Close

اسلام اور بچوں کا قتل

 

 

بچوں سے محبت اور ان کا خیال رکھنا انسانی وحیوانی جبلت میں شامل ہے اور یہ جبلت نوع حیواں وانساں کی بقاء کیلئیے ضروری بھی ہے، ماں چاہے جانور کی ہو یا انسان کی اپنے بچوں کیلئیے اپنی جان کی قربانی تک دینے سے گریز نہیں کرتی، قدیم زمانوں کا انسان جب اپنے بتوں کی عبادت گاہوں میں خون کی قربانی دیتا تھا اور لڑکیوں کو سمندر برد کردیتا تھا تو تب بھی وہ ہمیشہ بالغ نوجوان یا لڑکی کی قربانی دیا کرتا تھا، تاریخ سے ایسا کوئی واقعہ ثابت نہیں ہوتا جس میں انسان نے بچوں کی قربانی دی ہو یا انہیں ذبح کیا ہو، زمانہ قدیم کے عرب کہا کرتے تھے کہ ” اطفالنا اکبادنا تمشی علی الارض ” یعنی ہمارے بچے ہمارے کلیجے ہیں جو زمین پر چلتے ہیں، یونانیوں نے تو کیوپڈ Cupid نامی بچے کو محبت کا دیوتا تک بنا ڈالا جو مردوں اور عورتوں کے دلوں میں اپنے تیر مار کر ان میں محبت جگاتا تھا غرض کہ تمام انسانی تاریخ میں بچے اپنے خاندان کی خصوصی عنایت وتوجہ کا مرکز رہے اور جب جدید معاشرے تشکیل ہوئے تو بچوں کے قتل، جنسی زیادتی، مار اور بے گار لینے کے خلاف قوانین وضع کیے گئے اور ان کیلئیے تعلیم اور صحت کے قوانین رائج کیے گئے.

آسمانی مذاہب کی آمد کے ساتھ جس کا آغاز ابراہیم نامی نبی سے ہوتا ہے بچوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، ابراہیم کے خدا نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے اسحق کو ذبح کردے اور ابراہیم نے بلا چوں وچراں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی تیاری پکڑ لی اور اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا اور ہاتھ پاؤں باندھ دیے یعنی ”و تلہ للجبین ” جیسا کہ قرآن کہتا ہے تاہم ذبح کرنے کے آخری لمحے میں ابراہیم کا خدا اچانک بچے کو آسمان سے اتاری ہوئی ایک بھیڑ سے بدل دیتا ہے، یقیناً بچہ دہشت زدہ ہوگیا ہوگا جب اسے پتہ چلا ہوگا کہ اس کا باپ اسے ذبح کرنے والا ہے، بچوں کو ذبح کرنے کا یہ پہلا تاریخی ریکارڈ ہے جو مذاہب کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، پھر ”یہوہ” نامی خدا کی طرف سے موسی آیا اور بنی اسرائیل کو سکھایا کہ بچوں کو کیسے ذبح کیا جاتا ہے چنانچہ صموئیل کے پہلے سفر میں کہا ” انہیں معاف نہ کرنا بلکہ قتل کردینا ہر مرد وزن کو، بچوں کو اور شیر خواروں کو، گائے کو اور بکریوں کو اونٹوں کو اور گدھوں کو ” (اصحاح 15 آیت 3) صرف اسی پر ہی بس نہیں بلکہ بچوں پر اپنی بے رحمی ثابت کرنے کیلئیے یہ خدا مزید کہتا ہے ” انہیں سجدہ مت کرنا اور نا ہی ان کی عبادت کرنا کیونکہ میں ہی تمہارا رب خدا ہوں جو بڑوں کے گناہ ان کے بچوں کی تیسری اور چوتھی نسل میں دیکھتا ہوں جو مجھ سے بغض رکھتے ہیں ” (اصحاح 20 آیت 5) اس خدا کی غیرت کے کیا ہی کہنے جو اپنے سے بغض رکھنے والوں کے بچوں کی چوتھی نسل تک سے بدلہ لینے پر آمادہ ہے ایسی بے رحمی تو ظالم ترین مجرموں تک میں نہیں ہوتی.

پھر اسلام آیا اور بچوں کو فتنہ قرار دے دیا جن سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے تاکہ وہ راہِ راست سے نہ بھٹک جائیں اور عذابِ الہی ان کا مقدر بن جائے (وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ) (الانفال 28) اسی قرآن میں جب موسی خضر کے ساتھ مٹر گشت کر رہے تھے تو ایک گاؤں سے ان کا گزر ہوا جس میں کچھ بچے راستے میں کھیل رہے تھے، خضر نے ان میں سے ایک بچے کو پکڑ کر بڑی بے رحمی سے ذبح کرڈالا اور جب موسی نے اس سے اس بے سبب قتل کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ (وَ اَمَّا الۡغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرۡہِقَہُمَا طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا – فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا) (الکہف 80-81).

اپنے ہمجولیوں کے ساتھ کھیلتے ایک معصوم بچے کو خضر نے کیوں قتل کردیا؟ اس آیت کی تفسیر میں قرطبی کہتا ہے (کہا جاتا ہے کہ یہ خضر علیہ السلام کا کلام ہے اور کلام کا سیاق اس بات کا گواہ ہے یعنی ہمیں خدشہ تھا کہ وہ انہیں اپنے ظلم وکفر سے تھکا نہ دے اور اس ضمن میں اللہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے نفوس کو قتل کرنے کی اجازت دے رکھی تھی، اور کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جس کی خضر نے نمائندگی کی ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی محبت میں بہک کر اس کے دین میں داخل نہ ہوجائیں، ابن جریج سے مروی ہے کہ بچے کی ماں ایک مسلمان بچے سے حاملہ تھی اور مقتول بچہ کافر تھا) چاہے یہ کلام خضر کا ہو یا اللہ کا حقیقت یہ ہے کہ خضر نے ایک بے قصور بچے کو جس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا قتل کردیا محض اس خدشے کی بنیاد پر کہ وہ بڑا ہوکر اپنے والدین کیلئیے فتنہ نہ بن جائے اور وہ اپنا دین نہ بدل لیں جو کہ قرآن ہمیں نہیں بتاتا، یعنی مستقبل کے خدشات کی بنیاد پر بچوں کو قتل کرنا اللہ کے ہاں جائز ہے جس نے خضر کو نفوس کو اپنے ذاتی اجتہاد کی بنیاد پر قتل کرنے کی اجازت دے رکھی تھی جبکہ انسانی انصاف یہ کہتا ہے کہ ملزم تب تک بے گناہ ہے جب تک کہ اس کا جرم ثابت نہ ہوجائے ایسے میں خدا کے اس انصاف پر کیا کہا جائے؟ ایک منصف خدا کسی نبی کو ایک معصوم بچے کو مستقبل کے شبہ پر قتل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ مفسرین جنہوں نے اس بے گناہ بچے کے قتل کو مستحسن قرار دیا اسے کافر بنا ڈالا اور اس کے بھائی کو جو ابھی اس کی ماں کے پیٹ میں تھا مسلمان بنا دیا جس کا مطلب ہے کہ اللہ نے اس کے والدین کو اس کے بدلے میں ایک مسلمان بچہ عطا کردیا جو مقتول بچے سے بہتر تھا کیونکہ وہ کافر تھا.. یہ کون سی منطق ہے جو بچوں کو مسلمان اور کافر میں تقسیم کرتی ہے جبکہ دنیا کے تمام قوانین نا بالغ بچوں کے کسی بھی فیصلے کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالتے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائیں؟ اسلامی فقہ میں بھی اگر کوئی مسلمان بچہ مرتد ہوجائے تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی لیکن یہی وہ منطق ہے جسے بنیاد بناکر انہوں نے بنی قریظہ کے بچوں کو تلاش کر کر کے قتل کیا، تعجب خیز بات یہ ہے کہ اسلام کے فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام لوگوں کی حقیقی فطرت اسلام ہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے (ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے جب تک کہ اس کی زبان اس کی نمائندگی نہ کرے اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں) (الجامع الصغیر للسیوطی ج 5 حدیث نمبر 6356) تو اگر بچے کی فطرت اسلام ہے جب تک کہ اس کے والدین اس کا مذہب نہ بدل دیں تو یہ بچہ جسے خضر نے بڑی بے رحمی سے قتل کردیا کافر کیسے ہوگیا جبکہ اس کے والدین مسلمان تھے؟

اسلام میں بچوں کا قتل فقہائے اسلام کے ہاں مشہور وہ معروف معاملہ ہے جس کیلئیے وہ رب الغلام والی حدیث پر تکیہ کرتے ہیں جو یہ ہے:

(ریاض الصالحین، صفحہ 71 حدیث نمبر 30 باب الصبر)

فقہائے اسلام نے اس بوگس حدیث پر استدلال کرتے ہوئے بے گناہوں میں کسی مسلمان کا اپنے آپ کو قتل کرنا جائز قرار دیا اگر اس میں مسلمانوں کیلئیے کوئی بھلائی ہو، اس بچے کا قصہ بیان کرنے کے بعد ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ: (اس میں بچے نے دین کے ظہور کی مصلحت کے پیش نظر اپنے آپ کو قتل کروادیا اس لیے ائمہ اربعہ نے یہ پسند کیا ہے کہ مسلمان کفار کی صفوں میں گھل مل جائے چاہے اس میں اس کی جان کو خطرہ ہی کیوں نہ ہو اگر اس میں مسلمانوں کی مصلحت ہو) (مجموع الفتاوی 28/540).

پاکستانی بچے رفیق اللہ کا قصہ مشہور ہے جسے قتل وتباہی کے مولویوں نے امریکی فوجیوں کے درمیان اپنے آپ کو اڑانے کیلئیے افغانستان بھیجا، یہ بچہ پاکستان کے دینی مدارس میں پڑھتا تھا جب اسے ان ظالموں نے بموں سے باندھ کر اس مقدس دینی مہم کیلئیے افغانستان بھیج دیا مگر اس کی خوش قسمتی کہ اسے افغانی پولیس نے پکڑ لیا، صدر کرزئی کے معاف کرنے پر بچے نے اپنے بچ جانے پر خوشی کا اظہار کیا.

ایران میں دو ہزار سے زائد لوگوں نے عراق میں خودش کش حملے کیلئیے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا جن میں 25 فی صد رضاکاروں کی عمر 18 سال سے کم تھی جبکہ سب سے چھوٹے خود کش حملہ آور کی عمر محض 7 سال تھی!! (ایلاف 5 جون 2004) عراق میں بچوں کا قتل تو ایک عام سی بات ہے جس کے لوگ عادی ہوچکے ہیں، بصرہ میں 68 بچے اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیے گئے جب وہ سکول جارہے تھے جبکہ بغداد میں 18 بچے ایک کار بم دھماکے میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، عراق کے بچوں کے قتل عام کی یہ صرف چند مثالیں ہیں.

سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں بچوں کا اس طرح بہیمانہ قتل کیوں رائج ہے؟ وجہ یقیناً وہ مقدس مُتون ہیں جو اسلام کے یہ شیخ پاکستان اور وہابیوں کے دیگر گڑھوں میں اپنے دینی مدارس میں بچوں کو پڑھاتے ہیں اور جب یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو اگر اپنے آپ کو کسی خود کش حملے کی نذر نا بھی کریں تو بھی ان میں اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، محمد عطا اور اسلامی غزوات کے دیگر ہیرو برآمد ہوتے ہیں، اس چیز کی ذمہ دار مقدس تحریریں ہمیں قرآن میں بھی ملتی ہیں جب نوح اپنے خدا سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کافروں کو ہلاک کردے کیونکہ یہ صرف برے اور کافر بچے پیدا کرتے ہیں، نبی اسلام کی احادیث میں بھی وہ یہ یقین دلاتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ مشرکین کے بچے اپنے والدین کے ساتھ جہنم میں جائیں گے، مسند ابی داود میں ہے: (ابو عقیل نے ابی المتوکل الناجی اور اس نے بہیہ سے روایت کیا کہ بہیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  مسلمانوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہوں گے؟ کہا: جنت میں، پھر اس نے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا کہ روز قیامت وہ کہاں ہوں گے؟ کہا آگ میں تو اس نے کہا کہ وہ اعمال تک نہیں پہنچے اور ان پر قلم نہیں چلائے گئے کہا تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والے تھے قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم چاہو تو آگ میں تمہیں ان کی چیخیں سنوادوں!! تہذیب سنن ابی داود لابن القیم – باب فی ذراری المشرکین) ابی عقیل کی وجہ سے کچھ اہل حدیث اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں تاہم پھر بھی زیادہ تر شیخ و مولوی اسے اپنے شاگردوں کو سناتے اور پڑھاتے ہیں، ابن ہشام روایت کرتے ہیں کہ بدر کے بعد جب نبی نے عقبہ بن معیط کو قتل کرنے کا حکم دیا تو عقبہ نے اس سے پوچھا: اے محمد بچوں کیلئیے کون ہے؟ تو نبی اسلام نے کہا: آگ – سیرہ ابن ہشام تیسرا حصہ ص 194). جو مذہب والدین کے گناہوں کی سزا ان کے بچوں کو دے اور انہیں جہنم برد کر کے سخت ترین عذاب کی نوید سنائے اور انبیاء کو بچوں کو مستقبل کے خطرات کے پیش نظر قتل کرنے کی اجازت دے ایسا مذہب نا تو بچوں کی معصومیت کی پرواہ کرتا ہے اور نا ہی اسے کوئی اہمیت دیتا ہے، کتنا گھٹیا ہے وہ مذہب اور کتنا سنگ دل ہے وہ خدا جو بچوں کی گردن پر چھری پھیر کر اپنی ظالمانہ خواہشات کی تسکین کرتا ہے.

3 Comments

  1. جرات تحقیق ایک نہایت مفید دماغ حقیقت اور انسانی عظمت کے حوالہ سے بہترین بلاگ ہے کچھ عرصہ سے میں چپ چاپ اس بلاگ کی تحریریں پڑھ رہا تھا میں چونکہ ایک سابق بنیاد پرست علامہ تھا اس لئے مجھے حقیقت تک پہنچنے میں نہ صرف کافی وقت لگا بلکہ اس میں اپنی جوانی کے خوبصورت ایام بھی گنوا دیئے۔۔۔۔
    میری ماں نے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی مجھے اپنے سینے سے لگایا ہو اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک زبردست مذہبی گھرانے کی پروردہ اور سارا سارا دن جانماز پر بیٹھنے والی پکی تہجد گزار عورت ہے جبکہ میری نشوونما بچپن ہی سے میری بے نمازی اور آزاد خیال پھپھو نے کی پر افسوس کہ وہ صرف چودہ سال کی عمر میں مجھے اکیلا چھوڑ گئیں امی کا غیر ملتفانہ رویہ دیکھ کر مجھے ہمیشہ ہی سے ایسا لگا کہ کہیں پر کوئی بڑی غلطی ضرور موجود ہے پر سمجھ نہ آسکی ایک طویل عرصہ کی مسلسل علمی تحقیق نے آج اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ جب تک مذہب کا جنازہ نہ نکال دیا جائے تب تک انسانیت کی بہتری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

جواب دیں

3 Comments
scroll to top