل سورہ احزاب کی آیت نمبر 37 کی صورت میں آیا:
(وَ اِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِ اَمۡسِکۡ عَلَیۡکَ زَوۡجَکَ وَ اتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللّٰہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ وَ اللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰہُ ؕ فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا – اور جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان کیا تھا اور تم نے بھی احسان کیا تھا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسکو اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ پھر جب زید نے اس سے تعلق ختم کر لیا یعنی اسکو طلاق دے دی تو ہم نے اسے تمہاری زوجیت میں دیدیا تاکہ مومنوں پر انکے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں جب وہ بیٹے ان سے اپنا تعلق ختم کر لیں یعنی طلاق دے دیں کچھ تنگی نہ رہے اور اللہ کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا۔)
مبادا کوئی اور حضرت زینب کے چکر میں پڑجائے اللہ تعالٰی نے بروقت آیت نازل فرما کر حضرت محمدﷺ کے لیے اُن کی سابقہ بہو کو حلال کردیا، اور مسئلے کا حل بڑا سادہ ہے، یعنی اصلی بیٹوں اور گود لیے ہوئے بیٹوں کی بیویوں میں تفریق کردی گئی، اس کی تصدیق کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر 40 میں گود لینے سے منع کردیا گیا:
(مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا – محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کر دینے والے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔)
اگرچہ تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت زینب سے عقد روایتی اسلامی طریقے سے ہٹ کر یعنی بغیر نکاح یا گواہان کے ہوا جبکہ ابھی عدت کی مدت نہیں گزری تھی۔ لیکن پورے واقعے سے ہمیں تین باتیں پتہ چلتی ہیں۔
نمبرایک: کہ اللہ کو اپنے رسول کی خوشی کتنی عزیز ہے۔
نمبر دو، یتیم بچوں کو اپنا نام دے کر پالنا درست نہیں ہے۔ اس سے شاید ان بچوں کو نام و نسب تو مل جائے لیکن اللہ کو بہرحال یہ پسند نہیں۔
نمبر تین: جن شادی شدہ جوڑوں کی اولاد نہ ہو، انہیں رضائے الٰہی پر شاکر رہنا چاہئے نہ کہ اللہ کی حکمت کو چلینج کرنا چاہئے۔
بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ "ہماری معلومات کے مطابق اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو گود لینے کو حرام قرار دیتا ہے محض اس لیے تاکہ نبی اپنی پسندیدہ خاتون سے شادی کر سکے!” بہرحال ہمیں یہاں اس بات سے بحث نہیں۔
حضرت خدیجہ کی رحلت کے بعد آپﷺ نے حضرت سودہ بن زمعہ سے نکاح کیا، کہا جاتا ہے کہ اس شادی کا مقصد اُن کی دونوں صاحبزادیوں ام کلثوم اور فاطمہ کی دیکھ بھال تھا، حضرت سودہ سے نکاح کے تین سال بعد حضرت محمدﷺ نے حضرت عائشہ کہ اپنے عقد میں لیا جبکہ اسوقت حضرت عائشہ کی عمر مبارک نو سال تھی۔ پھر حضرت زینب بنت جحش اور یوں امہات المومنین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، اتنی شادیوں اور کئی سال گزرنے کے بعد حضرت محمدﷺ نے محسوس کیا کہ حضرت سودہ کی عمر مبارک ڈھل رہی ہے (حالانکہ خود انکی عمر مبارک بھی اسوقت خاصی زیادہ ہوچکی تھی) چنانچہ اُنہوں نے حضرت سودہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا مگر اُنہوں نے منت سماجت کی اور حضرت عائشہ کے حق میں اپنی باری سے دستبردار ہونے پر تیار ہوگئیں، یوں آپﷺ مخمصے میں پڑ گئے، ایک طرف اُن کے پاس ایک عمر رسیدہ کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت نہیں تھا دوسری طرف لوگوں کی باتوں کی فکر.
اب کیا کیا جائے؟
اس کا حل سورہ نساء کی آیت نمبر 128 میں نازل ہوا:
(وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یُّصۡلِحَا بَیۡنَہُمَا صُلۡحًا ؕ وَ الصُّلۡحُ خَیۡرٌ ؕ وَ اُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا – اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کر لیں۔ اور صلح خوب چیز ہے اور طبعیتیں تو خود غرضی کی طرف مائل ہوتی ہی ہیں۔ اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔)
یوں رسول اللہ نے حضرت سودہ کو طلاق نہیں دی کیونکہ وہ اپنی باری سے حضرت عائشہ کے حق میں دستبردار ہوگئی تھیں اور چونکہ جبریل علیہ السلام نے بھی تصدیق کر دی تھی کہ اللہ آپ کے اس فیصلے سے راضی ہے.
اس کے بعد حضرت محمدﷺ کی سیاسی اور دینی طاقت بڑھتی چلی گئی جس کے ساتھ ساتھ ازواجِ مطہرات اور خادماؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور ہر معاملے کے لیے اترنے والی آیات ناکافی ہوگئیں کہ عورتیں اور بھی بہت تھیں جنکو سہارا دینا ضروری تھا اور خود اُنکی عمرِ مبارک ساٹھ سال کے لگ بھگ ہو چلی تھی جبکہ کچھ ناسمجھ لوگوں کا منہ بند کرنا بھی لازم تھا
اس کا حل بھی سورہ احزاب کی آیت نمبر 50 میں نازل ہوگیا:
(یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡۤ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا – اے پیغمبر ﷺ ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جنکو تم نے انکے مہر دے دیئے ہیں حلال کر دی ہیں اور تمہاری باندیاں جو اللہ نے تمکو کفار سے بطور مال غنیمت دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں سب حلال ہیں اور کوئی مومن عورت اگر اپنے آپکو پیغمبر ﷺ حوالے کر دے یعنی مہر کے بغیر نکاح میں آنا چاہے بشرطیکہ پیغمبر ﷺ بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں وہ بھی حلال ہے لیکن یہ اجازت اے نبی ﷺ خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم نے انکی بیویوں اور باندیوں کے بارے میں جو مہر واجب الادا مقرر کر دیا ہے ہم کو معلوم ہے یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔)
اس پر اللہ کی رضا کی مزید تاکید اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جبریل اگلی آیت بھی لے آئے جو سورہ احزاب کی آیت نمبر 51 ہے:
(تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ وَ تُــٔۡوِیۡۤ اِلَیۡکَ مَنۡ تَشَآءُ ؕ وَ مَنِ ابۡتَغَیۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکَ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ تَقَرَّ اَعۡیُنُہُنَّ وَ لَا یَحۡزَنَّ وَ یَرۡضَیۡنَ بِمَاۤ اٰتَیۡتَہُنَّ کُلُّہُنَّ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَلِیۡمًا – اے پیغمبر ﷺ تمکو یہ بھی اختیار ہے کہ جس بیوی کو چاہو پیچھے رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو۔ اور جسکو تم نے پیچھے کر دیا ہو اگر اسکو پھر اپنے پاس طلب کر لو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ اجازت اس لئے ہے کہ انکی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ تم انکو دو اسے لے کر سب خوش رہیں۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے۔ اور اللہ جاننے والا ہے بردبار ہے۔)
یعنی آپﷺ امہات المؤمنین میں سے اگر کسی کو وقت کی ضرورت یا طبیعت کے تقاضے کے تحت "پیچھے رکھنا” چاہیں تو انہیں اجازت ہے اور اگر جنگوں میں باندیاں بنائی گئی (مِمَّنۡ عَزَلۡتَ) عورتوں میں سے کسی سے مباشرت فرمانا چاہیں تو بھی اسکی اجازت ہے۔..
دراصل مفسرین میں (تُرۡجِیۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡہُنَّ) کی تفسیر میں اختلاف ہے، کوئی کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ہمبستری کے لیے کسی بھی خاتون کا انتخاب کر سکتے ہیں اور جسے چاہے پینڈنگ میں رکھ سکتے ہیں اور اس دوران کوئی اور ان سے عقد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ رسولِ کریم ﷺ کی منتظر ہیں، بعض نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے رسول اللہ اپنی ازواجِ مطہرات، خادماؤں اور ان عورتوں سے جنہوں نے خود کو اُن کے حوالے کردیا ہے جب چاہیں ہمبستری فرما سکتے ہیں اور اس کے لیے عام مومنین کی طرح وہ کسی ٹائم فریم کے پابند نہیں۔.
اور ظاہر ہے امت کا اختلاف رحمت ہی ہے..!
اور پھر جب ازواجِ مطہرات کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ خود مؤرخین میں ان کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے تو اللہ نے اپنے رسول کی عزت اور گھرانے کو دوسروں کی نظروں سے بچانے کے لئے سورہ احزاب کی آیت نمبر 53 کی صورت میں بذریعہ جبرائیل علیہ السلام ارشاد فرمایا:
(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰىہُ ۙ وَ لٰکِنۡ اِذَا دُعِیۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانۡتَشِرُوۡا وَ لَا مُسۡتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ یُؤۡذِی النَّبِیَّ فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰلِکُمۡ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمًا – مومنو! پیغمبر ﷺ کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تمکو اجازت دی جائے یعنی کھانے کیلئے بلایا جائے جبکہ اسکے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر ﷺ کو ایذا دیتی تھی اور وہ تم سے حیا کرتے تھے اور کہتے نہیں تھے لیکن اللہ سچی بات کے کہنے سے نہیں شرماتا۔ اور جب پیغمبر ﷺ کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تمکو یہ شایاں نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی انکے بعد نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑا گناہ کا کام ہے۔)
یوں اللہ نے اپنے رسول کو اس خدائی فرمان کے ذریعے یہ اطمینان دلایا کہ اب کوئی اُن کی ازواجِ مطہرات کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا کیونکہ کسی کو اُنکی رحلت کے بعد بھی اُنکی ازواج سے عقد کرنے کی اجازت نہیں، اب یہ ایک الگ بات ہے کہ اس حکمِ ربانی کی وجہ سے درجنوں امہات المؤمنین جن میں بیشتر کی عمر بیس سے بھی کم ہے اور جنہوں نے کثیر تعداد میں ہونے کی وجہ سے جسمانی آسودگی (جو کہ ہر انسان کا فطری تقاضا ہے) کبھی حاصل ہی نہیں کی ہوگی وہ کیا کریں گی؟ اپنے پیارے رسول کی خوشی کی خاطر اللہ عزوجل نے انکی رحلت کے بعد انکی ازواج کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی پابندی لگا کر غیرتِ پیغمبری کا خیال رکھا.
کثیر تعداد میں امہات المؤمنین کے با وجود آپ ﷺ کو اپنی کنیز ماریہ سے خصوصی لگاؤ تھا جو مقوقس نے آپ کو بطور تحفتاً بھیجی تھی، اور روایات کے مطابق وہ بہت حسین اور گوری رنگت والی تھیں۔ ایک رات جب آپ ﷺ حضرت حفصہ کے گھر میں تھے (حضرت عمر بن الخطاب کی بیٹی جو دُنیاوی اعتبار سے کچھ زیادہ خوبصورت نہیں تھیں) حضرت حفصہ کسی کام سے اپنے والدین کے گھر گئی (ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے خود انہیں بھیجا تھا) تو آپ ﷺ نے اس دوران حضرت ماریہ کے ساتھ ہمبستری فرمائی۔ اس دوران حفصہ واپس آگئی اور انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور انسان ہونے کی وجہ سے آپ غصہ میں آگئیں، حضرت محمد ﷺ نے اُنکو منالیا اور وعدہ فرمایا کہ وہ پھر کبھی ماریہ کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے، ماریہ کو ہاتھ نہ لگانے کے آپ ﷺ کے اس وعدے کے اسباب کے متعلق اور بھی روایتیں ہیں تاہم فی الوقت اتنا کافی ہے کہ انہوں نے حضرت حفصہ سے وعدہ کیا کہ وہ ماریہ کو پھر کبھی ہاتھ نہیں لگائیں گے۔
لیکن جلد ہی اس کا حل بھی سورہ تحریم کی آیت نمبر 1 کی شکل میں آسمان سے نازل ہوا:
(یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ – اے پیغمبر ﷺ جو چیز اللہ نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ کیا اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔)
اور یوں جبریل علیہ السلام نے ہمیشہ کی طرح بر وقت آکر حضرت ماریہ سے دور رہنے کا آپ ﷺ کا وعدہ زائل فرما دیا اور اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کی مرضی کے پیشِ نظر انکو پھر حضرت ماریہ کے نزدیک جانے کی اجازت مرحمت فرمادی۔