تہذیب قوموں کی ہزاروں سالوں کی تعمیری محنت کا نتیجہ ہوتی ہے، چینی اور فرعونی تہذیبیں اس کی روشن مثالیں ہیں.. ایک فارسی تہذیب بھی ہے جس پر مسلمانوں نے قبضہ جما کر اسے خود سے منسوب کر لیا اور اسے اسلامی تہذیب کا نام دیا.
تیسری صدی ہجری میں ری شہر کی لائبریریوں میں موجود کتابوں کی صرف فہرست پر مشتمل دس ضخیم جلدیں موجود تھیں، اس کے علاوہ مرو میں دس لائبریریاں موجود تھیں، انہی کتابوں اور لائبریریوں کا ہی نتیجہ تھا کہ فُرس میں بیرونی، ابن سینا، رازی او عمر الخیام جیسے مفکر وعالم ابھرے.. حتی کہ ابو نواس جو ہارون الرشید کا پسندیدہ شاعر تھا فارسی النسل تھا.
اسلامی تاریخ یا ثقافت کے تمام نابغہ روزگار وعلماء عرب نہیں بلکہ فارسی نسل کے تھے جو یا تو اسلام میں زبردستی داخل کیے گئے یا "اسلم تسلم” کے اصول کے تحت مجبور تھے یا جزیہ سے بچنا چاہتے تھے.
ابو بکر الرازی خراسان کے ری شہر کے فارسی عالم اور طبیب تھے، ابو القاسم محمد الاصطرخی جو جغرافیے کے عالم تھے کا تعلق فارس کے شہر اصطخر سے تھا، المسالک والممالک کے ابن خردازیہ فارسی النسل تھے، فلکیات دان عبد الرحمن الصوفی جس نے ستاروں کی نشان دہی کے لیے آسمان کا نقشہ بنایا تھا فارسی النسل تھا، علی بن العباس المجوسی ایک ماہر طبیب تھا جس نے Pulmonary circulation دریافت کی تھی کا تعلق فارس کے شہر اہواز سے تھا اور بغداد کے ہسپتال میں خدمات انجام دیتا تھا جس کا نام ” البیمارستان العضوی ” تھا، ہسپتال کے نام سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسلامی ثقافت پر فارسیوں کا کس قدر اثر تھا، ابن سلیمان السجستانی، مشہور فلکیات دان جس نے زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کی بنیاد پر اسطرلاب بنایا تھا سجستان کا فارسی تھا، ابن الہثیم، مشہور ریاضی وطبیعات دان فارسی النسل تھا، البیرونی، الخوارزمی، ابن مسکویہ، ابن سینا، ابن جریر الطبری ودیگر سب فارسی النسل تھے.
اس کے مقابلے میں عرب علم کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ معلم اور تعلیم کو ایک حقیر پیشہ سمجھتے تھے جسے صرف کم تر لوگ ہی اپنانے تھے.. کیا صفر اور اعداد عربوں کی ایجاد تھی؟ یعقوبی کہتے ہیں: "ومن کتاب بطلیموس عملوا من ذلک المختصرات والزیجات وما أشبہہا من الحساب ووضع التسعہ احرف الہندیہ التی یخرج منہا جمیع الحساب والتی لا تدرک معرفتہا وہی 123456789 – بطلیموس کی کتاب سے مختصرات اور زائچے اور حساب میں اس جیسی چیزیں بنائی گئیں اور نو ہندی حرف لگائے گئے جن سے حساب نکلتا ہے اور جن کی معرفت کا ادراک نہیں کیا جاسکتا جو یہ ہیں 123456789” صفر کے بارے میں کہتے ہیں: "واذا خلا بیت منہا یجعل صفراً ویکون الصفر دارۃ صغیرۃ – اور اگر کوئی بیت ان سے خالی ہو تو صفر ہوتا ہے اور صفر ایک گول دائرہ ہوتا ہے” یعقوبی تک اعداد کو "المختصرات والزیجات” قرار دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ان کا نام معلوم نہیں تھا اور انہیں "ہندی حروف” قرار دیتے ہیں بلکہ مزید فرماتے ہیں کہ "ان کی معرفت کا دراک نہیں کیا جاسکتا” یعنی یہ ان کے لیے مشکل ہیں تو پتہ چلا کہ اعداد اسلامی نہیں بلکہ ہندوستانی ایجاد ہے اور عربوں کو ان کے بارے میں کافی دیر کے بعد پتہ چلا، یاد رہے کہ یعقوبی مسلمانوں کے اولین مؤرخین میں سے ہیں جن کی "تاریخ الیعقوبی” مشہور ہے.
مسلمان معاشریات دان ابن خلدون اپنی کتاب ” مقدمہ ابن خلدون ” میں عربوں کو یوں بیان کرتے ہیں: "اذا کانت الامۃ وحشیۃ کان ملکہا واسع وذلک لانہم اقدر علی التغلب والاستبداد واستعباد الطوائف ولقدرتہم علی محاربۃ الامم وسواہم لانہم ینزلون من الآہلین منزلۃ المفترسین من الحیوانات العجم وھؤلاء مثل العرب – اگر امت وحشی ہو تو ان کا ملک وسیع ہوتا ہے کیونکہ وہ غلبہ پانے، ظلم کرنے اور گروہوں کو غلام بنانے پر زیادہ قدرت رکھتے ہیں، ان میں قوموں سے جنگ کرنے کی مقدرت ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں پر درندہ جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایسے لوگ عربوں کے جیسے ہیں” اپنی اسی کتاب کے دوسرے حصے کے چھبیسویں باب میں جس کا عنوان ہے کہ جب عرب کسی وطن پر غالب آجائیں تو اس پر بربادی جلد آجاتی ہے کہتے ہیں: "والسبب فی ذلک انہم امۃ وحشیۃ باستحکام عوائد التوحش واسبابہ فیہم فصار لہم خلقا وجبلۃ وکان عندہم مستحباً – اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک وحشی امت ہے، ان میں وحشی پن کے تمام اسباب مستحکم ہوگئے ہیں اور ان کی خلقت وجبلت بن گئے ہیں اور یہ ان کے ہاں مستحب ہے”
ابن خلدون نے عربوں کی خوبیاں بیان کرنے کا حق ادا کردیا، عربوں کی تعریف میں ان کی کتاب کا یہ باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، یاد رہے کہ اسلام کے آغاز میں عربوں نے ہی اسلام کو پھیلانے کی ذمہ داری اٹھائی تھی، اب جس قوم میں ابن خلدون کی بیان کردہ خوبیاں ہوں تو آپ اس دین کی شکل کا تصور کر سکتے ہیں جسے وہ ملکوں ملکوں پھیلائیں گے؟!
جہاں تک عربوں کا فلسفے میں حصہ ڈالنے کا معاملہ ہے تو ناقدین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عربوں نے فلسفے کو محض نقل کیا کیونکہ فلسفے اور فلسفیانہ مدارس ان پر اثر انداز ہوئے نا کہ وہ ان پر اثر انداز ہوئے، معتزلیوں کی تحریک بھی یونانی فلسفے کے اثر کا نتیجہ تھی رہی بات ترجمہ کی تو ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں ترجمہ کی تحریک کی قیادت سریانی عیسائیوں نے کی تھی عربوں نے نہیں حتی کہ جب خلیفہ منصور شدید بیمار ہوئے تو عرب طبیب اس کے مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام رہے اور اسے ایک فارسی طبیب سے علاج کا مشورہ دیا جو ہر مرض کا علاج کر سکتا تھا جس پر خلیفہ منصور سخت برہم ہوا اور انہیں ڈانٹے ہوئے کہا: "فان مات الرجل ماذا نحن فاعلون فنموت نحن ایضاً؟ – اگر وہ آدمی مرجائے (یعنی وہ فارسی طبیب) تو ہم کیا کریں گے کیا ہم بھی مرجائیں گے؟” پھر اپنے وزیر کو اس فارسی طبیب کو بلوانے کے لیے کہا اور اپنا علاج کروانے کے بعد اسے اپنے طبیبوں کو سکھانے کے لیے کہا اور سریانی مترجمین کو علوم کے ترجمے کے کام پر مامور کیا اور انہیں خوب نوازا کہ ہر ترجمہ شدہ کتاب کے وزن کے برابر سونا تول کر مترجم کو دیا جاتا تھا.
فارسی تہذیب یا جسے اب اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے حالانکہ اسے اسلامی ثقافت کہا جانا چاہیے فُرس سے نقل کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا کیونکہ عربوں کو تو بس جنگوں، اموالِ غنیمت، غلام، باندیاں، جزیہ، خراج وغیرہ سے دلچسبی تھی اور اس سے فرصت ہی نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان میں کوئی بھی قابلِ ذکر عالم پیدا نہ ہوسکا کہ تمام علماء یا تو فارسی النسل تھے یا غیر عرب یعنی عجم تھے.