Close

تصویر علیاء المہدی کی

قصے کو طول دیا ہی نہیں جاسکتا، یہ ویسے ہی بہت مختصر ہے، اور یہ مختصر قصہ کچھ یوں ہے کہ علیاء المہدی نامی ایک مصری لڑکی نے اپنے کیمرے سے اپنی ایک عریاں تصویر اتاری اور انٹرنیٹ پر اپنے ذاتی بلاگ پر شائع کردی! اگر ایسی حرکت کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوئی ہوتی تو اسے شخصی آزادی قرار دیا جاتا اور یہ بالکل ایک عام سی بات ہوتی اور کوئی رولا رپھا نہ ہوتا.


Photobucket

Photobucket
مگر چونکہ علیاء ایک پسماندہ مسلمان معاشرے میں رہتی ہے لہذا تصویر کی خبر پھیلتے ہی لاکھوں مسلمان اس کی تصویر دیکھنے اس کے بلاگ پر پہنچ گئے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ تصویر بالکل عریاں ہے اور ان کا دین عریاں تصاویر دیکھنے سے منع کرتا ہے، مگر لگتا ہے عریاں تصاویر دیکھنے کی خواہش مذہبی تعلیمات پر غالب آگئی اور کچھ ہی دنوں میں بلاگ کی ٹریفک ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی:


Photobucket
اس وقت بھی کاؤنٹر سیکنڈ کے حساب سے بڑھ رہا ہے، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ سپریسڈ اور منافق ہیں، پہلے تصویر دیکھنے بلاگ پر آئے پھر صاحبہء تصویر کو گندی گندی گالیوں سے نوازا!

علیاء نے جو کیا وہ ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے، تاہم مسلمانوں کو جس چیز نے پاگل کیا اور ان کی راتوں کی نیند اڑا دی وہ علیاء کی عریاں تصویر نہیں تھی کیونکہ اسلامی دنیا میں بلا شبہ لاکھوں عریاں رنڈیاں موجود ہیں جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، بلکہ وجہ یہ تھی کہ علیاء ایک تعلیم یافتہ باہمت لڑکی ہے جو ان کی فرسودہ معاشرتی روایات کو رد کرتی ہے، وہ اپنے کیس کے لیے عریاں ہوئی ہے جس پر وہ یقین رکھتی ہے، شہرت اور پیسے کے لیے نہیں جیسا کہ مسلمان لڑکیاں چیٹ رومز میں کرتی نظر آتی ہیں.

بہرحال علیاء کی آواز دنیا تک پہنچ گئی ہے:

ڈیلی میل

سی این این

نیویارک ٹائمز

جواب دیں

0 Comments
scroll to top